مرکز صدق و صفا مرکزِ ایمان صدیق
مصحف ِ عشق و محبت کے نگہباں صدیق
اسمِ اعظم ہیں جنوں کوش محبت کے لیے
ہو ش والوں کے لیے نقشِ سلیمان صدیق
کمندِ عقل میں آئے کرے خِرد تحقیق
نگاہ میں جو سمائے نظر کرے توثیق
ہے جبریل کی پرواز سے پرے جو مقام
ہیں اس مقام کی تصدیق کے لیے صدیق
پابوسی گلاب سے مٹی ہے مشکِ تر
پارس کی ایک لمحہ رفاقت ہے قدر زر
پہلو ہو مصطفٰے کا میّسر جسے ادیب
کیا کہئے کیا ہے اپنے مراتب میں وہ بشر
کاتبِ تقدیر کا جنبش میں جب آیا قلم
منزلوں سے ما ورٰی پہنچے فقیروں کے قدم
مسجدِ نبوی میں اِک دن جاں نثارِ مصطفٰے
تھے مصلّے پر امام اور مقتدی شاہِ امم
ہیں پرستارِ محمد بے حساب و بے شمار
ذی وقار و سر بلند و سرفروش جاں نثار
ہاں مگر صدیق کے ہیں مرتبے کچھ اس طرح
یارِ ہجرت، یارِ غزوہ، یارِ بزم و یارِ غار
تشنہ کا مانِ حقیقت کو ہیں کوثر صدیق
کاروان ِ رہِ الفت کو ہیں رہبر صدیق
ختم نہ ہوگا نہ کبھی سلسلۂ عشق ادیب
عشق کے رب ہیں ، محبت کے پیمبر صدیق