بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے
کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے
ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے
سونپا خدا کو یہ عظمت کس سفر کی ہے
مجرم بلائے آئے ہیں جاوءک ہے گواہ
پھر رد ہو کب یہ شان کریموں کے در کی ہے
پہلے ہو ان کی یاد کہ پائے جلا نماز
یہ کہتی ہے اذان جو پچھلے پہر کی ہے
سرکار ہم گنواروں میں طرز ادب کہاں
ہم کو تو بس تمیز یہی بھیک بھر کی ہے
اپنا شرف دعا سے باقی رہا قبول
یہ جانیں ان کے ہاتھ میں کنجی عصر کی ہے
کعبہ ہے بے شک انجمن آرا دلہن مگر
ساری بہار دلہنوں میں دولہا کے گھر کی ہے
وہ خلد جس میں اترے گی ابرار کی بارات
ادنیٰ نچھاور اس مرے دولہا کے سر کی ہے
ہاں ہاں رہ مدینہ ہے غافل ذرا تو جاگ
او پاؤں رکھنے والے یہ جا چشم و سر کی ہے
ستر ہزار صبح ہیں ستر ہزار شام
یوں بندگی ٴ زلف و رخ آٹھوں پہر کی ہے
محبوب رب عرش ہے اس سبز قبہ میں
پہلو میں جلوہ گاہ عتیق و عمر کی ہے
لب واہیں آنکھیں بند ہیں پھیلی ہیں جھولیاں
کتنے مزے کی بھیک ترے پاک در کی ہے
قسمت میں لاکھ پیچ ہوں سو بل ہزار کج
یہ ساری گتھی اک تیری سیدھی نظر کی ہے
مومن ہوں مومنوں پہ رؤف رحیم ہو
سائل ہوں سائلوں کو خوشی لا نہر کی ہے
مولیٰ علی نے واری تِری نیند پر نماز
اور وہ بھی عصر سب سے جو اعلی خطر کی ہے
صدیق بلکہ غار میں جاں اس پر دے چکے
اور حفظِ جاں تو جان فروضِ غرر کی ہے
ہا ں تو نے ان کو جان انھیں پھیر دی نماز
پر وہ تو کر چکے جو کر نی بشر کی ہے
ثابت ہوا جملہ فرائض فروع ہیں
اصل الاصول بندگی اس تاجور کی ہے
آ کچھ سنا دے عشق کے بولوں میں اے رضا
مشتاق طبع لذّتِ سوزِ جگر کی ہے
بوسہ گہِ اصحاب وہ مہر سامی
وہ شانۂ چپ میں اُس کی عنبر فامی
یہ طرفہ کہ ہے کعبہ ٔ جان و دِل میں
سنگ اسود نصیب رکنِ شامی
بھینی سُہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے
کلیاں کھِلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے
کھبتی ہوئی نظر میں ادا کِس سحر کی ہے
چھبتی ہوئی جگر میں صَدا کس گجر کی ہے
ڈالیں ہَری ہَری ہیں تو بالیں بھری بھری
کشتِ اَمل پَری ہے یہ بارش کدھر کی ہے
ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حَرم کہے
سونپا خدا تجھ کو یہ عظمت سَفر کی ہے
ہم گِرد کعبہ پھرتے تھے کل تک اور آج وہ
ہم پر نثار ہے یہ ارادت کدھر کی ہے
کالک جبیں کی سجدۂ در سے چھڑاؤ گے
مجھ کو بھی لے چلو یہ تمنّا حجر کی ہے
ڈوبا ہوا ہے شوق میں زمزم اور آنکھ سے
جھالے برس رہے ہیں یہ حسرت کدھر کی ہے
برسا کہ جانے والوں پہ گوہر کروں نثار
ابرِ کرم سے عرض یہ میزاب زر کی ہے
آغوش ِ شوق کھولے ہے جن کے لیے حطیم
وہ پھر کے دیکھتے نہیں یہ دھن کدھر کی ہے
ہاں ہاں رہ ِ مدینہ ہے غافل ذرا تو جاگ
او پاؤں رکھنے والے یہ جاچشم و سر کی ہے
واروں قدم قدم پہ کہ ہر دم ہے جانِ نو
یہ راہِ جاں فزا مرے مولیٰ کے در کی ہے
گھڑیاں گنی ہیں برسوں کہ یہ سُب گھڑی پھری
مر مر کے پھر یہ سل مرے سینے سے سر کی ہے
اللہ اکبر اپنے قدم اور یہ خاکِ پاک
حسرت ِ ملائکہ کو جہاں وضعِ سر کی ہے
معراج کا سماں ہے کہاں پہنچے زائرو!
