آیا نہ ہوگا اس طرح رنگ و شباب ریت پر
گُلشنِ فاطمہ کے تھے سارے گُلاب ریت پر
جانِ بتول کے سِوا کوئی نہیں کھِلا سکا
قطرہ ٔ آب کے بغیر اتنے گُلاب ریت پر
ترے حُسین آب کو میں جو کہوں تو بے ادب
لمسِ لبِ حُسین کو تَرسا ہے آب ریت پر
عشق میں کیا لُٹایئے عشق میں کیا بچا ئیے
آلِ نبی نے لکھ دیا سارا نصاب ریت پر
لذّت سوزش ِ بلال، شوقِ شہادتِ حُسین
جس نے لیا یونہی لیا اپنا خطاب ریت پر
جتنے سوال عشق نے آل ِ رسول سے کیے
ایک سے بڑھ کے اِک دیا سب نے جواب ریت پر
آل ِ نبی کا کام تھا آلِ نبی ہی کر گئے
کوئی نہ لکھ سکا ادیب ایسی کتاب ریت پر
الف اللہ چنبے دی بوٹی مرے من وچ مرشد لائی ہو
نفی اثبات دا پانی ملسیں،ہر رگیں ھرجائی ہو
ہرجا بوٹی مشک مچایا ، جان پھلن تےآئی ہو
جیوے مرشد کامل باہو جیں ایہ بوٹی لائی ہو
ایمان سلامت ھر کوئی منگے ، اتےعشق سلامت کوئی ہو
منگن ایمان شرماون عشقوں میرےدل نوں غیرت ہوئی ہو
جس منزل نوں عشق پچاوے ایماں نوں خبر نہ کوئی ہو
میرا عشق سلامت رکھیں باہو ایماں نوں دیواں دھروئی ہو
تن میرا چشماں ہووے تے میں مرشد ویکھ نہ رجاں ہو
لوں لوں دے مڈھ لکھ لکھ چشماں ہک کھولاں ہک کجاں ہوں
اتنا ڈٹھیاں مینوں صبر نہ آوے میں ہو رکتِے ول باَ ں ہو
مرشد دا دیدار باہو مینوں لکھ کروڑاں حجّاں ہو
بغداد شہر دی کیا نشانی جِتھے اُچیاں لایکں چیلاں ہو
تن من ساڈا پرزے پرزے جیوں درزی دیاں لیراں ہو
انہاں لیراں دی گل کفنی پا کے رل ساں سنگ فقیراں ہو
بغداد شہر دے ٹکڑے منگساں باہو کرساں میراں میراں ہو
اسیروں کے مشکل کشا غوث اعظم
فقیروں کے حاجت روا غوثِ اعظم
مریدوں کو خطرہ نہیں بحرِ غم سے
کہ بیڑے کے ہیں نا خدا غوث اعظم
بھنور میں پھنسا ہے ہمارا سفینہ
بچا غوث اعظم بچا غوث اعظم
جسے خلق کہتی ہے پیار خدا کا
اسی کا ہے تُو لاڈلا غوث اعظم
مری مشکلوں کو بھی آسان کردو
کہ ہو آپ مشکل کشا غوث اعظم
سروں پر جسے لیتے ہیں تاج والے
تمہارا قدم ہے وہ یا غوث اعظم
وہاں سر جھکاتے ہیں سب اونچے اونچے
جہاں ہے ترا نقش پا غوث اعظم
کہے کس سے جاکر حسن اپنے دل کی
سُنے کون تیرے سوا غوث اعظم
اُس حسین ابن حیدر پہ لاکھوں سلام
کر لیا نوش جس نے شہادت کا جام
جس کو دھوکے سے کوفے بلایا گیا جس کو بیٹھے بٹھائے ستایا گیا
جس کے بچوں پیاسا رلایا گیا جس کی گردن پہ خنجر چلایا گیا
اس حسین ابن حیدر پہ لاکھوں سلام
جس کا جنت سے جوڑا منگایا گیا جس کو دوش نبی ﷺپہ بٹھا یا گیا
زھر بھائی کو جس کے پلایا گیا جس کو تیروں سے چھلنی کرایا گیا
اس حسین ابن حیدر پہ لاکھوں سلام
جس نے حق کربلا میں ادا کر دیا اپنے نانا کا وعدہ وفا کر دیا
سب کچھ امت کی خاطر فدا کر دیا گھر کا گھر ہی سپرد خدا کر دیا
اس حسین ابن حیدر پہ لاکھوں سلام
کر چکا وہ حبیب اپنی حجت تمام لے کے اللہ اور اپنے نانا کا نام
کوفیوں کو سنائے خدا کے کلام اور فدا ہوگیا وہ وہیں تشنہ کام
اس حسین ابن حید ر پہ لاکھوں سلام
آئی تو کاٹنے کے لیے سب کے پاس مرگ
رشتہ جو آدمی کے بدن سے ہے جان کا
اس طرح سے کسی کی تواضع نہیں ہوئی
خونِ شہید کے لیے دامن قرآن کا
اُدھر ترتیلِ قرآنی ، کوئی ترمیم ناممکن
جو آیت حکم جو لائی ، عمل ایسا ہی کرنا ہے
اِدھر ترتیب ِ عثمانی کہ جو سورۃ جہاں رکھ دی
قیامت تک اسی ترتیب سے قرآن پڑھنا ہے
تو نے بھی عجب شان دکھائی ہے خدایا
جب تیغ نے خوں، حضرت ِ عثمان بہایا
گرنے نہ دیا قطرۂ خون پہلے زمیں پر
رحمت نے تیری دامنِ قرآن بچھایا
از آدم تا محمد مصطفٰے کوئی نہیں ایسا
کہ جن کے عقد میں دو بیٹیاں ہوں اک پیمبر کی
حیاء کی ، مصطفٰے کی دوستی کی ، یا مقدر کی
وہ ایک منظر وَمَا رَ مَیْتَ جہاں خدا خود یہ کہہ رہا ہے
یہ دست دست ِ نبی نہیں ہے یہ دستِ قدرت فقط مِرا ہے
یہ ایک منظر ، شجر کے نیچے نبی کا بیعت کے وقت کہنا
یہ دست ِ بیعت نبی کا ہے اور یہ دستِ عثمان دوسرا ہے
بچوں کو لوریوں میں کہیں ماں قریش کی
سو جاؤ میرے لال کہ ماں غمگسار ہے
ہے تم سے اتنا پیار ، کہ رحمٰن کی قسم
جیتنا قبیلے والوںکو عثمان سے پیار ہے
بغداد کے والی سے یونہی پیار کریں گے
ہم ان کے ہیں ان سے یہی اقرار کریں گے
تھاما ہے جو دامن شہہِ جیلان کا ہم نے
پھر کرلو یقین بیڑا وہی پار کریں گے
ہم کو جو ملا ہے وہ ملا غوث کا صدقہ
ہم دار پہ چڑھ کے بھی یہ اظہار کریں گے
کیا کفر ہے کیا شرک ہمیں اس سے غرض کیا
ہم غوث کے ہیں غوث کا پرچار کریں گے
ان کا ہے کرم سب پہ شکیل اپنا یقیں ہے
وہ لوگ ہیں بدبخت جو انکار کریں گے
پیراں ولیوں کے امام دے دو پنجتن کے نام
میں نے جھولی ہے پھیلائی بڑی دیر سے
ڈالو نظر کرم اک بار اپنے منگتوں پہ سرکار
میں نے آس ہے لگائی بڑی دیر سے
دل کی کلی تو آج کھلی ہے آپ آئے ہیں خبر ملی ہے
ذرا دھیرے دھیرے آؤ ذرا دھیرے دھیرے آؤ
للہ نظرِ کرم فرماؤ میں نے محفل ہے سجائی بڑی دیر سے
چاروں طرف ہے غم کے اندھیرے مدد کو آؤ آقامیرے
تمہیں واسطہ نبی ﷺ کا دے دو صدقہ علیؓ کا
میں نے بپتا ہے سنائی بڑی دیر سے
پیراں ولیوں کے امام دے دو پنجتن کے نام
میں نے جھولی ہے پھیلائے بڑی دیرسے
پیرانِ پیر لجپال میراں نور نبی مصطفٰے کے لال میراں
پیرانِ پیر لجپال میراں
خاک قدم کا میں سرمہ بناؤں راہ میں تیری میں پلکیں بچھاؤں
محبوب رب ذوالجلال میراں پیران پیر لجپال میراں
سر پہ ولایت کا ہے تاج والا نورِ نبی کا ہے کاندھے پہ دو شالا
پنج تنی رخ پہ ہے جلال میراں پیراں پیر لجپال میراں
قادری سخاوت کے چرچے بڑے ہیں غوث وقطب ہاتھ باندھے کھڑے ہیں
کر رہے ہیں سب کو مالا مال میراں پیران پیر لجپال میراں
ولیوں نے قدموں میں گردن جھکائی سایا فگن تم پہ ہے مصطفائی
آپ کی نہیں کوئی مثال میراں پیران پیر لجپال میراں
عاصی کے دل کو مدینہ بنادو نورِ محمد ﷺ کے جلوے سجادو
کردو کرم پیر با کمال میراں پیران پیر لجپال میراں
کلام میّسر نہیں
تیری تکریم میں تیری تعظیم میں کس کو شک ہے بھلا کربلا کربلا
پھر بھی میرا قلم، تجھ سے شکوے رقم آج کرنے چلا کربلا کربلا
تو فراط آشنا ، تجھ میں دجلہ رواں پھر بھی آل ِ محمد کی سوکھی زباں
تیرے مہمان تھے ، اپنے مہمان سےتو نے یہ کیا کیا کربلا کربلا
واسطہ ان کے آباء کا دے کر اگر ، مانگتا اپنے سینہ میں زم زم کا گھر
اِک کرشمہ دکھاتا وہاں بھی خدا، کیوں نہ مانگی دعا کربلا کربلا
رات ہو دن ہو جب ان کے ہلتے جو لب ، اپنے خیموں میں قرآن پڑھتے تھے سب
تو نے دیکھا یہ سب ، تو نے خود بھی سنا اور کچھ نہ کیا کربلا کربلا
جن کے اہلِ حرم نُورِ مستورِ حق ، چادریں جن کے سر کی قرآں کا ورق
جن کےخیموں کے پردے غلافِ حرم، ان کو لوٹا گیا کربلا کربلا
آرزو التجا حسرتیں منّتیں ، جن کے قدموں کے بو سے کو حوریں کریں
ایسی شہزادیاں اور بربادیاں ، تو نے دیکھا کیا کربلا کربلا
وہ سکینہ تھی جو غم سے موسوم تھی ، کتنی معصوم تھی کتنی مغموم تھی
پوچھتی پھر رہی تھی ہر اِک سے پتہ ، تو نے کیا کہ دیا کربلا کربلا
نسل سے بولہب کی وہ دو ہاتھ تھے جن میں نیزہ تھا نیزے پہ فرقِ حُسین
کاش ہوتے نبی تو اترتی وہاں پھر سے تبت یدا کربلا کربلا
اہلِ بیت اور ان کی محبّت ادیب ، یہ مقدر یہ قسمت ، یہ روشن نصیب
اس وظیفہ سے راضی ہے مجھ سے خدا دیکھ یہ مرتبہ کربلا کربلا
تیرا نام پاک معین الدین تو رسول پاک کی آل ہے
تری شان خواجہ خواجگاں تجھے بیکسوں کا خیال ہے
مرا بگڑا وقت سنوار دے، مرے خواجہ مجھ کو نواز دے
تیری اک نگاہ کی بات ہے مری زندگی کا سوال ہے
یہاں بھیک ملتی ہے بے گماں، یہ بڑے سخی کا ہے آستاں
یہاں سب کی بھرتی ہیں جھولیاں یہ درِ غریب نواز ہے
میں گدائے خواجۂ چشت ہوں مجھے اس گدائی پہ ناز ہے
مجھے ناز خواجہ پہ کیوں نہ ہو مرا خواجہ بندہ نوازہے
ترے فیضانِ بے حد سے کسے انکار ہے وارث
کہ ہم جیسے غریبوں کا تو ہی غمخوار ہے وارث
مری کشتی ہے طوفانِ حوادث کے تھپیڑوں میں
اب ایسے وقت میں تیری مدد درکار ہے وارث
ادب ہے مانع اظہار ورنہ صاف کہہ دیتا
کہ دیدارِ محمدﷺ آپ کا دیدار ہے وارث
حریم ناز سے باہر کسی دن زحمت جلوہ
کہ مدت سے زمانہ طالب دیدار ہے وارث
جو یوں ممکن نہیں تو خواب ہی میں عید نظارہ
کہ عنبر بھی تمہارا طالب دیدار ہے وارث
تری مدح خواں ہر زباں غوثِ اعظم
ترا نام مومن کی جاں غوثِ اعظم
پناہِ غریباں تری ذاتِ والا
ترا گھر ہے دارُ الاماں غوثِ اعظم
ترے جدّ ِ امجد ہیں نورِ الٰہی
ہے نُوری ترا خانداں غوثِ اعظم
ترے وعظ میں آکے شاہِ عرب نے
بڑھادی تری عز وشاں غوثِ اعظم
ملے گی ہمیں تیرے دامن کے نیچے
دو عالم میں امن و اماں غوثِ اعظم
ذرا صدق دل سے پکارو تو ان کو
ابھی جلوہ گر ہوں یہاں غوثِ اعظم
جمیل اب ہوں ساکت مقام ادب ہے
کہاں تیرا منہ اور کہاں غوثِ اعظم
تری شان شان یدُ الٰہی تو بڑا غریب نواز ہے تری شان، شان یدُ الٰہی
نہ ہو کعبہ کیوں تیرا آستاں، تری نسبتیں ہیں قرارِ جاں
تری نسبتوں ہی پہ ناز ہے تو بڑا غریب نواز ہے
تری شان، شانِ یدُ الٰہی
ترے در سے داغِ جبیں ملا، یہ نشان کتنا حسیں ملا
یہ نیاز حاصل ناز ہے، تو بڑا غریب نواز ہے
تری شان، شانِ یدُ الٰہی
تو معین امت مصطفٰے ، تو ثبوت رحمت مصطفٰے
تو عطائے میر حجاز ہے تو بڑا غریب نواز ہے
تری شان، شانِ یدُ الٰہی
ہمیں تو نے اپنا بنالیا، غم دو جہاں سے بچالیا
ترا دست جو دو راز ہے تو بڑا غریب نواز ہے
تری شان، شانِ یدُالٰہی
تیرے کیف ذکر سے جھوم لیں تیرے آستانے کو چوم لیں
یہی عاشقوں کی نماز ہے تو بڑا غریب نواز ہے
تری شان، شانِ یدُ الٰہی
تو حبیب ذات الٰہ ہے، تو ہی بیکسوں کی پناہ ہے
تو کریم وبندہ نواز ہے، تو بڑا غریب نواز ہے
تری شان، شان، یدُ الٰہی
جو سنی گئی سرِ کربلا، ہے تری صدا بھی وہی صدا
وہی نغمہ ہے وہی ساز ہے تو بڑا غریب نواز ہے
تری شان، شانِ یدُالٰہی
نہ گنے گئے وہ شمار سے، جو پلے ہیں تیرے دیارسے
درِ فیض آج بھی باز ہے تو بڑا غریب نواز ہے
تری شان، شانِ یدُالٰہی
