اے سکونِ قلب مضطر اے قرارِ زندگی
اے امینِ رازِ فطرت، اے بہارِ زندگی
تیری ہر ہر جنبش ِ لب برگ و بارِ زندگی
تو دیارِ عشق میں ہے شہریارِ زندگی
تیرے قدموں کی بدولت تیری آمد کے طفیل
گلستاں ہی گلستاں ہے خار زارِ زندگی
ترا قربِ خاص پاکر تیرے دستِ پاک میں
سنگریزے بن گئے ہیں شاہکارِ زندگی
جس نے پائی تیری نسبت ہوگیا وہ ذی وقار
اے فروغِ آدمیت، اے وقارِ زندگی
شاعرانِ حُسن ِ فطرت ، صاحبان ِ درک و فہم
ہے قدم بوسی میں ہر اک وضعدارِ زندگی
درس تیرا ظالموں سے جنگ ، مظلوموں سے پیار
کتنی سادہ ہوگئی ہے رہ گذارِ زندگی
آدمی کو آدمی سے پیار کا نسخہ دیا
تو طبیبِ خلق ہے ، تیمار دارِ زندگی
تو نے آکر دی نگاہوں کو بصیرت حُسن کی
ورنہ تھی محدود لفظوں میں، بہارِ زندگی
تو نے صحرائے تخیل میں لگائے گلستاں
اور چٹانوں سے نکالے آبشارِ زندگی
گونج اٹھے نغمے لگائی تو نے جب مضرابِ عشق
بربطِ فطرت پہ تھا خاموش تارِ زندگی
بے خبر دنیا و ما فیہا سے تو نے کر دیا
کیا شرابِ زندگی ہے، کیا خمارِ زندگی
روح و جاں کی سلطنت پر حکمرانی ہے تری
ہم غلامِ عشق ہیں ، تو تاجدارِ زندگی
عشق کی دیوانگی کے سامنے سب ہیچ ہیں
توڑ دیتی ہے محبّت ، ہر حصارِ زندگی
تیرے پائے ناز کا اک لمس پاکر ہے رواں
چھن چھناتی ، گنگناتی جوئبارِ زندگی
تیری توصیف و ثناء مدح سے آراستہ
ہے ادیبِ خوش بیاں کا نغمہ زار ِ زندگی
آیا نہ ہوگا اس طرح رنگ و شباب ریت پر
گُلشنِ فاطمہ کے تھے سارے گُلاب ریت پر
جانِ بتول کے سِوا کوئی نہیں کھِلا سکا
قطرہ ٔ آب کے بغیر اتنے گُلاب ریت پر
ترے حُسین آب کو میں جو کہوں تو بے ادب
لمسِ لبِ حُسین کو تَرسا ہے آب ریت پر
عشق میں کیا لُٹایئے عشق میں کیا بچا ئیے
آلِ نبی نے لکھ دیا سارا نصاب ریت پر
لذّت سوزش ِ بلال، شوقِ شہادتِ حُسین
جس نے لیا یونہی لیا اپنا خطاب ریت پر
جتنے سوال عشق نے آل ِ رسول سے کیے
ایک سے بڑھ کے اِک دیا سب نے جواب ریت پر
آل ِ نبی کا کام تھا آلِ نبی ہی کر گئے
کوئی نہ لکھ سکا ادیب ایسی کتاب ریت پر
آنکھ میں جب اشک آیا ہو گئی نعتِ رسول
درد جب دل میں سمایا ہو گئی نعتِ رسول
جب کسی حق کی داستاں کو زندہ کرنے کے لیے
ظلم سے پنجہ لڑایا ہوگئی نعتِ رسول
جہل کی تاریکیوں میں اعتماد علم کا
اِک دیا جس نے جلایا ہو گئی نعتِ رسول
جب کسی معصوم کو پایا یتیمی کا شکار
اپنے سینے سے لگایا ، ہو گئی نعتِ رسول
امتیازِ بندہ و آقا مٹانے کے لیے
جب کوئی میداں میں آیا ہو گئی نعتِ رسول
کھا کے سنگ دشمنان ِ دیں اگر یہ کہہ دیا
کر بَھلا اس کا خدایا ، ہو گئی نعتِ رسول
یاد کر کے عرصۂ شعبِ ابی طالب کبھی
جس نے دو آنسو بہایا ہوگئی نعتِ رسول
محسنِ انسانیت کی جان کر ، سنّت اگر
جس نے روتوں کو ہنسایا، ہوگئی نعتِ رسول
کیا بتاؤ ں کس قدر ہیں مہرباں مجھ پر حضور
جب قلم میں نے اٹھایا ہو گئی نعتِ رسول
سیرتِ خیر البشر کو دیکھتا جا اے ادیب!
جو ورق نے تو اُٹھایا ہو گئی نعتِ رسول
الف اللہ چنبے دی بوٹی مرے من وچ مرشد لائی ہو
نفی اثبات دا پانی ملیا ھررگِ ھرجائی ہو
اندر بوٹی مشک مچایا جان پھلن تےآئی ہو
جیوے مرشد کامل باہو جیں ایہ بوٹی لائی ہو
ایمان سلامت ھر کوئی منگے عشق سلامت کوئی ہو
منگن ایمان شرماون عشقوں دل نوں غیرت ہوئی ہو
جس منزل نوں عشق پچاوے ایمان نوں خبر نہ کوئی ہو
میرا عشق سلامت رکھیں باہو ایمانوں دیا دھروئی ہو
ایہ تن میرا چشماں ہووے تے میں مرشد ویکھ نہ رجاں ہو
لوں لوں وے مڈھ لکھ لکھ چشماں ہک کھولاں کجاں ہوں
اتنا ڈٹھیاں صبر نہ آوے ہو رکتے دل بجھاں ہو
مرشد دا دیدار ہے باہو مینوں لکھ کروڑاں حجاں ہو
بغداد شہر دی کی اے نشانی اچیاں لمیاں چیراں ہو
تن من میرا پرزے پرزے جیون درزی دیاں لیراں ہو
اینہاں لیراں دی لگ کفنی پا کے رل ساں سنگ فقیراں ہو
بغداد شہر دے ٹکڑے منگساں باہو کرساں میراں میراں ہو
الاماں قہر ہے اے غوث وہ تیکھا تیرا
مرکے بھی چین سے سوتا نہیں مارا تیرا
بادلوں سے کہیں رکتی ہے کڑکتی بجلی
ڈھالیں چھنٹ جاتی ہیں اٹھتا ہے جو تیغا تیرا
عکس کا دیکھ کے منہ اور بھپر جاتا ہے
چار آئینہ کے بل کا نہیں نیزا تیرا
کو ہ سر مکھ ہو تو اِک دار میں دو پر کالے
ہاتھ پڑتا ہی نہیں بھول کے اوچھا تیرا
اس پہ یہ قہر کہ اب چند مخالف تیرے
چاہتے ہیں کہ گھٹا دیں کہیں پایہ تیرا
عقل ہوتی تو خدا سے نہ لرائی لیتے
یہ گھٹا ئیں ، اسے منظور بڑھا نا تیرا
وَرَفَعۡنَا لَکَ ذِکۡرَکۡ کا ہے سایہ تجھ پر
بول بالا ہے تر ذِکر ہے اُونچا تیرا
مٹ گئے ٹتے ہیں مِٹ جائیں گے اعدا تیرے
نہ مٹا ہے نہ مٹے گا کبھی چرچا تیرا
تو گھٹا ئے سے کسی کے نہ گھٹا ہے نہ گھٹے
جب بڑھائے تجھے اللہ تعالیٰ تیرا
سمِّ قاتل ہے خدا کی قسم اُن کا اِ نکا ر
منکرِ فضل حضور آہ یہ لکھا تیرا
میرے خنجر سے تجھے با ک نہیں
چیر کر دیکھے کوئی آہ کلیجا تیر ا
ابنِ زہر ا سے ترے دل مین ہیں یہ زہر بھرے
بل بے او منکر ِ بے باک یہ زہر تیرا
بازِ اشہب کی غلامی سے یہ آنکھیں پھرنی
دیکھ اڑ جائے گا ایمان کا طوطا تیرا
شاخ پر بیٹھ کر جڑ کا ٹنے کی فکر میں ہے
کہیں نیچانہ دکھائے تجھے شجرا تیرا
حق سے بد ہو کے زمانہ کا بھلا بنتا ہے
ارے میں خوب سمجھتا ہوں معمّا تیرا
سگ ِ در قہر سے دیکھے تو بکھرتا ہے ابھی
بند بندِ بدن اے روبہِ دنیا تیرا
غرض آقا سے کروں عرض کہ تیری ہے پناہ
بندہ مجبور ہے خاطِر پہ ہے قبضہ تیرا
حکم نافذ ہے ترا خامہ ترا سیف تری
دم میں جو چاہے کرے دور ہے شاہا تیرا
جس کو للکار دے آتا ہو تو الٹا پھر جائے
جس کو چمکار لے ہر پھر کے وہ تیرا تیرا
کنجیاں دل کی خدا نے تجھے دیں ایسی کر
کہ یہ سینہ ہو محبّت کا خزینہ تیرا
دِل پہ کندہ ہو ترا نام کہ وہ دُزدِ رجیم
الٹے ہی پاؤں پھرے دیکھ کے طغرا تیرا
نزع میں ، گور میں ، میزاں پہ ، سرِ پل پہ کہیں
نہ چھٹے ہاتھ سے دامانِ معلٰی تیرا
دھوپ محشر کی وہ جاں سوز قیامت ہے مگر
مطمئن ہوں کہ مرے سر پہ ہے پلا تیرا
بہجت اس سر کی ہے جو “بہجۃ الاسرار ” میں ہے
کہ فلک وار مُریدوں پہ ہے سایہ تیرا
اے رضا چیست غم ارجملہ جہاں دشمنِ تست
کردہ ام ما منِ خود قبلۂ حاجا تیرا
اَلَا یٰاَ یُّھَا السَّاقِیْ اَدْرِکَا سًا وَّ نَاوِلْھَا
کہ بر یادِ شہِ کوثر بنا سَازیم محفلہا
بلا بارید حبِّ شیخ نجدی بر وہابیہ
کہ عِشق آساں نمود اوّل ولے افتاد مشکلہا
وہابی گرچہ اخفامی کند بغضِ نبی لیکن
نہاں کے ماند آں رازے کزوسازند محفلہا
توہّب گا ہ ملکِ ہند اقامَت رانمی شاید
جرس فریاد می دارد کہ بربند ید محملہا
صلائے مجلسم دَر گوش آمد بیں بیا بشنو
جرس مستانہ می گوید کہ بربندید محملہا
مگر واں رُو ازیں محفل رہِ اربابِ سنّت رَو
کہ سالک بے خبر نبود زِراہ و رسم منزلہا
در ایں جلوت بیا از راہِ خلوت تا خُدا یابی
مَتٰی مَا تَلْق مَن قَھْوٰی دَعِ الدُّنْیا وَاَمْھِلْھا
ولم قربانت اے دودِ چراغ محفل مولد
زتاب ِ جعدِ مشکینت چہ خوں افتاد در دلہا
غریقِ بحرِ عشقِ احمدیم از فرحت مولد
کجا دانند حالِ ما سُبکسا رانِ سَاحلہا
رضا مست جامِ عشق ساغر باز می خواہد
َلَا یٰاَ یُّھَا السَّاقِیْ اَدْرِکَا سًا وَّ نَاوِلْھَا
اَ َلَا یٰاَ یُّھَا السَّاقِیْ اَدْرِکَا سًا وَّ نَاوِلْھَا
اک شمع جل گئی ہے پروانے ڈھونڈتا ہوں
دیوانہ ہو گیا ہوں دیوانے ڈھونڈتا ہوں
ہے کرب سا مسلسل قلب و جگر میں یا رب
سچائی سے مزین افسانے ڈھونڈتا ہوں
جن سے نظر ملا کر چھا جائے کیف و مستی
ایسی نگاہ کے میں پیمانے ڈھونڈتا ہوں
چڑھتے تھے دار پر جو تقدیر کے سکندر
میں آج بھی کچھ ایسے مستانے ڈھونڈتا ہوں
وہ جن سے معرفت کے ساغر چھلک رہے تھے
عرصہ گزر گیا وہ میخانے ڈھونڈتا ہوں
محمود میری باتیں کیسے سمجھ سکیں گے
میں لوگ بھی تو سارے انجانے ڈھونڈتا ہوں
اشکوں سے بھی لکھ ان کی ثناء ان کا قصیدہ
لکھ جیسے وہ ہیں ایسا نہ دیدہ نہ شنیدہ
جب یاد کیا قلب ہو ا نافہ آہو
جب نام لیا ہو گئے لب شہد چکیدم
دیکھا ہے بلندی پہ ہر اِک جا سرِ افلاک
لیکن اسے دیکھا ہے مدینہ میں خمیدہ
حسرت میں زیارت کی بہے جاتے ہیں آنسو
اچھا ہے وضو کرتا ہے دیدار کو دیدہ
کیا اس کو خریدیں گے سلاطینِ زمانہ
اے رحمتِ عالم ! تیری رحمت کا خریدا
امت ہے بہت زار و پریشان کرم کر
چادر بھی دریدہ ہوئی ، دامن بھی دریدہ
وہ شاعری اچھی کہ دکھائے جو یہ منظر
آغوشِ کرم میں سگِ دنیا کا گزیدہ
محتاج نہ ہوگا کبھی وہ ہاتھ جو لکھے
اس مصطفٰے و منعم کی سخاوت کا قصیدہ
محروم نہیں ہوں گی بصارت سے وہ آنکھیں
گو خواب سہی، ہوں رخِ انوار کی دیدہ
بس ایک ہی جھونکا ہے بہت شہرِ نبی کا
آواز یہ دیتے ہیں تن و قلب تپیدہ
لایا درِ رحمت پہ مجھے جادۂ رحمت
کافی مری بخشش کے لیے ہے یہ قصیدہ
جس راہ سے گُذرا ہے ادیب ان کی ثناء میں
رخشندہ وہ تابندہ ، درخشاں و و میدہ
اُس کی تعریف محمد کے سِوا کون کرے
تو جہاں کہیں بھی ہے تو جہاں کہیں رہا
نہ خیال کی پہنچ ، نہ خِرد کو راستہ
نہ کمندِ آگہی سے بلند ہی رہا
کوئی جستجو میں گُم کوئی عرش تک رسا
وَتُعِزُّ مَنۡ تَشَآءُ وَتُذِلُّ مَنۡ تَشَآءُؕ
یہ مکان و لامکاں کی عبث ہے گفتگو
تو ہی نورِ مہر و مہ، تو ہی گل کا رنگ و بُو
رہا سب کے روبرو، رہی پھر بھی جستجو
کوئی راہ کھو گیا، کوئی تجھ کو پاگیا
وَتُعِزُّ مَنۡ تَشَآءُ وَتُذِلُّ مَنۡ تَشَآءُؕ
مجھے سرفراز کر، مرے بخت کو جَگا
جو عزیز ہو تجھے ، وہی کر مجھے عَطا
جو تجھے پسند ہو، اسی راہ پر چلا
جو ترے غضب میں ہوں ، مجھے ان سے رکھ جدا
وَتُعِزُّ مَنۡ تَشَآءُ وَتُذِلُّ مَنۡ تَشَآءُؕ
از حسن ملیح خود شور بجہاں کردی
ہر زخمی و بسمل را مصروف فغال کردی
بے جرم خطا قتلم از نازِ بتاں کردی
خود تیغ، زدی برمن نام دگراں کردی
مدہوش بیک ساغر اے پیر مغاں کردی
دل بردی و جاں بردی بے تاب و تواں کردی
خود آئینہ روبودی خود آئینہ بے خود
ایں طرفہ تماشا بیں در بزمِ جہاں کردی
شُد جامیٔ بے چارا از عشق تو آوارہ
آوارۂ غربت را در خاک نہاں کردی
اتار کر ان کے رخ کا صدقہ یہ نور کا بٹ رہا تھا باڑا
کہ چاند سورج مچل مچل کر جبیں کی خیرات مانگتے تھے
وہی تو اب تک چھلک رہا ہے وہی تو جَو بن ٹپک رہا ہے
نہانے میں جو گرا تھا پانی کٹورے تاروں نے بھر لیے تھے
بچا جو تلوؤں کا ان کے دھوون بنا وہ جنّت کا رنگ و روغن
جنہوں نے دولہا کا پائی اُترن وہ پھول گلزارِ نور کے تھے
خبر یہ تحویلِ مہر کی تھی کہ رُت سہانی گھڑی پھرے گی
وہاں کی پوشاک زیبِ تن کی یہاں کا جوڑا بڑھا چکے تھے
تجلی حق کا سہرا سَر پر صَلوٰۃ و تسلیم کی نچھاور
دو رُویہ قدسی پرے جما کر کھڑے سلامی کے واسطے تھے
جو ہم بھی واں ہوتے خاکِ گلشن لپٹ کے قدموں سے لیتے اُترن
مگر کریں کیا نصیب میں تو یہ نامرادی کے دن لکھے تھے
Qaseeda Me’raaj Part/4
ابھی نہ آتے تھے پشتِ زِیں تک کہ سَر ہوئی مغفرت کی شلّک
صدا شفاعت نے دی مبارک گناہ مستانہ جھومتے تھے
عجب نہ تھا رخش کا چمکنا غزالِ دم خوردہ سا بھڑکنا
شعاعیں بکے اُڑا رہی تھیں تڑپتے آنکھوں پہ صاعِقے تھے
ہجومِ امید ہے گھٹاؤ مرادیں دے کر اِنہیں ہٹاؤ
ادب کی باگیں لیے بڑھاؤ ملائکہ میں یہ غَلغلے تھے
اُٹھی جو گرد رَہِ منور وہ نور برسا کہ راستے بھر
گھرے تھے بادل بَھرے تھے جَل تھل اُمنڈ کے جنگل اُبل رہے تھے
ستم کیا کیسی مَت کٹی تھی قمر وہ خاک اُن کے رَہ گذر کی
اٹھا نہ لایا کہ مَلتے مَلتے یہ داغ سب دیکھنا مٹے تھے
بُراق کے نقشِ سُم کے صدقے وہ گل کھلائے کہ سارے رستے
مہکتے گلبُن مہکتے گلشن ہرے بھرے لہلہارہے تھے
qaseeda-e-me’raj part/5
آئی تو کاٹنے کے لیے سب کے پاس مرگ
رشتہ جو آدمی کے بدن سے ہے جان کا
اس طرح سے کسی کی تواضع نہیں ہوئی
خونِ شہید کے لیے دامن قرآن کا
اُدھر ترتیلِ قرآنی ، کوئی ترمیم ناممکن
جو آیت حکم جو لائی ، عمل ایسا ہی کرنا ہے
اِدھر ترتیب ِ عثمانی کہ جو سورۃ جہاں رکھ دی
قیامت تک اسی ترتیب سے قرآن پڑھنا ہے
تو نے بھی عجب شان دکھائی ہے خدایا
جب تیغ نے خوں، حضرت ِ عثمان بہایا
گرنے نہ دیا قطرۂ خون پہلے زمیں پر
رحمت نے تیری دامنِ قرآن بچھایا
از آدم تا محمد مصطفٰے کوئی نہیں ایسا
کہ جن کے عقد میں دو بیٹیاں ہوں اک پیمبر کی
حیاء کی ، مصطفٰے کی دوستی کی ، یا مقدر کی
وہ ایک منظر وَمَا رَ مَیْتَ جہاں خدا خود یہ کہہ رہا ہے
یہ دست دست ِ نبی نہیں ہے یہ دستِ قدرت فقط مِرا ہے
یہ ایک منظر ، شجر کے نیچے نبی کا بیعت کے وقت کہنا
یہ دست ِ بیعت نبی کا ہے اور یہ دستِ عثمان دوسرا ہے
بچوں کو لوریوں میں کہیں ماں قریش کی
سو جاؤ میرے لال کہ ماں غمگسار ہے
ہے تم سے اتنا پیار ، کہ رحمٰن کی قسم
جیتنا قبیلے والوںکو عثمان سے پیار ہے
بخوبی ہمچومہ تابندہ باشی
بہ ملک دلبری پائندہ باشی
جہاں سوزی اگر دو غمزہ آئی
شکر ریزی اگر برخندہ باشی
من درویش را کشتی بغمزہ
کرم کردی الٰہی زندہ باشی
زقید دو جہاں آزاد باشم
اگر تو ہم نشیں بندہ باشی
جفا کم کن کہ فردہ روزِ محشر
بروئے عاشقاں شرمندہ باشی
بہ تندی و بشوخی ہم و خسرو
ھزاراں خانما بدکندہ باشی
پھر کے گلی گلی تباہ ٹھوکریں سب کی کھائے کیوں
دل کو جو عقل دے خدا تیری گلی سے جائے کیوں
رخصتِ قافلہ کا شور غش سے ہمیں اٹھائے کیوں
سوتے ہیں ان کے سایہ میں کوئی ہمیں جگائے کیوں
بار نہ تھے جیب کو پالتے ہی غریب کو
روئیں جو اب نصیب کوچیں کہو گنوائیں کیوں
یادِ حضور کی قسم غفلتِ عیش ہے سِتم
خوب ہیں قیدِ غم میں ہم کوئی ہمیں چھڑا ئے کیوں
دیکھ کے حضرتِ غنی پھیل پڑے فقیر بھی
چھائی ہے اب تو چھاؤنی حشر ہی آنہ جائے کیوں
جان ہے عشقِ مصطفٰے روز فزوں کرے خدا
جس کو ہو در د کا مزہ نازِ دوا اٹھائے کیوں
ہم تو ہیں آپ دل فگار غم میں ہنسی ہے ناگوار
چھیڑ کے گل کو نو بہار خون ہمیں رلائے کیوں
یا تو یوں ہی تڑپ کے جائیں یا وہی دام سے چھڑائیں
منت ِ غیر کیوں اٹھائیں کوئی ترس جتائے کیوں
اُن کے جلال کا اثر دل سے لگائے ہے قمر
جو کہ ہو لوٹ زخم پر داغِ جگر مٹائے کیوں
خوش رہے گل سے عندلیب خارِ حرم مجھے نصیب
میری بلا بھی ذِکر پھر پھول کے خار کھائے کیوں
گردِ ملال اگر دُھلے دِل کی کلی اگر کھِلے
برق سے آنکھ کیوں جلے رونے پہ مسکرائے کیوں
جانِ سفر نصیب کو کس نے کہا مزے سے سو
کھٹکا اگر سحر کا ہوشام سے موت آئے کیوں
اب تو نہ روک اے غنی عادتِ سگ بگڑ گئی
میرے کریم پہلے ہی لقمۂ تر کھلائے کیوں
راہِ نبی میں کیا کمی فرشِ بیاض دیدہ کی
چادرِ ظل ہے ملگجی زیرِ قدم بچھائے کیوں
سنگِ در حضور سے ہم کو خدا نہ صبر دے
جانا ہے سر کو جا چکے دل کو قرار آئے کیوں
ہے تو رضا نراسِتم جرم پہ گر لجائیں ہم
کوئی بجائے سوز، غم سا ز طرب بجائے کیوں
پلک جھپکتی رہی وہ کب کے سب این و آں سے گزر چکے تھے
جھلک سی اِک قدسیوں پر آئی ہوا بھی دامن کی پِھر نہ پائی
سواری دولہا کی دور پہنچی برات میں ہوش ہی گئے تھے
تھکے تھے رُوحُ الْامںی کے بازو چُھٹا وہ دامن کہاں وہ پہلو
رکاب چھوٹی ،امید ٹوٹی نگاہِ حسرت کے ولولے تھے
رَوِش کی گرمی کو جس نے سوچا دماغ سے اِک بَھبو کا پھوٹا
خِرَد کے جنگل میں پُھول چمکا دَہر دَہر پیڑ جل رہے تھے
جِلو میں مرغِ عقل اُڑے تھے عجب بُرے حالوں گرتے پڑتے
وہ سدرہ ہی پر رہے تھے تھک کر چڑھا تھا دم تیور آگئے تھے
قوی تھے مرغان ِوہم کے پَر، اُڑے تو اُڑنے کو اور دَم بھر
اٹھائی سینے کی ایسی ٹھوکر کہ خونِ اندیشہ تھوکتے تھے
سنا یہ اتنے میں عرش ِحق نے ،کہا مبارک ہو تاج والے!
