سر ہے خَم ہاتھ میرا اُٹھا ہے یاخدا تجھ سے میری دُعا ہے
فَضْل کی رَحْم کی التجا ہے یاخدا تجھ سے میری دُعا ہے
تیرا اِنْعام ہے یاالٰہی کیسا اِکْرام ہے یاالٰہی
ہاتھ میں دامنِ مصطفےٰ ہے یاخدا تجھ سے میری دُعا ہے
عشق دے سوز دے چشمِ نم دے مجھ کو میٹھے مدینے کا غم دے
واسِطہ گنبدِ سبز کا ہے یاخدا تجھ سے میری دُعا ہے
ہوں بظاہر بڑا نیک صورت کربھی دے مجھ کو اب نیک سیرت
ظاہِر اچھا ہے باطِن بُرا ہے یاخدا تجھ سے میری دُعا ہے
میرے مُرشِد جو غوثُ الْوَرا ہیں شاہ احمد رضا رہنما ہیں
یہ تِرا لُطف تیری عطا ہے یاخدا تجھ سے میری دعا ہے
یاخدا ایسے اسباب پاؤں کاش مکے مدینے میں جاؤں
مجھ کو ارمان حج کا بڑا ہے یاخدا تجھ سے میری دعا ہے
یاالٰہی کر ایسی عنایت دیدے ایمان پر استقامت
تجھ سے عطّاؔر کی التجا ہے یاخدا تجھ سے میری دعا ہے
Sar hay kham haath mayra utha hay, Ya Khuda Tujh say mayri Du’a hay
Fazl ki rahm ki iltija hay, Ya Khuda Tujh say mayri Du’a hay
Tayra in’aam hay Ya Ilahi, kaysa ikraam hay Ya Ilahi
Haath mayn daman-e-Mustafa hay, Ya Khuda Tujh say mayri Du’a hay
‘Ishq day, sauz day, chashm-e-nam day, mujh ko meethay Madinay ka gham day
Wasitah Gumbad-e-Sabz ka hay, Ya Khuda Tujh say mayri Du’a hay
Hoon ba-zaahir bara nayk soorat, ker bhi day mujh ko ab nayk seerat
Zaahir achcha hay baatin bura hay, Ya Khuda Tujh say mayri Du’a hay
Mayray murshid jo Ghaus-ul-Wara hayn, Shah Ahmad Raza rahnuma hayn
Yeh Tayra lutf Tayri ‘ata hay, Ya Khuda Tujh say mayri Du’a hay
Ya Khuda aysay asbab paoon, kash Makkay Madinay mayn jaoon
Mujh ko arman Hajj ka bara hay, Ya Khuda Tujh say mayri Du’a hay
Ya Ilahi ker aysi ‘inayat, day day Iman per istiqamat]
Tujh say ‘Attar ki iltija hay, Ya Khuda Tujh say mayri Du’a hay
دردِ دل کر مجھے عطا یارب
دردِ دل کر مجھے عطا یا رب
دے مرے درد کی دوا یا رب
لاج رکھ لے گنہگاروں کی
نام رحمٰن ہے ترا یا رب
عیب میرے نہ کھول محشر میں
نام ستار ہے ترا یا رب
بے سبب بخش دے نہ پوچھ عمل
نام غفار ہے ترا یا رب
آسرا ہم گنہگاروں کا
اور مضبوط ہو گیا یا رب
تو نے دی مجھ کو نعمتِ اسلام
پھر جماعت میں لے لیا یا رب
اہلِ سنّت کی ہر جماعت پر
ہر جگہ ہو تری عطا یا رب
تو حسن کو اٹھا حسن کر کے
ہو مع الخیر خاتمہ یا رب
اللہ ہو اللہ ہو اللہ ہو اللہ ہو
اللہ ہو اللہ ہو اللہ ہو اللہ ہو
لا موجود الا اللہ لا مشہود الا اللہ
