آج اشک میرے نعت سنائیں تو عجب کیا
سن کر وہ مجھے پاس بلائیں تو عجب کیا
ان پر تو گنہگار کا سب حال کھلا ہے
اس پر بھی وہ دامن میں چھپائیں تو عجب کیا
منہ ڈھانپ کے رکھنا کہ گنہگار بہت ہوں
میت کو میری دیکھنے آئیں تو عجب کیا
اے جوش جنوں پاس ادب بزم ہے جن کی
اس بزم میں تشریف وہ لائیں تو عجب کیا
دیدار کے قابل تو نہیں چشم تمنا
لیکن وہ کبھی خواب میں آئیں تو عجب کیا
پابند نوا تو نہیں فریاد کی رسمیں
آنسو یہ مرا حال سنائیں تو عجب کیا
نہ زاد سفر ہے نہ کوئی کام بھلے ہیں
پھر بھی مجھے سرکار بلائیں تو عجب کیا
حاصل جنہیں آقا کی غلامی کا شرف ہے
ٹھوکر سے وہ مردوں کو جلائیں تو عجب کیا
وہ حسن دو عالم ہیں ادیب ان کے قدم سے
صحرا میں اگر پھول کھل آئیں تو عجب کیا
مرے طرزِ سخن کی جان ہیں گُل بھی گُلستاں بھی
مرا حُسنِ بیاں ہے خار بھی چاکِ گریباں بھی
مرے دامن میں ، جگنو ہیں جہاں اور چاند تارے بھی
اِسی دامن میں رکھتا ہوں کچھ آہیں اور شرار ے بھی
جو میری عمر کا حاصل ہے ذکرِ مصطفٰے کرنا
تقاضائے محبّت ہے بیانِ کربلا کربلا
تقاضہ ہے ضمیرِ شاعر حق گو کی فِطرت کا
کہ حق گوئی و بیبا کی پہ مبنی سخن اُس کا
بیانِ سیّد الشُہداء کی جب تمہید ہوتی ہے
وہی عہدِ وفا کے رسم کی تجدید ہوتی ہے
حسین ابنِ علی ، سبطِ پیمبر ، شرفِ انسانی
وہ جس کے رُخ پہ تھی نُورِ محمد کی فراوانی
شہیدِ کربلا تاریخ کا عنوان ہے گویا
حسین ابنِ علی ہر قلب میں مہمان ہے گویا
بتایا ، کس طرح کرتے ہیں اُمّت کی نگہبانی
سکھایا ، کس طرح رکھتے ہیں سجدوں میں یہ پیشانی
جَلایا اس نے ظلمت میں چراغِ نُورِ ایمانی
یہ سب کچھ جانتے تھے پھر اُسے دیتے نہ تھے پانی
بہت ہی مختصر، بندوں سے رب کا فاصلہ نکلا
حرم سے لے کے اہلِ بیت کو، جب قافلہ نکلا
عمامہ باندھ کر عہدِ وفا کا ، کربلا جانا
تھا اُمّت کے لیے مقصود ان راہوں کا دکھلانا
وہ راہیں جو عروجِ آدمیت کا سبب ٹھریں
زوال ِ ظلم ٹھریں ، حق پرستوں کا لقب ٹھہریں
عرب کی سرزمیں ، تپتے ہوئے صحرا، خزاں کے دن
سفر میں تھے رسولِ ہاشمی کی جانِ جاں کے دن
یہ منزل آزمائش کی بڑی دشوار ہوتی ہے
فضا میں زہر ہوتا ہے، ہوا آزار ہوتی ہے
جب ہستی مردِ مومن کی سپرد دار ہوتی ہے
تو سائے کے لیے سر پر فقط تلوار ہوتی ہے
وہ جس کی شان میں تھی آیۂ تطہیر ِ قرآنی
اسی کی اہلِ کوفہ نے کیا نیزوں سے مہمانی
طلب نانا سے کوثر کی شفاعت کی سفارش بھی
نواسے پر وہی کرنے لگے تیروں کی بارش بھی
جَلے خیمے بدن چھلنی تھے خون میں تر قبائیں تھیں
خدا کو جو پسند آتی ہیں وہ ساری ادائیں تھیں
وہ چہرے نُور کے تھے ، گِرد جن کے نُور کے ہالے
بنے وہ خاک وخوں میں ایک ہو کر کربلا والے
وہ چہرے وہ بدن جو عشق کا اسرار ہوتے ہیں
غبارِ خاک سے ان کے کفن تیار ہوتے ہیں
نہ ہوتا گر محمد کا گھرانہ ایسی منزل پر
تو اڑ جاتا فروغ دیں کا مستقبل دھواں بن کر
سلام اُس پر کہ جو حق کے لیے سربھی کٹا آیا
سلام اُس پر جواُمّت کے لیے گھر بھی لُٹا آیا
سلام اُس پر مرا جو خون کے دریا میں تیرا ہے
سلام اُس پر کہ جو نانا کے پرچم کا پھریرا ہے
سلام اُس پر کہ جس نے زندگی کو زندگی بخشی
سَروں کو سَر بلندی اور ذوقِ بندگی بخشی
سلام اُس پر کہ جو دوش ِ پیمبر کی سواری ہے
سلام اُس پر کہ جنّت جس کے گھر کی راہداری ہے
تیر سینے پہ، برچھی پشت پر جھیلے ہوئے اِنساں
سلام اے فاطمہ کی گود میں کھیلے ہوئے اِنساں
بہت آسان ہے ذکرِ شہیدِ کربلا کرنا
درونِ قلب مشکل ہے وہی حالت بپا کرنا
شہید ِ کربلا کے ذکر کا مجھ پر جواب آیا
کہ تیری ذات میں اب تک نہ کوئی انقلاب آیا
سراسر آبرو بن غیرتِ شرم و حیا ہو جا
اگر مجھ سے محبّت ہے تو میرا نقش ِ پا ہو جا
تیری تکریم میں تیری تعظیم میں کس کو شک ہے بھلا کربلا کربلا