وہی قدم خیر سے پھر آئے جو پہلے تاج ِشرف تیرے تھے
Qaseeda-e-me’raj part/7
کلام میّسر نہیں
تیرے ذکر سے مری آبرو تیری شان جَلّ جَلالہٗ
تو میرے کلام کا رنگ و بو تیری شان جَلّ جَلالہٗ
جو چٹک کے غنچہ کِھلے یہاں تو کرے وہ وصف تیرا بیاں
ہے چمن چمن تیری گفتگو تیری شان جَلّ جَلالہٗ
مرے دل میں عشقِ نبی دیا جو دیا بجھا تھا جلا دیا
جسے چاہے جیسے نواز ے تو تیری شان جَلّ جَلالہٗ
جو طلب کا بھید ہیں جانتے وہ تجھی کو تجھ سے ہیں مانگتے
جو تیرے ہوئے ہیں انہیں کا تو تیری شان جَلّ جَلالہٗ
یہ ادیب میں تھا کہاں تیری شان کرتا جو یوں بیاں
ہے تیرے کرم سے یہ سرخرو تیری شان جَلّ جَلالہٗ
تیری تکریم میں تیری تعظیم میں کس کو شک ہے بھلا کربلا کربلا
پھر بھی میرا قلم، تجھ سے شکوے رقم آج کرنے چلا کربلا کربلا
تو فراط آشنا ، تجھ میں دجلہ رواں پھر بھی آل ِ محمد کی سوکھی زباں
تیرے مہمان تھے ، اپنے مہمان سےتو نے یہ کیا کیا کربلا کربلا
واسطہ ان کے آباء کا دے کر اگر ، مانگتا اپنے سینہ میں زم زم کا گھر
اِک کرشمہ دکھاتا وہاں بھی خدا، کیوں نہ مانگی دعا کربلا کربلا
رات ہو دن ہو جب ان کے ہلتے جو لب ، اپنے خیموں میں قرآن پڑھتے تھے سب
تو نے دیکھا یہ سب ، تو نے خود بھی سنا اور کچھ نہ کیا کربلا کربلا
جن کے اہلِ حرم نُورِ مستورِ حق ، چادریں جن کے سر کی قرآں کا ورق
جن کےخیموں کے پردے غلافِ حرم، ان کو لوٹا گیا کربلا کربلا
آرزو التجا حسرتیں منّتیں ، جن کے قدموں کے بو سے کو حوریں کریں
ایسی شہزادیاں اور بربادیاں ، تو نے دیکھا کیا کربلا کربلا
وہ سکینہ تھی جو غم سے موسوم تھی ، کتنی معصوم تھی کتنی مغموم تھی
پوچھتی پھر رہی تھی ہر اِک سے پتہ ، تو نے کیا کہ دیا کربلا کربلا
نسل سے بولہب کی وہ دو ہاتھ تھے جن میں نیزہ تھا نیزے پہ فرقِ حُسین
کاش ہوتے نبی تو اترتی وہاں پھر سے تبت یدا کربلا کربلا
اہلِ بیت اور ان کی محبّت ادیب ، یہ مقدر یہ قسمت ، یہ روشن نصیب
اس وظیفہ سے راضی ہے مجھ سے خدا دیکھ یہ مرتبہ کربلا کربلا
تو ہے وہ غوث کہ ہر غوث ہے شیدا تیرا
تو ہے وہ غیث کہ ہر غیث ہے پیاسا تیرا
سورج اگلوں کے چمکتے تھے چمک کر ڈوبے
افقِ نور پہ ہے مہر ہمیشہ تیرا
مُرغ سب بولتے ہیں بول کے چپ رہتے ہیں
ہااصیل ایک نو اسنج رہے گا تیرا
جو ولی قبل تھے یا بعد ہوئے یا ہوں گے
سب ادب رکھتے ہیں دل میں مرے آقا تیرا
بقسم کہتے ہیں شاہان صریفین و حریم
کہ ہُوا ہے نہ ولی ہو کوئی ہمتا تیرا
تجھ سے اور دہر کے اقطاب سے نسبت کیسی
قطب خود کون ہے خادم تِرا چیلا تیرا
سارے اقطاب جہاں کرتے ہیں کعبہ کا طواف
کعبہ کرتا ہے طوافِ درِ والا تیرا
اور پروانے ہیں جو ہوتے ہیں کعبہ پہ نثار
شمع اِک تو، ہے کہ پَروانہ ہے کعبہ تیرا
شجرِ سرو سہی کِس کے اُگائے تیرے
معرفت پھول سہی کس کا کِھلا یا تیرا
تو ہے نو شاہ بَراتی ہے یہ سارا گلزار
لائی ہے فصل سمن گوندھ کے سہرا تیرا
ڈالیاں جھومتی ہیں رقصِ خوشی جو ش پہ ہے
بلبلیں جھولتی ہیں گاتی ہیں سہرا تیرا
گیت کلیوں کی چٹک غزلیں ہزاروں کی چہک
باغ کے سازوں میں بجتا ہے ترانا تیرا
صفِ ہر شجرہ میں ہوتی ہے سَلامی تیری
شاخیں جھک کے بجا لاتی ہیں مجرا تیرا
کِس گلستاں کو نہیں فصلِ بہاری سے نیا
کون سے سِلسلہ میں فیض نہ آیا تیرا
نہیں کس چاندکی منزل میں ترا جلوۂ نور
نہیں کس آئینہ کے گھر میں اُجالا تیرا
راج کِس شہر میں کرتے نہیں تیرے خدام
باج کِس نہر سے لیتا نہیں دریا تیرا
مزرع ِ چِشت و بخارا و عِراق واجمیر
کون سی کِشت پہ برسا نہیں جھالا تیرا
اور محبوب ہیں ، ہاں پر سبھی یکساں تو نہیں
یوں تو محبوب ہے ہر چاہنے ولا تیرا
اس کو سرفرد سَراپا بفراغت اوڑھیں
تنگ ہو کر جو اترنے کو ہو نیما تیرا
گردنیں جھک گئیں سر بچھ گئے دل لوٹ گئے
کشفِ ساق آج کہاں یہ تو قدم تھا تیرا
تاجِ فرقِ عرفا کس کے قدم کو کہیے
سر جسے باج دیں وہ پاؤں ہے کِس کا تیرا
سُکر کے جوش میں ہیں وہ تجھے کیا جانیں
خِضر کے ہوش سے پوچھے کوئی رتبہ تیرا
آدمی اپنے ہی احوال پہ کرتا ہے قیاس
نشے والوں نے بھلا سُکر نکالا تیرا
وہ تو چھوٹا ہی کہا چاہیں کہ ہیں زیرِ حضیض
اور ہر اَوج سے اونچا ہے ستارہ تیرا
دل ِ اعدا کو رضا تیز نمک کی دُھن ہے
اِ ک ذرا اور چھڑ کتار ہے خامہ تیرا
تم ہو شریک غم تو مجھے کوئی غم نہیں
دنیا بھی میرے واسطے جنت سے کم نہیں
چاہا ہے تجھ کو تجھ پہ لٹائی ہے زندگی
تیرے علاوہ کچھ مرا دین و دھرم نہیں
وہ بد نصیب راحتِ ہستی نہ پاسکا
جس پر مرے حبیب کی چشم کرم نہیں
منزل مجھے ملے نہ ملے اس کا کیا گلہ
وہ میرے ساتھ ساتھ ہیں یہ بھی تو کم نہیں
سجدہ اسی کا نام ہے جب تم ہو سامنے
ایسی نماز کیا جو بروئے صنم نہیں
اس راستے پہ سر کو جھکانا حرام ہے
جس راستے پہ آپ کا نقشِ قسم نہیں
اۓ آنے والے اپنی جبیں کو جھا کے آ
یہ آستانِ یار ہے کوئے حرم نہیں
اہل جنوں کا اس لیے مشرب جد ا رہا
واقف نیازِ عشق سے شیخ حرم نہیں
کلام میّسر نہیں
جو تصوّر میں نہیں جس کی نہیں کوئی خبر
اس کی تصویر بناؤں میں قلم سے کیونکر
وہ خیالوں میں اُتر جائے تو واسع کیسا
چند لفظوں میں سماجائے تو جامع کیسا
جس کے اِک نام کو سو نام سے تعبیر کریں
جس کے اِک حرف کو سو ڈھنگ سے تحریر کریں
وہ جو سبحان بھی ، رحمان بھی ، برہان بھی ہے
وہ جو دَیّان بھی ، حَنّان بھی ، مَنّان بھی ہے
عرش والا بھی وہی ، رَبّی َ الاعلی بھی وہی
زور آور بھی وہی، بخشنے والا بھی وہی
جلالِ آیت ِ قرآں کو جو سہار سکے
نبی کے دل کے سِوا دوسرا مقام نہیں
وہ لذّتِ غمِ عشقِ رسول کیا جانے
درود لبوں پر نہیں سلام نہیں
وہ دشمنوں کا ہدف وہ قریش کا مظلوم
مگر کسی سے لیا کوئی انتقام؟ نہیں
خیال اس کے تعقب میں تھک کے بیٹھ گیا
سفر براق پہ اس کا مگر تمام نہیں
تمام عمر نہ پائے ، ملے تو لمحوں میں
متاعِ عشقِ محمد مذاقِ عام نہیں
ادیب ان کے ثناگو میں نام ہے میرا
مقامِ شکر کہیں اور میرا نام نہیں
چھاپ تلک سب چھین لی نی رے مو سے نیناں ملا کے
بات اگہم کہہ دی نی رے م سے نیناں ملا کے
بل بل جاؤں میں تورے رنگ ریجوا
انپی سی رنگ لی نی رے مو سے نیناں ملا کے
ہری ہر چوڑیان گوری گوری بیاں
بیاں پکر ھر لی نی رے مو سے نیناں ملا کے
پریم بھٹی کا مدھوا پلائی کے
متواری کردی نی رے مو سے نیناں ملا کے
خسرو نجام کے بل بل جیّئے
موہے سہاگن کی نی رے مو سے نیناں ملا کے
چمن کہ تاقیامت گل او بہار باد
صنم کہ بر جمالش دو جہاں نثار باد
نگاہِ میر خوباں بشکار می خرامد
کہ بتیر غمزۂ او دل و جاں شکار بادا
بدوچشم از دو چشمش چہ پیا مہاست ھر دم
کہ دو چشم از پیامش خوش و پرخمار بادا
بغدائے تن تو منگر کہ ببوسد بر نرود
بغدائے جاں نگر کو خوش و پائیدار بادا
در زاھدے شکتم بدعا نمود نفریں
کہ بر و کہ روزگار ت ہمہ بے قرار بادا
چشم مستے عجبے زلف درازے عجبے
مے پرستے عجبے فتنہ طرازے عجبے
بوالعجب حسن و جمال و خط و خال و گیسو
سروقدِّ عجبے قامتِ ناز عجبے
وقت بسمل شُدنم برویش باز است
مہربانِ عجبے بندہ نوازِ عجبے
بہر قتلم چوں کشد تیغ نہم سر بسجود
او بہ نازِ عجبے من بہ نیاز عجبے
ترک تازی عجبے،شو بہ بازِ عجبے
کج کلاہِ عجبے، ابر ادا سازِ عجبے
حق مگو کلمۂ کفر است در ایں جا خؔسرو
راز دانِ عجبے، صاحبِ الرّاز عجبے
چار سو دنیا میں چر چا ہے تو نگر شاہ کا
عر ش پر بھی بول بالا ہے تونگر شاہ کا
آج بھی زندہ ہیں قبر پا ک میں بعد ازاں وصال
کون جانے کیسا رتبہ ہے تونگر شاہ کا
خاک اڑائی کوچہ گردی کی خدا کی راہ میں
آج یوں ہر گام شہرہ ہے تونگر شاہ کا
ریگ دریا آپ نے کھائی بڑی مقدار میں
اس حوالے سے بھی چرچا ہے تونگر شاہ کا
مردہ لڑ کے پر نظر ڈالی تو زندہ ہو گیا
یہ بھی اک ادنیٰ کرشمہ ہے تونگر شاہ کا
ہر گھڑی ذکر وتلاوت آپ فرماتے رہے
نور سے معمور سینہ ہے تونگر شاہ کا
دم کریں پیتل کے لوٹے پر تو ہو اس میں سوراخ
دم بھی کیا تاثیر والا ہے تونگر شاہ کا
آج بھی یامین ہیں جو د و سخا کی بارشیں
موجزن اب بھی دریا ہے تونگر شاہ کا
حجّت کے لیے حشر میں ہوگی یہ دلیل
ہر شے کو عطا ہوگی بشر کی صورت
اللہ کی یہ شکل کے خورشید ِ جلال
اللہ کا قرآن ، عمر کی صورت
دین ِ حق کی سر بلندی میں نبوّت کی طلب
بارگاہِ ربّ العزّت میں ہوا ہو جس پہ صاد
ساری دنیا ہے شہنشہاہِ دو عالم کی مُرید
اور عمر خود ہیں شہنشاہِ دو عالم کی مُراد
صف میں جو گُھس پڑے وہ لیے تیغِ شعلہ ور
سر کافروں کے دوش پہ آئے نہ پھر نظر
ہیبت سے ان کی دن میں نکلتے نہ تھے عدو
راتوں کو خواب میں بھی پُکاریں عمر عمر
لڑنے میں یوں تو ایک سے ایک بے مثال ہے
پھر بھی دلوں میں خوف عمر کا یہ حال ہے
ہیں ماہر ان حرب کے باہم یہ مشورے
خطّاب کے پسر سے لڑائی محال ہے
خِرَدْ سے کہہ دو کہ سر جھکالے! گماں سے گزرے گزرنے والے
پڑے ہیں یاں خود جِہَت کو لالے کِسے بتائے کدھر گئے تھے؟
سراغ ِاَین و متٰی کہاں تھا نشان کَیْفَ وَ الیٰ کہاں تھا؟
نہ کوئی راہی نہ کوئی ساتھی نہ سنگِ منزل نہ مرحلے تھے!؟
اُدھر سے پَیہم تقاضے آنا اِدھر تھا مشکل قدم بڑھانا
جَلال و ہَیبت کا سامنا تھا جَمال و رَحمت اُبھارتے تھے
بڑھے تو لیکن جھجکتے ڈرتے، حیا سے جھکتے ادب سے رکتے
جو قرب اُنہیں کی رَوِش پہ رکھتے تو لاکھوں منزل کے فاصلے تھے
پر اِن کا بڑھنا تو نام کو تھا حقیقتہً فعل تھا اُدھر کا
تنزّلوں میں ترقی افزا َدنَا تَدَلّٰی کے سلسلے تھے
ہوا آخر کہ ایک بجرا تَموّجِ بَحر ِہُو میں ابھرا
دَنَا کی گودی میں ان کو لے کر فنا کے لنگر اٹھادیے تھے
Qaseeda-e-me’raaj/9
خراجِ اشک سے قائم ہے قیصری میری
سرورِ عشقِ رسالت، سکندری میری
یہ میرا عہدِ غلامی، غلامیٔ شہِ دیں
اس عہد میں ہے خیالوں پہ افسری میری
غزل کا پھیر کے رخ لے چلا ثناء کی طرف
حرف حرف کو پسند آئی رہبری میری
امیرِ شہرِ سخن ہوں فقیرِ کوئے رسول
انہیں سے فقر، انہیں سے تونگری میری
متاعِ نعت اِسی در سے میں نے پائی ہے
نہ کیوں ہو ناز کے قابل سخن وری میری
وہ واردات جو گذری ہے میرے دل پہ ادیب
سمجھ رہے ہیں اسے لوگ شاعری میری
خُدا کی ذات کو زیبا ہے شانِ یکتائی
اُسی نے جرأتِ اظہار مجھ کو فرمائی
اسی کے لطف سے شاعر بنا، ادیب ہوا
ثناء حضور کی لکھےو ہ خوش نصیب ہوا
یہ اس کی شان کہ اس کے حضور میں ہو کر
یہ دے رہا ہے صدا قلبِ مضطرب، رو کر
کریم ہے تو مجھے نُدرتِ بیاں دیدے
دہن میں حافظِ شیرا ز ؒ کی زباں دیدے
وہ نطق دے کہ ہر اک رنگ سے جُدا کردے
کرم سے مثنوی رومؒ کی اَدا کر دے
بنا دے خواب کی اقبال ؒ کے ، مجھے تعبیر
ہو پائے فکر میں مضبوط ، عشق کی زنجیر
ترے کرم سے نظر آئے حُسن ہر خامی
ہو میری طرزِ نِگارش، عبارتِ جامی ؒ
خدا کا خوف ذکر ِ مصطفٰے سرمایۂ عثمان
سرور و کیف قربِ مصطفٰے سرمایہ ٔ عثمان
بیان سرکاری کی مدحت سدا، پیرا یۂ عثمان
نہ تھا ایسا نہ اب ہوگا کوئی ہم پایہ ٔ عثمان
نہ تھا آئینہ ٔ دل پر غبار ِ عصبیت ان کے
اگر چہ تھے حریفِ ہاشمی اَجداد سب ان کے
صفائے باطنی ان کا مکدر ہو نہ سکتا تھا
کوئی اس دل میں اب تخمِ رقابت بُو نہ سکتا تھا
جہالت کے اندھیروں سے نکل کر نُور میں آئے
قرابت وہ مِلی ، دو نور والے آپ کہلائے
قدم ہجرت کا مکہ سے نکالا آپ نے پہلے
حبش کو دین کا بخشا اُجالا آپ نے پہلے
وہ دورِ جاہلیت جو بھرا تھا آبِ گلگوں سے
حیاء والے کے لب نا آشنا تھے اس کے افسوس سے
حیاء کے ذکر کا جب بھی کوئی عنوان ہوتا تھا
لبِ شاہِ مدینہ پر فقط عثمان ہوتا تھا
نبی ارشاد فرماتے کتابت آپ کرتے تھے
بڑی دشوار تھی منزل، بآسانی گذرتے تھے
اشارہ پر نبی کے مال سب قربان ہوجاتا
جو حاتم آج ہوتا ، آپ کا دربان ہوجاتا
یہودی کو دیا کل مال، شیریں آب کے بدلے
ہوئے سیراب تشنہ لب مسلمان ، بیر رومہ سے
بنے وہ بیعت ِ رضوان میں تاجِ فخر کا طُرّہ
نبی نے ہاتھ بیعت میں جب ان کے نام پر رکھا
مراکش سے ملے کابل کے ڈانڈے عہد میں جن کے
ہوئے اسلام کے زیرِ نگیں ، دنیا کے یہ حصے
طرابلس اور افریقہ بنا اِسلام کا حصہ
بغاوت مصر کی توڑی ، فتح قبرص بھی کر ڈالا
ہو ا جب کوہِ لرزاں، مصطفٰے نے اس سے فرمایا
کہ تجھ پر اِک نبی، صدیق اِک اور اِک شہید آیا
شہادت معتبر تھی ، ایک دن ایسا بھی ہونا تھا
سرِ تسلیم اپنا خم کیا ، ایسا بھی ہونا تھا
شہادت کا وہ لمحہ، وہ تحمّل ، صبر کا پیکر
جو اخلاقِ کریمانہ کا ٹھرا ٓخری منظر
فَسَیَکْفِیْکَھُمْ آیت پہ جب خوں آپ کا ٹپکا
قراں کا ہر ورق دامن کو پھیلائے ہوئے لپکا
قیامت میں کریں گے لوگ جب قرآن کی باتیں
کریں گے ساتھ ہی وہ حضرتِ عثمان کی باتیں
اُتر کر خون کے دریا میں جو کوئی اُبھرتا ہے
ہٹا کر زیست کے پردے زیارت حق کی کرتا ہے
نہیں مرتا ادیب اس راہ میں ، جب کوئی مرتا ہے
وہ کب مرتا ہے جو راہِ شہادت سے گزرتا ہے
دلہن کی خوشبو سے مست کپڑے نسیمِ گستاخ آنچلوں سے
غلاف ِمشکیں جو اُڑ رہا تھا غَزال نافے بسا رہے تھے
پہاڑیوں کا وہ حسن تزیین وہ اونچی چوٹی وہ نازو تمکین!
صبا سے سبزہ میں لہریں آتیں دوپٹے دھانی چنُے ہوئے تھے
نہا کے نہروں نے وہ چمکتا لباس آبِ رواں کا پہنا
کہ موجیں چھڑیاں تھیں دھار لچکا حبابِ تاباں کے تھل ٹکے تھے
پرانا پُر داغ ملگجا تھا اٹھا دیا فرش چاندنی کا
ہجومِ تارِ نگہ سے کوسوں قدم قدم فرش بادلے تھے
غبار بن کر نثار جائیں کہاں اب اُس رہ گزر کو پائیں؟!
ہمارے دل حُوریوں کی آنکھیں فرشتوں کے پَر جہاں بچھے تھے
خدا ہی دے صبر جانِ پُرغم دِکھاؤں کیوں کر تجھے وہ عالم؟!