کرسی سے اونچی کرسی اسی پاک گھر کی ہے
عشاقِ رَوضہ سجدہ میں سوئے حرم جھکے
اللہ جانتا ہے کہ نیّت کِدھر کی ہے
یہ گھر یہ در ہے اس کا جو گھر در سے پاک ہے
مژدہ ہو بے گھر و کہ صلا اچّھے گھر کی ہے
محبوب ربِ عرش ہے اس سَبز قبّہ میں
پہلو جلوہ گاہ عتیق و عمر کی ہے
چھائے ملائکہ ہیں لگا تار ہے درود!
بدلے ہیں پہر ے بدلی میں بارش دُرر کی ہے
سعدیں کا قران ہے پہلوئے ماہ میں
جھرمٹ کیے ہیں تارے تجلّی قمر کی ہے
ستّر ہزار صبح ہیں ستّر ہزار شام
یوں بندگی ِ زلف و رُخ آٹھوں پہر کی ہے
جو ایک بار آئے دوبارہ نہ آئیں گے
رخصَت ہی بارگاہ سے بس اس قدر کی ہے
تڑپا کریں بدل کے پھر آنا کہاں نصیب
بے حکم کب مجال پرندے کو پر کی ہے
اے وائے بے کسیِ تمنّا کہ اب امید
دن کو نہ شام کی ہے نہ شب کو سحر کی ہے
یہ بدلیاں نہ ہوں تو کروروں کی آس جائے
اور بارگاہ مرحمتِ عام تر کی ہے
معصوموں کو ہے عمر میں صرف ایکبار بار
عاصی پڑے رہیں توصَلا عمر بھر کی ہے
زندہ رہیں تو حاضریِ بارگہ نصیب
مرجائیں تو حیاتِ اَبد عیش گھر کی ہے
مفلِس اور ایسے در سے پھر ے بے غنی ہوئے
چاندی ہر اک طرح تو یہاں گدیہ گر کی ہے
جاناں پہ تکیہ خاک نہالی ہے دل نہال
ہاں بے نواؤ خوب یہ صُورت گزر کی ہے
ہیں چتر و تخت سایہ ٔ دیوار و خاکِ در
شاہوں کو کب نصیب یہ دھج کرّوفر کی ہے
اس پاک کو میں خاک بسر سر بخاک ہیں
سمجھے ہیں کچھ یہی جو حقیقت بسر کی ہے
کیوں تاجدارو ! خواب میں دیکھی کبھی یہ شئے
جو آج جھولیوں میں گدایانِ در کی ہے
جارو کشوں میں چہرے لکھے ہیں ملوک کے
وہ بھی کہاں نصیب فقط نام بھر کی ہے
طیبہ میں مر کے ٹھنڈ ے چلے جاؤ آنکھیں بند
سیدھی سڑک یہ شہر شفاعت نگر کی ہے
عاصِی بھی ہیں چہیتے یہ طیبہ ہے زاہدو!
مکّہ نہیں کہ جانچ جہاں خیر و شر کی ہے
شانِ جمالِ طیبۂ جاناں ہے نفع محض!
