کوئی تو ہے جو نظامِ ہستی چلا رہا ہے ، وہی خدا ہے
دکھائی بھی جو نہ دے ، نظر بھی جو آرہا ہے وہی خدا ہے

تلاش اُس کو نہ کر بتوں میں ، وہ ہے بدلتی ہوئی رُتوں میں
جو دن کو رات اور رات کو دن بنا رہا ہے ، وہی خدا ہے

وہی ہے مشرق وہی ہے مغرب ، سفر کریں سب اُسی کی جانب
ہر آئینے میں جو عکس اپنا دکھا رہا ہے ، وہی خدا ہے

کسی کو سوچوں نے کب سراہا ، وہی ہوا جو خدا نے چاہا
جو اختیارِ بشر پہ پہرے بٹھا رہا ہے ، وہی خدا ہے

نظر بھی رکھے ،سماعتیں بھی ، وہ جان لیتا ہے نیتیں بھی
جو خانہء لاشعور میں جگمگا رہا ہے ، وہی خدا ہے

کسی کو تاجِ وقار بخشے ، کسی کو ذلت کے غار بخشے
جو سب کے ماتھے پہ مہرِ قدرت لگا رہا ہے ، وہی خدا ہے

سفید اُس کا سیاہ اُس کا ، نفس نفس ہے گواہ اُس کا
جو شعلہء جاں جلا رہا ہے ، بُجھا رہا ہے ، وہی خدا ہے

Poet :Muzaffar Warsi

No comments yet

کیا خبر کیا سزا مجھ کو ملتی ، میرے آقا نےعزت بچالی

فردِ عصیاں مری مجھ سے لےکر، کالی کملی میں اپنی چھپالی

 

وہ عطا پر عطا کرنےوالے اور ہم بھی نہیں ٹلنے والے

جیسی ڈیوڑھی ہے ویسے بھکاری، جیسا داتا ہے ویسےسوالی

 

میں گدا ہوں مگر کس کےدر کا؟ وہ جو سلطانِ کون و مکاں ہیں

یہ غلامی بڑی مستند ہی، میرے سر پر ہے تاجِ بلالی

 

میری عمرِ رواں بس ٹھہر جا، اب سفر کی ضرورت نہیں ہے

ان کےقدموں میں میری جبیں ہے اور ہاتھوں میں روضے کی جالی

 

اِس کو کہتےہیں بندہ نوازی ، نام اِس کا ہے رحمت مزاجی

دوستوں پر بھی چشمِ کرم ہے، دشمنوں سےبھی شیریں مقالی

 

میں مدینے سےکیا آگیا ہوں ، زندگی جیسےبجھ سی گئی ہے

گھر کےاندر فضا سونی سونی، گھر کےباہر سماں خالی خالی

 

کوئی بادِ مخالف سے کہدے، اب مری روشنی مجھ سے چھینے

میں نے آنکھوں کی شمعیں بجھا کر، دل میں طیبہ کی شمع جلالی

 