جب ان کو جُھرمٹ میں لے کے قدسی جِناں کا دولہا بنا رہے تھے
قصیدۂ معراج حصہ 3
درِ میخانہ وا ہوتا ہے اب جوشِ عقیدت کا
شراب ان کے تصور کی صبو ان کی محبت کا
نظر کے سامنے سب اہلِ دل اور اہلِ نسبت ہیں
خداوند بھرم رکھنا مری نسبت ، مرے غم کا
حمایت میں ، امامت میں ، شجاعت میں ، حوادث میں
علی داور ، علی رہبر ، علی حیدر، علی مولیٰ
کوئی عابد ، کوئی عارف، کوئی عاطف ، کوئی عاکف
کوئی عاجز ، کوئی عالی ، کوئی عاشق نہیں ایسا
قناعت میں قلندر وہ سخاوت میں سمندر وہ
شجاعت میں لقب ہے قوتِ پروردگار ان کا
وہ سیف اللہ ، وجہہ اللہ ، دامادِ رسول اللہ
وہی شبیر کا بازو، وہی سرمایہ ٔ زہرا
بتوں کا سر جُھکانے میں ، دلوں میں گھر بنانے میں
وہی ضرب الفتح نکلا، وہی خیبر شکن ٹھہرا
امیرٌ وہ جریٌ وہ شجاعٌ وہ شہیدٌ وہ
فصیحٌ وہ بلیغٌ وہ خطابت پر جہاں شیدا
مِری عزّت ، مری عظمت، مِری اُلفت مِری نسبت
علی مولیٰ ، علی مولیٰ ، علی مولیٰ علی مولیٰ
ادیب ان کی محبّت میں اگر آنکھوں میں اشک آئے
اِدھر آنکھوں میں نم ہوگا اُدھر لطف و کرم ہوگا
دُخترِ ختمِ الرسل جانِ پیمبر فاطمہ
اے وقارِ بُو ترابی، شانِ حیدر فاطمہ
رُوح کی تشنہ لبی کو آب کوثر ، فاطمہ
سجدہ گاہِ اہلِ ایماں، آپ کا در فاطمہ
لُٹ رہا تھا کربلا میں آپ کا گھر، فاطمہ
آپ نے دیکھا ہے محشر، قبلِ محشر، فاطمہ
آپ کی نسبت ہوئی ہم کو میسّر ، فاطمہ
آپ کی مدحت ہوئی اپنا مقدر، فاطمہ
ضبط کے خُو گر علی تھے ، صبر کے خُوگر حسین
آپ کی ہستی میں ہیں دونوں ہی جوہر ، فاطمہ
ذی حسب، اعلیٰ نسب، زہرہ لقب، ذوالاحترام
سب سے اعلیٰ سب سے افضل، سب سے بہتر فاطمہ
خم شہنشاہانِ عالم کی جبیں ہے دیکھ کر
آپ کا نقشِ کفِ پائے مطہّر ، فاطمہ
بندگی کیا، دین کیا، ایمان کیا ، اِسلام کیا
مصطفٰے ، شیرِ خدا ، شبّیر و شبّر فاطمہ
سر فروشی کا سبق دے ، صبر دے ، ایثار دے
اب کہاں ایسی کوئی آغوشِ مادر، فاطمہ
عرش ہِل جاتا اگر فریاد کو اُٹھتے وہ ہاتھ
آپ نے رکھا اُنہیں چکّی کا خُوگر، فاطمہ
مصطفٰے کے اور آل ِ مصطفٰے کے ہیں غلام
اپنے دامن میں چھپالیں یہ سمجھ کر، فاطمہ
خاتمہ بالخیر ہو عشقِ نبی میں جب ادیب
ڈال دیں رحمت کی اِس مجرم پہ چادر فاطمہ
کلام میّسر نہیں
کلام میّسر نہیں
کلام میّسر نہیں
کلام میّسر نہیں
زینت ِ دوشِ مصطفٰے تجھ کو مِرا سلام ہے
نُور ِ نگاہِ فاطمہ تجھ کو مِرا سلام ہے
منزلِ ہست و بود میں کون ابد مقام ہے
دیکھ رہا ہوں میں حسین ، ایک ترا ہی نام ہے
کشتۂ خنجرِ تسلیم و رضا تجھ کو سلام
مشعلِ نُورِ محمد کی ضیا تجھ کو سلام
نکہتِ بوئے گلستانِ وفا تجھ کو سلام
آبروئے صدف صدق و صفا تجھ کو سلام
زحال مسکین مکن تغافل ورائے نیناں بنائے بتیاں
کہ تاب ہجراں نہ دارم اے جاں نہ لیہو کا ہے لگائے چھتیاں
شباںِ ہجراں دراز چوں زلف ور وزِ وصلت چوں عمر کوتہ
سکھی پیا کو جو میں نہ دیکھوں تو کیسے کاٹوں اندھیری رتیا
یکا یک ا ز دل دو چشم جادو بصد فریبم ببرو تسکیں
کسے پڑی ہے جو جا سنائے ہمارے پی کو ہماری بتیاں
چوں شمع سوزاں چوں ذرّہ حیراں زمہر آں مہہ بگشتم آخر
نہ نیند نیناں نہ انگ چیناں نہ آپ آئے نہ بھیجیں پتیاں
بحق روزِ وصالِ دلبر کہ داد مارا فریب خؔسرو
لیپہتِ من کے درائے راکھوں جو جائے پاؤں پیا کی کھتیاں
کلام میّسر نہیں
کلام میّسر نہیں
شبِ غم کاٹ دے میری ، امیدوں کی سحر کر دے
مرے غم کو خوشی کر، میرے عیبوں کو ہنر کر دے
امید و بیم سے گذروں فسونِ وہم سے نکلوں
مجھے اپنی حضوری دے مرا حال دگر کر دے
وہ میرے حال سے واقف ہیں ان کو ہے خبر میری
بھلا کیسے کہوں کوئی انہیں میر ی خبر کر دے
بھلا یہ جان و دل لیکر کہاں جائے گا طیبہ سے
انہیں یا نذر کر یا صدقۂ خیر البشر کر دے
اگر تو چاہتا ہے دوزخ ِ دنیا سے آزادی
مدینہ ہو تیرا گھر ، یہ تمنّا دل میں گھر کر دے
تیری دولت تیرا سایہ غم ، تیرے آنسو ہیں
بہا کر نعت میں نادان ان کو تو گہر کر دے
یہ میری زندگی کا کارواں ، ہے اے خدا ! اس کا
مدینہ جس طرف ہے اس طرف روئے سفر کر دے
جگہ دیدے ادیب ِ خوش نواء کو اپنے قدموں میں
رہی فردِ عمل اس کو جِدھر چاہے اُدھر کر دے
کلام میّسر نہیں
کلام میّسر نہیں
کلام میّسر نہیں
کلام میّسر نہیں
عشق کے چراغ جل گئے
ظلمتوں سے ہم نکل گئے
ان کے نقشِ پا پہ چل گئے
گر رہے تھے جو سنبھل گئے
جس طرف حضور چل دیئے
خار پھول میں بدل گئے
روئے مصطفٰے کی اِک کرن
ظلمتوں کے بَل نِکل گئے
دیکھ کر جمالِ مصطفٰے
سنگ دل جو تھے پگھل گئے
ان کا ذکر سن کے رنج و غم
اپنے راستے بدل گئے
ہے یقین کہ ان کے دَر پہ ہم
آج گر نہیں تو کل گئے
ان کے در پہ جو پہنچ گئے
ہر حصار سے نِکل گئے
ان پہ جب درود پڑھ لیا
حادثوں کے رُخ بدل گئے
عشقِ شہِ کونین میں دل داغ جگر داغ
گلزارِ محبّت کی ہے شاخوں پہ ثمر داغ
لکھتا ہوں شبِ ہجر میں جب نعت نبی کی
تحریر کے نقطے مجھے آتے ہیں نظر داغ
کوڑی کے کوئی مول نہ لے لعلِ بدخشاں
جو ہجرِ مدینہ کے دکھاؤں میں اگر داغ
دیکھا جو نظر بھر کے سوئے گنبدِ خضرا
بعد اس کے نظر آئے مجھے شمس و قمر داغ
اِک میں ہی نہیں ہجر میں ، افلاک کا عالم
دیکھو تو نظر آئیں گے تا حدّ نظر داغ
اِس جسد میں کچھ قلب و نظر پر نہیں موقوف
آقا کی عنایت سے ہے سب گھر کا یہ گھر داغ
ہر داغ کو ہے نورِ عَلیٰ نوُر کی نسبت
الماس کوئی داغ، کوئی مثلِ گہر داغ
خورشیدِ محبّت کی طمازت سے پگھل کر
بن جاتا ہے عشّاق کے سینوں میں جگر داغ
بخشش کا سہارا ہے شفاعت کی سند ہے
کہنے کے لیے لفظ بیاں میں ہے اگر داغ
جس داغ کو عشقِ شہِ ولا سے ہے نسبت
ظلمت کے ہر عالم میں ہے وہ نُورِ سحر، داغ
دھوتے ہیں گناہوں کی سیاہی کے یہ دھبّے
اُلفت میں دکھاتے ہیں کبھی یہ بھی ہُنر داغ
رکھتا تھا ادیب اپنی جبیں در پہ جُھکا ئے
دھوتا تھا گناہوں کے وہاں شام و سحر داغ
کلام میّسر نہیں
کلام میّسر نہیں
کلام میّسر نہیں
کیا شور ذکر و فکر، دعا پنجگانہ کیا
آتا نہیں ہے عشق میں آنسو بہانا کیا
آنکھیں بھی اشکبار ہیں لب پر درود بھی
رحمت کو اب بھی چاہیے کوئی بہانہ کیا
رکھا جو ہاتھ سینے پہ دھڑکن نہیں ملی
دل، ہو گیا مدینے کی جانب روانہ کیا ؟
وہ بھی ہیں آستاں بھی ہے، کردے نثار جاں
پھر لوٹ کر اب آئے گا ایسا زمانہ کیا
موسیٰ علیہ السلام کا حال مانعٔ حسرت ہوا ہمیں
تابِ نظر نہیں ہو تو نظریں اٹھانا کیا
تسبیح دانے دانے مُصلّا ہے تار تار
آیا ہے خانقاہ میں کوئی دوانہ کیا
ڈرتا ہے کس لیے غمِ دوراں سے رات دن
پالا نہیں ہے تو نے غمِ عاشقانہ کیا
یہ مرحلہ ہے زیست کا طے کر اسے بھی
اب مر کے ہوگا سوئے مدینہ روانہ کیا
دیدار بھی حضور کا ، کوثر کا جام بھی
دیکھو قصیدہ لکھ کے ملا ہے خزانہ کیا
سر کو جھکا دیا جو درِ یار پر ادیؔب
جب تک قضا نہ آئے تو سر کو اٹھا نا کیا
کمانِ امکاں کے جھوٹے نقطو! تم اوّل آخِر کے پَھیر میں ہو
محیط کی چال سے تو پوچھو! کدھر سے آئے کدھر گئے تھے؟
اُدھر سے تھیں نذرِ شَہ نمازیں اُدھر سے انعامِ خُسْروِی میں
سلام ورحمت کے ہار گندھ کر گُلوئے پُر نُور میں پڑے تھے
زبان کو انتظارِ گُفتن، تو گوش کو حسرتِ شُیدخُن
یہاں جو کہنا تھا کہہ لیا، تھا جو بات سننی تھی سن چکے تھے
وہ برجِ بطحا کا ماہ پارہ، بہشت کی سَیر کو سدھارا
چمک پہ تھا خلد کا ستارہ کہ اِس قمر کے قدم گئے تھے
سُرُوْر ِمقدم کے روشنی تھی کہ تَابِشوں سے مہِ عَرَب کی
جِاَپں کے گلشن تھے جَھاڑ فرشی جو پھول تھے سب کنول بنے تھے
طَرَب کی نازِش کہ ہاں لچکیے، ادب وہ بندش کہ ہل نہ سکیے
یہ جوش ِضدَّیْن تھا کہ پودے کشاکش ِارّہ کے تلے تھے
خدا کی قدرت کہ چاند حق کے کروڑوں منزل میں جلوہ کرکے
ابھی نہ تاروں کی چھاؤں بدلی کہ نور کے تڑکے آلیے تھے
نبئ رحمت !شفیعِ اُمت رضا پہ للہ !ہو عنایت!
اِسے بھی اُن خِلْعَتوں سے حِہّے، جو خاص رحمت کے وَاں بٹے تھے
ثَنائے سرکار ،ہے وظیفہ، قبولِ سرکار، ہے تمنا!!!
نہ شاعری کی ہوس نہ پروا روی تھی کیا کیسے قافیئے تھے
Qaseeda mer’aa/11
کعبہ سے اگر تربتِ شہ فاضل ہے
کیوں بائیں طرف اُس کے لیے منزل ہے
اس فکر میں جو دل کی طرف دھیان گیا
سمجھا کہ وہ جسم ہے یہ مرقد دل ہے
تم چاہو تو قِسمت کی مصیبت ٹل جائے
کیوں کر کہوں ساعت ہے قیامت ٹل جائے
لِلّٰہ اٹھا دو رُخ روشن سے نقاب
مولیٰ مری آئی ہوئی شامَت ٹل جائے
کِسے ملے گھاٹ کا کنارہ کدھر سے گزرا کہاں اتارا؟
بھرا جو مثلِ نظر طَرَارا وہ اپنی آنکھوں سے خود چُھپے تھے
اُٹھے جو قصرِ دَنیٰ کے پردے کوئی خبر دے تو کیا خبر دے؟
وہاں تو جاہی نہیں دُوئی کی نہ کہہ کہ وہ بھی نہ تھے ارے تھے
وہ باغ کچھ ایسا رنگ لایا کہ غُنچہ و گل کا فرق اٹھایا
گرہ میں کلیوں کے باغ پھولے، گُلوں کے تکمے لگے ہوئے تھے
مُحیط و مرکز میں فرق مشکل ،رہے نہ فاصل خطوط واصل
کمانیں حَیرت میں سَر جُھکائے عجیب چکر میں دائرے تھے
حِجاب اٹھنے میں لاکھوں پردے ،ہر ایک پردے میں لاکھوں جلوے
عجب گھڑی تھی کہ وَصْل وفُرقت، جنم کے بچھڑے گلے ملے تھے
زبانیں سوکھی دِکھا کے موجیں تڑپ رہی تھیں کہ پانی پائیں
بَھنور کو یہ ضُعفِ تِشنگی تھا کہ حلقے آنکھوں میں پڑگئے تھے
وہی ہے اوّل وہی ہے آخِر وہی ہے باطن وہی ہے ظاہر!
اُسی کے جلوے، اسی سے ملنے ،اُسی سے، اُس کی طرف گئے تھے
Qaseeda-me’raaj/10
کسی کا تیر نظر دل کے پار ہو کے رہا
تو دل نے دم بھی نہ مارا نثار ہو کے رہا
تمہاری سوزنِ مژگاں نے کی وہ بخیہ گری
کہ رختِ ہستی مرا تار تار ہو کے رہا
تمہارے روئے منور کی روشنی کی قسم
کہ اس سے قلبِ سیاہ جلوہ بار ہو کے رہا
کھلا تو خانۂ دل میں وہ چھپ کے بیٹھ رہا
چُھپا تو ہر جگہ وہ آشکار ہو کے رہا
اگر چہ حسن کی حیرت اُسے ملی نہ ملی
مگر وہ عشق کا آئینہ دار ہو کے رہا
کس نے نبی کا دامن تھاما سب سے پہلے بڑھ کر وہ صدیقِ اکبر
کس نے اٹھایا بارِ امامت لے کر اذنِ پیمبر وہ صدیقِ اکبر
حکمِ خدا سے چھوڑ چلا جب مکّہ دین کا رہبر نام خدا کا لیکر
راہِ خدا میں اس دم جو شئے نکلی نقد پیمبر وہ صدیقِ اکبر
اِک دن کس نے خواب میں دیکھا، جھولی میں چاند آئے اور پھر گھر گھر آئے
دینِ محمد ایسی بشارت لے کر آیا کس پر وہ صدیقِ اکبر
روحِ امیں دربارِ نبی میں ٹاٹ پہن کر آئے جھک کر حال سنائے
اہل ِ فلک کا پہناوا ہے آج یہ کس کی ادا پر وہ صدیقِ اکبر
جن کے دامن کی پاکی پر روحِ قدس کا آنا سورۃ نور سنانا
ایسی حرمت والی اُمِّ اُمّت جن کی دختر وہ صدیقِ اکبر
جن کا عہد ِ رسالت، بارش ابرِ کرم کی ہے بے حد انکا نام محمد
پتھر جن کے دورِ خلافت میں تھے لعل و جواہر وہ صدیقِ اکبر
کلام میّسر نہیں
کلام میّسر نہیں
میں ہوں غمِ طیبہ میں گرفتار چناچہ
ہیں دیدہ و دل زندہ و بیدار چناچہ
غم بھی ہیں مداوا بھی ہیں غم کا میرے آنسو
رہتی ہے سدا آنکھ گہر بار چناچہ
جُز چشمِ محمد ﷺکوئی دیکھے نہ خدا کو
موسٰی کا مقدّر نہ تھا دیدار چناچہ
مخلوق میں کوئی بھی نہ تھا ان سا مکرّم
بخشش کی بندھی ان پہ ہی دستار چناچہ
تم سا تو نہ صادق ہے کوئی اور نہ امیں ہے
دشمن کو بھی کرنا پڑا اقرار چناچہ
محدود بشر تک نہ رہے ان کی بزرگی
جھک جاتے تھے تعظیم کو اشجار چناچہ
اب آپ ہی آکر مجھے دامن کی ہوا دیں
زندہ اسی حسرت میں ہے بیمار چناچہ
اِدراک سے بَالا ہے تخیّل سے پَرے ہے
محروم رسائی سے ہیں افکار چناچہ
رہتا ہے ادیب آپ کی نعتوں کے چمن میں
لکھتا ہے نئے رنگ میں ہر بار چناچہ
میں مدینے میں ہوں اور ذکر پیمبر بھی نصیب
یعنی پیاسے کو ہے دریا در دریا بھی نصیب
خوشبوئے زلف بھی عکسِ رُخِ انور بھی نصیب
صبحِ کافور بھی ، اور شامِ معنبر بھی نصیب
رُخ پہ مَلنے کے لیے ، رُوح میں ڈھلنے کے لیے
گردِ کوچہ بھی نصیب ، بادِ معطّر بھی نصیب
مسندِ صُفّہ کے انوار وہ بابِ جبریل
اس گنہ گار کی آنکھوں کو وہ منظر بھی نصیب
میری آنکھوں میں حرم آنکھ سے باہر بھی حرم
خانۂ چشم کو آئینہ کا جوہر بھی نصیب
ان کی یادوں کو جہاں چین سے نیند آتی ہے
نام دل کے ہے اِک حجرۂ بے در بھی نصیب
ایک اِک لمحہ مرے لب کو مدینے میں ادیب
کلمۂ شُکر بھی اور نعتِ پیمبر بھی نصیب
میں گذرتا ہی گیا راہ تھی پرخم پرخم
مجھ پہ سرکار کی نظریں جو تھیں پیہم پیہم
ان کے دربار میں پہونچو کہ یہاں سے مانگو
شرط اتنی ہے کہ یہ آنکھ ہو پُرنم پُرنم
آپ آئے تو پڑی جان میں ٹھنڈک ورنہ
زندگی زخم تھی، آواز تھی مرہم مرہم
پیش کر دوں گا سرِ حشر کمائی اپنی
دولتِ نعت جمع کی ہے جو درہم درہم
عرش ہو فرش ہو محشر ہو ، زماں ہو کہ مکاں
ہر جگہ ان کے ہی لہراتے ہیں پرچم پرچم
مہرومہ ، کاہہکشاں ، نقشِ کفِ پائے رسول
گیسوئے شب ہے اسی نُور سے برہم برہم
ان کی رحمت کی تو ہر بوُند سمندر ہے ادیب
جس کے آگے یہ سمندر بھی ہے شبنم شبنم
میں تیرے حُسنِ کرم اور عنایتوں کے نثار
ہو میرے رنگ میں سعدی کے گلستاں کی بہار
کلامِ عارف عرفی کا پیرہن بن جاؤں
میں زلفِ نعت کی خوشبو سے شب دلہن بن جاؤں
سِوا حضور کوئی خواب میں بھی آئے نہ غیر
طفیل بردۂ الطاف بر امامِ بوصیرؒ
تیرے کرم کے تصدّق، کر اور اِک احسان
کہ میری فکر پہ سایہ فگن رہیں حسّان ؓ
تمام عمر وہ نعتوں کا اہتمام رہے
کہ میرے گرد فرشتوں کا اژدھام رہے
طفیلِ شاہِ اُمم ، جن پہ صَد سَلام و درود
ادیب کا بھی ثناء میں مقام ہو محمُود
مہکی ہوئی ہوا کا مجھے لمس جب ملا
میرے تصورات کا در مثل گل کھلا
افکار کے دریچوں سے آنے لگی صدا
کیا خوب حق نے تجھ کو یہ موقع عطا کیا
اٹھ، مدح خوان سید عالی مقام ہو
چل اے گناہ گار ذرا نیک نام ہو
الفاظ دست بستہ مرے سامنے ہیں سب
جانچا ہے میں نے خوب ہر اک لفظ کا نسب
تھرا رہا ہے پھر بھی قلم، کیا لکھوں لقب
میں پیش آفتاب مثال چراغ شب
کیسے بیاں ہو مرتبہ عالی وقار کا
لاؤں کہاں سے ڈھنگ میں پروردگار کا
لب و ا کروں ثناء کے لیے کن کے باب میں
جبریل دست بستہ ہیں جن کی جناب میں
مداح خود قرآں ہے رسالت ماب میں
میرے خیال کی تگ و دو کس حساب میں
منظور شاعری ہے نہ حسن کلام
اے خامہ خیال، ادب کا مقام
سیر خیال و فکر کو بستان ہیں بہت
تفریح طبع ناز کے سامان ہیں بہت
تحریر حسن و عشق کے عنوان ہیں بہت
شعرو سخن کے واسطے میدان ہیں بہت
جن کے قدم سے رونق بزم حیات
تعریف اس نبی کی تقاضائے ذات
یہ مسئلہ تخیل و جذبات کا نہیں
واقف میں گرد و پیش کے حالات کا نہیں
اور علم یہ کہ علم بھی ہر بات کا نہیں
عرفان مجھ کو اپنی ہی خود ذات کا نہیں
پھر مجھ سے پوچھنا کہ محمد کی شان
گونگے کے منھ میں ہو بھی اگر تو زبان
قند و شہد نبات کو یک جا کریں اگر
گل کی ہر ایک ذات کو یک جا کریں اگر
رنگینی حیات کو یک جا کریں اگر
کل حسن کائنات کو یک جا کریں اگر
جتنا بھی رنگ و نور لیے کائنا ت ہے
یہ سب تبسم شہ دیں کی زکٰوۃ ہے
کہتے ہیں جس کو مدحت سلطان ذوالمنن
مسند نشیں ہے نو ک زباں پر وہ گلبدن
سرتا بپا ہے نکہت و رعنائی چمن
اس نور کے بدن پہ ہے خوشبو کا پیرہن
خوشبو سے اور نور سے جس کا خمیر ہے
زلفوں کی جس کے شان مشیت اثیر ہے
تمہید سے گریز کی جانب قدم قدم
پڑھتے ہوئے درود محمد مرا قلم
لے کر سرور عشق میں ڈوبا ہوا علم
ہو کر نیاز مند، کیا اس نے سر کو خم
خم ہو کے خط میم بنا تا چلا گیا
پردے روز حق کے اٹھاتا چلا گیا
وہ میم جو کمال ہے اک آغوش کی طرح
محشر میں ایک سایہ گل پوش کی طرح
بندوں پہ ، رب کی رحمت پر جوش کی طرح
خم اس کا فرق عاشق مے نوش کی طرح
جو درمیاں کمان کے آیا اماں میں ہے
باہر جو رہ گیا وہ شمار زیاں میں ہے
کھلنے لگے رموز ، محبت کے سر بسر
ہونے لگا خیال پہ الہام کا اثر
افکار خوشبوؤں میں شرابور تر بہ تر
جنبش جو لب کو دی تو ٹپکنے لگے گہر
اس پر بھی ان کی شان کے شایاں نہ لکھ سکا
بندہ ہوں اس لیے کوئی قرآں نہ لکھ سکا
یوں کر رہے ہیں مدحت سر کار ذوالمنن
کوثر سے دھوکے لائیں ہیں تعریف کا متن
پھرتے رہے بہار میں لے کر چمن چمن
پہنا دیا زبان کو عنبر کا پیرہن
سرمہ ہے کوہ طور کا، غازہ گلاب کا
آغاز نعت یوں ہے رسالت ماب کا
پہلے نبی کے عشق کی دولت خدا سے لی
دولت ملی تو فکر کی جرأت خدا سے لی
جرأت ملی تو حسنِ عقیدت خدا سے لی
طرزِ بیاں کے واسطے نُدرت خُدا سے لی
جرأت مِلی خیال ملا اور قلم ملا
یہ سب ملے تو نعت پہ اذن ِ رقم ملا
توڑی ہے میں نے میکدہ عشق کی قیود
میرے جنون غم کی تعین نہیں حدود
ہوتا ہے ہر نفس مرا منت کش درود
پہلے درود پھر سخن نعت کا ورود
میں بھیجتا ہوں نذر صلوٰۃ و سلام کی
وہ بھیجتے ہیں مجھ کو اجازت کلام کی
تاباں اسی کے نور سے ہے چہرہ حیات
صدیوں کے جس نے آکے مٹائے تو ہمات
ایک جست جس کی نسخہ تسخیر کائنات
جس کے قدم کا نقش بنا علم مدنیات
کہنے کو وہ بشر ہے اگر قیل و قال میں
اپنی مثال بھی نہیں رکھتا مثال میں
یہ ماہتاب آپ کا چہر ہ نہیں نہیں
یہ آفتاب آپ کا جلوہ نہیں نہیں
یہ بوئے مشک زلف کا حصہ نہیں نہیں
یہ کہکشاں ہے نقش کف پا نہیں نہیں
اس اوج تک نہ جائے گی پستی شعور کی
بالا ہے ہر خیال سے ہستی حضور کی
جلتی نہ اس جہاں میں جو شمع محمدی
دنیا کو حشر تک نظر آتی نہ روشنی
حاکم ہو یا غلام، گنہگار و متقی
ملتا نہ آدمی کو شعور خود آگہی!
