یا رسول اللہ (ﷺ) مرحبا مرحبا
یا حبیب اللہ (ﷺ) مرحبا مرحبا
ایک نظر آسماں پہ ڈال مرحبا
چمکا ماہِ نور کا ہلال مرحبا
جھنڈے لگاؤ، گلیاں سجاؤ
کرلو چراغاں ، جگمگاؤ
راضی ہو گا ربِّ ذوالجلال مرحبا
محفل سجاؤ ، نعتیں سناؤ
آقا کی آمد کی دھومیں مچاؤ
روز و شب یہی ہو اپنا حال مرحبا
عاشق کے دل جگمگانے لگے ہیں
دیکھو ذرا مسکرانے لگے ہیں
شاہکارِ ربِّ ذوالجلال ، مرحبا
صدقہ ولادت کا جلوہ دکھا دو
دل کی لگی اب تو آقا بجھا دو
دکھا دو اب جمال ، مرحبا
جود و سخا ہے عادت تمہاری
پھیلائے دامن کھڑے ہیں بھکاری
کردو کرم آمنہ کے لال، مرحبا
جامِ شہادت ہے پائی ہیں جنہوں نے
اَھلِ سُنن کو جِلا دی اُنہوں نے
یاد آئیں گے وہ ہر سال ، مرحبا
شادی کے نغمے سنتے رہیں گے
جشن ِ ولادت مناتے رہیں گے
وار دیں گے تم پہ جان ومال ، مرحبا
پڑھنے لگا جب عبؔید اُ ن کی نعتیں
ہونے لگی چار سو اُس کی باتیں
فیضِ رضا کا ہے سب کمال ، مرحبا
عجب رنگ پر ہے بہارِ مدینہ کہ سب جنّتیں ہیں نثارِ مدینہ مبارک رہے عَنْدَلِیبو تمہیں گُل ہمِیں گُل سے بہتر ہیں خارِ مدینہ مَلائِک لگاتے ہیں آنکھوں میں اپنی شب و روز خاکِ مزارِ مدینہ رہیں ان کے جلوے بسیں ان کے جلوے مِرا دل بنے یادگارِ مدینہ دو عالَم میں بٹتا ہے صدقہ یہاں کا ہمیں اِک نہیں ریزہ خوارِ مدینہ بنا آسماں منزلِ اِبنِ مریم گئے لامَکاں تاجدارِ مدینہ شَرَف جن سے حاصل ہوا انبیا کو وہی ہیں حسنؔ اِفتخارِ مدینہ |
اۓ کاش ! تصور میں مدینے کی گلی ہو
اور یاد محمد ﷺ کی میرے دل میں بسی ہو
دو سوز بِلال آقا! ؐ درد رضا سے
سرکا ر! عطا عشقِ اُویس ِ قرنی ہو
اۓ کاش ! میں بن جاؤں مدینے کا مسافر
پھر روتی ہوئی طیبہ کو بارات چلی ہو
پھر رحمت ِ باری سے چلوں سوئے مدینہ
اۓ کاش ! مقدر سے مُیسّر وہ گھڑی ہو
جب آؤں مدینے میں تو ہو چاک گَر ِیباں
آنکھوں سے برستے ہوئے اشکوں کی جَھڑی ہو
اۓ کاش ! مدینے میں مجھے مو ت یوں آئے
چوکھٹ پہ تِری سر ہو مِری روح چلی ہو
جب لے کے چلو گورِ غریباں کو جنازہ
کچھ خاک مدینے کی مِرے منہ پہ سجی ہو
جس وقت نَکِیرَیۡن مِری قبر میں آئیں
اُس وقت مِرے لب پہ سجی نعتِ نبی ہو
صَدَقہ مِرے مرشد کا کروں دور بلائیں
ہو بہتری اس میں جو بھی ارمانِ دِلی ہے
اللہ کی رحمت سے تو جنت ہی ملے گی
اۓ کاش ! مَحلّے میں جگہ اُن کے ملی ہو
محفوظ سدا رکھنا شہا بے اَدَبوں سے
اور مجھ سے بھی سرزد نہ کبھی بے اَدَ بی ہو
عطاؔر ہمارا ہے سرِ حشر اِسے کاش
دستِ شَہِ بطحٰی سے یہی چٹھی ملی ہو
اے شافع ِ امم شہِ ذی جاہ لے خبر
لِلّٰہ لے خبر مری لِلّٰہ لے خبر
دریا کا جوش، ناؤ نہ بیڑا نہ ناخدا
میں ڈوبا، تُو کہاں ہے مرے شاہ لے خبر
منزل کڑی ہے رات اندھیری میں نابلد
اے خضر لے خبر مری اے ماہ لے خبر
پہنچے پہنچنے والے تو منزل مگر شہا
ان کی جو تھک کے بیٹھے سرِ راہ لے خبر
جنگل درندوں کا ہے میں بے یار شب قریب
گھیرے ہیں چار سمت سے بدخواہ لے خبر
منزل نئی عزیر جُدا لوگ ناشناس
ٹوٹا ہے کوہِ غم میں پرِ کاہ لے خبر
وہ سختیاں سوال کی وہ صورتیں مہیب
اے غمزدوں کے حال سے آگا ہ لے خبر
مجر م کو بارگاہِ عدالت میں لائے ہیں
تکتا ہے بے کسی میں تری راہ لے خبر
اہل ِ عمل کو ان کے عمل کا م آئیں گے
میرا ہے کون تیرے سِوا آہ لے خبر
پُر خار راہ برہنہ پاتِشنہ آب دور
مَولٰی پڑی ہے آفتِ جانکاہ لے خبر
باہر زبانیں پیاس سے ہیں آفتاب گرم
کوثر کے شاہ کثّر اللہ لے خبر
ما نا کہ سخت مجرم و ناکارہ ہے رضا
تیرا ہی تو ہے بندۂ درگاہ لے خبر
اے سکونِ قلب مضطر اے قرارِ زندگی
اے امینِ رازِ فطرت، اے بہارِ زندگی
تیری ہر ہر جنبش ِ لب برگ و بارِ زندگی
تو دیارِ عشق میں ہے شہریارِ زندگی
تیرے قدموں کی بدولت تیری آمد کے طفیل
گلستاں ہی گلستاں ہے خار زارِ زندگی
ترا قربِ خاص پاکر تیرے دستِ پاک میں
سنگریزے بن گئے ہیں شاہکارِ زندگی
جس نے پائی تیری نسبت ہوگیا وہ ذی وقار
اے فروغِ آدمیت، اے وقارِ زندگی
شاعرانِ حُسن ِ فطرت ، صاحبان ِ درک و فہم
ہے قدم بوسی میں ہر اک وضعدارِ زندگی
درس تیرا ظالموں سے جنگ ، مظلوموں سے پیار
کتنی سادہ ہوگئی ہے رہ گذارِ زندگی
آدمی کو آدمی سے پیار کا نسخہ دیا
تو طبیبِ خلق ہے ، تیمار دارِ زندگی
تو نے آکر دی نگاہوں کو بصیرت حُسن کی
ورنہ تھی محدود لفظوں میں، بہارِ زندگی
تو نے صحرائے تخیل میں لگائے گلستاں
اور چٹانوں سے نکالے آبشارِ زندگی
گونج اٹھے نغمے لگائی تو نے جب مضرابِ عشق
بربطِ فطرت پہ تھا خاموش تارِ زندگی
بے خبر دنیا و ما فیہا سے تو نے کر دیا
کیا شرابِ زندگی ہے، کیا خمارِ زندگی
روح و جاں کی سلطنت پر حکمرانی ہے تری
ہم غلامِ عشق ہیں ، تو تاجدارِ زندگی
عشق کی دیوانگی کے سامنے سب ہیچ ہیں
توڑ دیتی ہے محبّت ، ہر حصارِ زندگی
تیرے پائے ناز کا اک لمس پاکر ہے رواں
چھن چھناتی ، گنگناتی جوئبارِ زندگی
تیری توصیف و ثناء مدح سے آراستہ
ہے ادیبِ خوش بیاں کا نغمہ زار ِ زندگی
اۓ چہرۂ زیبا ئے تو رشکِ بتانِ آذری
ہر چند وصفت می کنم در حسن زاں بالاتری
تو از پری چابک تری وزِ برگِ گل نازک تری
و زِھر چہ گوئم بہتری حقا عجائب دلبری
عالَم ہمہ نغمائے تو خلقِ خدا شیدائے تو
اے نرگسِ رعنائے تو! آوردہ رسمِ دلبری
آفاقہا گردید ہ ام مِہرِ بتاں و رزیدہ ام
بسیارِ خوباں دیدہ ام لیکن تو چیزِ دیگری
من تو شُد م، تو من شُدی ،من تن شُدم ،تو جاں شُدی
تاکس نہ گوئم بعد اَزیں، من دیگر م ،تو دیگر ی
خؔسرو غریب است و گدا افتادہ در شہر شما
باشد کہ از بہر ِخدا سوئے غریباں بن گری
اۓ صبا !مصطفٰےسے کہہ دینا ،غم کے مارے سلام کہتے ہیں
یاد کرتے ہیں تم کو شام و سحر، دل ہمارے سلام کہتے ہیں
اللہ اللہ حضور کی باتیں! مرحبا رنگ و نور کی باتیں
چاند جن کی بلائیں لیتا ہے اور تارے سلام کہتے ہیں
اللہ اللہ حضور کے گیسو! بھینی بھینی مہکتی وہ خوشبو
جس سے معمور ہے فضا ہر سو وہ نظارے سلام کہتے ہیں
جب محمد کا نام آ تا ہے ﷺرحمتوں کا پیام آتا ہے
لب ہمارے درود پڑھتے ہیں دل ہمارے سلام کہتے ہیں
زائر ِ طیبہ تو مدینے میں، پیارے آقا سے اتنا کہہ دینا
آپ کی گردِ راہ کو آقا !بے سہارے سلام کہتے ہیں
ذکر تھا آخری مہینے کا ، تذکرہ چِھڑ گیا مدینے کا
حاجیو! مصطفٰےسے کہہ دینا ،غم کے مارے سلام کہتے ہیں
اۓ خدا کے حبیب! پیارے رسول! یہ ہمارا سلام کیجئے قبول
آج محفل میں جتنے حاضر ہیں، مل کے سارے سلام کہتے ہیں
اۓ شہنشاہِ مدینہ ! الصلوٰۃ والسلام
زینتِ عرشِ معلّٰی الصلوٰۃ والسلام
رَبِّ ھَبۡ لِیۡ اُمَّتِیۡکہتے ہوئے پیدا ہوئے
رب نے فرمایا کہ بخشا الصلوٰۃ والسلام
سر جھکاکر باادب عشقِ رسول اللہ میں
کہہ رہا تھا ہر سِتارہ الصلوٰۃ والسلام
مؤمنو! پڑھتے رہو تم اپنے آقا پر درود
ہے فرشتوں کا وظیفہ الصلوٰ ۃ والسلام
جب فرشتے قبر میں جلوہ دکھا ئیں آپ کا
ہو زباں پر پیارے آقا الصلوٰۃ والسلام
میں وہ سُنی ہوں جؔمیل قادری مرنے کے بعد
میرا لاشہ بھی کہے گا الصلوٰۃ والسلام
ایمان ہے قال مصطفائی ﷺ
قرآن ہے حال مصطفائیﷺ
اللہ کی سلطنت کا دولہا
نقش تمثال مصطفائیﷺ
کل سے بالا رسل سے اعلی
اجلال و جلال مصطفائیﷺ
ادبار سے تو مجھے بچا لے
پیارے اقبال مصطفائیﷺ
مرسل مشتاق حق ہیں اور حق
مشتاق وصال مصطفائیﷺ
خواہان وصال کبریا ہے
جویان جمال مصطفائیﷺ
محبوب و محب کی ملک ہے اک
کونین ہیں مال مصطفائیﷺ
اللہ نہ چھوٹے دست دل سے
دامان خیال مصطفائیﷺ
ہیں تیرے سپرد سب امیدیں
اے جودو نوال مصطفائیﷺ
روشن کر قبر بیکسوں کی
اے شمع جمال مصطفائیﷺ
اندھیر ہے بے تیرے میرا گھر
اے شمع جمال مصطفائیﷺ
مجھ کو شب غم ڈرا رہی ہے
اے شمع جمال مصطفائیﷺ
آنکھوں میں چمک کے دل میں آجا
اے شمع جمال مصطفائیﷺ
مری شب تار دن بنا دے
اے شمع جمال مصطفائیﷺ
چمکا دے نصیب بد نصیباں
اے شمع جمال مصطفائیﷺ
قزاق ہیں سر پہ راہ گم ہے
اے شمع جمال مصطفائیﷺ
چھایا آنکھوں تلے اندھیرا
اے شمع جمال مصطفائیﷺ
دل سرد ہے اپنی لو لگا دے
اے شمع جمال مصطفائیﷺ
گھنگور گھٹائیں غم کی چھائیں
اے شمع جمال مصطفائیﷺ
بھٹکا ہوں تو راستہ بتا جا
اے شمع جمال مصطفائیﷺ
فریاد دباتی ہے سیاہی
اے شمع جمال مصطفائیﷺ
میرے دل مردہ کو جلا دے
اے شمع جمال مصطفائیﷺ
آنکھیں تیری راہ تک رہی ہیں
اے شمع جمال مصطفائیﷺ
دکھ میں ہیں اندھیری رات والے
اے شمع جمال مصطفائیﷺ
تاریک ہے رات غمزدوں کی
اے شمع جمال مصطفائیﷺ
تاریکی گور سے بچانا مجھ کو
اے شمع جمال مصطفائیﷺ
پُر نور ہے تجھ سے بزم عالم
اے شمع جمال مصطفائیﷺ
ہم تیرہ دلوں پہ بھی کرم کر
اے شمع جمال مصطفائیﷺ
للہ ادھر بھی کوئی پھیرا
اے شمع جمال مصطفائیﷺ
تقدیر چمک اُٹھے رضا کی
اے شمع جمال مصطفائیﷺ
ایسا کوئی محبو ب نہ ہو گا ، نہ کہیں ہے
بیٹھا ہے چٹائی پہ مگر عرش نشیں ہے
ملتا نہیں کیا کیا دو جہاں کو تِرے در سے
اِک لفظ “نہیں” ہے کہ تِرے لب پہ نہیں ہے
تو چاہے تو ہر شب ہو مثالِ شبِ اسریٰ
تیرے لیے دو چار قدم عرشِ بریں ہے
ہر اِک کو میسر کہاں اس در کی غلامی
اس در کا تو دربان بھی جبر یل امیں ہے
اۓ شاہِ زَمَن! اب تو زیارت کا شرف دے
بے چین ہیں آنکھیں مِری بیتاب جبیں ہے
دل گِریہ کناں اور نظر سوئے مدینہ
اعؔظم ترا اندازِ طلب کتنا حسیں ہے !
ایسا تجھے خالق نے طرح دار بنایا
یوسف کو ترا طالب دیدار بنایا
طلعت سے زمانہ کو پراَنوار بنایا
نکہت سے گلی کوچوں کو گلزار بنایا
دیواروں کو آئینہ بناتے ہیں وہ جلوے
آئینوں کو جن جلوؤں نے دیوار بنایا
وہ جنس کیا جس نے جسے کوئی نہ پوچھے
اس نے ہی مرا تجھ کو خریدار بنایا
اے نظم رسالت کے چمکتے ہوئے مقطع
تو نے ہی اِسے مطلعِ اَنوار بنایا
کونین بنائے گئے سرکار کی خاطر
کونین کی خاطر تمہیں سرکار بنایا
کنجی تمہیں دی اپنے خزانوں کی خدا نے
محبوب کیا مالک و مختار بنایا
اللّٰہ کی رحمت ہے کہ ایسے کی یہ قسمت
عاصی کا تمہیں حامی و غمخوار بنایا
آئینۂ ذات احدی آپ ہی ٹھہرے
وہ حسن دیا ایسا طرح دار بنایا
اَنوارِ تجلی سے وہ کچھ حیرتیں چھائیں
سب آئینوں کو پشت بدیوار بنایا
عالم کے سلاطین بھکاری ہیں بھکاری
سرکار بنایا تمہیں سرکار بنایا
اہلِ صراط روحِ امیں کو خبر کریں جاتی ہے امّتِ نبوی فرش پر کریں
اِن فتنہ ہائے حشر سے کہدو حذر کریں نازوں کے پالے آتے ہیں رہ سے گزر کریں
بد ہیں تو آپ کے ہیں بھلے ہیں تو آپ کے ٹکڑوں سے تو یہاں کے پلے رخ کدھر کریں
سرکار ہم کمینوں کے اطوار پر نہ جائیں آقا حضور اپنے کرم پر نظر کریں
ان کی حرم کے خار کشیدہ ہیں کس لیے آنکھوں میں آئیں سر پہ رہیں دل میں گھر کریں
جالوں پہ جال پڑ گئے لِلّٰہ وقت ہے مشکل کشائی آپ کے ناخن اگر کریں
منزل کڑی ہے شان تبسّم کرم ہے تاروں کی چھاؤں نور کے تڑکے سفر کریں
کلکِ رضا ہے خنجر خوانخوار برق بار اعدا سے کہدو خیر منائیں نہ شر کریں
آنکھیں رو رو کے سُجانے والے جانے والے نہیں آنے والے
کوئی دن میں یہ سرا اوجڑ ہے ارے اوچھاؤنی چھانے والے
ذبح ہوتے ہیں وطن سے بچھڑے دیس کیوں گاتے ہیں گانے والے
ارے بد فال بری ہوتی ہے دیس کا جنگلا سنانے والے
سن لیں اعدا میں بگڑنے کا نہیں وہ سلامت ہیں بنانے والے
آنکھیں کچھ کہتی ہیں تجھ سے پیغام او درِ یار کے جانے والے
پھر نہ کروٹ لی مدینہ کی طرف ارے چل جھوٹے بہانے والے
نفس میں خاک ہوا تو نہ مٹا ہے مری جان کے کھانے والے
جیتے کیا دیکھ کے ہیں اے حورو! طیبہ سے خُلد میں آنے والے
نیم جلوے میں دو عَالم گلزار واہ وا رنگ جمانے والے
حسن تیرا سا نہ دیکھا نہ سُنا کہتے ہیں اگلے زمانے والے
وہی دھوم ان کی ہے ماشآء اللہ مِٹ گئے آپ مٹانے والے
لبِ سیراب کا صَدقہ پانی اے لگی دل کی بُجھانے والے
ساتھ لے لو مجھے میں مجرم ہوں راہ میں پڑتے ہیں تھانے والے
ہو گیا دَھک سے کلیجا میرا ہائے رخصت کی سنانے والے
خلق تو کیا کہ ہیں خالِق کو عزیز کچھ عجب بھاتے ہیں بھانے والے
کشتۂ دشتِ حرم جنّت کی کھڑکیاں اپنے سِرہانے والے
کیوں رضا آج گلی سونی ہے
اٹھ مِرے دھوم مچانے والے
آنکھ میں جب اشک آیا ہو گئی نعتِ رسول
درد جب دل میں سمایا ہو گئی نعتِ رسول
جب کسی حق کی داستاں کو زندہ کرنے کے لیے
ظلم سے پنجہ لڑایا ہوگئی نعتِ رسول
جہل کی تاریکیوں میں اعتماد علم کا
اِک دیا جس نے جلایا ہو گئی نعتِ رسول
جب کسی معصوم کو پایا یتیمی کا شکار
اپنے سینے سے لگایا ، ہو گئی نعتِ رسول
امتیازِ بندہ و آقا مٹانے کے لیے
جب کوئی میداں میں آیا ہو گئی نعتِ رسول
کھا کے سنگ دشمنان ِ دیں اگر یہ کہہ دیا
کر بَھلا اس کا خدایا ، ہو گئی نعتِ رسول
یاد کر کے عرصۂ شعبِ ابی طالب کبھی
جس نے دو آنسو بہایا ہوگئی نعتِ رسول
محسنِ انسانیت کی جان کر ، سنّت اگر
جس نے روتوں کو ہنسایا، ہوگئی نعتِ رسول
کیا بتاؤ ں کس قدر ہیں مہرباں مجھ پر حضور
جب قلم میں نے اٹھایا ہو گئی نعتِ رسول
سیرتِ خیر البشر کو دیکھتا جا اے ادیب!
