نہ آیا ہوں نہ میں لایا گیا ہوں
میں حرف کن ہوں فرمایا گیا ہوں
مری اپنی نہیں ہے کوئی صورت
ہر اک صورت سے بہلایا گیا ہوں
بہت بدلے مرے انداز لیکن
جہاں کھویا وہیں پایا گیا ہوں
وجود غیر ہو کیسے گوارا
تری راہوں میں بے سایہ گیا ہوں
نہ جانے کون سی منزل ہے واصفؔ
جہاں نہلا کے بلوایا گیا ہوں
مقدر بانٹنے والا مقدر بانٹ دیتا ہے
کبھی قطرہ کبھی پورا سمندر بانٹ دیتا ہے
محبت اس کو ہو جائے تو پھر محبوب کی خاطر
زمین و آساں کا سارا لنگر بانٹ دیتا ہے
اگر محفوظ رکھنا چاہے اپنے گھر کو دشمن سے
ابابیلوں کے لشکر میں وہ کنکر بانٹ دیتا ہے
یہ ساری بے بسی ، کاسہ بدستی کیا تماشہ ہے؟
میرا مالک؛ اگر حصہ برابر بانٹ دیتا ہے
وہ جسکی آل کو امت نے عاشق تشنہ لب مارا
سنا ہے حشر میں وہ آب کوثر بانٹ دیتا ہے
عاصیوں کو در تمہارا مل گیا
بے ٹھکانوں کو ٹھکانہ مل گیا
فضلِ رب سے پھر کمی کس بات کی
مل گیا سب کچھ جو طیبہ مل گیا
کشفِ رازِ مَن رَّاٰنی یوں ہوا
تم ملے تو حق تعالیٰ مل گیا
بیخودی ہے باعثِ کشفِ ِحجاب
مل گیا ملنے کا رستہ مل گیا
ان کے دَر نے سب سے مستغنی کیا
بے طلب بے خواہش اتنا مل گیا
ناخدائی کے لئے آئے حضور
ڈوبتو نکلو سہارا مل گیا
دونوں عالم سے مجھے کیوں کھو دیا
نفسِ خود مطلب تجھے کیا مل گیا
آنکھیں پر نم ہو گئیں سر جھک گیا
جب ترا نقشِ کفِ پا مل گیا
خلد کیسا کیا چمن کس کا وطن
مجھ کو صحرائے مدینہ مل گیا
ہے محبت کس قدر نامِ خدا
نامِ حق سے نامِ والا مل گیا
ان کے طالب نے جو چاہا پالیا
ان کے سائل نے جو مانگا مل گیا
تیرے در کے ٹکڑے ہیں اور میں غریب
مجھ کو روزی کا ٹھکانا مل گیا
اے حسنؔ فردوس میں جائیں جناب
ہم کو صحرائے مدینہ مل گیا
سیر گلشن کون دیکھے دشتِ طیبہ چھوڑ کر
سوئے جنت کون جائے دَر تمہارا چھوڑ کر
سر گزشت غم کہوں کس سے تِرے ہوتے ہوئے
کس کے در پر جاؤں تیرا آستانہ چھوڑ کر
بے لقائے یار ان کو چین آ جاتا اگر
بار بار آتے نہ یوں جبریل سدرہ چھوڑ کر
کون کہتا ہے دلِ بے مُدَّعا ہے خوب چیز
میں تو کوڑی کو نہ لوں ان کی تمنا چھوڑ کر
مر ہی جاؤں میں اگر اس دَر سے جاؤں دو قدم
کیا بچے بیمارِ غم قربِ مسیحا چھوڑ کر
کس تمنا پر جئیں یارب اَسیرانِ قفس
آ چکی بادِ صبا باغِ مدینہ چھوڑ کر
بخشوانا مجھ سے عاصی کا رَوا ہو گا کسے
کس کے دامن میں چھپوں دامن تمہارا چھوڑ کر
خلد کیسا نفس سرکش جاؤں گا طیبہ کو میں
بد چلن ہٹ کر کھڑا ہو مجھ سے رَستہ چھوڑ کر
ایسے جلوے پر کروں میں لاکھ حوروں کو نثار
کیا غرض کیوں جاؤں جنت کو مدینہ چھوڑ کر
حشر میں ایک ایک کا مونھ تکتے پھرتے ہیں عدو
آفتوں میں پھنس گئے اُن کا سہارا چھوڑ کر
