مجھے بھی مدینے بلا میرے مولی ٰ
کرم کی تجلی دکھا میرے مولیٰ
بہت بے قراری کے عالم میں ہوں میں
میری بے قراری مٹا میرے مولیٰ
یہ دونوں جہاں تیرے زیرِ اثر ہیں
جو تجھ کو نہ مانیں بڑے بے خبر ہیں
نہیں جانتے جو بھی تیرے غضب کو
انہیں غفلتوں سے جگا میرے مولا
شفاعت کا وعدہ کیا تو نے جس سے
گنہگار اُمید رکھتے ہیں ا س سے
سفارش کریں تجھ سے اُمت کی آقا
تو کرتا ہےسبھی کا بھلا میرے مولیٰ
مِری مشکلیں گر تیر ا امتحان ہے
تو ہر غم، قسم سے خوشی کا سماں ہے
گناہوں کی میرے اگر یہ سز ا ہے
تو پھر مشکلوں کو گھٹا میرے مولا
نگاہوں سے پنہاں کیوں منزل میری ہے
کیوں منجھدار میں ناؤ میری پھنسی ہے
خطاؤں کا مارا بھی پالے گا ساحل
گر عابد ؔ کے دل میں سما میرے مولا