لا مقصود الا اللہ لا معبود الا اللہ
اللہ ہو اللہ ہو اللہ ہو اللہ ہو
اللہ واحد ویکتا ہے ایک خدا بس تنہا ہے
کوئی نہ اس کا ہمتا ہے ایک ہی سب کی سنتا ہے
اللہ ہو اللہ ہو اللہ ہو اللہ ہو
جز میں وہ ہے کل میں وہ رنگ و بوئے گل میں وہ
افغان بلبل میں وہ نغمات قُل قُل میں وہ
اللہ ہو اللہ ہو اللہ ہو اللہ ہو
بلبل طوطی پروانہ ہر ایک اس کا دیوانہ
قمری اس کا مستانہ مور چکور کا جانہ نہ
اللہ ہو اللہ ہو اللہ ہو اللہ ہو
مولا دل کا زنگ چھڑا قلب نوری پائے جلا
دل کو کردے آئینہ جس میں چمکے یہ کلمہ
اللہ اللہ اللہ اللہ
قلب کو اس کی روئیت کی ہے آرزو
جس کا جلوہ ہے عالم میں ہر چار سو
بلکہ خود نفس میں ہے وہ سُبحٰنہٗ
اللہ اللہ اللہ اللہ
عرش و فرش و زمان و جہت اے خدا
جس طرف دیکھتا ہوں ہے جلوہ تیرا
ذرّے ذرّے کی آنکھوں میں تو ہی ضیاء
قطرے قطرے کی تو ہی تو ہے آبرو
اللہ اللہ اللہ اللہ
تو کسی جا نہیں اور ہر جا ہے تو
تو منزّہ مکاں سے مبّرہ زسو
علم وقدرت سے ہر جا ہے تو کوُبکوُ
تیرے جلوے ہیں ہر ہر جگہ اے عفو
اللہ اللہ اللہ اللہ
سارے عالم کو ہے تیری ہی جستجو
جن وانس و ملک کو تری آرزو
یاد میں تیری ہر ایک ہے سُو بسو
بن میں وحشی لگاتے ہیں ضرباتِ ہُو
اللہ اللہ اللہ اللہ
نغمہ سنجانِ گلشن میں چرچا ترا
گیت تیرے ہی گاتے ہیں وہ خوش گلو
کوئی کہتا ہے حق کوئی کہتا ہے ھو
اور سب کہتے ہیں لا شریک لہٗ
اللہ اللہ اللہ اللہ
بُلبلِ خوش نوا طوطیٔ خوش گلو
زمزمہ خواں ہیں گاتے ہیں نغمات ھو
قمریٔ خوش لقا بولی حق سِرَّ ہٗ
فاختہ خوش ادا نے کہا دوست تو
اللہ اللہ اللہ اللہ
عفو فرما خطائیں مری اے عفو
شوق و توفیق نیکی کا دے مجھ کو تو
جاری دل کر کہ ہر دم رہے ذکر ہو
عادتِ بد بدل اور کر نیک خو
اللہ اللہ اللہ اللہ
خوابِ نوری میں آئیں جو نورِ خدا
بقعۂ نور ہو اپنا ظلمت کدا
جگمگا اٹھے دل چہرہ ہو پُر ضیاء
نوریوں کی طرح شغل ہو ذکر ہوٗ
اللہ اللہ اللہ اللہ
معاف فضل و کرم سے ہو ہر خطا یا ربّ
ہو مغفِرت پئے سلطانِ اَنبیا یا ربّ
بِلا حساب ہو جنّت میں داخلہ یا ربّ
پڑوس خُلد میں سرور کا ہو عطا یا ربّ
نبی کا صدقہ سدا کے لیے تُو راضی ہو
کبھی بھی ہونا نہ ناراض یا خدا یا ربّ
ترے حبیب اگر مُسکراتے آجائیں
تو بالیقین اُٹھے قبر جگمگا یا ربّ
خَزاں پھٹک نہ سکے پاس، دے بہار ایسی
رہے حیات کا گلشن ہرا بھرا یا ربّ!
ہمارے دل سے نکل جائے الفتِ دنیا
پئے رضا ہو عطا عشقِ مصطَفٰے یا ربّ
نبی کی دید ہماری ہے عید یا اللہ
عطا ہو خواب میں دیدارِ مصطفٰے یا ربّ!