مر کے جیتے ہیں جو اُن کے دَر پہ جاتے ہیں حسنؔ
جی کے مرتے ہیں جو آتے ہیں مَدینہ چھوڑ کر
تمہارا نام مصیبت میں جب لیا ہوگا ہمارا بگڑا ہوا کام بن گیا ہوگا گناہگار پہ جب لطف آپ کا ہوگا کیا بغیر کیا بے کیا کیا ہوگا خدا کا لطف ہوا ہوگا دست گیر ضرور جو گرتے گرتے ترا نام لے لیا ہوگا دکھائی جائے گی محشر میں شانِ محبوبی کہ آپ ہی کی خوشی آپ کا کہا ہوگا خدائے پاک کی چاہیں گے اَگلے پچھلے خوشی خدائے پاک خوشی اُن کی چاہتا ہوگا کسی کے پاؤں کی بیڑی یہ کاٹتے ہونگے کوئی اَسیر غم ان کو پکارتا ہوگا کسی طرف سے صدا آئے گی حضور آؤ نہیں تو دَم میں غریبوں کا فیصلہ ہوگا کسی کے پلہ پہ یہ ہوں گے وقت وَزنِ عمل کوئی اُمید سے مونھ ان کا تک رہا ہوگا کوئی کہے گا دُہائی ہے یَا رَسُوْلَ اللّٰہ تو کوئی تھام کے دامن مچل گیا ہوگا کسی کو لے کے چلیں گے فرشتے سوئے جحیم وہ اُن کا راستہ پھر پھر کے دیکھتا ہوگا |
ایسا تجھے خالق نے طرح دار بنایا
یوسف کو ترا طالب دیدار بنایا
طلعت سے زمانہ کو پراَنوار بنایا
نکہت سے گلی کوچوں کو گلزار بنایا
دیواروں کو آئینہ بناتے ہیں وہ جلوے
آئینوں کو جن جلوؤں نے دیوار بنایا
وہ جنس کیا جس نے جسے کوئی نہ پوچھے
اس نے ہی مرا تجھ کو خریدار بنایا
اے نظم رسالت کے چمکتے ہوئے مقطع
تو نے ہی اِسے مطلعِ اَنوار بنایا
کونین بنائے گئے سرکار کی خاطر
کونین کی خاطر تمہیں سرکار بنایا
کنجی تمہیں دی اپنے خزانوں کی خدا نے
محبوب کیا مالک و مختار بنایا
اللّٰہ کی رحمت ہے کہ ایسے کی یہ قسمت
عاصی کا تمہیں حامی و غمخوار بنایا
آئینۂ ذات احدی آپ ہی ٹھہرے
وہ حسن دیا ایسا طرح دار بنایا
اَنوارِ تجلی سے وہ کچھ حیرتیں چھائیں
سب آئینوں کو پشت بدیوار بنایا
عالم کے سلاطین بھکاری ہیں بھکاری
سرکار بنایا تمہیں سرکار بنایا
عجب رنگ پر ہے بہارِ مدینہ کہ سب جنّتیں ہیں نثارِ مدینہ مبارک رہے عَنْدَلِیبو تمہیں گُل ہمِیں گُل سے بہتر ہیں خارِ مدینہ مَلائِک لگاتے ہیں آنکھوں میں اپنی شب و روز خاکِ مزارِ مدینہ رہیں ان کے جلوے بسیں ان کے جلوے مِرا دل بنے یادگارِ مدینہ دو عالَم میں بٹتا ہے صدقہ یہاں کا ہمیں اِک نہیں ریزہ خوارِ مدینہ بنا آسماں منزلِ اِبنِ مریم گئے لامَکاں تاجدارِ مدینہ شَرَف جن سے حاصل ہوا انبیا کو وہی ہیں حسنؔ اِفتخارِ مدینہ |
لب پر نعت پاک کا نغمہ کل بھی تھا اور آج بھی ہے
میرے نبی سے میرا رشتہ کل بھی تھا اور آج بھی ہے
اور کسی جانب کیوں جائیں اور کسی کو کیوں دیکھیں
اپنا سب کچھ گنبد خضریٰ کل بھی تھا اور آج بھی ہے
پست وہ کیسے ہو سکتا ہے جس کو حق نے بلند کیا
