نام ربِ انام ہے تیرا ہر جگہ فیض عام ہے تیرا لامکانی ہے تیرا وصف مگر قلبِ مومن مقام ہے تیرا تو ہی خالق ہے تو ہی مالک ہے جو بھی کچھ ہے تمام ہے تیرا تیری مرضی کبھی نہیں ٹلتی کتنا کامل نظام ہے تیرا جو ہے مشکل کشا بہر عالم میرے مولا وہ نام ہے تیرا تجربوں نے یہی بتایا ہے مہربانی ہی کام ہے تیرا لبِ خالد کی جاگ اُٹھی قسمت تذکرہ صبح و شام ہے تیرا |
ہم کو اپنی طلب سے سوا چاہیے
آپ جیسے ہیں ویسی عطا چاہیے
کیوں کہوں یہ عطا وہ عطا چاہیے؟
ان کو معلوم ہے ہم کو کیا چاہیے
اِک قدم بھی نہ ہم چل سکیں گے حضور !
ہر قدم پر کرم آپ کا چاہیے
عشق میں آپ کے ہم تڑپتے تو ہیں
ہر تڑپ میں بِاللی ادا چاہیے
اور کوئی بھی اپنی تمنا نہیں
ان کے پیاروں کی پیاری ادا چاہیے
اپنے قدموں کا دُھوَن عطا کیجئے
ہم مریضوں کو آبِ شفا چاہیے
در دِ جامی ملے، نعت خاؔلد لکھوں
اور اندازِ احمد رضا چاہیے