وسعت جلالِ مکّہ میں سود و ضرر کی ہے
کعبہ ہے بے شک انجمن آرا دُلھن مگر
ساری بَھار دلھنیوں میں دولھا کے گھر کی ہے
کعبہ دُلھن ہے تربتِ اطہر نئی دُلھن
یہ رشکِ آفتاب و ہ غیرت قمر کی ہے
دونوں بنیں سجیلی انیلی بنی مگر
جو پی کے پاس ہے وہ سُہاگن کنور کی ہے
سر سبزِ و صل یہ ہے سیہ پوشِ ہجروہ
چمکی دو پٹوں سے ہے جو حالت جگر کی ہے
ماو شما تو کیا کہ خلیلِ جلیل کو
کل دیکھنا کہ اُن سے تمنّا نظر کی ہے
اپنا شرف دُعا سے ہے باقی رہا قبول
یہ جانیں ان کے ہاتھ میں کنجی اثر کی ہے
جو چاہے ان سے مانگ کہ دونوں جہاں کی خبر
زرنا خریدہ ایک کنیز اُن کے گھر کی ہے
رومی غلام دن حبشی باندیاں شبیں
گِنتی کنیز زادوں میں شام و سحر کی ہے
اتنا عجب بلندی ِ جنّت پہ کس لیے
دیکھا نہیں کہ بھیک یہ کِس اونچے گھر کی ہے
عرشِ بریں پہ کیوں نہ ہو فردوس کا دماغ
اتری ہوئی شبیہ تِرے بام و در کی ہے
وہ خلد جس میں اترے گی ابرار کی برات
ادنیٰ نچھاور اس مرے دولھا کے سر کی ہے
عنبر زمیں عبیر ہو ا مشکِ تر غبار!
ادنیٰ سی یہ شناخت تری رہگزر کی ہے
سر کار ہم گنواروں میں طرزِ ادب کہاں
ہم کو تو بس تمیز یہی بھیک بھر کی ہے
مانگیں گے مانگے جائیں گے منھ مانگی پائیں گے
سر کار میں نہ لا ہے نہ حاجت اگر کی ہے
اف بے حیا ئیاں کہ یہ منھ اور ترے حضور
ہاں تو کریم ہے تری خو در گزر کی ہے
تجھ سے چھپاؤں منھ تو کروں کس کے سامنے
کیا اور بھی کسی سے توقع نظر کی ہے
جاؤں کہاں پکاروں کسے کس کا منھ تکوں
کیا پرسشِ اور جَا بھی سگِ بے ہنر کی ہے
بابِ عطا تو یہ ہے جو بہکا ادھر ادھر
کیسی خرابی اس نگھر ے در بدر کی ہے
آباد ایک در ہے ترا اور ترے سِوا
جو بارگاہ دیکھیے غیرت کھنڈر کی ہے
لب وا ہیں آنکھیں بند ہیں پھیلی ہیں جھولیاں
کتنے مزے کی بھیک ترے پاک در کی ہے
گھیرا اندھیریوں نے دہائی ہے چاند کی
تنہا ہوں کالی رات ہے منزل خطر کی ہے
قسمت میں لاکھ پیچ ہوں سو بَل ہزار کج
یہ ساری گتھی اِک تِری سیدھی نظر کی ہے
ایسی بندھی نصیب کھلے مشکلیں کھلیں
دونوں جہاں میں دھوم تمہاری کمر کی ہے
جنت نہ دیں ، نہ دیں ، تری رویت ہو خیر سے
اس گل کے آگے کس کو ہوس برگ و بر کی ہے
شربت نہ دیں ، نہ دیں ، تو کرے بات لطف سے
یہ شہد ہو تو پھر کسے پَروا شکر کی ہے
میں خانہ زاد کہنہ ہوں صوٗرت لکھی ہوئی
بندوں کنیزوں میں مرے مادر پدر کی ہے
منگتا کا ہاتھ اٹھتے ہی داتا کی دین تھی
دوٗری قبول و عرض میں بس ہاتھ بھر کی ہے
سنکی وہ دیکھ باد شفاعت کہ دے ہوا
یہ آبرو رضا تِرے دامانِ تر کی ہے
بر تر قیاس سے ہے مقامِ ابُو الحسن سدرہ سے پوچھو رفعتِ بامِ ابُو الحسین
وارستہ پائے بستہ ٔ دامِ ابُو الحسین آزاد نار سے ہے غلام ِ ابُو الحسین
خطِ سیہ میں نورِ الٰہی کی تابشیں کیا صبح ِ نور بار ہے شامِ ابُوالحسین