دونوں جہاں میں اُن کا چرچہ کل بھی تھا اور آج بھی ہے
فکر نہیں ہے ہم کو کچھ بھی دکھ کی دھوپ کڑی تو کیا
ہم پر اُن کے فضل کا سایہ کل بھی تھا اور آج بھی ہے
بتلا دو گستاخ نبی کو غیرت مسلم زندہ ہے
اُن پر مر مٹنے کا جذبہ کل بھی تھا اور آج بھی ہے
جن آنکھوں سے طیبہ دیکھا وہ آنکھیں بے تاب ہیں پھر
ان آنکھوں میں ایک تقاضا کل بھی تھا اور آج بھی ہے
سب ہو آئے ان کے در سے جا نہ سکا تو ایک صبیح
یہ کہ اک تصویر تمنا کل بھی تھا اور آج بھی ہے
واہ کیا جود و کرم ہے شہ بطحیٰ تیرا
کوئی دنیائے عطا میں نہیں ہمتا تیرا
ہو جو حاتم کو میسر یہ نظارا تیرا
کہہ اٹھے دیکھ کے بخشش میں یہ رتبہ تیرا
واہ کیا جود و کرم ہے شہ بطحیٰ تیرا
نہیں سنتا ہی نہیں مانگنے والا تیرا
کچھ بشر ہونے کے ناتے تجھے خود سا جانیں
اور کچھ محض پیامی ہی خدا کا جانیں
اِن کی اوقات ہی کیا ہے کہ یہ اتنا جانیں
فرش والے تری عظمت کا علو کیا جانیں
خسروا عرش پہ اڑتا ہے پھریرا تیرا
جو تصور میں ترا پیکر زیبا دیکھیں
روئے والشمس تکیں ، مطلع سیما دیکھیں
کیوں بھلا اب وہ کسی اور کا چہرا دیکھیں
تیرے قدموں میں جو ہیں غیر کا منہ کیا دیکھیں
کون نظروں پہ چڑھے دیکھ کے تلوا تیرا
مجھ سے ناچیز پہ ہے تیری عنایت کتنی
تو نے ہر گام پہ کی میری حمایت کتنی
کیا بتاؤں تری رحمت میں ہے وسعت کتنی
ایک میں کیا مرے عصیاں کی حقیقت کتنی
مجھ سے سو لاکھ کو کافی ہے اشارہ تیرا
کئی پشتوں سے غلامی کا یہ رشتہ ہے بحال
یہیں طفلی و جوانی کے بِتائے ماہ و سال
اب بڑھاپے میں خدارا ہمیں یوں در سے نہ ٹال
تیرے ٹکڑوں پہ پلے غیر کی ٹھوکر پہ نہ ڈال
جھڑکیاں کھائیں کہاں چھوڑ کے صدقہ تیرا
غمِ دوراں سے گھبرائیے ، کس سے کہیے
اپنی الجھن کسے بتلائیے ، کس سے کہیے
چیر کر دل کسے دکھلائیے ، کس سے کہیے
کس کا منہ تکیے ، کہاں جائیے ، کس سے کہیے
تیرے ہی قدموں پہ مٹ جائے یہ پالا تیرا
نذرِ عشاقِ نبی ہے یہ مرا حرفِ غریب
منبرِ وعظ پر لڑتے رہیں آپس میں خطیب
یہ عقیدہ رہے اللہ کرے مجھ کو نصیب
میں تو مالک ہی کہوں گا کہ ہو مالک کے حبیب
یعنی محبوب و محب میں نہیں میرا تیرا
خوگرِ قربت و دیدار پہ کیسی گزرے
کیا خبر اس کے دلِ زار پہ کیسی گزرے
ہجر میں اس ترے بیمار پہ کیسی گزرے
دور کیا جانیے بدکار پہ کیسی گزرے
تیرے ہی در پہ مرے بیکس و تنہا تیرا
تجھ سے ہر چند وہ ہیں قدر و فضائل میں رفیع
کر نصیر آج مگر فکرِ رضا کی توسیع
پاس ہے اس کے شفاعت کا وسیلہ بھی وقیع
تیری سرکار میں لاتا ہے رضا اس کو شفیع
جو مرا غوث ہے اور لاڈلا بیٹا تیرا
نعمتیں بانٹتا جس سمت وہ ذیشان گیا
یہ وہ سچ ہے کہ جسے ایک جہاں مان گیا