تُلیں نہ حَشر میں عطّار کے عمل مولیٰ
بِلا حساب ہی تُو اس کو بخشا یا ربّ
ہمارے دل سے زمانے کے غم مِٹا یا ربّ
ہو میٹھے میٹھے مدینے کا غم عطا یا ربّ
غمِ حیات ابھی راحتوں میں ڈھل جائیں
تِری عطا کا اشارہ جو ہو گیا یا ربّ
پئے حُسین و حَسن فاطمہ علی حیدر
ہمارے بگڑے ہوئے کام دے بنا یا ربّ
ہماری بگڑی ہوئی عادتیں نکل جائیں
ملے گناہوں کے اَمراض سے شِفا یا ربّ
مجھے دے خود کو بھی اور ساری دنیا والوں کو
سُدھارنے کی تڑپ اور حوصَلہ یا ربّ
ہمیشہ ہاتھ بھلائی کے واسِطے اٹھیں
بچانا ظلم و ستم سے مجھے سدا یا ربّ
رہیں بھلائی کی راہوں میں گامزن ہر دم
کریں نہ رخ مِرے پاؤں گناہ کا یا ربّ
گنہگار طلبگار عَفو و رَحمت ہے
عذاب سَہنے کا کس میں ہے حوصلہ یا ربّ
عطا ہو “نیکی کی دعوت” کا خوب جذبہ کہ
دوں دھوم سنّتِ مَحبوب کی مچا یاربّ
عطا ہو ہمیں قبولِ عام
اور شُرور و فِتن سے سدا بچا یا ربّ
میں پُل صراط بِلا خوف پار کر لوں گا
تِرے کرم کا سہارا جو مل گیا یا ربّ
کہیں کا آہ! گناہوں نے اب نہیں چھوڑا
عذابِ نار سے عطّار کو بچا یا ربّ
شرف دے حج کا مجھے بَہرِ مصطفٰے یا ربّ
روانہ سُوئے مدینہ ہو قافِلہ یا ربّ
دکھا دے ایک جھلک سبز سبز گُنبد کی
بس اُن کے جلووں میں آجائے پھر قضا یا ربّ
مدینے جائیں پھر آئیں دوبارہ پھر جائیں
اِسی میں عمر گزر جائے یا خدا یا ربّ
مِرا ہو گنبدِ خَضرا کی ٹھنڈی چھاؤں میں
رسولِ پاک کے قدموں میں خاتِمہ یا ربّ
وَقتِ نَزع سلامت رہے مِرا ایماں
مجھے نصیب ہو توبہ ہے التجا یا ربّ
جو “دیں کاکام” کریں دل لگا کے یا اللہ
اُنہیں ہو خواب میں دیدارِ مصطفٰے یا ربّ
تِری محبّت اُتر جائے میری نَس میں
پئے رضا ہو عطا عِشقِ مصطفٰے یا ربّ
زمانے بھر میں مچادیں گے دھوم سنّت کی
اگر کرم نے ترے ساتھ دید یا یاربّ
نَماز و روزہ و حَج و زکٰوۃ کی توفیق
عطا ہو اُمّتِ مَحبوب کو سدا یا ربّ
جواب قبر میں مُنکر نکیر کو دوں گا
ترے کرم سے اگر حوصَلہ ملا یا ربّ
بروزِ حَشر چھلکتا سا جام کوثر کا
بدستِ ساقیِٔ کوثر ہمیں پلا یا ربّ
بقیعِ پاک میں عطّار دَفن ہو جائے
برائے غوث و رضا از پئے ضِیا یا ربّ
مٹا دے ساری خطائیں مِری مٹا یا ربّ بنادے نیک بنا نیک دے بنا یا ربّ
بنا دے مجھ کو الٰہی خُلوص کا پیکر قریب آئے نہ میرے کبھی ریا یا ربّ
اندھیری قبر کا دل سے نہیں نکلتا ڈر کروں گا کیا جو تُو ناراض ہو گیا یا ربّ
گناہگار ہوں میں لائقِ جہنّم ہوں کرم سے بخش دے مجھ کو نہ دے سزا یا ربّ
بُرائیوں پہ پَشَیماں ہوں رَحم فرمادے ہے تیرے قَہر پہ حاوی تری عطا یا ربّ
مُحیط دل پہ ہوا ہائے نفسِ اَمّارہ دِماغ پر مِرے ابلیس چھا گیا یا ربّ
رِہائی مجھ کو ملے کاش! نفس و شیطان سے تِرے حبیب کا دیتاہوں واسِطہ یا ربّ
گناہ بے عَدد اور جُرم بھی ہیں لا تعداد کر عَفو سہ نہ سکوں گا کوئی سزا یا ربّ
میں کر کے توبہ پلٹ کر گناہ کرتا ہوں حقیقی توبہ کا کردے شرف عطا یاربّ سنوں نہ فُحش کلامی نہ غیبت و چغلی تِری پسند کی باتیں فَقط سنا یا ربّ
کریں نہ تنگ خیالاتِ بدکبھی، کردے شُعُور و فکر کو پاکیزگی عطا یا ربّ
نہیں ہے نامۂ عطّار میں کوئی نیکی
فَقط ہے تیری ہی رحمت کا آسرا یا ربّ
کب گناہوں سے کَنارا میں کروں گا یا ربّ!