پھر بھی میرا قلم، تجھ سے شکوے رقم آج کرنے چلا کربلا کربلا
تو فراط آشنا ، تجھ میں دجلہ رواں پھر بھی آل ِ محمد کی سوکھی زباں
تیرے مہمان تھے ، اپنے مہمان سےتو نے یہ کیا کیا کربلا کربلا
واسطہ ان کے آباء کا دے کر اگر ، مانگتا اپنے سینہ میں زم زم کا گھر
اِک کرشمہ دکھاتا وہاں بھی خدا، کیوں نہ مانگی دعا کربلا کربلا
رات ہو دن ہو جب ان کے ہلتے جو لب ، اپنے خیموں میں قرآن پڑھتے تھے سب
تو نے دیکھا یہ سب ، تو نے خود بھی سنا اور کچھ نہ کیا کربلا کربلا
جن کے اہلِ حرم نُورِ مستورِ حق ، چادریں جن کے سر کی قرآں کا ورق
جن کےخیموں کے پردے غلافِ حرم، ان کو لوٹا گیا کربلا کربلا
آرزو التجا حسرتیں منّتیں ، جن کے قدموں کے بو سے کو حوریں کریں
ایسی شہزادیاں اور بربادیاں ، تو نے دیکھا کیا کربلا کربلا
وہ سکینہ تھی جو غم سے موسوم تھی ، کتنی معصوم تھی کتنی مغموم تھی
پوچھتی پھر رہی تھی ہر اِک سے پتہ ، تو نے کیا کہ دیا کربلا کربلا
نسل سے بولہب کی وہ دو ہاتھ تھے جن میں نیزہ تھا نیزے پہ فرقِ حُسین
کاش ہوتے نبی تو اترتی وہاں پھر سے تبت یدا کربلا کربلا
اہلِ بیت اور ان کی محبّت ادیب ، یہ مقدر یہ قسمت ، یہ روشن نصیب
اس وظیفہ سے راضی ہے مجھ سے خدا دیکھ یہ مرتبہ کربلا کربلا
آیا نہ ہوگا اس طرح رنگ و شباب ریت پر
گُلشنِ فاطمہ کے تھے سارے گُلاب ریت پر
جانِ بتول کے سِوا کوئی نہیں کھِلا سکا
قطرہ ٔ آب کے بغیر اتنے گُلاب ریت پر
ترے حُسین آب کو میں جو کہوں تو بے ادب
لمسِ لبِ حُسین کو تَرسا ہے آب ریت پر
عشق میں کیا لُٹایئے عشق میں کیا بچا ئیے
آلِ نبی نے لکھ دیا سارا نصاب ریت پر
لذّت سوزش ِ بلال، شوقِ شہادتِ حُسین
جس نے لیا یونہی لیا اپنا خطاب ریت پر
جتنے سوال عشق نے آل ِ رسول سے کیے
ایک سے بڑھ کے اِک دیا سب نے جواب ریت پر
آل ِ نبی کا کام تھا آلِ نبی ہی کر گئے
کوئی نہ لکھ سکا ادیب ایسی کتاب ریت پر
زینت ِ دوشِ مصطفٰے تجھ کو مِرا سلام ہے
نُور ِ نگاہِ فاطمہ تجھ کو مِرا سلام ہے
منزلِ ہست و بود میں کون ابد مقام ہے
دیکھ رہا ہوں میں حسین ، ایک ترا ہی نام ہے
کشتۂ خنجرِ تسلیم و رضا تجھ کو سلام
مشعلِ نُورِ محمد کی ضیا تجھ کو سلام
نکہتِ بوئے گلستانِ وفا تجھ کو سلام
آبروئے صدف صدق و صفا تجھ کو سلام
دُخترِ ختمِ الرسل جانِ پیمبر فاطمہ
اے وقارِ بُو ترابی، شانِ حیدر فاطمہ
رُوح کی تشنہ لبی کو آب کوثر ، فاطمہ
سجدہ گاہِ اہلِ ایماں، آپ کا در فاطمہ
لُٹ رہا تھا کربلا میں آپ کا گھر، فاطمہ
آپ نے دیکھا ہے محشر، قبلِ محشر، فاطمہ
آپ کی نسبت ہوئی ہم کو میسّر ، فاطمہ
آپ کی مدحت ہوئی اپنا مقدر، فاطمہ
ضبط کے خُو گر علی تھے ، صبر کے خُوگر حسین
آپ کی ہستی میں ہیں دونوں ہی جوہر ، فاطمہ
ذی حسب، اعلیٰ نسب، زہرہ لقب، ذوالاحترام
سب سے اعلیٰ سب سے افضل، سب سے بہتر فاطمہ
خم شہنشاہانِ عالم کی جبیں ہے دیکھ کر
آپ کا نقشِ کفِ پائے مطہّر ، فاطمہ
بندگی کیا، دین کیا، ایمان کیا ، اِسلام کیا
مصطفٰے ، شیرِ خدا ، شبّیر و شبّر فاطمہ
سر فروشی کا سبق دے ، صبر دے ، ایثار دے
اب کہاں ایسی کوئی آغوشِ مادر، فاطمہ
عرش ہِل جاتا اگر فریاد کو اُٹھتے وہ ہاتھ
آپ نے رکھا اُنہیں چکّی کا خُوگر، فاطمہ
مصطفٰے کے اور آل ِ مصطفٰے کے ہیں غلام
اپنے دامن میں چھپالیں یہ سمجھ کر، فاطمہ
خاتمہ بالخیر ہو عشقِ نبی میں جب ادیب
ڈال دیں رحمت کی اِس مجرم پہ چادر فاطمہ
ہوئی مدحِ پیمبر اور حمدِ خالق باری
بصد گریہ ، بصد نالہ، بصد آہ و بصد زاری
قلم ہے دم بخود، جذبات ساکِن ، روح لرزاں ہے
ادب، خاتونِ جنّت ، فاطمہ زہرٰی کی ہے باری
کمال ِ ذکرِ زہرٰی سے اگر ہستی ہوئی اکمل
جمال ذکرِ نورِ فاطمہ سے دل بنا اجمل