ہوتی نہ کچھ تمیز سفید و سیاہ
جلوؤں کا اعتبار نہ ہوتا نگاہ
جس روز لب کشاد کسی کی نہیں مجال
دیکھیں گے آسمان و زمیں روئے ذوالجلال
ہو گا مقام دید رسول و نبی کا حال
دیکھیں گے ایک ایک کو مسکین کی مثال
ڈھونڈیں گے انبیاء اسی رحمت نوید
تڑپے گی ہر نگاہ محمد کی دید
ہے کون دے سکے گا جو اس دن کوئی حساب
توبہ بھی یاد آئی تو ، توبہ کا بند باب
بھائی کو بھائی دے گا نہ فریاد کا جواب
شعلے زمین پہ ہوں گے تو نیزے پہ آفتاب
امت ہو ، یا نبی ہو ، غضب کی نگاہ میں
محشر میں ہوں گے سارے انہیں کی پناہ میں
نازاں ہوں گرچہ ہوں میں گنہگار دیکھنا
اس کملی پوش کا ہوں پرستار دیکھنا
انوار ذکر سید ابرا ر دیکھنا
مجھ سے گدا کے لب ہیں گہر یا ر دیکھنا
ہر دم ہے لب پہ تذکرہ بے نظیر بھی
راضی رسول پاک بھی رب قدیر بھی
نعت رسول پاک میں وہ آب و تاب ہو
ایک ایک لفظ مدح کا عزت ماب ہو
روشن مرے کلام کا یوں آفتاب ہو
مقبول بارگاہ رسالت ماب ہو
محشر میں جب بلائیں تو اس طرح دیں صدا
حاضر کر و کہاں ہے ثنا خوان مصطفٰے
ہر آئینہ دل کی جِلا ذکرِ محمد
اللہ کی بندون کو عطاء ذکرِ محمد
مخلوق سے خالق کی رضا ذکرِ محمد
لازم اسی مقصد سے ہو ، ذکرِ محمد
ہر آرزوئے نطق کا انجام یہی ہے
دنیا کے لیے امن کا پیغام یہی ہے
ہو بزمِ سخنداں تو یہ پھولوں کا بیاں ہے
موجوں کا ترنّم ہے یہ بلبل کی زباں ہے
الفاظ کی عظمت ہے خطابت کی یہ شاں ہے
اس ذکر سے بندوں کو گناہوں سے اماں ہے
جذبات کو سیماب تخیّل کی جلا ہے
یہ خاص شَرَف ذکرِ محمد کو ملا ہے
قائم ہے مسلمان کا ایمان اِسی سے
اللہ کے طالب کو ہے عرفان اِسی سے
ہر عاشق ِ صادق کی ہے پہچان اِسی سے
انسان کو ہے عظمتِ انسان اِسی سے
سرمایۂ ایمان و قرارِ دل و جاں ہے
قرآں کی تلاوت ہے یہ کعبہ کی اذاں ہے
نعتِ شہِ کونین کی سرو و سمنی دیکھ
لفظوں کی قبا میں یہ عجب گلْبدنی دیکھ
چہر ہ کی دمک طور کے جلووں سے بنی دیکھ
زلفوں کی مہک نافۂ مشک ِ ختنی دیکھ
نسبت اگر الفاظ کو دوں قوسِ قزح سے
سیراب ہوں شاید مئے معنٰی کی قدح سے
اے طٰحہٰ و مزمِّل و یٰسین و مدثّر
اے سیّد و سردارِ اُمم طیّب و طاہر
کیا کہہ کے پکارے مرے آقا کو یہ شاعر
تصویر ِ خداوند کے شہکار مصوّر
خم گردنِ تفسیر ہے شرمندہ صراحت
یا رب! مرے الفاظ کو دے نہجِ بلاغت
اے صِلِّ عَلٰی نُور شہِ جنّ و بشر نور
لَب نور دہن نور سخن نور نظر نور
سر نور قد م نور شکم نور کمر نور
جس گھر میں تِرا ذِکر کریں لوگ ، وہ گھر نُور
آں زینتِ کونین و زیبائے جہاں اَست
آں باعثِ حیرانی آئینہ گراں اَست
ہم کو بھی خبر ہے کہ گناہوں کی سزا ہے
لیکن وہ خطا پوش ہمارا بھی خدا ہے
زاہد کو اگر نازِ عبادت ہے بجا ہے
پلّہ میں ہمارے بھی محمد کی ثناء ہے
محشر میں جو نکلے گا یہی نام دہن سے
جُھک جائے گا پلّہ مِرا نیکی کے وزن سے
وہ ماہِ عرب، ماہِ مبیں ، ماہِ لقا ہے؟
تصویر ہے ، تنویر ہے ، تعبیر ہے، کیا ہے ؟
اِک نور کا پیکر ہے کہ پردہ میں خدا ہے
آفاق میں ایسا نہ تو ہوگا نہ ہوا ہے
عاشق کی صدا یہ ہے مرے دل میں نہاں ہے
جبریل سرِ عرش پکارے وہ یہاں ہے
یہ جنبش لب، تابِ سخن، اور یہ گفتار
افکار کی یورش ہے تو الفاظ کی یلغار
ہو جائے اگر وقف ِ ثنائے شہِ ابرار
ہوتا ہے وہ حسان کی مانند گہر بار
رہتا ہے اسی دہن میں وہ شب ہو کہ سحر ہو
جس پر مرے سرکار کی اِک بار نظر ہو
مصطفٰے کا نام، توقیر ِ ادب مصطفٰے کا ذکر، تعمیرِ ادب
نعت میں ہونا قلم کا سَر نگوں سر بلندی ٔ مشاہیر ِ ادب
وہ مجاہد حضرتِ حسان تھے جنکے ہاتھو ں میں تھی شمشیر ِ ادب
پارہ پارہ کر گئے قلبِ غنیم اُس کمانِ عشق کے تیرِ ادب
حافظِ شیراز سے پوچھے کوئی لذّتِ شیرینیٔ شیرِ ادب
پیرویٔ مثنویٔ رُوم سے بن گئے اقبال بھی پیرِ ادب
سورۂ کوثر پہ ہے حُجّت تمام رفعتِ افلاک تحریرِ ادب
شیخ سعدی کی رباعی دم بدم ضربِ مضرابِ مزا میرِ ادب
مستند ہے آپ کا فرماں ادیب نعت ہے جامی کی جاگیرِ ادب
مُشتِ غبارِ خاک اور تیرا بیانِ بر تری
خالقِ کُل کلام سے کون کرے گا ہمسری
حمدِ خُدائے لَمْ یَزلْ تیری ثنائے دِلربا
وحیِ الٰہ العالمیں ، تیری زبانِ دلبری
تیرے عروج کی خبر روحِ قدس نہ پاسکی
عویٰ ٔ معرفت کوہے پیشِ ترے سُبک سری
کلمۂ لاشریک میں، ذکر ترا شریک ہے
منزل لاالٰہ تک، تو ہی نشانِ رہبری
قلب ہے کاسۂ گدا، دستِ سوال ہے وجود
رُوح ، فقیر ِ آستاں، عشق تیرا تونگری
ذکرِ حبیب کبریا ، مدح و ثنائے مصطفٰے
میرا شعور ِ فکر و فن ، میرا ضمیرِ شاعری
سدا لب پہ ہو جب صدائے مدینہ
کہاں چین دل کو سوائے مدینہ
چلے آج ایسی ہوائے مدینہ
اُڑائے ہمیں لے کے جائے مدینہ
بَرائے مدینہ بِنائے دو عالم
بِنائے دو برائے مدینہ
حرم کا پتہ مجھ سے کیوں پوچھتے ہو
مرا دل ہے قبلہ نمائے مدینہ
گنہگار کے دل میں دوزخ کی آتش
لگائے زمانہ ، بُجھائے مدینہ
مدینے کا بندہ مدینے ہی پہنچے
بس اتنا کرم کر، خدائے مدینہ
قدم چُوم لوں بَے وطن کرنے والے
مجھے دے اگر تو، سزائے مدینہ
کہیں تو گنہ گار کا ہو ٹھکانہ
خُدا نے رکھی یوں، بِنائے مدینہ
گرفتار کو اب گرفتار رکھیے
کہاں جائے گا پھر رہائے مدینہ
وہ “طلع” وہ “بدرُ علینا ” کے نغمے
کجا ہم کجا وہ ثنائے مدینہ
ادیب حشر میں زیرِ سایہ رہیں گے
تَنی ہوگی سر پر رِدائے مدینہ
مدحت ان کی رحمت بھی ہے بخشش کا سامان بھی ہے
عشق کی دستاویز بھی ہے اور عاشق کی پہچان بھی ہے
میری بھلا اوقات ہی کیا جو ان کی ثناء میں لب کھولوں
یہ تو انہیں کا لطف و کرم ہے اور ان کا احسان بھی ہے
ایسی کوئی شے پاس نہیں جو نذر میں ان کو پیش کروں
یوں کہنے کو قلب و جگر ہیں جسم بھی ہے اور جان بھی ہے
پاسِ ادب رکھ اپنی حدوں سے بڑھ کر کوئی بات نہ کر
ان کی حدوں تک جانے والے اپنی تجھے پہچان بھی ہے
ذکر میں ان کے کوئی ادب کا دامن ہاتھ سے چھوڑے تو
میری زباں تلوار بھی ہے اور تقلیدِ حسّان بھی ہے
محفل میں بلا کے مجھے دیوانہ بنایا
نظروں سے پلاکے مجھے مستانہ بنایا
بتلاؤں کیا حضور نے کیا کیا نہ بنایا
خود شمع بنے اور مجھے پروانہ بنا یا
پیاسا ادھر ادھر نہ بھٹکتا پھر ے کوئی
منگتے کی لاج رکھ لی کہ میخانہ بنایا
تصویر مدینہ لئے پھرتے ہیں جگرمیں
اللہ سے قربت کا یہ کاشانہ بنا یا
احسا ن کیا ہے آپ نے کہ دل رشید کا
دنیا کے ہر خیال سے بیگانہ بنایا
مجھ سا عاجز مدحِ مَمدُوحِ خدا لکھتا رہا
اور کیا لکھتا ، وَرَفعنا لک لکھتا رہا
حمد میں لکھتا رہا نعتِ حبیبِ کبریا
نعت کے شعروں میں بھی حمدِ خُدا لکھتا رہا
ذہن کو تھی جستجو الفاظ کی شایان ِ شان
میں تھا چُپ، میرا قلم صَل عَلٰی لکھتا رہا
روشنائی اشک تھی اور نوکِ مژگاں تھی قلم
اس طرح بھی ایک شب ان کی ثناء لکھتا رہا
کیوں پُکارے غیر کو اپنی مدد کے واسطے
عمر بھر جس کا قلم “یا مصطفٰے”لکھتا رہا
فکر و فن بے بس نظر آئے مجھے اس راہ میں
عشق تھا جو کیا سے کیا اور کیا سے کیا لکھتا رہا
شیوۂ جود و کرم کی بات جب نکلی ادیبؔ
مجھ پہ جو گذری میں اپنا ماجرا لکھتا رہا
نہ خانقاہ کے باہر نہ خانقاہ میں ہے
جو بُو تراب کا رتبہ مری نگاہ میں ہے
یہی ہے دولتِ ایمان و عِلم و عقل و یقین
علی کو جس نے پکارا ہے وہ پنا ہ میں ہے
گر جہانِ فکر میں درکار ہے اِک اِنقلاب
فکر کی راہوں سے اٹھ کر عشق کا ہو ہمر کاب
چاک کر دامن فسونِ فلسفہ کا ، مارکر
ایک نعرہ یا علی ؓ مشکل کشاء یا بُو تُراب ؓ
بحالِ غم دلِ بے تاب را قرار، علی
کریم و بندہ نواز و کرم شعار، علی
خراب حال و خطا کار و دلِ شکستہ را
خطا معاف، خدا ترس، غمگسار، علی
ہر گردشِ ایّام پہ جو غالب ہے
ہر نعرہ ٔ انقلاب کا جو قالب ہے
ہر لمحۂ مشکل میں طلب ہے جس کی
وہ نام، علی ابنِ ابی طالب ہے
زِ خاکِ پائے علی ما فلک مدار شدیم
زِ لطفِ چشمِ علی فصلِ نَو بہار شدیم
ہیں چہ فیض رسیدی زِ بوسۂ نعلین
گناہ گار کہ بودیم و تاجدار شدیم
نمی دانم کہ آخر چوں دم ِ دیدارمی رقصم
مگر نازم بہ ایں ذوق کہ پیش یارمی رقصم
تو آں قاتل کہ ازبہرِ تماشا خون من ریزی
من آں بسمل کہ زیر خنجر خونخوار می رقصم
بیا جاناں تماشا کن کہ در انبوہِ جانبازاں
بصد سامان رسوائی سر بازار می رقصم
خوشارندی کے پاماش کنم صد پارسائی را
زہے تقویٰ کہ من بہ جبہ و دستار می رقصم
منم عثمان مروندی کہ یارِ شیخ منصورم
ملامت می کند خلق و من برادرم رقصم
نمازِ اقصیٰ میں تھا یہی سرّ عَیاں ہوں معنی اول آخر
کہ دست بستہ ہیں پیچھے حاضر جو سلطنت آگے کر گئے تھے
یہ اُن کی آمد کا دبدبہ تھا نکھار ہر شے کا ہو رہا تھا
نجوم و افلاک جام و مینا اجالتے تھے کھنگالتے تھے
نقاب اُلٹے وہ مہرِ انور جلالِ رُخسار گرمیوں پر
فلک کو ہیبت سے تپ چڑھی تھی تپکتے انجم کے آبلے تھے
یہ جوششِ نور کا اثر تھا کہ آب ِگوہر کمر کمر تھا
صَفائے رَہ سے پھسل پھسل کر ستارے قدموں پہ لوٹتے تھے
بڑھا یہ لہرا کے بحر ِوحدت کہ دُھل گیا نام ِریگِ کثرت
فلک کے ٹیلوں کی کیا حقیقت یہ عرش و کرسی دو بُلبلے تھے
وہ ظِلِّ رَحمت وہ رخ کے جلوے کہ تارے چُھپتے نہ کِھلنے پاتے
سنہری زَرْبَتْت اُودی اَطلَس یہ تھان سب دھوپ چھاؤں کے تھے
چَلا وہ سَرو ِچماں خِراماں نہ رُک سکا سدْرَہ سے بھی داماں
Qaseeda-e-meraj part/6
نگاہ ہو کہ سماعت زبان ہو کہ قلم
چلے ہیں قافلہ مدح میں قدم بقدم
کبھی زبان کا دعوٰی کہ ہم ہیں بر تر ہم
کبھی قلم کی یہ غیرت کہ ہم سے سب ہیں کم
یہ معرکہ بھی تو وجہِ حصولِ سبقت ہے
حصول سبقت مدحت بھی حُسنِ مدحت ہے
قلم نے کھینچ دیے نقش وہ کہ سب حیراں
زباں نے دل سے نکالے خطاب کے ارماں
سُنا رہا ہوں اسی معرکہ کی بات یہاں
کہ جس کے نقطے ستارے تو لفظ کا ہ کشاں
سماعتوں کو جو لے جائے حوضِ کوثر تک
سُرور جس کا رہے دل میں روزِ محشر تک
چلا ہے آج قلم سایۂ کرم لے کر
گداز دل کا ، تڑپ اور چشمِ نم لے کر
شعور وفکر کا ہاتھوں میں جامِ جم لے کر
خیالِ سرورِ کونین محترم لے کر
رواں براق کی مانند ہے سیاہی میں
فرشتے آئے ہیں افلاک سے گواہی میں
زباں کُھلی کے پھریرا کُھلا ہے رحمت کا
ہر ایک سمت ہوا غُل اذانِ اُلفت کا
نماز عشق کا اور سجدہ محبت کا
سرورِ جاں ہے جو سب کا اسی کی مدحت کا
سماعتوں کا یہ عالم کہ گوش، بر آواز
مرے رسول کی مدحت کا یوں ہوا آغاز
جُھکا کہ رب دو عالم کے پیش اپنی جبیں
کہا قلم نے کہ خلّاقِ آسمان و زمیں
رقم ہو تیرے نبی کا بیان اتنا حَسیں
کہ حرف حرف ستارہ تو نقطہ نقطہ نگیں
زمیں پہ شور تو ہلچل ہو آسمانوں میں
فرشتے چُوم کے بادھیں اسے عماموں میں
بڑے ادب سے زباں نے یہ عرض کی یار ب
ادا ہو مجھ سے بھی اپنے بیان کا منصب
مری صدا ہو رواں جیسے نُور کا مرکب
فلک پہ آئے نظر جیسے رات میں کوکب
کہ ہے نبی سمیع و بصیر کی توصیف
خبر جو غیب کی دے اس خبیر کی توصیف
کہا قلم نے کہ تحریر میری لاثانی
خیال لفظوں میں ایسا کہ یوسفِ ثانی
تمام حرف گماں یہ کہ، لعل رمانی
ہر اِک سطر ہے مری کہکشاں کی پیشانی
مری سیاہی گناہوں کو دھونے والی ہے
سیہ ضرور ہوں لیکن صفت بلالی ہے
زبان یہ بولی کہ میں آج ہوں طرب مانوس
ہے شوق رقص میں میرے بیان کا طاؤس
حَسیں خیالوں سے روشن ہیں جا بجا فانوس
سنے جو خار بیاباں تو رنگ و بو میں ڈھلے
تیرے حبیب کا وہ ذکر ہو کہ تو بھی سنے
قلم نے کہ میں ہر بیان کا ملبوس
مری خموشی ہے الفت کا نالۂ ناقوس
ثنائے سرورِ کونین کا ہوں میں فانوس
یہ خدوخال ہیں میرے ہی لوح پر منقوش
سفید پر میں سیاہی کا داغ ہوتا ہوں
پر عاشقوں کے دلوں کا چراغ ہوتا ہوں
کہا زباں نے کہ رعنائی میں نے کی ہے کشید
مری نواء سے ہی بوئے خطاب کی ہے شمید
کہیں سرودِ بلاغت، کہیں فصیح نشید
کھلیں نہ پر مرے، پرواز کیا کرے گی شنید
ہر اِک زماں میں فضائیں یتیم، میرے بغیر
کلام کس کو سنائیں کلیم میرے بغیر
سنا جو روزِ بیانِ مدیحِ شاہِ اُمم
جھکا ادب سے ہمیشہ کی طرھ فرق قلم
رقم طراز ہوا، اے خدا! تیری ہے قسم
ازل سے وصفِ نگارِ حضور ہوں پیہم
گناہ گار نہیں ڈوب کر سیاہی میں
ہر ایک نعت ہے میری اسی گواہی میں
میں کھینچ لاؤں گا فن کا ہر اِک سطر میں کمال
حصارِ خط میں حسینانِ رنگ و بو کا جمال
لکھوں گا جب میں سلیمان نعت کا احوال
ہمیں بھی اذن دو ، بلقیس ِ فن کرے گی سوال
نبی کا فیض ہے ، فیض و کمال پر ہے گرفت
رہِ فراز نہ دوں گا، خیال پر ہے گرفت
ازل سے تا بہ ابد لوح پر نوشتہ میں
کہیں پہ حال ہوں اور ہوں کہیں گزشتہ میں
ہوں دستِ کاتبِ تقدیر میں نشستہ میں
ثناء کے وصف سے ہم رتبہ فرشتہ میں
میں اپنے رنگ میں رنگِ غلاف کعبہ ہوں
رُخ ِ بلال و گلیمِ رسولِ بطحا ہوں
یہ معرکہ جو سنا، غیب سے صدا آئی
ہر اِک چمن میں انہیں کی ہے جلوہ فرمائی
فقط قلم ہی نہیں ان کا ایک شیدائی
فقط زباں کو ہی حاصل نہیں ہے یکتائی
شجر حجر ہوں مہ و مہر موں زبان و حروف
وجود جن کو ملا سب ثناء میں ہیں مصروف
زباں کو نطق دیا کُل کی آبرو کے لیے
میرے حبیب کو آنا تھا گفتگو کے لیے
قلم بنا اسی تحریرِ مشکِ بو کے لیے
ہر اِک زمانہ میں اسلام کی نمو کے لیے
رسا ہو آدم خاکی کہ دل میں تم دونوں
میرے حبیب کی جو یاد میں گُم دونوں
نسیما جانب بطحا گذر کن ز احوالم محمد را خبر کن توئی سلطان عالم یا محمد زروئے لطف سوئے من نظر کن بہ برایں جان مشتاقم بر آں جا فدائے روضۂ خیرالبشر کن مشرف گر چہ شد جامیؔ زلطفش خدایا ایں کرم بارے دگر کن |
وہ مطلع پیش کرتا ہوں میں توصیفِ محمد میں
جو نازل ہو رہا ہے قلب پر، انوار کی زد میں
بیاں کیسے ہو کتنا حُسن ہے ہر خال میں خد میں
جمالِ حق تعالیٰ جب ہوا موزوں اسی قد میں
نہ ہو کیوں حمد پر کرسی نشیں اِک میم شہ بن کر
کہ ایسا دلربا کوئی نہیں تھا شہرِ أبجد میں
ثنائے مصطفٰے میں یوں مجھے محسوس ہوتا ہے
کھڑا ہوں خوشبوؤں اور رنگ کے بارانِ بیحد میں
کشادِ لب خداوند یہی دو لفظ ہوں میرے
اِک انکے لطف بے حد پر اِک ان کے حُسن بیحد میں
قضا آئے دیارِ مصطفٰے میں مدح خوانوں کی
کفن میں لاش ہو، اور لاش ہو دربارِ احمد میں
جنازے میں ہوں قدسی، پیشِ قدسی مصطفٰے خود ہوں
قصیدہ پڑھ رہی ہو لاش میری شہ کی آمد میں
پڑھیں صَل عَلٰی اِرْحَم لَنَا اِرْحَم لَنَا سارے
اتاریں جب ادیبِ خوش بیاں کو لوگ مرقد میں
وہ سَرورِ کشورِ رسالت جو عرش پر جلوہ گر ہوئے تھے
نئے نرالے طرب کے ساماں عرب کے مہمان کے لیے تھے
بہار ہے شادیاں مبارک چمن کو آبادیاں مبارک
ملک فلک اپنی اپنی لے میں یہ گھر عَنا دل کا بولتے تھے
وہاں فلک پر یہاں زمیں میں رچی تھی شادی مچی تھی دھومیں
اِدھر سے انوار ہنستے آتے اُدھر سے نفحات اٹھ رہے تھے
یہ چھوٹ پڑتی تھی ان کے رخ کی کہ عرش تک چاندنی تھی چھٹکی
ہے ذکرِ سرورِ سدا جہاں میں رفیق
یہی رہا ہے ہر اِک مشکل امتحان میں رفیق
اگر حضور ﷺنہ ہوتے تو ہم غریبوں پر
نہ اِس جہاں میں کوئی تھا نہ اُس جہاں میں رفیق
ہمیں تو حشر میں خورشید نے بھی ٹھنڈک دی
کہ تھی رسول کی رحمت جو درمیاں میں رفیق
کہاں کہاں میرے آقا نے گھر بنایا تھا
رہے وہ بن کے ہر ایک قلب دشمنان میں رفیق
بھنور ہو ، مو ج ہو ، طوفاں ہو ، پھر بھی ذکرِ نبی
غم و الم کے رہا بحرِ بیکراں میں رفیق
بلند کیوں نہ ہو اشعار کا مِرے رتبہ
میرے سخن کے ہیں ، وہ کوچۂ زباں میں رفیق
ادیبؔ ، نعت کا ہر لفظ ہے دُرِّ نایاب
دُرِّ یتیم کا احسان ہے درمیاں میں رفیق
ہوئی مدحِ پیمبر اور حمدِ خالق باری
بصد گریہ ، بصد نالہ، بصد آہ و بصد زاری
قلم ہے دم بخود، جذبات ساکِن ، روح لرزاں ہے
ادب، خاتونِ جنّت ، فاطمہ زہرٰی کی ہے باری
کمال ِ ذکرِ زہرٰی سے اگر ہستی ہوئی اکمل
جمال ذکرِ نورِ فاطمہ سے دل بنا اجمل
یہ توقیر ِ محبّت ہے کہ یہ تاثیرِ نسبت ہے
سخن سنجی ہوئی اَحسن زباں دانی ہوئی افضل
تخلیق میں تسلیم و رضا جن کے خصائل
معصوم، مخیّر ، متصرّف ، متکفّل
سرکارِ دو عالم کی طرح فاطمہ زہرٰی
مشفق، متبسّم ، متحمّل ، متوکلّ
وہ حامد و محمود کی اُلفت کا ظہُور
وہ رحمتِ کُل قاسمِ مقسوم کا نُور
یہ شان، مگر عالمِ تسلیم و رضا
چکّی کی مشقّت ، بہ تبسّم منظور
شفیعٌ سراجٌ منیرٌ کی دُختر
شجاعٌ شریفٌ شہیدٌ کی مَا در
وہ خاتونِ جنّت ، وہ جنّت کی حُرمت
امیرٌ جریٌ علی جِن کے شوہر
جِس کو رحمٰن و رحیم و رحمتِ کُل کا شعور
جس کو عرفانِ محمد ، جس کو فیضانِ رسول
ذی حسب، اعلیٰ نسب، زہرٰی لقب، ذوالاحترام
دیدنیٔ مصطفٰے اور دیدۂ رحمت کا نُور
ہم طلبگارِ سخاوت یا علی مشکل کشا
تم عنایت ہی عنایت یا علی مشکل کشا
بازوئے خیبر شکن ، اور لقمۂ نانِ جویں
اے شہنشاہِ قناعت یا علی مشکل کشا
آپ کو نسبت رسول اللہ سے ہے اور میں
آپ رکھتا ہوں نسبت یا علی مشکل کشا
عاشقوں کا دل ہے کعبہ اور دل کی دھڑکنیں
مطربِ جشنِ ولادت یا علی مشکل کشا
مردِ مومن کا سہارا ، حرّیت کی آبرو
قلبِ مومن کی حرارت یا علی مشکل کشا
وہ شجاعت ہو، سخاوت ہو، قناعت یا جہاد
آپ ہی کی ہے قیادت یا علی مشکل کشا
فاتحِ خیبر تمہارے چاہنے والوں پہ آج
دشمنوں نے کی ہے شدّت یا علی مشکل کشا
پھر وہی بغداد و مصر و شام کے ہیں صبح و شام
دیجیے شوقِ شہادت یا علی مشکل کشا
در گزر میں آپ سے بڑھ کر کوئی گزرا نہیں
اے سراپائے محبت یا علی مشکل کشا
در گذر کیجیے خطا اور دیجیے اس قوم کو
اپنا بازو، اپنی ہمّت یا علی مشکل کشا
آپ کے در سے ادب سے مانگتا ہے یہ ادیب
صدقہ ٔ خاتونِ جنّت یا علی مشکل کشا
ہم خاک ہیں اور خاک ہی ماوا ہے ہمارا
خاکی تو وہ آدم جد اعلیٰ ہے ہمارا
اللہ ہمیں خاک کرے اپنی طلب میں
یہ خاک تو سرکار سے تمغا ہے ہمارا
جس خاک پہ رکھتے تھے قدم سید عالم
اس خاک پہ قرباں دلِ شیدا ہے ہمارا
خم ہو گئی پشتِ فلک اس طعنِ زمیں سے
سن ہم پہ مدینہ وہ رتبہ ہے ہمارا
اس نے لقبِ خاک شہنشاہ سے پایا
جو حیدرِ کرار کہ مَولےٰ ہے ہمارا
اے مدّعیو! خاک کو تم خاک نہ سمجھے
اس خاک میں مدفوں شہ بطحا ہے ہمارا
ہے خاک سے تعمیر مزارِ شہِ کونین
معمور اسی خاک سے قبلہ ہے ہمارا
ہم خاک اڑائیں گے جو وہ خاک نہ پائی
آباد رضا جس پہ مدینہ ہے ہمارا
یہ سن کے بے خود پکار اٹھا نثار جاؤں کہاں ہیں آقا!؟
پھر اِن کے تلوؤں کا پاؤں بوسہ یہ میری آنکھوں کے دن پھرے تھے
جُھکا تھا مُجرے کو عرشِ اعلیٰ گرے تھے سجدے میں بزمِ بالا
یہ آنکھیں قدموں سے مل رہا تھا وہ گرد قربان ہورہے تھے
ضیائیں کچھ عرش پر یہ آئیں، کہ ساری قندیلیں جِھلملائیں
حضورِ خورشید کیا چمکتے؟ چراغ منہ اپنا دیکھتے تھے!
یہی سَماں تھا کہ پیکِ رحمتْ خبر یہ لایا کہ چلیے حضرتﷺ
تمہاری خاطر کشادہ ہیں جو کلیم پر بند راستے تھے
بڑھ اۓ محمد! قریں ہو احمد! قریب آ سرورِ مُمجَّد
نِثار جاؤں یہ کیا ندا تھی! یہ کیا سماں !تھا یہ کیا مزے تھے
تَبارَک َاللهُ شان تیری تجھی کو زَیبا ہے بے نیازی
کہیں تو وہ جوش ِلَنْ تَرَانِیْ کہیں تقاضے وصال کے تھے
Qaseeda-e-me’raaj part/8
یاں شبہ شبیہ کا گزرنا کیسا !