میں فقط نام لیوا ہوں ان کا، ان کی توصیف میں کیا کروں گا

میں نہ اقبؔال خسرؔو، نہ سعدؔی ، میں نہ قدسؔی نہ جامؔی ، نہ حاؔلی

Poet :Prof: Iqbal Azeem

No comments yet

اے شاہ شب اسریٰ کونین کے رکھوالے

کالی کملی والے

اے شاہ شب اسریٰ کونین کے رکھوالے

دربار الگ تیرا

جبریل ترا خادم محتاج ہے جگ تیرا

بگڑی کو سنواریں گے

دکھ درد کے عالم میں تجھ کو ہی پکاریں گے

کیوں اور کسی گھر سے

جو کچھ ہمیں ملنا ہے ملنا ہے ترے در سے

چوکھٹ تری عالی ہے

کچھ بھیک ملے آقا جھولی میری خالی ہے

ملنے ہی نہیں جاتا

شاہوں کو تیرا منگتا خاطر میں نہیں لاتا

اب کون ہمارا ہے

دولہا شب اسریٰ کے اک تیرا سہارا ہے

No comments yet

کیا حمد کر سکے گی میری زبان تیری

ساری نشانیاں ہیں اے بے نشان تیری

عقل وشعور تک کی ہوتی نہیں رسائی

کیا ذات پاسکیں گے وہم وگمان تیری

کون و مکاں کی ہر شے لبّیک کہہ رہی ہے

ہر سمت گونجتی ہے پیہم اذان تیری

جو شے ہے صرف تیری اے خالقِ دو عالم

ہر ایک جسم تیرا ہر ایک جان تیری

ہے تیری کبریائی ثابت بہر قرینہ

باطن ہے شان تیری ظاہر ہے شان تیری

تیری ربوبیت کی آغوش ہے کشادہ

ہر امن کی امیں ہے بےشک امان تیری

خالد کو بندگی کا اِخلاص تو نے بخشا

چاہی ہے اِستِعانت اے مستعان تیری

No comments yet

کیسے کاٹوں رَتیاں صابر

تارے ِگنت ہوں سیاں صابر

مورے کرجوا ہوک اُٹھت ہے

مو کو لگالے چھتیاں صابر

توری صورتیا پیاری پیاری

اچھی اچھی بتیاں صابر

چیری کو اپنے چرنوں لگالے

میں پروں تورے پیاں صابر

ڈولے نیا موری بھنور میں

بلما پکڑے بیاں صابر

No comments yet

کس سے مانگیں، کہاں جائیں ، کس سے کہیں ، اور دنیا میں حاجت روا کون ہے

سب کا داتا ہے تو ، سب کو دیتا ہے تو ، تیرے بندوں کا تیرے سوا کون ہے

کون مقبول ہے، کون مردود ہے، بے خبر! کیا خبر تجھ کو کیا کون ہے

جب تُلیں گے عمل سب کے میزان پر، تب کھلے گا کہ کھوٹا کھرا کون ہے

کون سنتا ہے فریاد مظلوم کی ، کس کے ہاتھوں میں کنجی ہے مقسوم کی

رزق پر کس کے پلتے ہیں شاہ وگدا، مسند آرائے بزمِ عطا کون ہے

اولیا تیرے محتاج اے ربّ کل ، تیرے بندے ہیں سب انبیاء ورُسُل

ان کی عزت کا باعث ہے نسبت تری ، ان کی پہچان تیرے سوا کون ہے

میرا مالک مری سن رہا ہے فغاں ، جانتا ہے وہ خاموشیوں کی زباں

اب مری راہ میں کوئی حائل نہ ہو ، نامہ بر کیا بلا ہے، صبا کون ہے

ابتدا بھی وہی ، انتہا بھی وہی ، ناخدا بھی وہی ، ہے خدا بھی وہی

جو ہے سارے جہانوں میں جلوہ نما ، اس اَحَد کے سوا دوسرا کون ہے

وہ حقائق ہوں اشیاء کے یا خشک وتر ، فہم وادراک کی زد میں ہیں سب ،مگر

ماسوا ایک اس ذاتِ بے رنگ کے ، فہم وادراک سے ماورٰی کون ہے

انبیا، اولیا، اہل بیت نبی ، تابعین و‌صحابہ پہ جب آ بنی

گر کے سجدے میں سب نے یہی عرض کی، تو نہیں ہے تو مشکل کشا کون ہے

اہل فکر ونظر جانتے ہیں تجھے ، کچھ نہ ہونے پہ بھی مانتے ہیں تجھے

اے نصیرؔ اس کو تو فضلِ باری سمجھ ، ورنہ تیری طرف دیکھتا کون ہے

No comments yet

کچھ غم نہیں اگر چہ زمانہ ہو بر خلاف
ان کی مدد رہے تو کرے کیا اثر خلاف

ان کا عدو اسیر ِ بلائے نفاق ہے
ان کی زبان و دل میں رہے عمر بھر خلاف

ان کی وجاہتوں میں کمی ہو محال ہے
بالفرض اک زمانہ ہو ان سے اگر خلاف

اٹھوں جو خواب مرگ سے آئے شمیم ِ یار
یار ب نہ صبح حشر ہو باد ِ سحر خلاف

قربان جاؤں رحمتِ عاجز نواز پر
ہوتی نہیں غریب سے ان کی نظر خلاف

شانِ کرم کسی سے عوض چاہتی نہیں
لاکھ امتثال ِ امر میں دِل ہو ادھر خلاف

کیا رحمتیں ہیں لطف میں پھر بھی کمی نہیں
کرتے رہے ہیں حکم سے ہم عمر بھر خلاف

تعمیل حکمِ حق کا حسؔن ہے اگر خیال
ارشاد پاکِ سرورِ دیں کا نہ کر خلاف

Comments are off for this post

کعبہ سے اگر تربتِ شہ فاضل ہے
کیوں بائیں طرف اُس کے لیے منزل ہے

اس فکر میں جو دل کی طرف دھیان گیا
سمجھا کہ وہ جسم ہے یہ مرقد دل ہے

تم چاہو تو قِسمت کی مصیبت ٹل جائے
کیوں کر کہوں ساعت ہے قیامت ٹل جائے

لِلّٰہ اٹھا دو رُخ روشن سے نقاب
مولیٰ مری آئی ہوئی شامَت ٹل جائے

No comments yet

کِس کے جلوہ کی جھلک ہے یہ اجالا کیا ہے
ہر طرف دیدہ ٔ حیرت زدہ تکتا کیا ہے

مانگ من مانتی منھ مانگی مُراد یں لے گا
نہ یہاں “نا” ہے نہ منگتا سے یہ کہنا “کیا ہے ”