یہ توقیر ِ محبّت ہے کہ یہ تاثیرِ نسبت ہے
سخن سنجی ہوئی اَحسن زباں دانی ہوئی افضل
تخلیق میں تسلیم و رضا جن کے خصائل
معصوم، مخیّر ، متصرّف ، متکفّل
سرکارِ دو عالم کی طرح فاطمہ زہرٰی
مشفق، متبسّم ، متحمّل ، متوکلّ
وہ حامد و محمود کی اُلفت کا ظہُور
وہ رحمتِ کُل قاسمِ مقسوم کا نُور
یہ شان، مگر عالمِ تسلیم و رضا
چکّی کی مشقّت ، بہ تبسّم منظور
شفیعٌ سراجٌ منیرٌ کی دُختر
شجاعٌ شریفٌ شہیدٌ کی مَا در
وہ خاتونِ جنّت ، وہ جنّت کی حُرمت
امیرٌ جریٌ علی جِن کے شوہر
جِس کو رحمٰن و رحیم و رحمتِ کُل کا شعور
جس کو عرفانِ محمد ، جس کو فیضانِ رسول
ذی حسب، اعلیٰ نسب، زہرٰی لقب، ذوالاحترام
دیدنیٔ مصطفٰے اور دیدۂ رحمت کا نُور
ہم طلبگارِ سخاوت یا علی مشکل کشا
تم عنایت ہی عنایت یا علی مشکل کشا
بازوئے خیبر شکن ، اور لقمۂ نانِ جویں
اے شہنشاہِ قناعت یا علی مشکل کشا
آپ کو نسبت رسول اللہ سے ہے اور میں
آپ رکھتا ہوں نسبت یا علی مشکل کشا
عاشقوں کا دل ہے کعبہ اور دل کی دھڑکنیں
مطربِ جشنِ ولادت یا علی مشکل کشا
مردِ مومن کا سہارا ، حرّیت کی آبرو
قلبِ مومن کی حرارت یا علی مشکل کشا
وہ شجاعت ہو، سخاوت ہو، قناعت یا جہاد
آپ ہی کی ہے قیادت یا علی مشکل کشا
فاتحِ خیبر تمہارے چاہنے والوں پہ آج
دشمنوں نے کی ہے شدّت یا علی مشکل کشا
پھر وہی بغداد و مصر و شام کے ہیں صبح و شام
دیجیے شوقِ شہادت یا علی مشکل کشا
در گزر میں آپ سے بڑھ کر کوئی گزرا نہیں
اے سراپائے محبت یا علی مشکل کشا
در گذر کیجیے خطا اور دیجیے اس قوم کو
اپنا بازو، اپنی ہمّت یا علی مشکل کشا
آپ کے در سے ادب سے مانگتا ہے یہ ادیب
صدقہ ٔ خاتونِ جنّت یا علی مشکل کشا
درِ میخانہ وا ہوتا ہے اب جوشِ عقیدت کا
شراب ان کے تصور کی صبو ان کی محبت کا
نظر کے سامنے سب اہلِ دل اور اہلِ نسبت ہیں
خداوند بھرم رکھنا مری نسبت ، مرے غم کا
حمایت میں ، امامت میں ، شجاعت میں ، حوادث میں
علی داور ، علی رہبر ، علی حیدر، علی مولیٰ
کوئی عابد ، کوئی عارف، کوئی عاطف ، کوئی عاکف
کوئی عاجز ، کوئی عالی ، کوئی عاشق نہیں ایسا
قناعت میں قلندر وہ سخاوت میں سمندر وہ
شجاعت میں لقب ہے قوتِ پروردگار ان کا
وہ سیف اللہ ، وجہہ اللہ ، دامادِ رسول اللہ
وہی شبیر کا بازو، وہی سرمایہ ٔ زہرا
بتوں کا سر جُھکانے میں ، دلوں میں گھر بنانے میں
وہی ضرب الفتح نکلا، وہی خیبر شکن ٹھہرا
امیرٌ وہ جریٌ وہ شجاعٌ وہ شہیدٌ وہ
فصیحٌ وہ بلیغٌ وہ خطابت پر جہاں شیدا
مِری عزّت ، مری عظمت، مِری اُلفت مِری نسبت
علی مولیٰ ، علی مولیٰ ، علی مولیٰ علی مولیٰ
ادیب ان کی محبّت میں اگر آنکھوں میں اشک آئے
اِدھر آنکھوں میں نم ہوگا اُدھر لطف و کرم ہوگا
نہ خانقاہ کے باہر نہ خانقاہ میں ہے
جو بُو تراب کا رتبہ مری نگاہ میں ہے
یہی ہے دولتِ ایمان و عِلم و عقل و یقین
علی کو جس نے پکارا ہے وہ پنا ہ میں ہے
گر جہانِ فکر میں درکار ہے اِک اِنقلاب
فکر کی راہوں سے اٹھ کر عشق کا ہو ہمر کاب
چاک کر دامن فسونِ فلسفہ کا ، مارکر
ایک نعرہ یا علی ؓ مشکل کشاء یا بُو تُراب ؓ
بحالِ غم دلِ بے تاب را قرار، علی
کریم و بندہ نواز و کرم شعار، علی
خراب حال و خطا کار و دلِ شکستہ را
خطا معاف، خدا ترس، غمگسار، علی
ہر گردشِ ایّام پہ جو غالب ہے
ہر نعرہ ٔ انقلاب کا جو قالب ہے
ہر لمحۂ مشکل میں طلب ہے جس کی
وہ نام، علی ابنِ ابی طالب ہے
زِ خاکِ پائے علی ما فلک مدار شدیم
زِ لطفِ چشمِ علی فصلِ نَو بہار شدیم
ہیں چہ فیض رسیدی زِ بوسۂ نعلین
گناہ گار کہ بودیم و تاجدار شدیم
خدا کا خوف ذکر ِ مصطفٰے سرمایۂ عثمان
سرور و کیف قربِ مصطفٰے سرمایہ ٔ عثمان
بیان سرکاری کی مدحت سدا، پیرا یۂ عثمان
نہ تھا ایسا نہ اب ہوگا کوئی ہم پایہ ٔ عثمان