در پہ آیا جو گدا ، بن کے وہ سلطان گیا
اس کے اندازِ نوازش پہ میں قربان گیا
نعمتیں بانٹا جس سمت وہ ذی شان گیا
ساتھ ہی منشیِ رحمت کا قلمدان گیا
تجھ سے جو پھیر کے منہ ، جانب قران گیا
سرخرو ہو کے نہ دنیا سے وہ انسان گیا
کتنے گستاخ بنے ، کتنوں کا ایمان گیا
لے خبر جلد کہ اوروں کی طرف دھیان گیا
مرے مولی ، مرے آقا ، ترے قربان گیا
محو نظارہ سرِ گنبد خضری ہی رہی
دور سے سجدہ گزارِ درِ والا ہی رہی
روبرو پا کے بھی محرومِ تماشا ہی رہی
آہ ! وہ آنکھ کہ ناکامِ تمنا ہی رہی
ہائے وہ دل جو ترے در سے پر ارمان گیا
تیری چاہت کا عمل زیست کا منشور رہا
تیری دہلیز کا پھیرا ، میرا دستور رہا
یہ الگ بات کہ تو آنکھ سے مستور رہا
دل ہے وہ دل جو تری یاد سے معمور رہا
سر وہ سر ہے جو ترے قدموں پہ قربان گیا
دوستی سے کوئی مطلب ، نہ مجھے بیر سے کام
ان کے صدقے میں کسی سے نہ پڑا خیر سے کام
ان کا شیدا ہوں ، مجھے کیا حرم و دیر سے کام
انہیں مانا ، انہیں جانا ، نہ رکھا غیر سے کام
للہ الحمد میں دنیا سے مسلمان گیا
احترامِ نبوی داخلِ عادت نہ سہی
شیرِ مادر میں اصیلوں کی نجابت نہ سہی
گھر میں آداب رسالت کی روایت نہ سہی
اور تم پر مرے آقا کی عنایت نہ سہی
نجدیو! کلمہ پڑھانے کا بھی احسان گیا
بام مقصد پر تمناؤں کے زینے پہنچے
لبِ ساحل پہ نصیر ان کے سفینے پہنچے
جن کو خدمت میں بلایا تھا نبی نے ، پہنچے
جان و دل ، ہوش و خرد ، سب تو مدینے پہنچے
تم نہیں چلتے رضا سارا تو سامان گیا
تيرے ہوتے جنم ليا ہوتا
کوئی مُجھ سا ، نہ دُوسرا ہوتا
سانس لیتا توں، اور میں جی اُٹھتا
کاش مکّہ کی میں فضا ہوتا
ہِجرتوں ميں پڑاؤ ہوتا ميں
اور تُو کُچھ دير کو رُکا ہوتا
تيرے حُجرے کے آس پاس کہيں
ميں کوئی کچاراستہ ہوتا
بيچ طائف بوقتِ سنگ زنی
تيرے لب پر سجی دُعا ہوتا
کِسی غزوہ ميں زخمی ہو کر ميں
تيرے قدموں پہ جاگِرا ہوتا
کاش اُحد ميں شريک ہو سکتا
اور باقی نا پِھر بچا ہوتا
تیری کملی کا سوت کیوں نہ ہوا
کہ تیرے شانوں پہ جھولتا ہوتا
چوب ہوتا میں تیری چوکھٹ کی
یا تیرے ہاتھ کا عصا ہوتا
تيری پاکيزہ زِ ندگی کا ميں
کوئی گُمنام واقِعہ ہوتا
لفظ ہوتا میں کسی آیت کا
جو تیرے ہونٹ سے ادا ہوتا
ميں کوئی جنگجُو عرب ہوتا
جو تيرے سامنے جُھکا ہوتا
ميں بھی ہوتا تيرا غُلام کوئی
لاکھ کہتا ، نہ ميں رِہا ہوتا
سوچتا ہوں تب جنم لیا ہوتا
جانے پھر کیا سے کیا ہوا ہوتا
چاند ہوتا تیرے زمانے کا
پھر تیرے حکم سے بٹا ہوتا
پانی ہوتا اُداس چشموں کا
تیرے قدموں میں بہہ گیا ہوتا
پودا ہوتا میں جلتے صحرا میں
اور تیرے ہاتھ سے لگا ہوتا
تیری صحبت مجھے ملی ہوتی