تری شان انجم بینوا، کسی حال میں بھی نہ لکھ سکا
تو خدائے پاک کا راز ہے تو بڑا غریب نواز ہے
تری شان، شانِ یدُالٰہی
تِرا ذرّہ مہِ کامل ہے یا غوث تِرا قطرہ یم سَائل ہے یا غوث
کوئی سَالک ہے یا واصل ہے یا غوث وہ کچھ بھی ہو ترا سَائل ہے یا غوث
قدِ بے سایہ ظلِ کبریا ہے تو اس بے سایہ ظل کا ظل ہے یا غوث
تری جاگیر میں ہے شرق تا غرب قلمرو میں حرم تاحل ہے یا غوث
دل عِشق و رُخ حسن آئینہ ہیں اور ان دونوں میں تیرا ظلل ہے یا غوث
تِری شمع دِل آرا کی تب و تاب گل وبلبل کی آب و گل ہے یا غوث
تِرا مجنو ں تِرا صحرا تِرا نجد تِری لیلی تِرا محمل ہے یا غوث
یہ تیری چمپئی رنگت حسینی حسن کے چاند صبحِ دل ہے یا غوث
گلستاں زار تیری پنکھڑی ہے کلی سو خلد کا حاصل ہے یا غوث
اگال اس کا ادھار ابرا ر کا ہو جسے تیرا اُلش حاصل ہے یا غوث
اشارہ میں کیا جس نے قمر چاک تو اس مَہ کا مہِ کامل ہے یا غوث
جِسے عرشِ دوم کہتے ہیں افلاک وہ تیری کرسیِ منزل ہے یا غوث
تو اپنے وقت کا صدّیق ِ اکبر غنی وحیدر و عادل ہے یا غوث
ولی کیا مَرسل آئیں خود حضور آئیں وہ تیری وعظ کی محفل ہے یا غوث
جسے مانگے نہ پائیں جاہ والے وہ بن مانگے تجھے حاصل ہے یا غوث
فیوضِ عالم اُمّی سے تجھ پر عیاں ماضی و مستقبل ہے یا غوث
جو قرنوں سیَر میں عارف نہ پائیں وہ تیری پہلی ہی منزل ہے یا غوث
ملک مشغول ہیں اُس کی ثنا میں جو تیرا ذاکر و شاغل ہے یا غوث
نہ کیوں ہو تیری منزل عرش ثانی کہ عرشِ حق تِری منزل ہے یا غوث
وہیں سے اُبلے ہیں سَاتوں سمندر جو تیری نہر کا ساحل ہے یاغوث
ملائک کے بشر کے جن کے حلقے تری ضَو ماہ ہر منزل ہے یا غوث
بخارا و عراق و چشت و اجمیر تری لَو شمع ہر محفل ہے یا غوث
جو تیرا نام لے ذاکر ہے پیارے تصوّر جو کرے شاغل ہے یا غوث
جو سر دے کر ترا سود ا خریدے خدا دے عقل وہ عاقل ہے یا غوث
کہا تو نے کہ جو مانگو ملے گا
رضا تجھ سے ترا سائل ہے یا غوث
تجھ کو پکارتا ہوں اے خواجۂ اجمیری
کر دے نگاہ مجھ پر قسمت بدل دے میری
در، در کہاں پھروں میں، تجھ پر ہی مرمٹوں میں
میں ہو گیا ہوں تیرا اب لاج رکھ لے میری
مشتاق دید لاکھوں کب سے تڑپ رہے ہیں
دے اذنِ حاضری اب کس بات کی ہے دیری
ہو تیری ذات سے وہ نسبت مجھے بھی حاصل
جب بھی پکاروں تجھ کو تو بات سن لے میری
پچھلے برس تو کی تھی اجمیر کی زیارت
اس سال میرے خواجہ پھر حاضری ہو میری
ہو جائے کاش پوری محمود کی تمنا
ہو ہر طرف اجالا چھٹ جائے یہ اندھیری
ثییًا للہ یا عبدالقادر ساکن البغداد یا شیخ الجیلانی
ادھر بھی نگاہِ کرم غوثِ اعظم
کرو دور رنج و الم غوثِ اعظم
ثییًا للہ یا عبدالقادر ساکن البغداد یا شیخ الجیلانی
گھرا ہوں میں ہر سمت سے رنج وغم ہیں
خدارا ہو مجھ پہ کرم غوثِ اعظم
ثییًا للہ یا عبدالقادر ساکن البغداد یا شیخ الجیلانی
وہ رتبہ ہے تیرا کہ جتنے ولی ہیں
ہیں سب تیرے زیر قدم غوثِ اعظم
ثییًا للہ یا عبدالقادر ساکن البغداد یا شیخ الجیلانی
ہے گردن میں تیری غلامی کا پٹا
تجھی سے ہے میرا بھرم غوثِ اعظم
ثییًا للہ یا عبدالقادر ساکن البغداد یا شیخ الجیلانی
مرا ہر مرض دور ہو جائے پل میں
کرو ایسا آ کر کے دم غوثِ اعظم
ثییًا للہ یا عبدالقادر ساکن البغداد یا شیخ الجیلانی
جو تِرا طِفل ہے کامل ہے یا غوث طفیلی کا لقب واصل ہے یا غوث
تصوف تیرے مکتب کا سبق ہے تصرّف پر ترا عامل ہے یا غوث
تِری سَیِرالی اللہ ہی ہے فی اللہ کہ گھر سے چلتے ہی موصل ہے یا غوث
تو نورِ اوّل و آخِر ہے مَولیٰ تو خیر عاجل و آجل ہے یا غوث
ملک کے کچھ بشر کچھ جن کے ہیں پیر تو شیخ عالی و سافل ہے یا غوث
کتابِ ہر دل آثار تعرّف ترے دفتر ہی سے ناقل ہے یا غوث
فتوح الغیب اگر روشن نہ فرمائے فتوحات و فصوص آفل ہے یا غوث
تِرا منسوب ہے مَرفوع اس جا اضافت رَفع کی عامل ہے یا غوث
ترے کامی مشقت سے بَری ہیں کہ بَر تر نصب سے فاعل ہے یا غوث
ھدً سے احمد اور احمد سے تجھ کو کن اور سب کن مکن حاصل ہے یا غوث
تری عزّت ، تری رفعت تِرا فضل بفضلہ افضل و فاضل ہے یا غوث
ترے جلوے کے آگے منطقہ سے مہ و خور پر خط باطل ہے یا غوث
سیاہی مائل اس کی چاندنی آئی قمر کا یوں فلک مائل ہے یاغوث
طلائے مہر ہے ٹکسال باہر کہ خارج مرکز حامل ہے یا غوث
تو برزخ ہے برنگ نونِ منّت دو جانب متصلِ واصل ہے یا غوث
نبی سے آخذ اور امّت پہ فائِض ادھر قابل ادھر فاعل ہے یاغوث
نتیجہ حدّ اوسط گر کے دے اور یہاں جب تک کہ تو شامل ہے یا غوث
اَلَا طُوْبٰی لَکُم ْ ہے وہ کہ جن کا شبانہ روز ور د دل ہے یا غوث
عجم کیسا عرب حل کیا حَرم میں جمی ہر جا تِری محفل ہے یا غوث
ہے شرحِ اسمِ اَلْقَادِر ترا نام یہ شرح اس مَتن کی حامل ہے یا غوث
جبینِ جبَہ فرسائی کا ضدل تِری دیوار کی کھ گل ہے یاغوث
بجا لایا وہ امرِ سَارِعُوْا کو تِری جانب جو مستعجل ہے یا غوث
تصرّف والے سب مظھر ہیں تیرے تو ہی اس پر دے میں فاعل ہے یا غوث
رضا کے کام اور رُک جائیں حاشا
تِرا سائل ہے تو باذل ہے یاغوث
کلام میّسر نہیں
حجّت کے لیے حشر میں ہوگی یہ دلیل
ہر شے کو عطا ہوگی بشر کی صورت
اللہ کی یہ شکل کے خورشید ِ جلال
اللہ کا قرآن ، عمر کی صورت
دین ِ حق کی سر بلندی میں نبوّت کی طلب
بارگاہِ ربّ العزّت میں ہوا ہو جس پہ صاد
ساری دنیا ہے شہنشہاہِ دو عالم کی مُرید
اور عمر خود ہیں شہنشاہِ دو عالم کی مُراد
صف میں جو گُھس پڑے وہ لیے تیغِ شعلہ ور
سر کافروں کے دوش پہ آئے نہ پھر نظر
ہیبت سے ان کی دن میں نکلتے نہ تھے عدو
راتوں کو خواب میں بھی پُکاریں عمر عمر
لڑنے میں یوں تو ایک سے ایک بے مثال ہے
پھر بھی دلوں میں خوف عمر کا یہ حال ہے
ہیں ماہر ان حرب کے باہم یہ مشورے
خطّاب کے پسر سے لڑائی محال ہے
حبیب کبریا کے ہمنوا فاروق اعظم ہیں
یقیناً متقی وپار سا فاروق اعظم ہیں
ہےلرزہ ان کےنام پاک سےشیطان کا لشکر
جلال وشان میں بیحد جدا فاروق اعظم ہیں
نزولِ آیتِ فرقاں ہوٸی تجویز پر جن کے
خوشا اس اوج پر جلوہ نما فاروق اعظم ہیں
زمانے نے سبق سیکھا ہے جن کی ذات سے حق کا
وہی ہاں واقف سرّ خدا فاروق اعظم ہیں
کبھی ان کی حیاتِ جاں فزا پڑھ کر ذرا دیکھو
تمہیں معلوم ہوگا پھر کہ کیا فاروق اعظم ہیں
درِ فاروق سے اے عارفہ جو لینا ہے لے لو خدا کے فضل سے حاجت روا فاروق اعظم ہیں
خدا کا خوف ذکر ِ مصطفٰے سرمایۂ عثمان
سرور و کیف قربِ مصطفٰے سرمایہ ٔ عثمان
بیان سرکاری کی مدحت سدا، پیرا یۂ عثمان
نہ تھا ایسا نہ اب ہوگا کوئی ہم پایہ ٔ عثمان
نہ تھا آئینہ ٔ دل پر غبار ِ عصبیت ان کے
اگر چہ تھے حریفِ ہاشمی اَجداد سب ان کے
صفائے باطنی ان کا مکدر ہو نہ سکتا تھا
کوئی اس دل میں اب تخمِ رقابت بُو نہ سکتا تھا
جہالت کے اندھیروں سے نکل کر نُور میں آئے
قرابت وہ مِلی ، دو نور والے آپ کہلائے
قدم ہجرت کا مکہ سے نکالا آپ نے پہلے
حبش کو دین کا بخشا اُجالا آپ نے پہلے
وہ دورِ جاہلیت جو بھرا تھا آبِ گلگوں سے
حیاء والے کے لب نا آشنا تھے اس کے افسوس سے
حیاء کے ذکر کا جب بھی کوئی عنوان ہوتا تھا
لبِ شاہِ مدینہ پر فقط عثمان ہوتا تھا
نبی ارشاد فرماتے کتابت آپ کرتے تھے
بڑی دشوار تھی منزل، بآسانی گذرتے تھے
اشارہ پر نبی کے مال سب قربان ہوجاتا
جو حاتم آج ہوتا ، آپ کا دربان ہوجاتا
یہودی کو دیا کل مال، شیریں آب کے بدلے
ہوئے سیراب تشنہ لب مسلمان ، بیر رومہ سے
بنے وہ بیعت ِ رضوان میں تاجِ فخر کا طُرّہ
نبی نے ہاتھ بیعت میں جب ان کے نام پر رکھا
مراکش سے ملے کابل کے ڈانڈے عہد میں جن کے
ہوئے اسلام کے زیرِ نگیں ، دنیا کے یہ حصے
طرابلس اور افریقہ بنا اِسلام کا حصہ
بغاوت مصر کی توڑی ، فتح قبرص بھی کر ڈالا
ہو ا جب کوہِ لرزاں، مصطفٰے نے اس سے فرمایا
کہ تجھ پر اِک نبی، صدیق اِک اور اِک شہید آیا
شہادت معتبر تھی ، ایک دن ایسا بھی ہونا تھا
سرِ تسلیم اپنا خم کیا ، ایسا بھی ہونا تھا
شہادت کا وہ لمحہ، وہ تحمّل ، صبر کا پیکر
جو اخلاقِ کریمانہ کا ٹھرا ٓخری منظر
فَسَیَکْفِیْکَھُمْ آیت پہ جب خوں آپ کا ٹپکا
قراں کا ہر ورق دامن کو پھیلائے ہوئے لپکا
قیامت میں کریں گے لوگ جب قرآن کی باتیں
کریں گے ساتھ ہی وہ حضرتِ عثمان کی باتیں
اُتر کر خون کے دریا میں جو کوئی اُبھرتا ہے
ہٹا کر زیست کے پردے زیارت حق کی کرتا ہے
نہیں مرتا ادیب اس راہ میں ، جب کوئی مرتا ہے
وہ کب مرتا ہے جو راہِ شہادت سے گزرتا ہے
دہلی راجھستا ن تمہارا یا خواجہ
سارا ہندوستان تمہارا یا خواجہ
ہند میں نوے لاکھ کو کلمہ پڑھوایا
ہم پر ہے احسان تمہارا یا خواجہ
سارا انا ساگر کوزے میں بھر آیا
سنتے ہی فرمان تمہارا یا خواجہ
فیضِ مدینہ ملتا ہے اجمیر سےبیا
روضہ ہے ذیشان تمہارا یا خواجہ
ان دونوں پہ خاص کرم تم فرمانا
شاکر اور رضوان تمہارا یا خواجہ
سید کو طیبہ کی گلیاں دکھلا دو
ہے ادنٰی دربان تمہارا یا خواجہ
درِ میخانہ وا ہوتا ہے اب جوشِ عقیدت کا
شراب ان کے تصور کی صبو ان کی محبت کا
نظر کے سامنے سب اہلِ دل اور اہلِ نسبت ہیں
خداوند بھرم رکھنا مری نسبت ، مرے غم کا
حمایت میں ، امامت میں ، شجاعت میں ، حوادث میں
علی داور ، علی رہبر ، علی حیدر، علی مولیٰ
کوئی عابد ، کوئی عارف، کوئی عاطف ، کوئی عاکف
کوئی عاجز ، کوئی عالی ، کوئی عاشق نہیں ایسا
قناعت میں قلندر وہ سخاوت میں سمندر وہ
شجاعت میں لقب ہے قوتِ پروردگار ان کا
وہ سیف اللہ ، وجہہ اللہ ، دامادِ رسول اللہ
وہی شبیر کا بازو، وہی سرمایہ ٔ زہرا
بتوں کا سر جُھکانے میں ، دلوں میں گھر بنانے میں
وہی ضرب الفتح نکلا، وہی خیبر شکن ٹھہرا
امیرٌ وہ جریٌ وہ شجاعٌ وہ شہیدٌ وہ
فصیحٌ وہ بلیغٌ وہ خطابت پر جہاں شیدا
مِری عزّت ، مری عظمت، مِری اُلفت مِری نسبت
علی مولیٰ ، علی مولیٰ ، علی مولیٰ علی مولیٰ
ادیب ان کی محبّت میں اگر آنکھوں میں اشک آئے
اِدھر آنکھوں میں نم ہوگا اُدھر لطف و کرم ہوگا
دُخترِ ختمِ الرسل جانِ پیمبر فاطمہ