جو ورق نے تو اُٹھایا ہو گئی نعتِ رسول
اندھیری رات ہے غم کی گھٹا عصیاں کی کالی ہے
دلِ بے کس کا اِس آفت میں آقا تو ہی والی ہے
نہ ہو مایوس آتی ہے صَدا گورِ غریباں سے
بنی امّت کا حامی ہے خدا بندوں کا والی ہے
اترتے چاند ڈھلتی چاندنی جو ہو سکے کر لے
اندھیرا پاکھ آتا ہے یہ دودن کی اجالی ہے
ارے یہ بھیڑیوں کا بن ہے اور شام آگئی سر پر
کہاں سویا مسافر ہائے کتنا لا اُبالی ہے
اندھیرا گھر اکیلی جان دَم گھٹتا دل اُکتا تا
خدا کو یاد کر پیارے وہ ساعت آنے والی ہے
زمین تپتی کٹیلی راہ بَھاری بوجھ گھائل پاؤں
مصیبت جھیلنے والے تِرا اللہ والی ہے
نہ چَونکا دن ہے ڈھلنے پر تری منزل ہوئی کھوٹی
ارے او جانے والے نیند یہ کب کی نکالی ہے
رضان منزل تو جیسی ہے وہ اِک میں کیا سبھی کو ہے
تم اس کو روتے ہو یہ کہو یاں ہاتھ خالی ہے
ان کے جو غلام ہو گئے
وقت کے امام ہو گئے
جب بلایا آقا نے
خود ہی انتظام ہو گئے
انبیاء کھڑے ہیں صف بہ صف
مصطفٰے امام ہو گئے
چشمِ بینا ہو تو دیکھ لو
ان کے جلوے عام ہوگئے
مصطفٰے کی شان دیکھ کر
بادشاہ غلام ہو گئے
نام لیوا ان کے جو ہوئے
ان کے اونچے نام ہو گئے
واسطہ دیا جو آ پ کا
میرے سارے کام ہوگئے
ان کی مہک نے دل کے غنچے کھلا دیے ہیں
جس راہ چل دیےہیں کوچے بسا دیئے ہیں
جب آگئی ہیں جوش رحمت پہ ان کی آنکھیں
جلتے بجھا دئے ہیں روتے ہنسا دیئے ہیں
ان کے نثار کوئی کیسے ہی رنج میں ہو
جب یاد آ گئے ہیں سب غم بھلا دیئے ہیں
میرے کریم سے گر قطرہ کسی نے مانگا
دریا بہا دیے ہیں دربے بہا دیئے ہیں
اسر ا میں گذرے جس دم بیڑے میں قدسیوں کے
ہونے لگی سلامی پرچم جھکا دیئے ہیں
ملک سخن کی شاہی تجھ کو رضا مسلم
جس سمت آ گئے ہو سکے بٹھا دیئے ہیں
اللہ اللہ کے نبی سے فریاد ہے نفس کی بدی سے
دن بھر کھیلوں میں خاک اڑائی لاج آئی نہ ذرّوں کی ہنسی سے
شب بھر سونے ہی سے غرضی تھی تاروں نے ہزار دانت پیسے
ایمان پہ مؤت بہتر او نفس تیری ناپاک زندگی سے
او شہد نمائے زہر دَر جام گم جاؤں کدھر تِری بدی سے
گہرے پیارے پرانے دِل سوز گزرا میں تیری دوستی سے
تجھ سے جو اٹھائے میں صدمے ایسے نہ ملے کبھی کِسی سے
اُف رہے خود کام بے مروّت پڑتا ہے کام آدمی سے
تونے ہی کیا خدا سے نادم تو نے ہی کیا خجل نبی سے
کیسے آقا کا حکم ٹالا ہم مر مٹے تیری خود سری سے
آتی نہ تھی جب بدی بھی تجھ کو ہم جانتے ہیں تجھے جبھی سے
حد کے ظالم سِتم کے کٹّر پتھر شرمائیں تیرے جی سے
ہم خاک میں مل چکے ہیں کب کے نکلا نہ غبار تیرے جی سے
ہے ظالمِ میں نبا ہوں تجھ سے اللہ بچائے اس گھڑی سے
جو تم کو نہ جانتا ہوں حضرت چالیں چلیے اس اجنبی
اللہ کے سامنے وہ گن تھے یاروں میں کیسے متقی سے
رہزن نے لوٗٹ لی کمائی فریاد ہے خضر ہاشمی سے
اللہ کنوئیں میں خود گِرا ہوں اپنی نالِش کروں تجھی سے
ہیں پشت پنا ہ غوثِ اعظم
کیوں ڈرتے ہو تم رضا کسی سے
الاماں قہر ہے اے غوث وہ تیکھا تیرا
مرکے بھی چین سے سوتا نہیں مارا تیرا
بادلوں سے کہیں رکتی ہے کڑکتی بجلی
ڈھالیں چھنٹ جاتی ہیں اٹھتا ہے جو تیغا تیرا
عکس کا دیکھ کے منہ اور بھپر جاتا ہے
چار آئینہ کے بل کا نہیں نیزا تیرا
کو ہ سر مکھ ہو تو اِک دار میں دو پر کالے
ہاتھ پڑتا ہی نہیں بھول کے اوچھا تیرا
اس پہ یہ قہر کہ اب چند مخالف تیرے
چاہتے ہیں کہ گھٹا دیں کہیں پایہ تیرا
عقل ہوتی تو خدا سے نہ لرائی لیتے
یہ گھٹا ئیں ، اسے منظور بڑھا نا تیرا
وَرَفَعۡنَا لَکَ ذِکۡرَکۡ کا ہے سایہ تجھ پر
بول بالا ہے تر ذِکر ہے اُونچا تیرا
مٹ گئے ٹتے ہیں مِٹ جائیں گے اعدا تیرے
نہ مٹا ہے نہ مٹے گا کبھی چرچا تیرا
تو گھٹا ئے سے کسی کے نہ گھٹا ہے نہ گھٹے
جب بڑھائے تجھے اللہ تعالیٰ تیرا
سمِّ قاتل ہے خدا کی قسم اُن کا اِ نکا ر
منکرِ فضل حضور آہ یہ لکھا تیرا
میرے خنجر سے تجھے با ک نہیں
چیر کر دیکھے کوئی آہ کلیجا تیر ا
ابنِ زہر ا سے ترے دل مین ہیں یہ زہر بھرے
بل بے او منکر ِ بے باک یہ زہر تیرا
بازِ اشہب کی غلامی سے یہ آنکھیں پھرنی
دیکھ اڑ جائے گا ایمان کا طوطا تیرا
شاخ پر بیٹھ کر جڑ کا ٹنے کی فکر میں ہے
کہیں نیچانہ دکھائے تجھے شجرا تیرا
حق سے بد ہو کے زمانہ کا بھلا بنتا ہے
ارے میں خوب سمجھتا ہوں معمّا تیرا
سگ ِ در قہر سے دیکھے تو بکھرتا ہے ابھی
بند بندِ بدن اے روبہِ دنیا تیرا
غرض آقا سے کروں عرض کہ تیری ہے پناہ
بندہ مجبور ہے خاطِر پہ ہے قبضہ تیرا
حکم نافذ ہے ترا خامہ ترا سیف تری
دم میں جو چاہے کرے دور ہے شاہا تیرا
جس کو للکار دے آتا ہو تو الٹا پھر جائے
جس کو چمکار لے ہر پھر کے وہ تیرا تیرا
کنجیاں دل کی خدا نے تجھے دیں ایسی کر
کہ یہ سینہ ہو محبّت کا خزینہ تیرا
دِل پہ کندہ ہو ترا نام کہ وہ دُزدِ رجیم
الٹے ہی پاؤں پھرے دیکھ کے طغرا تیرا
نزع میں ، گور میں ، میزاں پہ ، سرِ پل پہ کہیں
نہ چھٹے ہاتھ سے دامانِ معلٰی تیرا
دھوپ محشر کی وہ جاں سوز قیامت ہے مگر
مطمئن ہوں کہ مرے سر پہ ہے پلا تیرا
بہجت اس سر کی ہے جو “بہجۃ الاسرار ” میں ہے
کہ فلک وار مُریدوں پہ ہے سایہ تیرا
اے رضا چیست غم ارجملہ جہاں دشمنِ تست
کردہ ام ما منِ خود قبلۂ حاجا تیرا
اَلَا یٰاَ یُّھَا السَّاقِیْ اَدْرِکَا سًا وَّ نَاوِلْھَا
کہ بر یادِ شہِ کوثر بنا سَازیم محفلہا
بلا بارید حبِّ شیخ نجدی بر وہابیہ
کہ عِشق آساں نمود اوّل ولے افتاد مشکلہا
وہابی گرچہ اخفامی کند بغضِ نبی لیکن
نہاں کے ماند آں رازے کزوسازند محفلہا
توہّب گا ہ ملکِ ہند اقامَت رانمی شاید
جرس فریاد می دارد کہ بربند ید محملہا
صلائے مجلسم دَر گوش آمد بیں بیا بشنو
جرس مستانہ می گوید کہ بربندید محملہا
مگر واں رُو ازیں محفل رہِ اربابِ سنّت رَو
کہ سالک بے خبر نبود زِراہ و رسم منزلہا
در ایں جلوت بیا از راہِ خلوت تا خُدا یابی
مَتٰی مَا تَلْق مَن قَھْوٰی دَعِ الدُّنْیا وَاَمْھِلْھا
ولم قربانت اے دودِ چراغ محفل مولد
زتاب ِ جعدِ مشکینت چہ خوں افتاد در دلہا
غریقِ بحرِ عشقِ احمدیم از فرحت مولد
کجا دانند حالِ ما سُبکسا رانِ سَاحلہا
رضا مست جامِ عشق ساغر باز می خواہد
َلَا یٰاَ یُّھَا السَّاقِیْ اَدْرِکَا سًا وَّ نَاوِلْھَا
اَ َلَا یٰاَ یُّھَا السَّاقِیْ اَدْرِکَا سًا وَّ نَاوِلْھَا
آگئے مژدہ شفاعت کے سنانے والے
نارِ دوزخ سے غلاموں کو بچانے والے
ہے مقدر میں بلندی ہی اپنے
ہم تو ہیں قدموں میں سر ان کے جھکانے والے
کر کے احسان جتانا یہ نہیں شان ان کی
اور کوئی ہوں گے وہ احسان جتانے والے
مر کے پہنچے جو لحد میں تو نکیروں نے کہا
مرحبا نعت شاہِ دین کی سنانے والے
تو جلا سکتی نہیں سن لے جہنم ہم کو
ہم تو ہیں جشنِ ولادت کے منانے والے
کاش! سرکار سے سر ِ حشر
کہیں مجھ سے عبید آجا دامن میں میری نعت سنانے والے
اک میں ہی نہیں ان پر قربان زمانہ ہے ۔
جو رب دو عالم کا محبوب یگانہ ہے
کل جس نے ہمیں پُل سے خود پار لگانا ہے
زہرہ کا وہ بابا ہے سبطین کا نانا ہے
اُس ہاشمی دولہا پر کونین کو میں واروں
جو حُسن و شمائل میں یکتائے زمانہ ہے
عزت سے نہ مر جائیں کیوں نام محمد پر
ہم نے کسی دن یوں بھی دنیا سے تو جانا ہے
آو در زہرہ پر پھیلائے ہوئے دامن
ہے نسل کریموں کی لجپال گھرانہ ہے
ہوں شاہ مدینہ کی میں پشت پناہی میں
کیا اس کی مجھے پرواہ دشمن جو زمانہ ہے
یہ کہ کے در حق سے لی موت میں کچھ مہلت
میلاد کی آمد ہے محفل کو سجانا ہے
قربان اُس آقا پر کل حشر کے دن جس نے
اَس اُمت عاصی کو کملی میں چھپانا ہے
سو بار اگر توبہ ٹوٹی بھی تو حیرت کیا
بخشش کی روائت میں توبہ تو بہانہ ہے
ہر وقت وہ ہیں میری دُنیائے تصور میں
اے شوق کہیں اب تو آنا ہے نہ جانا ہے
اِک بار مدینے میں ہو جائے میرا جانا
پھر اور نہ کچھ مانگے سر کا ر کا دیوانہ
پل پل میرا دِل تڑپے دن رات کرے زاری
کب آؤں مدینے میں ؟ کب آئے میری باری ؟
کب جا کے میں دیکھوں گا دربار وہ شاہانہ ؟
اِس آس پہ جیتا ہوں اِک روز بلائیں گے
اور گنبد خضرآء کا دیدار کرائیں گے
پھر پیش کروں گا میں اشکوں بھرا نذرانہ
بے چین نگاہوں کو دیدار عطاکر دو
د امن مِرا خوشیوں سے یا شاہِ امم! بھر دو
آباد خدا رکھے آقا ! تیرا میخانہ
اِتنی سی تمنا ہے ،ہو جائے اگر پوری
جا دیکھوں مدینہ میں، ہو جائے یہ منظور ی
بِن دید کیے شاہا مرجائے نہ دیوانہ
اشکوں سے بھی لکھ ان کی ثناء ان کا قصیدہ
لکھ جیسے وہ ہیں ایسا نہ دیدہ نہ شنیدہ
جب یاد کیا قلب ہو ا نافہ آہو
جب نام لیا ہو گئے لب شہد چکیدم
دیکھا ہے بلندی پہ ہر اِک جا سرِ افلاک
لیکن اسے دیکھا ہے مدینہ میں خمیدہ
حسرت میں زیارت کی بہے جاتے ہیں آنسو
اچھا ہے وضو کرتا ہے دیدار کو دیدہ
کیا اس کو خریدیں گے سلاطینِ زمانہ
اے رحمتِ عالم ! تیری رحمت کا خریدا
امت ہے بہت زار و پریشان کرم کر
چادر بھی دریدہ ہوئی ، دامن بھی دریدہ
وہ شاعری اچھی کہ دکھائے جو یہ منظر
آغوشِ کرم میں سگِ دنیا کا گزیدہ
محتاج نہ ہوگا کبھی وہ ہاتھ جو لکھے
اس مصطفٰے و منعم کی سخاوت کا قصیدہ
محروم نہیں ہوں گی بصارت سے وہ آنکھیں
گو خواب سہی، ہوں رخِ انوار کی دیدہ
بس ایک ہی جھونکا ہے بہت شہرِ نبی کا
آواز یہ دیتے ہیں تن و قلب تپیدہ
لایا درِ رحمت پہ مجھے جادۂ رحمت
کافی مری بخشش کے لیے ہے یہ قصیدہ
جس راہ سے گُذرا ہے ادیب ان کی ثناء میں
رخشندہ وہ تابندہ ، درخشاں و و میدہ
اٹھا دو پردہ دکھا دو چہرہ کہ نور باری حجاب میں ہے
زمانہ تاریک ہو رہا ہے کہ مہر کب سے نقاب میں ہے
نہیں وہ میٹھی نگاہ والا خدا کی رحمت ہے جلوہ فرما
غضب سے اُن کے خدا بچائے جلال باری عتاب میں ہے
جلی جلی بوٗ سے اُس کی پیدا ہے سوزشِ عِشق ِ چشم والا
کباب ِ آہو میں بھی نہ پایا مزہ جو دل کے کباب میں ہے
انہیں کی بوٗ مایۂ سمن ہے انہیں کا جلوہ چمن چمن ہے
انہیں سے گلشن مہک رہے ہیں انہیں کی رنگت گلاب میں ہے
تری جلو میں ہے ماہِ طیبہ ہلال ہر مرگ و زندگی کا !
حیات جاں کا رکاب میں ہے ممات اعدا کا ڈاب میں ہے
سیہ لباسانِ دار دنیا و سبز پوشان عرش اعلٰے
ہر اِک ہے ان کے کرم کا پیاسا یہ فیض اُن کی جناب میں ہے
وہ گل ہیں لب ہائے ناز ک ان کے ہزاروں جھڑتے ہیں پھول جن سے
گلاب گلشن میں دیکھے بلبل یہ دیکھ گلشن گلاب میں ہے
جلی ہے سوزِ جگر سے جاں تک ہے طالبِ جلوۂ مُبارک
دکھا دو وہ لب کہ آب حیواں کا لطف جن کے خطاب میں ہے
کھڑے ہیں منکر نکیر سر پر نہ کوئی حامی نہ کوئی یارو!
بتا دو آکر مِرے پیمبر کہ سخت مشکِل جواب میں ہے
خدا ئے قہار ہے غضب پر کھلے ہیں بدکاریوں کے دفتر
بچا لو آکر شفیع محشر تمہارا بندہ عذاب میں ہے
کریم ایسا ملا کہ جس کے کھلے ہیں ہاتھ اور بھرے خزانے
بتاؤ اے مفلِسو ! کہ پھر کیوں تمہارا دل اضطراب میں ہے
گنہ کی تاریکیاں یہ چھائیں امنڈ کے کالی گھٹائیں آئیں
خدا کے خورشید مہر فرما کہ ذرّہ بس اضطراب میں ہے
کریم اپنے کرم کا صدقہ لئیم بے قد ر کو نہ شرما
تو اور رضا سے حساب لینا رضا بھی کوئی حساب میں ہے
آتے رہے انبیا کَما قِیْلَ لَھُمْ
وَالْخَاتَمُ حَقُّکُم ْ کہ خاتم ہوئے تم
یعنی جو ہوا دفتر تنزیل تمام
آخرم میں ہوئی مہر کہ اَکْملْتُ لَکُمْ
اپنی عطا کا حق نے یہ منظر دکھا دیا
دل میرا آستانۂ نبی پر جھکا دیا
کوئے شاہ ِ عرب کا بنا کر مجھے فقیر
شاہ کا مرتبہ میرے دل سے گھٹا دیا
ایسا کریم ایسا سخی اور کون ہے ؟
منگتا جو آئے مانگنے، سلطان بنا دیا
پہنچا دیا خدا نے درِ شاہ پر ہمیں
اللہ نےیہ نعت کااچھا صلہ دیا
ہم سے زیادہ کون ہے دنیا میں خوش نصیب !؟
ہم کو خدا نے اُن کا ثناء خواں بنا دیا
رشکِ فلک ہیں میرے مقدر کی رفعتیں
مجھ کو غلام ان کا خدا نے بنا دیا
آنکھوں میں بس گیا ہے جمال ِ خدا ریاؔض
دیدار جب سے اُن کا خدا نے کرا دیا
اب میری نگاہوں جچتا میں نہیں کوئی
جیسے میرے سرکار ہیں ویسا نہیں کوئی
تم سا تو حسیں آنکھ نے دیکھا نہیں کوئی
یہ شانِ لطافت ہے کہ سایہ نہیں کوئی
یہ طور سے کہتی ہے ابھی تک شبِ معراج
سرکا ر کا جلوہ ہے تماشا نہیں کوئی
ہوتا ہے جہاں ذکر ،محمد ﷺ کے کرم کا
اُس بزم میں محروم ِ تمنا نہیں کوئی
اعزاز یہ حاصل ہے تو حاصل ہے زمیں کو
افلاک پہ تو گمبد ِ خضراء نہیں کوئی
سرکار کی رحمت نے مگر خوب نوازا
یہ سچ ہے کہ خالدؔ سا نکما نہیں کوئی
آج اشک میرے نعت سنائیں تو عجب کیا
سن کر وہ مجھے پاس بلائیں تو عجب کیا
ان پر تو گنہگار کا سب حال کھلا ہے
اس پر بھی وہ دامن میں چھپائیں تو عجب کیا
منہ ڈھانپ کے رکھنا کہ گنہگار بہت ہوں
میت کو میری دیکھنے آئیں تو عجب کیا
اے جوش جنوں پاس ادب بزم ہے جن کی
اس بزم میں تشریف وہ لائیں تو عجب کیا
دیدار کے قابل تو نہیں چشم تمنا
لیکن وہ کبھی خواب میں آئیں تو عجب کیا
پابند نوا تو نہیں فریاد کی رسمیں
آنسو یہ مرا حال سنائیں تو عجب کیا
نہ زاد سفر ہے نہ کوئی کام بھلے ہیں
پھر بھی مجھے سرکار بلائیں تو عجب کیا
حاصل جنہیں آقا کی غلامی کا شرف ہے
ٹھوکر سے وہ مردوں کو جلائیں تو عجب کیا
وہ حسن دو عالم ہیں ادیب ان کے قدم سے
صحرا میں اگر پھول کھل آئیں تو عجب کیا
چاروں طرف نور چھایا آقا کا میلاد آیا
خوشیوں کا پیغام لا یا آقا کا میلاد آیا
شمس و قمراور تارے کیوں نہ ہوں خوش آج سارے
اُ ن سے ہی تو نور پایا آقا کا میلاد آیا
خوشیاں مناتے ہیں وہی دھومیں مچاتے ہیں وہی
جن پر ہوا ان کا سایہ آقا کا میلاد آیا
ہے شاد ہر ایک مسلماںکرتا ہے گھر گھر میں چراغاں
گلیوں کو بھی جگمگایا آقا کا میلاد آیا
مختارِ کُل مانے جو انہیں نوری بشر جانیں جو انہیں
نعرہ اسی نے لگایا آقا کا میلاد آیا
جوآج محفل میں آئے من کی مرادیں وہ پائے
سب پر کرم ہو خدایا آقا کا میلاد آیا
غوث الورٰی اور داتا نے میرے رضا اور خواجہ نے
سب نے ہے دن یہ منایا آقا کا میلاد آیا
نعتِ نبی تم سناؤ عشقِ نبی کو بڑھا ؤ
ہم کو رضانے سکھایا آقا کا میلاد آیا
جس کو شجر جانتے ہیں کہنا حجر مانتے ہیں
ایسا نبی ہم نے ہے پایا آقا کا میلا د آیا
دل جگمگانے لگے ہیں سب مسکرانے لگے ہیں
اِک کیف سا آج چھایا آقا کا میلاد آیا
کر اۓ ٔ عبید ان کی مدحت تجھ پر ہو خدا کی رحمت
تو نے مقدر یہ پا یا آقا کا میلاد آیا
آکھیں سونہڑے نوں وائے نی جے تیرا گزر ہو وے
میں مَر کے وِی نئیں مَردا جے تیری نظر ہو وے
دم دم نال ذکر کراں میں تیریاں شاناں دا
تیرے نام توں وار دیاں جنی میری عمر ہو وے
دیوانیو بیٹھو رَوُو محفل نوں سجا کے تے
شاید میرے آقا دا ایتھوں وی گزر ہو وے
اوکیسیاں گھڑیاں سَن مہمان ساں سونہڑے دا
دل فِروی کر دا اے طیبہ دا سفر ہو وے
جے جیون دا چا رکھنا توں راھیا مدینے دیا
سونہڑے دے دوارے تے مرجاویں جے مر ہووے
کیوں فکر کریں یارا ماسہ وی اگیرے دا
اوہورں ستے ای خیراں نیں جِدا سائیں مگر ہو وے
ایہہ دل وچ نیؔازی دے اک آس چروکنی اے
سوہنے دے شہر اندر میری وی قبر ہو وے
بے خود کیےدیتے ہیں اندازِ حجابانہ
آ دل میں تجھے رکھ لوں اۓ جلوۂ جانانہ!
بس اتنا کرم کرنا اۓ چشمِ کریمانہ
جب جان لبوں پر ہو ، تم سامنے آجانا
جب تم نے مجھے اپنا ،دنیا میں بنایا ہے
محشر میں بھی کہہ دینا یہ ہے میرا دیوانہ
جی چاہتا ہے تحفے میں بھیجوں انہیں آنکھیں
درشن کا تو درشن ہو نذرانے کا نذرانہ
پینے کو تو پی لوں گا پر شرط ذرا سی ہے
اجمیر کا ساقی ہو بغداد کا مئے خانہ
کیوں آنکھ لگائی تھی؟ کیوں آنکھ ملائی تھی؟
اب رُخ کو چھپا بیٹھے ، کر کے مجھے دیوانہ !