نیک کب اے مِرے اللہ! بنوں گا یا ربّ!
کب گناہوں کے مرض سے میں شِفا پاؤں گا
کب میں بیمار، مدینے کا بنوں گا یا ربّ!
گر ترے پیارے کا جلوہ نہ رہا پیشِ نظر
سختیاں نزع کی کیوں کر میں سہوں گا یا رب!
نَزع کے وقت مجھے جلوۂ محبوب دکھا
تیرا کیا جائے گا میں شاد مروں گا یاربّ
قبر میں گر نہ محمد کے نظّارے ہوں گے
حشر تک کیسے میں پھر تنہا رہوں گا یا ربّ!
ڈنگ مچھر کا بھی مجھے سے تو سہا جاتا نہیں
قبر میں بچّھو کے ڈنگ کیسے سہوں گا یا ربّ!
گُھپ اندھیرا ہی کیا وَحشت کا بسیرا ہوگا
قبر میں کیسے اکیلا میں رہوں گا یا ربّ!
گر کفن پھاڑ کے سانپوں نے جمایا قبضہ
ہائے بربادی! کہاں جاکے چھپوں گا یاربّ!
ہائے معمولی سی گرمی بھی سہی جاتی نہیں
گرمی حَشر میں پھر کیسے سہوں گا یا ربّ!
اِذن سے تیرے سَرِ حشر کہیں کاش! حُضُور
ساتھ عطّار کو جنّت میں رکھوں گا یا ربّ!
حُبّ دُنیا سے تُو بچا یا ربّ عاشقِ مُصطَفٰے بنا یا ربّ
کر دے حج کا شرف عطا یا ربّ سبز گُنبد بھی دے دکھا یا ربّ
یہ تری ہی تو ہے عنایت کہ مجھ کو مکّے بلا لیا یاربّ
آج ہے رُو برو مِرے کعبہ سلسلہ ہے طواف کا یا ربّ
ابر برسا دے نور کا کہ لوں بارشِ نور میں نہا یا ربّ
کاش لب پر مِرے رہے جاری ذِکر آٹھوں پَہر ترا یا ربّ
چشم تَر اور قلب مُضطر دے اپنی اُلفت کی مے پِلا یا ربّ
آہ! طُغیانیاں گناہوں کی پار نیّا مِری لگا یا ربّ
نفس و شیطان ہو گئے غالب ان کے چُنگل سے تُو چُھڑا یا ربّ
کر کے توبہ میں پھر گناہوں میں ہو ہی جاتاہوں مُبتلا یا ربّ
نِیم جاں کر دیا گناہوں نے مرضِ عصیاں سے دے شِفا یا ربّ
کس کے در پر جاؤں گا مولا گرتُو ناراض ہو گیا یا ربّ
وقتِ رحلت اب آگیا مولیٰ جلوۂ مصطفٰے دکھا یا ربّ
قبر میں آہ! گُھپ اندھیرا ہے روشنی ہو پئے رضا یا ربّ
سانپ لپٹیں نہ میرے لاش سے قبر میں کچھ نہ دے سزا یاربّ
نورِ احمد سے قبر روشن ہو وحشت قبر سے بچا یا ربّ
کردے جنّت میں تُو جوار اُن کا
اپنے عطار کو عطا یاربّ
عمل کا ہو جذبہ عطا یا الٰہی
گُناہوں سے مجھ کو بچا یا الٰہی
میں پانچوں نَمازیں پڑھوں با جماعت
ہو توفیق ایسی عطا یا الٰہی
میں پڑھتا رہوں سنّتیں، وَقت ہی پر
ہوں سارے نوافِل ادا یا الٰہی
دے شوقِ تلاوت دے ذَوقِ عبادت
رہوں باوُضو میں سدا یا الٰہی
ہمیشہ نگاہوں کو اپنی جھکا کر
کروں خاشِعانہ دُعا یا الٰہی
نہ “نیکی کی دعوت” میں سُستی ہو مجھ سے
بنا شائقِ قافِلہ یا الٰہی
سعادت ملے درسِ “فیضانِ سُنّت”
کی روزانہ دو مرتبہ یا الٰہی
میں مِٹّی کے سادہ برتن میں کھاؤں
چٹائی کا ہو بسترا یا الٰہی
ہے عالِم کی خدمت یقینًا سعادت
ہو توفیق اِس کی عطا یا الٰہی
“صدائے مدینہ” دوں روزانہ صَدقہ
ابو بکر و فاروق کا یا الٰہی