اے وقارِ بُو ترابی، شانِ حیدر فاطمہ
رُوح کی تشنہ لبی کو آب کوثر ، فاطمہ
سجدہ گاہِ اہلِ ایماں، آپ کا در فاطمہ
لُٹ رہا تھا کربلا میں آپ کا گھر، فاطمہ
آپ نے دیکھا ہے محشر، قبلِ محشر، فاطمہ
آپ کی نسبت ہوئی ہم کو میسّر ، فاطمہ
آپ کی مدحت ہوئی اپنا مقدر، فاطمہ
ضبط کے خُو گر علی تھے ، صبر کے خُوگر حسین
آپ کی ہستی میں ہیں دونوں ہی جوہر ، فاطمہ
ذی حسب، اعلیٰ نسب، زہرہ لقب، ذوالاحترام
سب سے اعلیٰ سب سے افضل، سب سے بہتر فاطمہ
خم شہنشاہانِ عالم کی جبیں ہے دیکھ کر
آپ کا نقشِ کفِ پائے مطہّر ، فاطمہ
بندگی کیا، دین کیا، ایمان کیا ، اِسلام کیا
مصطفٰے ، شیرِ خدا ، شبّیر و شبّر فاطمہ
سر فروشی کا سبق دے ، صبر دے ، ایثار دے
اب کہاں ایسی کوئی آغوشِ مادر، فاطمہ
عرش ہِل جاتا اگر فریاد کو اُٹھتے وہ ہاتھ
آپ نے رکھا اُنہیں چکّی کا خُوگر، فاطمہ
مصطفٰے کے اور آل ِ مصطفٰے کے ہیں غلام
اپنے دامن میں چھپالیں یہ سمجھ کر، فاطمہ
خاتمہ بالخیر ہو عشقِ نبی میں جب ادیب
ڈال دیں رحمت کی اِس مجرم پہ چادر فاطمہ
کلام میّسر نہیں
کلام میّسر نہیں
رس بہ فریاد یا شہۂ بغداد
وقت امداد یا شہۂ بغداد
تیرے در کے غلام حاضر ہیں
سن لے فریاد یا شہۂ بغداد
اک نگاہِ کرم کے طالب ہیں
دل ہو آباد یا شہۂ بغداد
مشکلیں دور ہوگئیں ساری
جب کیا یاد یا شہۂ بغداد
مجھ کو ہر دل میں نظر آتا ہے
تو ہی آباد یا شہۂ بغداد
تیرے در کا فقیر ہے محمود
کردے اب شاد یا شہۂ بغداد
رُخِ محبوبِ سُبحانی کے صدقے
میں اس تصویر نورانی کے صدقے
شہۂ اقلیمِ عرفانی کے صدقے
جناب غوثِ صمدانی کے صدقے
معین الدین اجمیری کے قرباں
محی الدین جیلانی کے صدقے
بنا ہے سینہ گلزارِ خلیلی
میں اپنے دردِ پہانی کے صدقے
تصدق مہہ جبینوں پر زمانہ
میں اپنے پیر لاثانی کے صدقے
فدا بیدم علی کے لاڈلوں پر
رسول اللہ کے جانی کے صدقے
کلام میّسر نہیں
زینت ِ دوشِ مصطفٰے تجھ کو مِرا سلام ہے
نُور ِ نگاہِ فاطمہ تجھ کو مِرا سلام ہے
منزلِ ہست و بود میں کون ابد مقام ہے
دیکھ رہا ہوں میں حسین ، ایک ترا ہی نام ہے
کشتۂ خنجرِ تسلیم و رضا تجھ کو سلام
مشعلِ نُورِ محمد کی ضیا تجھ کو سلام
نکہتِ بوئے گلستانِ وفا تجھ کو سلام
آبروئے صدف صدق و صفا تجھ کو سلام
کلام میّسر نہیں
سرکار غوثِ اعظم نظرِ کرم خدارا
میرا خالی کاسہ بھردو میں فقیر ہوں تمہارا
جھولی کو میری بھردو ورنہ کہے گی دنیا
ایسے سخی کا منگتا پھرتا ہے مارا مارا
مولا علیؓ کا صدقہ گنج شکر کا صدقہ
میری لاج رکھ لو یا غوث اعظم میں فقیر ہوں تمہارا
سب کا کوئی نہ کوئی دنیا میں آسرا ہے
میرا بجز تمہارا کوئی نہیں سہارا
دامن پسارے درپہ لاکھوں ولی کھڑے ہیں
ہوتا ہے تیرے در سے کونین کا گزارا
یہ تیرا کرم مجھ پر کہ بلا لیا ہے در پر
کہاں روسیاہ فریدی کہاں آستاں تمہارا
شاہِ دیوہ نگر جانِ شاہِ اُمم وارث الاولیاء شاہِ وارث علی
صدقۂ پنجتن ہو نگاہِ کرم وارث الاولیاء شاہِ وارث علی
مظہر ذات ہو مُظہر ذات ہو پنجتن کی نشانی ہو سادات ہو
آپ کی ذاتِ اقدس سراپا کرم وارث الاولیاء شاہِ وارث علی
سج رہی شاہِ وارث کی بارات ہے ہیں جمع اولیاء نوری برسات ہے
سب کے دامن بھریں گے خدا کی قسم وارث الاولیاء شاہِ وارث علی
نامِ وارث ہے عنبر وظیفہ مرا اور سلامت رہے وارثی آستاں
میرے وارث ہیں وارث نہیں کوئی غم وارث اولیاء شاہِ وارث علی
شاہِ جیلاں بہ من زار و پریشاں مددے
نورِ عینین نبیﷺ سید و سلطان مددے
ما غریبیم ، غریب الوطنی ہے آقا
چشمِ رحمت بکشا سوئے غریباں مددے
حاضر برورِ پاک تو بصد رنج و الم
اۓ مسیحائے زماں ، عیسیٰٔ دوراں مددے
بر دلِ مُردۂ من یک نظرِ لطف بکن
پیر پیرانِ جہاں مرشد پاکاں مددے
اشرفی آمدِ در حالتِ پیری بہ درت
دستگیری بہ کنی حامیٔ پیراں مددے
کلام میّسر نہیں
کلام میّسر نہیں
کلام میّسر نہیں
کلام میّسر نہیں
کلام میّسر نہیں
غوثِ اعظم کا دربار
اللہ اللہ کیا کہنا
بغدادی نوری بازار
اللہ اللہ کیا کہنا
تم ہو ہمارے
ہم ہیں تمہارے
تم ہو نبی کے پیارے
ہر مشکل میں غوثِ اعظم
ٹوٹے دلوں کے سہارے
اُجڑوں کو کر دے گلزار
اللہ اللہ کیا کہنا
قطب ، اولیاء غوث و قلندر
ایک سے ایک ہیں بڑھ کر
سارے اولیاء دیں گے سلامی
جائیں گے غوث کے در پر
وہ ہیں ولیوں کے سردار
اللہ اللہ کیا کہنا
غوث اعظم کا دربار
اللہ اللہ کیا کہنا
چورکو پل میں ولی بنایا
نظر سے بگڑی بنائی
ڈوبی کشتی بارہ برس کی
پل میں پار لگائی
بڑھیا کہتی تھی ہر بار
اللہ اللہ کیا کہنا
غوثِ اعظم کا دربار
اللہ اللہ کیا کہنا
ایسے غوث کا ہے یہ حافظ
چھوٹے نہ ہاتھ سے دامن
بگڑے کام بنائے آقا
قربان اُن پہ تن من
وہ کرتے ہیں بڑا پیار
اللہ اللہ کیا کہنا
بغدادی نوری بازار
اللہ اللہ کیا کہنا
فاصلوں کو خدارا مٹادو رخ سے پردہ اب اپنے ہٹادو
اپنا جلوہ اسی میں دکھادو جالیوں پہ نگاہیں جمی ہیں
غوث الاعظم ہو، غوث الوریٰ ہو، نور ہو نورِصلّ علیٰ ہو
کیا بیان آپ کا مرتبہ ہو دستگیر اور مشکل کشا ہو
آج دیدار اپنا کرادو جالیوں پہ نگاہیں جمی ہیں
ہر ولی آپ کے زیرپا ہے ، ہر ادا مصطفیٰ کی ادا ہے
آپ نے دین زندہ کیا ہے ڈوبتوں کو سہارا دیا ہے
میری کشتی کنارے لگادو جالیوں پہ نگاہیں جمی ہیں
شدتِ غم سے گھبرا گیا ہوں، اب تو جینے سے تنگ آگیا ہوں
ہر طرف آپ کو ڈھونڈھتا ہوں اوراک اک سے یہ پوچھتا ہوں
کوئی پیغام ہو تو سنادو جالیوں پہ نگاہیں جمی ہیں
وجد میں آئے گا سارا عالم جب پکاریں گے یا غوث اعظم
وہ نکل آئیں گے جالیوں سے اور قدموں پہ گر جائیں گے ہم
پھر کہیں گے کہ بگڑی بنا دو جالیوں پہ نگاہیں جمی ہیں
سن رہے ہیں وہ فریاد میری خاک ہوگی نہ برباد میری
میں کہیں بھی مردوں شاہِ جیلاں روح پہنچے گی بغداد میری
مجھ کو پرواز کے پر لگادو جالیوں پہ نگاہیں جمی ہیں
فکر دیکھو خیالات دیکھو یہ عقیدت یہ جذبات دیکھو
میں ہوں کیا میری اوقات دیکھو سامنے کس کی ہے ذات دیکھو
اے ادیب اپنے سر کو جھکادو جالیوں پہ نگاہیں جمی ہیں
قَادرا ،سَرورا، رَاہنما، دستگیر
غوثِ اعظم، امامِ مُبیں، بے نظیر
تیرے زیرِ قدم اولیاء ،اصفیاء
سَرورِ سَروراں ،پیرِ روشن ضمیر
ذکر سے تیرے ٹل جائیں سب مشکلیں
نام سے تیرے پائیں رہائی اسیر
تو جِسے چاہے دے، جس قدر چاہے دے
تیری بخشش نرالی عطا بے نظیر
تو ہے آئینہ سیرتِ مصطفٰے
تو علیم وخبیر و بشیر و نذیر
یہ وظیفہ ہے ہر غم کا دَرماں وؔقار
غوثِ اعظم مدد! المدد دستگیر !
کیسے کاٹوں رَتیاں صابر
تارے ِگنت ہوں سیاں صابر
مورے کرجوا ہوک اُٹھت ہے
مو کو لگالے چھتیاں صابر
توری صورتیا پیاری پیاری
اچھی اچھی بتیاں صابر
چیری کو اپنے چرنوں لگالے
میں پروں تورے پیاں صابر
ڈولے نیا موری بھنور میں
بلما پکڑے بیاں صابر
کس نے نبی کا دامن تھاما سب سے پہلے بڑھ کر وہ صدیقِ اکبر
کس نے اٹھایا بارِ امامت لے کر اذنِ پیمبر وہ صدیقِ اکبر
حکمِ خدا سے چھوڑ چلا جب مکّہ دین کا رہبر نام خدا کا لیکر
راہِ خدا میں اس دم جو شئے نکلی نقد پیمبر وہ صدیقِ اکبر
اِک دن کس نے خواب میں دیکھا، جھولی میں چاند آئے اور پھر گھر گھر آئے
دینِ محمد ایسی بشارت لے کر آیا کس پر وہ صدیقِ اکبر
روحِ امیں دربارِ نبی میں ٹاٹ پہن کر آئے جھک کر حال سنائے
اہل ِ فلک کا پہناوا ہے آج یہ کس کی ادا پر وہ صدیقِ اکبر
جن کے دامن کی پاکی پر روحِ قدس کا آنا سورۃ نور سنانا
ایسی حرمت والی اُمِّ اُمّت جن کی دختر وہ صدیقِ اکبر
جن کا عہد ِ رسالت، بارش ابرِ کرم کی ہے بے حد انکا نام محمد
پتھر جن کے دورِ خلافت میں تھے لعل و جواہر وہ صدیقِ اکبر
کلام میّسر نہیں
کلام میّسر نہیں
میں تو پنجتن کا غلام ہوں میں غلام ابنِ غلام ہوں
مجھے عشق ہے تو خدا سے ہے ، مجھے عشق ہے تو رسول سے
یہ کرم ہے زہرہ بتول کا، میرے منہ سے آئے مہک سدا
جو میں نام لوں تیرا جھوم کے
مجھے عشق سروُ وسمن سے ہے ، مجھے عشق سارے چمن سے ہے ، مجھے عشق ان کے چمن سے ہے
مجھے عشق ان کی گلی سے ہے ، مجھے عشق ہے تو علی سے ہے ، مجھے عشق ہے تو حسن سے ہے مجھے عشق ہے تو حسین سے ، مجھے عشق شاہِ زمن سے ہے،مجھے ان کے وطن سے ہے
میں تو پنجتن کا غلام ہوں،میں غلام ابنِ غلام ہوں
ہوا کیسے تن سے وہ سر جدا، جہاں عشق ہو وہیں کربلا
میری بات اُن ہی کی بات ہے ، میرے سامنے وہ ہی ذات ہے
وہ ہی جن کو شیرِخدا کہیں، جنہیں بابِ صلِّ علیٰ کہیں
وہی جن کو آل ِ نبی کہیں ، وہی جن کو ذات ِ علی کہیں
وہی پختہ ہیں میں تو خام ہوں
میں تو پنجتن کا غلام ہوں ، میں غلام ابنِ غلام ہوں
میں قمر ہوں شاعر بے نوا میری حیثیت ہی بھلا ہے کیا
وہ ہیں بادشاہوں کے بادشاہ میں ہوں ان کے در کا بس اِک گدا
میرا پنجتن سے ہے واسط میرا نسبتوں کا ہے سلسلہ
میں فقیرِ خیرالانام ہوں میں تو پنجتن کا غلام ہوں میں غلام ابنِ غلام ہوں
منگتوں پہ نظر یا گنج شکر آباد رہے تیرا، پاکپتن
اۓ خواجہ قطب کے نورِ نظر آباد رہے تیرا پاکپتن
تری دید کو اپنی عید کہیں، سب تجھ کو فرید فرید کہیں
دیتے ہیں صدا خواجہ کلیر آباد رہے تیرا پاک پتن
یوں بابا تری بارات سجی، پیچھے ہیں ولی آگے ہیں نبی
نبیوں کے نبی بھی تیرے گھر آباد رہے تیرا پاکپتن
سہرے کی رنگت اجمیری، ہیں نور کے تارے ہجویری
مخدوم و نظام پڑھیں مل کر آباد رہے تیرا پاک پتن
میں کیوں نہ فرید فرید کہوں، میں کیوں نہ تری چوکھٹ چوموں
ہے در تیرا جنت کا گھر آباد رہے تیرا پاکپتن
ہو خیر غریب نوازی کی، بھرو جھولی غریب نیازی کی
ہو تی ہے یہیں منگتوں کی گزر آباد رہے تیرا پاکپتن
