جو اسم ِ ذات ہَویدا ہو سرِ قِرْطاس
ہوا خیال منوّر،مہک گیا احساس
اُسی کے فکر میں گُم سُم ہے کائناتِ وجود
اُسی کے ذکر کی صورت ہے نغمئہ اَنفاس
اُسی کے ذکر سے ہے کاروانِ زیست رواں
اُسی کے حکم پہ ہے غیب و شُہود کی اساس
اگر ہیں نعمتیں اُس کی شمار سے باہر
توحکمتیں بھی ہیں اس کی ورائے عقل و قیاس
ہے اِرْتِبَاطِ عناصر اُسی کی قدرت سے
اُسی کے لطف سے قائم ہے اعتدالِ حواس
کیے خلا میں معلّق ثوابت و سیّار
بغیرِ چوب کیا خیمئہ فلک کو راس
بسا وہ رگ و پے میں کائنات کے ہے
کچھ اِس طرح گلوں میں نہاں ،ہو جیسے باس (خوشبو)
ہر ایک مؤمن و منکر کا وہ ہے رزق رساں
ہر ایک بے کس و درماندہ کا ہے قدر شناس
بڑھائی اُس نے زن و آدمی کی یوں توقیر
انہیں بنایا گیا ایک دوسرے کا لباس
مجھے شریک کرے کاش ایسے بندوں میں
جنہیں نہ خوف و خطر ہے کوئی نہ رنج و ہراس
اُٹھا کے ہاتھ اُسی کو پکار تا ہوں میں
مقام جس کا ہے میری رگِ حیات کے پاس
کیا یہ خاص کرم اُس نے نوعِ انساں پر
بنادیا جو حبیب( ﷺ) اپنا غمگسارِاناس
حبیب (ﷺ)وہ جو بنا کائنات کا نوشہ
رسول (ﷺ)وہ جو ہوا اس کی شان کا عکّاس
حبیب ﷺوہ جو محمد ﷺبھی ہے تو احمد ﷺ بھی
سکھا گیا جو خدائی کو حمد و شکر کا سپاس
نبی ﷺ وہ جس کے لئے محملِ زمانہ رکا
نبی ﷺ وہ جس نے کیا لا مکاں میں اجلاس
کتاب اُس پہ اتاری تو وہ کتابِ مبیں
جو نورِ رُشد و ہدایت ہے، قاطع ِوسواس
اُسی نے مدحِ رسالت مآبﷺ کی خاطر
دیا گدازلب و لہجہ کو ، زباں کو مٹھاس
کرم ہو شاملِ حال اُس کا تو ہے اک نعمت
وگرنہ کربِ مسلسل ،طبعیت حسّاس
کوئی قریب سے کہتاہے ،میں ہوں تیرے ساتھ
ہجومِ غم میں کسی وقت بھی جو دل ہو ا اداس
تسلیاں مجھے ہر آن کوئی دیتا ہے
نہ کرسکیں گے ہر اساں مجھے کبھی غم وباس
عجیب ذکر الٰہی میں ہے اثر تائبؔ
مٹائے زیست کی تلخی، بجھائے روح کی پیاس