حقیقت میں ہو سجدہ جبہ سائی کا بہانہ ہو
الٰہی میرا سر ہو اور ان کا آستانہ ہو
تمنا ہے کہ میری روح جب تن سے روانا ہو
دم آنکھوں میں ہو اور پیش نظر وہ آستانہ ہو
زباں جب تک ہے اور جب تک زباں میں تاب گویائی
تری باتیں ہوں تیرا ذکر ہو تیرا فسانہ ہو
مری آنکھیں نہیں آئینۂ حسن روئے صابر کا
دل صد چاک ان کی عنبریں زلفوں کا شانہ ہو
بلا اس کی ڈرے پھر گرمیٔ خورشید محشر سے
ترے لطف و کرم کا جس کے سر پر شامیانہ ہو
انہیں تو مشق تیر نازکی دھن ہے وہ کیا جانیں
کسی کی جان جائے یا کسی دل کا نشانہ ہو
نہ پوچھ اس عندلیب سوختہ ساماں کی حالت کو
قفس کے سامنے برباد جس کا آشیانہ ہو
سر بیدمؔ ازل کے دن سے ہے وقف جبیں سائی
کسی کا نقش پا ہو اور کوئی آستانہ ہو