میں بھی تب کتنا خوش نما ہوتا
مجھ پر پڑتی جو تیری نظر کرم
آدمی کیا، میں معجزہ ہوتا
ٹکڑا ہوتا ، میں ایک بادل کا
اور تیرے ساتھ گھومتا ہوتا
آسماں ہوتا، عُہد نبوی کا
تجھ کو حیرت سے دیکھتا ہوتا
خاک ہوتا ميں تيری گليوں کی
اور تيرے پاؤں چُومتا ہوتا
پيڑہوتا کھجُور کا ميں کوئی
جِس کا پھل تُو نے کھا ليا ہوتا
بچّہ ہوتا اِک غريب بيوہ کا
سر تيری گود ميں چُھپا ہوتا
رستہ ہوتا تيرے گُزرنے کا
اور تيرا رستہ ديکھتا ہوتا
بُت ہی ہوتا ميں خانہ کعبہ کا
جو تيرے ہاتھ سے فنا ہوتا
مُجھ کو خالق بناتا غار ،حسن
اور ميرا نام بھی حِرا ہوتا
محمد کا روضہ قریب آ رہا ہے
بلندی پہ اپنا نصیب آ رہا ہے
فرشتو! یہ دے دو پیغام انکو
خبر جا کے دے دو انکو فرشتوں
کہ خادم تمھارا سعید آ رہا ہے
مدینہ ، مدینہ ، مدینہ ، مدینہ
بڑا لطف دیتا ہے نام مدینہ
وفا تم نہ دیکھو گے ہرگز کسی میں
زمانہ وہ ایسا قریب آ رہا ہے
حفاظت کرو اپنے ایمان و دیں کی
زمانہ وہ ایسا عجیب آ رہا ہے
محمد کا روضہ قریب آ رہا ہے
بلندی پہ اپنا نصیب آ رہا ہے
فرشتو! یہ دے دو پیغام انکو
خبر جا کے دے دو انکو فرشتو
کہ خادم تمھارا سعید آ رہا ہے
مدینہ ، مدینہ ، مدینہ ، مدینہ
بڑا لطف دیتا ہے نام مدینہ
تمہیں کچھ خبر ہے کہاں جا رہا ہوں
رسولِ خدا ہیں وہاں جا رہا ہوں
تمہیں کچھ خبر ہے میں کیا پا رہا ہوں
محبت کا انکی مزہ پا رہا ہوں
چلو جا کے رہنا مدینے میں اب تو
قیامت کا منظر قریب آ رہا ہے
فرشتو یہ دے دو پیغام انکو
خبر جا کے دے دو انکو فرشتوں
کہ خادم تمھارا سعید آ رہا ہے
مدینہ ، مدینہ ، مدینہ ، مدینہ
بڑا لطف دیتا ہے نام مدینہ
نگاہوں میں سلطانیت ہیچ ہو گی
جو پائے گا دل میں پیام مدینہ
سکونِ جہاں تم کہاں ڈھونڈتے ہو
سکونِ جہاں ہے نظام مدینہ
مدینہ ، مدینہ ، مدینہ ، مدینہ
بڑا لطف دیتا ہے نام مدینہ
محمد کا روضہ قریب آ رہا ہے
بلندی پہ اپنا نصیب آ رہا ہے
محمد کا روضہ قریب آ رہا ہے
بلندی پہ اپنا نصیب آ رہا ہے
فرشتو یہ دے دو پیغام انکو
خبر جا کے دے دو انکو فرشتوں
کہ خادم تمھارا سعید آ رہا ہے
مصطفٰے شانِ قدرت پہ لاکھوں سلام
اولیں نقشِ خلقت پہ لاکھوں سلام
قائلِ وحدہٗ لاشریک لہٗ
ماحی بدعت پہ پہ لاکھوں سلام
بھیڑ میں چوم لیں شاہ کی جالیاں
اے نظر تیری ہمت پہ لاکھوں سلام
کس کی چوکھٹ پہ دے رہا ہے تو صدا
اے گدا تیری قسمت پہ لاکھوں سلام
ان کی آمد کا سن کر جو ہوگا بپا
ایسے شورِ قیامت پہ لاکھوں سلام
چار یارانِ حضرت پہ ہر دم درود
ان کے دورِ خلافت پہ لاکھوں سلام
شاہِ بغداد غوث الورٰی محیِ دیں
آبروئے طریقت پہ لاکھوں سلام
کیجیے بند آنکھیں نصیرؔ اور پھر