پند کڑوی لگی ناصح سے ترش ہوا ے نفس
زہر عِصیاں میں سِتمگر تجھے میٹھا کیا ہے

ہم ہیں اُن کے وہ ہیں تیرے تو ہوئے ہم تیرے
اس سے بڑھ کر تِری سمت اور وسیلہ کیا ہے

ان کی امّت میں بنا یا انہیں رحمت بھیجا
یوں نہ فرما کہ ترارحم میں دعویٰ کیا ہے

صدقہ پیارے کی حیا کا کہ نہ لے مجھ سے حساب
بخش بے پوچھے لجائے کو لجانا کیا ہے

زاہد اُن کا میں گنہ گار وہ میرے شافع
اتنی نِسبت مجھے کیا کم ہے تو سمجھا کیا ہے

بے بسی ہو جو مجھے پرسش ِ اعمال کے وقت
دوستو! کیا کہوں اُس وقت تمنّا کیا ہے

کاش فریاد مری سُن کے یہ فَرمائیں حضور
ہاں کوئی دیکھو یہ کیا شور ہے غوغا کیا ہے

کون آفت زدہ ہے کِس پہ بلا ٹوٹی ہے
کِس مصیبت میں گرفتار ہے صدمہ کیا ہے

کِس سے کہتا ہے کہ للہ خبر لیجیے مِری
کیوں ہے بیتاب یہ بے چینی کا رونا کیا ہے

اس کی بے چینی سے ہے خاطِر ِ اقداس پہ ملال
بے کسی کیسی ہے پوچھو کوئی گزرا کیا ہے

یوں ملائک کریں معروض کہ اِک مجرم ہے
اس سے پرسش ہے بتا تو نے کیا کیا ہے

سامنا قہر کا ہے دفتر ِ اعمال ہیں پیش
ڈر رہا ہے کہ خدا حکم سناتا کیا ہے

آپ سے کرتا ہے فریاد کہ یا شاہِ رسل
بندہ بے کس ہے شہا رحم میں وقفہ کیا ہے

اب کوئی دم میں گرفتار بلا ہوتا ہوں
آپ آجائیں تو کیا خو ف ہے کھٹکا کیا ہے

سن کے عرض مِری بحرِ کرم جوش میں آئے
یوں ملائک کو ہوا ارشاد ٹھرنا کیا ہے

کس کو تم موردِ آفات کِیا چاہتے ہو !
ہم بھی تو آکے ذرا دیکھیں تماشا کیا ہے

ان کی آواز پہ کر اٹھوں میں بے ساختہ شور
اور تڑپ کر یہ کہوں اب مجھے پَر وا کیا ہے

لوہ آیا مِرا حامی مِرا غم خوار امم !
آگئی جاں تنِ بے جاں میں یہ آنا کیا ہے

پھر مجھے دامنِ اقدس میں چھپا لیں سرور
اور فرمائیں ہٹو اس پہ تقاضہ کیا ہے

بندہ آزاد شدہ ہے یہ ہمارے دَر کا
کیسا لیتے ہو حساب اس پہ تمہارا کیا ہے

چھوڑ کر مجھ کو فرشتے کہیں محکوم ہیں ہم
حکم والا کی نہ تعمیل ہو زہرہ کیا ہے

یہ سماں دیکھ کے محشر میں اٹھے شور کہ واہ
چشمِ بد دور ہو کیا شان ہے رتبہ کیا ہے

صدقے اس رحم کے اس سایہ ٔ دامن پہ نثار
اپنے بندے کو مصیبت سے بچایا کیا ہے

اے رضا جانِ عنادِل تِرے نغموں کے نثار
بلبلِ باغ ِ مدینہ تِرا کہنا کیا ہے