بیدؔم میری قسمت میں، سجدے ہیں اِسی در کے
چھوٹا ہے نہ چھوٹے گا ، سنگِ درِ جانانہ
بوسہ گہِ اصحاب وہ مہر سامی
وہ شانۂ چپ میں اُس کی عنبر فامی
یہ طرفہ کہ ہے کعبہ ٔ جان و دِل میں
سنگ اسود نصیب رکنِ شامی
بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے
کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے
ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے
سونپا خدا کو یہ عظمت کس سفر کی ہے
مجرم بلائے آئے ہیں جاوءک ہے گواہ
پھر رد ہو کب یہ شان کریموں کے در کی ہے
پہلے ہو ان کی یاد کہ پائے جلا نماز
یہ کہتی ہے اذان جو پچھلے پہر کی ہے
سرکار ہم گنواروں میں طرز ادب کہاں
ہم کو تو بس تمیز یہی بھیک بھر کی ہے
اپنا شرف دعا سے باقی رہا قبول
یہ جانیں ان کے ہاتھ میں کنجی عصر کی ہے
کعبہ ہے بے شک انجمن آرا دلہن مگر
ساری بہار دلہنوں میں دولہا کے گھر کی ہے
وہ خلد جس میں اترے گی ابرار کی بارات
ادنیٰ نچھاور اس مرے دولہا کے سر کی ہے
ہاں ہاں رہ مدینہ ہے غافل ذرا تو جاگ
او پاؤں رکھنے والے یہ جا چشم و سر کی ہے
ستر ہزار صبح ہیں ستر ہزار شام
یوں بندگی ٴ زلف و رخ آٹھوں پہر کی ہے
محبوب رب عرش ہے اس سبز قبہ میں
پہلو میں جلوہ گاہ عتیق و عمر کی ہے
لب واہیں آنکھیں بند ہیں پھیلی ہیں جھولیاں
کتنے مزے کی بھیک ترے پاک در کی ہے
قسمت میں لاکھ پیچ ہوں سو بل ہزار کج
یہ ساری گتھی اک تیری سیدھی نظر کی ہے
مومن ہوں مومنوں پہ رؤف رحیم ہو
سائل ہوں سائلوں کو خوشی لا نہر کی ہے
مولیٰ علی نے واری تِری نیند پر نماز
اور وہ بھی عصر سب سے جو اعلی خطر کی ہے
صدیق بلکہ غار میں جاں اس پر دے چکے
اور حفظِ جاں تو جان فروضِ غرر کی ہے
ہا ں تو نے ان کو جان انھیں پھیر دی نماز
پر وہ تو کر چکے جو کر نی بشر کی ہے
ثابت ہوا جملہ فرائض فروع ہیں
اصل الاصول بندگی اس تاجور کی ہے
آ کچھ سنا دے عشق کے بولوں میں اے رضا
مشتاق طبع لذّتِ سوزِ جگر کی ہے
بھینی سُہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے
کلیاں کھِلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے
کھبتی ہوئی نظر میں ادا کِس سحر کی ہے
چھبتی ہوئی جگر میں صَدا کس گجر کی ہے
ڈالیں ہَری ہَری ہیں تو بالیں بھری بھری
کشتِ اَمل پَری ہے یہ بارش کدھر کی ہے
ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حَرم کہے
سونپا خدا تجھ کو یہ عظمت سَفر کی ہے
ہم گِرد کعبہ پھرتے تھے کل تک اور آج وہ
ہم پر نثار ہے یہ ارادت کدھر کی ہے
کالک جبیں کی سجدۂ در سے چھڑاؤ گے
مجھ کو بھی لے چلو یہ تمنّا حجر کی ہے
ڈوبا ہوا ہے شوق میں زمزم اور آنکھ سے
جھالے برس رہے ہیں یہ حسرت کدھر کی ہے
برسا کہ جانے والوں پہ گوہر کروں نثار
ابرِ کرم سے عرض یہ میزاب زر کی ہے
آغوش ِ شوق کھولے ہے جن کے لیے حطیم
وہ پھر کے دیکھتے نہیں یہ دھن کدھر کی ہے
ہاں ہاں رہ ِ مدینہ ہے غافل ذرا تو جاگ
او پاؤں رکھنے والے یہ جاچشم و سر کی ہے
واروں قدم قدم پہ کہ ہر دم ہے جانِ نو
یہ راہِ جاں فزا مرے مولیٰ کے در کی ہے
گھڑیاں گنی ہیں برسوں کہ یہ سُب گھڑی پھری
مر مر کے پھر یہ سل مرے سینے سے سر کی ہے
اللہ اکبر اپنے قدم اور یہ خاکِ پاک
حسرت ِ ملائکہ کو جہاں وضعِ سر کی ہے
معراج کا سماں ہے کہاں پہنچے زائرو!
کرسی سے اونچی کرسی اسی پاک گھر کی ہے
عشاقِ رَوضہ سجدہ میں سوئے حرم جھکے
اللہ جانتا ہے کہ نیّت کِدھر کی ہے
یہ گھر یہ در ہے اس کا جو گھر در سے پاک ہے
مژدہ ہو بے گھر و کہ صلا اچّھے گھر کی ہے
محبوب ربِ عرش ہے اس سَبز قبّہ میں
پہلو جلوہ گاہ عتیق و عمر کی ہے
چھائے ملائکہ ہیں لگا تار ہے درود!
بدلے ہیں پہر ے بدلی میں بارش دُرر کی ہے
سعدیں کا قران ہے پہلوئے ماہ میں
جھرمٹ کیے ہیں تارے تجلّی قمر کی ہے
ستّر ہزار صبح ہیں ستّر ہزار شام
یوں بندگی ِ زلف و رُخ آٹھوں پہر کی ہے
جو ایک بار آئے دوبارہ نہ آئیں گے
رخصَت ہی بارگاہ سے بس اس قدر کی ہے
تڑپا کریں بدل کے پھر آنا کہاں نصیب
بے حکم کب مجال پرندے کو پر کی ہے
اے وائے بے کسیِ تمنّا کہ اب امید
دن کو نہ شام کی ہے نہ شب کو سحر کی ہے
یہ بدلیاں نہ ہوں تو کروروں کی آس جائے
اور بارگاہ مرحمتِ عام تر کی ہے
معصوموں کو ہے عمر میں صرف ایکبار بار
عاصی پڑے رہیں توصَلا عمر بھر کی ہے
زندہ رہیں تو حاضریِ بارگہ نصیب
مرجائیں تو حیاتِ اَبد عیش گھر کی ہے
مفلِس اور ایسے در سے پھر ے بے غنی ہوئے
چاندی ہر اک طرح تو یہاں گدیہ گر کی ہے
جاناں پہ تکیہ خاک نہالی ہے دل نہال
ہاں بے نواؤ خوب یہ صُورت گزر کی ہے
ہیں چتر و تخت سایہ ٔ دیوار و خاکِ در
شاہوں کو کب نصیب یہ دھج کرّوفر کی ہے
اس پاک کو میں خاک بسر سر بخاک ہیں
سمجھے ہیں کچھ یہی جو حقیقت بسر کی ہے
کیوں تاجدارو ! خواب میں دیکھی کبھی یہ شئے
جو آج جھولیوں میں گدایانِ در کی ہے
جارو کشوں میں چہرے لکھے ہیں ملوک کے
وہ بھی کہاں نصیب فقط نام بھر کی ہے
طیبہ میں مر کے ٹھنڈ ے چلے جاؤ آنکھیں بند
سیدھی سڑک یہ شہر شفاعت نگر کی ہے
عاصِی بھی ہیں چہیتے یہ طیبہ ہے زاہدو!
مکّہ نہیں کہ جانچ جہاں خیر و شر کی ہے
شانِ جمالِ طیبۂ جاناں ہے نفع محض!
وسعت جلالِ مکّہ میں سود و ضرر کی ہے
کعبہ ہے بے شک انجمن آرا دُلھن مگر
ساری بَھار دلھنیوں میں دولھا کے گھر کی ہے
کعبہ دُلھن ہے تربتِ اطہر نئی دُلھن
یہ رشکِ آفتاب و ہ غیرت قمر کی ہے
دونوں بنیں سجیلی انیلی بنی مگر
جو پی کے پاس ہے وہ سُہاگن کنور کی ہے
سر سبزِ و صل یہ ہے سیہ پوشِ ہجروہ
چمکی دو پٹوں سے ہے جو حالت جگر کی ہے
ماو شما تو کیا کہ خلیلِ جلیل کو
کل دیکھنا کہ اُن سے تمنّا نظر کی ہے
اپنا شرف دُعا سے ہے باقی رہا قبول
یہ جانیں ان کے ہاتھ میں کنجی اثر کی ہے
جو چاہے ان سے مانگ کہ دونوں جہاں کی خبر
زرنا خریدہ ایک کنیز اُن کے گھر کی ہے
رومی غلام دن حبشی باندیاں شبیں
گِنتی کنیز زادوں میں شام و سحر کی ہے
اتنا عجب بلندی ِ جنّت پہ کس لیے
دیکھا نہیں کہ بھیک یہ کِس اونچے گھر کی ہے
عرشِ بریں پہ کیوں نہ ہو فردوس کا دماغ
اتری ہوئی شبیہ تِرے بام و در کی ہے
وہ خلد جس میں اترے گی ابرار کی برات
ادنیٰ نچھاور اس مرے دولھا کے سر کی ہے
عنبر زمیں عبیر ہو ا مشکِ تر غبار!
ادنیٰ سی یہ شناخت تری رہگزر کی ہے
سر کار ہم گنواروں میں طرزِ ادب کہاں
ہم کو تو بس تمیز یہی بھیک بھر کی ہے
مانگیں گے مانگے جائیں گے منھ مانگی پائیں گے
سر کار میں نہ لا ہے نہ حاجت اگر کی ہے
اف بے حیا ئیاں کہ یہ منھ اور ترے حضور
ہاں تو کریم ہے تری خو در گزر کی ہے
تجھ سے چھپاؤں منھ تو کروں کس کے سامنے
کیا اور بھی کسی سے توقع نظر کی ہے
جاؤں کہاں پکاروں کسے کس کا منھ تکوں
کیا پرسشِ اور جَا بھی سگِ بے ہنر کی ہے
بابِ عطا تو یہ ہے جو بہکا ادھر ادھر
کیسی خرابی اس نگھر ے در بدر کی ہے
آباد ایک در ہے ترا اور ترے سِوا
جو بارگاہ دیکھیے غیرت کھنڈر کی ہے
لب وا ہیں آنکھیں بند ہیں پھیلی ہیں جھولیاں
کتنے مزے کی بھیک ترے پاک در کی ہے
گھیرا اندھیریوں نے دہائی ہے چاند کی
تنہا ہوں کالی رات ہے منزل خطر کی ہے
قسمت میں لاکھ پیچ ہوں سو بَل ہزار کج
یہ ساری گتھی اِک تِری سیدھی نظر کی ہے
ایسی بندھی نصیب کھلے مشکلیں کھلیں
دونوں جہاں میں دھوم تمہاری کمر کی ہے
جنت نہ دیں ، نہ دیں ، تری رویت ہو خیر سے
اس گل کے آگے کس کو ہوس برگ و بر کی ہے
شربت نہ دیں ، نہ دیں ، تو کرے بات لطف سے
یہ شہد ہو تو پھر کسے پَروا شکر کی ہے
میں خانہ زاد کہنہ ہوں صوٗرت لکھی ہوئی
بندوں کنیزوں میں مرے مادر پدر کی ہے
منگتا کا ہاتھ اٹھتے ہی داتا کی دین تھی
دوٗری قبول و عرض میں بس ہاتھ بھر کی ہے
سنکی وہ دیکھ باد شفاعت کہ دے ہوا
یہ آبرو رضا تِرے دامانِ تر کی ہے
بھردو جھولی میری یا محمد ﷺ
لوٹ کر میں نہ جاؤ ں گا خالی
تمہارے آستانے سے زمانہ کیا نہیں پاتا
کوئی بھی در سے خالی مانگنے والا نہیں جاتا
بھردو جھولی میری سرکار ِ مدینہ
بھردو جھولی میری تاجدارِ مدینہ
تم زمانے کے مختار ہو یا نبی ﷺ
بے کسوں کے مدد گار ہو یا نبی ﷺ
سب کی سنتے ہو اپنے ہو یا غیر ہوں
تم غریبوں کے غم خوار ہو یا نبی ﷺ
ہم ہیں رنج و مصیبت کے مارےہوئے
سخت مصیبت میں ہیں غم کے ہارے ہوئے
کچھ خدارا ہمیں بھیک دو
در پے ائے ہیں جھولی پھیلائے ہوئے
ہے مخالف زمانہ کدھر جائیں ہم
حالاتِ بے کس کو دکھائیں ہم
ہم تمہارے بھکاری ہیں یا مصطفیٰ
کس کے آگے بھلا ہاتھ پھیلائیں ہم
کچھ نواسوں کا صدقہ عطا ہو
در پہ آیا ہوں بن کر سوالی
حق سے پائی وہ شان کریمی
مرحبا دونوں عالم کےوالی
اس کی قسمت کا چمکا ستار
جس پہ نظر ِ کرم تم نے ڈالی
زندگی بخش دی بندگی کو
آبرو دین حق کی بچالی
وہ محمد کا پیارہ نواسہ
جس نے سجدے میں گردن کٹالی
جو ابنِ مرتضیٰ نے کیا کام خوب ہے
قربانیٔ حسین کا انجام خوب ہے
قربان ہو کہ فاطمہ زھرٰی کے چین نے
دینِ خدا کی شان بڑھائی حسین نے
بخشی ہے جس نے مذہب ِ اسلام کو حیات
جتنی عظیم حضرت شبیر کی ہے ذات
میدانِ کربلا میں شاہِ خوش خصال نے
سجدے میں سرکٹا کے محمد ﷺ کے لعل نے
حشر میں دیکھیں گے جس دم
امتی یہ کہیں گے خوشی سے
آرہے ہیں وہ دیکھو محمد ﷺ
جن کےکندھے پہ کملی ہے کالی
محشر کے روز پیشِ خدا ہوں گے جس گھڑی
ہو گی گناہ گاروں پرسش جس گھڑی ہوگی
یقینًا ہر بشر کو اپنی بخشش کی پڑی ہو گی
سبھی کہ آس اس دن کملی والے کی لگی ہوگی
کہ ایسے میں محمد ﷺکی سواری آرہی ہوگی
پکاریگا زمانہ اس گھڑی دکھ درد کے مارو
نہ گھبراؤ گناہ گارو نہ گھبراؤ گناہ گارو
عاشقِ مصطفیٰ ﷺ کی اذان میں کتنا اثر تھا
سچا یہ واقعہ ہے اذان بلال کا
ایک دن رسولِ پا ک سے لوگوں نے یوں کہا
یا مصطفٰی اذان غلط دیتے ہیں بلال
کہیے حضور اس میں آپ کا ہے کیا خیال
فرمایا مصطفیٰ نےیہ سچ ہے تو دیکھیے
وقتِ سحر کی آج اذان کوئی اور دے
حضرت بلال نے جو اذان ِ سحر نہ دی
قدرت خدا کی دیکھو نہ مطلق سحر ہوئی
آئے نبی کے پاس کچھ اصحاب ِ با صفا
کی عرض مصطفٰی سے یا شاہِ انبیاء
ہے کیا سبب سحر نہ ہوئی آج
جبریل لے آئے پیغام ِ کبریا
پہلے تو مصطفیٰ کو ادب سے کیا سلام
بعد از سلام ان کو خدا کا دیا پیام
یوں جبریل نے کہا خیر الانام سے
اللہ کو ہے پیار تمہارے غلام سے
فرما رہا ہے آپ سے رب ذوالجلا
ہوگی نہ صبح دیں گے نہ جب تک اذان بلال
عاشقِ مصطفیٰ میں اللہ اللہ کتنا اثر تھا
عرش والے بھی سنتے تھے جس کو
کیا اذان تھی اذان ِ بلالی
کاش ! پرنم بھی آئے مدینے
جیتے جی ہو بلاوا کسی دن
حال ِ غم مصطفٰی کو سناؤں
تھام کر ان کے روضے کی جالی
بندہ ملنے کو قریبِ حضرت قادر گیا لمعۂ باطن میں گمنے جلوۂ ظاہر گیا
تیری مرضی پاگیا سوٗرج پھرا الٹے قدم تیری انگلی اٹھ گئی مہ کا کلیجا چِر گیا
بڑھ چلی تیری ضیا اندھیرہ عالم سے گھٹا کھل گیا گیسو ترا رحمت کا بادل گھر گیا
بندھ گئی تیری ہوا سادہ میں خاک اڑنے لگی بڑھ چلی تیری ضیا آتش پہ پانی پھرگیا
تیر ی رحمت س صفی اللہ کا بیڑا پار تھا تیرے صدقے سے نجی اللہ کا بجرا تِر گیا
تیری آمد تھی کہ بیت اللہ مجرے کو جھکا تیری ہیبت تھی ہر بُت تھر تھر ا کر گر گیا
مومن اُن کا کیا ہوا للہ اس کا ہو گیا کافر اُن سے کیا پھر ا اللہ ہی سے پھر گیا
وہ کہ اُس در کا ہوا خلقِ خدا اُس کی ہوئی وہ کہ اس در سے پھر ا اللہ اس سے پھر گیا
مجھ کو دیوانہ بتاتے ہو میں وہ ہشیار ہوں پاؤں جب طوفِ حرم میں تھک گئے سر پرگیا
رحمۃ اللعالمین آفت میں ہوں کیسی کروں میرے مولیٰ میں تو اِس دل سے بلا میں گھر گیا
میں ترے ہاتھوں کے صدقے کیس کنکریاں تھیں وہ جن سے اتنے کافروں کا دفعتًا منھ پھر گیا
کیوں جناب بو ہریرہ تھا وہ کیسا جامِ شیر جس سے ستر صاحبوں کا دودھ سے منھ پھر گیا
واسطہ پیارے کا ایسا ہو کہ جو سنّی مرے یوں نہ فرمائیں ترے شاہد کہ وہ فاجر گیا
عرش پر دھومیں مچیں وہ مومن صالح ملا فرش سے ماتم اٹھے وہ طیّب وہ طاہر گیا
اللہ اللہ یہ علوِ خاص عبدیت رضا بندہ ملنے کو قریبِ حضرت قادر گیا
ٹھوکریں کھاتے پھروگے انکے در پر پڑرہو قافلہ تو اے رضا اوّل گیا آخر گیا
نعمتیں بانٹتا جس سمت وہ ذیشا ن گیا ساتھ ہی منشی رحمت کا قلم دان گیا
لے خبر جلد کہ غیروں کی طرف دھیان گیا میرے مولا مِرے آقا ترے قربان گیا
آہ وہ آنکھ کہ ناکامِ تمنّا ہی رہی ہائے وہ دل جو ترے در سے پُر اَرمان گیا
دل ہے وہ جو تری یاد سے معمور رہا سر ہے وہ سر جو ترے قدموں پہ قربان گیا
انہیں جانا انہیں مانا نہ رکھا غیر سے کام لِلّٰہِ الحمد میں دنیا سے مسلمان گیا
اور تم پر مرے آقا کی عنایت نہ سہی نجدیو! کلمہ پڑھانے کا بھی احسان گیا
آج لے ان کی پنا ہ آج مدد مانگ ان سے پھر نہ مانیں گے قیامت میں اگر مان گیا
اُف رے منکریہ بڑھا جوشِ تعصّب آکر بھیڑ میں ہاتھ سے کم بخت کے ایمان گیا
جان و دل ہوش وخِرد سب تو مدینے پہنچے تم نہں چلتے رضا سارا تو سامان گیا ۔
بندہ قادر کا بھی قادر بھی ہے عبدالقادر
سرِّ باطن بھی ہے ظاہری بھی ہے عبدالقادر
مفتی شرع بھی ہے قاضِی ملت بھی ہے
علم اسرار سے ماہر بھی ہے عبدالقادر
منبع فیض بھی ہے مجمع افضال بھی ہے
مہرِ عرفاں کا منور بھی ہے عبدالقادر
قطب ابدال بھی ہے محورِ ارشاد بھی ہے
مرکزِ دائرہ سِر بھی ہے عبدالقادر
سلکِ عرفاں کی ضیا ہے یہی درِ مختار
فخرِ اشباہ و نظائر بھی ہے عبدالقادر
اس کے فرمان ہیں سب شارحِ حکمِ شارع
مظہر ناہی و آمر بھی ہے عبدالقادر
ذی تصرف بھی ہے ماذون بھی مختار بھی ہے
کارِ عالم کا مدبّر بھی ہے عبدالقادر
رشکِ بلبل ہے رضا لالہ صد داغ بھی ہے
آپ کا واصفِ و ذاکر بھی ہے عبدالقادر
بلالو پھر مجھے اۓ شاہ ِ بحر و بر ! مدینے میں
میں پھر روتا ہوا آؤں ، تیرے در پر مدینہ میں
نہ دولت دے ، نہ شُہر ت دے ، مجھے بس یہ سعادت دے
تیرے قدموں میں مَرجاؤں ، میں رو رو کر مدینے میں
مدینے جانے والو!جاؤ جاؤ فِی اَمَانِ اللہ
کبھی تو اپنا بھی لگ جائے گا بستر مدینے میں
میرا غم بھی تو دیکھو ، میں پڑا ہوں دور طیبہ سے
سکون پائے گا بس ،میرا دل ِ مضطر مدینے میں
سلام ِ شوق کہنا حاجیو! میرا بھی رو رو کر
سُنانا داستانِ غم میری رو کر مدینہ میں
مدینہ اس لیے عطؔار جان و دل سے پیارا
کہ رہتے ہیں میرے آقا ،میرے دلبر مدینے میں
بگڑی بھی بنائیں گے، جلوے بھی دکھائیں گے
گھبراؤ نہ دیوانو ! سرکار بلائیں گے
ہم مسجد ِ نبوی کے دیکھیں گے میناروں کو
گمبد خضراء کے پُرنور نظاروں کو
ہم جاکے مدینہ پھر واپس نہیں آئیں گے
مل جائیں گی تعبیریں ایک روز تو خوابوں کی
گِر جائیں گی دیواریں سب دیکھنا راہوں کی
ہم روضۂ اقدس پہ جب آنسو بہائیں گے
دل عشقِ نبی میں کچھ اور تڑپنے دو
اس دید کی آتش کو کچھ اور بھڑکنے دو
ہم تشنہ دل چل کر زم زم سے بجھائیں گے
جب حشر کے میدان میں اِک حشر بپا ہو گا
جب فیصلہ اُمت کا کرنے کو خدا ہو گا
اُمت کو شہہ ِ بطحٰی کملی میں چھپائیں گے
لِلّٰہ محمد ﷺ سے رو داد میر ی کہنا
یہ پوچھ کے آقا سے اۓ حاجیو تم آنا
عؔشرت کو درِ اقدس پےکب آپ بلائیں گے ۔
بر تر قیاس سے ہے مقامِ ابُو الحسن سدرہ سے پوچھو رفعتِ بامِ ابُو الحسین
وارستہ پائے بستہ ٔ دامِ ابُو الحسین آزاد نار سے ہے غلام ِ ابُو الحسین
خطِ سیہ میں نورِ الٰہی کی تابشیں کیا صبح ِ نور بار ہے شامِ ابُوالحسین
ساقی سنا دے شیشۂ بغداد کی ٹپک مہکی ہے بوئے گل سے مدامِ ابو الحسین
بوئے کباب سوختہ آتی ہے مئے کشو چھلکا شرابِ چشت سے جامِ ابُو الحسین
گلگوں سحر کو ہے سَہر سوزِ دل سے آنکھ سلطان سہرور د ہے نامِ ابُوالحسین
کرسی نشیں ہے نقش مُراد اُ ن کے فیض سے مولائے نقش بند ہے نام ِ ابو الحسین
جس نخل پاک میں ہیں چھیالیس ڈالیاں اک شاخ ان میں سے ہے بنامِ ابُو الحسین
مستوں کو اے کریم بچائے خمار سے تادور حشر دورۂ جامِ ابُوالحسین
اُن کے بھلے سے لاکھوں غریبوں کا ہے بھلا یا رب زمانہ باد بکامِ ابُو الحسین
میلا لگا ہے شانِ مسیحا کی دید ہے مردے جلا رہا ہے خرامِ ابُو الحسین