بے مثل کی تمثال سنور نا کیسا
ان کا متعَلق ہے ترقی پہ مُدام
تصویر کا پھر کہیے اترنا کیسا
یادوں میں وہ شہرِ مدینہ منظر منظر آج بھی ہے
ایک زمانہ گذرا لیکن، رُوح معطّر آج بھی ہے
کوئی نظر خضریٰ سے اٹھ کر اس کے چہرے پر نہ گئی
یہ احساس ِ ندامت یارو چاند ے رُخ پر آج بھی ہے
مدحِ نبی کی نغمہ سرائی حمد و ثناء کی گُل پاشی
کَل بھی یہی تھا اپنا مقدر، اپنا مقدر آج بھی ہے
وہ دیدار کا موسم ، ساقی پیشِ نظر اور جامِ دید
برسوں بیت گئے اس رُت کو ہاتھ میں ساغر آج بھی ہے
عہد ِ ادیب اور مدحِ محمد کوئی آج کی بات نہیں
چودہ صدیوں سے یہ چرچا یونہی گھر گھر آج بھی ہے
یادِ شفیعِ مُذنبین ہے
اس دل میں اور کچھ نہیں ہے
کس کا رقیب دل بنا جو
محبوبِ ربّ العالمین ہے
خورشید و ماہتاب و انجم
لیکن تم ایسا اب نہیں ہے
صدیوں کے فاصلے ہیں پھر بھی
سایہ ہے دُور ، وہ قریب ہے
بعثت میں آخرالزّماں وہ
خلقت میں نورِ اوّلیں ہے
وہ آسماں ہیں معرفت کے
بندہ فقط، زمیں زمیں ہے
جب سے ملی ہے ان کی نسبت
دنیا اپنی حَسیں حَسیں ہے
یہ سوز، یہ گداز، یہ نم
سب میں کہاں، کہیں کہیں ہے
نازاں ہیں اہلِ عرش اس پر
کہنے کو یہ زمیں، زمیں ہے
نقشِ قدم جہاں جہاں ہیں
میری جبیں وہیں وہیں ہے
سیکھو انداز التجا کے
ان کے یہاں کمی نہیں ہے
عصیاں مرے بہت ہیں ، لیکن
وہ رحمۃ اللّعالمیں ہے
دشمن بھی کہہ ر ہے ہیں جس کو
صادق ہے وہ ، وہی امیں ہے
مٹھی میں جسکی سب کے دل ہیں
دل میں ادیب کے مکیں ہے
آئی تو کاٹنے کے لیے سب کے پاس مرگ
رشتہ جو آدمی کے بدن سے ہے جان کا
اس طرح سے کسی کی تواضع نہیں ہوئی
خونِ شہید کے لیے دامن قرآن کا
اُدھر ترتیلِ قرآنی ، کوئی ترمیم ناممکن
جو آیت حکم جو لائی ، عمل ایسا ہی کرنا ہے
اِدھر ترتیب ِ عثمانی کہ جو سورۃ جہاں رکھ دی
قیامت تک اسی ترتیب سے قرآن پڑھنا ہے
تو نے بھی عجب شان دکھائی ہے خدایا
جب تیغ نے خوں، حضرت ِ عثمان بہایا
گرنے نہ دیا قطرۂ خون پہلے زمیں پر
رحمت نے تیری دامنِ قرآن بچھایا
از آدم تا محمد مصطفٰے کوئی نہیں ایسا
کہ جن کے عقد میں دو بیٹیاں ہوں اک پیمبر کی
حیاء کی ، مصطفٰے کی دوستی کی ، یا مقدر کی
وہ ایک منظر وَمَا رَ مَیْتَ جہاں خدا خود یہ کہہ رہا ہے
یہ دست دست ِ نبی نہیں ہے یہ دستِ قدرت فقط مِرا ہے
یہ ایک منظر ، شجر کے نیچے نبی کا بیعت کے وقت کہنا
یہ دست ِ بیعت نبی کا ہے اور یہ دستِ عثمان دوسرا ہے
بچوں کو لوریوں میں کہیں ماں قریش کی
سو جاؤ میرے لال کہ ماں غمگسار ہے
ہے تم سے اتنا پیار ، کہ رحمٰن کی قسم
جیتنا قبیلے والوںکو عثمان سے پیار ہے
ابھی نہ آتے تھے پشتِ زِیں تک کہ سَر ہوئی مغفرت کی شلّک
صدا شفاعت نے دی مبارک گناہ مستانہ جھومتے تھے
عجب نہ تھا رخش کا چمکنا غزالِ دم خوردہ سا بھڑکنا
شعاعیں بکے اُڑا رہی تھیں تڑپتے آنکھوں پہ صاعِقے تھے
ہجومِ امید ہے گھٹاؤ مرادیں دے کر اِنہیں ہٹاؤ
ادب کی باگیں لیے بڑھاؤ ملائکہ میں یہ غَلغلے تھے
اُٹھی جو گرد رَہِ منور وہ نور برسا کہ راستے بھر
گھرے تھے بادل بَھرے تھے جَل تھل اُمنڈ کے جنگل اُبل رہے تھے
ستم کیا کیسی مَت کٹی تھی قمر وہ خاک اُن کے رَہ گذر کی
اٹھا نہ لایا کہ مَلتے مَلتے یہ داغ سب دیکھنا مٹے تھے
بُراق کے نقشِ سُم کے صدقے وہ گل کھلائے کہ سارے رستے
مہکتے گلبُن مہکتے گلشن ہرے بھرے لہلہارہے تھے
qaseeda-e-me’raj part/5
اتار کر ان کے رخ کا صدقہ یہ نور کا بٹ رہا تھا باڑا
کہ چاند سورج مچل مچل کر جبیں کی خیرات مانگتے تھے
وہی تو اب تک چھلک رہا ہے وہی تو جَو بن ٹپک رہا ہے
نہانے میں جو گرا تھا پانی کٹورے تاروں نے بھر لیے تھے
بچا جو تلوؤں کا ان کے دھوون بنا وہ جنّت کا رنگ و روغن
جنہوں نے دولہا کا پائی اُترن وہ پھول گلزارِ نور کے تھے
خبر یہ تحویلِ مہر کی تھی کہ رُت سہانی گھڑی پھرے گی
وہاں کی پوشاک زیبِ تن کی یہاں کا جوڑا بڑھا چکے تھے
تجلی حق کا سہرا سَر پر صَلوٰۃ و تسلیم کی نچھاور
دو رُویہ قدسی پرے جما کر کھڑے سلامی کے واسطے تھے
جو ہم بھی واں ہوتے خاکِ گلشن لپٹ کے قدموں سے لیتے اُترن
مگر کریں کیا نصیب میں تو یہ نامرادی کے دن لکھے تھے
Qaseeda Me’raaj Part/4
از حسن ملیح خود شور بجہاں کردی
ہر زخمی و بسمل را مصروف فغال کردی
بے جرم خطا قتلم از نازِ بتاں کردی
خود تیغ، زدی برمن نام دگراں کردی
مدہوش بیک ساغر اے پیر مغاں کردی
دل بردی و جاں بردی بے تاب و تواں کردی
خود آئینہ روبودی خود آئینہ بے خود
ایں طرفہ تماشا بیں در بزمِ جہاں کردی
شُد جامیٔ بے چارا از عشق تو آوارہ
آوارۂ غربت را در خاک نہاں کردی
اُس کی تعریف محمد کے سِوا کون کرے
تو جہاں کہیں بھی ہے تو جہاں کہیں رہا
نہ خیال کی پہنچ ، نہ خِرد کو راستہ
نہ کمندِ آگہی سے بلند ہی رہا
کوئی جستجو میں گُم کوئی عرش تک رسا
وَتُعِزُّ مَنۡ تَشَآءُ وَتُذِلُّ مَنۡ تَشَآءُؕ
یہ مکان و لامکاں کی عبث ہے گفتگو
تو ہی نورِ مہر و مہ، تو ہی گل کا رنگ و بُو
رہا سب کے روبرو، رہی پھر بھی جستجو
کوئی راہ کھو گیا، کوئی تجھ کو پاگیا
وَتُعِزُّ مَنۡ تَشَآءُ وَتُذِلُّ مَنۡ تَشَآءُؕ
مجھے سرفراز کر، مرے بخت کو جَگا
جو عزیز ہو تجھے ، وہی کر مجھے عَطا
جو تجھے پسند ہو، اسی راہ پر چلا
جو ترے غضب میں ہوں ، مجھے ان سے رکھ جدا
وَتُعِزُّ مَنۡ تَشَآءُ وَتُذِلُّ مَنۡ تَشَآءُؕ
اشکوں سے بھی لکھ ان کی ثناء ان کا قصیدہ
لکھ جیسے وہ ہیں ایسا نہ دیدہ نہ شنیدہ
جب یاد کیا قلب ہو ا نافہ آہو
جب نام لیا ہو گئے لب شہد چکیدم
دیکھا ہے بلندی پہ ہر اِک جا سرِ افلاک
لیکن اسے دیکھا ہے مدینہ میں خمیدہ
حسرت میں زیارت کی بہے جاتے ہیں آنسو
اچھا ہے وضو کرتا ہے دیدار کو دیدہ
کیا اس کو خریدیں گے سلاطینِ زمانہ
اے رحمتِ عالم ! تیری رحمت کا خریدا
امت ہے بہت زار و پریشان کرم کر
چادر بھی دریدہ ہوئی ، دامن بھی دریدہ
وہ شاعری اچھی کہ دکھائے جو یہ منظر
آغوشِ کرم میں سگِ دنیا کا گزیدہ
محتاج نہ ہوگا کبھی وہ ہاتھ جو لکھے
اس مصطفٰے و منعم کی سخاوت کا قصیدہ
محروم نہیں ہوں گی بصارت سے وہ آنکھیں
گو خواب سہی، ہوں رخِ انوار کی دیدہ
بس ایک ہی جھونکا ہے بہت شہرِ نبی کا
آواز یہ دیتے ہیں تن و قلب تپیدہ
لایا درِ رحمت پہ مجھے جادۂ رحمت
کافی مری بخشش کے لیے ہے یہ قصیدہ
جس راہ سے گُذرا ہے ادیب ان کی ثناء میں
رخشندہ وہ تابندہ ، درخشاں و و میدہ
اک شمع جل گئی ہے پروانے ڈھونڈتا ہوں
دیوانہ ہو گیا ہوں دیوانے ڈھونڈتا ہوں
ہے کرب سا مسلسل قلب و جگر میں یا رب
سچائی سے مزین افسانے ڈھونڈتا ہوں
جن سے نظر ملا کر چھا جائے کیف و مستی
ایسی نگاہ کے میں پیمانے ڈھونڈتا ہوں
چڑھتے تھے دار پر جو تقدیر کے سکندر
میں آج بھی کچھ ایسے مستانے ڈھونڈتا ہوں
وہ جن سے معرفت کے ساغر چھلک رہے تھے
عرصہ گزر گیا وہ میخانے ڈھونڈتا ہوں
محمود میری باتیں کیسے سمجھ سکیں گے
میں لوگ بھی تو سارے انجانے ڈھونڈتا ہوں
اَلَا یٰاَ یُّھَا السَّاقِیْ اَدْرِکَا سًا وَّ نَاوِلْھَا
کہ بر یادِ شہِ کوثر بنا سَازیم محفلہا
بلا بارید حبِّ شیخ نجدی بر وہابیہ
کہ عِشق آساں نمود اوّل ولے افتاد مشکلہا
وہابی گرچہ اخفامی کند بغضِ نبی لیکن
نہاں کے ماند آں رازے کزوسازند محفلہا
توہّب گا ہ ملکِ ہند اقامَت رانمی شاید
جرس فریاد می دارد کہ بربند ید محملہا
صلائے مجلسم دَر گوش آمد بیں بیا بشنو
جرس مستانہ می گوید کہ بربندید محملہا
مگر واں رُو ازیں محفل رہِ اربابِ سنّت رَو
کہ سالک بے خبر نبود زِراہ و رسم منزلہا
در ایں جلوت بیا از راہِ خلوت تا خُدا یابی
مَتٰی مَا تَلْق مَن قَھْوٰی دَعِ الدُّنْیا وَاَمْھِلْھا
ولم قربانت اے دودِ چراغ محفل مولد
زتاب ِ جعدِ مشکینت چہ خوں افتاد در دلہا
غریقِ بحرِ عشقِ احمدیم از فرحت مولد
کجا دانند حالِ ما سُبکسا رانِ سَاحلہا
رضا مست جامِ عشق ساغر باز می خواہد
َلَا یٰاَ یُّھَا السَّاقِیْ اَدْرِکَا سًا وَّ نَاوِلْھَا
اَ َلَا یٰاَ یُّھَا السَّاقِیْ اَدْرِکَا سًا وَّ نَاوِلْھَا
الاماں قہر ہے اے غوث وہ تیکھا تیرا
مرکے بھی چین سے سوتا نہیں مارا تیرا
بادلوں سے کہیں رکتی ہے کڑکتی بجلی
ڈھالیں چھنٹ جاتی ہیں اٹھتا ہے جو تیغا تیرا
عکس کا دیکھ کے منہ اور بھپر جاتا ہے
چار آئینہ کے بل کا نہیں نیزا تیرا
کو ہ سر مکھ ہو تو اِک دار میں دو پر کالے
ہاتھ پڑتا ہی نہیں بھول کے اوچھا تیرا
اس پہ یہ قہر کہ اب چند مخالف تیرے
چاہتے ہیں کہ گھٹا دیں کہیں پایہ تیرا
عقل ہوتی تو خدا سے نہ لرائی لیتے
یہ گھٹا ئیں ، اسے منظور بڑھا نا تیرا
وَرَفَعۡنَا لَکَ ذِکۡرَکۡ کا ہے سایہ تجھ پر
بول بالا ہے تر ذِکر ہے اُونچا تیرا
مٹ گئے ٹتے ہیں مِٹ جائیں گے اعدا تیرے
نہ مٹا ہے نہ مٹے گا کبھی چرچا تیرا
تو گھٹا ئے سے کسی کے نہ گھٹا ہے نہ گھٹے
جب بڑھائے تجھے اللہ تعالیٰ تیرا
سمِّ قاتل ہے خدا کی قسم اُن کا اِ نکا ر
منکرِ فضل حضور آہ یہ لکھا تیرا
میرے خنجر سے تجھے با ک نہیں
چیر کر دیکھے کوئی آہ کلیجا تیر ا
ابنِ زہر ا سے ترے دل مین ہیں یہ زہر بھرے
بل بے او منکر ِ بے باک یہ زہر تیرا
بازِ اشہب کی غلامی سے یہ آنکھیں پھرنی
دیکھ اڑ جائے گا ایمان کا طوطا تیرا
شاخ پر بیٹھ کر جڑ کا ٹنے کی فکر میں ہے
کہیں نیچانہ دکھائے تجھے شجرا تیرا
حق سے بد ہو کے زمانہ کا بھلا بنتا ہے
ارے میں خوب سمجھتا ہوں معمّا تیرا
سگ ِ در قہر سے دیکھے تو بکھرتا ہے ابھی
بند بندِ بدن اے روبہِ دنیا تیرا
غرض آقا سے کروں عرض کہ تیری ہے پناہ
بندہ مجبور ہے خاطِر پہ ہے قبضہ تیرا
حکم نافذ ہے ترا خامہ ترا سیف تری
دم میں جو چاہے کرے دور ہے شاہا تیرا
جس کو للکار دے آتا ہو تو الٹا پھر جائے
جس کو چمکار لے ہر پھر کے وہ تیرا تیرا
کنجیاں دل کی خدا نے تجھے دیں ایسی کر
کہ یہ سینہ ہو محبّت کا خزینہ تیرا
دِل پہ کندہ ہو ترا نام کہ وہ دُزدِ رجیم
الٹے ہی پاؤں پھرے دیکھ کے طغرا تیرا
نزع میں ، گور میں ، میزاں پہ ، سرِ پل پہ کہیں
نہ چھٹے ہاتھ سے دامانِ معلٰی تیرا
دھوپ محشر کی وہ جاں سوز قیامت ہے مگر
مطمئن ہوں کہ مرے سر پہ ہے پلا تیرا
بہجت اس سر کی ہے جو “بہجۃ الاسرار ” میں ہے
کہ فلک وار مُریدوں پہ ہے سایہ تیرا
اے رضا چیست غم ارجملہ جہاں دشمنِ تست
کردہ ام ما منِ خود قبلۂ حاجا تیرا
الف اللہ چنبے دی بوٹی مرے من وچ مرشد لائی ہو
نفی اثبات دا پانی ملیا ھررگِ ھرجائی ہو
اندر بوٹی مشک مچایا جان پھلن تےآئی ہو
جیوے مرشد کامل باہو جیں ایہ بوٹی لائی ہو
ایمان سلامت ھر کوئی منگے عشق سلامت کوئی ہو
منگن ایمان شرماون عشقوں دل نوں غیرت ہوئی ہو
جس منزل نوں عشق پچاوے ایمان نوں خبر نہ کوئی ہو
میرا عشق سلامت رکھیں باہو ایمانوں دیا دھروئی ہو
ایہ تن میرا چشماں ہووے تے میں مرشد ویکھ نہ رجاں ہو
لوں لوں وے مڈھ لکھ لکھ چشماں ہک کھولاں کجاں ہوں
اتنا ڈٹھیاں صبر نہ آوے ہو رکتے دل بجھاں ہو
مرشد دا دیدار ہے باہو مینوں لکھ کروڑاں حجاں ہو
بغداد شہر دی کی اے نشانی اچیاں لمیاں چیراں ہو
تن من میرا پرزے پرزے جیون درزی دیاں لیراں ہو
اینہاں لیراں دی لگ کفنی پا کے رل ساں سنگ فقیراں ہو
بغداد شہر دے ٹکڑے منگساں باہو کرساں میراں میراں ہو
آنکھ میں جب اشک آیا ہو گئی نعتِ رسول
درد جب دل میں سمایا ہو گئی نعتِ رسول
جب کسی حق کی داستاں کو زندہ کرنے کے لیے
ظلم سے پنجہ لڑایا ہوگئی نعتِ رسول
جہل کی تاریکیوں میں اعتماد علم کا
اِک دیا جس نے جلایا ہو گئی نعتِ رسول
جب کسی معصوم کو پایا یتیمی کا شکار
اپنے سینے سے لگایا ، ہو گئی نعتِ رسول
امتیازِ بندہ و آقا مٹانے کے لیے
جب کوئی میداں میں آیا ہو گئی نعتِ رسول
کھا کے سنگ دشمنان ِ دیں اگر یہ کہہ دیا
کر بَھلا اس کا خدایا ، ہو گئی نعتِ رسول
یاد کر کے عرصۂ شعبِ ابی طالب کبھی
جس نے دو آنسو بہایا ہوگئی نعتِ رسول
محسنِ انسانیت کی جان کر ، سنّت اگر
جس نے روتوں کو ہنسایا، ہوگئی نعتِ رسول
کیا بتاؤ ں کس قدر ہیں مہرباں مجھ پر حضور
جب قلم میں نے اٹھایا ہو گئی نعتِ رسول
سیرتِ خیر البشر کو دیکھتا جا اے ادیب!
جو ورق نے تو اُٹھایا ہو گئی نعتِ رسول
اے سکونِ قلب مضطر اے قرارِ زندگی
اے امینِ رازِ فطرت، اے بہارِ زندگی
تیری ہر ہر جنبش ِ لب برگ و بارِ زندگی
تو دیارِ عشق میں ہے شہریارِ زندگی
تیرے قدموں کی بدولت تیری آمد کے طفیل
گلستاں ہی گلستاں ہے خار زارِ زندگی
ترا قربِ خاص پاکر تیرے دستِ پاک میں
سنگریزے بن گئے ہیں شاہکارِ زندگی
جس نے پائی تیری نسبت ہوگیا وہ ذی وقار
اے فروغِ آدمیت، اے وقارِ زندگی
شاعرانِ حُسن ِ فطرت ، صاحبان ِ درک و فہم
ہے قدم بوسی میں ہر اک وضعدارِ زندگی
درس تیرا ظالموں سے جنگ ، مظلوموں سے پیار
کتنی سادہ ہوگئی ہے رہ گذارِ زندگی
آدمی کو آدمی سے پیار کا نسخہ دیا
تو طبیبِ خلق ہے ، تیمار دارِ زندگی
تو نے آکر دی نگاہوں کو بصیرت حُسن کی
ورنہ تھی محدود لفظوں میں، بہارِ زندگی
تو نے صحرائے تخیل میں لگائے گلستاں
اور چٹانوں سے نکالے آبشارِ زندگی
گونج اٹھے نغمے لگائی تو نے جب مضرابِ عشق
بربطِ فطرت پہ تھا خاموش تارِ زندگی
بے خبر دنیا و ما فیہا سے تو نے کر دیا
کیا شرابِ زندگی ہے، کیا خمارِ زندگی
روح و جاں کی سلطنت پر حکمرانی ہے تری
ہم غلامِ عشق ہیں ، تو تاجدارِ زندگی
عشق کی دیوانگی کے سامنے سب ہیچ ہیں
توڑ دیتی ہے محبّت ، ہر حصارِ زندگی
تیرے پائے ناز کا اک لمس پاکر ہے رواں
چھن چھناتی ، گنگناتی جوئبارِ زندگی
تیری توصیف و ثناء مدح سے آراستہ
ہے ادیبِ خوش بیاں کا نغمہ زار ِ زندگی
بخوبی ہمچومہ تابندہ باشی
بہ ملک دلبری پائندہ باشی
جہاں سوزی اگر دو غمزہ آئی
شکر ریزی اگر برخندہ باشی
من درویش را کشتی بغمزہ
کرم کردی الٰہی زندہ باشی
زقید دو جہاں آزاد باشم
اگر تو ہم نشیں بندہ باشی
جفا کم کن کہ فردہ روزِ محشر
بروئے عاشقاں شرمندہ باشی
بہ تندی و بشوخی ہم و خسرو
ھزاراں خانما بدکندہ باشی
پلک جھپکتی رہی وہ کب کے سب این و آں سے گزر چکے تھے
جھلک سی اِک قدسیوں پر آئی ہوا بھی دامن کی پِھر نہ پائی
سواری دولہا کی دور پہنچی برات میں ہوش ہی گئے تھے
تھکے تھے رُوحُ الْامںی کے بازو چُھٹا وہ دامن کہاں وہ پہلو
رکاب چھوٹی ،امید ٹوٹی نگاہِ حسرت کے ولولے تھے
رَوِش کی گرمی کو جس نے سوچا دماغ سے اِک بَھبو کا پھوٹا
خِرَد کے جنگل میں پُھول چمکا دَہر دَہر پیڑ جل رہے تھے
جِلو میں مرغِ عقل اُڑے تھے عجب بُرے حالوں گرتے پڑتے
وہ سدرہ ہی پر رہے تھے تھک کر چڑھا تھا دم تیور آگئے تھے
قوی تھے مرغان ِوہم کے پَر، اُڑے تو اُڑنے کو اور دَم بھر
اٹھائی سینے کی ایسی ٹھوکر کہ خونِ اندیشہ تھوکتے تھے
سنا یہ اتنے میں عرش ِحق نے ،کہا مبارک ہو تاج والے!