ساقی سنا دے شیشۂ بغداد کی ٹپک مہکی ہے بوئے گل سے مدامِ ابو الحسین
بوئے کباب سوختہ آتی ہے مئے کشو چھلکا شرابِ چشت سے جامِ ابُو الحسین
گلگوں سحر کو ہے سَہر سوزِ دل سے آنکھ سلطان سہرور د ہے نامِ ابُوالحسین
کرسی نشیں ہے نقش مُراد اُ ن کے فیض سے مولائے نقش بند ہے نام ِ ابو الحسین
جس نخل پاک میں ہیں چھیالیس ڈالیاں اک شاخ ان میں سے ہے بنامِ ابُو الحسین
مستوں کو اے کریم بچائے خمار سے تادور حشر دورۂ جامِ ابُوالحسین
اُن کے بھلے سے لاکھوں غریبوں کا ہے بھلا یا رب زمانہ باد بکامِ ابُو الحسین
میلا لگا ہے شانِ مسیحا کی دید ہے مردے جلا رہا ہے خرامِ ابُو الحسین
سر گشتہ مہر ومہ ہیں پَر اب تک کھلا نہیں کس چرخ پر ہے ماہ تمام ِ ابُو الحسین
اتنا پتہ ملا ہے کہ یہ چرخ چنبری ہے مفت پایہ زینۂ بامِ ابُو الحسین
ذرّہ کو مہر قطرہ کو دریا کرے ابھی گر جوش زن ہو بخشش عامِ ابُو الحسین
یحیٰ کا صدقہ وارثِ اقبال مند پائے سجادہ ٔ شیوخ کرامِ ابُو الحسین
انعام لیں بہارِ جناں تہنیت لکھیں پھولے پھلے تو نخل مرامِ ابُوالحسین
یا رب وہ چاند جو فلکِ عزّہ جاہ پر ہر سیر میں ہوگا م بگامِ ابُوالحسین
آؤ تمہیں ہلال سپہر شرف دکھائیں گردن جھکائیں بہر سلام ِ ابُو الحسین
قدرت خدا کی ہے کہ طلاطم کناں اٹھی بحر فنا سے موج دوامِ ابُوالحسین
یا رب ہمیں بھی چاشنی اس اپنی یاد کی جس سے ہے شکّریں لب وکام ِ ابُوالحسین
ہاں طالِع رضا تری اللہ رے یا وری
اے بندہ ٔ جد و د کرام ِ ابُو الحسین
بندہ قادر کا بھی قادر بھی ہے عبدالقادر
سرِّ باطن بھی ہے ظاہری بھی ہے عبدالقادر
مفتی شرع بھی ہے قاضِی ملت بھی ہے
علم اسرار سے ماہر بھی ہے عبدالقادر
منبع فیض بھی ہے مجمع افضال بھی ہے
مہرِ عرفاں کا منور بھی ہے عبدالقادر
قطب ابدال بھی ہے محورِ ارشاد بھی ہے
مرکزِ دائرہ سِر بھی ہے عبدالقادر
سلکِ عرفاں کی ضیا ہے یہی درِ مختار
فخرِ اشباہ و نظائر بھی ہے عبدالقادر
اس کے فرمان ہیں سب شارحِ حکمِ شارع
مظہر ناہی و آمر بھی ہے عبدالقادر
ذی تصرف بھی ہے ماذون بھی مختار بھی ہے
کارِ عالم کا مدبّر بھی ہے عبدالقادر
رشکِ بلبل ہے رضا لالہ صد داغ بھی ہے
آپ کا واصفِ و ذاکر بھی ہے عبدالقادر
بندہ ملنے کو قریبِ حضرت قادر گیا لمعۂ باطن میں گمنے جلوۂ ظاہر گیا
تیری مرضی پاگیا سوٗرج پھرا الٹے قدم تیری انگلی اٹھ گئی مہ کا کلیجا چِر گیا
بڑھ چلی تیری ضیا اندھیرہ عالم سے گھٹا کھل گیا گیسو ترا رحمت کا بادل گھر گیا
بندھ گئی تیری ہوا سادہ میں خاک اڑنے لگی بڑھ چلی تیری ضیا آتش پہ پانی پھرگیا
تیر ی رحمت س صفی اللہ کا بیڑا پار تھا تیرے صدقے سے نجی اللہ کا بجرا تِر گیا
تیری آمد تھی کہ بیت اللہ مجرے کو جھکا تیری ہیبت تھی ہر بُت تھر تھر ا کر گر گیا
مومن اُن کا کیا ہوا للہ اس کا ہو گیا کافر اُن سے کیا پھر ا اللہ ہی سے پھر گیا
