اک میں ہی نہیں ان پر قربان زمانہ ہے ۔
جو رب دو عالم کا محبوب یگانہ ہے
کل جس نے ہمیں پُل سے خود پار لگانا ہے
زہرہ کا وہ بابا ہے سبطین کا نانا ہے
اُس ہاشمی دولہا پر کونین کو میں واروں
جو حُسن و شمائل میں یکتائے زمانہ ہے
عزت سے نہ مر جائیں کیوں نام محمد پر
ہم نے کسی دن یوں بھی دنیا سے تو جانا ہے
آو در زہرہ پر پھیلائے ہوئے دامن
ہے نسل کریموں کی لجپال گھرانہ ہے
ہوں شاہ مدینہ کی میں پشت پناہی میں
کیا اس کی مجھے پرواہ دشمن جو زمانہ ہے
یہ کہ کے در حق سے لی موت میں کچھ مہلت
میلاد کی آمد ہے محفل کو سجانا ہے
قربان اُس آقا پر کل حشر کے دن جس نے
اَس اُمت عاصی کو کملی میں چھپانا ہے
سو بار اگر توبہ ٹوٹی بھی تو حیرت کیا
بخشش کی روائت میں توبہ تو بہانہ ہے
ہر وقت وہ ہیں میری دُنیائے تصور میں
اے شوق کہیں اب تو آنا ہے نہ جانا ہے
کس سے مانگیں، کہاں جائیں ، کس سے کہیں ، اور دنیا میں حاجت روا کون ہے سب کا داتا ہے تو ، سب کو دیتا ہے تو ، تیرے بندوں کا تیرے سوا کون ہے کون مقبول ہے، کون مردود ہے، بے خبر! کیا خبر تجھ کو کیا کون ہے جب تُلیں گے عمل سب کے میزان پر، تب کھلے گا کہ کھوٹا کھرا کون ہے کون سنتا ہے فریاد مظلوم کی ، کس کے ہاتھوں میں کنجی ہے مقسوم کی رزق پر کس کے پلتے ہیں شاہ وگدا، مسند آرائے بزمِ عطا کون ہے اولیا تیرے محتاج اے ربّ کل ، تیرے بندے ہیں سب انبیاء ورُسُل ان کی عزت کا باعث ہے نسبت تری ، ان کی پہچان تیرے سوا کون ہے میرا مالک مری سن رہا ہے فغاں ، جانتا ہے وہ خاموشیوں کی زباں اب مری راہ میں کوئی حائل نہ ہو ، نامہ بر کیا بلا ہے، صبا کون ہے ابتدا بھی وہی ، انتہا بھی وہی ، ناخدا بھی وہی ، ہے خدا بھی وہی جو ہے سارے جہانوں میں جلوہ نما ، اس اَحَد کے سوا دوسرا کون ہے وہ حقائق ہوں اشیاء کے یا خشک وتر ، فہم وادراک کی زد میں ہیں سب ،مگر ماسوا ایک اس ذاتِ بے رنگ کے ، فہم وادراک سے ماورٰی کون ہے انبیا، اولیا، اہل بیت نبی ، تابعین وصحابہ پہ جب آ بنی گر کے سجدے میں سب نے یہی عرض کی، تو نہیں ہے تو مشکل کشا کون ہے اہل فکر ونظر جانتے ہیں تجھے ، کچھ نہ ہونے پہ بھی مانتے ہیں تجھے اے نصیرؔ اس کو تو فضلِ باری سمجھ ، ورنہ تیری طرف دیکھتا کون ہے |
چاند تارے ہی کیا دیکھتے رہ گئے
ان کو ارض و سماء دیکھتے رہ گئے
پڑھ کے روح الامین سورۂ والضحیٰ
صورتِ مصطفٰے دیکھتے رہ گئے
وہ امامت کی شب ،وہ صف انبیاء
مقتدی مقتدیٰ دیکھتے رہ گئے
معجزہ تھا وہ ہجرت میں ان کا سفر
دشمنانِ خدا دیکھتے رہ گئے
مرحبا شان ِ معراج ختم رسل
سب کے سب انبیاء دیکھتے رہ گئے
میں نصؔیر آج وہ ہے نعت نبی
نعت گو منہ مِرا دیکھتے رہ گئے
دل میں کسی کو اور بسایا نہ جائے گا
ذکر ِ رسولِ پاک بُھلایا نہ جائے گا
وہ خود ہی جان لیں گے ، جتایا نہ جائے گا
ہم سے تو اپنا حال سُنایا نہ جائے گا
ہم کو جز ا ملے گی محمد (ﷺ)سے عشق کی
دوزخ کے آس پاس بھی لایا نہ جائے گا
کہتے تھے ، بلال ؓ تشدد سے کفر کے
عشق ِ نبی کو دل سے نکالا نہ جائے گا
بے شک حضور شافعِ محشر ہیں منکرو !
کیا اُن کےسامنے تمہیں لایا نہ جائے گا ؟
مانے گا اُ ن کی بات خدا حشر میں نصیؔر
بِن مصطفٰے خدا کو منایا نہ جائے گا