نہ تھا آئینہ ٔ دل پر غبار ِ عصبیت ان کے
اگر چہ تھے حریفِ ہاشمی اَجداد سب ان کے
صفائے باطنی ان کا مکدر ہو نہ سکتا تھا
کوئی اس دل میں اب تخمِ رقابت بُو نہ سکتا تھا
جہالت کے اندھیروں سے نکل کر نُور میں آئے
قرابت وہ مِلی ، دو نور والے آپ کہلائے
قدم ہجرت کا مکہ سے نکالا آپ نے پہلے
حبش کو دین کا بخشا اُجالا آپ نے پہلے
وہ دورِ جاہلیت جو بھرا تھا آبِ گلگوں سے
حیاء والے کے لب نا آشنا تھے اس کے افسوس سے
حیاء کے ذکر کا جب بھی کوئی عنوان ہوتا تھا
لبِ شاہِ مدینہ پر فقط عثمان ہوتا تھا
نبی ارشاد فرماتے کتابت آپ کرتے تھے
بڑی دشوار تھی منزل، بآسانی گذرتے تھے
اشارہ پر نبی کے مال سب قربان ہوجاتا
جو حاتم آج ہوتا ، آپ کا دربان ہوجاتا
یہودی کو دیا کل مال، شیریں آب کے بدلے
ہوئے سیراب تشنہ لب مسلمان ، بیر رومہ سے
بنے وہ بیعت ِ رضوان میں تاجِ فخر کا طُرّہ
نبی نے ہاتھ بیعت میں جب ان کے نام پر رکھا
مراکش سے ملے کابل کے ڈانڈے عہد میں جن کے
ہوئے اسلام کے زیرِ نگیں ، دنیا کے یہ حصے
طرابلس اور افریقہ بنا اِسلام کا حصہ
بغاوت مصر کی توڑی ، فتح قبرص بھی کر ڈالا
ہو ا جب کوہِ لرزاں، مصطفٰے نے اس سے فرمایا
کہ تجھ پر اِک نبی، صدیق اِک اور اِک شہید آیا
شہادت معتبر تھی ، ایک دن ایسا بھی ہونا تھا
سرِ تسلیم اپنا خم کیا ، ایسا بھی ہونا تھا
شہادت کا وہ لمحہ، وہ تحمّل ، صبر کا پیکر
جو اخلاقِ کریمانہ کا ٹھرا ٓخری منظر
فَسَیَکْفِیْکَھُمْ آیت پہ جب خوں آپ کا ٹپکا
قراں کا ہر ورق دامن کو پھیلائے ہوئے لپکا
قیامت میں کریں گے لوگ جب قرآن کی باتیں
کریں گے ساتھ ہی وہ حضرتِ عثمان کی باتیں
اُتر کر خون کے دریا میں جو کوئی اُبھرتا ہے
ہٹا کر زیست کے پردے زیارت حق کی کرتا ہے
نہیں مرتا ادیب اس راہ میں ، جب کوئی مرتا ہے
وہ کب مرتا ہے جو راہِ شہادت سے گزرتا ہے
آئی تو کاٹنے کے لیے سب کے پاس مرگ
رشتہ جو آدمی کے بدن سے ہے جان کا
اس طرح سے کسی کی تواضع نہیں ہوئی
خونِ شہید کے لیے دامن قرآن کا
اُدھر ترتیلِ قرآنی ، کوئی ترمیم ناممکن
جو آیت حکم جو لائی ، عمل ایسا ہی کرنا ہے
اِدھر ترتیب ِ عثمانی کہ جو سورۃ جہاں رکھ دی
قیامت تک اسی ترتیب سے قرآن پڑھنا ہے
تو نے بھی عجب شان دکھائی ہے خدایا
جب تیغ نے خوں، حضرت ِ عثمان بہایا
گرنے نہ دیا قطرۂ خون پہلے زمیں پر
رحمت نے تیری دامنِ قرآن بچھایا
از آدم تا محمد مصطفٰے کوئی نہیں ایسا
کہ جن کے عقد میں دو بیٹیاں ہوں اک پیمبر کی
حیاء کی ، مصطفٰے کی دوستی کی ، یا مقدر کی
وہ ایک منظر وَمَا رَ مَیْتَ جہاں خدا خود یہ کہہ رہا ہے
یہ دست دست ِ نبی نہیں ہے یہ دستِ قدرت فقط مِرا ہے
یہ ایک منظر ، شجر کے نیچے نبی کا بیعت کے وقت کہنا
یہ دست ِ بیعت نبی کا ہے اور یہ دستِ عثمان دوسرا ہے
بچوں کو لوریوں میں کہیں ماں قریش کی
سو جاؤ میرے لال کہ ماں غمگسار ہے
ہے تم سے اتنا پیار ، کہ رحمٰن کی قسم
جیتنا قبیلے والوںکو عثمان سے پیار ہے
حجّت کے لیے حشر میں ہوگی یہ دلیل
ہر شے کو عطا ہوگی بشر کی صورت
اللہ کی یہ شکل کے خورشید ِ جلال
اللہ کا قرآن ، عمر کی صورت
دین ِ حق کی سر بلندی میں نبوّت کی طلب
بارگاہِ ربّ العزّت میں ہوا ہو جس پہ صاد
ساری دنیا ہے شہنشہاہِ دو عالم کی مُرید
اور عمر خود ہیں شہنشاہِ دو عالم کی مُراد
صف میں جو گُھس پڑے وہ لیے تیغِ شعلہ ور
سر کافروں کے دوش پہ آئے نہ پھر نظر
ہیبت سے ان کی دن میں نکلتے نہ تھے عدو
راتوں کو خواب میں بھی پُکاریں عمر عمر
لڑنے میں یوں تو ایک سے ایک بے مثال ہے
پھر بھی دلوں میں خوف عمر کا یہ حال ہے
ہیں ماہر ان حرب کے باہم یہ مشورے
خطّاب کے پسر سے لڑائی محال ہے
کس نے نبی کا دامن تھاما سب سے پہلے بڑھ کر وہ صدیقِ اکبر
