در پیش ہو طیبہ کا سفر کیسا لگے گا
گزریں جو وہاں شام و سحر کیسا لگے گا
اۓ پیارے خدا !دیکھوں میں سرکار کا جلوۂ
مل جائے دُعا کو جو اثر کیسا لگے گا
یوں تو گزارتے ہیں سبھی زندگی لیکن
دربارِ نبی میں ہو بسر کیسا لگے گا
طیبہ کی سعادت تو یوں پاتے ہیں ہزاروں
مرشِد کے ساتھ ہو جو سفر کیسا لگے گا
اۓ کاش !مدینے میں مجھے موت یوں آئے
قدموں میں ہو سرکار کے سر کیسا لگے گا
جس در پہ شہنشاہوں نے بھی دامن ہیں پسارے
ہر سال وہاں جاؤں اگر کیسا لگے گا
پائی ہے منؔور نے قضا در پہ نبی کے
آجا کے وطن ایسی خبر کیسا لگے گا