بھیجیے ان کی صورت پہ لاکھوں سلام
لیتا ہوں اس کا نام بھی آہ و بکا کے ساتھ
کتنا حسین رشتہ ہے میرا خدا کے ساتھ
اس کی قبولیت میں کوئی شک نہیں رہا
بھیجے ہیں ہم نے اشک بھی اب کے دعا کے ساتھ
بجھتے ہوئے چراغ کو ہاتھوں میں لے لیا
اس بار بازی جیت لی میں نے ہوا کے ساتھ
آ کے بچا لے موت مجھے زندگی سے تو
کتنی گزاروں اور میں اس بے وفا کے ساتھ
طوفاں میں مجھ کو بننا پڑا اس کے دست و پا
ساحلؔ وگرنہ بنتی نہ تھی نا خدا کے ساتھ
آج مے خانے میں نیت میری بھر جانے دے
بادۂ ناب کے ساقی مجھے پیمانے دے
کس کو معلوم کہ کل کون رہے گا زندہ
آج رندوں کو ذرا پی کے بہک جانے دے
دیکھ اے دل نہ آنچ آئے وفا پر کوئی
جو بھی آتی ہے مصیبت میرے سر آنے دے
تجھ سے بھی دست و گریباں کبھی ہو گا واعظ
وحشیٔ عشق کو رنگ اور ذرا لانے دے
اے مرے دست جنوں بڑھ کے الٹ دے پردہ
حسن شرمانے پہ مائل ہے تو شرمانے دے
اک دو جام سے کیا پیاس بجھے گی ساقی
مے پلاتا ہے تو ایسے کئی پیمانے دے
عشق ہے عشق نصیرؔ ان سے شکایت کیسی
وہ جو تڑپانے پہ آمادہ ہیں تڑپانے دے
یا رب سنائیں ہم کسے اب مدعاۓ دل
ہیں نہیں جہاں میں حاجت روائے دل
کیا کہئے بحر شوق اب ماجرائے دل
دل ہے سفینہ اور وہ ہیں نا خدائے دل
آئینۂ حیات کی تکمیل کے لئے
لازم ہے کائنات میں صدق و صفائے دل
دل اور درد دونوں میں اک ربط خاص ہے
دل آشنائے درد ہے درد آشنائے دل
ہر ٹیس جس کی تیری طرف ملتفت کرے
یا رب وہ درد چاہیے مجھ کو برائے دل
دنیائے دل کا حال نہ پوچھو فراق میں
مصروف انتظار ہیں صبح و مسائے دل
صدہا اٹھائیں دل کی بدولت صعوبتیں
دیکھو نصیرؔ اور ابھی کیا کیا دکھائے دل
سر ہے خَم ہاتھ میرا اُٹھا ہے یاخدا تجھ سے میری دُعا ہے
فَضْل کی رَحْم کی التجا ہے یاخدا تجھ سے میری دُعا ہے
تیرا اِنْعام ہے یاالٰہی کیسا اِکْرام ہے یاالٰہی
ہاتھ میں دامنِ مصطفےٰ ہے یاخدا تجھ سے میری دُعا ہے
عشق دے سوز دے چشمِ نم دے مجھ کو میٹھے مدینے کا غم دے
واسِطہ گنبدِ سبز کا ہے یاخدا تجھ سے میری دُعا ہے
ہوں بظاہر بڑا نیک صورت کربھی دے مجھ کو اب نیک سیرت
ظاہِر اچھا ہے باطِن بُرا ہے یاخدا تجھ سے میری دُعا ہے
میرے مُرشِد جو غوثُ الْوَرا ہیں شاہ احمد رضا رہنما ہیں
یہ تِرا لُطف تیری عطا ہے یاخدا تجھ سے میری دعا ہے
یاخدا ایسے اسباب پاؤں کاش مکے مدینے میں جاؤں
مجھ کو ارمان حج کا بڑا ہے یاخدا تجھ سے میری دعا ہے
یاالٰہی کر ایسی عنایت دیدے ایمان پر استقامت
تجھ سے عطّاؔر کی التجا ہے یاخدا تجھ سے میری دعا ہے
Sar hay kham haath mayra utha hay, Ya Khuda Tujh say mayri Du’a hay
Fazl ki rahm ki iltija hay, Ya Khuda Tujh say mayri Du’a hay