No comments yet

کیا مہکتے ہیں مہکنے والے بو پہ چلتے ہیں بھٹکنے والے
جگمگا اٹھی مِری گور کی خاک تیرے قربان چمکنے والے
مہِ بے داغ کے صَدقے جاؤں یوں دمکتے ہیں دمکنے والے
عرش تک پھیلی ہے تابِ عارض کیا جھلکتے ہیں جھلکنے والے
گل طیبہ کی ثنا گاتے ہیں نخلِ طوبٰے پہ چہکنے والے
عاصیو! تھام لو دامن اُن کا وہ نہیں ہاتھ جھٹکنے والے
ابرِ رحمت کے سَلامی رہنا پھیلتے ہیں پودے لچکنے والے
ارے یہ جلوہ گہِ جاناں ہے کچھ ادب بھی ہے پھڑکنے والے
سیو! ان سے مدد مانگے جاؤ پڑے بکتے رہیں بکنے والے
شمع یادِ رُخِ جاناں نہ بجھے خاک ہو جائیں بھڑکنے والے
مَوت کہتی ہے کہ جلوہ ہے قریب اِک ذرا سولیں بلکنے والے
کوئی اُن تیز رووں سے کہہ دو کِس کے ہو کر رہیں تھکنے والے
دل سلگتا ہی بھلا ہے اے ضبط بُجھ بھی جاتے ہیں دہکنے والے
ہم بھی کمھلانے سے غافل تھے کبھی کیا ہنسا غنچے چٹکنے والے
نخل سے چھٹ کے یہ کیا حال ہوا آہ او پتّے کھڑکنے والے
جب گرے منھ سوئے میخانہ تھا ہوش میں ہیں یہ بہکنے والے
دیکھ او زخمِ دِل آپے کو سنبھال پھوٗٹ بہتے ہیں تپکنے والے
مے کہاں اور کہاں میں زاہد یوں بھی تو چھکتے ہیں چھکنے والے
کفِ دریائے کرم میں ہیں رضا
پانچ فوارے چھلکنے والے

No comments yet

کیا ہی ذوق افزا شفاعت ہے تمہاری واہ واہ
قرض لیتی ہے گنہ پرہیز گاری واہ واہ

خامۂ قدرت کا حسنِ دست کاری واہ واہ
کیا ہی تصویر اپنے پیارے کی سنواری واہ واہ

اشک شب بھر انتظار ِ عفوِ امّت میں بہیں
میں فدا چاند اور یوں اختر شماری واہ واہ

انگلیاں ہیں فیض پر ٹوٹے ہیں پیاسے جھوم کر
ندیاں پنجابِ رحمت کی ہیں جاری واہ واہ

نور کی خیرات لینے دوڑتے ہیں مہر و ما ہ
اٹھتی ہے کس شان سے گردِ سواری واہ واہ

نیم جلوے کی نہ تاب آئے قمر ساں تو سہی
مہر اور ان تلووں کی آئینہ داری واہ واہ

نفس یہ کیا ظلم ہے جب دیکھو تازہ جرم ہے
ناتواں کے سر پر اتنا بوجھ بھاری واہ واہ

مجرموں کو ڈھونڈ ھتی پھرتی ہے رحمت کی نگاہ
طالعِ بر گشتہ تیری ساز گاری واہ واہ

عرض بیگی ہے شفاعت عفو کی سرکار میں
چھنٹ رہی ہے مجرموں ک ی فرد ساری واہ واہ

کیا مدینہ سے صبا آئی کہ پھولوں میں ہے آج
کچھ نئی بو بھینی بھینی پیاری پیاری واہ واہ

