کرم کے بادل برس رہے ہیں ، دلوں کی کھیتی ہری بھری ہے
یہ کون آیا کہ ذکر جنکا ، نگر نگر ہے گلی گلی ہے
دیے دلوں کے جلا کے رکھنا ، نبی کی محفل سجا کے رکھنا
جو راحت ِ سُکوں جان ہے ، وہ ذکر، ذکر ِ محمدی ہے
جو گالیاں سن کے دیں دعائیں ، بُروں کو اپنے گلے لگائیں
سراپا لُطف و کرم جو ٹھر،ی وہ میرے آقا کی زندگی ہے
نبی کو اپنا خدا نہ مانو ، خدا سے لیکن، جدا نہ مانو
ہے اھل ِ ایمان کا یہ عقیدہ خدا خدا ہے نبی نبی ہے
میں اپنی قسمت پہ کیوں نہ جھوموں ! میں کیوں نہ ولیوں کے در کو چوموں ؟
میں نام لیوا مصطفٰے کا ، خدا کے بندوں سے دوستی ہے
ہے دو ش پر جن کے کملی کالی ، وہی تو ہیں دو جہاں کے والی
کوئی سُوالی نہ بھیجا خالی یہ شان میرے کریم کی ہے
نہ مانگو دنیا کے تم خزانے “نیاؔزی ” چلیں مدینے
کہ بادشاہ سے بڑھ کر پیارے نبی کے در کی گداگری ہے ۔