Tayra in’aam hay Ya Ilahi, kaysa ikraam hay Ya Ilahi
Haath mayn daman-e-Mustafa hay, Ya Khuda Tujh say mayri Du’a hay
‘Ishq day, sauz day, chashm-e-nam day, mujh ko meethay Madinay ka gham day
Wasitah Gumbad-e-Sabz ka hay, Ya Khuda Tujh say mayri Du’a hay
Hoon ba-zaahir bara nayk soorat, ker bhi day mujh ko ab nayk seerat
Zaahir achcha hay baatin bura hay, Ya Khuda Tujh say mayri Du’a hay
Mayray murshid jo Ghaus-ul-Wara hayn, Shah Ahmad Raza rahnuma hayn
Yeh Tayra lutf Tayri ‘ata hay, Ya Khuda Tujh say mayri Du’a hay
Ya Khuda aysay asbab paoon, kash Makkay Madinay mayn jaoon
Mujh ko arman Hajj ka bara hay, Ya Khuda Tujh say mayri Du’a hay
Ya Ilahi ker aysi ‘inayat, day day Iman per istiqamat]
Tujh say ‘Attar ki iltija hay, Ya Khuda Tujh say mayri Du’a hay
الٰہی ! میں ہوں بس خطاوار تیرا مجھے بخش ! دے نام غفار تیرا مرض لادوا کی دوا کس سے چاہوں تو شافی ہے میرا ، میں بیمار تیرا کہاں جائے ، جب کہ نہ ہو کوئی تجھ بِن کسے ڈھونڈے ، جو ہو طلب گار تیرا خبر لیجیو ! میری اِس دم الٰہی کُھلے جب کہ بخشش کا بازار تیرا نہ ڈر دشمنوں سے رہا مجھ کو جب سے کہا تو نے میں ہو مدد گار تیرا الٰہی ! رہے وقت مرنے کے جاری بہ تصدیقِ دل لب پہ اقرار تیرا نہیں دونوں عالم سے کچھ مجھ کو مطلب تو مطلوب ، میں ہوں طلب گار تیرا نہ ڈر فوجِ عصیاں سے ، گرچہ بہت ہے کہ ہے رحم حق کا مدد گار تیرا |
حبیب کبریا کے ہمنوا فاروق اعظم ہیں
یقیناً متقی وپار سا فاروق اعظم ہیں
ہےلرزہ ان کےنام پاک سےشیطان کا لشکر
جلال وشان میں بیحد جدا فاروق اعظم ہیں
نزولِ آیتِ فرقاں ہوٸی تجویز پر جن کے
خوشا اس اوج پر جلوہ نما فاروق اعظم ہیں
زمانے نے سبق سیکھا ہے جن کی ذات سے حق کا
وہی ہاں واقف سرّ خدا فاروق اعظم ہیں
کبھی ان کی حیاتِ جاں فزا پڑھ کر ذرا دیکھو
تمہیں معلوم ہوگا پھر کہ کیا فاروق اعظم ہیں
درِ فاروق سے اے عارفہ جو لینا ہے لے لو خدا کے فضل سے حاجت روا فاروق اعظم ہیں
ان کا در چومنے کا صلہ مل گیا سر اٹھایا تو مجھ کو خدا مل گیا عاصیوں کو بڑا رتبہ مل گیا حشر میں دامن مصطفی مل گیا ان کھجوروں کے جھر مٹ میں کیا مل گیا باغ خلد بریں کا پتہ مل گیا خود تھپیڑوں نے آکر سہارا دیا کملی والے سا جب نا خدا مل گیا جس کو طیبہ کی ٹھندی ہوا مل گئی بس اسے زندگی کا مزہ مل گیا اٹھتے ہی پردہ میم معراج میں نور ہی نور کا سلسلہ مل گیا کچھ نہ پوچھو کہ میں کیسے بے کل ہوا مجھ کو کملی میں راز خدا مل گیا |