لیتا ہوں اس کا نام بھی آہ و بکا کے ساتھ
کتنا حسین رشتہ ہے میرا خدا کے ساتھ
اس کی قبولیت میں کوئی شک نہیں رہا
بھیجے ہیں ہم نے اشک بھی اب کے دعا کے ساتھ
بجھتے ہوئے چراغ کو ہاتھوں میں لے لیا
اس بار بازی جیت لی میں نے ہوا کے ساتھ
آ کے بچا لے موت مجھے زندگی سے تو
کتنی گزاروں اور میں اس بے وفا کے ساتھ
طوفاں میں مجھ کو بننا پڑا اس کے دست و پا
ساحلؔ وگرنہ بنتی نہ تھی نا خدا کے ساتھ