کس نے اٹھایا بارِ امامت لے کر اذنِ پیمبر وہ صدیقِ اکبر
حکمِ خدا سے چھوڑ چلا جب مکّہ دین کا رہبر نام خدا کا لیکر
راہِ خدا میں اس دم جو شئے نکلی نقد پیمبر وہ صدیقِ اکبر
اِک دن کس نے خواب میں دیکھا، جھولی میں چاند آئے اور پھر گھر گھر آئے
دینِ محمد ایسی بشارت لے کر آیا کس پر وہ صدیقِ اکبر
روحِ امیں دربارِ نبی میں ٹاٹ پہن کر آئے جھک کر حال سنائے
اہل ِ فلک کا پہناوا ہے آج یہ کس کی ادا پر وہ صدیقِ اکبر
جن کے دامن کی پاکی پر روحِ قدس کا آنا سورۃ نور سنانا
ایسی حرمت والی اُمِّ اُمّت جن کی دختر وہ صدیقِ اکبر
جن کا عہد ِ رسالت، بارش ابرِ کرم کی ہے بے حد انکا نام محمد
پتھر جن کے دورِ خلافت میں تھے لعل و جواہر وہ صدیقِ اکبر
مرکز صدق و صفا مرکزِ ایمان صدیق
مصحف ِ عشق و محبت کے نگہباں صدیق
اسمِ اعظم ہیں جنوں کوش محبت کے لیے
ہو ش والوں کے لیے نقشِ سلیمان صدیق
کمندِ عقل میں آئے کرے خِرد تحقیق
نگاہ میں جو سمائے نظر کرے توثیق
ہے جبریل کی پرواز سے پرے جو مقام
ہیں اس مقام کی تصدیق کے لیے صدیق
پابوسی گلاب سے مٹی ہے مشکِ تر
پارس کی ایک لمحہ رفاقت ہے قدر زر
پہلو ہو مصطفٰے کا میّسر جسے ادیب
کیا کہئے کیا ہے اپنے مراتب میں وہ بشر
کاتبِ تقدیر کا جنبش میں جب آیا قلم
منزلوں سے ما ورٰی پہنچے فقیروں کے قدم
مسجدِ نبوی میں اِک دن جاں نثارِ مصطفٰے
تھے مصلّے پر امام اور مقتدی شاہِ امم
ہیں پرستارِ محمد بے حساب و بے شمار
ذی وقار و سر بلند و سرفروش جاں نثار
ہاں مگر صدیق کے ہیں مرتبے کچھ اس طرح
یارِ ہجرت، یارِ غزوہ، یارِ بزم و یارِ غار
تشنہ کا مانِ حقیقت کو ہیں کوثر صدیق
کاروان ِ رہِ الفت کو ہیں رہبر صدیق
ختم نہ ہوگا نہ کبھی سلسلۂ عشق ادیب
عشق کے رب ہیں ، محبت کے پیمبر صدیق
مہکی ہوئی ہوا کا مجھے لمس جب ملا
میرے تصورات کا در مثل گل کھلا
افکار کے دریچوں سے آنے لگی صدا
کیا خوب حق نے تجھ کو یہ موقع عطا کیا
اٹھ، مدح خوان سید عالی مقام ہو
چل اے گناہ گار ذرا نیک نام ہو
الفاظ دست بستہ مرے سامنے ہیں سب
جانچا ہے میں نے خوب ہر اک لفظ کا نسب
تھرا رہا ہے پھر بھی قلم، کیا لکھوں لقب
میں پیش آفتاب مثال چراغ شب
کیسے بیاں ہو مرتبہ عالی وقار کا
لاؤں کہاں سے ڈھنگ میں پروردگار کا
لب و ا کروں ثناء کے لیے کن کے باب میں
جبریل دست بستہ ہیں جن کی جناب میں
مداح خود قرآں ہے رسالت ماب میں
میرے خیال کی تگ و دو کس حساب میں
منظور شاعری ہے نہ حسن کلام
اے خامہ خیال، ادب کا مقام
سیر خیال و فکر کو بستان ہیں بہت
تفریح طبع ناز کے سامان ہیں بہت
تحریر حسن و عشق کے عنوان ہیں بہت
شعرو سخن کے واسطے میدان ہیں بہت
جن کے قدم سے رونق بزم حیات
تعریف اس نبی کی تقاضائے ذات
یہ مسئلہ تخیل و جذبات کا نہیں
واقف میں گرد و پیش کے حالات کا نہیں
اور علم یہ کہ علم بھی ہر بات کا نہیں
عرفان مجھ کو اپنی ہی خود ذات کا نہیں
پھر مجھ سے پوچھنا کہ محمد کی شان
گونگے کے منھ میں ہو بھی اگر تو زبان
قند و شہد نبات کو یک جا کریں اگر
گل کی ہر ایک ذات کو یک جا کریں اگر
رنگینی حیات کو یک جا کریں اگر
کل حسن کائنات کو یک جا کریں اگر
جتنا بھی رنگ و نور لیے کائنا ت ہے
یہ سب تبسم شہ دیں کی زکٰوۃ ہے
کہتے ہیں جس کو مدحت سلطان ذوالمنن
مسند نشیں ہے نو ک زباں پر وہ گلبدن
سرتا بپا ہے نکہت و رعنائی چمن
اس نور کے بدن پہ ہے خوشبو کا پیرہن
خوشبو سے اور نور سے جس کا خمیر ہے
زلفوں کی جس کے شان مشیت اثیر ہے
تمہید سے گریز کی جانب قدم قدم
پڑھتے ہوئے درود محمد مرا قلم
لے کر سرور عشق میں ڈوبا ہوا علم
ہو کر نیاز مند، کیا اس نے سر کو خم
خم ہو کے خط میم بنا تا چلا گیا
پردے روز حق کے اٹھاتا چلا گیا
وہ میم جو کمال ہے اک آغوش کی طرح
محشر میں ایک سایہ گل پوش کی طرح
