تیری تکریم میں تیری تعظیم میں کس کو شک ہے بھلا کربلا کربلا
پھر بھی میرا قلم، تجھ سے شکوے رقم آج کرنے چلا کربلا کربلا
تو فراط آشنا ، تجھ میں دجلہ رواں پھر بھی آل ِ محمد کی سوکھی زباں
تیرے مہمان تھے ، اپنے مہمان سےتو نے یہ کیا کیا کربلا کربلا
واسطہ ان کے آباء کا دے کر اگر ، مانگتا اپنے سینہ میں زم زم کا گھر
اِک کرشمہ دکھاتا وہاں بھی خدا، کیوں نہ مانگی دعا کربلا کربلا
رات ہو دن ہو جب ان کے ہلتے جو لب ، اپنے خیموں میں قرآن پڑھتے تھے سب
تو نے دیکھا یہ سب ، تو نے خود بھی سنا اور کچھ نہ کیا کربلا کربلا
جن کے اہلِ حرم نُورِ مستورِ حق ، چادریں جن کے سر کی قرآں کا ورق
جن کےخیموں کے پردے غلافِ حرم، ان کو لوٹا گیا کربلا کربلا
آرزو التجا حسرتیں منّتیں ، جن کے قدموں کے بو سے کو حوریں کریں
ایسی شہزادیاں اور بربادیاں ، تو نے دیکھا کیا کربلا کربلا
وہ سکینہ تھی جو غم سے موسوم تھی ، کتنی معصوم تھی کتنی مغموم تھی
پوچھتی پھر رہی تھی ہر اِک سے پتہ ، تو نے کیا کہ دیا کربلا کربلا
نسل سے بولہب کی وہ دو ہاتھ تھے جن میں نیزہ تھا نیزے پہ فرقِ حُسین
کاش ہوتے نبی تو اترتی وہاں پھر سے تبت یدا کربلا کربلا
اہلِ بیت اور ان کی محبّت ادیب ، یہ مقدر یہ قسمت ، یہ روشن نصیب
اس وظیفہ سے راضی ہے مجھ سے خدا دیکھ یہ مرتبہ کربلا کربلا