میں نیچی نگاہیں رکھوں کاش اکثر
عطا کر دے شَرم و حیا یا الٰہی
ہمیشہ کروں کاش پردے میں پردہ
تُو پیکر حیا کا بنا یا الٰہی
لباس سُنّتوں سے ہو آراستہ اور
عِمامہ ہو سر پر سجا یا الٰہی
سبھی مُشت داڑھی و گَیسو سجائیں
بنیں عاشقِ مصطفٰے یا الٰہی
ہر اِک انعام کاش! پاؤں
کرم کرپئے مصطَفٰے یا الٰہی
ہو اخلاق اچّھا ہو کردار سُتھرا
مجھے متقی تو بنا یا الٰہی
غصیلے مِزاج اور تمسخر کی خَصلت
سے عطار کو تُو بچا یا الٰہی
مٹا میرے رنج و اَلم یا الٰہی عطا کر مجھے اپنا غم یا الٰہی
شرابِ مَحبّت کچھ ایسی پلادے کبھی بھی نشہ ہونہ کم یا الٰہی
مجھے اپنا عاشِق بنا کر بنادے تُو سرتاپا تصویرِ غم یا الٰہی
فقط تیرا طالب ہوں ہر گز نہیں ہوں طلبگارِ جاہ و حشم یا الٰہی
جو عشقِ محمد میں آنسو بہائے عطا کر دے وہ حشمِ نَم یا الٰہی
شَرف حج کا دیدے چلے قافِلہ پھر مِرا کاش ! سُوئے حرم یا الٰہی
دکھا دے مدینے کی گلیاں دکھادے دکھا دے نبی کا حرم یا الٰہی
چلے جان اِس شان سے کاش یہ سر درِ مصطفٰے پہ ہو خَم یا الٰہی
مِرا سبز گُنبد کے سائے میں نکلے محمد کے قدموں میں دم یا الٰہی
عبادت میں لگتا نہیں دل ہمارا ہیں عِصیاں میں بدمست ہم یا الٰہی
مجھے دیدے ایمان پر استقامت پئے سیِّدِ محتشم یا الٰہی
مِرے سر پہ عِصیاں کا بار آہ مولٰی ! بڑھا جاتا ہے دم بدم یا الٰہی
زمیں بوجھ سے میرے پھٹتی نہیں ہے یہ تیرا ہی تو ہے کرم یا الٰہی
مجھے نارِ دوزخ سے ڈر لگ رہا ہے ہو مجھ ناتُواں پر کرم یا الٰہی
سدا کے لیے ہو جا راضی خدایا ہمیشہ ہو لُطف و کرم یا الٰہی
تو عطّار کو بے سبب بخش مولیٰ
کرم کر کرم کر کرم یا الٰہی
میں مکّے میں پھر آ گیا یا الٰہی کرم کا ترے شکریہ یا الٰہی
نہ کر رد کوئی التجا یا الٰہی ہو مقبول ہر اِک دُعا یا الٰہی
رہے ذکر آٹھوں پہر میرے لب پر تِرا یا الٰہی تِرا یا الٰہی
مِری زندگی بس تری بندگی میں ہی اے کاش گزرے سدا یا الٰہی
نہ ہوں اشک برباد دنیا کے غم میں محمد کے غم میں رُلا یا الٰہی
عطا کردے اِخلاص کی مجھ کو نعمت نہ نزدیک آئے رِیا یا الٰہی
مجھے اولیا کی محبّت عطا کر تُو دیوانہ کر غوث کا یا الٰہی
میں یادِ نبی میں رہوں گُم رہوں ہمیشہ مجھے اُن کے غم گُھلا یا الٰہی
مِرے بال بچّوں پہ سارے قبیلے پہ رَحمت ہو تیری سدا یا الٰہی
دے دیوانوں کو بلکہ سبھی کو مدینے کا غم یا خدا یا الٰہی
خدایا اجل آکے سر پر کھڑی ہے دِکھا جلوۂ مصطفٰے یا الٰہی
مِری لاش سے سانپ بچھو نہ لپٹیں کرم بَہرِ احمد رضا یا الٰہی
تو عطار کر سبز گُنبد کے سائے
میں کردے شہادت عطا یا الٰہی
تُو نے مجھ کو حج پہ بُلایا یا اللہ میری جھولی بھردے
گِرد کعبہ خوب پھرایا یا اللہ مِری جھولی بھر دے