خود رہے پردے میں اور آئینہ عکسِ خا ص کا
بھیج کر انجانوں سے کی راہ داری واہ واہ

اِس طرف رَوضہ کا نور اُس سمت منبر کی بہار
بیچ میں جنّت کی پیاری پیاری کیاری واہ واہ

صدقے اس انعام کے قربان اس اکرام کے
ہو رہی ہے دونوں عالم میں تمہاری واہ واہ

پارہ ٔ دل بھی نہ نِکلا دل سے تحفے میں رضا
اُن سگانِ کو ، سے اتنی جان پیاری واہ واہ

No comments yet

کیا ٹھیک ہو رُخِ نبوی پر مثالِ گل
پامال جلوۂ کفِ پا ہے جَمال ِ گل

جنّت ہے ان کے جلوہ سے جو پائے رنگ و بو
اے گل ہمارے گل سے ہے گل کو سوالِ گل

اُن کے قدم سے سلعہ غالی ہو جناں
واللہ میرے گل سے ہے جاہ و جلالِ گل

سنتا ہوں عشقِ شاہ میں دل ہوگا خوں فشاں
یارب یہ مژدہ سچ ہو مبارک ہو فالِ گل

بلبل حرم کو چل غم فَانی سے فائدہ
کب تک کہے گی ہائے وہ غنچہ و دلال ِ گل

غمگین ہے شوقِ غازۂ خاکِ مدینہ میں
شبنم سے دھل سکے گی نہ گردِ ملالِ گل

بلبل یہ کیا کہا میں کہاں فصل ِ گل کہاں
امّید رکھ کہ عام ہے جود و نوالِ گل

بلبل گھر اہے ابر ولا مژدہ ہوکہ اب
گرتی ہے آشیانہ پہ بَرقِ جمالِ گل

یا رب ہرا بھرا رہے داغِ جگر کا باغ
ہر مہ مہِ بہار ہو ہر سال سالِ گل

رنگِ مژدہ سے کر کے خجل یادِ شاہ میں
کھیچا ہے ہم نے کانٹوں پہ عطرِ جمال ِ گل

میں یادِ شہ میں رووں عنادِل کریں ہجوم
ہر اشکِ لالہ فام پہ ہو احتمالِ گل

ہیں عکس ِ چہرہ سے لبِ گلگوں میں سرخیاں
ڈوبا ہے بدرِ گل سے شفق میں ہلالِ گل

نعتِ حضور میں مترنّم ہے عندلیب
شاخوں کے جھومنے سے عیاں و جد و حال ِ گل

بلبل گلِ مدینہ ہمیشہ بہار ہے
دو دن ک ہے بہار فنا ہے مآلِ گل

شیخین اِدھر نثار غنی و علی اُدھر
غنچہ ہے بلبُلوں کا یمن و شمالِ گل

چاہے خدا تو پائیں گے عشقِ نبی میں خلد
نِکلی ہے نامۂ دلِ پُرخوں میں فالِ گل

کر اُس کی یاد جس سے ملے چین عندلیب
دیکھا نہیں کہ خارِ اَلم ہے خیالِ گل

دیکھا تھا خوابِ خارِ حرم عندلیب نے
کھٹکا کیا ہے آنکھ میں شب بھر خیالِ گل

اُن دو کا صدقہ جن کو کہا میرے پھول ہیں
کیجے رضا کو حشر میں خنداں مثال ِ گل

No comments yet

کس نے نبی کا دامن تھاما سب سے پہلے بڑھ کر وہ صدیقِ اکبر
کس نے اٹھایا بارِ امامت لے کر اذنِ پیمبر وہ صدیقِ اکبر

