شبِ غم کاٹ دے میری ، امیدوں کی سحر کر دے
مرے غم کو خوشی کر، میرے عیبوں کو ہنر کر دے
امید و بیم سے گذروں فسونِ وہم سے نکلوں
مجھے اپنی حضوری دے مرا حال دگر کر دے
وہ میرے حال سے واقف ہیں ان کو ہے خبر میری
بھلا کیسے کہوں کوئی انہیں میر ی خبر کر دے
بھلا یہ جان و دل لیکر کہاں جائے گا طیبہ سے
انہیں یا نذر کر یا صدقۂ خیر البشر کر دے
اگر تو چاہتا ہے دوزخ ِ دنیا سے آزادی
مدینہ ہو تیرا گھر ، یہ تمنّا دل میں گھر کر دے
تیری دولت تیرا سایہ غم ، تیرے آنسو ہیں
بہا کر نعت میں نادان ان کو تو گہر کر دے
یہ میری زندگی کا کارواں ، ہے اے خدا ! اس کا
مدینہ جس طرف ہے اس طرف روئے سفر کر دے
جگہ دیدے ادیب ِ خوش نواء کو اپنے قدموں میں
رہی فردِ عمل اس کو جِدھر چاہے اُدھر کر دے