میدانِ عرفات دکھا یا یا اللہ مِری جھولی بھر دے
بخش دے ہر حاجی کو خدایا یا اللہ مِری جھولی بھر دے
بہرِ کوثرو بِیرِ زم زم کردے کرم اے ربّ اکرم
حشر کی پیاس سے مجھ کو بچانا یا اللہ مِری جھولی بھر دے
مولیٰ مجھ کو نیک بنادے اپنی الفت دل میں بسا دے
بہرِ صفا اور بہرِ مروہ یا اللہ مِری جھولی بھر دے
یا اللہ یا رحمٰن یا حنّان یا منّانُ
بخش دے بخشے ہوؤں کا صدقہ یا اللہ مِری جھولی بھر دے
واسطہ نبیوں کے سَرور کا واسِطہ صِدّیق اور عُمر کا
واسِطہ عثمان و حیدر کا یا اللہ مِری جھولی بھر دے
نارِ جہنّم سے تُو بچانا خُلدِ بریں میں مجھ کو بسانا
یاربّ اَز پئے ابو حنیفہ یا اللہ مِری جھولی
سائل ہوں میں تیری وِلا کا پھیر دے رُخ ہر رنج وبلا کا
واسطہ شاہِ کرب و بلا کا
جنّت میں آقا کا پڑوسی
بن جائے عطّار الٰہی
بَہرِ رضا و قُطبِ مدینہ
یا اللہ مِری جھولی بھردے
یا رب پھر اوج پر یہ ہمارا نصیب ہو
سوئے مدینہ پھر ہمیں جانا نصیب ہو
مکہ بھی ہو نصیب مدینہ نصیب ہو
دشتِ عرب نصیب ہو صحرا نصیب ہو
حج کا سفر پھر اے مرے آقا ﷺ نصیب ہو
عرفات کا منٰی کا نظارا نصیب ہو
اللہ ! دید گنبد خضرا نصیب ہو
یار ب ! رسول ﷺپاک کا جلوہ نصیب ہو
چوموں عرب کی وادیاں اے کاش جا کے پھر
صحرا میں اُن ﷺ کے گھومنا پھرنا نصیب ہو
کعبے کے جلوؤں سے دل مضطر ہو شاد پھر
لطفِ طوافِ خانہ کعبہ نصیب ہو
یارب محمد ﷺ! میری تقدیر جگا دے
صحرائے مدینہ مجھے آنکھوں سے دکھا دے
پیچھا مرا دُنیا کی محبت سے چھڑادے
یا رب ! مجھے دیوانہ مدینے کا بنا دے
روتا ہوا جس دم میں درِ یار پہ پہنچوں
اُس وقت مجھے جلوۂ محبوب دِکھادے
دل عشقِ محمد ﷺ میں تڑپتا رہے ہر دم
سینے کو مدینہ میرے اللہ بنا دے
بہتی رہے ہر وقت جو سرکارﷺکے غم میں
روتی ہوئی وہ آنکھ مجھے میرے خدا دے
ایمان پہ دے موت مدینے کی گلی میں
مدفن مرا محبوب ﷺکے قدموں میں بنا دے
ہو بہرِ ضیاء نظر کرم سوئے گنہگار
جنت میں پڑوسی مجھے آقا ﷺکا بنادے
دیتا ہوں تجھے واسطہ میں پیارے نبی ﷺکا
اُمت کو خدایا رَہِ سنت پہ چلادے
عطار سے محبوب ﷺکی سنت کی لے خدمت
ڈنکا یہ ترے دین کا دُنیا میں بجادے
اللہ !ملے حج کی اسی سال سعادت
عطار کو پھر روضۂ محبوب ﷺ دکھادے
ہر خطا تو در گزر کر بیکس و مجبور کی
یا الٰہی ! مغفرت کر بیکس و مجبور کی
یا الٰہی ! کر دے پوری از پئے غوث و رضا رحمۃ اللہ علیہما
آرزوئے دید سرور بیکس و مجبور کی
زندگی اور موت کی ہے یا الٰہی کشمکش
جاں چلے تیری رضا پر بیکس و مجبور کی
اعلیٰ علیین میں یا رب ! اسے دینا جگہ
رُوح چلدے جب نکل کر بیکس و مجبور کی
یا خدا پوری تمنا ہو بقیع پاک کی
از پئے حسنین و حیدر بیکس و مجبور کی
واسطہ نور محمد ﷺ کا تجھے پیارے خدا !