سر گشتہ مہر ومہ ہیں پَر اب تک کھلا نہیں کس چرخ پر ہے ماہ تمام ِ ابُو الحسین
اتنا پتہ ملا ہے کہ یہ چرخ چنبری ہے مفت پایہ زینۂ بامِ ابُو الحسین
ذرّہ کو مہر قطرہ کو دریا کرے ابھی گر جوش زن ہو بخشش عامِ ابُو الحسین
یحیٰ کا صدقہ وارثِ اقبال مند پائے سجادہ ٔ شیوخ کرامِ ابُو الحسین
انعام لیں بہارِ جناں تہنیت لکھیں پھولے پھلے تو نخل مرامِ ابُوالحسین
یا رب وہ چاند جو فلکِ عزّہ جاہ پر ہر سیر میں ہوگا م بگامِ ابُوالحسین
آؤ تمہیں ہلال سپہر شرف دکھائیں گردن جھکائیں بہر سلام ِ ابُو الحسین
قدرت خدا کی ہے کہ طلاطم کناں اٹھی بحر فنا سے موج دوامِ ابُوالحسین
یا رب ہمیں بھی چاشنی اس اپنی یاد کی جس سے ہے شکّریں لب وکام ِ ابُوالحسین
ہاں طالِع رضا تری اللہ رے یا وری
اے بندہ ٔ جد و د کرام ِ ابُو الحسین
بادِ صبا تیرا گزر گر ہو کبھی سوئے حرم
پہنچا سلامِ شوق تو پیشِ نبیٔ محترم
جو ذات ہے نور الھدیٰ، چہرہ ہے جو شمس الضحیٰ
عارض ہیں جو بدرالدجیٰ،دستِ عطا بحرِ کرم
یا مصطفٰے یا مجتبیٰ ہم عاصیوں پر رحم ہو
ہیں نفسِ امّارہ سےاب مجبور ہم مغلوب ہم
قرآں ہی وہ برہاں ہے، جو ناطق ادیان ہے
حکم اس کا جب نافذ ہوا، تھے سب صحیفے کالعدم
پیغام صبا لائی ہے گلزارِ نبی سے
آیا ہے بلاوا مجھے دربارِ نبی سے
ہر آہ گئی عرش پہ، یہ آہ کی قسمت
ہر اشک پہ اِک خلد ہے، ہر اشک کی قیمت
تحفہ یہ ملا ہے مجھے سرکار ِ نبی سے
بھاتی نہیں ہمدم مجھے جنت کی جوانی
سنتا نہیں زاھدسے میں حوروں کی کہانی
اُلفت ہے مجھے سایۂ دیوار نبی سے
عرفاں کی کسک خُلق کی مَے صبر کا ساغر
کیا لطف ملا کرتا ہے جو دیتے ہیں سَروَر
یہ پوچھ لے آکر کوئی بیمارِ نبی سے
پيارو آ مدينو نيارو نيارو آ مدينو
منهنجو ساھ آ مدينو واھ واھ مدينو
ريءَ پاڪ نبيءَ نه سري ٿي هي دل ٿڌا ساھ ڀري ٿي
جي نظر ٿئي ها هڪڙي وڃان سنڌ کان طيبه نڪري
مديني پاڪ اچان پسي روضي کي ٺران
مديني پاڪ اچان پسي روضي کي ٺران
شل موت ملي ها مديني ۾ منهنجي خاڪ رلي ها مديني ۾
جي جسم کان روح هتي نڪري گنبد کي ڏسي مينار ڏسي
ڀليم چوي سبحان الله جي قبر مديني منجھ ملي
پوچھتے کیوں ہو عرش پر یوں گئے مصطفٰے کہ یوں
کیف کے پر جہاں جلیں کوئی بتائے کیا کہ یوں
قصرِ دنٰی کے راز میں عقلیں تو گُم ہیں جیسی ہیں
رُوح قدس سے پوچھیے تم نے بھی کچھ سُنا کہ یوں
میں نے کہا کہ جلوہ ٔ اصل میں کس طرح گمیں
صبح نے نور مہر میں مٹ کے دکھا دیا کہ یوں
ہائے رے ذوقِ بے خودی دل جو سنبھلنے سا لگا
چھک کے مہک میں پھول کی گرنے لگی صبا کہ یوں
دل کو دے نور و داغ عِشق پھر میں فدا دو نیم کر
مانا ہے سن کے شقِ ماہ آنکھوں سے اب دکھا کہ یوں
دل کو ہے فِکر کس طرح مُردے جلاتے ہیں حضور
اے میں فدا لگا کر ایک ٹھوکر اسے بتا کہ یوں
باغ میں شکرِ وصل تھا ہجر میں ہائے ہائے گل
کام ہے ان کے ذکر سے خیر وہ یوں ہوا کہ یوں
جو کہے شعر و پاس شرع دونوں کا حسن کیوں کر آئے
لا اسے پیشِ جلوہ زمزمۂ رضا کہ یوں
پوچھتے کیا ہو مدینے سے میں کیا لا ہوں
اپنی آنکھوں میں مدینے کو بسا لا یا ہوں
دل بھی میرا ہے وہیں جان بھی میری ہے وہیں
اپنی کندھوں پر اپنے لاشے کو اٹھا لا یا ہوں
جس نے چومے قدم سر ور ِ عالم کے
خاک ِ طیبہ کو میں اپنی پلکوں پہ سجا لا یا ہوں
سایہ گمبدِ خضرا میں ادا کر کے نماز
اپنے سر کو میں عرش کا ہم پایا بنا لا یا ہوں
جان و دل وہاں رکھ کے امانت کی طرح
پھر وہیں جانے کے اسباب بنا لا یا ہوں
پھر کے گلی گلی تباہ ٹھوکریں سب کی کھائے کیوں
دل کو جو عقل دے خدا تیری گلی سے جائے کیوں
رخصتِ قافلہ کا شور غش سے ہمیں اٹھائے کیوں
سوتے ہیں ان کے سایہ میں کوئی ہمیں جگائے کیوں
بار نہ تھے جیب کو پالتے ہی غریب کو
روئیں جو اب نصیب کوچیں کہو گنوائیں کیوں
یادِ حضور کی قسم غفلتِ عیش ہے سِتم
خوب ہیں قیدِ غم میں ہم کوئی ہمیں چھڑا ئے کیوں
دیکھ کے حضرتِ غنی پھیل پڑے فقیر بھی
چھائی ہے اب تو چھاؤنی حشر ہی آنہ جائے کیوں
جان ہے عشقِ مصطفٰے روز فزوں کرے خدا
جس کو ہو در د کا مزہ نازِ دوا اٹھائے کیوں
ہم تو ہیں آپ دل فگار غم میں ہنسی ہے ناگوار
چھیڑ کے گل کو نو بہار خون ہمیں رلائے کیوں
یا تو یوں ہی تڑپ کے جائیں یا وہی دام سے چھڑائیں
منت ِ غیر کیوں اٹھائیں کوئی ترس جتائے کیوں
اُن کے جلال کا اثر دل سے لگائے ہے قمر
جو کہ ہو لوٹ زخم پر داغِ جگر مٹائے کیوں
خوش رہے گل سے عندلیب خارِ حرم مجھے نصیب
میری بلا بھی ذِکر پھر پھول کے خار کھائے کیوں
گردِ ملال اگر دُھلے دِل کی کلی اگر کھِلے
برق سے آنکھ کیوں جلے رونے پہ مسکرائے کیوں
جانِ سفر نصیب کو کس نے کہا مزے سے سو
کھٹکا اگر سحر کا ہوشام سے موت آئے کیوں
اب تو نہ روک اے غنی عادتِ سگ بگڑ گئی
میرے کریم پہلے ہی لقمۂ تر کھلائے کیوں
راہِ نبی میں کیا کمی فرشِ بیاض دیدہ کی
چادرِ ظل ہے ملگجی زیرِ قدم بچھائے کیوں
سنگِ در حضور سے ہم کو خدا نہ صبر دے
جانا ہے سر کو جا چکے دل کو قرار آئے کیوں
ہے تو رضا نراسِتم جرم پہ گر لجائیں ہم
کوئی بجائے سوز، غم سا ز طرب بجائے کیوں
پل سے اتارو راہ گزر کو خبر نہ ہو
جبریل پر بچھایئں تو پر کو خبر نہ ہو
کانٹا مرے جگر سے غم روزگار کا
یوں کھینچ لیجیے کہ جگر کو خبر نہ ہو
فریاد امتی جو کرے حال زار میں
ممکن نہیں کہ خیر بشر کو خبر نہ ہو
کہتی تھی یہ براق سے اس کی سبک روی
یوں جائیے کہ گرد سفر کو خبر نہ ہو
فرماتے ہیں یہ دونوں ہیں سردار دو جہاں
اے مرتضٰی عتیق و عمر کو خبر نہ ہو
گما دے ان کی ولا میں خدا ہمیں
ڈھونڈھا کرے پر اپنی خبر کو خبر نہ ہو
آدل حرم سے روکنے والوں سے چھپ کے آج
یوں اٹھ چلیں کہ پہلو و بر کو خبر نہ ہو
طیر حرم ہیں یہ کہیں رشتے بپا نہ ہوں
یوں دیکھیے کہ تار نظر کو خبر نہ ہو
اے خار طیبہ دیکھ کہ دامن نہ بھیگ جائے
یوں دل میں آ کہ دیدہ تر کو خبر نہ ہو
اے شوق دل یہ سجدہ گر ان کو روا نہیں
اچھا وہ سجدہ کیجیے کہ سر کو خبر نہ ہو
ان کے سوا رضا کو ئی حامی نہیں جہاں
گزرا کرے پسر پہ پدر کو خبر نہ ہو
پاٹ وہ کچھ دَھار یہ کچھ زار ہم یا الٰہی کیوں کر اتریں پار ہم
کس بلا کی مے سے ہیں سر شار ہم دن ڈھلا ہوتے نہیں ہشیار ہم
تم کرم سے مشتری ہر عیب کے جنسِ نا مقبولِ ہر بازار ہم
دشمنوں کی آنکھ میں بھی پھول تم دوستوں کی بھی نظر میں خار ہم
لغزشِ پا کا سہارا ایک تم گرنے والے لاکھوں ناہنجار ہم
صَدقہ اپنے باز ووں کا المدد کیسے توڑیں یہ بُتِ پندار ہم
دم قدم کی خیر اے جانِ مسیح در پہ لائے ہیں دلِ بیمار ہم
اپنی رحمت کی طرف دیکھیں حضور جانتے ہیں جیسے ہیں بدکار ہم
اپنے مہمانوں کا صَدقہ ایک بوند مر مِٹے پیا سے ادھر سرکار ہم
اپنے کوچہ سے نکالا تو نہ دو ہیں تو حد بھر کے خدائی خوار ہم
ہاتھ اٹھا کر ایک ٹکڑا اے کریم ہیں سخی کے مال میں حقدار ہم
چاندنی چھٹکی ہے اُن کے نور کی آؤ دیکھیں سیر طور و نار ہم
ہمت اے ضعف ان کے در پر گر کے ہوں بے تکلف سایہ دیوار ہم
با عطا تم شاہ تم مختار تم بے نوا ہم زار ہم ناچار ہم
تم نے تو لاکھوں کو جانیں پھیردیں ایسا کتنا رکھتے ہیں آزار ہم
اپنی ستاری کا یا رب واسطہ ہوں نہ رسوا بر سرِ دربار ہم
اتنی عرضِ آخری کہہ دو کوئی ناؤ ٹوٹی آپڑے منجدھار ہم
منھ بھی دیکھا ہے کسی کے عفو کا دیکھ او عصیاں نہیں بے یار ہم
میں نثار ایسا مسلماں کیجیے توڑ ڈالیں نفس کا زنّار ہم
کب سے پھیلائے ہیں دامن تیغ عِشق اب تو پائیں زخم دامن دار ہم
سنّیت سے کھٹکے سب کی آنکھ میں پھول ہو کر بن گئے کیا خار ہم
ناتوانی کا بھلا ہو بن گئے نقشِ پا ئے طالبانِ یار ہم
دل کے ٹکڑے نذرِ حاضر لائے ہیں اے سگانِ کوچۂ دلدار ہم
قِسمت ِ ثور و حرا کی حرص ہے چاہتے ہیں دل میں گہر ا غار ہم
چشم پوشی و کرم شانِ شما کارِ ما بے با کی و اصرار ہم
فصلِ گل سبزہ صبا مستی شباب چھوڑیں کس دل سے در خمار ہم
میکدہ چھٹتا ہے لِلّٰہ ساقیا اب کے ساغر سے نہ ہوں ہشیار ہم
ساقی تسنیم جب تک آ نہ جائیں اے سیہ مستی نہ ہوں ہشیار ہم
نازشیں کرتے ہیں آپس میں مَلک ہیں غلامانِ شہِ ابرار ہم
لطفِ از خود رفتگی یار ب نصیب ہوں شہید جلوۂ رفتار ہم
اُن کے آگے دعویِ ہستی رضا کیا بکے جاتا ہے یہ ہر بار ہم
ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا مدینے کی
مہکی مہکی فضا مدینے کی
آرزو ہے خدا مدینے کی
مجھ کو گلیاں دکھا مدینے کی
دن ہے کیسا منوّر و روشن!
رات رونق فَزا مدینے کی
چھاؤں تو ہر جگہ کی ٹھنڈی پر
دھوپ بھی دِلرُبا مدینے کی
ہے پہاڑوں پر نور کی چادر
وادیاں دل کُشا مدینے کی
کیوں ہو مایوس اۓ مر یضو! تم
لے لو خاکِ شفا مدینے کی
کوئی ناکام لوٹتا ہی نہیں
راہ لے اۓ گدا !مدینے کی
میری قسمت میں کاتبِ تقدیر !
لکھ دے لکھ دے قضا مدینے کی
جا کے عؔطار پھر مدینے میں
رحمتیں لُوٹنا مدینے کی
تیرے ہوتے جنم لیا ہوتا
پھر کبھی تو تجھے ملا ہوتا
کاش میں سنگِ در تیرا ہوتا
تیرے قدموں کو چوُمتا ہوتا
تو چلا کرتا میری پلکوں پر
کاش میں تیرا راستہ ہوتا
ذَرّہ ہوتا میں تیری راہوں کا
تیرے تلووؔں کو چھو لیا ہوتا
تیرے مسکن کے گرد شام وسحر
بن کے منگتا میں پھر رہا ہوتا
تو کبھی تو میری خبر لیتا
تیرے کوچے میں گھر لیا ہوتا
تو جو آتا میرے جنازے پر
تیرے ہوتے میں مر گیا ہوتا
چھوڑ کر جنتیں پلٹ آتا
تو میری قبر پر کھڑا ہوتا
لڑتا پھرتا تیرے اعداء سے
تیری خاطر مر گیا ہوتا
ہوتا طاہر تیرے فقیروں میں
تیری دہلیز پر کھڑا ہوتا
تیری خیر ہو وے پہر ے دارا! روضے دی جالی چُم لین دے
اساں ویکھاو ایں رب دا نظارا، روضے دی جالی چُم لین دے
نہ او طور، نہ عر شِ معلّی، اوتھے ہر ویلے رب دا تجلّٰی
ایہہ محمد دا پاک دوارا ،روضے دی جالی چم لین دے
ساڈے مولٰی نے ایہہ دن دکھائے، آ کے ڈیر ے غریباں نے لائے
ایتھے رب دا حبیب پیارا، روضے دی جالی چم لین دے
اس ہر ے ہرے گنبد دی چھانویں ،اساں دیکھے رسولاں دے نانویں
تایوں جھکدا ایتھے جگ سارا ،روضے دی جالی چم لین دے
جدوں آون گیا ں اودی یاداں ، اساں رُو رُو کَر اں گے فر یاداں
جاندی واری تے سانوں خدارا ،روضے دی جالی چم لین دے
جہڑے نور دا رب شیدائی ،اودا صدقہ اے ساری خدائی
او سے نور دا ایتھے چمکارا روضے دی جالی چم لین دے
اساں مہماں ہاں گھڑی و پل دے لکھے لیکھ نہ مؔسلم ٹل دے
خبر آؤ ناں ہو وے نہ دوبارا روضے دی جالی چم لین دے
تيرے ہوتے جنم ليا ہوتا
کوئی مُجھ سا ، نہ دُوسرا ہوتا
سانس لیتا توں، اور میں جی اُٹھتا
کاش مکّہ کی میں فضا ہوتا
ہِجرتوں ميں پڑاؤ ہوتا ميں
اور تُو کُچھ دير کو رُکا ہوتا
تيرے حُجرے کے آس پاس کہيں
ميں کوئی کچاراستہ ہوتا
بيچ طائف بوقتِ سنگ زنی
تيرے لب پر سجی دُعا ہوتا
کِسی غزوہ ميں زخمی ہو کر ميں
تيرے قدموں پہ جاگِرا ہوتا
کاش اُحد ميں شريک ہو سکتا
اور باقی نا پِھر بچا ہوتا
تیری کملی کا سوت کیوں نہ ہوا
کہ تیرے شانوں پہ جھولتا ہوتا
چوب ہوتا میں تیری چوکھٹ کی
یا تیرے ہاتھ کا عصا ہوتا
تيری پاکيزہ زِ ندگی کا ميں
کوئی گُمنام واقِعہ ہوتا
لفظ ہوتا میں کسی آیت کا
جو تیرے ہونٹ سے ادا ہوتا
ميں کوئی جنگجُو عرب ہوتا
جو تيرے سامنے جُھکا ہوتا
ميں بھی ہوتا تيرا غُلام کوئی
لاکھ کہتا ، نہ ميں رِہا ہوتا
سوچتا ہوں تب جنم لیا ہوتا
جانے پھر کیا سے کیا ہوا ہوتا
چاند ہوتا تیرے زمانے کا
پھر تیرے حکم سے بٹا ہوتا
پانی ہوتا اُداس چشموں کا
تیرے قدموں میں بہہ گیا ہوتا
پودا ہوتا میں جلتے صحرا میں
اور تیرے ہاتھ سے لگا ہوتا
تیری صحبت مجھے ملی ہوتی
میں بھی تب کتنا خوش نما ہوتا
مجھ پر پڑتی جو تیری نظر کرم
آدمی کیا، میں معجزہ ہوتا
ٹکڑا ہوتا ، میں ایک بادل کا
اور تیرے ساتھ گھومتا ہوتا
آسماں ہوتا، عُہد نبوی کا
تجھ کو حیرت سے دیکھتا ہوتا
خاک ہوتا ميں تيری گليوں کی
اور تيرے پاؤں چُومتا ہوتا
پيڑہوتا کھجُور کا ميں کوئی
جِس کا پھل تُو نے کھا ليا ہوتا
بچّہ ہوتا اِک غريب بيوہ کا
سر تيری گود ميں چُھپا ہوتا
رستہ ہوتا تيرے گُزرنے کا
اور تيرا رستہ ديکھتا ہوتا
بُت ہی ہوتا ميں خانہ کعبہ کا
جو تيرے ہاتھ سے فنا ہوتا
مُجھ کو خالق بناتا غار ،حسن
اور ميرا نام بھی حِرا ہوتا
تو ہے وہ غوث کہ ہر غوث ہے شیدا تیرا
تو ہے وہ غیث کہ ہر غیث ہے پیاسا تیرا
سورج اگلوں کے چمکتے تھے چمک کر ڈوبے
افقِ نور پہ ہے مہر ہمیشہ تیرا
مُرغ سب بولتے ہیں بول کے چپ رہتے ہیں
ہااصیل ایک نو اسنج رہے گا تیرا
جو ولی قبل تھے یا بعد ہوئے یا ہوں گے
سب ادب رکھتے ہیں دل میں مرے آقا تیرا
بقسم کہتے ہیں شاہان صریفین و حریم
کہ ہُوا ہے نہ ولی ہو کوئی ہمتا تیرا
تجھ سے اور دہر کے اقطاب سے نسبت کیسی
قطب خود کون ہے خادم تِرا چیلا تیرا
سارے اقطاب جہاں کرتے ہیں کعبہ کا طواف
کعبہ کرتا ہے طوافِ درِ والا تیرا
اور پروانے ہیں جو ہوتے ہیں کعبہ پہ نثار
شمع اِک تو، ہے کہ پَروانہ ہے کعبہ تیرا
شجرِ سرو سہی کِس کے اُگائے تیرے
معرفت پھول سہی کس کا کِھلا یا تیرا
تو ہے نو شاہ بَراتی ہے یہ سارا گلزار
لائی ہے فصل سمن گوندھ کے سہرا تیرا
ڈالیاں جھومتی ہیں رقصِ خوشی جو ش پہ ہے
بلبلیں جھولتی ہیں گاتی ہیں سہرا تیرا
گیت کلیوں کی چٹک غزلیں ہزاروں کی چہک
باغ کے سازوں میں بجتا ہے ترانا تیرا
صفِ ہر شجرہ میں ہوتی ہے سَلامی تیری
شاخیں جھک کے بجا لاتی ہیں مجرا تیرا
کِس گلستاں کو نہیں فصلِ بہاری سے نیا
کون سے سِلسلہ میں فیض نہ آیا تیرا
نہیں کس چاندکی منزل میں ترا جلوۂ نور
نہیں کس آئینہ کے گھر میں اُجالا تیرا
راج کِس شہر میں کرتے نہیں تیرے خدام
باج کِس نہر سے لیتا نہیں دریا تیرا
مزرع ِ چِشت و بخارا و عِراق واجمیر
کون سی کِشت پہ برسا نہیں جھالا تیرا
اور محبوب ہیں ، ہاں پر سبھی یکساں تو نہیں
یوں تو محبوب ہے ہر چاہنے ولا تیرا
اس کو سرفرد سَراپا بفراغت اوڑھیں
تنگ ہو کر جو اترنے کو ہو نیما تیرا
گردنیں جھک گئیں سر بچھ گئے دل لوٹ گئے
کشفِ ساق آج کہاں یہ تو قدم تھا تیرا
تاجِ فرقِ عرفا کس کے قدم کو کہیے
سر جسے باج دیں وہ پاؤں ہے کِس کا تیرا
سُکر کے جوش میں ہیں وہ تجھے کیا جانیں
خِضر کے ہوش سے پوچھے کوئی رتبہ تیرا
آدمی اپنے ہی احوال پہ کرتا ہے قیاس
نشے والوں نے بھلا سُکر نکالا تیرا
وہ تو چھوٹا ہی کہا چاہیں کہ ہیں زیرِ حضیض
اور ہر اَوج سے اونچا ہے ستارہ تیرا
دل ِ اعدا کو رضا تیز نمک کی دُھن ہے
اِ ک ذرا اور چھڑ کتار ہے خامہ تیرا
تو امیر حرم میں فقیر عجم
تیرے گن اور یہ لب میں طلب ہی طلب
تو عطا ہی عطا میں خطا ہی خطا
تو کجا من کجا
تو ہے احرام انور باندھے ہوئے
میں درودوں کی دستار باندھے ہوئے
کعبہ عشق تو میں تیرے چار سو
تو اثر میں دعا تو کجا من کجا
میرا ہر سانس تو خوں نچوڑے میرا
تیری رحمت مگر دل نہ توڑے میرا
کاسۂ ذات ہوں تیری خیرات ہوں
تو سخی میں گدا تو کجا من کجا
تو حقیقت ہے میں صرف احساس ہوں
تو سمندر ہے میں بھٹکی ہوئی پیاس ہوں
میرا گھر خاک پر اور تری رہ گزر
سدرۃ المنتہیٰ تو کجا من کجا
ڈگمگاؤں جو حالات کے سامنے
آئے تیرا تصور مجھے تھامنے
میری خوش قسمتی میں تیرا امتی
تو جزا میں رضا تو کجا من کجا
دوریاں سامنے سے جو ہٹنے لگیں
جالیوں سے نگاہیں لپٹنے لگیں
آنسوؤں کی زباں میری ہے ترجماں
دل سے نکلے سدا تو کجا من کجا
تو شمع ِ رسالت ﷺ ہے عالم تیرا پروانہ
تو ماہِ نبوت ﷺ ہے اۓ جلوہ جانانہ
جو ساقیٔ کوثر ﷺکے چہرے سے نقاب اٹھے
ہر دل بنے میخانہ ہر آنکھ ہو پیمانہ
دل اپنا چمک اٹھے ایمان کی طلعت سے
آنکھیں بھی نورانی اۓ جلوہ ٔ جانانہ
سر شار مجھے کر دے اِک جامِ لبا لب سے
تا حشر رہے ساقی آباد یہ مے خانہ
ہر پھول میں بو تیری، ہر شمع میں ضَو تیری
بلبل ہے تیرا بلبل، پروانہ ہے پروانہ
پیتے ہیں تِرے در کا کھاتے ہیں تِرے در کا
پانی ہے تِرا پانی، دانہ ہے تِرا دانہ
آباد اسے فرما ، ویراں ہے دل نوؔری
جلوے تِرے بس جائیں آباد ہو ویرانہ
تنم فرسودہ جاں پارہ زِ ہجراں یا رسول اللہ !
