پلک جھپکتی رہی وہ کب کے سب این و آں سے گزر چکے تھے
جھلک سی اِک قدسیوں پر آئی ہوا بھی دامن کی پِھر نہ پائی
سواری دولہا کی دور پہنچی برات میں ہوش ہی گئے تھے
تھکے تھے رُوحُ الْامںی کے بازو چُھٹا وہ دامن کہاں وہ پہلو
رکاب چھوٹی ،امید ٹوٹی نگاہِ حسرت کے ولولے تھے
رَوِش کی گرمی کو جس نے سوچا دماغ سے اِک بَھبو کا پھوٹا
خِرَد کے جنگل میں پُھول چمکا دَہر دَہر پیڑ جل رہے تھے
جِلو میں مرغِ عقل اُڑے تھے عجب بُرے حالوں گرتے پڑتے
وہ سدرہ ہی پر رہے تھے تھک کر چڑھا تھا دم تیور آگئے تھے
قوی تھے مرغان ِوہم کے پَر، اُڑے تو اُڑنے کو اور دَم بھر
اٹھائی سینے کی ایسی ٹھوکر کہ خونِ اندیشہ تھوکتے تھے
سنا یہ اتنے میں عرش ِحق نے ،کہا مبارک ہو تاج والے!
وہی قدم خیر سے پھر آئے جو پہلے تاج ِشرف تیرے تھے
Qaseeda-e-me’raj part/7