منظر فضائے دہر میں سارا علی کا ہے جس سمت دیکھتا ہوں نظارہ علی کا ہے دنیائے آشتی کی پھبن مجتبی حسن لخت جگر نبی کا تو پیارا علی کا ہے ہستی کی آب و تاب حسینؓ آسماں جناب زہرا کا لال راج دلارا علی کا ہے مرحب دو نیم ہے سر خیبر پڑا ہوا اٹھنے کا اب نہیں کہ یہ مارا علی کا ہے کل کا جمال مظہر کل میں عکس ریز گھوڑے پہ ہیں حسین نظارہ علی کا ہے اے ارض پاک تجھ کو مبارک کہ تیرے پاس پرچم نبی کا چاند ستارا علی کا ہے اہل ہوس کی لقمۂ تر پر رہی نظر نان جویں پہ صرف گزارا علی کا ہے تم دخل دے رہے ہو عقیدت کے باب میں دیکھو معاملہ یہ ہمارا علی کا ہے ہیں فقر مست چاہنے والے علی کے ہیں دل پر ہمارے صرف اجارا علی کا ہے آثار پڑھ کے مہدی دوراں کے یوں لگا جیسے ظہور وہ بھی دوبارہ علی کا ہے دنیا میں اور کون ہے اپنا بجز علی ہم بے کسوں کو ہے تو سہارا علی کا ہے تو کیا ہے اور کیا ہے تیرے علم کی بساط تجھ پر کرم نصیرؔ یہ سارا علی کا ہے |
مفتیِ اعظم بڑی سرکار ہے
جبکہ ادنیٰ سا گدا عطارؔ ہے
مفتیِ اعظم سے ہم کو پیار ہے
اِنْ شَاء اللّٰہ اپنا بیڑا پار ہے
مفتیِ اعظم رضا کا لاڈلا
اور محب سیِّدِ ابرار ہے
عالم و مفتی فقیہِ بے بَدَل
خوب خوش اَخلاق و باکردار ہے
تاجدارِ اہلِ سنّت المدد
بندۂ در بے کس و ناچار ہے
تختِ شاہی کیا کروں میرے لئے
تاجِ عزت آپ کی پَیزار ہے
اعلیٰ حضرت کا رہوں میں باوفا
اِستِقامت کی دعا درکار ہے
آستانے پر کھڑا ہے اِک گدا
طالبِ عشقِ شہِ اَبرار ہے
مسکرا کر اِک نظر گر دیکھ لو
میری شامِ غم ابھی گلزار ہے
میرے دل کو شاد فرما دیجئے
رنج و غم کی قلب پر یلغار ہے
سیِّدی احمد رضا کا واسِطہ
تیرا منگتا طالبِ دیدار ہے
ہُوں گناہوں کے مَرَض سے نیم جاں
دردِ عصیاں کی دوا درکار ہے
ہاتھ پھیلا کر مُرادیں مانگ لو
سائلو ان کا سخی دربار ہے
اِن شاءَ اللّٰہ مغفرت ہو جائے گی
اے وَلی ! تیری دعا درکار ہے
خوب خدمت سنّتوں کی میں کروں
سیِّدی تیری دعا درکار ہے
کاش نوریؔ کے سگوں میں ہو شمار
یہ تمنائے دلِ عطارؔ ہے
مرے طرزِ سخن کی جان ہیں گُل بھی گُلستاں بھی
مرا حُسنِ بیاں ہے خار بھی چاکِ گریباں بھی
مرے دامن میں ، جگنو ہیں جہاں اور چاند تارے بھی
اِسی دامن میں رکھتا ہوں کچھ آہیں اور شرار ے بھی
جو میری عمر کا حاصل ہے ذکرِ مصطفٰے کرنا
تقاضائے محبّت ہے بیانِ کربلا کربلا
تقاضہ ہے ضمیرِ شاعر حق گو کی فِطرت کا
کہ حق گوئی و بیبا کی پہ مبنی سخن اُس کا
بیانِ سیّد الشُہداء کی جب تمہید ہوتی ہے
وہی عہدِ وفا کے رسم کی تجدید ہوتی ہے
حسین ابنِ علی ، سبطِ پیمبر ، شرفِ انسانی
وہ جس کے رُخ پہ تھی نُورِ محمد کی فراوانی
شہیدِ کربلا تاریخ کا عنوان ہے گویا
حسین ابنِ علی ہر قلب میں مہمان ہے گویا
بتایا ، کس طرح کرتے ہیں اُمّت کی نگہبانی
سکھایا ، کس طرح رکھتے ہیں سجدوں میں یہ پیشانی
جَلایا اس نے ظلمت میں چراغِ نُورِ ایمانی
یہ سب کچھ جانتے تھے پھر اُسے دیتے نہ تھے پانی
بہت ہی مختصر، بندوں سے رب کا فاصلہ نکلا
حرم سے لے کے اہلِ بیت کو، جب قافلہ نکلا
عمامہ باندھ کر عہدِ وفا کا ، کربلا جانا
تھا اُمّت کے لیے مقصود ان راہوں کا دکھلانا
وہ راہیں جو عروجِ آدمیت کا سبب ٹھریں
زوال ِ ظلم ٹھریں ، حق پرستوں کا لقب ٹھہریں
عرب کی سرزمیں ، تپتے ہوئے صحرا، خزاں کے دن
سفر میں تھے رسولِ ہاشمی کی جانِ جاں کے دن
یہ منزل آزمائش کی بڑی دشوار ہوتی ہے
فضا میں زہر ہوتا ہے، ہوا آزار ہوتی ہے
جب ہستی مردِ مومن کی سپرد دار ہوتی ہے
تو سائے کے لیے سر پر فقط تلوار ہوتی ہے
وہ جس کی شان میں تھی آیۂ تطہیر ِ قرآنی
اسی کی اہلِ کوفہ نے کیا نیزوں سے مہمانی
طلب نانا سے کوثر کی شفاعت کی سفارش بھی
نواسے پر وہی کرنے لگے تیروں کی بارش بھی
جَلے خیمے بدن چھلنی تھے خون میں تر قبائیں تھیں
خدا کو جو پسند آتی ہیں وہ ساری ادائیں تھیں
وہ چہرے نُور کے تھے ، گِرد جن کے نُور کے ہالے
بنے وہ خاک وخوں میں ایک ہو کر کربلا والے
وہ چہرے وہ بدن جو عشق کا اسرار ہوتے ہیں
غبارِ خاک سے ان کے کفن تیار ہوتے ہیں
نہ ہوتا گر محمد کا گھرانہ ایسی منزل پر
تو اڑ جاتا فروغ دیں کا مستقبل دھواں بن کر
سلام اُس پر کہ جو حق کے لیے سربھی کٹا آیا
سلام اُس پر جواُمّت کے لیے گھر بھی لُٹا آیا
سلام اُس پر مرا جو خون کے دریا میں تیرا ہے
سلام اُس پر کہ جو نانا کے پرچم کا پھریرا ہے
سلام اُس پر کہ جس نے زندگی کو زندگی بخشی
سَروں کو سَر بلندی اور ذوقِ بندگی بخشی
سلام اُس پر کہ جو دوش ِ پیمبر کی سواری ہے
سلام اُس پر کہ جنّت جس کے گھر کی راہداری ہے
تیر سینے پہ، برچھی پشت پر جھیلے ہوئے اِنساں
سلام اے فاطمہ کی گود میں کھیلے ہوئے اِنساں
بہت آسان ہے ذکرِ شہیدِ کربلا کرنا
درونِ قلب مشکل ہے وہی حالت بپا کرنا
شہید ِ کربلا کے ذکر کا مجھ پر جواب آیا
کہ تیری ذات میں اب تک نہ کوئی انقلاب آیا
سراسر آبرو بن غیرتِ شرم و حیا ہو جا
اگر مجھ سے محبّت ہے تو میرا نقش ِ پا ہو جا
مرے طرزِ سخن کی جان ہیں گُل بھی گُلستاں بھی
مرا حُسنِ بیاں ہے خار بھی چاکِ گریباں بھی
مرے دامن میں ، جگنو ہیں جہاں اور چاند تارے بھی
اِسی دامن میں رکھتا ہوں کچھ آہیں اور شرار ے بھی
جو میری عمر کا حاصل ہے ذکرِ مصطفٰے کرنا
تقاضائے محبّت ہے بیانِ کربلا کربلا
تقاضہ ہے ضمیرِ شاعر حق گو کی فِطرت کا
کہ حق گوئی و بیبا کی پہ مبنی سخن اُس کا
بیانِ سیّد الشُہداء کی جب تمہید ہوتی ہے
وہی عہدِ وفا کے رسم کی تجدید ہوتی ہے
حسین ابنِ علی ، سبطِ پیمبر ، شرفِ انسانی
وہ جس کے رُخ پہ تھی نُورِ محمد کی فراوانی
شہیدِ کربلا تاریخ کا عنوان ہے گویا
حسین ابنِ علی ہر قلب میں مہمان ہے گویا
بتایا ، کس طرح کرتے ہیں اُمّت کی نگہبانی
سکھایا ، کس طرح رکھتے ہیں سجدوں میں یہ پیشانی
جَلایا اس نے ظلمت میں چراغِ نُورِ ایمانی
یہ سب کچھ جانتے تھے پھر اُسے دیتے نہ تھے پانی
بہت ہی مختصر، بندوں سے رب کا فاصلہ نکلا
حرم سے لے کے اہلِ بیت کو، جب قافلہ نکلا
عمامہ باندھ کر عہدِ وفا کا ، کربلا جانا
تھا اُمّت کے لیے مقصود ان راہوں کا دکھلانا
وہ راہیں جو عروجِ آدمیت کا سبب ٹھریں
زوال ِ ظلم ٹھریں ، حق پرستوں کا لقب ٹھہریں
عرب کی سرزمیں ، تپتے ہوئے صحرا، خزاں کے دن
سفر میں تھے رسولِ ہاشمی کی جانِ جاں کے دن
یہ منزل آزمائش کی بڑی دشوار ہوتی ہے
فضا میں زہر ہوتا ہے، ہوا آزار ہوتی ہے
جب ہستی مردِ مومن کی سپرد دار ہوتی ہے
تو سائے کے لیے سر پر فقط تلوار ہوتی ہے
وہ جس کی شان میں تھی آیۂ تطہیر ِ قرآنی
اسی کی اہلِ کوفہ نے کیا نیزوں سے مہمانی
طلب نانا سے کوثر کی شفاعت کی سفارش بھی
نواسے پر وہی کرنے لگے تیروں کی بارش بھی
جَلے خیمے بدن چھلنی تھے خون میں تر قبائیں تھیں
خدا کو جو پسند آتی ہیں وہ ساری ادائیں تھیں
وہ چہرے نُور کے تھے ، گِرد جن کے نُور کے ہالے
بنے وہ خاک وخوں میں ایک ہو کر کربلا والے
وہ چہرے وہ بدن جو عشق کا اسرار ہوتے ہیں
غبارِ خاک سے ان کے کفن تیار ہوتے ہیں
نہ ہوتا گر محمد کا گھرانہ ایسی منزل پر
تو اڑ جاتا فروغ دیں کا مستقبل دھواں بن کر
سلام اُس پر کہ جو حق کے لیے سربھی کٹا آیا
سلام اُس پر جواُمّت کے لیے گھر بھی لُٹا آیا
سلام اُس پر مرا جو خون کے دریا میں تیرا ہے
سلام اُس پر کہ جو نانا کے پرچم کا پھریرا ہے
سلام اُس پر کہ جس نے زندگی کو زندگی بخشی
سَروں کو سَر بلندی اور ذوقِ بندگی بخشی
سلام اُس پر کہ جو دوش ِ پیمبر کی سواری ہے
سلام اُس پر کہ جنّت جس کے گھر کی راہداری ہے
تیر سینے پہ، برچھی پشت پر جھیلے ہوئے اِنساں
سلام اے فاطمہ کی گود میں کھیلے ہوئے اِنساں
بہت آسان ہے ذکرِ شہیدِ کربلا کرنا
درونِ قلب مشکل ہے وہی حالت بپا کرنا
شہید ِ کربلا کے ذکر کا مجھ پر جواب آیا
کہ تیری ذات میں اب تک نہ کوئی انقلاب آیا
سراسر آبرو بن غیرتِ شرم و حیا ہو جا
اگر مجھ سے محبّت ہے تو میرا نقش ِ پا ہو جا
نہ خانقاہ کے باہر نہ خانقاہ میں ہے
جو بُو تراب کا رتبہ مری نگاہ میں ہے
یہی ہے دولتِ ایمان و عِلم و عقل و یقین
علی کو جس نے پکارا ہے وہ پنا ہ میں ہے
گر جہانِ فکر میں درکار ہے اِک اِنقلاب
فکر کی راہوں سے اٹھ کر عشق کا ہو ہمر کاب
چاک کر دامن فسونِ فلسفہ کا ، مارکر
ایک نعرہ یا علی ؓ مشکل کشاء یا بُو تُراب ؓ
بحالِ غم دلِ بے تاب را قرار، علی
کریم و بندہ نواز و کرم شعار، علی
خراب حال و خطا کار و دلِ شکستہ را
خطا معاف، خدا ترس، غمگسار، علی
ہر گردشِ ایّام پہ جو غالب ہے
ہر نعرہ ٔ انقلاب کا جو قالب ہے
ہر لمحۂ مشکل میں طلب ہے جس کی
وہ نام، علی ابنِ ابی طالب ہے
زِ خاکِ پائے علی ما فلک مدار شدیم
زِ لطفِ چشمِ علی فصلِ نَو بہار شدیم
ہیں چہ فیض رسیدی زِ بوسۂ نعلین
گناہ گار کہ بودیم و تاجدار شدیم
واہ کیا مرتبہ اے غوث ہے بالا تیرا
اونچے اونچوں کے سروں سے قدم اعلیٰ تیرا
سر بھلا کیا کوئی جانے کہ ہے کیسا تیرا
اولیاء ملتے ہیں آنکھین وہ ہے تلوا تیرا
کیا دبے جس پہ حمایت کا ہو پنجہ تیرا
شیر کو خطرے میں لاتا نہیں کتا تیرا
قسمیں دے دے کے کھلاتا ہے، پلاتا ہے تجھے
پیارا اللہ ترا چاہنے والا تیرا
کیوں نہ قاسم ہو کہ تو ابن ابی قاسم ہے
کیوں نہ قادر ہو کہ مختار ہے بابا تیرا
ابن زھرٰی کو مبارک ہو عروس قدرت
قادری پائیں تصدق مرے دولہا تیرا
بدسہی، چور سہی، مجرم و ناکارہ سیs
اے وہ کیسا ہی سہی ہے تو کریما تیرا
فخر آقا میں رضا اور بھی اک نظم رفیع
چل لکھا لائیں ثنا خوانوں میں چہرہ تیرا
ہوئی مدحِ پیمبر اور حمدِ خالق باری
بصد گریہ ، بصد نالہ، بصد آہ و بصد زاری
قلم ہے دم بخود، جذبات ساکِن ، روح لرزاں ہے
ادب، خاتونِ جنّت ، فاطمہ زہرٰی کی ہے باری
کمال ِ ذکرِ زہرٰی سے اگر ہستی ہوئی اکمل
جمال ذکرِ نورِ فاطمہ سے دل بنا اجمل
یہ توقیر ِ محبّت ہے کہ یہ تاثیرِ نسبت ہے
سخن سنجی ہوئی اَحسن زباں دانی ہوئی افضل
تخلیق میں تسلیم و رضا جن کے خصائل
معصوم، مخیّر ، متصرّف ، متکفّل
سرکارِ دو عالم کی طرح فاطمہ زہرٰی
مشفق، متبسّم ، متحمّل ، متوکلّ
وہ حامد و محمود کی اُلفت کا ظہُور
وہ رحمتِ کُل قاسمِ مقسوم کا نُور
یہ شان، مگر عالمِ تسلیم و رضا
چکّی کی مشقّت ، بہ تبسّم منظور
شفیعٌ سراجٌ منیرٌ کی دُختر
شجاعٌ شریفٌ شہیدٌ کی مَا در
وہ خاتونِ جنّت ، وہ جنّت کی حُرمت
امیرٌ جریٌ علی جِن کے شوہر