وَلم پژمردہ آوارہ ، زِعصیاں یا رسول اللہ !
چوں سوئے من گزر آری، منِ مسکیں زِناداری
فدائے نقشِ نعلینت کنم جاں یا رسول اللہ!
زِکردہ خیش حیرانم سیاہ شُد روزِ عصیانم
پشیمانم، پما خنم ، پشیما ں یا رسول اللہ !
زِ جام ِحُبِّ تو مستم ، بہ زنجیرِ تو دل بستم
نمی گویم کہ من ہستم، سُخَنداں یا رسول اللہ!
بصدّیقت خریدارم ، عُمر را دوست می دارم
فدا سازم دل وجاں را بعثماں یا رسول اللہ !
چوں بازوئے شفاعت را کُشائی بر گنہگاراں
مکن محروم جامیؔ را ، درا آں یا رسول اللہ !
تمہارے ذرّے کے پر تو ستارے ہائے فلک
تمہارے فعل کی ناقِص مثل ضیا ئے فلک
اگر چہ چھالے ستاروں سے پڑ گئے لاکھوں
مگر تمہاری طلب میں تھکے نہ پائے فلک
سرِ فلک نہ کبھی تابہ آستاں پہنچا
کہ ابتدا ئے بلندی تھی انتہائے فلک
یہ مٹ کے ان کی رَوِش پر ہوا خود اُنکی روِش
کہ نقشِ پاہے زمیں پر نہ صوتِ پائے فلک
تمہاری یاد میں گزر ی تھی جاگتے شب بھر
چلی نسیم ہوئے بند دید ہائے فلک
نہ جاگ اٹھیں کہیں اہلِ بقیع کچی نیند
چلا یہ نرم نہ نِکلی صَدائے پائے فلک
یہ اُن کے جلوہ نے کیں گرمیاں شبِ اسرا
کہ جب سے چرخ میں ہیں نقرہ و طلائے فلک
مرے غنی نے جو اہر سے بھر دیا دامن
گیا جو کاسۂ مہ لے کے شب گدائے فلک
رہا جو قانِع یک نانِ سوختہ دن بھر
ملی حضور سے کانِ گہر جزائے فلک
تجمل ِ شب اسرا ابھی سمٹ نہ چکا
کہ جب سے ویسی ہی کوتل میں سبز ہائے فلک
خطاب ِ حق بھی ہے در بابِ خلق مِنْ اَجَلکْ
اگر ادھر سے دمِ حمد ہے صدائے فلک
یہ اہلِ بیت کی چکی سے چال سیکھی ہے
رواں ہے بے مددِ دست آسیائے فلک
رضا یہ نعتِ نبی نے بلندیاں بخشیں
لقب زمینِ فلک کا ہوا سمائے فلک
تمہارا نام مصیبت میں جب لیا ہوگا ہمارا بگڑا ہوا کام بن گیا ہوگا گناہگار پہ جب لطف آپ کا ہوگا کیا بغیر کیا بے کیا کیا ہوگا خدا کا لطف ہوا ہوگا دست گیر ضرور جو گرتے گرتے ترا نام لے لیا ہوگا دکھائی جائے گی محشر میں شانِ محبوبی کہ آپ ہی کی خوشی آپ کا کہا ہوگا خدائے پاک کی چاہیں گے اَگلے پچھلے خوشی خدائے پاک خوشی اُن کی چاہتا ہوگا کسی کے پاؤں کی بیڑی یہ کاٹتے ہونگے کوئی اَسیر غم ان کو پکارتا ہوگا کسی طرف سے صدا آئے گی حضور آؤ نہیں تو دَم میں غریبوں کا فیصلہ ہوگا کسی کے پلہ پہ یہ ہوں گے وقت وَزنِ عمل کوئی اُمید سے مونھ ان کا تک رہا ہوگا کوئی کہے گا دُہائی ہے یَا رَسُوْلَ اللّٰہ تو کوئی تھام کے دامن مچل گیا ہوگا کسی کو لے کے چلیں گے فرشتے سوئے جحیم وہ اُن کا راستہ پھر پھر کے دیکھتا ہوگا |
تمہارا نام مصیبت میں جب لیا ہو گا
ہمارا بگڑا ہو ا کام بن گیا ہوگا
خدا کا لطف ہوا ہوگا دستگیر ضرور
جو گرتے گرتے تِرا نام لے لیا ہو گا
دکھائی جائیگی محشر میں شانِ محبوبی
کہ آپ ہی کی خوشی آپ کا کہا ہو گا
خدائے پاک کی چاہیں گے اگلے پچھلے خوشی
خدائے پاک خوشی ان کی چاہتا ہو گا
کسی کے پاؤں کی بیڑی یہ کاٹتے ہوں گے
کوئی اسیرِ غم ان کو پکارتا ہوگا
کسی طرف سے صدا، آئے گی حضور آؤ !
نہیں تو دم میں غریبوں کا فیصلہ ہو گا
کوئی کہے گا دُہائی ہے یا رسول اللہ !
تو کوئی تھام کے دامن ،مچل گیا ہوگا
کسی کو لے کے چلیں گے فرشتے سوئے حجیم
وہ ان کا راستہ پھر پھر کے دیکھتا ہوگا
خدا کے واسطے جلد ان سے عرضِ حال کرو !
کِسے خبر ہے کہ دم بھر میں ہائے کیا ہوگا ؟
پکڑ کے ہاتھ کوئی حالِ دل سنائے گا
تو رو کے قدموں سے کوئی لپٹ گیا ہوگا
کوئی قریب ترازو ،کوئی لبِ کوثر
کوئی صراط پر ان کو پکارتا ہوگا
وہ پاک دل کہ نہیں جس کو اپنا اندیشہ
ہجومِ فکر و تردّد میں گھر گیا ہو گا
کہیں گے اور نبی اِذْھَبُوْ ا اِلٰی غَیْرِی
مِرے حضور کے لب پر اَنَالَھَا ہو گا
غلام ان کی عنایت سے چین میں ہونگے
عَدو حضور کا آفت میں مبتلا ہوگا
میں ان کے در کا بھکاری ہوں فضل مولیٰ سے
حسن ؔ فقیر کا جنت میں بستر ا ہوگا
ترے فیضانِ بے حد سے کسے انکار ہے وارث
کہ ہم جیسے غریبوں کا تو ہی غمخوار ہے وارث
مری کشتی ہے طوفانِ حوادث کے تھپیڑوں میں
اب ایسے وقت میں تیری مدد درکار ہے وارث
ادب ہے مانع اظہار ورنہ صاف کہہ دیتا
کہ دیدارِ محمدﷺ آپ کا دیدار ہے وارث
حریم ناز سے باہر کسی دن زحمت جلوہ
کہ مدت سے زمانہ طالب دیدار ہے وارث
جو یوں ممکن نہیں تو خواب ہی میں عید نظارہ
کہ عنبر بھی تمہارا طالب دیدار ہے وارث
تاجدارِ حرم اۓ شہنشاہ ِ دین تم پہ ہر دم کروڑوں درودوں سلام
ہو نکاہ ِ کرم ہم پہ سلطانِ دین تم پہ ہر دم کروڑوں درودوں سلام
دور رہ کر نہ دم ٹوٹ جائے کاش طیبہ میں اِے میرے ماہ مبیں
دفن ہونے کو مل جائے دو گز زمین تم پہ ہر دم کروڑوں درودوں سلام
کوئی حسنِ عمل پاس میرے نہیں پھنس نہ جاؤں قیامت میں مولا کہیں
اۓ شفیعِ اُمم لاج رکھنا تمہی ، تم پہ ہر دم کروڑوں درودوں سلام
تیری یادوں سے معمور سینہ ر ہے سامنے میرے ہر دم مدینہ رہے
بس میں دیوانہ بن جاؤں سلطان ِ دین ،تم پہ ہر دم کروڑوں درودوں سلام
تاب مرآتِ سحر گرد بیا بانِ عرب
غازۂ روئے قمر دودِ چراغان ِ عرب
اللہ اللہ بہارِ چمنستان ِ عرب
پاک ہیں لوث خزاں سے گل وریحانِ عرب
جوشش ابر سے خونِ گلِ فردوس کرے
چھیڑ دے رگ کو اگر خار بیابانِ عرب
تشنۂ نہرِ جناں ہر عربی و عجمی !
نہرِ جناں ہر عربی وعجمی !
لب ہر نہر جناں تشنۂ نیسانِ عرب
طوقِ غم آپ ہو ا ئے پرِ قسمری سے گرے
اگر آزاد کرے سروِ خرامان عرب
مہر میزاں میں چھپا ہو تو حمل میں چَملے
ڈالے اِک بوند شب دے میں جو بارانِ عرب
عرش سے مژدۂ بلقیس ِ شفاعت لایا
طائرِ سدرہ نشیں مرغ ِ سلیمانِ عرب
حسنِ یوسف پہ کٹیں مصر میں انگشتِ زناں
سر کٹاتے ہیں ترے نام پہ مردانِ عرب
کوچہ کوچہ میں مہکتی ہے یہاں بوئے قمیص
یوسفِستاں ہے ہر اِک گوشۂ کنعانِ عرب
بزمِ قدسی میں ہے یادِ لبِ جاں بخش حضور
عالم ِ نور میں ہے چشمۂ حیوانِ عرب
پائے جبریل نے سرکار سے کیا کیا القاب
خسرو خیلِ ملک خادمِ سلطانِ عرب
بلبل و نیلپر و کبک بنو پروانو!
مہ و خورشید پہ ہنستے ہیں چراغانِ عرب
حور سے کیا کہیں موسیٰ سے مگر عرض کریں
کہ ہے خود حسنِ ازل طالبِ جانانِ عرب
کرمِ نعت کے نزدیک تو کچھ دور نہیں
کہ رضا ئے عجمی ہو سگِ حسّانِ عرب
پھر اٹھا ولولۂ یادِ مغیلان ِ عرب
پھر کھنچا دامنِ دل سوئے بیابان ِ عرب
باغ ِ فردوس کو جاتے ہیں ہزارانِ عرب
ہائے صحرائے عرب ہائے بیابانِ عرب
میٹھی باتیں تری دینِ عجم ایمانِ عرب
نمکیں حسن تراجانِ عجم شانِ عرب
اب تو ہے گریہ ٔ خوں گوہر دامانِ عرب
جسمیں دو لعل تھے زہرا کے وہ تھی کانِ عرب
دل وہی دل ہے جو آنکھوں سے ہو حیرانِ عرب
آنکھیں وہ آنکھیں ہیں جو دل سے ہوں قربانِ عرب
ہائے کس وقت لگی پھانس اَلم کی دل میں
کہ بہت دوٗر رہے خارِ مغیلانِ عرب
فصلِ گل لاکھ نہ ہو وصل کی رکھ آس ہزار
پھولتے پھلتے ہیں بے فصل گلستانِ عرب
صدقے ہونے کو چلے آتے ہیں لاکھوں گلزار
چکھ عجب رنگ سے پھولا ہے گلستان ِ عرب
عندلیبی پہ جھگڑتے ہیں کٹے مَرتے ہیں
گل و بلبل کو لڑاتا ہے گلِستان ِ عرب
صدقے رحمت کے کہاں پھول کہاں خار کا کام
خود ہے دامن کشِ بلبل گلِ خندانِ عرب
شادی حشر ہے صَدقے میں چھٹیں گے قیدی
عرش پر دھوم سے ہے دعوتِ مہمان عرب
چرچے ہوتے ہیں یہ کمھلائے ہوئے پھولوں میں
کیوں یہ دن دیکھتے پاتے جو بیابانِ عرب
تیرے بے دام کے بندے ہیں رئیسانِ عجم
تیرے بے دام کے بندی ہیں ہزارانِ عرب
ہشت خلد آئیں وہاں کسبِ لطافت کو رضا
چار دن برسے جہاں ابرِ بہارانِ عرب
ثنائے احمد مرسل میں جو سخن لکھوں
اسی کو نُدرتِ فکرو کمال فنِ لکھوں
وہ لفظ جس کا ہو مفہوم شانِ ختم رُسل
میں اس کو چشمۂ سیماب کی کرن لکھوں
وہ جستجو جو رہے فکرِ نعت میں ہر دم
میں اس کو رفرفِ افلاک فکر و فن لکھوں
وہ روح میں مہکتا ہے رات دن اِک نام
اُسے گلاب لکھوں یا کہ شب دلہن لکھوں
اُنہیں کے نام کو لکھوں حیاتِ نو کا پیام
حیاتِ نو کے جو مضمون کا متن لکھوں
فضا میں رنگ بکھر جائیں جس تصوّر سے
میں اس خیال کو فطرت کا بانکپن لکھوں
صبا جو کاکلِ مُشکیں کا لَمس پا کے چلے
میں اس صبا کو رم آہوئے ختن لکھوں
وہ گردِ کوچۂ بطحا، رموز کا جامہ
اسے شہیدِ محبّت کا میں کفن لکھوں
ہزار جان، گرامی نثارِ لذّتِ غم
جوان کی یاد کی دل میں کوئی چُھبن لکھوں
وہ نُور جس کا اُجالا محیطِ کون و مکاں
میں کیوں نہ اس کو محمد کا پیرہن لکھوں
وہ ایک نام جو تشبیہ کا نہیں محتاج
میں اس کی شرح میں کیا؟ رَبِّ ذوالمنن لکھوں
ہے جُوئے شِیر اگر نعتِ مصطفٰے لکھنا
تو پھر ادیب تجھے کیوں نہ کوہکن لکھوں
جوبنوں پر ہے بہارِ چمن آرئی دوست
خلد کا نام نہ لے بلبل شیدائی دوست
تھک کے بیٹھے تو درِ دِل پہ تمنّائی دوست
کون سے گھر کا اُجالا نہیں زیبائی دوست
عرصۂ حشر کجا موقفِ محموُد کجا
سازہنگا موں سے رکھتی نہیں یکتائی دوست
مہر کس منھ سے جلو داریِ جاناں کرتا
سایہ کے نام سے بیزار ہے یکتائی دوست
مرنے والوں کو یہاں ملتی ہے عمرِ جاوید
زندہ چھوڑے گی کسی کو نہ مسیحائی دوست
ان کو یکتا کیا اور خلق بنائی یعنی
انجمن کر کے تماشا کریں تنہائی دوست
کعبہ و عرش میں کہرام ہے ناکامی کا
آہ کِس بزم میں ہے جلوۂ یکتائی دوست
حسن بے پردہ کے پردے نے مٹا رکھا ہے
ڈھونڈ نے جائیں کہاں جلوۂ ہرجانی دوست
شوق روکے نہ رُکے پاؤں اٹھائے نہ اُٹھے
کیسی مشکِل میں ہیں اللہ تمنّائی دوست
شرم سے جھکتی ہے محراب کہ ساجد ہیں حضور
سجدہ کرواتی ہے کعبہ سے جبیں سائی دوست
تاج والوں کا یہاں خاک پہ ماتھا دیکھا
سائے داراؤں کی دارا ہوئی دارائی دوست
طور پر کوئی کوئی چرخ پہ یہ عرش سے پار
سارے بالاؤں پہ بالا رہی بالائی دوست
اَنْتَ فِیہِم نے عدو کو بھی لیا دامن میں
عیش جاوید مبارک تجھے شیدائی دوست
رنج اعدا کا رضا چارہ ہی کیا ہے جب انہیں
آپ گستاخ رکھے حلم و شکیبائی دوست
جہاں روضۂ پاک خیرالوریٰ ہے وہ جنت نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے؟!
کہاں میں کہاں یہ مدینے کی گلیاں یہ قسمت نہیں تو پھر کیا ہے
محمد ﷺ کی عظمت کو کیا پوچھتے ہو کہ وہ صاحبِ قابَ قوسین ٹھررے
بَشر کی سرِعرش مہمان نوازی یہ عظمت نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے
جو عاصی کو کملی میں اپنی چھپالے جو دشمن کو بھی زخم کھا کر دعادے
اسے اور کیا نام دے گا زمانہ وہ رحمت نہیں ہے تو پھر کیا ہے
قیامت کا اک دن معین ہے لیکن ہمارے لیے ہر نفس ہے قیامت
مدینے سے ہم جاں نثاروں کی دوری قیامت نہیں ہے تو پھر کیا ہے
تم اقبال یہ نعت کہہ تو رہے ہو مگر یہ بھی سوچا کہ کیا کر رہے ہو
کہاں تم کہاں مدح ممدوحِ یزداں یہ جرأت نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے
کیوں کر نہ میرے دل میں ہو اُلفت رسول کی
جنت میں لے کے جائے گی چاہت رسول کی
بگڑی بھی بنائیں گے در پر بھی بلائیں گے
گھبراؤ نہ دیوانو ! سرکار بلائیں گے
چلتا ہوں میں بھی قافلے والو! رُکو ذر ا
ملنے دو بس مجھے بھی اجازت رسول کی
کیا سبز سبز گنبد کا خوب نظارا ہے
کس قدر سوہانہ ہے کیسا کیسا پیارا
سر کار نے بلا کے مدینہ دکھا دیا
ہو گی مجھے نصیب شفاعت رسول کی
ان آنکھوں کا پردہ ہی کوئی مصرف نہیں ہے
اۓ ! سرکار تمہارا رُخ زیبا نظر آئے
یا ر ب ! دکھا دے آج کی شب جلوۂ حبیب
اِک بار تو عطا ہو زیارت رسول کی
قبر میں سرکار آئیں تو میں قدموں میں گروں
گر فرشتے بھی اُٹھائیں ان سے میں یوں کہوں
اب تو پائے ناز سے میں اۓ فرشتو! کیوں اُٹھوں
مر کے پہنچا ہوں یہاں اس دلرُبا کے واسطے
تڑپا کے ان کے قدموں میں مجھ کو گرا دے شوق
جس وقت ہو لحد میں زیارت رسول کی
حشر میں اِک نیک کام تکتے پھرتے ہیں عدو
آفتوں میں چھوڑ گئے ان کا سہارا لیکر
دامن میں ان کے لے لو پناہ آج منکرو!