حکمِ خدا سے چھوڑ چلا جب مکّہ دین کا رہبر نام خدا کا لیکر
راہِ خدا میں اس دم جو شئے نکلی نقد پیمبر وہ صدیقِ اکبر

اِک دن کس نے خواب میں دیکھا، جھولی میں چاند آئے اور پھر گھر گھر آئے
دینِ محمد ایسی بشارت لے کر آیا کس پر وہ صدیقِ اکبر

روحِ امیں دربارِ نبی میں ٹاٹ پہن کر آئے جھک کر حال سنائے
اہل ِ فلک کا پہناوا ہے آج یہ کس کی ادا پر وہ صدیقِ اکبر

جن کے دامن کی پاکی پر روحِ قدس کا آنا سورۃ نور سنانا
ایسی حرمت والی اُمِّ اُمّت جن کی دختر وہ صدیقِ اکبر
جن کا عہد ِ رسالت، بارش ابرِ کرم کی ہے بے حد انکا نام محمد
پتھر جن کے دورِ خلافت میں تھے لعل و جواہر وہ صدیقِ اکبر

No comments yet

کیا شور ذکر و فکر، دعا پنجگانہ کیا
آتا نہیں ہے عشق میں آنسو بہانا کیا

آنکھیں بھی اشکبار ہیں لب پر درود بھی
رحمت کو اب بھی چاہیے کوئی بہانہ کیا

رکھا جو ہاتھ سینے پہ دھڑکن نہیں ملی
دل، ہو گیا مدینے کی جانب روانہ کیا ؟

وہ بھی ہیں آستاں بھی ہے، کردے نثار جاں
پھر لوٹ کر اب آئے گا ایسا زمانہ کیا

موسیٰ علیہ السلام کا حال مانعٔ حسرت ہوا ہمیں
تابِ نظر نہیں ہو تو نظریں اٹھانا کیا

تسبیح دانے دانے مُصلّا ہے تار تار
آیا ہے خانقاہ میں کوئی دوانہ کیا

ڈرتا ہے کس لیے غمِ دوراں سے رات دن
پالا نہیں ہے تو نے غمِ عاشقانہ کیا

یہ مرحلہ ہے زیست کا طے کر اسے بھی
اب مر کے ہوگا سوئے مدینہ روانہ کیا

دیدار بھی حضور کا ، کوثر کا جام بھی
دیکھو قصیدہ لکھ کے ملا ہے خزانہ کیا

سر کو جھکا دیا جو درِ یار پر ادیؔب
جب تک قضا نہ آئے تو سر کو اٹھا نا کیا

No comments yet

کمانِ امکاں کے جھوٹے نقطو! تم اوّل آخِر کے پَھیر میں ہو
محیط کی چال سے تو پوچھو! کدھر سے آئے کدھر گئے تھے؟
اُدھر سے تھیں نذرِ شَہ نمازیں اُدھر سے انعامِ خُسْروِی میں
سلام ورحمت کے ہار گندھ کر گُلوئے پُر نُور میں پڑے تھے
زبان کو انتظارِ گُفتن، تو گوش کو حسرتِ شُیدخُن
یہاں جو کہنا تھا کہہ لیا، تھا جو بات سننی تھی سن چکے تھے
وہ برجِ بطحا کا ماہ پارہ، بہشت کی سَیر کو سدھارا
چمک پہ تھا خلد کا ستارہ کہ اِس قمر کے قدم گئے تھے
سُرُوْر ِمقدم کے روشنی تھی کہ تَابِشوں سے مہِ عَرَب کی
جِاَپں کے گلشن تھے جَھاڑ فرشی جو پھول تھے سب کنول بنے تھے
طَرَب کی نازِش کہ ہاں لچکیے، ادب وہ بندش کہ ہل نہ سکیے
یہ جوش ِضدَّیْن تھا کہ پودے کشاکش ِارّہ کے تلے تھے
خدا کی قدرت کہ چاند حق کے کروڑوں منزل میں جلوہ کرکے
ابھی نہ تاروں کی چھاؤں بدلی کہ نور کے تڑکے آلیے تھے
نبئ رحمت !شفیعِ اُمت رضا پہ للہ !ہو عنایت!
اِسے بھی اُن خِلْعَتوں سے حِہّے، جو خاص رحمت کے وَاں بٹے تھے
ثَنائے سرکار ،ہے وظیفہ، قبولِ سرکار، ہے تمنا!!!
نہ شاعری کی ہوس نہ پروا روی تھی کیا کیسے قافیئے تھے
Qaseeda mer’aa/11