بندوں پہ ، رب کی رحمت پر جوش کی طرح
خم اس کا فرق عاشق مے نوش کی طرح
جو درمیاں کمان کے آیا اماں میں ہے
باہر جو رہ گیا وہ شمار زیاں میں ہے
کھلنے لگے رموز ، محبت کے سر بسر
ہونے لگا خیال پہ الہام کا اثر
افکار خوشبوؤں میں شرابور تر بہ تر
جنبش جو لب کو دی تو ٹپکنے لگے گہر
اس پر بھی ان کی شان کے شایاں نہ لکھ سکا
بندہ ہوں اس لیے کوئی قرآں نہ لکھ سکا
یوں کر رہے ہیں مدحت سر کار ذوالمنن
کوثر سے دھوکے لائیں ہیں تعریف کا متن
پھرتے رہے بہار میں لے کر چمن چمن
پہنا دیا زبان کو عنبر کا پیرہن
سرمہ ہے کوہ طور کا، غازہ گلاب کا
آغاز نعت یوں ہے رسالت ماب کا
پہلے نبی کے عشق کی دولت خدا سے لی
دولت ملی تو فکر کی جرأت خدا سے لی
جرأت ملی تو حسنِ عقیدت خدا سے لی
طرزِ بیاں کے واسطے نُدرت خُدا سے لی
جرأت مِلی خیال ملا اور قلم ملا
یہ سب ملے تو نعت پہ اذن ِ رقم ملا
توڑی ہے میں نے میکدہ عشق کی قیود
میرے جنون غم کی تعین نہیں حدود
ہوتا ہے ہر نفس مرا منت کش درود
پہلے درود پھر سخن نعت کا ورود
میں بھیجتا ہوں نذر صلوٰۃ و سلام کی
وہ بھیجتے ہیں مجھ کو اجازت کلام کی
تاباں اسی کے نور سے ہے چہرہ حیات
صدیوں کے جس نے آکے مٹائے تو ہمات
ایک جست جس کی نسخہ تسخیر کائنات
جس کے قدم کا نقش بنا علم مدنیات
کہنے کو وہ بشر ہے اگر قیل و قال میں
اپنی مثال بھی نہیں رکھتا مثال میں
یہ ماہتاب آپ کا چہر ہ نہیں نہیں
یہ آفتاب آپ کا جلوہ نہیں نہیں
یہ بوئے مشک زلف کا حصہ نہیں نہیں
یہ کہکشاں ہے نقش کف پا نہیں نہیں
اس اوج تک نہ جائے گی پستی شعور کی
بالا ہے ہر خیال سے ہستی حضور کی
جلتی نہ اس جہاں میں جو شمع محمدی
دنیا کو حشر تک نظر آتی نہ روشنی
حاکم ہو یا غلام، گنہگار و متقی
ملتا نہ آدمی کو شعور خود آگہی!
ہوتی نہ کچھ تمیز سفید و سیاہ
جلوؤں کا اعتبار نہ ہوتا نگاہ
جس روز لب کشاد کسی کی نہیں مجال
دیکھیں گے آسمان و زمیں روئے ذوالجلال
ہو گا مقام دید رسول و نبی کا حال
دیکھیں گے ایک ایک کو مسکین کی مثال
ڈھونڈیں گے انبیاء اسی رحمت نوید
تڑپے گی ہر نگاہ محمد کی دید
ہے کون دے سکے گا جو اس دن کوئی حساب
توبہ بھی یاد آئی تو ، توبہ کا بند باب
بھائی کو بھائی دے گا نہ فریاد کا جواب
شعلے زمین پہ ہوں گے تو نیزے پہ آفتاب
امت ہو ، یا نبی ہو ، غضب کی نگاہ میں
محشر میں ہوں گے سارے انہیں کی پناہ میں
نازاں ہوں گرچہ ہوں میں گنہگار دیکھنا
اس کملی پوش کا ہوں پرستار دیکھنا
انوار ذکر سید ابرا ر دیکھنا
مجھ سے گدا کے لب ہیں گہر یا ر دیکھنا
ہر دم ہے لب پہ تذکرہ بے نظیر بھی
راضی رسول پاک بھی رب قدیر بھی
نعت رسول پاک میں وہ آب و تاب ہو
ایک ایک لفظ مدح کا عزت ماب ہو
روشن مرے کلام کا یوں آفتاب ہو
مقبول بارگاہ رسالت ماب ہو
محشر میں جب بلائیں تو اس طرح دیں صدا
حاضر کر و کہاں ہے ثنا خوان مصطفٰے
ہر آئینہ دل کی جِلا ذکرِ محمد
اللہ کی بندون کو عطاء ذکرِ محمد
مخلوق سے خالق کی رضا ذکرِ محمد
لازم اسی مقصد سے ہو ، ذکرِ محمد
ہر آرزوئے نطق کا انجام یہی ہے
دنیا کے لیے امن کا پیغام یہی ہے
ہو بزمِ سخنداں تو یہ پھولوں کا بیاں ہے
موجوں کا ترنّم ہے یہ بلبل کی زباں ہے
الفاظ کی عظمت ہے خطابت کی یہ شاں ہے
اس ذکر سے بندوں کو گناہوں سے اماں ہے
جذبات کو سیماب تخیّل کی جلا ہے
یہ خاص شَرَف ذکرِ محمد کو ملا ہے
قائم ہے مسلمان کا ایمان اِسی سے
اللہ کے طالب کو ہے عرفان اِسی سے
ہر عاشق ِ صادق کی ہے پہچان اِسی سے
انسان کو ہے عظمتِ انسان اِسی سے
سرمایۂ ایمان و قرارِ دل و جاں ہے
قرآں کی تلاوت ہے یہ کعبہ کی اذاں ہے
نعتِ شہِ کونین کی سرو و سمنی دیکھ
لفظوں کی قبا میں یہ عجب گلْبدنی دیکھ
چہر ہ کی دمک طور کے جلووں سے بنی دیکھ
