مُشتِ غبارِ خاک اور تیرا بیانِ بر تری
خالقِ کُل کلام سے کون کرے گا ہمسری
حمدِ خُدائے لَمْ یَزلْ تیری ثنائے دِلربا
وحیِ الٰہ العالمیں ، تیری زبانِ دلبری
تیرے عروج کی خبر روحِ قدس نہ پاسکی
عویٰ ٔ معرفت کوہے پیشِ ترے سُبک سری
کلمۂ لاشریک میں، ذکر ترا شریک ہے
منزل لاالٰہ تک، تو ہی نشانِ رہبری
قلب ہے کاسۂ گدا، دستِ سوال ہے وجود
رُوح ، فقیر ِ آستاں، عشق تیرا تونگری
ذکرِ حبیب کبریا ، مدح و ثنائے مصطفٰے
میرا شعور ِ فکر و فن ، میرا ضمیرِ شاعری
سدا لب پہ ہو جب صدائے مدینہ
کہاں چین دل کو سوائے مدینہ
چلے آج ایسی ہوائے مدینہ
اُڑائے ہمیں لے کے جائے مدینہ
بَرائے مدینہ بِنائے دو عالم
بِنائے دو برائے مدینہ
حرم کا پتہ مجھ سے کیوں پوچھتے ہو
مرا دل ہے قبلہ نمائے مدینہ
گنہگار کے دل میں دوزخ کی آتش
لگائے زمانہ ، بُجھائے مدینہ
مدینے کا بندہ مدینے ہی پہنچے
بس اتنا کرم کر، خدائے مدینہ
قدم چُوم لوں بَے وطن کرنے والے
مجھے دے اگر تو، سزائے مدینہ
کہیں تو گنہ گار کا ہو ٹھکانہ
خُدا نے رکھی یوں، بِنائے مدینہ
گرفتار کو اب گرفتار رکھیے
کہاں جائے گا پھر رہائے مدینہ
وہ “طلع” وہ “بدرُ علینا ” کے نغمے
کجا ہم کجا وہ ثنائے مدینہ
ادیب حشر میں زیرِ سایہ رہیں گے
تَنی ہوگی سر پر رِدائے مدینہ