No comments yet

کِسے ملے گھاٹ کا کنارہ کدھر سے گزرا کہاں اتارا؟
بھرا جو مثلِ نظر طَرَارا وہ اپنی آنکھوں سے خود چُھپے تھے
اُٹھے جو قصرِ دَنیٰ کے پردے کوئی خبر دے تو کیا خبر دے؟
وہاں تو جاہی نہیں دُوئی کی نہ کہہ کہ وہ بھی نہ تھے ارے تھے
وہ باغ کچھ ایسا رنگ لایا کہ غُنچہ و گل کا فرق اٹھایا
گرہ میں کلیوں کے باغ پھولے، گُلوں کے تکمے لگے ہوئے تھے
مُحیط و مرکز میں فرق مشکل ،رہے نہ فاصل خطوط واصل
کمانیں حَیرت میں سَر جُھکائے عجیب چکر میں دائرے تھے
حِجاب اٹھنے میں لاکھوں پردے ،ہر ایک پردے میں لاکھوں جلوے
عجب گھڑی تھی کہ وَصْل وفُرقت، جنم کے بچھڑے گلے ملے تھے
زبانیں سوکھی دِکھا کے موجیں تڑپ رہی تھیں کہ پانی پائیں
بَھنور کو یہ ضُعفِ تِشنگی تھا کہ حلقے آنکھوں میں پڑگئے تھے
وہی ہے اوّل وہی ہے آخِر وہی ہے باطن وہی ہے ظاہر!
اُسی کے جلوے، اسی سے ملنے ،اُسی سے، اُس کی طرف گئے تھے
Qaseeda-me’raaj/10

No comments yet

کرم مانگتا ہوں عطا مانگتا ہوں
الٰہی میں تجھ سے دعا مانگتا ہوں

عطا کرتُو شانِ کریمی کا صدقہ
عطا کردے شانِ رحیمی کا صدقہ
نہ مانگوں گا تجھ سے تو مانگوں گا کس سے
ترا ہوں میں تجھ سے دعا مانگتا ہوں

الٰہی ہمیشہ تو مسرور رکھنا
بلاؤں سے ہم کو بہت دور رکھنا
پریشانیاں ہم کو گھیرے ہوئے ہے
میں ان سے تیرا آسرا مانگتا ہوں

جو مفلس ہیں ان کو تو دولت عطا کر
جو بیمار ہیں ان کو صحت عطا کر
مریضوں کی خاطر شفا مانگتا ہوں
الٰہی میں تجھ سے دعا مانگتا ہوں

جو نادار ہیں کچھ نہیں جن کے پلّے
انہیں بھی دکھا دے حرم کے تو جلوے
حضوری ہو سب کی دعا مانگتاہوں
الٰہی میں تجھ سے دعا مانگتا ہوں

وطن کے بھڑکتے شرارے بجھا دے
اے تو اخوت کا گلشن بنا دے
میں امن واماں کی ردا مانگتا ہوں
الٰہی میں تجھ سے دعا مانگتا ہوں

الٰہی تجھے واسطہ پنجتن کا
ہو شاداب غنچہ دلوں کے چمن کا
میں صدقہ غوث الورٰی مانگتا ہوں
الٰہی میں تجھ سے دعا مانگتا ہوں

No comments yet

کیا خوب ہے تیری آن بان ہر روز نئی ہے شان شان
ہے رشتہ نہ کوئی خاندان تو ربِّ جہاں میں عبد عبد
میں حمد کہوں بس حمد حمد میں حمد کہوں بس حمد حمد

