واہ کیا جود و کرم ہے شہ بطحیٰ تیرا
کوئی دنیائے عطا میں نہیں ہمتا تیرا
ہو جو حاتم کو میسر یہ نظارا تیرا
کہہ اٹھے دیکھ کے بخشش میں یہ رتبہ تیرا
واہ کیا جود و کرم ہے شہ بطحیٰ تیرا
نہیں سنتا ہی نہیں مانگنے والا تیرا
کچھ بشر ہونے کے ناتے تجھے خود سا جانیں
اور کچھ محض پیامی ہی خدا کا جانیں
اِن کی اوقات ہی کیا ہے کہ یہ اتنا جانیں
فرش والے تری عظمت کا علو کیا جانیں
خسروا عرش پہ اڑتا ہے پھریرا تیرا
جو تصور میں ترا پیکر زیبا دیکھیں
روئے والشمس تکیں ، مطلع سیما دیکھیں
کیوں بھلا اب وہ کسی اور کا چہرا دیکھیں
تیرے قدموں میں جو ہیں غیر کا منہ کیا دیکھیں
کون نظروں پہ چڑھے دیکھ کے تلوا تیرا
مجھ سے ناچیز پہ ہے تیری عنایت کتنی
تو نے ہر گام پہ کی میری حمایت کتنی
کیا بتاؤں تری رحمت میں ہے وسعت کتنی
ایک میں کیا مرے عصیاں کی حقیقت کتنی
مجھ سے سو لاکھ کو کافی ہے اشارہ تیرا
کئی پشتوں سے غلامی کا یہ رشتہ ہے بحال
یہیں طفلی و جوانی کے بِتائے ماہ و سال
اب بڑھاپے میں خدارا ہمیں یوں در سے نہ ٹال
تیرے ٹکڑوں پہ پلے غیر کی ٹھوکر پہ نہ ڈال
جھڑکیاں کھائیں کہاں چھوڑ کے صدقہ تیرا
غمِ دوراں سے گھبرائیے ، کس سے کہیے
اپنی الجھن کسے بتلائیے ، کس سے کہیے
چیر کر دل کسے دکھلائیے ، کس سے کہیے
کس کا منہ تکیے ، کہاں جائیے ، کس سے کہیے
تیرے ہی قدموں پہ مٹ جائے یہ پالا تیرا
نذرِ عشاقِ نبی ہے یہ مرا حرفِ غریب
منبرِ وعظ پر لڑتے رہیں آپس میں خطیب
یہ عقیدہ رہے اللہ کرے مجھ کو نصیب
میں تو مالک ہی کہوں گا کہ ہو مالک کے حبیب
یعنی محبوب و محب میں نہیں میرا تیرا
خوگرِ قربت و دیدار پہ کیسی گزرے
کیا خبر اس کے دلِ زار پہ کیسی گزرے
ہجر میں اس ترے بیمار پہ کیسی گزرے
دور کیا جانیے بدکار پہ کیسی گزرے
تیرے ہی در پہ مرے بیکس و تنہا تیرا
تجھ سے ہر چند وہ ہیں قدر و فضائل میں رفیع
کر نصیر آج مگر فکرِ رضا کی توسیع
پاس ہے اس کے شفاعت کا وسیلہ بھی وقیع
تیری سرکار میں لاتا ہے رضا اس کو شفیع
جو مرا غوث ہے اور لاڈلا بیٹا تیرا
نعمتیں بانٹتا جس سمت وہ ذیشان گیا
یہ وہ سچ ہے کہ جسے ایک جہاں مان گیا
در پہ آیا جو گدا ، بن کے وہ سلطان گیا
اس کے اندازِ نوازش پہ میں قربان گیا
نعمتیں بانٹا جس سمت وہ ذی شان گیا
ساتھ ہی منشیِ رحمت کا قلمدان گیا
تجھ سے جو پھیر کے منہ ، جانب قران گیا
سرخرو ہو کے نہ دنیا سے وہ انسان گیا
کتنے گستاخ بنے ، کتنوں کا ایمان گیا
لے خبر جلد کہ اوروں کی طرف دھیان گیا
مرے مولی ، مرے آقا ، ترے قربان گیا
محو نظارہ سرِ گنبد خضری ہی رہی
دور سے سجدہ گزارِ درِ والا ہی رہی
روبرو پا کے بھی محرومِ تماشا ہی رہی
آہ ! وہ آنکھ کہ ناکامِ تمنا ہی رہی
ہائے وہ دل جو ترے در سے پر ارمان گیا
تیری چاہت کا عمل زیست کا منشور رہا
تیری دہلیز کا پھیرا ، میرا دستور رہا
یہ الگ بات کہ تو آنکھ سے مستور رہا
دل ہے وہ دل جو تری یاد سے معمور رہا
سر وہ سر ہے جو ترے قدموں پہ قربان گیا
دوستی سے کوئی مطلب ، نہ مجھے بیر سے کام
ان کے صدقے میں کسی سے نہ پڑا خیر سے کام
ان کا شیدا ہوں ، مجھے کیا حرم و دیر سے کام
انہیں مانا ، انہیں جانا ، نہ رکھا غیر سے کام
للہ الحمد میں دنیا سے مسلمان گیا
احترامِ نبوی داخلِ عادت نہ سہی
شیرِ مادر میں اصیلوں کی نجابت نہ سہی
گھر میں آداب رسالت کی روایت نہ سہی
اور تم پر مرے آقا کی عنایت نہ سہی
نجدیو! کلمہ پڑھانے کا بھی احسان گیا
بام مقصد پر تمناؤں کے زینے پہنچے
لبِ ساحل پہ نصیر ان کے سفینے پہنچے
جن کو خدمت میں بلایا تھا نبی نے ، پہنچے
جان و دل ، ہوش و خرد ، سب تو مدینے پہنچے
تم نہیں چلتے رضا سارا تو سامان گیا