وہی قدم خیر سے پھر آئے جو پہلے تاج ِشرف تیرے تھے
Qaseeda-e-me’raj part/7
پھر کے گلی گلی تباہ ٹھوکریں سب کی کھائے کیوں
دل کو جو عقل دے خدا تیری گلی سے جائے کیوں
رخصتِ قافلہ کا شور غش سے ہمیں اٹھائے کیوں
سوتے ہیں ان کے سایہ میں کوئی ہمیں جگائے کیوں
بار نہ تھے جیب کو پالتے ہی غریب کو
روئیں جو اب نصیب کوچیں کہو گنوائیں کیوں
یادِ حضور کی قسم غفلتِ عیش ہے سِتم
خوب ہیں قیدِ غم میں ہم کوئی ہمیں چھڑا ئے کیوں
دیکھ کے حضرتِ غنی پھیل پڑے فقیر بھی
چھائی ہے اب تو چھاؤنی حشر ہی آنہ جائے کیوں
جان ہے عشقِ مصطفٰے روز فزوں کرے خدا
جس کو ہو در د کا مزہ نازِ دوا اٹھائے کیوں
ہم تو ہیں آپ دل فگار غم میں ہنسی ہے ناگوار
چھیڑ کے گل کو نو بہار خون ہمیں رلائے کیوں
یا تو یوں ہی تڑپ کے جائیں یا وہی دام سے چھڑائیں
منت ِ غیر کیوں اٹھائیں کوئی ترس جتائے کیوں
اُن کے جلال کا اثر دل سے لگائے ہے قمر
جو کہ ہو لوٹ زخم پر داغِ جگر مٹائے کیوں
خوش رہے گل سے عندلیب خارِ حرم مجھے نصیب
میری بلا بھی ذِکر پھر پھول کے خار کھائے کیوں
گردِ ملال اگر دُھلے دِل کی کلی اگر کھِلے
برق سے آنکھ کیوں جلے رونے پہ مسکرائے کیوں
جانِ سفر نصیب کو کس نے کہا مزے سے سو
کھٹکا اگر سحر کا ہوشام سے موت آئے کیوں
اب تو نہ روک اے غنی عادتِ سگ بگڑ گئی
میرے کریم پہلے ہی لقمۂ تر کھلائے کیوں
راہِ نبی میں کیا کمی فرشِ بیاض دیدہ کی
چادرِ ظل ہے ملگجی زیرِ قدم بچھائے کیوں
سنگِ در حضور سے ہم کو خدا نہ صبر دے
جانا ہے سر کو جا چکے دل کو قرار آئے کیوں
ہے تو رضا نراسِتم جرم پہ گر لجائیں ہم
کوئی بجائے سوز، غم سا ز طرب بجائے کیوں
تم ہو شریک غم تو مجھے کوئی غم نہیں
دنیا بھی میرے واسطے جنت سے کم نہیں
چاہا ہے تجھ کو تجھ پہ لٹائی ہے زندگی
تیرے علاوہ کچھ مرا دین و دھرم نہیں
وہ بد نصیب راحتِ ہستی نہ پاسکا
جس پر مرے حبیب کی چشم کرم نہیں
منزل مجھے ملے نہ ملے اس کا کیا گلہ
وہ میرے ساتھ ساتھ ہیں یہ بھی تو کم نہیں
سجدہ اسی کا نام ہے جب تم ہو سامنے
ایسی نماز کیا جو بروئے صنم نہیں
اس راستے پہ سر کو جھکانا حرام ہے
جس راستے پہ آپ کا نقشِ قسم نہیں
اۓ آنے والے اپنی جبیں کو جھا کے آ
یہ آستانِ یار ہے کوئے حرم نہیں
اہل جنوں کا اس لیے مشرب جد ا رہا
واقف نیازِ عشق سے شیخ حرم نہیں
تو ہے وہ غوث کہ ہر غوث ہے شیدا تیرا
تو ہے وہ غیث کہ ہر غیث ہے پیاسا تیرا
سورج اگلوں کے چمکتے تھے چمک کر ڈوبے
افقِ نور پہ ہے مہر ہمیشہ تیرا
مُرغ سب بولتے ہیں بول کے چپ رہتے ہیں
ہااصیل ایک نو اسنج رہے گا تیرا
جو ولی قبل تھے یا بعد ہوئے یا ہوں گے
سب ادب رکھتے ہیں دل میں مرے آقا تیرا
بقسم کہتے ہیں شاہان صریفین و حریم
کہ ہُوا ہے نہ ولی ہو کوئی ہمتا تیرا
تجھ سے اور دہر کے اقطاب سے نسبت کیسی
قطب خود کون ہے خادم تِرا چیلا تیرا
سارے اقطاب جہاں کرتے ہیں کعبہ کا طواف
کعبہ کرتا ہے طوافِ درِ والا تیرا
اور پروانے ہیں جو ہوتے ہیں کعبہ پہ نثار
شمع اِک تو، ہے کہ پَروانہ ہے کعبہ تیرا
شجرِ سرو سہی کِس کے اُگائے تیرے
معرفت پھول سہی کس کا کِھلا یا تیرا
تو ہے نو شاہ بَراتی ہے یہ سارا گلزار
لائی ہے فصل سمن گوندھ کے سہرا تیرا
ڈالیاں جھومتی ہیں رقصِ خوشی جو ش پہ ہے
بلبلیں جھولتی ہیں گاتی ہیں سہرا تیرا
گیت کلیوں کی چٹک غزلیں ہزاروں کی چہک
باغ کے سازوں میں بجتا ہے ترانا تیرا
صفِ ہر شجرہ میں ہوتی ہے سَلامی تیری
شاخیں جھک کے بجا لاتی ہیں مجرا تیرا
کِس گلستاں کو نہیں فصلِ بہاری سے نیا
کون سے سِلسلہ میں فیض نہ آیا تیرا
نہیں کس چاندکی منزل میں ترا جلوۂ نور
نہیں کس آئینہ کے گھر میں اُجالا تیرا
راج کِس شہر میں کرتے نہیں تیرے خدام
باج کِس نہر سے لیتا نہیں دریا تیرا
مزرع ِ چِشت و بخارا و عِراق واجمیر
کون سی کِشت پہ برسا نہیں جھالا تیرا
اور محبوب ہیں ، ہاں پر سبھی یکساں تو نہیں
یوں تو محبوب ہے ہر چاہنے ولا تیرا
اس کو سرفرد سَراپا بفراغت اوڑھیں
تنگ ہو کر جو اترنے کو ہو نیما تیرا
گردنیں جھک گئیں سر بچھ گئے دل لوٹ گئے
کشفِ ساق آج کہاں یہ تو قدم تھا تیرا
تاجِ فرقِ عرفا کس کے قدم کو کہیے
سر جسے باج دیں وہ پاؤں ہے کِس کا تیرا
سُکر کے جوش میں ہیں وہ تجھے کیا جانیں
خِضر کے ہوش سے پوچھے کوئی رتبہ تیرا
آدمی اپنے ہی احوال پہ کرتا ہے قیاس
نشے والوں نے بھلا سُکر نکالا تیرا
وہ تو چھوٹا ہی کہا چاہیں کہ ہیں زیرِ حضیض
اور ہر اَوج سے اونچا ہے ستارہ تیرا
دل ِ اعدا کو رضا تیز نمک کی دُھن ہے
اِ ک ذرا اور چھڑ کتار ہے خامہ تیرا
تیری تکریم میں تیری تعظیم میں کس کو شک ہے بھلا کربلا کربلا
پھر بھی میرا قلم، تجھ سے شکوے رقم آج کرنے چلا کربلا کربلا
تو فراط آشنا ، تجھ میں دجلہ رواں پھر بھی آل ِ محمد کی سوکھی زباں
تیرے مہمان تھے ، اپنے مہمان سےتو نے یہ کیا کیا کربلا کربلا
واسطہ ان کے آباء کا دے کر اگر ، مانگتا اپنے سینہ میں زم زم کا گھر
اِک کرشمہ دکھاتا وہاں بھی خدا، کیوں نہ مانگی دعا کربلا کربلا
رات ہو دن ہو جب ان کے ہلتے جو لب ، اپنے خیموں میں قرآن پڑھتے تھے سب
تو نے دیکھا یہ سب ، تو نے خود بھی سنا اور کچھ نہ کیا کربلا کربلا
جن کے اہلِ حرم نُورِ مستورِ حق ، چادریں جن کے سر کی قرآں کا ورق
جن کےخیموں کے پردے غلافِ حرم، ان کو لوٹا گیا کربلا کربلا
آرزو التجا حسرتیں منّتیں ، جن کے قدموں کے بو سے کو حوریں کریں
ایسی شہزادیاں اور بربادیاں ، تو نے دیکھا کیا کربلا کربلا
وہ سکینہ تھی جو غم سے موسوم تھی ، کتنی معصوم تھی کتنی مغموم تھی
پوچھتی پھر رہی تھی ہر اِک سے پتہ ، تو نے کیا کہ دیا کربلا کربلا
نسل سے بولہب کی وہ دو ہاتھ تھے جن میں نیزہ تھا نیزے پہ فرقِ حُسین
کاش ہوتے نبی تو اترتی وہاں پھر سے تبت یدا کربلا کربلا
اہلِ بیت اور ان کی محبّت ادیب ، یہ مقدر یہ قسمت ، یہ روشن نصیب
اس وظیفہ سے راضی ہے مجھ سے خدا دیکھ یہ مرتبہ کربلا کربلا
تیرے ذکر سے مری آبرو تیری شان جَلّ جَلالہٗ
تو میرے کلام کا رنگ و بو تیری شان جَلّ جَلالہٗ
جو چٹک کے غنچہ کِھلے یہاں تو کرے وہ وصف تیرا بیاں
ہے چمن چمن تیری گفتگو تیری شان جَلّ جَلالہٗ
مرے دل میں عشقِ نبی دیا جو دیا بجھا تھا جلا دیا
جسے چاہے جیسے نواز ے تو تیری شان جَلّ جَلالہٗ
جو طلب کا بھید ہیں جانتے وہ تجھی کو تجھ سے ہیں مانگتے
جو تیرے ہوئے ہیں انہیں کا تو تیری شان جَلّ جَلالہٗ
یہ ادیب میں تھا کہاں تیری شان کرتا جو یوں بیاں
ہے تیرے کرم سے یہ سرخرو تیری شان جَلّ جَلالہٗ
جلالِ آیت ِ قرآں کو جو سہار سکے
نبی کے دل کے سِوا دوسرا مقام نہیں
وہ لذّتِ غمِ عشقِ رسول کیا جانے
درود لبوں پر نہیں سلام نہیں
وہ دشمنوں کا ہدف وہ قریش کا مظلوم
مگر کسی سے لیا کوئی انتقام؟ نہیں
خیال اس کے تعقب میں تھک کے بیٹھ گیا
سفر براق پہ اس کا مگر تمام نہیں
تمام عمر نہ پائے ، ملے تو لمحوں میں
متاعِ عشقِ محمد مذاقِ عام نہیں
ادیب ان کے ثناگو میں نام ہے میرا
مقامِ شکر کہیں اور میرا نام نہیں
جو تصوّر میں نہیں جس کی نہیں کوئی خبر
اس کی تصویر بناؤں میں قلم سے کیونکر
وہ خیالوں میں اُتر جائے تو واسع کیسا
چند لفظوں میں سماجائے تو جامع کیسا
جس کے اِک نام کو سو نام سے تعبیر کریں
جس کے اِک حرف کو سو ڈھنگ سے تحریر کریں
وہ جو سبحان بھی ، رحمان بھی ، برہان بھی ہے
وہ جو دَیّان بھی ، حَنّان بھی ، مَنّان بھی ہے
عرش والا بھی وہی ، رَبّی َ الاعلی بھی وہی
زور آور بھی وہی، بخشنے والا بھی وہی
چار سو دنیا میں چر چا ہے تو نگر شاہ کا
عر ش پر بھی بول بالا ہے تونگر شاہ کا
آج بھی زندہ ہیں قبر پا ک میں بعد ازاں وصال
کون جانے کیسا رتبہ ہے تونگر شاہ کا
خاک اڑائی کوچہ گردی کی خدا کی راہ میں
آج یوں ہر گام شہرہ ہے تونگر شاہ کا
ریگ دریا آپ نے کھائی بڑی مقدار میں
اس حوالے سے بھی چرچا ہے تونگر شاہ کا
مردہ لڑ کے پر نظر ڈالی تو زندہ ہو گیا
یہ بھی اک ادنیٰ کرشمہ ہے تونگر شاہ کا
ہر گھڑی ذکر وتلاوت آپ فرماتے رہے
نور سے معمور سینہ ہے تونگر شاہ کا
دم کریں پیتل کے لوٹے پر تو ہو اس میں سوراخ
دم بھی کیا تاثیر والا ہے تونگر شاہ کا
آج بھی یامین ہیں جو د و سخا کی بارشیں
موجزن اب بھی دریا ہے تونگر شاہ کا
چشم مستے عجبے زلف درازے عجبے
مے پرستے عجبے فتنہ طرازے عجبے
بوالعجب حسن و جمال و خط و خال و گیسو
سروقدِّ عجبے قامتِ ناز عجبے
وقت بسمل شُدنم برویش باز است
مہربانِ عجبے بندہ نوازِ عجبے
بہر قتلم چوں کشد تیغ نہم سر بسجود
او بہ نازِ عجبے من بہ نیاز عجبے
ترک تازی عجبے،شو بہ بازِ عجبے
کج کلاہِ عجبے، ابر ادا سازِ عجبے
حق مگو کلمۂ کفر است در ایں جا خؔسرو
راز دانِ عجبے، صاحبِ الرّاز عجبے
چمن کہ تاقیامت گل او بہار باد
صنم کہ بر جمالش دو جہاں نثار باد
نگاہِ میر خوباں بشکار می خرامد
کہ بتیر غمزۂ او دل و جاں شکار بادا
بدوچشم از دو چشمش چہ پیا مہاست ھر دم
کہ دو چشم از پیامش خوش و پرخمار بادا
بغدائے تن تو منگر کہ ببوسد بر نرود
بغدائے جاں نگر کو خوش و پائیدار بادا
در زاھدے شکتم بدعا نمود نفریں
کہ بر و کہ روزگار ت ہمہ بے قرار بادا
چھاپ تلک سب چھین لی نی رے مو سے نیناں ملا کے
بات اگہم کہہ دی نی رے م سے نیناں ملا کے
بل بل جاؤں میں تورے رنگ ریجوا
انپی سی رنگ لی نی رے مو سے نیناں ملا کے
ہری ہر چوڑیان گوری گوری بیاں
بیاں پکر ھر لی نی رے مو سے نیناں ملا کے
پریم بھٹی کا مدھوا پلائی کے
متواری کردی نی رے مو سے نیناں ملا کے
خسرو نجام کے بل بل جیّئے
موہے سہاگن کی نی رے مو سے نیناں ملا کے
حجّت کے لیے حشر میں ہوگی یہ دلیل
ہر شے کو عطا ہوگی بشر کی صورت
اللہ کی یہ شکل کے خورشید ِ جلال
اللہ کا قرآن ، عمر کی صورت
دین ِ حق کی سر بلندی میں نبوّت کی طلب
بارگاہِ ربّ العزّت میں ہوا ہو جس پہ صاد
ساری دنیا ہے شہنشہاہِ دو عالم کی مُرید
اور عمر خود ہیں شہنشاہِ دو عالم کی مُراد
صف میں جو گُھس پڑے وہ لیے تیغِ شعلہ ور
سر کافروں کے دوش پہ آئے نہ پھر نظر
ہیبت سے ان کی دن میں نکلتے نہ تھے عدو
راتوں کو خواب میں بھی پُکاریں عمر عمر
لڑنے میں یوں تو ایک سے ایک بے مثال ہے
پھر بھی دلوں میں خوف عمر کا یہ حال ہے
ہیں ماہر ان حرب کے باہم یہ مشورے
خطّاب کے پسر سے لڑائی محال ہے
خدا کا خوف ذکر ِ مصطفٰے سرمایۂ عثمان
سرور و کیف قربِ مصطفٰے سرمایہ ٔ عثمان
بیان سرکاری کی مدحت سدا، پیرا یۂ عثمان
نہ تھا ایسا نہ اب ہوگا کوئی ہم پایہ ٔ عثمان
نہ تھا آئینہ ٔ دل پر غبار ِ عصبیت ان کے
اگر چہ تھے حریفِ ہاشمی اَجداد سب ان کے
صفائے باطنی ان کا مکدر ہو نہ سکتا تھا
کوئی اس دل میں اب تخمِ رقابت بُو نہ سکتا تھا
جہالت کے اندھیروں سے نکل کر نُور میں آئے
قرابت وہ مِلی ، دو نور والے آپ کہلائے
قدم ہجرت کا مکہ سے نکالا آپ نے پہلے
حبش کو دین کا بخشا اُجالا آپ نے پہلے
وہ دورِ جاہلیت جو بھرا تھا آبِ گلگوں سے
حیاء والے کے لب نا آشنا تھے اس کے افسوس سے
حیاء کے ذکر کا جب بھی کوئی عنوان ہوتا تھا
لبِ شاہِ مدینہ پر فقط عثمان ہوتا تھا
نبی ارشاد فرماتے کتابت آپ کرتے تھے
بڑی دشوار تھی منزل، بآسانی گذرتے تھے
اشارہ پر نبی کے مال سب قربان ہوجاتا
جو حاتم آج ہوتا ، آپ کا دربان ہوجاتا
یہودی کو دیا کل مال، شیریں آب کے بدلے
ہوئے سیراب تشنہ لب مسلمان ، بیر رومہ سے
بنے وہ بیعت ِ رضوان میں تاجِ فخر کا طُرّہ
نبی نے ہاتھ بیعت میں جب ان کے نام پر رکھا
مراکش سے ملے کابل کے ڈانڈے عہد میں جن کے
ہوئے اسلام کے زیرِ نگیں ، دنیا کے یہ حصے
طرابلس اور افریقہ بنا اِسلام کا حصہ
بغاوت مصر کی توڑی ، فتح قبرص بھی کر ڈالا
ہو ا جب کوہِ لرزاں، مصطفٰے نے اس سے فرمایا
کہ تجھ پر اِک نبی، صدیق اِک اور اِک شہید آیا
شہادت معتبر تھی ، ایک دن ایسا بھی ہونا تھا
سرِ تسلیم اپنا خم کیا ، ایسا بھی ہونا تھا
شہادت کا وہ لمحہ، وہ تحمّل ، صبر کا پیکر
جو اخلاقِ کریمانہ کا ٹھرا ٓخری منظر
فَسَیَکْفِیْکَھُمْ آیت پہ جب خوں آپ کا ٹپکا
قراں کا ہر ورق دامن کو پھیلائے ہوئے لپکا
قیامت میں کریں گے لوگ جب قرآن کی باتیں
کریں گے ساتھ ہی وہ حضرتِ عثمان کی باتیں
اُتر کر خون کے دریا میں جو کوئی اُبھرتا ہے
ہٹا کر زیست کے پردے زیارت حق کی کرتا ہے
نہیں مرتا ادیب اس راہ میں ، جب کوئی مرتا ہے
وہ کب مرتا ہے جو راہِ شہادت سے گزرتا ہے
خُدا کی ذات کو زیبا ہے شانِ یکتائی
اُسی نے جرأتِ اظہار مجھ کو فرمائی
اسی کے لطف سے شاعر بنا، ادیب ہوا
ثناء حضور کی لکھےو ہ خوش نصیب ہوا
یہ اس کی شان کہ اس کے حضور میں ہو کر
یہ دے رہا ہے صدا قلبِ مضطرب، رو کر
کریم ہے تو مجھے نُدرتِ بیاں دیدے
دہن میں حافظِ شیرا ز ؒ کی زباں دیدے
وہ نطق دے کہ ہر اک رنگ سے جُدا کردے
کرم سے مثنوی رومؒ کی اَدا کر دے
بنا دے خواب کی اقبال ؒ کے ، مجھے تعبیر
ہو پائے فکر میں مضبوط ، عشق کی زنجیر
ترے کرم سے نظر آئے حُسن ہر خامی
ہو میری طرزِ نِگارش، عبارتِ جامی ؒ
خراجِ اشک سے قائم ہے قیصری میری
سرورِ عشقِ رسالت، سکندری میری
یہ میرا عہدِ غلامی، غلامیٔ شہِ دیں
اس عہد میں ہے خیالوں پہ افسری میری
غزل کا پھیر کے رخ لے چلا ثناء کی طرف
حرف حرف کو پسند آئی رہبری میری
امیرِ شہرِ سخن ہوں فقیرِ کوئے رسول
انہیں سے فقر، انہیں سے تونگری میری
متاعِ نعت اِسی در سے میں نے پائی ہے
نہ کیوں ہو ناز کے قابل سخن وری میری
وہ واردات جو گذری ہے میرے دل پہ ادیب
سمجھ رہے ہیں اسے لوگ شاعری میری
خِرَدْ سے کہہ دو کہ سر جھکالے! گماں سے گزرے گزرنے والے
پڑے ہیں یاں خود جِہَت کو لالے کِسے بتائے کدھر گئے تھے؟
سراغ ِاَین و متٰی کہاں تھا نشان کَیْفَ وَ الیٰ کہاں تھا؟
نہ کوئی راہی نہ کوئی ساتھی نہ سنگِ منزل نہ مرحلے تھے!؟
اُدھر سے پَیہم تقاضے آنا اِدھر تھا مشکل قدم بڑھانا
جَلال و ہَیبت کا سامنا تھا جَمال و رَحمت اُبھارتے تھے
بڑھے تو لیکن جھجکتے ڈرتے، حیا سے جھکتے ادب سے رکتے
جو قرب اُنہیں کی رَوِش پہ رکھتے تو لاکھوں منزل کے فاصلے تھے
پر اِن کا بڑھنا تو نام کو تھا حقیقتہً فعل تھا اُدھر کا
تنزّلوں میں ترقی افزا َدنَا تَدَلّٰی کے سلسلے تھے
ہوا آخر کہ ایک بجرا تَموّجِ بَحر ِہُو میں ابھرا
دَنَا کی گودی میں ان کو لے کر فنا کے لنگر اٹھادیے تھے
Qaseeda-e-me’raaj/9
دُخترِ ختمِ الرسل جانِ پیمبر فاطمہ
اے وقارِ بُو ترابی، شانِ حیدر فاطمہ
رُوح کی تشنہ لبی کو آب کوثر ، فاطمہ
سجدہ گاہِ اہلِ ایماں، آپ کا در فاطمہ
لُٹ رہا تھا کربلا میں آپ کا گھر، فاطمہ
آپ نے دیکھا ہے محشر، قبلِ محشر، فاطمہ
آپ کی نسبت ہوئی ہم کو میسّر ، فاطمہ
آپ کی مدحت ہوئی اپنا مقدر، فاطمہ
ضبط کے خُو گر علی تھے ، صبر کے خُوگر حسین
آپ کی ہستی میں ہیں دونوں ہی جوہر ، فاطمہ
ذی حسب، اعلیٰ نسب، زہرہ لقب، ذوالاحترام
سب سے اعلیٰ سب سے افضل، سب سے بہتر فاطمہ
خم شہنشاہانِ عالم کی جبیں ہے دیکھ کر
آپ کا نقشِ کفِ پائے مطہّر ، فاطمہ
بندگی کیا، دین کیا، ایمان کیا ، اِسلام کیا
مصطفٰے ، شیرِ خدا ، شبّیر و شبّر فاطمہ
سر فروشی کا سبق دے ، صبر دے ، ایثار دے
اب کہاں ایسی کوئی آغوشِ مادر، فاطمہ
عرش ہِل جاتا اگر فریاد کو اُٹھتے وہ ہاتھ
آپ نے رکھا اُنہیں چکّی کا خُوگر، فاطمہ
مصطفٰے کے اور آل ِ مصطفٰے کے ہیں غلام
اپنے دامن میں چھپالیں یہ سمجھ کر، فاطمہ
خاتمہ بالخیر ہو عشقِ نبی میں جب ادیب
ڈال دیں رحمت کی اِس مجرم پہ چادر فاطمہ
درِ میخانہ وا ہوتا ہے اب جوشِ عقیدت کا
شراب ان کے تصور کی صبو ان کی محبت کا
نظر کے سامنے سب اہلِ دل اور اہلِ نسبت ہیں
خداوند بھرم رکھنا مری نسبت ، مرے غم کا
حمایت میں ، امامت میں ، شجاعت میں ، حوادث میں
علی داور ، علی رہبر ، علی حیدر، علی مولیٰ
کوئی عابد ، کوئی عارف، کوئی عاطف ، کوئی عاکف
کوئی عاجز ، کوئی عالی ، کوئی عاشق نہیں ایسا
قناعت میں قلندر وہ سخاوت میں سمندر وہ
شجاعت میں لقب ہے قوتِ پروردگار ان کا
وہ سیف اللہ ، وجہہ اللہ ، دامادِ رسول اللہ
وہی شبیر کا بازو، وہی سرمایہ ٔ زہرا
بتوں کا سر جُھکانے میں ، دلوں میں گھر بنانے میں
وہی ضرب الفتح نکلا، وہی خیبر شکن ٹھہرا
امیرٌ وہ جریٌ وہ شجاعٌ وہ شہیدٌ وہ
فصیحٌ وہ بلیغٌ وہ خطابت پر جہاں شیدا
مِری عزّت ، مری عظمت، مِری اُلفت مِری نسبت
علی مولیٰ ، علی مولیٰ ، علی مولیٰ علی مولیٰ
ادیب ان کی محبّت میں اگر آنکھوں میں اشک آئے
اِدھر آنکھوں میں نم ہوگا اُدھر لطف و کرم ہوگا
دلہن کی خوشبو سے مست کپڑے نسیمِ گستاخ آنچلوں سے
غلاف ِمشکیں جو اُڑ رہا تھا غَزال نافے بسا رہے تھے
پہاڑیوں کا وہ حسن تزیین وہ اونچی چوٹی وہ نازو تمکین!
صبا سے سبزہ میں لہریں آتیں دوپٹے دھانی چنُے ہوئے تھے
نہا کے نہروں نے وہ چمکتا لباس آبِ رواں کا پہنا
کہ موجیں چھڑیاں تھیں دھار لچکا حبابِ تاباں کے تھل ٹکے تھے
پرانا پُر داغ ملگجا تھا اٹھا دیا فرش چاندنی کا
ہجومِ تارِ نگہ سے کوسوں قدم قدم فرش بادلے تھے
غبار بن کر نثار جائیں کہاں اب اُس رہ گزر کو پائیں؟!
ہمارے دل حُوریوں کی آنکھیں فرشتوں کے پَر جہاں بچھے تھے
خدا ہی دے صبر جانِ پُرغم دِکھاؤں کیوں کر تجھے وہ عالم؟!