میرے مولا میرے مولا
تجھ سے فریاد کرتے ہیں ہم
میرے مولیٰ کرم ہو کرم
میرے مولیٰ میرے مولیٰ

یہ زمیں اور یہ آسماں
ہے تو ہی مالکِ دو جہاں
سب پہ تو ہی تو ہے مہرباں
ہم ترے در سے جائیں کہاں
سب کی سنتا ہے تو ہی صدا
تو ہی رکھتا ہے سب کا بھرم

سب پاک ہیں تیرے نام نام
میں ذکر کروں ہر گام گام
کیا عقل کا اس میں کام کام
ہے بندا تیرا ہر فرد فرد
میں حمد کہوں بس حمد حمد

ہم کہ مجبوروں بے حال ہیں
ہم کہ رنجوروں بے حال ہیں
اپنے دامن میں آنسو ہیں بس
پاک کردے ہمارے نفس
ذکر تیرا جہاں بھی کریں
ایک پل میں ہوں آنکھیں یہ نم

بے کسوں کو سہارا ملے
ڈوبتوں کو کنارا ملے
سر سے طوفان پل میں ٹلے
جو ترا اک اشارہ ملے
تو جو کر دے مہربانیاں
دور ہوجائے ہر ایک غم

وحدت کا ہے جس میں راز راز
سینوں میں بجے وہ ساز ساز
جو تجھ پہ کرتے ہیں ناز ناز
وہ حمد کرے ہے حمد حمد
میں حمد کہوں بس حمد حمد

بھول بیٹھے ہیں تیرا کہا
تو نے قرآن میں جو لکھا
آج ہیں در بدر اس طرح
کوئی بکھرے لڑی جس طرح
ایک کر ہم کو بہرِ شہا
ہم نے خود پہ کیے ہیں ستم

No comments yet

کب گناہوں سے کَنارا میں کروں گا یا ربّ!
نیک کب اے مِرے اللہ! بنوں گا یا ربّ!

کب گناہوں کے مرض سے میں شِفا پاؤں گا
کب میں بیمار، مدینے کا بنوں گا یا ربّ!

گر ترے پیارے کا جلوہ نہ رہا پیشِ نظر
سختیاں نزع کی کیوں کر میں سہوں گا یا رب!

نَزع کے وقت مجھے جلوۂ محبوب دکھا
تیرا کیا جائے گا میں شاد مروں گا یاربّ

قبر میں گر نہ محمد کے نظّارے ہوں گے
حشر تک کیسے میں پھر تنہا رہوں گا یا ربّ!

ڈنگ مچھر کا بھی مجھے سے تو سہا جاتا نہیں
قبر میں بچّھو کے ڈنگ کیسے سہوں گا یا ربّ!

گُھپ اندھیرا ہی کیا وَحشت کا بسیرا ہوگا
قبر میں کیسے اکیلا میں رہوں گا یا ربّ!

گر کفن پھاڑ کے سانپوں نے جمایا قبضہ
ہائے بربادی! کہاں جاکے چھپوں گا یاربّ!

ہائے معمولی سی گرمی بھی سہی جاتی نہیں
گرمی حَشر میں پھر کیسے سہوں گا یا ربّ!

اِذن سے تیرے سَرِ حشر کہیں کاش! حُضُور
ساتھ عطّار کو جنّت میں رکھوں گا یا ربّ!

No comments yet

کسی کا تیر نظر دل کے پار ہو کے رہا
تو دل نے دم بھی نہ مارا نثار ہو کے رہا

تمہاری سوزنِ مژگاں نے کی وہ بخیہ گری
کہ رختِ ہستی مرا تار تار ہو کے رہا

تمہارے روئے منور کی روشنی کی قسم
کہ اس سے قلبِ سیاہ جلوہ بار ہو کے رہا

کھلا تو خانۂ دل میں وہ چھپ کے بیٹھ رہا
چُھپا تو ہر جگہ وہ آشکار ہو کے رہا

اگر چہ حسن کی حیرت اُسے ملی نہ ملی
مگر وہ عشق کا آئینہ دار ہو کے رہا

No comments yet