جِس کو رحمٰن و رحیم و رحمتِ کُل کا شعور
جس کو عرفانِ محمد ، جس کو فیضانِ رسول
ذی حسب، اعلیٰ نسب، زہرٰی لقب، ذوالاحترام
دیدنیٔ مصطفٰے اور دیدۂ رحمت کا نُور
ہم طلبگارِ سخاوت یا علی مشکل کشا
تم عنایت ہی عنایت یا علی مشکل کشا
بازوئے خیبر شکن ، اور لقمۂ نانِ جویں
اے شہنشاہِ قناعت یا علی مشکل کشا
آپ کو نسبت رسول اللہ سے ہے اور میں
آپ رکھتا ہوں نسبت یا علی مشکل کشا
عاشقوں کا دل ہے کعبہ اور دل کی دھڑکنیں
مطربِ جشنِ ولادت یا علی مشکل کشا
مردِ مومن کا سہارا ، حرّیت کی آبرو
قلبِ مومن کی حرارت یا علی مشکل کشا
وہ شجاعت ہو، سخاوت ہو، قناعت یا جہاد
آپ ہی کی ہے قیادت یا علی مشکل کشا
فاتحِ خیبر تمہارے چاہنے والوں پہ آج
دشمنوں نے کی ہے شدّت یا علی مشکل کشا
پھر وہی بغداد و مصر و شام کے ہیں صبح و شام
دیجیے شوقِ شہادت یا علی مشکل کشا
در گزر میں آپ سے بڑھ کر کوئی گزرا نہیں
اے سراپائے محبت یا علی مشکل کشا
در گذر کیجیے خطا اور دیجیے اس قوم کو
اپنا بازو، اپنی ہمّت یا علی مشکل کشا
آپ کے در سے ادب سے مانگتا ہے یہ ادیب
صدقہ ٔ خاتونِ جنّت یا علی مشکل کشا
کلام میّسر نہیں
تجھ کو پکارتا ہوں اے خواجۂ اجمیری
کر دے نگاہ مجھ پر قسمت بدل دے میری
در، در کہاں پھروں میں، تجھ پر ہی مرمٹوں میں
میں ہو گیا ہوں تیرا اب لاج رکھ لے میری
مشتاق دید لاکھوں کب سے تڑپ رہے ہیں
دے اذنِ حاضری اب کس بات کی ہے دیری
ہو تیری ذات سے وہ نسبت مجھے بھی حاصل
جب بھی پکاروں تجھ کو تو بات سن لے میری
پچھلے برس تو کی تھی اجمیر کی زیارت
اس سال میرے خواجہ پھر حاضری ہو میری
ہو جائے کاش پوری محمود کی تمنا
ہو ہر طرف اجالا چھٹ جائے یہ اندھیری
آئی تو کاٹنے کے لیے سب کے پاس مرگ
رشتہ جو آدمی کے بدن سے ہے جان کا
اس طرح سے کسی کی تواضع نہیں ہوئی
خونِ شہید کے لیے دامن قرآن کا
اُدھر ترتیلِ قرآنی ، کوئی ترمیم ناممکن
جو آیت حکم جو لائی ، عمل ایسا ہی کرنا ہے
اِدھر ترتیب ِ عثمانی کہ جو سورۃ جہاں رکھ دی
قیامت تک اسی ترتیب سے قرآن پڑھنا ہے
تو نے بھی عجب شان دکھائی ہے خدایا
جب تیغ نے خوں، حضرت ِ عثمان بہایا
گرنے نہ دیا قطرۂ خون پہلے زمیں پر
رحمت نے تیری دامنِ قرآن بچھایا
از آدم تا محمد مصطفٰے کوئی نہیں ایسا
کہ جن کے عقد میں دو بیٹیاں ہوں اک پیمبر کی
حیاء کی ، مصطفٰے کی دوستی کی ، یا مقدر کی
وہ ایک منظر وَمَا رَ مَیْتَ جہاں خدا خود یہ کہہ رہا ہے
یہ دست دست ِ نبی نہیں ہے یہ دستِ قدرت فقط مِرا ہے
یہ ایک منظر ، شجر کے نیچے نبی کا بیعت کے وقت کہنا
یہ دست ِ بیعت نبی کا ہے اور یہ دستِ عثمان دوسرا ہے
بچوں کو لوریوں میں کہیں ماں قریش کی
سو جاؤ میرے لال کہ ماں غمگسار ہے
ہے تم سے اتنا پیار ، کہ رحمٰن کی قسم
جیتنا قبیلے والوںکو عثمان سے پیار ہے
اُس حسین ابن حیدر پہ لاکھوں سلام
کر لیا نوش جس نے شہادت کا جام
جس کو دھوکے سے کوفے بلایا گیا جس کو بیٹھے بٹھائے ستایا گیا
جس کے بچوں پیاسا رلایا گیا جس کی گردن پہ خنجر چلایا گیا
اس حسین ابن حیدر پہ لاکھوں سلام
جس کا جنت سے جوڑا منگایا گیا جس کو دوش نبی ﷺپہ بٹھا یا گیا
زھر بھائی کو جس کے پلایا گیا جس کو تیروں سے چھلنی کرایا گیا
اس حسین ابن حیدر پہ لاکھوں سلام
جس نے حق کربلا میں ادا کر دیا اپنے نانا کا وعدہ وفا کر دیا
سب کچھ امت کی خاطر فدا کر دیا گھر کا گھر ہی سپرد خدا کر دیا
اس حسین ابن حیدر پہ لاکھوں سلام
کر چکا وہ حبیب اپنی حجت تمام لے کے اللہ اور اپنے نانا کا نام
کوفیوں کو سنائے خدا کے کلام اور فدا ہوگیا وہ وہیں تشنہ کام
اس حسین ابن حید ر پہ لاکھوں سلام
اسیروں کے مشکل کشا غوث اعظم
فقیروں کے حاجت روا غوثِ اعظم
مریدوں کو خطرہ نہیں بحرِ غم سے
کہ بیڑے کے ہیں نا خدا غوث اعظم
بھنور میں پھنسا ہے ہمارا سفینہ
بچا غوث اعظم بچا غوث اعظم
جسے خلق کہتی ہے پیار خدا کا
اسی کا ہے تُو لاڈلا غوث اعظم
مری مشکلوں کو بھی آسان کردو
کہ ہو آپ مشکل کشا غوث اعظم
سروں پر جسے لیتے ہیں تاج والے
تمہارا قدم ہے وہ یا غوث اعظم
وہاں سر جھکاتے ہیں سب اونچے اونچے
جہاں ہے ترا نقش پا غوث اعظم
کہے کس سے جاکر حسن اپنے دل کی
سُنے کون تیرے سوا غوث اعظم
الف اللہ چنبے دی بوٹی مرے من وچ مرشد لائی ہو
نفی اثبات دا پانی ملسیں،ہر رگیں ھرجائی ہو
ہرجا بوٹی مشک مچایا ، جان پھلن تےآئی ہو
جیوے مرشد کامل باہو جیں ایہ بوٹی لائی ہو
ایمان سلامت ھر کوئی منگے ، اتےعشق سلامت کوئی ہو
منگن ایمان شرماون عشقوں میرےدل نوں غیرت ہوئی ہو
جس منزل نوں عشق پچاوے ایماں نوں خبر نہ کوئی ہو
میرا عشق سلامت رکھیں باہو ایماں نوں دیواں دھروئی ہو
تن میرا چشماں ہووے تے میں مرشد ویکھ نہ رجاں ہو
لوں لوں دے مڈھ لکھ لکھ چشماں ہک کھولاں ہک کجاں ہوں
اتنا ڈٹھیاں مینوں صبر نہ آوے میں ہو رکتِے ول باَ ں ہو
مرشد دا دیدار باہو مینوں لکھ کروڑاں حجّاں ہو
بغداد شہر دی کیا نشانی جِتھے اُچیاں لایکں چیلاں ہو
تن من ساڈا پرزے پرزے جیوں درزی دیاں لیراں ہو
انہاں لیراں دی گل کفنی پا کے رل ساں سنگ فقیراں ہو
بغداد شہر دے ٹکڑے منگساں باہو کرساں میراں میراں ہو
بغداد کے والی سے یونہی پیار کریں گے
ہم ان کے ہیں ان سے یہی اقرار کریں گے
تھاما ہے جو دامن شہہِ جیلان کا ہم نے
پھر کرلو یقین بیڑا وہی پار کریں گے
ہم کو جو ملا ہے وہ ملا غوث کا صدقہ
ہم دار پہ چڑھ کے بھی یہ اظہار کریں گے
کیا کفر ہے کیا شرک ہمیں اس سے غرض کیا
ہم غوث کے ہیں غوث کا پرچار کریں گے
ان کا ہے کرم سب پہ شکیل اپنا یقیں ہے
وہ لوگ ہیں بدبخت جو انکار کریں گے
پیرانِ پیر لجپال میراں نور نبی مصطفٰے کے لال میراں
پیرانِ پیر لجپال میراں
خاک قدم کا میں سرمہ بناؤں راہ میں تیری میں پلکیں بچھاؤں
محبوب رب ذوالجلال میراں پیران پیر لجپال میراں
سر پہ ولایت کا ہے تاج والا نورِ نبی کا ہے کاندھے پہ دو شالا
پنج تنی رخ پہ ہے جلال میراں پیراں پیر لجپال میراں
قادری سخاوت کے چرچے بڑے ہیں غوث وقطب ہاتھ باندھے کھڑے ہیں
کر رہے ہیں سب کو مالا مال میراں پیران پیر لجپال میراں
ولیوں نے قدموں میں گردن جھکائی سایا فگن تم پہ ہے مصطفائی
آپ کی نہیں کوئی مثال میراں پیران پیر لجپال میراں
عاصی کے دل کو مدینہ بنادو نورِ محمد ﷺ کے جلوے سجادو
کردو کرم پیر با کمال میراں پیران پیر لجپال میراں
پیراں ولیوں کے امام دے دو پنجتن کے نام
میں نے جھولی ہے پھیلائی بڑی دیر سے
ڈالو نظر کرم اک بار اپنے منگتوں پہ سرکار
میں نے آس ہے لگائی بڑی دیر سے
دل کی کلی تو آج کھلی ہے آپ آئے ہیں خبر ملی ہے
ذرا دھیرے دھیرے آؤ ذرا دھیرے دھیرے آؤ
للہ نظرِ کرم فرماؤ میں نے محفل ہے سجائی بڑی دیر سے
چاروں طرف ہے غم کے اندھیرے مدد کو آؤ آقامیرے
تمہیں واسطہ نبی ﷺ کا دے دو صدقہ علیؓ کا
میں نے بپتا ہے سنائی بڑی دیر سے
پیراں ولیوں کے امام دے دو پنجتن کے نام
میں نے جھولی ہے پھیلائے بڑی دیرسے
تِرا ذرّہ مہِ کامل ہے یا غوث تِرا قطرہ یم سَائل ہے یا غوث
کوئی سَالک ہے یا واصل ہے یا غوث وہ کچھ بھی ہو ترا سَائل ہے یا غوث
قدِ بے سایہ ظلِ کبریا ہے تو اس بے سایہ ظل کا ظل ہے یا غوث
تری جاگیر میں ہے شرق تا غرب قلمرو میں حرم تاحل ہے یا غوث
دل عِشق و رُخ حسن آئینہ ہیں اور ان دونوں میں تیرا ظلل ہے یا غوث
تِری شمع دِل آرا کی تب و تاب گل وبلبل کی آب و گل ہے یا غوث
تِرا مجنو ں تِرا صحرا تِرا نجد تِری لیلی تِرا محمل ہے یا غوث
یہ تیری چمپئی رنگت حسینی حسن کے چاند صبحِ دل ہے یا غوث
گلستاں زار تیری پنکھڑی ہے کلی سو خلد کا حاصل ہے یا غوث
اگال اس کا ادھار ابرا ر کا ہو جسے تیرا اُلش حاصل ہے یا غوث
اشارہ میں کیا جس نے قمر چاک تو اس مَہ کا مہِ کامل ہے یا غوث
جِسے عرشِ دوم کہتے ہیں افلاک وہ تیری کرسیِ منزل ہے یا غوث
تو اپنے وقت کا صدّیق ِ اکبر غنی وحیدر و عادل ہے یا غوث
ولی کیا مَرسل آئیں خود حضور آئیں وہ تیری وعظ کی محفل ہے یا غوث
جسے مانگے نہ پائیں جاہ والے وہ بن مانگے تجھے حاصل ہے یا غوث
فیوضِ عالم اُمّی سے تجھ پر عیاں ماضی و مستقبل ہے یا غوث
جو قرنوں سیَر میں عارف نہ پائیں وہ تیری پہلی ہی منزل ہے یا غوث
ملک مشغول ہیں اُس کی ثنا میں جو تیرا ذاکر و شاغل ہے یا غوث
نہ کیوں ہو تیری منزل عرش ثانی کہ عرشِ حق تِری منزل ہے یا غوث
وہیں سے اُبلے ہیں سَاتوں سمندر جو تیری نہر کا ساحل ہے یاغوث
ملائک کے بشر کے جن کے حلقے تری ضَو ماہ ہر منزل ہے یا غوث
بخارا و عراق و چشت و اجمیر تری لَو شمع ہر محفل ہے یا غوث
جو تیرا نام لے ذاکر ہے پیارے تصوّر جو کرے شاغل ہے یا غوث
جو سر دے کر ترا سود ا خریدے خدا دے عقل وہ عاقل ہے یا غوث
کہا تو نے کہ جو مانگو ملے گا
رضا تجھ سے ترا سائل ہے یا غوث
تری شان شان یدُ الٰہی تو بڑا غریب نواز ہے تری شان، شان یدُ الٰہی
نہ ہو کعبہ کیوں تیرا آستاں، تری نسبتیں ہیں قرارِ جاں
تری نسبتوں ہی پہ ناز ہے تو بڑا غریب نواز ہے
تری شان، شانِ یدُ الٰہی
ترے در سے داغِ جبیں ملا، یہ نشان کتنا حسیں ملا
یہ نیاز حاصل ناز ہے، تو بڑا غریب نواز ہے
تری شان، شانِ یدُ الٰہی
تو معین امت مصطفٰے ، تو ثبوت رحمت مصطفٰے
تو عطائے میر حجاز ہے تو بڑا غریب نواز ہے
تری شان، شانِ یدُ الٰہی
ہمیں تو نے اپنا بنالیا، غم دو جہاں سے بچالیا
ترا دست جو دو راز ہے تو بڑا غریب نواز ہے
تری شان، شانِ یدُالٰہی
تیرے کیف ذکر سے جھوم لیں تیرے آستانے کو چوم لیں
یہی عاشقوں کی نماز ہے تو بڑا غریب نواز ہے
تری شان، شانِ یدُ الٰہی
تو حبیب ذات الٰہ ہے، تو ہی بیکسوں کی پناہ ہے
تو کریم وبندہ نواز ہے، تو بڑا غریب نواز ہے
تری شان، شان، یدُ الٰہی
جو سنی گئی سرِ کربلا، ہے تری صدا بھی وہی صدا
وہی نغمہ ہے وہی ساز ہے تو بڑا غریب نواز ہے
تری شان، شانِ یدُالٰہی
نہ گنے گئے وہ شمار سے، جو پلے ہیں تیرے دیارسے