گورِ تیرہ کر منور بیکس و مجبور کی
آپ ﷺ کے میٹھے مدینے میں پئے غوث و رضا
حاضری ہو یا نبی ﷺ! ہر بیکس و مجبور کی
آمنہ رضی اللہ عنہا کے لال! صدقہ فاطمہ رضی اللہ عنہا لال کا
دورساری آفتیں کر بیکس و مجبور کی
نفس و شیطانِ غالب آئے لو خبر اب جلد تر
یا رسول اللہ ﷺ! آکر بیکس و مجبور کی
جس کسی نے بھی دعاء کیواسطے یا رب !کہا
کر دے پوری آرزو ہر بیکس و مجبور کی
بہر شاہ کربلا ہو دور آقاﷺ ہر بلا
اے حبیب ﷺ ربِ داور! بیکس و مجبور کی
آپ ﷺ خود تشریف لائے اپنے بیکس کی طرف
“آہ” جب نکلی تڑپ کر بیکس و مجبور کی
اے مدینے کے مسافر ! تو کہانی درد کی
اُن سے کہنا خوب رو کر بیکس و مجبور کی
حال بگڑا ! رُوح تڑپی جب مدینہ چھپ گیا
جان تھی غمگین و مضطر بیکس و مجبور کی
آپ کے قدموں میں گر کر موت کی یاد مصطفٰے ﷺ
آرزو کب آئیگی بر؟ بیکس و مجبور کی
نامہ عطار میں حسن عمل کوئی نہیں
لاج رکھنا روزِ محشر بیکس و مجبور کی
اۓ مدینے کے تاجدار تجھے اہل ایمان سلام کہتے ہیں
تیرے عشاق تیرے دیوانے، جانِ جاناں سلام کہتے ہیں
تیری فرقت میں بے قرار ہیں جو ہجر طیبہ سے دل فگار ہیں
وہ طلب گارِ دیدار رو رو کر اے میری جان سلام کہتے ہیں
جن کو دُنیا کے غم ستاتے ہیں ٹھوکریں دربدر جو کھاتے ہیں
غم نصیبوں کے چارہ گر تم کو وہ پریشان سلام کہتے ہیں
عشق سرور میں جو تڑپتے ہیں حاضری کے لیے مچلتے ہیں
اذن طیبہ کی آس میں آقا وہ پُر ارمان سلام کہتے ہیں
تیرے روضے کی جالیوں کے قریں ساری دنیا سے میرے سردردیں
کتنے خوش بخت روز آ آکر تیرے مہمان سلام کہتے ہیں
آ رزوۓ حرم ہے سینے میں اب تو بلوائیے مدینے میں
تجھ سے تجھ ہی کو مانگتے ہیں جو وہ مسلمان سلام کہتے ہیں
آپ عطار کیوں پریشاں ہیں عاصیوں پر بھی وہ مہرباں ہیں
وہ کرم خاص ان پر کرتے ہیں جو مسلمان سلام کہتے ہیں
ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا مدینے کی
مہکی مہکی فضا مدینے کی
آرزو ہے خدا مدینے کی
مجھ کو گلیاں دکھا مدینے کی
دن ہے کیسا منوّر و روشن!
رات رونق فَزا مدینے کی
چھاؤں تو ہر جگہ کی ٹھنڈی پر
دھوپ بھی دِلرُبا مدینے کی
ہے پہاڑوں پر نور کی چادر
وادیاں دل کُشا مدینے کی
کیوں ہو مایوس اۓ مر یضو! تم
لے لو خاکِ شفا مدینے کی
کوئی ناکام لوٹتا ہی نہیں
راہ لے اۓ گدا !مدینے کی
میری قسمت میں کاتبِ تقدیر !
لکھ دے لکھ دے قضا مدینے کی
جا کے عؔطار پھر مدینے میں
رحمتیں لُوٹنا مدینے کی