نہ عرشِ ایمن نہ اِنّی ْ ذاہبٌ میں مہمانی ہے
نہ لطف اُدْنُ یَا اَحْمَدْ نصیب لَنْ تَرَانِی ہے
نصیبِ دوستاں گر اُن کے دَر پر مَوت آنی ہے
خدا یوں ہی کرے پھر تو ہمیشہ زِندگانی ہے
اُسی در پر تڑپتے ہیں مچلتے ہیں بلکتے ہیں
اٹھا جاتا نہیں کیا خوب اپنی ناتوانی ہے
ہر اِک دیوار و دَر پر مہر نے کی ہے جبیں سائی
نگارِ مسجد ِ اقدس میں کب سونے کا پانی ہے
تِرے منگتا کی خاموشی شفاعت خواہ ہے اُس کی
زبانِ بے زبانی ترجمان ِ خستہ جانی ہے
کھلے کیار از ِ محبوب و محب مستانِ غفلت پر
شراب قَدرَای الحق زیبِ جامِ مَنْ رَاٰنِی ہے
جہاں کی خاکروبی نے چمن آرا کیا تجھ کو
صبا ہم نے بھی اُن گلیوں کی کچھ دن خاک چھانی ہے
شہا کیا ذات تیری حق نما ہے فردِ امکاں میں
کہ تجھ سے کوئی اوّل ہے نہ تیرا کوئی ثانی ہے
کہاں اس کو شکِ جانِ جناں میں زَر کی نقاشی
اِرم کے طائرِ رنگِ پَریدہ کی نشانی ہے
ذِیابٌ فی ثِیابٌ لب پہ کلمہ دِل میں گستاخی
سلام اسلام ملحد کو کہ تسلیم زبانی ہے
یہ اکثر ساتھ اُن کے شانہ و مسواک کا رہنا
بتاتا ہے کہ دل ریشوں پہ زائد مہربانی ہے
اسی سرکار سے دنیا و دیں ملتے ہیں سائل کو
یہی دربارِ عالی کنز آمال و امانی ہے
درو دیں صورتِ ہالہ محیط ِ ماہِ طیبہ ہیں
برستا امّت ِ عاصِی پہ اب رحمت کا پانی ہے
تعالیٰ اللہ استغنا ترے در کے گداؤں کا
کہ ان کو عار فرو شوکت ِ صاحب قِرانی ہے
وہ سر گرمِ شفاعت ہیں عرق افشاں ہے پیشانی
کرم کا عطر صَندل کی زمیں رحمت کی گھانی ہے
یہ سر ہوا ور وہ خاکِ در وہ خاکِ در ہو اور یہ سر
رضا وہ بھی اگر چاہیں تو اب دل میں یہ ٹھانی ہے