وہ کہ اُس در کا ہوا خلقِ خدا اُس کی ہوئی وہ کہ اس در سے پھر ا اللہ اس سے پھر گیا
مجھ کو دیوانہ بتاتے ہو میں وہ ہشیار ہوں پاؤں جب طوفِ حرم میں تھک گئے سر پرگیا
رحمۃ اللعالمین آفت میں ہوں کیسی کروں میرے مولیٰ میں تو اِس دل سے بلا میں گھر گیا
میں ترے ہاتھوں کے صدقے کیس کنکریاں تھیں وہ جن سے اتنے کافروں کا دفعتًا منھ پھر گیا
کیوں جناب بو ہریرہ تھا وہ کیسا جامِ شیر جس سے ستر صاحبوں کا دودھ سے منھ پھر گیا
واسطہ پیارے کا ایسا ہو کہ جو سنّی مرے یوں نہ فرمائیں ترے شاہد کہ وہ فاجر گیا
عرش پر دھومیں مچیں وہ مومن صالح ملا فرش سے ماتم اٹھے وہ طیّب وہ طاہر گیا
اللہ اللہ یہ علوِ خاص عبدیت رضا بندہ ملنے کو قریبِ حضرت قادر گیا
ٹھوکریں کھاتے پھروگے انکے در پر پڑرہو قافلہ تو اے رضا اوّل گیا آخر گیا
نعمتیں بانٹتا جس سمت وہ ذیشا ن گیا ساتھ ہی منشی رحمت کا قلم دان گیا
لے خبر جلد کہ غیروں کی طرف دھیان گیا میرے مولا مِرے آقا ترے قربان گیا
آہ وہ آنکھ کہ ناکامِ تمنّا ہی رہی ہائے وہ دل جو ترے در سے پُر اَرمان گیا
دل ہے وہ جو تری یاد سے معمور رہا سر ہے وہ سر جو ترے قدموں پہ قربان گیا
انہیں جانا انہیں مانا نہ رکھا غیر سے کام لِلّٰہِ الحمد میں دنیا سے مسلمان گیا
اور تم پر مرے آقا کی عنایت نہ سہی نجدیو! کلمہ پڑھانے کا بھی احسان گیا
آج لے ان کی پنا ہ آج مدد مانگ ان سے پھر نہ مانیں گے قیامت میں اگر مان گیا
اُف رے منکریہ بڑھا جوشِ تعصّب آکر بھیڑ میں ہاتھ سے کم بخت کے ایمان گیا
جان و دل ہوش وخِرد سب تو مدینے پہنچے تم نہں چلتے رضا سارا تو سامان گیا ۔
بخوبی ہمچومہ تابندہ باشی
بہ ملک دلبری پائندہ باشی
جہاں سوزی اگر دو غمزہ آئی
شکر ریزی اگر برخندہ باشی
من درویش را کشتی بغمزہ
کرم کردی الٰہی زندہ باشی
زقید دو جہاں آزاد باشم
اگر تو ہم نشیں بندہ باشی
جفا کم کن کہ فردہ روزِ محشر
بروئے عاشقاں شرمندہ باشی
بہ تندی و بشوخی ہم و خسرو
ھزاراں خانما بدکندہ باشی
بغداد کے والی سے یونہی پیار کریں گے
ہم ان کے ہیں ان سے یہی اقرار کریں گے
تھاما ہے جو دامن شہہِ جیلان کا ہم نے
پھر کرلو یقین بیڑا وہی پار کریں گے
ہم کو جو ملا ہے وہ ملا غوث کا صدقہ
ہم دار پہ چڑھ کے بھی یہ اظہار کریں گے
کیا کفر ہے کیا شرک ہمیں اس سے غرض کیا
ہم غوث کے ہیں غوث کا پرچار کریں گے
ان کا ہے کرم سب پہ شکیل اپنا یقیں ہے
وہ لوگ ہیں بدبخت جو انکار کریں گے
بھردو جھولی میری یا محمد ﷺ
لوٹ کر میں نہ جاؤ ں گا خالی
تمہارے آستانے سے زمانہ کیا نہیں پاتا
کوئی بھی در سے خالی مانگنے والا نہیں جاتا
بھردو جھولی میری سرکار ِ مدینہ
بھردو جھولی میری تاجدارِ مدینہ
تم زمانے کے مختار ہو یا نبی ﷺ
بے کسوں کے مدد گار ہو یا نبی ﷺ
سب کی سنتے ہو اپنے ہو یا غیر ہوں
تم غریبوں کے غم خوار ہو یا نبی ﷺ