درِ فیض آج بھی باز ہے تو بڑا غریب نواز ہے
تری شان، شانِ یدُالٰہی
تری شان انجم بینوا، کسی حال میں بھی نہ لکھ سکا
تو خدائے پاک کا راز ہے تو بڑا غریب نواز ہے
تری شان، شانِ یدُالٰہی
تری مدح خواں ہر زباں غوثِ اعظم
ترا نام مومن کی جاں غوثِ اعظم
پناہِ غریباں تری ذاتِ والا
ترا گھر ہے دارُ الاماں غوثِ اعظم
ترے جدّ ِ امجد ہیں نورِ الٰہی
ہے نُوری ترا خانداں غوثِ اعظم
ترے وعظ میں آکے شاہِ عرب نے
بڑھادی تری عز وشاں غوثِ اعظم
ملے گی ہمیں تیرے دامن کے نیچے
دو عالم میں امن و اماں غوثِ اعظم
ذرا صدق دل سے پکارو تو ان کو
ابھی جلوہ گر ہوں یہاں غوثِ اعظم
جمیل اب ہوں ساکت مقام ادب ہے
کہاں تیرا منہ اور کہاں غوثِ اعظم
ترے فیضانِ بے حد سے کسے انکار ہے وارث
کہ ہم جیسے غریبوں کا تو ہی غمخوار ہے وارث
مری کشتی ہے طوفانِ حوادث کے تھپیڑوں میں
اب ایسے وقت میں تیری مدد درکار ہے وارث
ادب ہے مانع اظہار ورنہ صاف کہہ دیتا
کہ دیدارِ محمدﷺ آپ کا دیدار ہے وارث
حریم ناز سے باہر کسی دن زحمت جلوہ
کہ مدت سے زمانہ طالب دیدار ہے وارث
جو یوں ممکن نہیں تو خواب ہی میں عید نظارہ
کہ عنبر بھی تمہارا طالب دیدار ہے وارث
تیرا نام پاک معین الدین تو رسول پاک کی آل ہے
تری شان خواجہ خواجگاں تجھے بیکسوں کا خیال ہے
مرا بگڑا وقت سنوار دے، مرے خواجہ مجھ کو نواز دے
تیری اک نگاہ کی بات ہے مری زندگی کا سوال ہے
یہاں بھیک ملتی ہے بے گماں، یہ بڑے سخی کا ہے آستاں
یہاں سب کی بھرتی ہیں جھولیاں یہ درِ غریب نواز ہے
میں گدائے خواجۂ چشت ہوں مجھے اس گدائی پہ ناز ہے
مجھے ناز خواجہ پہ کیوں نہ ہو مرا خواجہ بندہ نوازہے
تیری تکریم میں تیری تعظیم میں کس کو شک ہے بھلا کربلا کربلا
پھر بھی میرا قلم، تجھ سے شکوے رقم آج کرنے چلا کربلا کربلا
تو فراط آشنا ، تجھ میں دجلہ رواں پھر بھی آل ِ محمد کی سوکھی زباں
تیرے مہمان تھے ، اپنے مہمان سےتو نے یہ کیا کیا کربلا کربلا
واسطہ ان کے آباء کا دے کر اگر ، مانگتا اپنے سینہ میں زم زم کا گھر
اِک کرشمہ دکھاتا وہاں بھی خدا، کیوں نہ مانگی دعا کربلا کربلا
رات ہو دن ہو جب ان کے ہلتے جو لب ، اپنے خیموں میں قرآن پڑھتے تھے سب
تو نے دیکھا یہ سب ، تو نے خود بھی سنا اور کچھ نہ کیا کربلا کربلا
جن کے اہلِ حرم نُورِ مستورِ حق ، چادریں جن کے سر کی قرآں کا ورق
جن کےخیموں کے پردے غلافِ حرم، ان کو لوٹا گیا کربلا کربلا
آرزو التجا حسرتیں منّتیں ، جن کے قدموں کے بو سے کو حوریں کریں
ایسی شہزادیاں اور بربادیاں ، تو نے دیکھا کیا کربلا کربلا
وہ سکینہ تھی جو غم سے موسوم تھی ، کتنی معصوم تھی کتنی مغموم تھی
پوچھتی پھر رہی تھی ہر اِک سے پتہ ، تو نے کیا کہ دیا کربلا کربلا
نسل سے بولہب کی وہ دو ہاتھ تھے جن میں نیزہ تھا نیزے پہ فرقِ حُسین
کاش ہوتے نبی تو اترتی وہاں پھر سے تبت یدا کربلا کربلا
اہلِ بیت اور ان کی محبّت ادیب ، یہ مقدر یہ قسمت ، یہ روشن نصیب
اس وظیفہ سے راضی ہے مجھ سے خدا دیکھ یہ مرتبہ کربلا کربلا
ثییًا للہ یا عبدالقادر ساکن البغداد یا شیخ الجیلانی
ادھر بھی نگاہِ کرم غوثِ اعظم
کرو دور رنج و الم غوثِ اعظم
ثییًا للہ یا عبدالقادر ساکن البغداد یا شیخ الجیلانی
گھرا ہوں میں ہر سمت سے رنج وغم ہیں
خدارا ہو مجھ پہ کرم غوثِ اعظم
ثییًا للہ یا عبدالقادر ساکن البغداد یا شیخ الجیلانی
وہ رتبہ ہے تیرا کہ جتنے ولی ہیں
ہیں سب تیرے زیر قدم غوثِ اعظم
ثییًا للہ یا عبدالقادر ساکن البغداد یا شیخ الجیلانی
ہے گردن میں تیری غلامی کا پٹا
تجھی سے ہے میرا بھرم غوثِ اعظم
ثییًا للہ یا عبدالقادر ساکن البغداد یا شیخ الجیلانی
مرا ہر مرض دور ہو جائے پل میں
کرو ایسا آ کر کے دم غوثِ اعظم
ثییًا للہ یا عبدالقادر ساکن البغداد یا شیخ الجیلانی
جو تِرا طِفل ہے کامل ہے یا غوث طفیلی کا لقب واصل ہے یا غوث
تصوف تیرے مکتب کا سبق ہے تصرّف پر ترا عامل ہے یا غوث
تِری سَیِرالی اللہ ہی ہے فی اللہ کہ گھر سے چلتے ہی موصل ہے یا غوث
تو نورِ اوّل و آخِر ہے مَولیٰ تو خیر عاجل و آجل ہے یا غوث
ملک کے کچھ بشر کچھ جن کے ہیں پیر تو شیخ عالی و سافل ہے یا غوث
کتابِ ہر دل آثار تعرّف ترے دفتر ہی سے ناقل ہے یا غوث
فتوح الغیب اگر روشن نہ فرمائے فتوحات و فصوص آفل ہے یا غوث
تِرا منسوب ہے مَرفوع اس جا اضافت رَفع کی عامل ہے یا غوث
ترے کامی مشقت سے بَری ہیں کہ بَر تر نصب سے فاعل ہے یا غوث
ھدً سے احمد اور احمد سے تجھ کو کن اور سب کن مکن حاصل ہے یا غوث
تری عزّت ، تری رفعت تِرا فضل بفضلہ افضل و فاضل ہے یا غوث
ترے جلوے کے آگے منطقہ سے مہ و خور پر خط باطل ہے یا غوث
سیاہی مائل اس کی چاندنی آئی قمر کا یوں فلک مائل ہے یاغوث
طلائے مہر ہے ٹکسال باہر کہ خارج مرکز حامل ہے یا غوث
تو برزخ ہے برنگ نونِ منّت دو جانب متصلِ واصل ہے یا غوث
نبی سے آخذ اور امّت پہ فائِض ادھر قابل ادھر فاعل ہے یاغوث
نتیجہ حدّ اوسط گر کے دے اور یہاں جب تک کہ تو شامل ہے یا غوث
اَلَا طُوْبٰی لَکُم ْ ہے وہ کہ جن کا شبانہ روز ور د دل ہے یا غوث
عجم کیسا عرب حل کیا حَرم میں جمی ہر جا تِری محفل ہے یا غوث
ہے شرحِ اسمِ اَلْقَادِر ترا نام یہ شرح اس مَتن کی حامل ہے یا غوث
جبینِ جبَہ فرسائی کا ضدل تِری دیوار کی کھ گل ہے یاغوث
بجا لایا وہ امرِ سَارِعُوْا کو تِری جانب جو مستعجل ہے یا غوث
تصرّف والے سب مظھر ہیں تیرے تو ہی اس پر دے میں فاعل ہے یا غوث
رضا کے کام اور رُک جائیں حاشا
تِرا سائل ہے تو باذل ہے یاغوث
حجّت کے لیے حشر میں ہوگی یہ دلیل
ہر شے کو عطا ہوگی بشر کی صورت
اللہ کی یہ شکل کے خورشید ِ جلال
اللہ کا قرآن ، عمر کی صورت
دین ِ حق کی سر بلندی میں نبوّت کی طلب
بارگاہِ ربّ العزّت میں ہوا ہو جس پہ صاد
ساری دنیا ہے شہنشہاہِ دو عالم کی مُرید
اور عمر خود ہیں شہنشاہِ دو عالم کی مُراد
صف میں جو گُھس پڑے وہ لیے تیغِ شعلہ ور
سر کافروں کے دوش پہ آئے نہ پھر نظر
ہیبت سے ان کی دن میں نکلتے نہ تھے عدو
راتوں کو خواب میں بھی پُکاریں عمر عمر
لڑنے میں یوں تو ایک سے ایک بے مثال ہے
پھر بھی دلوں میں خوف عمر کا یہ حال ہے
ہیں ماہر ان حرب کے باہم یہ مشورے
خطّاب کے پسر سے لڑائی محال ہے
خدا کا خوف ذکر ِ مصطفٰے سرمایۂ عثمان
سرور و کیف قربِ مصطفٰے سرمایہ ٔ عثمان
بیان سرکاری کی مدحت سدا، پیرا یۂ عثمان
نہ تھا ایسا نہ اب ہوگا کوئی ہم پایہ ٔ عثمان
نہ تھا آئینہ ٔ دل پر غبار ِ عصبیت ان کے
اگر چہ تھے حریفِ ہاشمی اَجداد سب ان کے
صفائے باطنی ان کا مکدر ہو نہ سکتا تھا
کوئی اس دل میں اب تخمِ رقابت بُو نہ سکتا تھا
جہالت کے اندھیروں سے نکل کر نُور میں آئے
قرابت وہ مِلی ، دو نور والے آپ کہلائے
قدم ہجرت کا مکہ سے نکالا آپ نے پہلے
حبش کو دین کا بخشا اُجالا آپ نے پہلے
وہ دورِ جاہلیت جو بھرا تھا آبِ گلگوں سے
حیاء والے کے لب نا آشنا تھے اس کے افسوس سے
حیاء کے ذکر کا جب بھی کوئی عنوان ہوتا تھا
لبِ شاہِ مدینہ پر فقط عثمان ہوتا تھا
نبی ارشاد فرماتے کتابت آپ کرتے تھے
بڑی دشوار تھی منزل، بآسانی گذرتے تھے
اشارہ پر نبی کے مال سب قربان ہوجاتا
جو حاتم آج ہوتا ، آپ کا دربان ہوجاتا
یہودی کو دیا کل مال، شیریں آب کے بدلے
ہوئے سیراب تشنہ لب مسلمان ، بیر رومہ سے
بنے وہ بیعت ِ رضوان میں تاجِ فخر کا طُرّہ
نبی نے ہاتھ بیعت میں جب ان کے نام پر رکھا
مراکش سے ملے کابل کے ڈانڈے عہد میں جن کے
ہوئے اسلام کے زیرِ نگیں ، دنیا کے یہ حصے
طرابلس اور افریقہ بنا اِسلام کا حصہ
بغاوت مصر کی توڑی ، فتح قبرص بھی کر ڈالا
ہو ا جب کوہِ لرزاں، مصطفٰے نے اس سے فرمایا
کہ تجھ پر اِک نبی، صدیق اِک اور اِک شہید آیا
شہادت معتبر تھی ، ایک دن ایسا بھی ہونا تھا
سرِ تسلیم اپنا خم کیا ، ایسا بھی ہونا تھا
شہادت کا وہ لمحہ، وہ تحمّل ، صبر کا پیکر
جو اخلاقِ کریمانہ کا ٹھرا ٓخری منظر
فَسَیَکْفِیْکَھُمْ آیت پہ جب خوں آپ کا ٹپکا
قراں کا ہر ورق دامن کو پھیلائے ہوئے لپکا
قیامت میں کریں گے لوگ جب قرآن کی باتیں
کریں گے ساتھ ہی وہ حضرتِ عثمان کی باتیں
اُتر کر خون کے دریا میں جو کوئی اُبھرتا ہے
ہٹا کر زیست کے پردے زیارت حق کی کرتا ہے
نہیں مرتا ادیب اس راہ میں ، جب کوئی مرتا ہے
وہ کب مرتا ہے جو راہِ شہادت سے گزرتا ہے
دُخترِ ختمِ الرسل جانِ پیمبر فاطمہ
اے وقارِ بُو ترابی، شانِ حیدر فاطمہ
رُوح کی تشنہ لبی کو آب کوثر ، فاطمہ
سجدہ گاہِ اہلِ ایماں، آپ کا در فاطمہ
لُٹ رہا تھا کربلا میں آپ کا گھر، فاطمہ
آپ نے دیکھا ہے محشر، قبلِ محشر، فاطمہ
آپ کی نسبت ہوئی ہم کو میسّر ، فاطمہ
آپ کی مدحت ہوئی اپنا مقدر، فاطمہ
ضبط کے خُو گر علی تھے ، صبر کے خُوگر حسین
آپ کی ہستی میں ہیں دونوں ہی جوہر ، فاطمہ
ذی حسب، اعلیٰ نسب، زہرہ لقب، ذوالاحترام
سب سے اعلیٰ سب سے افضل، سب سے بہتر فاطمہ
خم شہنشاہانِ عالم کی جبیں ہے دیکھ کر
آپ کا نقشِ کفِ پائے مطہّر ، فاطمہ
بندگی کیا، دین کیا، ایمان کیا ، اِسلام کیا
مصطفٰے ، شیرِ خدا ، شبّیر و شبّر فاطمہ
سر فروشی کا سبق دے ، صبر دے ، ایثار دے
اب کہاں ایسی کوئی آغوشِ مادر، فاطمہ
عرش ہِل جاتا اگر فریاد کو اُٹھتے وہ ہاتھ
آپ نے رکھا اُنہیں چکّی کا خُوگر، فاطمہ
مصطفٰے کے اور آل ِ مصطفٰے کے ہیں غلام
اپنے دامن میں چھپالیں یہ سمجھ کر، فاطمہ
خاتمہ بالخیر ہو عشقِ نبی میں جب ادیب
ڈال دیں رحمت کی اِس مجرم پہ چادر فاطمہ
درِ میخانہ وا ہوتا ہے اب جوشِ عقیدت کا
شراب ان کے تصور کی صبو ان کی محبت کا
نظر کے سامنے سب اہلِ دل اور اہلِ نسبت ہیں
خداوند بھرم رکھنا مری نسبت ، مرے غم کا
حمایت میں ، امامت میں ، شجاعت میں ، حوادث میں
علی داور ، علی رہبر ، علی حیدر، علی مولیٰ
کوئی عابد ، کوئی عارف، کوئی عاطف ، کوئی عاکف
کوئی عاجز ، کوئی عالی ، کوئی عاشق نہیں ایسا
قناعت میں قلندر وہ سخاوت میں سمندر وہ
