نمازِ اقصیٰ میں تھا یہی سرّ عَیاں ہوں معنی اول آخر
کہ دست بستہ ہیں پیچھے حاضر جو سلطنت آگے کر گئے تھے
یہ اُن کی آمد کا دبدبہ تھا نکھار ہر شے کا ہو رہا تھا
نجوم و افلاک جام و مینا اجالتے تھے کھنگالتے تھے
نقاب اُلٹے وہ مہرِ انور جلالِ رُخسار گرمیوں پر
فلک کو ہیبت سے تپ چڑھی تھی تپکتے انجم کے آبلے تھے
یہ جوششِ نور کا اثر تھا کہ آب ِگوہر کمر کمر تھا
صَفائے رَہ سے پھسل پھسل کر ستارے قدموں پہ لوٹتے تھے
بڑھا یہ لہرا کے بحر ِوحدت کہ دُھل گیا نام ِریگِ کثرت
فلک کے ٹیلوں کی کیا حقیقت یہ عرش و کرسی دو بُلبلے تھے
وہ ظِلِّ رَحمت وہ رخ کے جلوے کہ تارے چُھپتے نہ کِھلنے پاتے
سنہری زَرْبَتْت اُودی اَطلَس یہ تھان سب دھوپ چھاؤں کے تھے
چَلا وہ سَرو ِچماں خِراماں نہ رُک سکا سدْرَہ سے بھی داماں
Qaseeda-e-meraj part/6