مہنگی پڑے گی ورنہ عداوت رسول کی
پوچھیں گے جو دینِ ایماں نکیرین قبر میں
اُس وقت میرے لب پہ ہو مدحت رسول کی
تو ہے غلام ان کا عبیؔد رضا تیرے
محشر میں ہو گی ساتھ حمایت رسول کی
جلوو تنهنجو باغن ۾
سڀ ٻوٽن ۾ گلڙن ۾
هر وڻ جو پن ذڪر ڪري
لااِلٰہ َ الا اللہ ُ
مٺڙا مولٰي عيد ڪراءِ
پنهنجي نبيءَ جي يد ڪراءِ
بس هي نعمت دل ٿي گهري
لااِلٰہ َ الا اللہ ُ
پنجتن جو مان خادم آهيان
موليٰ عليءَ تي جان ڏيان
لبڙن تي پوءِ ڇونه هجي
لااِلٰہ َ الا اللہ ُ
حوصلو رک ڀليم ادا
هيءَ سعادت ڏيندو خدا
موت مهل جهونگاريندين
لااِلٰہ َ الا اللہ ُ
جلوہ گر حضور ہو گئے
سب اندھیرے دور ہو گئے
ارضِ مصطفٰےکی خاک کے
ذرّے اشک نور ہوگئے
اِن کی یاد میں خوشی ملی
جب غموں سے چور ہو گئے
اِ ن کے راستے میں جو ملے
رنج بھی سُرور ہو گئے
آپ کے ہوئے نہ جو قریب
وہ خدا سے دُور ہو گئے
جن میں ان کا واسطہ رہا
کام وہ ضرور ہو گئے
صدقۂ ہے ظہوری نعت کا
معاف سب قصور ہو گئے ۔
جلالِ آیت ِ قرآں کو جو سہار سکے
نبی کے دل کے سِوا دوسرا مقام نہیں
وہ لذّتِ غمِ عشقِ رسول کیا جانے
درود لبوں پر نہیں سلام نہیں
وہ دشمنوں کا ہدف وہ قریش کا مظلوم
مگر کسی سے لیا کوئی انتقام؟ نہیں
خیال اس کے تعقب میں تھک کے بیٹھ گیا
سفر براق پہ اس کا مگر تمام نہیں
تمام عمر نہ پائے ، ملے تو لمحوں میں
متاعِ عشقِ محمد مذاقِ عام نہیں
ادیب ان کے ثناگو میں نام ہے میرا
مقامِ شکر کہیں اور میرا نام نہیں
جشن ِ آمد رسول اللہ ہی اللہ
بی بی آمنہ کے پھول اللہ ہی اللہ
جب کہ سرکار تشریف لانے لگے
حوروں غلماں بھی خوشیاں منانے لگے
ہر طرف نور کی روشنی چھا گئی
مصطفٰے کیا ملے زندگی مل گئی
اۓ حلیمہ تیری گود میں آ گئے
دونوں عالم کے رسول
چہرۂ مصطفٰے جب دکھا یا گیا
جھک گئے تارے اور چاند شرماگیا
آمنہ دیکھ کر مسکرانے لگیں
حوّا مریم بھی خوشیاں منانے لگیں
آمنہ بی بی سب سے کہنے لگیں
دعا ہو گئی قبول اللہ ہی اللہ
شادیانے خوشی کے بجائے گئے
شادی کے نغمے سب کو سنائے گئے
ہر طرف شورِ صَلِّ عَلٰی ہو گیا
آج پیدا حبیبِ خدا ہو گیا
تو جبریل نے بھی یہ اعلان کیا
یہ خدا کے ہیں رسول اللہ ہی اللہ
نور کی تن گئیں چادریں چار سو
حوروں غلماں کی پوری ہوئی آرزو
مصطفٰے مجتبیٰ شاہِ کون و مکاں
رب کی سرکار جب ہو گئے رو برو
پھر خدا نے کہا میرے محبوب تم
ہو رسولوں کے رسول اللہ ہی اللہ
فرش سے عرش تک نور کا ہے سما
لائے شریف دنیا میں خیر الورٰی
ایسے اُمت کی قسمت سنورنے لگی
بارشیں رحمت کی برسنے لگیں
اۓ حلیمہ! تیری لوریوں کے لیے
رب کے آگئے رسول اللہ ہی اللہ
ان کا سایہ زمیں پر نہ پایا گیا
نور سے نور دیکھو جُدا نہ ہوا
ہم کو عاؔبد نبی پر بڑا ناز ہے
کیا بھلا میرے آقا کا انداز ہے
جس نے رُخ پر مَلی وہ شِفا پا گیا
خاکِ طیبہ تیری دُھول اللہ ہی اللہ
جب مسجد نبوی کے مینار نظر آئے
اللہ کی رحمت کے آثار نظر آئے
منظر ہو بیا ں کیسے؟ الفاظ نہیں ملتے
جس وقت محمدﷺ کا دربار نظر آئے!
بس یا د رہا اتنا سینے سے لگی جالی
پھر یا دنہیں کیا کیا انوا ر نظر آئے !
دُکھ درد کے ماروں کو غم یا د نہیں رہتے
جب سامنے آنکھوں کے غمخوار نظر آئے
مَکّے کی فضاؤں میں طیبہ کی ہواؤں میں
ہم نے تو جِدھر دیکھا سرکار نظر آئے
چھوڑ آیا ظہوری میں دل و جان مدینے میں
اب جینا یہاں مجھ کو دشوار نظر آئے
جب مدینے میں حاضری ہو گی
وہ گھڑی بھی حسین گھڑی ہو گی
تم پکارو تو اُن کی رحمت کو!
کھوٹی قسمت ابھی کھری ہو گی
تم سراپا درود بن جاؤ !
پھر زیارت حضور کی ہوگی
اُ ن کے غم میں تڑپ کہ دیکھو تو !
تم پہ قرباں ہر خوشی ہو گی
کوئی ایسا نہیں کرم نے تیرے
جس کی جھولی نہیں بھری ہوگی
مجھ خطا کار کا بھرم رکھنا!
آپ کی بندہ پروری ہوگی
اُن کو ڈھونڈ یں گے سب قیامت میں
اُن پہ سب کی نظر لگی ہوگی
بات بن جائے گی نیاؔزی کی
چشم ِرحمت جو آپ کی ہوگی
چھوڑ فکر دنیا کی چل مدینے چلتے ہیں
مصطفٰےغلاموں کی قسمتیں بدلتے ہیں
نقش کر لے سینے پر نامِ سَرورِ دیں کا
یہ وہ نام ہے جس سے سب عذاب ٹلتے ہیں
صرف ساری دنیا میں وہ ہے کچھ اۓ احمد ﷺ
جس جگہ یہ ہم جیسے کھوٹے سکے چلتے ہیں
آمنہ کے پالے کا، کالی زلفوں والے کا
جشن ہم مناتے ہیں ، جلنے والے جلتے ہیں
ہم کو روز ملتا ہے صدقہ مدینے والے کا
مصطفٰے کے ٹکڑوں پہ خوش نصیب پلتے ہیں
رحمتوں کی چادر سر پہ سائے چلتے ہیں
مصطفٰے کے دیوانے گھر سے جب نکلتے ہیں
ذکرِ شاہِ بطحٰی کو وِرد اب بنا لیجیے
وہ ذکر جس سے غم خوشی میں ڈھلتے ہیں
چمن طیبۂ میں سنبل جو سنوارے گیسو
حور بڑھ کر شِکن ناز پہ وارے گیسو
کی جو بالوں سے ترے روضہ کی جاروب کشی
شب کو شبنم نے تبرک کو ہیں دھارے گیسو
ہم سیہ کاروں پہ یارب تپشِ محشر میں
سایہ افگن ہو ں ترے پیارے کے پیارے گیسو
چرچے حوروں میں ہیں دیکھو تو ذار بال براق
سنبلِ خلد کے قربان اوتارے گیسو
آخر ِ حج غمِ امّت میں پریشاں ہو کر
تیرہ بختوں کی شفاعت کو سدھار ے گیسو
گو ش تک سنتے تھے فریاد اب آئے تاد وش
کہ بنیں خانہ بدوشوں کو سہارے گیسو
سوکھے دھانوں پر ہمارے بھی کرم ہو جائے
چھائے رحمت کی گھٹا بن کے تمہارے گیسو
کعبہ ٔ جاں کو پنھا یا ہے غلاف ِ مشکیں
اڑ کر آئے ہیں جو اَبرو پہ تمہارے گیسو
سِلسلہ پا کے شفاعت کا جھکے پڑتے ہیں
سجدہ ٔ شکر کے کرتے ہیں اشارے گیسو
مشک بو کوچہ یہ کس پھول کا جھاڑ ا ان سے
حوریو عنبرِ سارا ہوئے سارے گیسو
دیکھو قرآں میں شب قدر ہے تا مطلعِ فجر
یعنی نزدیک ہیں عارض کے وہ پیارے گیسو
بھینی خوشبو سے مہک جاتی ہیں گلیاں واللہ
کیسے پھولوں میں بسائے ہیں تمہارے گیسو
شانِ رحمت ہے کہ شانہ نہ جُدا ہو دم بھر
سینہ چاکوں پہ کچھ اس درجہ ہیں پیارے گیسو
شانہ ہے پنجہ ٔ قدرت ترے بالوں کے لیے
کیسے ہاتھوں نے شہا تیرے سنوارے گیسو
احد پاک کی چوٹی سے الجھ لے شب بھر
صبح ہونے دو شبِ عید نے ہارے گیسو
مژدہ ہو قبلہ سے گھنگھور گھٹائیں اُمڈیں
ابرووں پر وہ جھکے جھوم کے بارے گیسو
تارِ شیرازۂ مجموعہ کونین ہیں یہ
حال کھل جائے جو اِک دم ہوں کنارے گیسو
تیل کی بوند یں ٹپکتی نہیں بالوں سے رضا
صبح عارض پہ لٹاتے ہیں ستارے گیسو
چمک تجھ سے پاتے ہیں سب پانے والے
میراد ل بھی چمکا دے اۓ چمکانے والے
برستا نہیں دیکھ کر ابرِ رحمت
بَدوں پر بھی برسا دے برسانے والے
تو زندہ ہے واللہ تو زندہ ہے واللہ
مِرے چشمِ عالم سے چھپ جانے والے
رہے گا یونہی اُن کا چرچا رہے گا
پڑے خاک ہو جائیں جل جانے والے
رضاؔ نفس دشمن ہے دَم میں نہ آنا
کہاں تم نے دیکھےہیں چَندرانے والے
چلو دیار ِ نبی کی جانب ، درود لب پر سجا سجا کر
بہار لوٹیں گے ہم کرم کی ، دلوں کو دامن بنا بنا کر
نہ اُ ن کے جیسا سخی ہےکوئی، نہ اُ ن کے جیسا غنی ہے کوئی
وہ بے نواؤں کو ہر جگہ سے، نوازتے ہیں بُلا بُلا کر
میں وہ نکما ہوں جسکی جھولی میں کوئی حُسنِ عمل نہیں ہے
مگر وہ احسان کر رہے ہیں خطائیں میری چھپا چھپا کر
ہے ان کو اُمت سے پیار کتنا ،کرم ہے رحمت شعار کتنا
ہمارے جرموں کو دھو رہے ہیں وہ اپنے آنسو بہا بہا کر
یہی آساسِ عمل ہے میری، اسی سے بگڑی بنی ہے میری
سمیٹتا ہوں کرم خدا کا، نبی کی نعتیں سنا سنا کر
وہ راہیں اب تک سجی ہوئی ہیں،ٍٍٍٍدلوں کا کعبہ بنی ہوئی ہیں
جہاں جہاں سے حضورﷺگذرے ہیں،نقش اپنا جما جما کر
اگر مقدر نے یاور ی کی ، اگر مدینے گیا میں خالؔد
قدم قدم خاک اس گلی کی، میں چوم لوں گا اُٹھا اُٹھا کر
چراغاں چراغاں پیام ِمحمد ﷺ
بہت مستند ہے کلامِ محمد ﷺ
امیر و گدا میں نہیں فرق کوئی
زمانے میں یکساں نظام ِمحمد ﷺ
عدالت، شجاعت، سخاوت ،وفا میں
شہنشاہ ِ دوراں غلامِ محمد ﷺ
ازل سے لٹاتا ہوا پھول غنچے
ابد تک ہے گردش میں جام محمد ﷺ
شفیعِ امم بھی ، وہ ختم الرسل بھی
بہت ارفع اعلیٰ مقام محمدﷺ
مدینہ بھی ہے مستقر اُن کا اخؔتر
مکاں لامکاں بھی قیامِ محمدﷺ
چاند تارے ہی کیا دیکھتے رہ گئے
ان کو ارض و سماء دیکھتے رہ گئے
پڑھ کے روح الامین سورۂ والضحیٰ
صورتِ مصطفٰے دیکھتے رہ گئے
وہ امامت کی شب ،وہ صف انبیاء
مقتدی مقتدیٰ دیکھتے رہ گئے
معجزہ تھا وہ ہجرت میں ان کا سفر
دشمنانِ خدا دیکھتے رہ گئے
مرحبا شان ِ معراج ختم رسل
سب کے سب انبیاء دیکھتے رہ گئے
میں نصؔیر آج وہ ہے نعت نبی
نعت گو منہ مِرا دیکھتے رہ گئے
حقیقت میں ہو سجدہ جبہ سائی کا بہانہ ہو
الٰہی میرا سر ہو اور ان کا آستانہ ہو
تمنا ہے کہ میری روح جب تن سے روانا ہو
دم آنکھوں میں ہو اور پیش نظر وہ آستانہ ہو
زباں جب تک ہے اور جب تک زباں میں تاب گویائی
تری باتیں ہوں تیرا ذکر ہو تیرا فسانہ ہو
مری آنکھیں نہیں آئینۂ حسن روئے صابر کا
دل صد چاک ان کی عنبریں زلفوں کا شانہ ہو
بلا اس کی ڈرے پھر گرمیٔ خورشید محشر سے
ترے لطف و کرم کا جس کے سر پر شامیانہ ہو
انہیں تو مشق تیر نازکی دھن ہے وہ کیا جانیں
کسی کی جان جائے یا کسی دل کا نشانہ ہو
نہ پوچھ اس عندلیب سوختہ ساماں کی حالت کو
قفس کے سامنے برباد جس کا آشیانہ ہو
سر بیدمؔ ازل کے دن سے ہے وقف جبیں سائی
کسی کا نقش پا ہو اور کوئی آستانہ ہو
حرزِ جاں ذکرِ شفاعت کیجیے نار سے بچنے کی صوٗرت کیجیے
اُن کے نقشِ پا پہ غیرت کیجیے آنکھ سے چھپ کر زیارت کیجیے
اُن کے با ملاحت پر نثار شیرۂ جاں کی حلاوت کیجیے
اُن کے در پر جیسے ہو مٹ جائیے ناتوا نو ! کچھ تو ہمّت کیجیے
پھیر دیجیے پنجۂ دیوِ لعین مصطفٰے کے بل پہ طاقت کیجیے
ڈوب کر یادِ لبِ شاداب میں آب ِکوثر کی سباحت کیجیے
یادِ قیامت کرتے اٹھیے قبر سے جانِ محشر پر قیامت کیجیے
اُن کے در پر بیٹھے بن کر فقیر بے نواؤ فکرِ ثروت کیجیے
جِس کا حسن اللہ کو بھی بَھا گیا ایسے پیارے سے محبّت کیجیے
حیّ باقی جس کی کرتا ہے ثنا مرتے دم تک اس کی مدحت کیجیے
عرش پر جس کی کمانیں چڑھ گئیں صَدقے اس باز و پہ قوّت کیجیے
نیم واطیبہ کے پھولوں پر ہو آنکھ بلبلو! پاس نزاکت کیجیے
سر سے گرتا ہے ابھی بارِ گناہ خم ذرا فرقِ ارادت کیجیے
آنکھ تو اٹھتی نہیں کیا دیں جواب ہم پہ بے پرسش ہی رحمت کیجیے
عذر بد تر ازگنہ کا ذکر کیا بے سبب ہم پر عنایت کیجیے
نعرہ کیجیے یار سول اللہ کا مفلسو ! سامان ِ دولت کیجیے
ہم تمہارے ہو کے کس کے پاس جائیں صَدقہ شہزادوں کا رحمت کیجیے
مَن ْ رَاٰنِیْ قَد ْ رَأ ی الحق جو کہے کیا بیاں اس کی حقیقت کیجیے
عالِم عِلم دو عالم ہیں حضور آپ سے کیا عرض حاجت کیجیے
آپ سلطان ِ جہاں ہم بے نوا یاد ہم کو وقتِ نِعمت کیجیے
تجھ سے کیا کیا اے مرے طیبہ کے چاند ظلمت ِ غم کی شکایت کیجیے
دَر بدر کب تک پھریں خستہ خراب طیبہ میں مدفن عنایت کیجیے
ہر برس و ہ قافلوں کی دھوم دھام آہ سینے اور غفلت کیجیے
پھر پلٹ کر منھ نہ اُس جانب کیا سچ ہے اور دعوائے الفت کیجیے
اَقربا حُبِّ وطن بے ہمتی آہ کِس کِس کی شکایت کیجیے
اب تو آقا منھ دِکھانے کا نہیں کِس طرح رفعِ ندامت کیجیے
اپنے ہاتھوں خود لٹا بیٹھے ہیں گھر کس پہ دعوائے بضاعت کیجیے
کس سے کہیے کیا کیا ۔ کیا ہوگا خود ہی اپنے پَر ملامت کیجیے
عرض کا بھی اب تو منھ پڑتا نہیں کیا علاج ِ دردِ فرقت کیجیے
اپنی اک میٹھی نظر کے شہد سے چارۂ زہرِ مصیبت کیجیے
دے خدا ہمت کہ یہ جان حزیں آپ پر داریں وہ صوٗرت کیجیے
آپ ہم سے بڑھ کے ہم پر مہرباں ہم کریں جرم آپ رحمت کیجیے
جو نہ بھولا ہم غریبوں کو رضا
یا د اس کی اپنی عادت کیجیے
حَبِیبا اچی شان والیا جے توں آئیوں تے بہاراں آئیاں
اللہ نوں توں پیارا لگنا ایں تاہیوں رب نے وی خوشیاں منائیاں
زلف تری دے کنڈل سوہنے موہ لیندے نے دل من موہنے
چن سدا لُکدا پھرے تیرے مکھ دیاں ویکھ صفائیاں
عرب شریف دیا سردارا آمنہ پاک دیا دلدارا
تیرے جیہا سوہنا سونیئے کدوں جمدیاں نت نت مائیاں
رحمت دی تساں اکھ جد کھولی پاک حلیمہ بھر لئی اے جھولی
لے گئی او خزانے رب دے خالی رِہ گئیاں دو جیاں دائیاں
جس پاسے تُساں کیتے اشارے ، ڈھل پئے اودھر مست نظارے
ظلمتاں دے بند ٹٹ گئے، تساں رحمت اِنج برسائیاں
خالق نے اِنج کر م کمایا ، جیویں کہیا تساں، اُوویں بنایا
شان تیری نہیوں مکنی کئی صدیاں مکن تے آئیاں
ناؔصر پڑھ پڑھ تیریاں نعتاں بُھل گیا سارے جگ دیاں باتاں
پیار تیرا پلے سوہنیا کی کرنیاں ہور کمائیاں
حاجیو! آؤ دیکھو شہنشا ہ کا روضہ
کعبہ تو دیکھ چکے ،کعبے کا کعبہ دیکھو
آب ِزم زم تو پیا خوب بجھائیں پیاسیں
آؤ جو د ِشہہِ کو ثر کا بھی دریا دیکھو
زیر ِمیز اب ملے خوب کرم کے چھینٹے
ابر ِرحمت کا یہاں زورِ برسنا دیکھو
دھوم دیکھی ہے درِ کعبہ پہ بے تابوں کی
ان کے مشتاقوں میں حسرت کا تڑپنا دیکھو
خوب آنکھوں سے لگایا ہے غلافِ کعبہ
قصر ِمحبوب کے پر دے کا بھی جلوہ دیکھو
واں مطیعں کا جگر خوف سے پانی پایا
یاں سَہِں کاروں کا دامن پہ مچلنا دیکھو
غور سے سن تو رؔضا کعبے سے آتی ہے صدا
میری آنکھوں سے مِرے پیا رے کا روضہ دیکھو
خُسروی اچھی لگی نہ سَروری اچھی لگی
ہم فقیروں کو مدینے کی گلی اچھی لگی
دور تھے تو زندگی بے رنگ تھی بے کیف تھی
اُن کے کوچے میں گئے تو زندگی اچھی لگی
میں نہ جاؤں گا کہیں بھی در نبی کا چھوڑ کر
مجھ کو کوئے مصطفٰے کی چاکری اچھی لگی
ناز کر تو اۓ حلیمہ! سَرورِ کونین پر
گر لگی اچھی تو تر ی جھونپڑی اچھی لگی
والہانہ ہو گئے جو تیرے قدموں پر نثار
سَرورِ کون و مکاں کی سادگی اچھی لگی
آج محفل میں نیؔازی نعت جو میں نے پڑھی
عاشقانِ مصطفٰے کو وہ بڑی اچھی لگی
خراجِ اشک سے قائم ہے قیصری میری
سرورِ عشقِ رسالت، سکندری میری
یہ میرا عہدِ غلامی، غلامیٔ شہِ دیں
اس عہد میں ہے خیالوں پہ افسری میری
غزل کا پھیر کے رخ لے چلا ثناء کی طرف
حرف حرف کو پسند آئی رہبری میری
امیرِ شہرِ سخن ہوں فقیرِ کوئے رسول
انہیں سے فقر، انہیں سے تونگری میری
متاعِ نعت اِسی در سے میں نے پائی ہے
نہ کیوں ہو ناز کے قابل سخن وری میری
وہ واردات جو گذری ہے میرے دل پہ ادیب
سمجھ رہے ہیں اسے لوگ شاعری میری
خراب حال کیا دِل کو پُر ملال کیا تمہارے کوچہ سے رخصت کیا نہال کیا
نہ روئے گل ابھی دیکھا نہ بوئے گل سونگھی قضائے لاکے قفس میں شکست بال کیا
وہ دل کہ خوں شدہ ارماں تھے جسمیں مل ڈلا فغاں کہ گورِ شہیداں کو پائمال کیا
یہ رائے کیا تھی وہاں سے پٹنے کی اے نفس ستم گرالٹی چھری سے ہمیں حلال کیا
یہ کب کی مجھ سے عداوت تھی تجھکو اے ظالم چھڑاکے سنگِ در پاک سو بال کیا
چمن سے پھینک دیا آشیانہ ٔ بلبُل اُجاڑا خانۂ بے کس بڑا کمال کیا
تِرا ستم زدہ آنکھوں نے کیا بگاڑا تھا یہ کیا سمائی کہ دُور ان سے وہ جمال کیا
حُضور اُن کے خیالِ وطن مٹا نا تھا ہم آپ مِٹ گئے اچھا فراغ بال کیا
نہ گھر کا رکھا نہ اس در کا ہائے ناکامی ہماری بے بسی پر بھی نہ کچھ خیال کیا
جو دل نے مر کے جلایا تھا منّتوں کا چراغ ستم کہ عرض رہِ صر صرِ زوال کیا
مدینہ چھوڑ کے ویرانہ ہند کا چھایا یہ کیسا ہائے حواسوں نے اختلال کیا
تو جس کے واسطے چھوڑ آیا طیبہ سا محبوب بتا تو اس ستم آرا نے کیا نہال کیا
ابھی ابھی چمن میں تھے چہچہے ناگاہ یہ در کیسا اٹھا جس نے جی نڈھال کیا
الٰہی سن لے رضا جیتے جی مولےٰ نے سگامَ چہ میں چہرہ مرا بحال کیا
خدا نے دی ہے زباں ذکر مصطفٰےکے لیے
اب اس سے کام نہ لے اور کچھ خدا کے لیے
اِدھر اٹھائے نہ تھے ہاتھ التجا کے لیے
اُدھر سے دستِ کرم بڑھ گیا عطا کے لیے
اٹھو !تو پرچمِ ذکرِ رسول بن کے اٹھو
جھکو! تو خاک بنو پائے مصطفٰےکے لیے
اگر چلے تو مہک بن کے شہرِ بطحٰی میں
رہے تو ٹھنڈی ! یہی حکم ہے ہوا کے لیے
مریضِ ہجرِ مدینہ ہوں ، مِرے چارہ گرو !