زلفوں کی مہک نافۂ مشک ِ ختنی دیکھ
نسبت اگر الفاظ کو دوں قوسِ قزح سے
سیراب ہوں شاید مئے معنٰی کی قدح سے
اے طٰحہٰ و مزمِّل و یٰسین و مدثّر
اے سیّد و سردارِ اُمم طیّب و طاہر
کیا کہہ کے پکارے مرے آقا کو یہ شاعر
تصویر ِ خداوند کے شہکار مصوّر
خم گردنِ تفسیر ہے شرمندہ صراحت
یا رب! مرے الفاظ کو دے نہجِ بلاغت
اے صِلِّ عَلٰی نُور شہِ جنّ و بشر نور
لَب نور دہن نور سخن نور نظر نور
سر نور قد م نور شکم نور کمر نور
جس گھر میں تِرا ذِکر کریں لوگ ، وہ گھر نُور
آں زینتِ کونین و زیبائے جہاں اَست
آں باعثِ حیرانی آئینہ گراں اَست
ہم کو بھی خبر ہے کہ گناہوں کی سزا ہے
لیکن وہ خطا پوش ہمارا بھی خدا ہے
زاہد کو اگر نازِ عبادت ہے بجا ہے
پلّہ میں ہمارے بھی محمد کی ثناء ہے
محشر میں جو نکلے گا یہی نام دہن سے
جُھک جائے گا پلّہ مِرا نیکی کے وزن سے
وہ ماہِ عرب، ماہِ مبیں ، ماہِ لقا ہے؟
تصویر ہے ، تنویر ہے ، تعبیر ہے، کیا ہے ؟
اِک نور کا پیکر ہے کہ پردہ میں خدا ہے
آفاق میں ایسا نہ تو ہوگا نہ ہوا ہے
عاشق کی صدا یہ ہے مرے دل میں نہاں ہے
جبریل سرِ عرش پکارے وہ یہاں ہے
یہ جنبش لب، تابِ سخن، اور یہ گفتار
افکار کی یورش ہے تو الفاظ کی یلغار
ہو جائے اگر وقف ِ ثنائے شہِ ابرار
ہوتا ہے وہ حسان کی مانند گہر بار
رہتا ہے اسی دہن میں وہ شب ہو کہ سحر ہو
جس پر مرے سرکار کی اِک بار نظر ہو
نگاہ ہو کہ سماعت زبان ہو کہ قلم
چلے ہیں قافلہ مدح میں قدم بقدم
کبھی زبان کا دعوٰی کہ ہم ہیں بر تر ہم
کبھی قلم کی یہ غیرت کہ ہم سے سب ہیں کم
یہ معرکہ بھی تو وجہِ حصولِ سبقت ہے
حصول سبقت مدحت بھی حُسنِ مدحت ہے
قلم نے کھینچ دیے نقش وہ کہ سب حیراں
زباں نے دل سے نکالے خطاب کے ارماں
سُنا رہا ہوں اسی معرکہ کی بات یہاں
کہ جس کے نقطے ستارے تو لفظ کا ہ کشاں
سماعتوں کو جو لے جائے حوضِ کوثر تک
سُرور جس کا رہے دل میں روزِ محشر تک
چلا ہے آج قلم سایۂ کرم لے کر
گداز دل کا ، تڑپ اور چشمِ نم لے کر
شعور وفکر کا ہاتھوں میں جامِ جم لے کر
خیالِ سرورِ کونین محترم لے کر
رواں براق کی مانند ہے سیاہی میں
فرشتے آئے ہیں افلاک سے گواہی میں
زباں کُھلی کے پھریرا کُھلا ہے رحمت کا
ہر ایک سمت ہوا غُل اذانِ اُلفت کا
نماز عشق کا اور سجدہ محبت کا
سرورِ جاں ہے جو سب کا اسی کی مدحت کا
سماعتوں کا یہ عالم کہ گوش، بر آواز
مرے رسول کی مدحت کا یوں ہوا آغاز
جُھکا کہ رب دو عالم کے پیش اپنی جبیں
کہا قلم نے کہ خلّاقِ آسمان و زمیں
رقم ہو تیرے نبی کا بیان اتنا حَسیں
کہ حرف حرف ستارہ تو نقطہ نقطہ نگیں
زمیں پہ شور تو ہلچل ہو آسمانوں میں
فرشتے چُوم کے بادھیں اسے عماموں میں
بڑے ادب سے زباں نے یہ عرض کی یار ب
ادا ہو مجھ سے بھی اپنے بیان کا منصب
مری صدا ہو رواں جیسے نُور کا مرکب
فلک پہ آئے نظر جیسے رات میں کوکب
کہ ہے نبی سمیع و بصیر کی توصیف
خبر جو غیب کی دے اس خبیر کی توصیف
کہا قلم نے کہ تحریر میری لاثانی
خیال لفظوں میں ایسا کہ یوسفِ ثانی
تمام حرف گماں یہ کہ، لعل رمانی
ہر اِک سطر ہے مری کہکشاں کی پیشانی
مری سیاہی گناہوں کو دھونے والی ہے
سیہ ضرور ہوں لیکن صفت بلالی ہے
زبان یہ بولی کہ میں آج ہوں طرب مانوس
ہے شوق رقص میں میرے بیان کا طاؤس
حَسیں خیالوں سے روشن ہیں جا بجا فانوس
سنے جو خار بیاباں تو رنگ و بو میں ڈھلے
تیرے حبیب کا وہ ذکر ہو کہ تو بھی سنے
قلم نے کہ میں ہر بیان کا ملبوس
مری خموشی ہے الفت کا نالۂ ناقوس
ثنائے سرورِ کونین کا ہوں میں فانوس
یہ خدوخال ہیں میرے ہی لوح پر منقوش
سفید پر میں سیاہی کا داغ ہوتا ہوں
پر عاشقوں کے دلوں کا چراغ ہوتا ہوں
کہا زباں نے کہ رعنائی میں نے کی ہے کشید
مری نواء سے ہی بوئے خطاب کی ہے شمید
