حقیقت میں ہو سجدہ جبہ سائی کا بہانہ ہو
الٰہی میرا سر ہو اور ان کا آستانہ ہو
تمنا ہے کہ میری روح جب تن سے روانا ہو
دم آنکھوں میں ہو اور پیش نظر وہ آستانہ ہو
زباں جب تک ہے اور جب تک زباں میں تاب گویائی
تری باتیں ہوں تیرا ذکر ہو تیرا فسانہ ہو
مری آنکھیں نہیں آئینۂ حسن روئے صابر کا
دل صد چاک ان کی عنبریں زلفوں کا شانہ ہو
بلا اس کی ڈرے پھر گرمیٔ خورشید محشر سے
ترے لطف و کرم کا جس کے سر پر شامیانہ ہو
انہیں تو مشق تیر نازکی دھن ہے وہ کیا جانیں
کسی کی جان جائے یا کسی دل کا نشانہ ہو
نہ پوچھ اس عندلیب سوختہ ساماں کی حالت کو
قفس کے سامنے برباد جس کا آشیانہ ہو
سر بیدمؔ ازل کے دن سے ہے وقف جبیں سائی
کسی کا نقش پا ہو اور کوئی آستانہ ہو
عدم سے لائی ہے ہستی میں آرزوئے رسولؐ
کہاں کہاں لئے پھرتی ہے جستجوئے رسول
خوشا وہ دل کہ ہو جس دل میں آرزوئے رسولؐ
خوشا وہ آنکھ جو ہو محو حسن روئے رسول
تلاش نقش کف پائے مصطفیٰ کی قسم
چنے ہیں آنکھوں سے ذرات خاک کوئے رسول
پھر ان کے نشۂ عرفاں کا پوچھنا کیا ہے
جو پی چکے ہیں ازل میں مئے سبوئے رسول
بلائیں لوں تری اے جذب شوق صل علیٰ
کہ آج دامن دل کھنچ رہا ہے سوئے رسولؐ
شگفتہ گلشن زہرا کا ہر گل تر ہے
کسی میں رنگ علی اور کسی میں بوئے رسولؐ
عجب تماشا ہو میدان حشر میں بیدمؔ
کہ سب ہوں پیش خدا اور میں رو بروئے رسول
رُخِ محبوبِ سُبحانی کے صدقے
میں اس تصویر نورانی کے صدقے
شہۂ اقلیمِ عرفانی کے صدقے
جناب غوثِ صمدانی کے صدقے
معین الدین اجمیری کے قرباں
محی الدین جیلانی کے صدقے
بنا ہے سینہ گلزارِ خلیلی
میں اپنے دردِ پہانی کے صدقے
تصدق مہہ جبینوں پر زمانہ
میں اپنے پیر لاثانی کے صدقے
فدا بیدم علی کے لاڈلوں پر
رسول اللہ کے جانی کے صدقے
بے خود کیےدیتے ہیں اندازِ حجابانہ
آ دل میں تجھے رکھ لوں اۓ جلوۂ جانانہ!
بس اتنا کرم کرنا اۓ چشمِ کریمانہ
جب جان لبوں پر ہو ، تم سامنے آجانا
جب تم نے مجھے اپنا ،دنیا میں بنایا ہے
محشر میں بھی کہہ دینا یہ ہے میرا دیوانہ
جی چاہتا ہے تحفے میں بھیجوں انہیں آنکھیں
درشن کا تو درشن ہو نذرانے کا نذرانہ
پینے کو تو پی لوں گا پر شرط ذرا سی ہے
اجمیر کا ساقی ہو بغداد کا مئے خانہ
کیوں آنکھ لگائی تھی؟ کیوں آنکھ ملائی تھی؟
اب رُخ کو چھپا بیٹھے ، کر کے مجھے دیوانہ !
بیدؔم میری قسمت میں، سجدے ہیں اِسی در کے
چھوٹا ہے نہ چھوٹے گا ، سنگِ درِ جانانہ