دِلادو !اذنِ حضور ی مجھے شِفاء کے لیے
بس اتنی بات کہ ہم ہیں تمہارے شیدائی
تُلا ہوا ہے زمانہ ہر ا ِک جفا کے لیے
ہزار شکر بجا لاؤ اس عطا پہ ادؔیب
یہ اشک تم کو ملے ہیں جو التجا کے لیے
خدا کا ذکر کرے ، ذکر مصطفٰےنہ کرے !
ہمارے منہ میں ہو ایسی زباں خدا نہ کرے
در رسول ﷺ پہ ایسا کبھی نہیں دیکھا
کوئی سوال کرے اور وہ عطا نہ کرے
کہا خدا نے شفاعت کی بات محشر میں
میرا حبیب ﷺ کرے ، کوئی دوسرا نہ کرے
مدینے جا کے نکلنا نہ شہر سے باہر
خدانخواستہ یہ زندگی وفا نہ کرے
اسیر جس کو بنا کر رکھیں مدینے میں
تمام عمر رہائی کی وہ دعا نہ کرے
نبی ﷺ کے قدموں پہ جس دم غلا م کا سر ہو
قضا سے کہہ دو کہ اِک لمحہ بھی قضا نہ کرے
شعورِ نعت بھی ہو اور زباں بھی ہو ادؔیب
وہ آدمی نہیں جو اِن کا حق ادا نہ کرے
دیارِ مدح میں الفاظ کا جب کارواں نکلا
عَلم لے کر قلم نکلا ، اَدا بن کر بیان نکلا
بصد اندازِ رعنائی ، بصد حُسنِ شکیبائی
برنگ ِ گلستاں نکلا ، بشکل ِ کہکشاں نکلا
اُدھر چِھڑکا جو رِہ میں چاندنی کو ماہِ نُدرت نے
اِدھر خورشید ِ معنیٰ در قبائے صدیاں نکلا
وفد قوسِ قزح لائی کہ شامِل رنگتیں کرلو
طیورانِ چمن دوڑے کہ دیکھو گلستاں نکلا
امیرِ کارواں کو منتخب کرنے کی بات آئی
فقط اِک عشق ایسا تھا جو سب میں کامراں نکلا
پئے پرواز، براّقِ تخیّل ، سامنے آیا
تجسّس نے ذرا سی ایڑ دی وہ لامکاں
بہت ہی ساز و ساماں خیمۂ فکر سخن میں تھا
مگر ان سب میں آنسو ہی متاعِ کارواں نکلا
مرصّع ہوگئی جب نعت حُسن لفظ و معنٰی سے
ادائے نعت کا اِک مسئلہ بھی امتحاں نکلا
سُنایا بُلبل و قمری نے سو انداز سے لیکن
ادیبِ خُوش نَواہی تھا جو سب میں خوش بیاں نکلا
دو جہاں کے والی کا دو جہاں پہ سایہ ہے
اُن کو تو خدا نے اُن کی مرضی سے بنایا ہے
نوری نوری تلوے کیسے پیارے جلوے ہیں
چاند اُن کے جلوؤں کی بھیک لینے آیا ہے
والضحٰی کا چہرہ ہے طٰہٰ کا سہرا ہے
اُن کے مسکرانے سے زمانہ جگمگا یا ہے
نبیوں نے سلامی دی ولیوں نے غلامی کی
سرپہ اُن کے خالق نے تاج وہ سجایا ہے
طور پر کہا ربّ نےلَنۡ تَرَانِیۡ موسیٰ کو
پر مدینے والے کو عرش پر بلایا ہے
برکتوں کے ریلے ہیں نور یوں کے میلے ہیں
حلیمہ تیری کُٹیا میں یہ کون مسکرایا ہے !
موج میں جب آتے ہیں تاج ور بناتے ہیں
سب پہ ہے کرم ناؔصر اپنا یا پرایا ہے
دنیا تے آیا کوئی تیری نہ مثال دا
لبھ کے لے آواں کِتھوں سوہناں ترے نال دا
چہرہ تیرا نور وَنڈے ساری کائنات نوں
رب وی سلام پیجے اِک تیری ذات نوں
دو جگ قیدی ہو یا زلفاں دے جال دا
دنیا تے آیا کوئی تیری نہ مثال دا
مکے رہن والیا مدینے آون والیا
دھکے کھان والیا نوں سینے لان والیا
ڈِگیاں نوں تیرے بِناں کوئی نئیں سنبھال دا
دنیا تے آیا کوئی تیری نہ مثال دا
تیریاں تے صفتاں دا کوئی وی حساب نئیں
تو تو کتھے تیریاں غلاماں دا جواب نئیں
حُوراں نوں تو روپ ونڈے حبشی بلال دا
دنیا تے آیا کوئی تیری نہ مثال دا
گولا میں تیرا تیرے در دا تیری آل دا
دنیا تے آیا کوئی تیری نہ مثال دا
دل میں کسی کو اور بسایا نہ جائے گا
ذکر ِ رسولِ پاک بُھلایا نہ جائے گا
وہ خود ہی جان لیں گے ، جتایا نہ جائے گا
ہم سے تو اپنا حال سُنایا نہ جائے گا
ہم کو جز ا ملے گی محمد (ﷺ)سے عشق کی
دوزخ کے آس پاس بھی لایا نہ جائے گا
کہتے تھے ، بلال ؓ تشدد سے کفر کے
عشق ِ نبی کو دل سے نکالا نہ جائے گا
بے شک حضور شافعِ محشر ہیں منکرو !
کیا اُن کےسامنے تمہیں لایا نہ جائے گا ؟
مانے گا اُ ن کی بات خدا حشر میں نصیؔر
بِن مصطفٰے خدا کو منایا نہ جائے گا
دل کو اُ ن سے خدا جد ا نہ کرے
بے کسی لوٹ لے خدا نہ کرے
اس میں رَوضہ کا سجدہ ہو کہ طواف ہوش میں جو نہ ہو وہ کیا نہ کرے
یہ وہی ہیں کہ بخش دیتے ہیں کون ان جرموں پر سزا نہ کرے
سب طبیبوں نے دے دیا ہے جواب آہ عیسٰی اگر دوا نہ کرے
دل کہاں لے چلا حرم سے مجھے ارے تیرا برا خدا نہ کرے
عذر امید عفو گر نہ سنیں رو سیاہ اور کیا بہانہ کرے
دل میں روشن ہے جمع ِ عِشق حضور کاش جوشِ ہوس ہوانہ کرے
حشر میں ہم بھی سیر دیکھیں گے منکر آج ان سے التجا نہ کرے
ضعف مانا مگر یہ ظَالم دل ان کے رستے میں تو تھکا نہ کرے
جب تری خو ہے سب کا جی رکھنا وہی اچّھا جو دل برا نہ کرے
دل سے اِک ذوق مئے کا طالب ہوں کون کہتا ہے اتقا نہ کرے
لے رضا سب چلے مدینے کو
میں نہ جاؤں ارے خدا نہ کرے
دل آقا دے نظارے کولوں رجد اای نئیں
سونہڑا ایہو جیا جگ وچ لبھدا ای نئیں
پیارے نبی دی زباں ساڈے واسطے قرآن
کسی ہور دا بیان چنگا لگدا ای نئیں
نبی چڑھے نے براق پہنچے عرشاں تے آپ
اگوں ہدےدی اے آواز کوئی ڈکدای نئیں
حکم دِتّا اے خدا جبریل توں جا
جاکے سونہڑے نوں لے آ عرش سج دا ای نئیں
دونوں ملے نے پیارے پردے کھل گئے نے سارے
بیٹھے کر دے نے نظارے کوئی رَج دا ای نئیں نے
دکھا دے خدایا بہار ِ مدینہ
بہت ہو گیا انتظارِ مدینہ
جہاں کا ہر اک حسن ہے ماند جب سے
نگاہوں میں چھائے نگارِ مدینہ
ملے آبِ کوثر کی ٹھنڈک سی دل کو
میں جب چوم لوں ریگزارِ مدینہ
مزارِ مقدس کی برکت تو دیکھو
بڑھایا ہے اس نے وقارِ مدینہ
میری روح طیبہ کی گلیوں میں نکلے
میری زندگی ہو نثارِ مدینہ
مدینے میں ماہ صیام آگیا ہے
چلو دیکھ ہمؔدم نکھارِ مدینہ
دشمنِ احمد پہ شدّت کیجیے ملحدوں کی کیا مروّت کیجیے
ذِکر اُن کا چھیڑیے ہر بات میں چھیڑنا شیطان کا عادت کیجیے
مثل فارس زلزلے ہوں نجد میں ذکرِ آیاتِ ولادت کیجیے
غیظ میں جل جائیں بے دینوں کے دل یا رسول اللہ کی کثرت کیجیے
کیجیے چرچا انہیں کا صبح وشام جانِ کافِر پر قیامت کیجیے
آپ درگاہ ِ خُدا میں ہیں وجیہ ہاں شفاعت بالوجاہت کیجے
حق تمہیں فرما چکا اپنا حبیب اب شفاعت بالمحبّت کیجیے
اذن کب کا مل چکا اب تو حضور ہم غریبوں کی شفاعت کیجیے
ملحدوں کا شک نِکل جائے حضور جانبِ مَہ پھر اشارت کیجیے
شرک ٹھرے جس میں تعظیم حبیب اس بُرے مذہب پہ لعنت کیجیے
ظالمو! محبوب کا حق تھا یہی عشق کے بدلے عداوت کیجیے
والضحٰے حجرات الم نشرح سے پھر مومنو! اتمامِ حجّت کیجیے
بیٹھتے اٹھتے حضور پاک سے التجا و استعا نت کیجیے
یا رسول اللہ دُہائی آپ کی گوشمالِ اہلِ بدعت کیجیے
غوثِ اعظم آپ سے فریاد ہے زندہ پھر یہ پاک مِلّت کیجیے
یا خدا تجھ تک ہے سب کا منتہٰی اولیا کو حکمِ نصرت کیجیے
میرے آقا حضرتِ اچّھے میاں
ہو رضا اچّھا وہ صوٗرت کیجیے
در پیش ہو طیبہ کا سفر کیسا لگے گا
گزریں جو وہاں شام و سحر کیسا لگے گا
اۓ پیارے خدا !دیکھوں میں سرکار کا جلوۂ
مل جائے دُعا کو جو اثر کیسا لگے گا
یوں تو گزارتے ہیں سبھی زندگی لیکن
دربارِ نبی میں ہو بسر کیسا لگے گا
طیبہ کی سعادت تو یوں پاتے ہیں ہزاروں
مرشِد کے ساتھ ہو جو سفر کیسا لگے گا
اۓ کاش !مدینے میں مجھے موت یوں آئے
قدموں میں ہو سرکار کے سر کیسا لگے گا
جس در پہ شہنشاہوں نے بھی دامن ہیں پسارے
ہر سال وہاں جاؤں اگر کیسا لگے گا
پائی ہے منؔور نے قضا در پہ نبی کے
آجا کے وطن ایسی خبر کیسا لگے گا
ذرّے اُس خاک کے تابندہ ستارے ہوں گے
جس جگہ آپ نے نعلیں اُتارے ہوں گے
لوگ تو حسنِ عمل لے کے چلے روزِ حساب
سَرۡوَرۡ ہم کو فقط تیرے سہارے ہوں گے
بُوئے گل اس لیے پھرتی ہے چھپائے چہرہ
گیسو سر دو عالم نے سنوارے ہوں گے
اُس طرف ابر برستا ہے گناہ گاروں پر
جس طرف چشمِ محمدﷺ کے اشارے ہوں گے
اُٹھ گئی جب مِری جانب وہ کرم بار نظر
اُس گھڑی قؔطب کے بھی وارے نیارے ہوں گے
کلام میّسر نہیں
رونق ِ بزم جہاں ہیں عاشقانِ سوختہ
کہہ رہی ہے شمع کی گویا زبانِ سوختہ
جس کو قرصِ مہر سمجھا ہے جہاں اے منعمو!
اُن کے خوان ِ جود سے ہے ایک نانِ سوختہ
ماہِ من یہ نیّر محشر کی گرمی تابکے
آتش عصیاں میں خود جلتی ہے جان سوختہ
برق انگشت نبی چم کی تھی اس پر ایک بار
آج تک ہے سینہ ٔ مہ میں نشانِ سوختہ
مہر عالم تاب جھکتا ہے پئے تسلیم روز
پیش ِ ذرّات ِ مزارِ بید لانِ سوختہ
کوچۂ گیسوئے جاناں سے چلے ٹھنڈی نسیم
بال و پر افشاں ہوں یارب بلبلانِ سوختہ
بہر حق اے بحرِ رحمت اک نگاہ ِ لطف بار
تابکے بے آپ تڑپیں ماہیانِ سوختہ
روکش خورشید محشر ہو تمہارے فیض سے
اِک شرارِ سینۂ شیدائیانِ سوختہ
آتش ِ تر دامنی نے دل کیے کیا کیا کباب
خضر کی جاں ہو جِلا دو ماہیانِ سوختہ
آتش گلہائے طیبہ پر جلانے کے لیے
جان کے طالب ہیں پیارے بلبلانِ سوختہ
لطفِ برق جلوہ ٔ معراج لایا وجد میں
شعلۂ جوّالہ ساں ہے آسمانِ سوختہ
روئے رنگیں نظر آیا تو چمن بھول گئے
سونگھ کر زلف کی بو مشک ختن بھول گئے
خواب میں دیکھ لیے جب لب و دندان نبی
لعل کا دھیان گیا در عدن بھول گئے
نعت گوئی میں ہوئے محو تو پایا وہ مزہ
ماسوا اس کے کل اقسام سخن بھول گئے
کوئے طیبہ میں جو آ پہنچے عنادل اڑ کر
دیکھ کر رنگ فضا یاد چمن بھول گئے
در بدر ہو کے در شاہ پہ جب جا پہنچے
غم غلط ہو گیا سب رنج و محن بھول گئے
روضۂ پاک پہ پہنچے تو یہ ٹھنڈک پہنچی
سوز فرقت نہ رہا دل کی جلن بھول گئے
عشق سرور نے یہ تاثیر دکھائی فائقؔ
سوئے طیبہ جو چلے حب وطن بھول گئے
چوں ماہ ِ در ارض و سما ، تاباں توئی، تاباں توئی
رشکِ ملک، نورِ خدا، انساں توئی ،انساں توئی
روشن زرویت دو جہاں ، عکسِ رُخَت خورشید و ماہ
اۓ نورِ ذاتِ کبریا ! رخشاں توئی، رخشاں توئی
آیات ِقرآں اَبرُویت، تفسیر ِقرآں گیسُویَت
اۓ روئے تو! قرآنِ ما، ایماں توئی ، ایماں توئی
یا مصطفٰے !یا مجتبٰے! ارحم لنا، ارحم لنا
دستِ ہما بے چارا را، داماں توئی، داماں توئی
من عاصیم ، من عاجز م ، من بیکسم حالِ مرا
یا شافعِ روزِ جز ا! پُر ساں توئی، پُرساں توئی
جاؔمی رود از چشمِ ما جلوہ نما بہرِ خدا
جان و دلم ہر دو فدا، جاناں توئی، جاناں توئی
رشکِ قمر ہوں رنگ رخ آفتاب ہوں
ذرّہ ترا جو اے شہِ گردوں جناب ہوں
درّ نجف ہوں گوہر ِ پاک ِ خوشاب ہوں
یعنی ترابِ رہ گزر بو ترا ب ہوں
گر آنکھ ہوں تو آبر کی چشم پُر آب ہوں
دل ہوں تو برق کا دلِ پر اضطراب ہوں
خونیں جگر ہوں طائر بے آشیاں شہا
رنگِ پریدۂ رُخِ گل کا جواب ہوں
بے اصل و بے ثبات ہوں بحر کرم مدد
پروردۂ کنار سراب و حباب ہوں
عبرت فزا ہے شرم گنہ سے مِرا سکوت
گویا لب ِ خموشِ لحد کا جواب ہوں
کیوں نالہ سوز لے کر وں کیوں خونِ دل پیوں
سیخ کباب ہوں نہ میں جام شراب ہوں
دل بستہ بے قرار جگر چاک اشکبار
غنچہ ہوں گل ہوں برقِ تپاں ہوں سحاب ہوں
دعویٰ ہے سب سے تیری شفاعت پہ بیشتر
دفتر میں عاصیوں کے شہا انتخاب ہوں
مولٰی دہائی نظروں سے گر کر جلا غلام
اشک ِ مژہ رسیدہ ٔ چشم کباب ہوں
مٹ جائے یہ خودی تو وہ جلوہ کہاں نہیں
در دا میں آپ اپنی نظر کا حجاب ہوں
صَدقے ہوں اس پہ نار سے دیگا جو مخلصی
بلبل نہیں کہ آتشِ گل پر کباب ہوں
قالب تہی کیے ہمہ آغوش ہے ہلال
اے شہسَوار طیبہ میں تیری رکاب ہوں
کیا کیا ہیں تجھ سے ناز تِرے قصر کو کہ میں
کعبہ کی جان عرش بریں کا جواب ہوں
شاہا بجھے سقر مرے اشکوں سے تانہ میں
آبِ عبث چکیدہ ٔ چشمِ کباب ہوں
میں تو کہا ہی چاہوں کہ بندہ ہوں شاہ کا
پَر لطف جب ہے کہدیں اگر وہ جناب “ہوں ”
حسرت میں خاک بوسیِ طیبہ کی اے رضا
ٹپکا جو چشمِ مہر سے وہ خونِ ناب ہوں
رُخ ِمصطفٰے کو دیکھا تو دیوں نے جلنا سیکھا
یہ کرم ہے مصطفٰےکا ، شبِ غم نے ڈھلنا سیکھا
یہ زمیں رُکی ہوئی تھی یہ فلک تھما ہوا تھا
چلے جب مِرے محمدﷺ تو جہاں نے چلنا سیکھا
بڑا خوش نصیب ہوں میں میری خوش نصیبی دیکھو
شہ ِ انبیاء کے ٹکڑوں پہ ہے میں نے پلنا سیکھا
میں گِرا نہیں جو اب تک یہ کمالِ مصطفٰےہے
میری ذات نے نبی سے ہے سنبھلنا سیکھا
میرا دل بڑا ہی بے حس تھا کبھی نہیں یہ تڑپا
سُنی نعت جب نبی کی تو یہ دل مچلنا سیکھا
میں تلاش میں تھا رب کی کہاں ڈھونڈ تا میں اس کو؟
لیا نام جب نبی کا تو خدا سے ملنا سیکھا !
میں رہا خؔلش مظفر درِ پاک مصطفٰے پر
میرے جذبِ عاشقی نے کہاں گھر بدلنا سیکھا
رُخ دن ہے یا مہر سما یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں
شب زلف یا مشک ختا یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں
ممکن میں یہ قدرت کہاں واجب میں عبدیت کہاں
حیراں ہوں یہ بھی ہے خطا یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں
حق یہ کہ ہیں عبدِ الٰہ اور عالمِ امکاں کے شاہ
برزخ ہیں وہ سرِّ خدا یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں
بلبل نے گل اُن کو کہا قمری نے سردِ جانفزا
حیرت نے جھنجھلا کر کہا یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں
خورشید تھا کس زور پر کیا بڑھ کے چمکا تھا قمر
بے پردہ جب وہ رُخ ہوا یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں
ڈر تھا کہ عصیاں کی سزا اب ہوگی یا روزِ جزا
دی اُن کی رحمت نے صدا یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں
کوئی ہے نازاں زہد پر یا حسنِ تو بہ ہے سِپر
یاں ہے فقط تیری عطا یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں
دن لَہو میں کھونا تجھے شب صبح تک سونا تجھے
شرمِ نبی خوفِ خدا یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں
رزقِ خدا کھایا کیا فرمانِ حق ٹالا کیا
شکرِ کرم ترسِ سزا یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں
ہے بلبُل ِ رنگیں رضا یا طوطی ِ نغمَہ سرا
حق یہ کہ واصِف ہے ترا یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں
رحمتِ عالم تیری اُونچی شان
شان اُونچی شان مولا تیر ی شان
بدر الدّجٰیہو، نور خدا ہو
چہرہ ہے مثلِ قرآن
سر پہ تمہارے تاج ِشفاعت
بخشش کا سامان
کالی زلفیں کالی چادر
آپ کی ہے پہچان
آپ ہیں اوّل، آپ ہیں آخر
نبیوں کے سلطان
ختمِ نبوت ماہِ رسالت
روشن ہے دل و جان
دین کے رہبر، شافع محشر
ہر دل کا ارمان
ذکر تمہارا دونوں جہاں میں
ہر لب پہ ،ہر آن
دونوں جہاں کے آپ ہیں والی
محسؔن کا ایمان
رحمت دا دریا الٰہی ہر دم و گدا تیرا
جے اِک قطرہ بخشے مینوں کم بن جاوے میرا
اللہ نبی دا نام لئے اللہ نبی دا
جے میں ویکھا ں عملاں ولّے کچھ نئیں میرے پلّے
جے میں ویکھاں رحمت رب دی بلّے بلّے بلّے
اللہ نبی نام لئے اللہ نبی دا
خَس خَس جِاّنں قَدر نہ میرا، صاحب نوں وڈیا ئیاں
میں گلیاں دا روڑا کوڑا ،محل چڑھائیاں سائیاں
اللہ نبی نام لئے اللہ نبی دا
میں نیواں مرا مُرشد اُچّا، اُچّیاں سنگ میں لائی
صدقے جانواں اِیناں اُچّیاں تائیں، جِناں نیوئیاں سنگ نِھاسنئی
اللہ نبی نام لئے اللہ نبی دا
مُرشِد دے دُو ارے اُتّے محکم لائیے چوکاں
نَوَیں نَوَیں نہ یار بنائیے وانگ کمینئیاں لوکاں
اللہ نبی نام لئے اللہ نبی دا
چپ رَہ سیں تے موتی مِل سَن، صبر کریں تا ںہیرے
پاگلاں وانگوں رَولا پاویں، نہ موتی نہ ہیرے
اللہ نبی نام لئے اللہ نبی دا
آقا! سَدلو مدینے، تے ٹُر گئے کنِّے سفینے
تے سَدلو سب نُوں مدینے ،تے سَدلو اَیسّے مہینے
اللہ اللہ کہو اللہ اللہ
پاک محمد ﷺ نیں پیارے ،دو جہاناں دے سہارے
عرش وی صَلّ علٰے پکارے ،تے رل مل کرو دعاواں
مدینے نوں جائیے سارے
اللہ اللہ کہو اللہ اللہ
دِل دیاں سد راں لئَےکے، مدینے نُوں میں جاواں
جاکے حال سُناواں ،تے سنگِ اَسوَد وی چمُّاں
جالیاں اکھیاں نال لاواں، پی کے زم زم دا پانی
میں دل دی پیاس بجھا واں
کہو اللہ اللہ کہو اللہ اللہ
دو جہاناں دے والی! آپ دا رتبہ اے عالی
آپ دی شان نرالی، آپ دا رتبہ اۓ عالی
آپ دو جہاناں دے والی میں تِرے در دا سوالی
میں تے نئیں جاناں خالی
اللہ اللہ کہو اللہ اللہ
آقا !سَدلو مدینے، تےَ ٹُر گئے کنِےّ سفینے
رحمت دا خزینہ اے
لوکاں دِیاں لکھ ٹھاراں ،ساڈی ٹھار مدینہ اے
محبوب دا میلہ اے
محفل نوں سجائی رکھنا ں، او دے آون دا ویلہ اے
دَسّاں گَل کی خزینے دی
ساری دنیا کھاندی اے خیرات مدینے دی
اج ساڈی وی عید ہووے
اگے اگے کملی والا پِچّھے بابا فرید ہو وے
زُلفاں چھلّے او چھلّے
سارا جگ سوہنڑاں اے، ساڈے مدنی توں تھلّے او تھلّے
کوئی مِثل نیئوں ڈھولٹ دی
چُپ کر مِؔہر علی ایتھے جانیئوں بولٹ دی
راہِ عرفاں سے جو ہم نادیدہ رو محرم نہیں
مصطفٰے ہے مسندِ ارشاد پر کچھ غم نہیں
ہوں مسلماں گرچہ ناقِص ہی سہی اے کاملو!