شجاعت میں لقب ہے قوتِ پروردگار ان کا
وہ سیف اللہ ، وجہہ اللہ ، دامادِ رسول اللہ
وہی شبیر کا بازو، وہی سرمایہ ٔ زہرا
بتوں کا سر جُھکانے میں ، دلوں میں گھر بنانے میں
وہی ضرب الفتح نکلا، وہی خیبر شکن ٹھہرا
امیرٌ وہ جریٌ وہ شجاعٌ وہ شہیدٌ وہ
فصیحٌ وہ بلیغٌ وہ خطابت پر جہاں شیدا
مِری عزّت ، مری عظمت، مِری اُلفت مِری نسبت
علی مولیٰ ، علی مولیٰ ، علی مولیٰ علی مولیٰ
ادیب ان کی محبّت میں اگر آنکھوں میں اشک آئے
اِدھر آنکھوں میں نم ہوگا اُدھر لطف و کرم ہوگا
دہلی راجھستا ن تمہارا یا خواجہ
سارا ہندوستان تمہارا یا خواجہ
ہند میں نوے لاکھ کو کلمہ پڑھوایا
ہم پر ہے احسان تمہارا یا خواجہ
سارا انا ساگر کوزے میں بھر آیا
سنتے ہی فرمان تمہارا یا خواجہ
فیضِ مدینہ ملتا ہے اجمیر سےبیا
روضہ ہے ذیشان تمہارا یا خواجہ
ان دونوں پہ خاص کرم تم فرمانا
شاکر اور رضوان تمہارا یا خواجہ
سید کو طیبہ کی گلیاں دکھلا دو
ہے ادنٰی دربان تمہارا یا خواجہ
رُخِ محبوبِ سُبحانی کے صدقے
میں اس تصویر نورانی کے صدقے
شہۂ اقلیمِ عرفانی کے صدقے
جناب غوثِ صمدانی کے صدقے
معین الدین اجمیری کے قرباں
محی الدین جیلانی کے صدقے
بنا ہے سینہ گلزارِ خلیلی
میں اپنے دردِ پہانی کے صدقے
تصدق مہہ جبینوں پر زمانہ
میں اپنے پیر لاثانی کے صدقے
فدا بیدم علی کے لاڈلوں پر
رسول اللہ کے جانی کے صدقے
رس بہ فریاد یا شہۂ بغداد
وقت امداد یا شہۂ بغداد
تیرے در کے غلام حاضر ہیں
سن لے فریاد یا شہۂ بغداد
اک نگاہِ کرم کے طالب ہیں
دل ہو آباد یا شہۂ بغداد
مشکلیں دور ہوگئیں ساری
جب کیا یاد یا شہۂ بغداد
مجھ کو ہر دل میں نظر آتا ہے
تو ہی آباد یا شہۂ بغداد
تیرے در کا فقیر ہے محمود
کردے اب شاد یا شہۂ بغداد
زینت ِ دوشِ مصطفٰے تجھ کو مِرا سلام ہے
نُور ِ نگاہِ فاطمہ تجھ کو مِرا سلام ہے
منزلِ ہست و بود میں کون ابد مقام ہے
دیکھ رہا ہوں میں حسین ، ایک ترا ہی نام ہے
کشتۂ خنجرِ تسلیم و رضا تجھ کو سلام
مشعلِ نُورِ محمد کی ضیا تجھ کو سلام
نکہتِ بوئے گلستانِ وفا تجھ کو سلام
آبروئے صدف صدق و صفا تجھ کو سلام
سرکار غوثِ اعظم نظرِ کرم خدارا
میرا خالی کاسہ بھردو میں فقیر ہوں تمہارا
جھولی کو میری بھردو ورنہ کہے گی دنیا
ایسے سخی کا منگتا پھرتا ہے مارا مارا
مولا علیؓ کا صدقہ گنج شکر کا صدقہ
میری لاج رکھ لو یا غوث اعظم میں فقیر ہوں تمہارا
سب کا کوئی نہ کوئی دنیا میں آسرا ہے
میرا بجز تمہارا کوئی نہیں سہارا
دامن پسارے درپہ لاکھوں ولی کھڑے ہیں
ہوتا ہے تیرے در سے کونین کا گزارا
یہ تیرا کرم مجھ پر کہ بلا لیا ہے در پر
کہاں روسیاہ فریدی کہاں آستاں تمہارا
شاہِ جیلاں بہ من زار و پریشاں مددے
نورِ عینین نبیﷺ سید و سلطان مددے
ما غریبیم ، غریب الوطنی ہے آقا
چشمِ رحمت بکشا سوئے غریباں مددے
حاضر برورِ پاک تو بصد رنج و الم
اۓ مسیحائے زماں ، عیسیٰٔ دوراں مددے
بر دلِ مُردۂ من یک نظرِ لطف بکن
پیر پیرانِ جہاں مرشد پاکاں مددے
اشرفی آمدِ در حالتِ پیری بہ درت
دستگیری بہ کنی حامیٔ پیراں مددے
شاہِ دیوہ نگر جانِ شاہِ اُمم وارث الاولیاء شاہِ وارث علی
صدقۂ پنجتن ہو نگاہِ کرم وارث الاولیاء شاہِ وارث علی
مظہر ذات ہو مُظہر ذات ہو پنجتن کی نشانی ہو سادات ہو
آپ کی ذاتِ اقدس سراپا کرم وارث الاولیاء شاہِ وارث علی
سج رہی شاہِ وارث کی بارات ہے ہیں جمع اولیاء نوری برسات ہے
سب کے دامن بھریں گے خدا کی قسم وارث الاولیاء شاہِ وارث علی
نامِ وارث ہے عنبر وظیفہ مرا اور سلامت رہے وارثی آستاں
میرے وارث ہیں وارث نہیں کوئی غم وارث اولیاء شاہِ وارث علی
غوثِ اعظم کا دربار
اللہ اللہ کیا کہنا
بغدادی نوری بازار
اللہ اللہ کیا کہنا
تم ہو ہمارے
ہم ہیں تمہارے
تم ہو نبی کے پیارے
ہر مشکل میں غوثِ اعظم
ٹوٹے دلوں کے سہارے
اُجڑوں کو کر دے گلزار
اللہ اللہ کیا کہنا
قطب ، اولیاء غوث و قلندر
ایک سے ایک ہیں بڑھ کر
سارے اولیاء دیں گے سلامی
جائیں گے غوث کے در پر
وہ ہیں ولیوں کے سردار
اللہ اللہ کیا کہنا
غوث اعظم کا دربار
اللہ اللہ کیا کہنا
چورکو پل میں ولی بنایا
نظر سے بگڑی بنائی
ڈوبی کشتی بارہ برس کی
پل میں پار لگائی
بڑھیا کہتی تھی ہر بار
اللہ اللہ کیا کہنا
غوثِ اعظم کا دربار
اللہ اللہ کیا کہنا
ایسے غوث کا ہے یہ حافظ
چھوٹے نہ ہاتھ سے دامن
بگڑے کام بنائے آقا
قربان اُن پہ تن من
وہ کرتے ہیں بڑا پیار
اللہ اللہ کیا کہنا
بغدادی نوری بازار
اللہ اللہ کیا کہنا
فاصلوں کو خدارا مٹادو رخ سے پردہ اب اپنے ہٹادو
اپنا جلوہ اسی میں دکھادو جالیوں پہ نگاہیں جمی ہیں
غوث الاعظم ہو، غوث الوریٰ ہو، نور ہو نورِصلّ علیٰ ہو
کیا بیان آپ کا مرتبہ ہو دستگیر اور مشکل کشا ہو
آج دیدار اپنا کرادو جالیوں پہ نگاہیں جمی ہیں
ہر ولی آپ کے زیرپا ہے ، ہر ادا مصطفیٰ کی ادا ہے
آپ نے دین زندہ کیا ہے ڈوبتوں کو سہارا دیا ہے
میری کشتی کنارے لگادو جالیوں پہ نگاہیں جمی ہیں
شدتِ غم سے گھبرا گیا ہوں، اب تو جینے سے تنگ آگیا ہوں
ہر طرف آپ کو ڈھونڈھتا ہوں اوراک اک سے یہ پوچھتا ہوں
کوئی پیغام ہو تو سنادو جالیوں پہ نگاہیں جمی ہیں
وجد میں آئے گا سارا عالم جب پکاریں گے یا غوث اعظم
وہ نکل آئیں گے جالیوں سے اور قدموں پہ گر جائیں گے ہم
پھر کہیں گے کہ بگڑی بنا دو جالیوں پہ نگاہیں جمی ہیں
سن رہے ہیں وہ فریاد میری خاک ہوگی نہ برباد میری
میں کہیں بھی مردوں شاہِ جیلاں روح پہنچے گی بغداد میری
مجھ کو پرواز کے پر لگادو جالیوں پہ نگاہیں جمی ہیں
فکر دیکھو خیالات دیکھو یہ عقیدت یہ جذبات دیکھو
میں ہوں کیا میری اوقات دیکھو سامنے کس کی ہے ذات دیکھو
اے ادیب اپنے سر کو جھکادو جالیوں پہ نگاہیں جمی ہیں
قَادرا ،سَرورا، رَاہنما، دستگیر
غوثِ اعظم، امامِ مُبیں، بے نظیر
تیرے زیرِ قدم اولیاء ،اصفیاء
سَرورِ سَروراں ،پیرِ روشن ضمیر
ذکر سے تیرے ٹل جائیں سب مشکلیں
نام سے تیرے پائیں رہائی اسیر
تو جِسے چاہے دے، جس قدر چاہے دے
تیری بخشش نرالی عطا بے نظیر
تو ہے آئینہ سیرتِ مصطفٰے
تو علیم وخبیر و بشیر و نذیر
یہ وظیفہ ہے ہر غم کا دَرماں وؔقار
غوثِ اعظم مدد! المدد دستگیر !
کس نے نبی کا دامن تھاما سب سے پہلے بڑھ کر وہ صدیقِ اکبر
کس نے اٹھایا بارِ امامت لے کر اذنِ پیمبر وہ صدیقِ اکبر
حکمِ خدا سے چھوڑ چلا جب مکّہ دین کا رہبر نام خدا کا لیکر
راہِ خدا میں اس دم جو شئے نکلی نقد پیمبر وہ صدیقِ اکبر
اِک دن کس نے خواب میں دیکھا، جھولی میں چاند آئے اور پھر گھر گھر آئے
دینِ محمد ایسی بشارت لے کر آیا کس پر وہ صدیقِ اکبر
روحِ امیں دربارِ نبی میں ٹاٹ پہن کر آئے جھک کر حال سنائے
اہل ِ فلک کا پہناوا ہے آج یہ کس کی ادا پر وہ صدیقِ اکبر
جن کے دامن کی پاکی پر روحِ قدس کا آنا سورۃ نور سنانا
ایسی حرمت والی اُمِّ اُمّت جن کی دختر وہ صدیقِ اکبر
جن کا عہد ِ رسالت، بارش ابرِ کرم کی ہے بے حد انکا نام محمد
پتھر جن کے دورِ خلافت میں تھے لعل و جواہر وہ صدیقِ اکبر
کیا حسن ِ افتخار ہے یادِ حسین میں ،
ہر اشک اِک بہار ہے یادِ حسین میں
دربار ِ مصطفٰی کی فضیلت نہ پوچھیے ،
انسان کا وقار ہے یادِ حسین میں
ہر اشک کلمہ پڑھتے ہیں بر دین ِ مصطفیٰ ،
کیا حسنِ یاد گار ہے یادِ حسین میں
واللہ سر بسر ہے وہ ایمان کا سکون،
جو قلب ِ بے قرار ہے یادِ حسین میں
دل زندگی میں کیسے نہ ہو خلد آشیان ،
اسلام کی بہار ہے یادِ حسین میں
مرکز صدق و صفا مرکزِ ایمان صدیق
مصحف ِ عشق و محبت کے نگہباں صدیق
اسمِ اعظم ہیں جنوں کوش محبت کے لیے
ہو ش والوں کے لیے نقشِ سلیمان صدیق
کمندِ عقل میں آئے کرے خِرد تحقیق
نگاہ میں جو سمائے نظر کرے توثیق
ہے جبریل کی پرواز سے پرے جو مقام
ہیں اس مقام کی تصدیق کے لیے صدیق
پابوسی گلاب سے مٹی ہے مشکِ تر
پارس کی ایک لمحہ رفاقت ہے قدر زر
پہلو ہو مصطفٰے کا میّسر جسے ادیب
کیا کہئے کیا ہے اپنے مراتب میں وہ بشر
کاتبِ تقدیر کا جنبش میں جب آیا قلم
منزلوں سے ما ورٰی پہنچے فقیروں کے قدم
مسجدِ نبوی میں اِک دن جاں نثارِ مصطفٰے
تھے مصلّے پر امام اور مقتدی شاہِ امم
ہیں پرستارِ محمد بے حساب و بے شمار
ذی وقار و سر بلند و سرفروش جاں نثار
ہاں مگر صدیق کے ہیں مرتبے کچھ اس طرح
یارِ ہجرت، یارِ غزوہ، یارِ بزم و یارِ غار
تشنہ کا مانِ حقیقت کو ہیں کوثر صدیق
کاروان ِ رہِ الفت کو ہیں رہبر صدیق
ختم نہ ہوگا نہ کبھی سلسلۂ عشق ادیب
عشق کے رب ہیں ، محبت کے پیمبر صدیق
مرے طرزِ سخن کی جان ہیں گُل بھی گُلستاں بھی
مرا حُسنِ بیاں ہے خار بھی چاکِ گریباں بھی
مرے دامن میں ، جگنو ہیں جہاں اور چاند تارے بھی
اِسی دامن میں رکھتا ہوں کچھ آہیں اور شرار ے بھی
جو میری عمر کا حاصل ہے ذکرِ مصطفٰے کرنا
تقاضائے محبّت ہے بیانِ کربلا کربلا
تقاضہ ہے ضمیرِ شاعر حق گو کی فِطرت کا
کہ حق گوئی و بیبا کی پہ مبنی سخن اُس کا
بیانِ سیّد الشُہداء کی جب تمہید ہوتی ہے
وہی عہدِ وفا کے رسم کی تجدید ہوتی ہے
حسین ابنِ علی ، سبطِ پیمبر ، شرفِ انسانی
وہ جس کے رُخ پہ تھی نُورِ محمد کی فراوانی
شہیدِ کربلا تاریخ کا عنوان ہے گویا
حسین ابنِ علی ہر قلب میں مہمان ہے گویا
بتایا ، کس طرح کرتے ہیں اُمّت کی نگہبانی
سکھایا ، کس طرح رکھتے ہیں سجدوں میں یہ پیشانی
جَلایا اس نے ظلمت میں چراغِ نُورِ ایمانی
یہ سب کچھ جانتے تھے پھر اُسے دیتے نہ تھے پانی
بہت ہی مختصر، بندوں سے رب کا فاصلہ نکلا
حرم سے لے کے اہلِ بیت کو، جب قافلہ نکلا
عمامہ باندھ کر عہدِ وفا کا ، کربلا جانا
تھا اُمّت کے لیے مقصود ان راہوں کا دکھلانا
وہ راہیں جو عروجِ آدمیت کا سبب ٹھریں
زوال ِ ظلم ٹھریں ، حق پرستوں کا لقب ٹھہریں
عرب کی سرزمیں ، تپتے ہوئے صحرا، خزاں کے دن
سفر میں تھے رسولِ ہاشمی کی جانِ جاں کے دن
یہ منزل آزمائش کی بڑی دشوار ہوتی ہے
فضا میں زہر ہوتا ہے، ہوا آزار ہوتی ہے