ہم ہیں رنج و مصیبت کے مارےہوئے
سخت مصیبت میں ہیں غم کے ہارے ہوئے
کچھ خدارا ہمیں بھیک دو
در پے ائے ہیں جھولی پھیلائے ہوئے
ہے مخالف زمانہ کدھر جائیں ہم
حالاتِ بے کس کو دکھائیں ہم
ہم تمہارے بھکاری ہیں یا مصطفیٰ
کس کے آگے بھلا ہاتھ پھیلائیں ہم
کچھ نواسوں کا صدقہ عطا ہو
در پہ آیا ہوں بن کر سوالی
حق سے پائی وہ شان کریمی
مرحبا دونوں عالم کےوالی
اس کی قسمت کا چمکا ستار
جس پہ نظر ِ کرم تم نے ڈالی
زندگی بخش دی بندگی کو
آبرو دین حق کی بچالی
وہ محمد کا پیارہ نواسہ
جس نے سجدے میں گردن کٹالی
جو ابنِ مرتضیٰ نے کیا کام خوب ہے
قربانیٔ حسین کا انجام خوب ہے
قربان ہو کہ فاطمہ زھرٰی کے چین نے
دینِ خدا کی شان بڑھائی حسین نے
بخشی ہے جس نے مذہب ِ اسلام کو حیات
جتنی عظیم حضرت شبیر کی ہے ذات
میدانِ کربلا میں شاہِ خوش خصال نے
سجدے میں سرکٹا کے محمد ﷺ کے لعل نے
حشر میں دیکھیں گے جس دم
امتی یہ کہیں گے خوشی سے
آرہے ہیں وہ دیکھو محمد ﷺ
جن کےکندھے پہ کملی ہے کالی
محشر کے روز پیشِ خدا ہوں گے جس گھڑی
ہو گی گناہ گاروں پرسش جس گھڑی ہوگی
یقینًا ہر بشر کو اپنی بخشش کی پڑی ہو گی
سبھی کہ آس اس دن کملی والے کی لگی ہوگی
کہ ایسے میں محمد ﷺکی سواری آرہی ہوگی
پکاریگا زمانہ اس گھڑی دکھ درد کے مارو
نہ گھبراؤ گناہ گارو نہ گھبراؤ گناہ گارو
عاشقِ مصطفیٰ ﷺ کی اذان میں کتنا اثر تھا
سچا یہ واقعہ ہے اذان بلال کا
ایک دن رسولِ پا ک سے لوگوں نے یوں کہا
یا مصطفٰی اذان غلط دیتے ہیں بلال
کہیے حضور اس میں آپ کا ہے کیا خیال
فرمایا مصطفیٰ نےیہ سچ ہے تو دیکھیے
وقتِ سحر کی آج اذان کوئی اور دے
حضرت بلال نے جو اذان ِ سحر نہ دی
قدرت خدا کی دیکھو نہ مطلق سحر ہوئی
آئے نبی کے پاس کچھ اصحاب ِ با صفا
کی عرض مصطفٰی سے یا شاہِ انبیاء
ہے کیا سبب سحر نہ ہوئی آج
جبریل لے آئے پیغام ِ کبریا
پہلے تو مصطفیٰ کو ادب سے کیا سلام
بعد از سلام ان کو خدا کا دیا پیام
یوں جبریل نے کہا خیر الانام سے
اللہ کو ہے پیار تمہارے غلام سے
فرما رہا ہے آپ سے رب ذوالجلا
ہوگی نہ صبح دیں گے نہ جب تک اذان بلال
عاشقِ مصطفیٰ میں اللہ اللہ کتنا اثر تھا
عرش والے بھی سنتے تھے جس کو
کیا اذان تھی اذان ِ بلالی
کاش ! پرنم بھی آئے مدینے
جیتے جی ہو بلاوا کسی دن
حال ِ غم مصطفٰی کو سناؤں
تھام کر ان کے روضے کی جالی
بادِ صبا تیرا گزر گر ہو کبھی سوئے حرم
پہنچا سلامِ شوق تو پیشِ نبیٔ محترم
جو ذات ہے نور الھدیٰ، چہرہ ہے جو شمس الضحیٰ
عارض ہیں جو بدرالدجیٰ،دستِ عطا بحرِ کرم
یا مصطفٰے یا مجتبیٰ ہم عاصیوں پر رحم ہو
ہیں نفسِ امّارہ سےاب مجبور ہم مغلوب ہم
قرآں ہی وہ برہاں ہے، جو ناطق ادیان ہے
حکم اس کا جب نافذ ہوا، تھے سب صحیفے کالعدم
بے خود کیےدیتے ہیں اندازِ حجابانہ
آ دل میں تجھے رکھ لوں اۓ جلوۂ جانانہ!