جب ان کو جُھرمٹ میں لے کے قدسی جِناں کا دولہا بنا رہے تھے
قصیدۂ معراج حصہ 3
زحال مسکین مکن تغافل ورائے نیناں بنائے بتیاں
کہ تاب ہجراں نہ دارم اے جاں نہ لیہو کا ہے لگائے چھتیاں
شباںِ ہجراں دراز چوں زلف ور وزِ وصلت چوں عمر کوتہ
سکھی پیا کو جو میں نہ دیکھوں تو کیسے کاٹوں اندھیری رتیا
یکا یک ا ز دل دو چشم جادو بصد فریبم ببرو تسکیں
کسے پڑی ہے جو جا سنائے ہمارے پی کو ہماری بتیاں
چوں شمع سوزاں چوں ذرّہ حیراں زمہر آں مہہ بگشتم آخر
نہ نیند نیناں نہ انگ چیناں نہ آپ آئے نہ بھیجیں پتیاں
بحق روزِ وصالِ دلبر کہ داد مارا فریب خؔسرو
لیپہتِ من کے درائے راکھوں جو جائے پاؤں پیا کی کھتیاں
زینت ِ دوشِ مصطفٰے تجھ کو مِرا سلام ہے
نُور ِ نگاہِ فاطمہ تجھ کو مِرا سلام ہے
منزلِ ہست و بود میں کون ابد مقام ہے
دیکھ رہا ہوں میں حسین ، ایک ترا ہی نام ہے
کشتۂ خنجرِ تسلیم و رضا تجھ کو سلام
مشعلِ نُورِ محمد کی ضیا تجھ کو سلام
نکہتِ بوئے گلستانِ وفا تجھ کو سلام
آبروئے صدف صدق و صفا تجھ کو سلام
شبِ غم کاٹ دے میری ، امیدوں کی سحر کر دے
مرے غم کو خوشی کر، میرے عیبوں کو ہنر کر دے
امید و بیم سے گذروں فسونِ وہم سے نکلوں
مجھے اپنی حضوری دے مرا حال دگر کر دے
وہ میرے حال سے واقف ہیں ان کو ہے خبر میری
بھلا کیسے کہوں کوئی انہیں میر ی خبر کر دے
بھلا یہ جان و دل لیکر کہاں جائے گا طیبہ سے
انہیں یا نذر کر یا صدقۂ خیر البشر کر دے
اگر تو چاہتا ہے دوزخ ِ دنیا سے آزادی
مدینہ ہو تیرا گھر ، یہ تمنّا دل میں گھر کر دے
تیری دولت تیرا سایہ غم ، تیرے آنسو ہیں
بہا کر نعت میں نادان ان کو تو گہر کر دے
یہ میری زندگی کا کارواں ، ہے اے خدا ! اس کا
مدینہ جس طرف ہے اس طرف روئے سفر کر دے
جگہ دیدے ادیب ِ خوش نواء کو اپنے قدموں میں
رہی فردِ عمل اس کو جِدھر چاہے اُدھر کر دے
عشقِ شہِ کونین میں دل داغ جگر داغ
گلزارِ محبّت کی ہے شاخوں پہ ثمر داغ
لکھتا ہوں شبِ ہجر میں جب نعت نبی کی
تحریر کے نقطے مجھے آتے ہیں نظر داغ
کوڑی کے کوئی مول نہ لے لعلِ بدخشاں
جو ہجرِ مدینہ کے دکھاؤں میں اگر داغ
دیکھا جو نظر بھر کے سوئے گنبدِ خضرا
بعد اس کے نظر آئے مجھے شمس و قمر داغ
اِک میں ہی نہیں ہجر میں ، افلاک کا عالم
دیکھو تو نظر آئیں گے تا حدّ نظر داغ
اِس جسد میں کچھ قلب و نظر پر نہیں موقوف
آقا کی عنایت سے ہے سب گھر کا یہ گھر داغ
ہر داغ کو ہے نورِ عَلیٰ نوُر کی نسبت
الماس کوئی داغ، کوئی مثلِ گہر داغ
خورشیدِ محبّت کی طمازت سے پگھل کر
بن جاتا ہے عشّاق کے سینوں میں جگر داغ
بخشش کا سہارا ہے شفاعت کی سند ہے
کہنے کے لیے لفظ بیاں میں ہے اگر داغ
جس داغ کو عشقِ شہِ ولا سے ہے نسبت
ظلمت کے ہر عالم میں ہے وہ نُورِ سحر، داغ
دھوتے ہیں گناہوں کی سیاہی کے یہ دھبّے
اُلفت میں دکھاتے ہیں کبھی یہ بھی ہُنر داغ
رکھتا تھا ادیب اپنی جبیں در پہ جُھکا ئے
دھوتا تھا گناہوں کے وہاں شام و سحر داغ
عشق کے چراغ جل گئے
ظلمتوں سے ہم نکل گئے
ان کے نقشِ پا پہ چل گئے
گر رہے تھے جو سنبھل گئے
جس طرف حضور چل دیئے
خار پھول میں بدل گئے
روئے مصطفٰے کی اِک کرن
ظلمتوں کے بَل نِکل گئے
دیکھ کر جمالِ مصطفٰے
سنگ دل جو تھے پگھل گئے
ان کا ذکر سن کے رنج و غم
اپنے راستے بدل گئے
ہے یقین کہ ان کے دَر پہ ہم
آج گر نہیں تو کل گئے
ان کے در پہ جو پہنچ گئے
ہر حصار سے نِکل گئے
ان پہ جب درود پڑھ لیا
حادثوں کے رُخ بدل گئے
کس نے نبی کا دامن تھاما سب سے پہلے بڑھ کر وہ صدیقِ اکبر
کس نے اٹھایا بارِ امامت لے کر اذنِ پیمبر وہ صدیقِ اکبر
حکمِ خدا سے چھوڑ چلا جب مکّہ دین کا رہبر نام خدا کا لیکر
راہِ خدا میں اس دم جو شئے نکلی نقد پیمبر وہ صدیقِ اکبر
اِک دن کس نے خواب میں دیکھا، جھولی میں چاند آئے اور پھر گھر گھر آئے
دینِ محمد ایسی بشارت لے کر آیا کس پر وہ صدیقِ اکبر
روحِ امیں دربارِ نبی میں ٹاٹ پہن کر آئے جھک کر حال سنائے
اہل ِ فلک کا پہناوا ہے آج یہ کس کی ادا پر وہ صدیقِ اکبر
جن کے دامن کی پاکی پر روحِ قدس کا آنا سورۃ نور سنانا
ایسی حرمت والی اُمِّ اُمّت جن کی دختر وہ صدیقِ اکبر
جن کا عہد ِ رسالت، بارش ابرِ کرم کی ہے بے حد انکا نام محمد
پتھر جن کے دورِ خلافت میں تھے لعل و جواہر وہ صدیقِ اکبر
کسی کا تیر نظر دل کے پار ہو کے رہا
تو دل نے دم بھی نہ مارا نثار ہو کے رہا
تمہاری سوزنِ مژگاں نے کی وہ بخیہ گری
کہ رختِ ہستی مرا تار تار ہو کے رہا
تمہارے روئے منور کی روشنی کی قسم
کہ اس سے قلبِ سیاہ جلوہ بار ہو کے رہا
کھلا تو خانۂ دل میں وہ چھپ کے بیٹھ رہا
چُھپا تو ہر جگہ وہ آشکار ہو کے رہا
اگر چہ حسن کی حیرت اُسے ملی نہ ملی
مگر وہ عشق کا آئینہ دار ہو کے رہا
کِسے ملے گھاٹ کا کنارہ کدھر سے گزرا کہاں اتارا؟
بھرا جو مثلِ نظر طَرَارا وہ اپنی آنکھوں سے خود چُھپے تھے
اُٹھے جو قصرِ دَنیٰ کے پردے کوئی خبر دے تو کیا خبر دے؟
وہاں تو جاہی نہیں دُوئی کی نہ کہہ کہ وہ بھی نہ تھے ارے تھے
وہ باغ کچھ ایسا رنگ لایا کہ غُنچہ و گل کا فرق اٹھایا
گرہ میں کلیوں کے باغ پھولے، گُلوں کے تکمے لگے ہوئے تھے
مُحیط و مرکز میں فرق مشکل ،رہے نہ فاصل خطوط واصل
کمانیں حَیرت میں سَر جُھکائے عجیب چکر میں دائرے تھے
حِجاب اٹھنے میں لاکھوں پردے ،ہر ایک پردے میں لاکھوں جلوے
عجب گھڑی تھی کہ وَصْل وفُرقت، جنم کے بچھڑے گلے ملے تھے
زبانیں سوکھی دِکھا کے موجیں تڑپ رہی تھیں کہ پانی پائیں
بَھنور کو یہ ضُعفِ تِشنگی تھا کہ حلقے آنکھوں میں پڑگئے تھے
وہی ہے اوّل وہی ہے آخِر وہی ہے باطن وہی ہے ظاہر!
اُسی کے جلوے، اسی سے ملنے ،اُسی سے، اُس کی طرف گئے تھے
Qaseeda-me’raaj/10
کعبہ سے اگر تربتِ شہ فاضل ہے
کیوں بائیں طرف اُس کے لیے منزل ہے
اس فکر میں جو دل کی طرف دھیان گیا
سمجھا کہ وہ جسم ہے یہ مرقد دل ہے
تم چاہو تو قِسمت کی مصیبت ٹل جائے
کیوں کر کہوں ساعت ہے قیامت ٹل جائے
لِلّٰہ اٹھا دو رُخ روشن سے نقاب
مولیٰ مری آئی ہوئی شامَت ٹل جائے
کمانِ امکاں کے جھوٹے نقطو! تم اوّل آخِر کے پَھیر میں ہو
محیط کی چال سے تو پوچھو! کدھر سے آئے کدھر گئے تھے؟
اُدھر سے تھیں نذرِ شَہ نمازیں اُدھر سے انعامِ خُسْروِی میں
سلام ورحمت کے ہار گندھ کر گُلوئے پُر نُور میں پڑے تھے
زبان کو انتظارِ گُفتن، تو گوش کو حسرتِ شُیدخُن
یہاں جو کہنا تھا کہہ لیا، تھا جو بات سننی تھی سن چکے تھے
وہ برجِ بطحا کا ماہ پارہ، بہشت کی سَیر کو سدھارا
چمک پہ تھا خلد کا ستارہ کہ اِس قمر کے قدم گئے تھے
سُرُوْر ِمقدم کے روشنی تھی کہ تَابِشوں سے مہِ عَرَب کی
جِاَپں کے گلشن تھے جَھاڑ فرشی جو پھول تھے سب کنول بنے تھے
طَرَب کی نازِش کہ ہاں لچکیے، ادب وہ بندش کہ ہل نہ سکیے
یہ جوش ِضدَّیْن تھا کہ پودے کشاکش ِارّہ کے تلے تھے
خدا کی قدرت کہ چاند حق کے کروڑوں منزل میں جلوہ کرکے
ابھی نہ تاروں کی چھاؤں بدلی کہ نور کے تڑکے آلیے تھے
نبئ رحمت !شفیعِ اُمت رضا پہ للہ !ہو عنایت!
اِسے بھی اُن خِلْعَتوں سے حِہّے، جو خاص رحمت کے وَاں بٹے تھے
ثَنائے سرکار ،ہے وظیفہ، قبولِ سرکار، ہے تمنا!!!
نہ شاعری کی ہوس نہ پروا روی تھی کیا کیسے قافیئے تھے
Qaseeda mer’aa/11
کیا شور ذکر و فکر، دعا پنجگانہ کیا
آتا نہیں ہے عشق میں آنسو بہانا کیا
آنکھیں بھی اشکبار ہیں لب پر درود بھی
رحمت کو اب بھی چاہیے کوئی بہانہ کیا
رکھا جو ہاتھ سینے پہ دھڑکن نہیں ملی
دل، ہو گیا مدینے کی جانب روانہ کیا ؟
وہ بھی ہیں آستاں بھی ہے، کردے نثار جاں
پھر لوٹ کر اب آئے گا ایسا زمانہ کیا
موسیٰ علیہ السلام کا حال مانعٔ حسرت ہوا ہمیں
تابِ نظر نہیں ہو تو نظریں اٹھانا کیا
تسبیح دانے دانے مُصلّا ہے تار تار
آیا ہے خانقاہ میں کوئی دوانہ کیا
ڈرتا ہے کس لیے غمِ دوراں سے رات دن
پالا نہیں ہے تو نے غمِ عاشقانہ کیا
یہ مرحلہ ہے زیست کا طے کر اسے بھی
اب مر کے ہوگا سوئے مدینہ روانہ کیا
دیدار بھی حضور کا ، کوثر کا جام بھی
دیکھو قصیدہ لکھ کے ملا ہے خزانہ کیا
سر کو جھکا دیا جو درِ یار پر ادیؔب
جب تک قضا نہ آئے تو سر کو اٹھا نا کیا
مجھ سا عاجز مدحِ مَمدُوحِ خدا لکھتا رہا
اور کیا لکھتا ، وَرَفعنا لک لکھتا رہا
حمد میں لکھتا رہا نعتِ حبیبِ کبریا
نعت کے شعروں میں بھی حمدِ خُدا لکھتا رہا
ذہن کو تھی جستجو الفاظ کی شایان ِ شان
میں تھا چُپ، میرا قلم صَل عَلٰی لکھتا رہا
روشنائی اشک تھی اور نوکِ مژگاں تھی قلم
اس طرح بھی ایک شب ان کی ثناء لکھتا رہا
کیوں پُکارے غیر کو اپنی مدد کے واسطے
عمر بھر جس کا قلم “یا مصطفٰے”لکھتا رہا
فکر و فن بے بس نظر آئے مجھے اس راہ میں
عشق تھا جو کیا سے کیا اور کیا سے کیا لکھتا رہا
شیوۂ جود و کرم کی بات جب نکلی ادیبؔ
مجھ پہ جو گذری میں اپنا ماجرا لکھتا رہا
محفل میں بلا کے مجھے دیوانہ بنایا
نظروں سے پلاکے مجھے مستانہ بنایا
بتلاؤں کیا حضور نے کیا کیا نہ بنایا
خود شمع بنے اور مجھے پروانہ بنا یا
پیاسا ادھر ادھر نہ بھٹکتا پھر ے کوئی
منگتے کی لاج رکھ لی کہ میخانہ بنایا
تصویر مدینہ لئے پھرتے ہیں جگرمیں
اللہ سے قربت کا یہ کاشانہ بنا یا
احسا ن کیا ہے آپ نے کہ دل رشید کا
دنیا کے ہر خیال سے بیگانہ بنایا
مدحت ان کی رحمت بھی ہے بخشش کا سامان بھی ہے
عشق کی دستاویز بھی ہے اور عاشق کی پہچان بھی ہے
میری بھلا اوقات ہی کیا جو ان کی ثناء میں لب کھولوں
یہ تو انہیں کا لطف و کرم ہے اور ان کا احسان بھی ہے
ایسی کوئی شے پاس نہیں جو نذر میں ان کو پیش کروں
یوں کہنے کو قلب و جگر ہیں جسم بھی ہے اور جان بھی ہے
پاسِ ادب رکھ اپنی حدوں سے بڑھ کر کوئی بات نہ کر
ان کی حدوں تک جانے والے اپنی تجھے پہچان بھی ہے
ذکر میں ان کے کوئی ادب کا دامن ہاتھ سے چھوڑے تو
میری زباں تلوار بھی ہے اور تقلیدِ حسّان بھی ہے
مرکز صدق و صفا مرکزِ ایمان صدیق
مصحف ِ عشق و محبت کے نگہباں صدیق
اسمِ اعظم ہیں جنوں کوش محبت کے لیے
ہو ش والوں کے لیے نقشِ سلیمان صدیق
کمندِ عقل میں آئے کرے خِرد تحقیق
نگاہ میں جو سمائے نظر کرے توثیق
ہے جبریل کی پرواز سے پرے جو مقام
ہیں اس مقام کی تصدیق کے لیے صدیق
پابوسی گلاب سے مٹی ہے مشکِ تر
پارس کی ایک لمحہ رفاقت ہے قدر زر
پہلو ہو مصطفٰے کا میّسر جسے ادیب
کیا کہئے کیا ہے اپنے مراتب میں وہ بشر
کاتبِ تقدیر کا جنبش میں جب آیا قلم
منزلوں سے ما ورٰی پہنچے فقیروں کے قدم
مسجدِ نبوی میں اِک دن جاں نثارِ مصطفٰے
تھے مصلّے پر امام اور مقتدی شاہِ امم
ہیں پرستارِ محمد بے حساب و بے شمار
ذی وقار و سر بلند و سرفروش جاں نثار
ہاں مگر صدیق کے ہیں مرتبے کچھ اس طرح
یارِ ہجرت، یارِ غزوہ، یارِ بزم و یارِ غار
تشنہ کا مانِ حقیقت کو ہیں کوثر صدیق
کاروان ِ رہِ الفت کو ہیں رہبر صدیق
ختم نہ ہوگا نہ کبھی سلسلۂ عشق ادیب
عشق کے رب ہیں ، محبت کے پیمبر صدیق
مُشتِ غبارِ خاک اور تیرا بیانِ بر تری
خالقِ کُل کلام سے کون کرے گا ہمسری
حمدِ خُدائے لَمْ یَزلْ تیری ثنائے دِلربا
وحیِ الٰہ العالمیں ، تیری زبانِ دلبری
تیرے عروج کی خبر روحِ قدس نہ پاسکی
عویٰ ٔ معرفت کوہے پیشِ ترے سُبک سری
کلمۂ لاشریک میں، ذکر ترا شریک ہے
منزل لاالٰہ تک، تو ہی نشانِ رہبری
قلب ہے کاسۂ گدا، دستِ سوال ہے وجود
رُوح ، فقیر ِ آستاں، عشق تیرا تونگری
ذکرِ حبیب کبریا ، مدح و ثنائے مصطفٰے
میرا شعور ِ فکر و فن ، میرا ضمیرِ شاعری
سدا لب پہ ہو جب صدائے مدینہ
کہاں چین دل کو سوائے مدینہ
چلے آج ایسی ہوائے مدینہ
اُڑائے ہمیں لے کے جائے مدینہ
بَرائے مدینہ بِنائے دو عالم
بِنائے دو برائے مدینہ
حرم کا پتہ مجھ سے کیوں پوچھتے ہو
مرا دل ہے قبلہ نمائے مدینہ
گنہگار کے دل میں دوزخ کی آتش
لگائے زمانہ ، بُجھائے مدینہ
مدینے کا بندہ مدینے ہی پہنچے
بس اتنا کرم کر، خدائے مدینہ
قدم چُوم لوں بَے وطن کرنے والے
مجھے دے اگر تو، سزائے مدینہ
کہیں تو گنہ گار کا ہو ٹھکانہ
خُدا نے رکھی یوں، بِنائے مدینہ
گرفتار کو اب گرفتار رکھیے
کہاں جائے گا پھر رہائے مدینہ
وہ “طلع” وہ “بدرُ علینا ” کے نغمے
کجا ہم کجا وہ ثنائے مدینہ
ادیب حشر میں زیرِ سایہ رہیں گے
تَنی ہوگی سر پر رِدائے مدینہ
مصطفٰے کا نام، توقیر ِ ادب مصطفٰے کا ذکر، تعمیرِ ادب
نعت میں ہونا قلم کا سَر نگوں سر بلندی ٔ مشاہیر ِ ادب
وہ مجاہد حضرتِ حسان تھے جنکے ہاتھو ں میں تھی شمشیر ِ ادب
پارہ پارہ کر گئے قلبِ غنیم اُس کمانِ عشق کے تیرِ ادب
حافظِ شیراز سے پوچھے کوئی لذّتِ شیرینیٔ شیرِ ادب
پیرویٔ مثنویٔ رُوم سے بن گئے اقبال بھی پیرِ ادب
سورۂ کوثر پہ ہے حُجّت تمام رفعتِ افلاک تحریرِ ادب
شیخ سعدی کی رباعی دم بدم ضربِ مضرابِ مزا میرِ ادب
مستند ہے آپ کا فرماں ادیب نعت ہے جامی کی جاگیرِ ادب
مہکی ہوئی ہوا کا مجھے لمس جب ملا
میرے تصورات کا در مثل گل کھلا
افکار کے دریچوں سے آنے لگی صدا
کیا خوب حق نے تجھ کو یہ موقع عطا کیا
اٹھ، مدح خوان سید عالی مقام ہو
چل اے گناہ گار ذرا نیک نام ہو
الفاظ دست بستہ مرے سامنے ہیں سب
جانچا ہے میں نے خوب ہر اک لفظ کا نسب
تھرا رہا ہے پھر بھی قلم، کیا لکھوں لقب
میں پیش آفتاب مثال چراغ شب
کیسے بیاں ہو مرتبہ عالی وقار کا
لاؤں کہاں سے ڈھنگ میں پروردگار کا
لب و ا کروں ثناء کے لیے کن کے باب میں
جبریل دست بستہ ہیں جن کی جناب میں
مداح خود قرآں ہے رسالت ماب میں
میرے خیال کی تگ و دو کس حساب میں
منظور شاعری ہے نہ حسن کلام
اے خامہ خیال، ادب کا مقام
سیر خیال و فکر کو بستان ہیں بہت
تفریح طبع ناز کے سامان ہیں بہت
تحریر حسن و عشق کے عنوان ہیں بہت
شعرو سخن کے واسطے میدان ہیں بہت
جن کے قدم سے رونق بزم حیات
تعریف اس نبی کی تقاضائے ذات
یہ مسئلہ تخیل و جذبات کا نہیں
واقف میں گرد و پیش کے حالات کا نہیں
اور علم یہ کہ علم بھی ہر بات کا نہیں
عرفان مجھ کو اپنی ہی خود ذات کا نہیں
پھر مجھ سے پوچھنا کہ محمد کی شان
گونگے کے منھ میں ہو بھی اگر تو زبان
قند و شہد نبات کو یک جا کریں اگر
گل کی ہر ایک ذات کو یک جا کریں اگر
رنگینی حیات کو یک جا کریں اگر
کل حسن کائنات کو یک جا کریں اگر
جتنا بھی رنگ و نور لیے کائنا ت ہے
یہ سب تبسم شہ دیں کی زکٰوۃ ہے
کہتے ہیں جس کو مدحت سلطان ذوالمنن
مسند نشیں ہے نو ک زباں پر وہ گلبدن
سرتا بپا ہے نکہت و رعنائی چمن
اس نور کے بدن پہ ہے خوشبو کا پیرہن
خوشبو سے اور نور سے جس کا خمیر ہے
زلفوں کی جس کے شان مشیت اثیر ہے
تمہید سے گریز کی جانب قدم قدم
پڑھتے ہوئے درود محمد مرا قلم
لے کر سرور عشق میں ڈوبا ہوا علم
ہو کر نیاز مند، کیا اس نے سر کو خم
خم ہو کے خط میم بنا تا چلا گیا
پردے روز حق کے اٹھاتا چلا گیا
وہ میم جو کمال ہے اک آغوش کی طرح
محشر میں ایک سایہ گل پوش کی طرح
بندوں پہ ، رب کی رحمت پر جوش کی طرح
خم اس کا فرق عاشق مے نوش کی طرح
جو درمیاں کمان کے آیا اماں میں ہے
باہر جو رہ گیا وہ شمار زیاں میں ہے
کھلنے لگے رموز ، محبت کے سر بسر
ہونے لگا خیال پہ الہام کا اثر
افکار خوشبوؤں میں شرابور تر بہ تر
جنبش جو لب کو دی تو ٹپکنے لگے گہر
اس پر بھی ان کی شان کے شایاں نہ لکھ سکا
بندہ ہوں اس لیے کوئی قرآں نہ لکھ سکا
یوں کر رہے ہیں مدحت سر کار ذوالمنن
کوثر سے دھوکے لائیں ہیں تعریف کا متن
پھرتے رہے بہار میں لے کر چمن چمن
پہنا دیا زبان کو عنبر کا پیرہن
سرمہ ہے کوہ طور کا، غازہ گلاب کا
آغاز نعت یوں ہے رسالت ماب کا
پہلے نبی کے عشق کی دولت خدا سے لی
دولت ملی تو فکر کی جرأت خدا سے لی
جرأت ملی تو حسنِ عقیدت خدا سے لی
طرزِ بیاں کے واسطے نُدرت خُدا سے لی
جرأت مِلی خیال ملا اور قلم ملا
یہ سب ملے تو نعت پہ اذن ِ رقم ملا
توڑی ہے میں نے میکدہ عشق کی قیود
میرے جنون غم کی تعین نہیں حدود
ہوتا ہے ہر نفس مرا منت کش درود
پہلے درود پھر سخن نعت کا ورود
میں بھیجتا ہوں نذر صلوٰۃ و سلام کی
وہ بھیجتے ہیں مجھ کو اجازت کلام کی
تاباں اسی کے نور سے ہے چہرہ حیات
صدیوں کے جس نے آکے مٹائے تو ہمات
ایک جست جس کی نسخہ تسخیر کائنات
جس کے قدم کا نقش بنا علم مدنیات
کہنے کو وہ بشر ہے اگر قیل و قال میں
اپنی مثال بھی نہیں رکھتا مثال میں
یہ ماہتاب آپ کا چہر ہ نہیں نہیں
یہ آفتاب آپ کا جلوہ نہیں نہیں
یہ بوئے مشک زلف کا حصہ نہیں نہیں
یہ کہکشاں ہے نقش کف پا نہیں نہیں
اس اوج تک نہ جائے گی پستی شعور کی
بالا ہے ہر خیال سے ہستی حضور کی
جلتی نہ اس جہاں میں جو شمع محمدی
دنیا کو حشر تک نظر آتی نہ روشنی
حاکم ہو یا غلام، گنہگار و متقی
ملتا نہ آدمی کو شعور خود آگہی!
