کیا حمد کر سکے گی میری زبان تیری
ساری نشانیاں ہیں اے بے نشان تیری
عقل وشعور تک کی ہوتی نہیں رسائی
کیا ذات پاسکیں گے وہم وگمان تیری
کون و مکاں کی ہر شے لبّیک کہہ رہی ہے
ہر سمت گونجتی ہے پیہم اذان تیری
جو شے ہے صرف تیری اے خالقِ دو عالم
ہر ایک جسم تیرا ہر ایک جان تیری
ہے تیری کبریائی ثابت بہر قرینہ
باطن ہے شان تیری ظاہر ہے شان تیری
تیری ربوبیت کی آغوش ہے کشادہ
ہر امن کی امیں ہے بےشک امان تیری
خالد کو بندگی کا اِخلاص تو نے بخشا
چاہی ہے اِستِعانت اے مستعان تیری
نام ربِ انام ہے تیرا ہر جگہ فیض عام ہے تیرا لامکانی ہے تیرا وصف مگر قلبِ مومن مقام ہے تیرا تو ہی خالق ہے تو ہی مالک ہے جو بھی کچھ ہے تمام ہے تیرا تیری مرضی کبھی نہیں ٹلتی کتنا کامل نظام ہے تیرا جو ہے مشکل کشا بہر عالم میرے مولا وہ نام ہے تیرا تجربوں نے یہی بتایا ہے مہربانی ہی کام ہے تیرا لبِ خالد کی جاگ اُٹھی قسمت تذکرہ صبح و شام ہے تیرا |
ہم کو اپنی طلب سے سوا چاہیے
آپ جیسے ہیں ویسی عطا چاہیے
کیوں کہوں یہ عطا وہ عطا چاہیے؟
ان کو معلوم ہے ہم کو کیا چاہیے
اِک قدم بھی نہ ہم چل سکیں گے حضور !
ہر قدم پر کرم آپ کا چاہیے
عشق میں آپ کے ہم تڑپتے تو ہیں
ہر تڑپ میں بِاللی ادا چاہیے
اور کوئی بھی اپنی تمنا نہیں
ان کے پیاروں کی پیاری ادا چاہیے
اپنے قدموں کا دُھوَن عطا کیجئے
ہم مریضوں کو آبِ شفا چاہیے
در دِ جامی ملے، نعت خاؔلد لکھوں
اور اندازِ احمد رضا چاہیے