کہیں سرودِ بلاغت، کہیں فصیح نشید
کھلیں نہ پر مرے، پرواز کیا کرے گی شنید
ہر اِک زماں میں فضائیں یتیم، میرے بغیر
کلام کس کو سنائیں کلیم میرے بغیر
سنا جو روزِ بیانِ مدیحِ شاہِ اُمم
جھکا ادب سے ہمیشہ کی طرھ فرق قلم
رقم طراز ہوا، اے خدا! تیری ہے قسم
ازل سے وصفِ نگارِ حضور ہوں پیہم
گناہ گار نہیں ڈوب کر سیاہی میں
ہر ایک نعت ہے میری اسی گواہی میں
میں کھینچ لاؤں گا فن کا ہر اِک سطر میں کمال
حصارِ خط میں حسینانِ رنگ و بو کا جمال
لکھوں گا جب میں سلیمان نعت کا احوال
ہمیں بھی اذن دو ، بلقیس ِ فن کرے گی سوال
نبی کا فیض ہے ، فیض و کمال پر ہے گرفت
رہِ فراز نہ دوں گا، خیال پر ہے گرفت
ازل سے تا بہ ابد لوح پر نوشتہ میں
کہیں پہ حال ہوں اور ہوں کہیں گزشتہ میں
ہوں دستِ کاتبِ تقدیر میں نشستہ میں
ثناء کے وصف سے ہم رتبہ فرشتہ میں
میں اپنے رنگ میں رنگِ غلاف کعبہ ہوں
رُخ ِ بلال و گلیمِ رسولِ بطحا ہوں
یہ معرکہ جو سنا، غیب سے صدا آئی
ہر اِک چمن میں انہیں کی ہے جلوہ فرمائی
فقط قلم ہی نہیں ان کا ایک شیدائی
فقط زباں کو ہی حاصل نہیں ہے یکتائی
شجر حجر ہوں مہ و مہر موں زبان و حروف
وجود جن کو ملا سب ثناء میں ہیں مصروف
زباں کو نطق دیا کُل کی آبرو کے لیے
میرے حبیب کو آنا تھا گفتگو کے لیے
قلم بنا اسی تحریرِ مشکِ بو کے لیے
ہر اِک زمانہ میں اسلام کی نمو کے لیے
رسا ہو آدم خاکی کہ دل میں تم دونوں
میرے حبیب کی جو یاد میں گُم دونوں
آنکھ میں جب اشک آیا ہو گئی نعتِ رسول
درد جب دل میں سمایا ہو گئی نعتِ رسول
جب کسی حق کی داستاں کو زندہ کرنے کے لیے
ظلم سے پنجہ لڑایا ہوگئی نعتِ رسول
جہل کی تاریکیوں میں اعتماد علم کا
اِک دیا جس نے جلایا ہو گئی نعتِ رسول
جب کسی معصوم کو پایا یتیمی کا شکار
اپنے سینے سے لگایا ، ہو گئی نعتِ رسول
امتیازِ بندہ و آقا مٹانے کے لیے
جب کوئی میداں میں آیا ہو گئی نعتِ رسول
کھا کے سنگ دشمنان ِ دیں اگر یہ کہہ دیا
کر بَھلا اس کا خدایا ، ہو گئی نعتِ رسول
یاد کر کے عرصۂ شعبِ ابی طالب کبھی
جس نے دو آنسو بہایا ہوگئی نعتِ رسول
محسنِ انسانیت کی جان کر ، سنّت اگر
جس نے روتوں کو ہنسایا، ہوگئی نعتِ رسول
کیا بتاؤ ں کس قدر ہیں مہرباں مجھ پر حضور
جب قلم میں نے اٹھایا ہو گئی نعتِ رسول
سیرتِ خیر البشر کو دیکھتا جا اے ادیب!
جو ورق نے تو اُٹھایا ہو گئی نعتِ رسول
جلالِ آیت ِ قرآں کو جو سہار سکے
نبی کے دل کے سِوا دوسرا مقام نہیں
وہ لذّتِ غمِ عشقِ رسول کیا جانے
درود لبوں پر نہیں سلام نہیں
وہ دشمنوں کا ہدف وہ قریش کا مظلوم
مگر کسی سے لیا کوئی انتقام؟ نہیں
خیال اس کے تعقب میں تھک کے بیٹھ گیا
سفر براق پہ اس کا مگر تمام نہیں
تمام عمر نہ پائے ، ملے تو لمحوں میں
متاعِ عشقِ محمد مذاقِ عام نہیں
ادیب ان کے ثناگو میں نام ہے میرا
مقامِ شکر کہیں اور میرا نام نہیں
دیارِ مدح میں الفاظ کا جب کارواں نکلا
عَلم لے کر قلم نکلا ، اَدا بن کر بیان نکلا
بصد اندازِ رعنائی ، بصد حُسنِ شکیبائی
برنگ ِ گلستاں نکلا ، بشکل ِ کہکشاں نکلا
اُدھر چِھڑکا جو رِہ میں چاندنی کو ماہِ نُدرت نے
اِدھر خورشید ِ معنیٰ در قبائے صدیاں نکلا
وفد قوسِ قزح لائی کہ شامِل رنگتیں کرلو
طیورانِ چمن دوڑے کہ دیکھو گلستاں نکلا
امیرِ کارواں کو منتخب کرنے کی بات آئی
فقط اِک عشق ایسا تھا جو سب میں کامراں نکلا
پئے پرواز، براّقِ تخیّل ، سامنے آیا
تجسّس نے ذرا سی ایڑ دی وہ لامکاں
بہت ہی ساز و ساماں خیمۂ فکر سخن میں تھا
مگر ان سب میں آنسو ہی متاعِ کارواں نکلا
مرصّع ہوگئی جب نعت حُسن لفظ و معنٰی سے
ادائے نعت کا اِک مسئلہ بھی امتحاں نکلا
سُنایا بُلبل و قمری نے سو انداز سے لیکن
ادیبِ خُوش نَواہی تھا جو سب میں خوش بیاں نکلا