جب ہستی مردِ مومن کی سپرد دار ہوتی ہے
تو سائے کے لیے سر پر فقط تلوار ہوتی ہے
وہ جس کی شان میں تھی آیۂ تطہیر ِ قرآنی
اسی کی اہلِ کوفہ نے کیا نیزوں سے مہمانی
طلب نانا سے کوثر کی شفاعت کی سفارش بھی
نواسے پر وہی کرنے لگے تیروں کی بارش بھی
جَلے خیمے بدن چھلنی تھے خون میں تر قبائیں تھیں
خدا کو جو پسند آتی ہیں وہ ساری ادائیں تھیں
وہ چہرے نُور کے تھے ، گِرد جن کے نُور کے ہالے
بنے وہ خاک وخوں میں ایک ہو کر کربلا والے
وہ چہرے وہ بدن جو عشق کا اسرار ہوتے ہیں
غبارِ خاک سے ان کے کفن تیار ہوتے ہیں
نہ ہوتا گر محمد کا گھرانہ ایسی منزل پر
تو اڑ جاتا فروغ دیں کا مستقبل دھواں بن کر
سلام اُس پر کہ جو حق کے لیے سربھی کٹا آیا
سلام اُس پر جواُمّت کے لیے گھر بھی لُٹا آیا
سلام اُس پر مرا جو خون کے دریا میں تیرا ہے
سلام اُس پر کہ جو نانا کے پرچم کا پھریرا ہے
سلام اُس پر کہ جس نے زندگی کو زندگی بخشی
سَروں کو سَر بلندی اور ذوقِ بندگی بخشی
سلام اُس پر کہ جو دوش ِ پیمبر کی سواری ہے
سلام اُس پر کہ جنّت جس کے گھر کی راہداری ہے
تیر سینے پہ، برچھی پشت پر جھیلے ہوئے اِنساں
سلام اے فاطمہ کی گود میں کھیلے ہوئے اِنساں
بہت آسان ہے ذکرِ شہیدِ کربلا کرنا
درونِ قلب مشکل ہے وہی حالت بپا کرنا
شہید ِ کربلا کے ذکر کا مجھ پر جواب آیا
کہ تیری ذات میں اب تک نہ کوئی انقلاب آیا
سراسر آبرو بن غیرتِ شرم و حیا ہو جا
اگر مجھ سے محبّت ہے تو میرا نقش ِ پا ہو جا
مرے طرزِ سخن کی جان ہیں گُل بھی گُلستاں بھی
مرا حُسنِ بیاں ہے خار بھی چاکِ گریباں بھی
مرے دامن میں ، جگنو ہیں جہاں اور چاند تارے بھی
اِسی دامن میں رکھتا ہوں کچھ آہیں اور شرار ے بھی
جو میری عمر کا حاصل ہے ذکرِ مصطفٰے کرنا
تقاضائے محبّت ہے بیانِ کربلا کربلا
تقاضہ ہے ضمیرِ شاعر حق گو کی فِطرت کا
کہ حق گوئی و بیبا کی پہ مبنی سخن اُس کا
بیانِ سیّد الشُہداء کی جب تمہید ہوتی ہے
وہی عہدِ وفا کے رسم کی تجدید ہوتی ہے
حسین ابنِ علی ، سبطِ پیمبر ، شرفِ انسانی
وہ جس کے رُخ پہ تھی نُورِ محمد کی فراوانی
شہیدِ کربلا تاریخ کا عنوان ہے گویا
حسین ابنِ علی ہر قلب میں مہمان ہے گویا
بتایا ، کس طرح کرتے ہیں اُمّت کی نگہبانی
سکھایا ، کس طرح رکھتے ہیں سجدوں میں یہ پیشانی
جَلایا اس نے ظلمت میں چراغِ نُورِ ایمانی
یہ سب کچھ جانتے تھے پھر اُسے دیتے نہ تھے پانی
بہت ہی مختصر، بندوں سے رب کا فاصلہ نکلا
حرم سے لے کے اہلِ بیت کو، جب قافلہ نکلا
عمامہ باندھ کر عہدِ وفا کا ، کربلا جانا
تھا اُمّت کے لیے مقصود ان راہوں کا دکھلانا
وہ راہیں جو عروجِ آدمیت کا سبب ٹھریں
زوال ِ ظلم ٹھریں ، حق پرستوں کا لقب ٹھہریں
عرب کی سرزمیں ، تپتے ہوئے صحرا، خزاں کے دن
سفر میں تھے رسولِ ہاشمی کی جانِ جاں کے دن
یہ منزل آزمائش کی بڑی دشوار ہوتی ہے
فضا میں زہر ہوتا ہے، ہوا آزار ہوتی ہے
جب ہستی مردِ مومن کی سپرد دار ہوتی ہے
تو سائے کے لیے سر پر فقط تلوار ہوتی ہے
وہ جس کی شان میں تھی آیۂ تطہیر ِ قرآنی
اسی کی اہلِ کوفہ نے کیا نیزوں سے مہمانی
طلب نانا سے کوثر کی شفاعت کی سفارش بھی
نواسے پر وہی کرنے لگے تیروں کی بارش بھی
جَلے خیمے بدن چھلنی تھے خون میں تر قبائیں تھیں
خدا کو جو پسند آتی ہیں وہ ساری ادائیں تھیں
وہ چہرے نُور کے تھے ، گِرد جن کے نُور کے ہالے
بنے وہ خاک وخوں میں ایک ہو کر کربلا والے
وہ چہرے وہ بدن جو عشق کا اسرار ہوتے ہیں
غبارِ خاک سے ان کے کفن تیار ہوتے ہیں
نہ ہوتا گر محمد کا گھرانہ ایسی منزل پر
تو اڑ جاتا فروغ دیں کا مستقبل دھواں بن کر
سلام اُس پر کہ جو حق کے لیے سربھی کٹا آیا
سلام اُس پر جواُمّت کے لیے گھر بھی لُٹا آیا
سلام اُس پر مرا جو خون کے دریا میں تیرا ہے
سلام اُس پر کہ جو نانا کے پرچم کا پھریرا ہے
سلام اُس پر کہ جس نے زندگی کو زندگی بخشی
سَروں کو سَر بلندی اور ذوقِ بندگی بخشی
سلام اُس پر کہ جو دوش ِ پیمبر کی سواری ہے
سلام اُس پر کہ جنّت جس کے گھر کی راہداری ہے
تیر سینے پہ، برچھی پشت پر جھیلے ہوئے اِنساں
سلام اے فاطمہ کی گود میں کھیلے ہوئے اِنساں
بہت آسان ہے ذکرِ شہیدِ کربلا کرنا
درونِ قلب مشکل ہے وہی حالت بپا کرنا
شہید ِ کربلا کے ذکر کا مجھ پر جواب آیا
کہ تیری ذات میں اب تک نہ کوئی انقلاب آیا
سراسر آبرو بن غیرتِ شرم و حیا ہو جا
اگر مجھ سے محبّت ہے تو میرا نقش ِ پا ہو جا
منگتوں پہ نظر یا گنج شکر آباد رہے تیرا، پاکپتن
اۓ خواجہ قطب کے نورِ نظر آباد رہے تیرا پاکپتن
تری دید کو اپنی عید کہیں، سب تجھ کو فرید فرید کہیں
دیتے ہیں صدا خواجہ کلیر آباد رہے تیرا پاک پتن
یوں بابا تری بارات سجی، پیچھے ہیں ولی آگے ہیں نبی
نبیوں کے نبی بھی تیرے گھر آباد رہے تیرا پاکپتن
سہرے کی رنگت اجمیری، ہیں نور کے تارے ہجویری
مخدوم و نظام پڑھیں مل کر آباد رہے تیرا پاک پتن
میں کیوں نہ فرید فرید کہوں، میں کیوں نہ تری چوکھٹ چوموں
ہے در تیرا جنت کا گھر آباد رہے تیرا پاکپتن
ہو خیر غریب نوازی کی، بھرو جھولی غریب نیازی کی
ہو تی ہے یہیں منگتوں کی گزر آباد رہے تیرا پاکپتن
میں تو پنجتن کا غلام ہوں میں غلام ابنِ غلام ہوں
مجھے عشق ہے تو خدا سے ہے ، مجھے عشق ہے تو رسول سے
یہ کرم ہے زہرہ بتول کا، میرے منہ سے آئے مہک سدا
جو میں نام لوں تیرا جھوم کے
مجھے عشق سروُ وسمن سے ہے ، مجھے عشق سارے چمن سے ہے ، مجھے عشق ان کے چمن سے ہے
مجھے عشق ان کی گلی سے ہے ، مجھے عشق ہے تو علی سے ہے ، مجھے عشق ہے تو حسن سے ہے مجھے عشق ہے تو حسین سے ، مجھے عشق شاہِ زمن سے ہے،مجھے ان کے وطن سے ہے
میں تو پنجتن کا غلام ہوں،میں غلام ابنِ غلام ہوں
ہوا کیسے تن سے وہ سر جدا، جہاں عشق ہو وہیں کربلا
میری بات اُن ہی کی بات ہے ، میرے سامنے وہ ہی ذات ہے
وہ ہی جن کو شیرِخدا کہیں، جنہیں بابِ صلِّ علیٰ کہیں
وہی جن کو آل ِ نبی کہیں ، وہی جن کو ذات ِ علی کہیں
وہی پختہ ہیں میں تو خام ہوں
میں تو پنجتن کا غلام ہوں ، میں غلام ابنِ غلام ہوں
میں قمر ہوں شاعر بے نوا میری حیثیت ہی بھلا ہے کیا
وہ ہیں بادشاہوں کے بادشاہ میں ہوں ان کے در کا بس اِک گدا
میرا پنجتن سے ہے واسط میرا نسبتوں کا ہے سلسلہ
میں فقیرِ خیرالانام ہوں میں تو پنجتن کا غلام ہوں میں غلام ابنِ غلام ہوں
نہ خانقاہ کے باہر نہ خانقاہ میں ہے
جو بُو تراب کا رتبہ مری نگاہ میں ہے
یہی ہے دولتِ ایمان و عِلم و عقل و یقین
علی کو جس نے پکارا ہے وہ پنا ہ میں ہے
گر جہانِ فکر میں درکار ہے اِک اِنقلاب
فکر کی راہوں سے اٹھ کر عشق کا ہو ہمر کاب
چاک کر دامن فسونِ فلسفہ کا ، مارکر
ایک نعرہ یا علی ؓ مشکل کشاء یا بُو تُراب ؓ
بحالِ غم دلِ بے تاب را قرار، علی
کریم و بندہ نواز و کرم شعار، علی
خراب حال و خطا کار و دلِ شکستہ را
خطا معاف، خدا ترس، غمگسار، علی
ہر گردشِ ایّام پہ جو غالب ہے
ہر نعرہ ٔ انقلاب کا جو قالب ہے
ہر لمحۂ مشکل میں طلب ہے جس کی
وہ نام، علی ابنِ ابی طالب ہے
زِ خاکِ پائے علی ما فلک مدار شدیم
زِ لطفِ چشمِ علی فصلِ نَو بہار شدیم
ہیں چہ فیض رسیدی زِ بوسۂ نعلین
گناہ گار کہ بودیم و تاجدار شدیم
ہم طلبگارِ سخاوت یا علی مشکل کشا
تم عنایت ہی عنایت یا علی مشکل کشا
بازوئے خیبر شکن ، اور لقمۂ نانِ جویں
اے شہنشاہِ قناعت یا علی مشکل کشا
آپ کو نسبت رسول اللہ سے ہے اور میں
آپ رکھتا ہوں نسبت یا علی مشکل کشا
عاشقوں کا دل ہے کعبہ اور دل کی دھڑکنیں
مطربِ جشنِ ولادت یا علی مشکل کشا
مردِ مومن کا سہارا ، حرّیت کی آبرو
قلبِ مومن کی حرارت یا علی مشکل کشا
وہ شجاعت ہو، سخاوت ہو، قناعت یا جہاد
آپ ہی کی ہے قیادت یا علی مشکل کشا
فاتحِ خیبر تمہارے چاہنے والوں پہ آج
دشمنوں نے کی ہے شدّت یا علی مشکل کشا
پھر وہی بغداد و مصر و شام کے ہیں صبح و شام
دیجیے شوقِ شہادت یا علی مشکل کشا
در گزر میں آپ سے بڑھ کر کوئی گزرا نہیں
اے سراپائے محبت یا علی مشکل کشا
در گذر کیجیے خطا اور دیجیے اس قوم کو
اپنا بازو، اپنی ہمّت یا علی مشکل کشا
آپ کے در سے ادب سے مانگتا ہے یہ ادیب
صدقہ ٔ خاتونِ جنّت یا علی مشکل کشا
ہوئی مدحِ پیمبر اور حمدِ خالق باری
بصد گریہ ، بصد نالہ، بصد آہ و بصد زاری
قلم ہے دم بخود، جذبات ساکِن ، روح لرزاں ہے
ادب، خاتونِ جنّت ، فاطمہ زہرٰی کی ہے باری
کمال ِ ذکرِ زہرٰی سے اگر ہستی ہوئی اکمل
جمال ذکرِ نورِ فاطمہ سے دل بنا اجمل
یہ توقیر ِ محبّت ہے کہ یہ تاثیرِ نسبت ہے
سخن سنجی ہوئی اَحسن زباں دانی ہوئی افضل
تخلیق میں تسلیم و رضا جن کے خصائل
معصوم، مخیّر ، متصرّف ، متکفّل
سرکارِ دو عالم کی طرح فاطمہ زہرٰی
مشفق، متبسّم ، متحمّل ، متوکلّ
وہ حامد و محمود کی اُلفت کا ظہُور
وہ رحمتِ کُل قاسمِ مقسوم کا نُور
یہ شان، مگر عالمِ تسلیم و رضا
چکّی کی مشقّت ، بہ تبسّم منظور
شفیعٌ سراجٌ منیرٌ کی دُختر
شجاعٌ شریفٌ شہیدٌ کی مَا در
وہ خاتونِ جنّت ، وہ جنّت کی حُرمت
امیرٌ جریٌ علی جِن کے شوہر
جِس کو رحمٰن و رحیم و رحمتِ کُل کا شعور
جس کو عرفانِ محمد ، جس کو فیضانِ رسول
ذی حسب، اعلیٰ نسب، زہرٰی لقب، ذوالاحترام
دیدنیٔ مصطفٰے اور دیدۂ رحمت کا نُور
واہ کیا مرتبہ اے غوث ہے بالا تیرا
اونچے اونچوں کے سروں سے قدم اعلیٰ تیرا
سر بھلا کیا کوئی جانے کہ ہے کیسا تیرا
اولیاء ملتے ہیں آنکھین وہ ہے تلوا تیرا
کیا دبے جس پہ حمایت کا ہو پنجہ تیرا
شیر کو خطرے میں لاتا نہیں کتا تیرا
قسمیں دے دے کے کھلاتا ہے، پلاتا ہے تجھے
پیارا اللہ ترا چاہنے والا تیرا
کیوں نہ قاسم ہو کہ تو ابن ابی قاسم ہے
کیوں نہ قادر ہو کہ مختار ہے بابا تیرا
ابن زھرٰی کو مبارک ہو عروس قدرت
قادری پائیں تصدق مرے دولہا تیرا
بدسہی، چور سہی، مجرم و ناکارہ سیs
اے وہ کیسا ہی سہی ہے تو کریما تیرا
فخر آقا میں رضا اور بھی اک نظم رفیع
چل لکھا لائیں ثنا خوانوں میں چہرہ تیرا