بس اتنا کرم کرنا اۓ چشمِ کریمانہ
جب جان لبوں پر ہو ، تم سامنے آجانا
جب تم نے مجھے اپنا ،دنیا میں بنایا ہے
محشر میں بھی کہہ دینا یہ ہے میرا دیوانہ
جی چاہتا ہے تحفے میں بھیجوں انہیں آنکھیں
درشن کا تو درشن ہو نذرانے کا نذرانہ
پینے کو تو پی لوں گا پر شرط ذرا سی ہے
اجمیر کا ساقی ہو بغداد کا مئے خانہ
کیوں آنکھ لگائی تھی؟ کیوں آنکھ ملائی تھی؟
اب رُخ کو چھپا بیٹھے ، کر کے مجھے دیوانہ !
بیدؔم میری قسمت میں، سجدے ہیں اِسی در کے
چھوٹا ہے نہ چھوٹے گا ، سنگِ درِ جانانہ
بگڑی بھی بنائیں گے، جلوے بھی دکھائیں گے
گھبراؤ نہ دیوانو ! سرکار بلائیں گے
ہم مسجد ِ نبوی کے دیکھیں گے میناروں کو
گمبد خضراء کے پُرنور نظاروں کو
ہم جاکے مدینہ پھر واپس نہیں آئیں گے
مل جائیں گی تعبیریں ایک روز تو خوابوں کی
گِر جائیں گی دیواریں سب دیکھنا راہوں کی
ہم روضۂ اقدس پہ جب آنسو بہائیں گے
دل عشقِ نبی میں کچھ اور تڑپنے دو
اس دید کی آتش کو کچھ اور بھڑکنے دو
ہم تشنہ دل چل کر زم زم سے بجھائیں گے
جب حشر کے میدان میں اِک حشر بپا ہو گا
جب فیصلہ اُمت کا کرنے کو خدا ہو گا
اُمت کو شہہ ِ بطحٰی کملی میں چھپائیں گے
لِلّٰہ محمد ﷺ سے رو داد میر ی کہنا
یہ پوچھ کے آقا سے اۓ حاجیو تم آنا
عؔشرت کو درِ اقدس پےکب آپ بلائیں گے ۔
بلالو پھر مجھے اۓ شاہ ِ بحر و بر ! مدینے میں
میں پھر روتا ہوا آؤں ، تیرے در پر مدینہ میں
نہ دولت دے ، نہ شُہر ت دے ، مجھے بس یہ سعادت دے
تیرے قدموں میں مَرجاؤں ، میں رو رو کر مدینے میں
مدینے جانے والو!جاؤ جاؤ فِی اَمَانِ اللہ
کبھی تو اپنا بھی لگ جائے گا بستر مدینے میں
میرا غم بھی تو دیکھو ، میں پڑا ہوں دور طیبہ سے
سکون پائے گا بس ،میرا دل ِ مضطر مدینے میں
سلام ِ شوق کہنا حاجیو! میرا بھی رو رو کر
سُنانا داستانِ غم میری رو کر مدینہ میں
مدینہ اس لیے عطؔار جان و دل سے پیارا
کہ رہتے ہیں میرے آقا ،میرے دلبر مدینے میں