یہ زمین یہ فلک ان سے آگے تلک جتنی دنیائیں ہیں
سب میں تیری جھلک سب سب سے لیکن جدا
اۓ خدا اۓ خدا
ہر سحر پھوٹتی ہے رنگ سے ، سبزۂ و گل کھلیں سینہ سنگ سے
گونجتا ہے جہاں تیرے آہنگ سے
جس نے کی جستجو مل گیا اس کو تو سب کا رہنما
اۓ خدا اۓ خدا
ہر ستارے میں آباد سے اک جہاں ، چاند سورج تری روشنی کے نشاں
پتھروں کو بھی تو نے عطا کی زباں
جانور ، آدمی کر رہے ہیں سبھی تیری حمد و ثنا
اۓ خدا اۓ خدا
نور ہی نور بکھرا ہے کالک نہیں ، دوسرا کوئی حدگماں تک نہیں
تیری وحدانیت میں کوئی شک نہیں
لاکھ ہوں صورتیں ایک ہی رنگ میں تو ہے جلوہ نما
اے ٔ خدا اۓ خدا
سونپ کر منصب آدمیت مجھے تو نے بخشی ہے اپنی خلافت مجھے شوق سجدہ بھی کر اب عنایت مجھے
ہے میرا سر تیری دہلیز پر ہے یہی التجا
اۓ خدا اۓ خدا
کوئی تو ہے جو نظامِ ہستی چلا رہا ہے وہ ہی خدا ہے
دکھائی بھی جو نہ دے، نظر بھی جو آر ہا ہے وہ ہی خدا ہے
وہ ہی ہے مشرق، وہ ہی ہے مغر ب، سفر کریں سب اسی کی جانب
ہر آئینے میں جو عکس اپنا دکھا رہا ہے وہ ہی خدا ہے
تلاش اس کونہ کر بُتوں میں وہ ہے بدلتی ہوئی رُتوں میں
جو دن کو رات اور رات کو دن بنا رہا ہے وہ ہی خدا ہے
کسی کو سوچوں نے کب سراہا ؟وہی ہوا جو خدا نے چاہا
جو اختیارِ بشر پہ پہر ے بٹھا رہا ہے وہ ہی خدا ہے
نظر بھی رکھے ،سماعتیں بھی ،وہ جان لیتا ہے نیتیں بھی
جو خانۂ لا شعور میں جگمگا رہا ہے وہ ہی خدا ہے
کسی کو تاجِ و قار بخشے ،کسی کو ذلت کے غار بخشے
جو سب کے ہاتھوں پہ مہرِ قدرت لگا رہا ہے وہ ہی خدا ہے
سفید اس کا ،سیا ہ اس کا، نفس نفس ہے گواہ اس کا
جو شعلۂ جاں جلا رہا ہے ،بجھا رہا ہے وہ ہی خدا ہے