اَلصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام اے سروَرِ عالی مقام
اَلصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام اے رہبر جملہ اَنام
اَلصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام اے مظہر ذات السلام
اَلصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام اے پیکر حسن تمام
اَلصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام اَلصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام
اے نبیوں کے نبی اور اے رسولوں کے اِمام
یَا حَبِیْبَ اللّٰہِ اَنْتَ مَھْبِطُ الْوَحْیِ الْمُبِیْں
اِنِّیْ مُذْنِب سَیِّدیْ اَنْتَ شَفِیْعُ الْمُذْنِبِیْں
یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اَنْتَ صَادِقُ الْوَعْدِ الْاَمِیْں
یَا نَبِیَّ اللّٰہِ اَنْتَ رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلَمِیْں
اَلصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام اَلصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام
اے نبیوں کے نبی اور اے رسولوں کے اِمام
مفتیِ اعظم بڑی سرکار ہے
جبکہ ادنیٰ سا گدا عطارؔ ہے
مفتیِ اعظم سے ہم کو پیار ہے
اِنْ شَاء اللّٰہ اپنا بیڑا پار ہے
مفتیِ اعظم رضا کا لاڈلا
اور محب سیِّدِ ابرار ہے
عالم و مفتی فقیہِ بے بَدَل
خوب خوش اَخلاق و باکردار ہے
تاجدارِ اہلِ سنّت المدد
بندۂ در بے کس و ناچار ہے
تختِ شاہی کیا کروں میرے لئے
تاجِ عزت آپ کی پَیزار ہے
اعلیٰ حضرت کا رہوں میں باوفا
اِستِقامت کی دعا درکار ہے
آستانے پر کھڑا ہے اِک گدا
طالبِ عشقِ شہِ اَبرار ہے
مسکرا کر اِک نظر گر دیکھ لو
میری شامِ غم ابھی گلزار ہے
میرے دل کو شاد فرما دیجئے
رنج و غم کی قلب پر یلغار ہے
سیِّدی احمد رضا کا واسِطہ
تیرا منگتا طالبِ دیدار ہے
ہُوں گناہوں کے مَرَض سے نیم جاں
دردِ عصیاں کی دوا درکار ہے
ہاتھ پھیلا کر مُرادیں مانگ لو
سائلو ان کا سخی دربار ہے
اِن شاءَ اللّٰہ مغفرت ہو جائے گی
اے وَلی ! تیری دعا درکار ہے
خوب خدمت سنّتوں کی میں کروں
سیِّدی تیری دعا درکار ہے
کاش نوریؔ کے سگوں میں ہو شمار
یہ تمنائے دلِ عطارؔ ہے
کیسے کاٹوں رَتیاں صابر
تارے ِگنت ہوں سیاں صابر
مورے کرجوا ہوک اُٹھت ہے
مو کو لگالے چھتیاں صابر
توری صورتیا پیاری پیاری
اچھی اچھی بتیاں صابر
چیری کو اپنے چرنوں لگالے
میں پروں تورے پیاں صابر
ڈولے نیا موری بھنور میں
بلما پکڑے بیاں صابر
سب سے اَعلیٰ عزت والے
غلبہ و قہر و طاقت والے
حرمت والے کرامت والے
تم پر لاکھوں سلام
ظاہر باہر سیادَت والے
غالب قاہر رِیاست والے
قوت والے شہادَت والے
تم پر لاکھوں سلام
نورِ علم و حکمت والے
نافذ جاری حکومت والے
رب کی اَعلیٰ خلافت والے
تم پر لاکھوں سلام
آپ کا چاہا رب کا چاہا
رب کا چاہا آپ کا چاہا
رب سے ایسی چاہت والے
تم پر لاکھوں سلام
حبیب خدا کا نظار اکروں میں
دل وجاں ان پر نثار ا کروں میں
میں کیوں غیر کی ٹھوکریں کھانے جاؤں ؟
تِرے در سے اپنا گزارا کروں میں
یہ اِک جان کیا ہے اگر ہوں کروڑں !
تِرے نام پر سب کو وارا کروں میں
مجھے ہاتھ آئے اگر تاجِ شاہی
تری نقشِ پا پر نثارا کروں میں
مِرا دین و ایماں فرشتے جو پوچھیں ؟
تمہاری ہی جانب اشارہ کروں میں !
خدا ایک پر ہو تو اِک پر محمد ﷺ
اگر قلب اپنا دو پارہ کروں میں
خدا خیر سے لائے وہ دن بھی نوؔری
مدینے کی گلیاں بوہارا کروں میں
تو شمع ِ رسالت ﷺ ہے عالم تیرا پروانہ
تو ماہِ نبوت ﷺ ہے اۓ جلوہ جانانہ
جو ساقیٔ کوثر ﷺکے چہرے سے نقاب اٹھے
ہر دل بنے میخانہ ہر آنکھ ہو پیمانہ
دل اپنا چمک اٹھے ایمان کی طلعت سے
آنکھیں بھی نورانی اۓ جلوہ ٔ جانانہ
سر شار مجھے کر دے اِک جامِ لبا لب سے
تا حشر رہے ساقی آباد یہ مے خانہ
ہر پھول میں بو تیری، ہر شمع میں ضَو تیری
بلبل ہے تیرا بلبل، پروانہ ہے پروانہ
پیتے ہیں تِرے در کا کھاتے ہیں تِرے در کا
پانی ہے تِرا پانی، دانہ ہے تِرا دانہ
آباد اسے فرما ، ویراں ہے دل نوؔری
جلوے تِرے بس جائیں آباد ہو ویرانہ