ہوتی نہ کچھ تمیز سفید و سیاہ
جلوؤں کا اعتبار نہ ہوتا نگاہ
جس روز لب کشاد کسی کی نہیں مجال
دیکھیں گے آسمان و زمیں روئے ذوالجلال
ہو گا مقام دید رسول و نبی کا حال
دیکھیں گے ایک ایک کو مسکین کی مثال
ڈھونڈیں گے انبیاء اسی رحمت نوید
تڑپے گی ہر نگاہ محمد کی دید
ہے کون دے سکے گا جو اس دن کوئی حساب
توبہ بھی یاد آئی تو ، توبہ کا بند باب
بھائی کو بھائی دے گا نہ فریاد کا جواب
شعلے زمین پہ ہوں گے تو نیزے پہ آفتاب
امت ہو ، یا نبی ہو ، غضب کی نگاہ میں
محشر میں ہوں گے سارے انہیں کی پناہ میں
نازاں ہوں گرچہ ہوں میں گنہگار دیکھنا
اس کملی پوش کا ہوں پرستار دیکھنا
انوار ذکر سید ابرا ر دیکھنا
مجھ سے گدا کے لب ہیں گہر یا ر دیکھنا
ہر دم ہے لب پہ تذکرہ بے نظیر بھی
راضی رسول پاک بھی رب قدیر بھی
نعت رسول پاک میں وہ آب و تاب ہو
ایک ایک لفظ مدح کا عزت ماب ہو
روشن مرے کلام کا یوں آفتاب ہو
مقبول بارگاہ رسالت ماب ہو
محشر میں جب بلائیں تو اس طرح دیں صدا
حاضر کر و کہاں ہے ثنا خوان مصطفٰے
ہر آئینہ دل کی جِلا ذکرِ محمد
اللہ کی بندون کو عطاء ذکرِ محمد
مخلوق سے خالق کی رضا ذکرِ محمد
لازم اسی مقصد سے ہو ، ذکرِ محمد
ہر آرزوئے نطق کا انجام یہی ہے
دنیا کے لیے امن کا پیغام یہی ہے
ہو بزمِ سخنداں تو یہ پھولوں کا بیاں ہے
موجوں کا ترنّم ہے یہ بلبل کی زباں ہے
الفاظ کی عظمت ہے خطابت کی یہ شاں ہے
اس ذکر سے بندوں کو گناہوں سے اماں ہے
جذبات کو سیماب تخیّل کی جلا ہے
یہ خاص شَرَف ذکرِ محمد کو ملا ہے
قائم ہے مسلمان کا ایمان اِسی سے
اللہ کے طالب کو ہے عرفان اِسی سے
ہر عاشق ِ صادق کی ہے پہچان اِسی سے
انسان کو ہے عظمتِ انسان اِسی سے
سرمایۂ ایمان و قرارِ دل و جاں ہے
قرآں کی تلاوت ہے یہ کعبہ کی اذاں ہے
نعتِ شہِ کونین کی سرو و سمنی دیکھ
لفظوں کی قبا میں یہ عجب گلْبدنی دیکھ
چہر ہ کی دمک طور کے جلووں سے بنی دیکھ
زلفوں کی مہک نافۂ مشک ِ ختنی دیکھ
نسبت اگر الفاظ کو دوں قوسِ قزح سے
سیراب ہوں شاید مئے معنٰی کی قدح سے
اے طٰحہٰ و مزمِّل و یٰسین و مدثّر
اے سیّد و سردارِ اُمم طیّب و طاہر
کیا کہہ کے پکارے مرے آقا کو یہ شاعر
تصویر ِ خداوند کے شہکار مصوّر
خم گردنِ تفسیر ہے شرمندہ صراحت
یا رب! مرے الفاظ کو دے نہجِ بلاغت
اے صِلِّ عَلٰی نُور شہِ جنّ و بشر نور
لَب نور دہن نور سخن نور نظر نور
سر نور قد م نور شکم نور کمر نور
جس گھر میں تِرا ذِکر کریں لوگ ، وہ گھر نُور
آں زینتِ کونین و زیبائے جہاں اَست
آں باعثِ حیرانی آئینہ گراں اَست
ہم کو بھی خبر ہے کہ گناہوں کی سزا ہے
لیکن وہ خطا پوش ہمارا بھی خدا ہے
زاہد کو اگر نازِ عبادت ہے بجا ہے
پلّہ میں ہمارے بھی محمد کی ثناء ہے
محشر میں جو نکلے گا یہی نام دہن سے
جُھک جائے گا پلّہ مِرا نیکی کے وزن سے
وہ ماہِ عرب، ماہِ مبیں ، ماہِ لقا ہے؟
تصویر ہے ، تنویر ہے ، تعبیر ہے، کیا ہے ؟
اِک نور کا پیکر ہے کہ پردہ میں خدا ہے
آفاق میں ایسا نہ تو ہوگا نہ ہوا ہے
عاشق کی صدا یہ ہے مرے دل میں نہاں ہے
جبریل سرِ عرش پکارے وہ یہاں ہے
یہ جنبش لب، تابِ سخن، اور یہ گفتار
افکار کی یورش ہے تو الفاظ کی یلغار
ہو جائے اگر وقف ِ ثنائے شہِ ابرار
ہوتا ہے وہ حسان کی مانند گہر بار
رہتا ہے اسی دہن میں وہ شب ہو کہ سحر ہو
جس پر مرے سرکار کی اِک بار نظر ہو
میں تیرے حُسنِ کرم اور عنایتوں کے نثار
ہو میرے رنگ میں سعدی کے گلستاں کی بہار
کلامِ عارف عرفی کا پیرہن بن جاؤں
میں زلفِ نعت کی خوشبو سے شب دلہن بن جاؤں
سِوا حضور کوئی خواب میں بھی آئے نہ غیر
طفیل بردۂ الطاف بر امامِ بوصیرؒ
تیرے کرم کے تصدّق، کر اور اِک احسان
کہ میری فکر پہ سایہ فگن رہیں حسّان ؓ
تمام عمر وہ نعتوں کا اہتمام رہے
کہ میرے گرد فرشتوں کا اژدھام رہے
طفیلِ شاہِ اُمم ، جن پہ صَد سَلام و درود
ادیب کا بھی ثناء میں مقام ہو محمُود
میں گذرتا ہی گیا راہ تھی پرخم پرخم
مجھ پہ سرکار کی نظریں جو تھیں پیہم پیہم
ان کے دربار میں پہونچو کہ یہاں سے مانگو
شرط اتنی ہے کہ یہ آنکھ ہو پُرنم پُرنم
آپ آئے تو پڑی جان میں ٹھنڈک ورنہ
زندگی زخم تھی، آواز تھی مرہم مرہم
پیش کر دوں گا سرِ حشر کمائی اپنی
دولتِ نعت جمع کی ہے جو درہم درہم
عرش ہو فرش ہو محشر ہو ، زماں ہو کہ مکاں
ہر جگہ ان کے ہی لہراتے ہیں پرچم پرچم
مہرومہ ، کاہہکشاں ، نقشِ کفِ پائے رسول
گیسوئے شب ہے اسی نُور سے برہم برہم
ان کی رحمت کی تو ہر بوُند سمندر ہے ادیب
جس کے آگے یہ سمندر بھی ہے شبنم شبنم
میں مدینے میں ہوں اور ذکر پیمبر بھی نصیب
یعنی پیاسے کو ہے دریا در دریا بھی نصیب
خوشبوئے زلف بھی عکسِ رُخِ انور بھی نصیب
صبحِ کافور بھی ، اور شامِ معنبر بھی نصیب
رُخ پہ مَلنے کے لیے ، رُوح میں ڈھلنے کے لیے
گردِ کوچہ بھی نصیب ، بادِ معطّر بھی نصیب
مسندِ صُفّہ کے انوار وہ بابِ جبریل
اس گنہ گار کی آنکھوں کو وہ منظر بھی نصیب
میری آنکھوں میں حرم آنکھ سے باہر بھی حرم
خانۂ چشم کو آئینہ کا جوہر بھی نصیب
ان کی یادوں کو جہاں چین سے نیند آتی ہے
نام دل کے ہے اِک حجرۂ بے در بھی نصیب
ایک اِک لمحہ مرے لب کو مدینے میں ادیب
کلمۂ شُکر بھی اور نعتِ پیمبر بھی نصیب
میں ہوں غمِ طیبہ میں گرفتار چناچہ
ہیں دیدہ و دل زندہ و بیدار چناچہ
غم بھی ہیں مداوا بھی ہیں غم کا میرے آنسو
رہتی ہے سدا آنکھ گہر بار چناچہ
جُز چشمِ محمد ﷺکوئی دیکھے نہ خدا کو
موسٰی کا مقدّر نہ تھا دیدار چناچہ
مخلوق میں کوئی بھی نہ تھا ان سا مکرّم
بخشش کی بندھی ان پہ ہی دستار چناچہ
تم سا تو نہ صادق ہے کوئی اور نہ امیں ہے
دشمن کو بھی کرنا پڑا اقرار چناچہ
محدود بشر تک نہ رہے ان کی بزرگی
جھک جاتے تھے تعظیم کو اشجار چناچہ
اب آپ ہی آکر مجھے دامن کی ہوا دیں
زندہ اسی حسرت میں ہے بیمار چناچہ
اِدراک سے بَالا ہے تخیّل سے پَرے ہے
محروم رسائی سے ہیں افکار چناچہ
رہتا ہے ادیب آپ کی نعتوں کے چمن میں
لکھتا ہے نئے رنگ میں ہر بار چناچہ
نگاہ ہو کہ سماعت زبان ہو کہ قلم
چلے ہیں قافلہ مدح میں قدم بقدم
کبھی زبان کا دعوٰی کہ ہم ہیں بر تر ہم
کبھی قلم کی یہ غیرت کہ ہم سے سب ہیں کم
یہ معرکہ بھی تو وجہِ حصولِ سبقت ہے
حصول سبقت مدحت بھی حُسنِ مدحت ہے
قلم نے کھینچ دیے نقش وہ کہ سب حیراں
زباں نے دل سے نکالے خطاب کے ارماں
سُنا رہا ہوں اسی معرکہ کی بات یہاں
کہ جس کے نقطے ستارے تو لفظ کا ہ کشاں
سماعتوں کو جو لے جائے حوضِ کوثر تک
سُرور جس کا رہے دل میں روزِ محشر تک
چلا ہے آج قلم سایۂ کرم لے کر
گداز دل کا ، تڑپ اور چشمِ نم لے کر
شعور وفکر کا ہاتھوں میں جامِ جم لے کر
خیالِ سرورِ کونین محترم لے کر
رواں براق کی مانند ہے سیاہی میں
فرشتے آئے ہیں افلاک سے گواہی میں
زباں کُھلی کے پھریرا کُھلا ہے رحمت کا
ہر ایک سمت ہوا غُل اذانِ اُلفت کا
نماز عشق کا اور سجدہ محبت کا
سرورِ جاں ہے جو سب کا اسی کی مدحت کا
سماعتوں کا یہ عالم کہ گوش، بر آواز
مرے رسول کی مدحت کا یوں ہوا آغاز
جُھکا کہ رب دو عالم کے پیش اپنی جبیں
کہا قلم نے کہ خلّاقِ آسمان و زمیں
رقم ہو تیرے نبی کا بیان اتنا حَسیں
کہ حرف حرف ستارہ تو نقطہ نقطہ نگیں
زمیں پہ شور تو ہلچل ہو آسمانوں میں
فرشتے چُوم کے بادھیں اسے عماموں میں
بڑے ادب سے زباں نے یہ عرض کی یار ب
ادا ہو مجھ سے بھی اپنے بیان کا منصب
مری صدا ہو رواں جیسے نُور کا مرکب
فلک پہ آئے نظر جیسے رات میں کوکب
کہ ہے نبی سمیع و بصیر کی توصیف
خبر جو غیب کی دے اس خبیر کی توصیف
کہا قلم نے کہ تحریر میری لاثانی
خیال لفظوں میں ایسا کہ یوسفِ ثانی
تمام حرف گماں یہ کہ، لعل رمانی
ہر اِک سطر ہے مری کہکشاں کی پیشانی
مری سیاہی گناہوں کو دھونے والی ہے
سیہ ضرور ہوں لیکن صفت بلالی ہے
زبان یہ بولی کہ میں آج ہوں طرب مانوس
ہے شوق رقص میں میرے بیان کا طاؤس
حَسیں خیالوں سے روشن ہیں جا بجا فانوس
سنے جو خار بیاباں تو رنگ و بو میں ڈھلے
تیرے حبیب کا وہ ذکر ہو کہ تو بھی سنے
قلم نے کہ میں ہر بیان کا ملبوس
مری خموشی ہے الفت کا نالۂ ناقوس
ثنائے سرورِ کونین کا ہوں میں فانوس
یہ خدوخال ہیں میرے ہی لوح پر منقوش
سفید پر میں سیاہی کا داغ ہوتا ہوں
پر عاشقوں کے دلوں کا چراغ ہوتا ہوں
کہا زباں نے کہ رعنائی میں نے کی ہے کشید
مری نواء سے ہی بوئے خطاب کی ہے شمید
کہیں سرودِ بلاغت، کہیں فصیح نشید
کھلیں نہ پر مرے، پرواز کیا کرے گی شنید
ہر اِک زماں میں فضائیں یتیم، میرے بغیر
کلام کس کو سنائیں کلیم میرے بغیر
سنا جو روزِ بیانِ مدیحِ شاہِ اُمم
جھکا ادب سے ہمیشہ کی طرھ فرق قلم
رقم طراز ہوا، اے خدا! تیری ہے قسم
ازل سے وصفِ نگارِ حضور ہوں پیہم
گناہ گار نہیں ڈوب کر سیاہی میں
ہر ایک نعت ہے میری اسی گواہی میں
میں کھینچ لاؤں گا فن کا ہر اِک سطر میں کمال
حصارِ خط میں حسینانِ رنگ و بو کا جمال
لکھوں گا جب میں سلیمان نعت کا احوال
ہمیں بھی اذن دو ، بلقیس ِ فن کرے گی سوال
نبی کا فیض ہے ، فیض و کمال پر ہے گرفت
رہِ فراز نہ دوں گا، خیال پر ہے گرفت
ازل سے تا بہ ابد لوح پر نوشتہ میں
کہیں پہ حال ہوں اور ہوں کہیں گزشتہ میں
ہوں دستِ کاتبِ تقدیر میں نشستہ میں
ثناء کے وصف سے ہم رتبہ فرشتہ میں
میں اپنے رنگ میں رنگِ غلاف کعبہ ہوں
رُخ ِ بلال و گلیمِ رسولِ بطحا ہوں
یہ معرکہ جو سنا، غیب سے صدا آئی
ہر اِک چمن میں انہیں کی ہے جلوہ فرمائی
فقط قلم ہی نہیں ان کا ایک شیدائی
فقط زباں کو ہی حاصل نہیں ہے یکتائی
شجر حجر ہوں مہ و مہر موں زبان و حروف
وجود جن کو ملا سب ثناء میں ہیں مصروف
زباں کو نطق دیا کُل کی آبرو کے لیے
میرے حبیب کو آنا تھا گفتگو کے لیے
قلم بنا اسی تحریرِ مشکِ بو کے لیے
ہر اِک زمانہ میں اسلام کی نمو کے لیے
رسا ہو آدم خاکی کہ دل میں تم دونوں
میرے حبیب کی جو یاد میں گُم دونوں
نمازِ اقصیٰ میں تھا یہی سرّ عَیاں ہوں معنی اول آخر
کہ دست بستہ ہیں پیچھے حاضر جو سلطنت آگے کر گئے تھے
یہ اُن کی آمد کا دبدبہ تھا نکھار ہر شے کا ہو رہا تھا
نجوم و افلاک جام و مینا اجالتے تھے کھنگالتے تھے
نقاب اُلٹے وہ مہرِ انور جلالِ رُخسار گرمیوں پر
فلک کو ہیبت سے تپ چڑھی تھی تپکتے انجم کے آبلے تھے
یہ جوششِ نور کا اثر تھا کہ آب ِگوہر کمر کمر تھا
صَفائے رَہ سے پھسل پھسل کر ستارے قدموں پہ لوٹتے تھے
بڑھا یہ لہرا کے بحر ِوحدت کہ دُھل گیا نام ِریگِ کثرت
فلک کے ٹیلوں کی کیا حقیقت یہ عرش و کرسی دو بُلبلے تھے
وہ ظِلِّ رَحمت وہ رخ کے جلوے کہ تارے چُھپتے نہ کِھلنے پاتے
سنہری زَرْبَتْت اُودی اَطلَس یہ تھان سب دھوپ چھاؤں کے تھے
چَلا وہ سَرو ِچماں خِراماں نہ رُک سکا سدْرَہ سے بھی داماں
Qaseeda-e-meraj part/6
نمی دانم کہ آخر چوں دم ِ دیدارمی رقصم
مگر نازم بہ ایں ذوق کہ پیش یارمی رقصم
تو آں قاتل کہ ازبہرِ تماشا خون من ریزی
من آں بسمل کہ زیر خنجر خونخوار می رقصم
بیا جاناں تماشا کن کہ در انبوہِ جانبازاں
بصد سامان رسوائی سر بازار می رقصم
خوشارندی کے پاماش کنم صد پارسائی را
زہے تقویٰ کہ من بہ جبہ و دستار می رقصم
منم عثمان مروندی کہ یارِ شیخ منصورم
ملامت می کند خلق و من برادرم رقصم
نہ خانقاہ کے باہر نہ خانقاہ میں ہے
جو بُو تراب کا رتبہ مری نگاہ میں ہے
یہی ہے دولتِ ایمان و عِلم و عقل و یقین
علی کو جس نے پکارا ہے وہ پنا ہ میں ہے
گر جہانِ فکر میں درکار ہے اِک اِنقلاب
فکر کی راہوں سے اٹھ کر عشق کا ہو ہمر کاب
چاک کر دامن فسونِ فلسفہ کا ، مارکر
ایک نعرہ یا علی ؓ مشکل کشاء یا بُو تُراب ؓ
بحالِ غم دلِ بے تاب را قرار، علی
کریم و بندہ نواز و کرم شعار، علی
خراب حال و خطا کار و دلِ شکستہ را
خطا معاف، خدا ترس، غمگسار، علی
ہر گردشِ ایّام پہ جو غالب ہے
ہر نعرہ ٔ انقلاب کا جو قالب ہے
ہر لمحۂ مشکل میں طلب ہے جس کی
وہ نام، علی ابنِ ابی طالب ہے
زِ خاکِ پائے علی ما فلک مدار شدیم
زِ لطفِ چشمِ علی فصلِ نَو بہار شدیم
ہیں چہ فیض رسیدی زِ بوسۂ نعلین
گناہ گار کہ بودیم و تاجدار شدیم
ہم خاک ہیں اور خاک ہی ماوا ہے ہمارا
خاکی تو وہ آدم جد اعلیٰ ہے ہمارا
اللہ ہمیں خاک کرے اپنی طلب میں
یہ خاک تو سرکار سے تمغا ہے ہمارا
جس خاک پہ رکھتے تھے قدم سید عالم
اس خاک پہ قرباں دلِ شیدا ہے ہمارا
خم ہو گئی پشتِ فلک اس طعنِ زمیں سے
سن ہم پہ مدینہ وہ رتبہ ہے ہمارا
اس نے لقبِ خاک شہنشاہ سے پایا
جو حیدرِ کرار کہ مَولےٰ ہے ہمارا
اے مدّعیو! خاک کو تم خاک نہ سمجھے
اس خاک میں مدفوں شہ بطحا ہے ہمارا
ہے خاک سے تعمیر مزارِ شہِ کونین
معمور اسی خاک سے قبلہ ہے ہمارا
ہم خاک اڑائیں گے جو وہ خاک نہ پائی
آباد رضا جس پہ مدینہ ہے ہمارا
ہم طلبگارِ سخاوت یا علی مشکل کشا
تم عنایت ہی عنایت یا علی مشکل کشا
بازوئے خیبر شکن ، اور لقمۂ نانِ جویں
اے شہنشاہِ قناعت یا علی مشکل کشا
آپ کو نسبت رسول اللہ سے ہے اور میں
آپ رکھتا ہوں نسبت یا علی مشکل کشا
عاشقوں کا دل ہے کعبہ اور دل کی دھڑکنیں
مطربِ جشنِ ولادت یا علی مشکل کشا
مردِ مومن کا سہارا ، حرّیت کی آبرو
قلبِ مومن کی حرارت یا علی مشکل کشا
وہ شجاعت ہو، سخاوت ہو، قناعت یا جہاد
آپ ہی کی ہے قیادت یا علی مشکل کشا
فاتحِ خیبر تمہارے چاہنے والوں پہ آج
دشمنوں نے کی ہے شدّت یا علی مشکل کشا
پھر وہی بغداد و مصر و شام کے ہیں صبح و شام
دیجیے شوقِ شہادت یا علی مشکل کشا
در گزر میں آپ سے بڑھ کر کوئی گزرا نہیں
اے سراپائے محبت یا علی مشکل کشا
در گذر کیجیے خطا اور دیجیے اس قوم کو
اپنا بازو، اپنی ہمّت یا علی مشکل کشا
آپ کے در سے ادب سے مانگتا ہے یہ ادیب
صدقہ ٔ خاتونِ جنّت یا علی مشکل کشا
ہوئی مدحِ پیمبر اور حمدِ خالق باری
بصد گریہ ، بصد نالہ، بصد آہ و بصد زاری
قلم ہے دم بخود، جذبات ساکِن ، روح لرزاں ہے
ادب، خاتونِ جنّت ، فاطمہ زہرٰی کی ہے باری
کمال ِ ذکرِ زہرٰی سے اگر ہستی ہوئی اکمل
جمال ذکرِ نورِ فاطمہ سے دل بنا اجمل
یہ توقیر ِ محبّت ہے کہ یہ تاثیرِ نسبت ہے
سخن سنجی ہوئی اَحسن زباں دانی ہوئی افضل
تخلیق میں تسلیم و رضا جن کے خصائل
معصوم، مخیّر ، متصرّف ، متکفّل
سرکارِ دو عالم کی طرح فاطمہ زہرٰی
مشفق، متبسّم ، متحمّل ، متوکلّ
وہ حامد و محمود کی اُلفت کا ظہُور
وہ رحمتِ کُل قاسمِ مقسوم کا نُور
یہ شان، مگر عالمِ تسلیم و رضا
چکّی کی مشقّت ، بہ تبسّم منظور
شفیعٌ سراجٌ منیرٌ کی دُختر
شجاعٌ شریفٌ شہیدٌ کی مَا در
وہ خاتونِ جنّت ، وہ جنّت کی حُرمت
امیرٌ جریٌ علی جِن کے شوہر
جِس کو رحمٰن و رحیم و رحمتِ کُل کا شعور
جس کو عرفانِ محمد ، جس کو فیضانِ رسول
ذی حسب، اعلیٰ نسب، زہرٰی لقب، ذوالاحترام
دیدنیٔ مصطفٰے اور دیدۂ رحمت کا نُور
ہے ذکرِ سرورِ سدا جہاں میں رفیق
یہی رہا ہے ہر اِک مشکل امتحان میں رفیق
اگر حضور ﷺنہ ہوتے تو ہم غریبوں پر
نہ اِس جہاں میں کوئی تھا نہ اُس جہاں میں رفیق
ہمیں تو حشر میں خورشید نے بھی ٹھنڈک دی
کہ تھی رسول کی رحمت جو درمیاں میں رفیق
کہاں کہاں میرے آقا نے گھر بنایا تھا
رہے وہ بن کے ہر ایک قلب دشمنان میں رفیق
بھنور ہو ، مو ج ہو ، طوفاں ہو ، پھر بھی ذکرِ نبی
غم و الم کے رہا بحرِ بیکراں میں رفیق
بلند کیوں نہ ہو اشعار کا مِرے رتبہ
میرے سخن کے ہیں ، وہ کوچۂ زباں میں رفیق
ادیبؔ ، نعت کا ہر لفظ ہے دُرِّ نایاب
دُرِّ یتیم کا احسان ہے درمیاں میں رفیق
وہ رات کیا جگمگا رہی تھی جگہ جگہ نصب آئنے تھے
نئی دلہن کی پھبن میں کعبہ نکھر کے سنورا سنور کے نکھرا
حجر کے صدقے کمر کے اِک تل میں رنگ لاکھوں بناؤ کے تھے
نظر میں دولہا کے پیارے جلوے حیا سے محراب سر جھکائے
سیاہ پردے کے منہ پہ آنچل تجلی ذاتِ بحت کے تھے
خوشی کے بادل امڈ کے آئے دلوں کے طاؤس رنگ لائے
وہ نغمہٴ نعت کا سماں تھا حرم کو خود وجد آرہے تھے
یہ جھوما میزابِ زر کا جھومر کہ آرہا کان پر ڈھلک کر
پھوہار برسی تو موتی جھڑ کے حطیم کی گود میں بھرے تھے
Qaseeda-e-meraaj Part/2
وہ سَرورِ کشورِ رسالت جو عرش پر جلوہ گر ہوئے تھے
نئے نرالے طرب کے ساماں عرب کے مہمان کے لیے تھے
بہار ہے شادیاں مبارک چمن کو آبادیاں مبارک
ملک فلک اپنی اپنی لے میں یہ گھر عَنا دل کا بولتے تھے
وہاں فلک پر یہاں زمیں میں رچی تھی شادی مچی تھی دھومیں
اِدھر سے انوار ہنستے آتے اُدھر سے نفحات اٹھ رہے تھے
یہ چھوٹ پڑتی تھی ان کے رخ کی کہ عرش تک چاندنی تھی چھٹکی
یادوں میں وہ شہرِ مدینہ منظر منظر آج بھی ہے
ایک زمانہ گذرا لیکن، رُوح معطّر آج بھی ہے
کوئی نظر خضریٰ سے اٹھ کر اس کے چہرے پر نہ گئی
یہ احساس ِ ندامت یارو چاند ے رُخ پر آج بھی ہے
مدحِ نبی کی نغمہ سرائی حمد و ثناء کی گُل پاشی
کَل بھی یہی تھا اپنا مقدر، اپنا مقدر آج بھی ہے
وہ دیدار کا موسم ، ساقی پیشِ نظر اور جامِ دید
برسوں بیت گئے اس رُت کو ہاتھ میں ساغر آج بھی ہے
عہد ِ ادیب اور مدحِ محمد کوئی آج کی بات نہیں
چودہ صدیوں سے یہ چرچا یونہی گھر گھر آج بھی ہے
یاں شبہ شبیہ کا گزرنا کیسا !
بے مثل کی تمثال سنور نا کیسا
ان کا متعَلق ہے ترقی پہ مُدام
تصویر کا پھر کہیے اترنا کیسا
یہ سن کے بے خود پکار اٹھا نثار جاؤں کہاں ہیں آقا!؟
پھر اِن کے تلوؤں کا پاؤں بوسہ یہ میری آنکھوں کے دن پھرے تھے
جُھکا تھا مُجرے کو عرشِ اعلیٰ گرے تھے سجدے میں بزمِ بالا
یہ آنکھیں قدموں سے مل رہا تھا وہ گرد قربان ہورہے تھے
ضیائیں کچھ عرش پر یہ آئیں، کہ ساری قندیلیں جِھلملائیں
حضورِ خورشید کیا چمکتے؟ چراغ منہ اپنا دیکھتے تھے!
یہی سَماں تھا کہ پیکِ رحمتْ خبر یہ لایا کہ چلیے حضرتﷺ
تمہاری خاطر کشادہ ہیں جو کلیم پر بند راستے تھے
بڑھ اۓ محمد! قریں ہو احمد! قریب آ سرورِ مُمجَّد
نِثار جاؤں یہ کیا ندا تھی! یہ کیا سماں !تھا یہ کیا مزے تھے
تَبارَک َاللهُ شان تیری تجھی کو زَیبا ہے بے نیازی
کہیں تو وہ جوش ِلَنْ تَرَانِیْ کہیں تقاضے وصال کے تھے
Qaseeda-e-me’raaj part/8