کسی کا تیر نظر دل کے پار ہو کے رہا
تو دل نے دم بھی نہ مارا نثار ہو کے رہا
تمہاری سوزنِ مژگاں نے کی وہ بخیہ گری
کہ رختِ ہستی مرا تار تار ہو کے رہا
تمہارے روئے منور کی روشنی کی قسم
کہ اس سے قلبِ سیاہ جلوہ بار ہو کے رہا
کھلا تو خانۂ دل میں وہ چھپ کے بیٹھ رہا
چُھپا تو ہر جگہ وہ آشکار ہو کے رہا
اگر چہ حسن کی حیرت اُسے ملی نہ ملی
مگر وہ عشق کا آئینہ دار ہو کے رہا
تیری تعریف کیسے کروں میں بیاں میری طاقت ہے کیا، میں تو کچھ بھی نہیں
مہر و ذرّے میں نسبت تو ہوتی ہے کچھ، مجھ کو نسبت ہے کیا میں تو کچھ بھی نہیں
میرے وہم و گمان سے بھی باہر ہے تو میں تو قطرہ نہیں اور بے کنار سمندر ہے تو
تیرا سودا ہوا مجھ کو یہ ہستی کہاں دل کی وسعت ہے کیا میں تو کچھ بھی نہیں
تو سمایا جو مجھ میں ترا کام ہے میری ہستی ہے کچھ تو تیرا نام ہے
تیری رحمت نے رتبہ یہ بخشا مجھے میر ی جراءت ہے کیا میں تو کچھ بھی نہیں
تیرا دامن جو پکڑا تو میں شہہ ہوا میرا اس کے سوا اور مطلب ہے کیا
تیرے در کا گدا ہوں تو ہوں شاہ میں ورنہ قسمت ہے کیا میں تو کچھ بھی نہیں
تیرا در چھوڑ کر میں کہاں جاؤں گا جو یہاں کھوؤں گا تو کہاں پاؤں گا
تو خزانوں کا مالک ہے دیدے شہا اب کفایت ہے کیا میں تو کچھ بھی نہیں
میرا وارث ہے تو میرا مالک ہے تو میرا آقا ہے تو میرا داتا ہے تو
تیرے ہونے سے جینا ہے جینا مرا میری ہمت ہے کیا میں تو کچھ بھی نہیں
جس نے دیکھا مجھے کیوں نہ حیران ہو میں جو پہلا ساہُوں میری پہچان ہو
تیری آئینہ سازی کی ہے یہ جِلا ورنہ حیرت ہے کیا میں تو کچھ بھی نہیں