ماہیت پانی کی آخر یم سے نم میں کم نہیں
غنچے مَا اَوْحٰی کے چٹکے دَنٰی کے باغ میں
بلبل سدرہ تک اُن کی بُو سے بھی محرم نہیں
اُس میں زم زم ہے کہ تھم تھم اس میں جم جم ہے کہ بیش
کثرتِ کوثر میں زم زم کی طرح کم کم نہیں
پنجۂ مہر عرب ہے جس سے دریا بہہ گئے
چشمہ ٔ خورشید میں تو نام کو بھی نم نہیں
ایسا امی کس لیے منت کشِ استا د ہو
کیا کفایت اس کو اِقْرَأ وَ رَبُکَ الْاَکْرمْ نہیں
اوس مہر حشر پر پڑ جائے پیاسو تو سہی
اُس گلِ خنداں کا رونا گریۂ شبنم نہیں
ہے انہیں کے دم قدم کی باغ عالم میں بہار
وہ نہ تھے عالم نہ تھا گروہ نہ ہوں عالم نہیں
سایۂ دیوار و خاکِ در ہو یا رب اور رضا
خواہشِ دیہیم قیصر شوقِ تختِ جم نہیں
راہ پُر خار ہے کیا ہونا ہے پاؤں افگار ہے کیا ہونا ہے
خشک ہے خون کہ دشمن ظالِم سخت خونخوار ہے کیا ہونا ہے
ہم کو بِد کر وہی کرنا جس سے دوست بیزار ہے کیا ہونا ہے
تن کی اب کون خبر لے ہےہے دِل کا آزار ہے کیا ہونا ہے
میٹھے شربت دے مسیحا جب بھی ضد ہے اِنکا رہے کیا ہونا ہے
دل کہ تیمار ہمارا کرتا آپ بیمار ہے کیا ہونا ہے
پَر کٹے تنگ قفس اور بلبُل نو گرفتار ہے کیا ہونا ہے
چھپ کے لوگوں سے کیے جس سے گناہ وہ خبر دار ہے کیا ہونا ہے
ارے او مجرم بے پَروا دیکھ سرپہ تلوار ہے کیا ہونا ہے
تیرے بیمار کو میرے عیسٰی غش لگا تار ہے کیا ہونا ہے
نفس پر زور کا وہ زور اور دِل زیر ہے زارہے کیا ہونا ہے
کام زنداں کے کیے اور ہمیں شوقِ گلزار ہے کیا ہونا ہے
ہائے رے نیند مسافر تیری کوچ تیار ہے کیا ہونا ہے
دوٗر جانا ہے رہا دِن تھوڑا راہ دشوار ہے کیا ہونا ہے
گھر بھی جانا ہے مُسافر کہ نہیں مت پہ کیا مار ہے کیا ہونا ہے
جان ہلکان ہوئی جاتی ہے بارسا بار ہے کیا ہونا
پار جانا ہے نہیں ملتی ناؤ زور پر دھار ہے کیا ہونا ہے
راہ توتیغ پر اور تلووں کو گلۂ خار ہے کیا ہونا ہے
روشنی کی ہمیں عادت اور گھر تیرۂ و تار ہے کیا ہونا ہے
بیچ میں آگ کا دریا حائل قصد اس پار ہے کیا ہونا ہے
اس کڑی دھوپ کو کیوں کر جھیلیں شعلہ زن نار ہے کیا ہونا ہے
ہائے بگڑی تو کہاں آکر ناؤ عین منجدھار ہے کیا ہونا ہے
کل تو دیدار کا دن اور یہاں آنکھ بے کار ہے کیا ہونا ہے
منھہ دکھانے کا نہیں اور سحر عام دربار ہے کیا ہونا ہے
ان کو رحم آئے تو آئے ورنہ وہ کڑی مار ہے کیا ہونا ہے
لے وہ حاکم کے سپاہی آئے صبح اظہار ہے کیا ہونا ہے
واں نہیں بات بنانے کی مجال چارہ اقرار ہے کیا ہونا ہے
ساتھ والوں نے یہیں چھوڑ دیا بے کسی یار ہے کیا ہونا ہے
آخری دید ہے آؤ مِل لیں رنج بے کار ہے کیا ہونا ہے
دل ہمیں تم سے لگانا ہی نہ تھا اب سفر بار ہے کیا ہونا ہے
جانے والوں پہ یہ رونا کیسا بندہ ناچار ہے کیا ہونا ہے
نزع میں دھیان نہ بٹ جائے کہیں یہ عبث پیار ہے کیا ہونا ہے
اس کا غم ہے کہ ہر اِک کی صوٗرت گلے کا ہار ہے کیا ہونا ہے
باتیں کچھ اور بھی تم سے کرتے پر کہاں وار ہے کیا ہونا ہے
کیوں رضا کُڑھتے ہو ہنستے اٹھو
جب وہ غفّار ہے کیا ہونا ہے
کلام میّسر نہیں
زہے مقدر! حضورِ حق سے سلام آیا ، پیام آیا
جھکاؤ نظریں، بچھاؤ پلکیں ، اد ب کا اعلیٰ مقام آیا
یہ کون سر سےکفن لپیٹے چلا ہے الفت کے راستے پر ؟
فرشتے حیرت سے تک رہے ہیں یہ کون ذی احترام آیا !
فضا میں لبیک کی صدائیں ، زَ فرش تا عرش گونجتی ہیں
ہر ایک قربان ہو رہا ہے ، زباں پہ یہ کس کا نام آیا !
یہ راہِ حق ہے ، سنبھل کے چلنا ، یہاں ہے منزل قدم قدم پر
پہنچا در پر تو کہنا آقا ، سلام لیجیے غلام آیا !
دعا جو نکلی تھی دل سے آخر پلٹ کے مقبول ہو کے آئی
وہ جذبہ جس میں تڑپ تھی سچی وہ جذبہ آخر کو کام آیا
یہ کہنا آقا بہت سے عاشق تڑپتے سے چھوڑآیا ہوں میں
بلاوے کے منتظر ہیں لیکن نہ صبح آیا نہ شام آیا
خدا ترا حافظ و نگہبان او راہِ بطحٰی کے جانے والے
نویدِ صد انبساط بن کر پیامِ دارالسلام آیا
زہے عزّت و اعتلائے محمدﷺ
کہ ہے عرشِ حق زیر پائے محمد ﷺ
مکاں عرش اُن کا فلک فرش اُن کا
ملک خادمانِ سرائے محمد ﷺ
خدا کی رضا چاہتے ہیں دو عالم
خدا چاہتا ہے رضائے محمد ﷺ
عجب کیا اگر رحم فرما لے ہم پر
خدائے محمد برائے محمد ﷺ
محمد برائے جنابِ الٰہی !
جنابِ الٰہی برائے محمد ﷺ
بسی عِطر محبوبِی کبریا سے
عبائے محمد قبائے محمد ﷺ
بہم عہد باندھے ہیں وصلِ ابد کا
رضائے خدا اور رضائے محمد ﷺ
دمِ نزع جاری ہو میری زباں پر
محمد محمد خدا ئے محمد ﷺ
عصائے کلیم اژدھا ئے غضب تھا
گِروں کا بہارا عصائے محمد ﷺ
میں قرباں کیا پیاری ہے نسبت
یہ آنِ خدا وہ خدائے محمد ﷺ
محمد کا دم خاص بہرِ خدا ہے
سوائے محمد برائے محمد ﷺ
خدا اُ ن کو کِس پیارے دیکھتا ہے
جو آنکھیں ہیں محوِ لقائے محمد ﷺ
جلو میں اجابت خواصِی میں رحمت
بڑھی کس تزک سے دُعائے محمّد ﷺ
اجابت نے جھک کر گلے سے لگایا
بڑھی ناز سے جب دعائے محمد ﷺ
اجابت کا سہرا عنایت کا جوڑا
دلہن بن کے نِکلی دُعائے محمّد ﷺ
رضا پل سے اب وجد کرتے گریے
کہ ہے رَبِّ سَلِّم صدائے محمد ﷺ
زمین و زماں تمہارے لیے مکین و مکاں تمہارے لیے
چنین و چناں تمہارے لیے بنے دو جہاں تمہارے لیے
دہن میں زباں تمہارے لیے بدن میں ہے جاں تمہارے لیے
ہم آئے یہاں تمہارے لیے اُٹھے بھی وہاں تمہارے لیے
فرشتے خِدَم رسولِ حِشم تمام اُمم غُلام ِ کرم
وجود و عدم حُدوث و قِدم جہاں میں عیاں تمہارے لیے
کلیم و نجی مسیح و صفی خلیل و رضی رسول و نبی
عتیق و وصی غنی و علی ثنا کی زباں تمہارے لیے
اصالتِ کل امامتِ کل سیادتِ کل امارتِ کل
امامتِ کل ولایتِ کل خدا کے یہاں تمارے لیے
تمہاری چمک تمہاری دمک تمہاری جھلک تمہاری مہک
زمین و فلک سماک و سمک میں سکّہ نشاں تمہارےلیے
یہ شمس و قمر شام و سحر یہ برگ و شجر یہ باغ ثمر
یہ تیغ و سپر یہ تاج و قمر یہ حکم رواں تمہارے لیے
نہ روح امیں نہ عرش و بریں نہ لوح میں کوئی بھی کہیں
خبر ہی نہیں جو رمزیں کھلیں ازل کی نہاں تمہارے لیے
زمانہ حج کا ہے جلوہ دیا ہے شاہد ِ گل کو
الٰہی طاقتِ پرواز دے پر ہائے بلبل کو
بہاریں آئیں جو بن پر گھر ا ہے ابر رحمت کا
لبِ مشتاق بھیگیں دے اجازت ساقیا مل کو
ملے لب سے وہ مشکیں مُہر والی دم میں دم آئے
ٹپک سن کر قم عیسیٰ کہوں مستی میں قلقل کو
مچل جاؤں سوالِ مدّعا پر تھام کر دامن
بہکنے کا بہانہ پاؤں قصدِ بے تأ مل کو
دُعا کر بخت خفتہ جاگ ہنگامِ اجابت ہے
ہٹایا صبح رخ سے شانے نے شبہائے کاکل کو
زبانِ فلسفی سے امن خرق والتیام اسرا
پناہِ دورِ رحمت ہائے یک ساعت تسلسل کو
دو شنبہ مصطفٰے کا جمعہ ٔ آدم سے بہتر ہے
سکھانا کیا لحاظِ حیثیت خوئے تأمل کو
وفورشانِ رحمت کے سبب جرأت ہے اے پیارے
نہ رکھ بہر خُدا شرمندہ عرضِ بے تأمل کو
پریشانی میں نام ان کا دل صَد چاک سے نکلا
اجابت شانہ کرنے آئی گیسوئے توسّل کو
رضا نُہ سبزۂ گردوں ہیں کوتل جس کے موکب کے
کوئی کیا لکھ سکے اس کی سَواری کے تجمل کو
زِرحمت کن نظر برحالِ زارم یا رسول اللہ !
غریمم ، بے نوایم، خاکسارم یا رسول اللہ !
زِداغِ ہجر تو کہ دل فگارم یار سول اللہ!
بَہارِ صد چمن در سینہ دارم یا رسول اللہ !
توئی تسکینِ دل، آرامِ جاں ، صبر وقرارِ من
رُخِ پُر نور بنمُا بے قرارم یا رسول اللہ !
توئی مولائے من، آقائے من، والی و جانِ من
توئی دانی کہ جُز تو کس ندارم یا رسول اللہ !
دمِ آخر نُمائی جلوۂ دیدار جاؔمی را
زِ لطف تو ہمیں امیدوارم یا رسول اللہ !
زائرو پاس ِ ادب رکھو ہوس جانے دو
آنکھیں اندھی ہوئی ہیں ان کو ترس جانے دو
سوکھی جاتی ہے امیدِ غربا کی کھیتی
بوندیاں لکۂ رحمت کی برس جانے دو
پلٹی آتی ہے ابھی وجد میں جانِ شیریں
نغمۂ قُم کا ذرا کانوں میں رس جانے دو
ہم بھی چلتے ہیں ذرا قافلے والو! ٹھرو
گھڑیاں توشۂ امید کی کس جانے دو
دید گل اور بھی کرتی ہے قیامت دل پر
ہمصفیر و ہمیں پھر سوئے قفس جانے دو
آتِش دِل بھی تو بھڑکا ؤ ادب داں نالو
کون کہتا ہے کہ تم ضبطِ نفس جانے دو
یوں تنِ زار کے درپے ہوئے دل کے شعلو
شیوۂ خانہ براندازی ِ خس جانے دو
اے رضا آہ کہ یوں سہل کٹیں جرم کے سال
دو گھڑی کی بھی عبادت تو برس جانے دو
کلام میّسر نہیں
سیر گلشن کون دیکھے دشتِ طیبہ چھوڑ کر
سوئے جنت کون جائے دَر تمہارا چھوڑ کر
سر گزشت غم کہوں کس سے تِرے ہوتے ہوئے
کس کے در پر جاؤں تیرا آستانہ چھوڑ کر
بے لقائے یار ان کو چین آ جاتا اگر
بار بار آتے نہ یوں جبریل سدرہ چھوڑ کر
کون کہتا ہے دلِ بے مُدَّعا ہے خوب چیز
میں تو کوڑی کو نہ لوں ان کی تمنا چھوڑ کر
مر ہی جاؤں میں اگر اس دَر سے جاؤں دو قدم
کیا بچے بیمارِ غم قربِ مسیحا چھوڑ کر
کس تمنا پر جئیں یارب اَسیرانِ قفس
آ چکی بادِ صبا باغِ مدینہ چھوڑ کر
بخشوانا مجھ سے عاصی کا رَوا ہو گا کسے
کس کے دامن میں چھپوں دامن تمہارا چھوڑ کر
خلد کیسا نفس سرکش جاؤں گا طیبہ کو میں
بد چلن ہٹ کر کھڑا ہو مجھ سے رَستہ چھوڑ کر
ایسے جلوے پر کروں میں لاکھ حوروں کو نثار
کیا غرض کیوں جاؤں جنت کو مدینہ چھوڑ کر
حشر میں ایک ایک کا مونھ تکتے پھرتے ہیں عدو
آفتوں میں پھنس گئے اُن کا سہارا چھوڑ کر
مر کے جیتے ہیں جو اُن کے دَر پہ جاتے ہیں حسنؔ
جی کے مرتے ہیں جو آتے ہیں مَدینہ چھوڑ کر
سونا جنگل رات اندھیری چھائی بدلی کالی ہے
سونے والو! جاگتے رہو چوروں کی رکھوالی ہے
آنکھ سے کاجل صَاف چرالیں یاں وہ چور بلا کے ہیں
تیری گھڑی تاکی ہے اور تو نے نیند نکالی ہے
یہ جو تجھ کو بلاتا ہے یہ ٹھگ ہے مار ہی رکھے گا
ہائے مسافر دم میں نہ آنا مَت کیسی متوالی ہے
سونا پاس ہے سونا بن ہے سونا ز ہر ہے اُٹھ پیارے
تو کہتا ہے نیند ہے میٹھی تیری مت ہی نرالی ہے
آنکھیں ملنا جھنجھلا پڑنا لاکھوں جَمائی انگڑائی
نام پر اٹھنے کے لڑتا ہے اٹھنا بھی کچھ گالی ہے
جگنو چمکے پتا کھڑکے مجھ تنہا کا دِل دھڑکے
ڈر سمجھا ئے کوئی پون ہے یا اگیا بیتالی ہے
بادل گرجے بجلی تڑپے دَھک سے کلیجا ہو جائے
بن میں گھٹا کی بَھیانک صوٗرت کیسی کا لی کالی ہے
پاؤں اٹھا اور ٹھوکر کھائی کچھ سنبھلا پھر اَوند ھے منھ
مینھ نے پھسلن کردی ہے اور دُھر تک کھائی نالی ہے
ساتھی سَاتھی کہہ کے پکاروں ساتِھی ہو تو جو اب آئے
پھر جھنجھلا کر سر دے پَٹکوں چل رے مولٰی والی ہے
پھر پھر کر ہر جانب دیکھوں کوئی آس نہ پاس کہیں
ہاں اِک ٹوٹی آس نے ہار ے جی سے رفاقت پالی ہے
تم تو چاند عرب کے ہو پیارے تم تو عجم کے سُورج ہو
دیکو مجھ بے کس پر شب نے کیسی آفت ڈالی ہے
دنیا کو تو کیا جانے یہ بس کی گانٹھ ہے حرّافہ
صورت دیکھو ظالم کی تو کیسی بھولی بھالی ہے
شہد دکھائے زہر پلائے قاتل ڈائن شوہر کش
اس مُردار پہ کیا للچا یا دنیا دیکھی بھالی ہے
وہ تو نہایت سَستا سودا بیچ رہے ہیں جنّت کا
ہم مفلِس کیا مول چکائیں اپنا ہاتھ ہی خالی ہے
مولیٰ تیرے عفو و کرم ہوں میرے گواہ صفائی کے
ورنہ رضا سے چور پہ تیری ڈِگری تو اقبالی ہے
سوزِ دل چاہیے، چشمِ نم چاہیے اور شوقِ طلب معتبر چاہیے
ہوں میسر مدینے کی گلیاں اگر، آنکھ کافی نہیں ہے نظر چاہیے
ان کی محفل کے آداب کچھ اور ہیں، لب کشائی کی جرات مناسب نہیں
ان کی سرکار میں التجا کے لئے،جنبشِ لب نہیں، چشمِ تر چاہیے
اپنی رو داد غم میں سناوؔں کسے، میرے دکھ کو کوئی اور سمجھے گا کیا؟
جس کی خاکِ قدم بھی ہے خاکِ شفا، میرے زخموں کو وہ چارہ گر چاہیے
رونقیں زندگی کی بہت دیکھ لیں، اب میں آنکھوں کو اپنی کروں گا بھی کیا
اب نہ کچھ دیدنی ہے، نہ کچھ گفتنی، مجھ کو آقا کی بس اک نظر چاہیے
میں گدائے درِ شاہِ کونین ہوں، شیش محلوں کی مجھ کو تمنّا نہیں
ہو میسر زمیں پہ کہ زیرِ زمیں، مجھ کو طیبہ میں اک اپنا گھر چاہیے
ان نئے راستوں کی نئی روشنی، ہم کو راس آئی ہے اور نہ راس آئے گی
ہم کو کھوئی ہوئی روشنی چاہیے، ہم کو آئیںِ خیر البشر چاہیے
گوشہ گوشہ مدینےکا پر نور ہے، سارا ماحول جلووؔں سے معمور ہے
شرط یہ ہے کہ ظرفِ نظر چاہیے، دیکھنے کو کوئی دیدہ ور چاہیے
مدحتِ شاہِ کون و مکاں کے لیے صرف لفظ وبیاں کا سہارا نہ لو
فنِ شعری ہے اقبال اپنی جگہ، نعت کہنےکو خونِ جگر چاہیے
سنتے ہیں کہ محشر میں صرف اُن کی رسائی ہے
گر اُن کی رسائی ہے لو جب تو بن آئی ہے
مچلا ہے کہ رحمت نے امید بندھائی ہے
کیا بات تری مجرم کیا بات بنائی ہے
سب نے صف محشر میں للکار دیا ہم کو
اے بے کسوں کے آقا اب تیری دہائی ہے
یوں تو سب انھیں کا ہے پر دل کی اگر پوچھو
یہ ٹوٹے ہوئے دل ہی خاص اُن کی کمائی ہے
زائر گئے بھی کب کے دِن ڈھلنے پہ ہے پیارے
اٹھ میرے اکیلے چل کیا دیر لگائی ہے
بازار عمل میں تو سودا نہ بنا اپنا
سرکار کرم تجھ میں عیبی کی سمائی ہے
گرتے ہووں کو مژدہ سجدے میں گرے مولیٰ
رو رو کے شفاعت کی تمہید اُٹھائی ہے
اے دل یہ سلگنا کیا جلنا ہے تو جل بھی اُٹھ
دَم گھٹنے لگا ظالم کیا دھونی رَمائی ہے
مجرم کو نہ شرماؤ احباب کفن ڈھک دو
منھ دیکھ کے کیا ہو گا پردے میں بھلائی ہے
اب آپ ہی سنبھالیں تو کام اپنے سنبھل جائیں
ہم نے تو کمائی سب کھیلوں میں گنوائی ہے
اے عشق تِرے صدقے جلنے سے چھٹے سستے
جو آگ بجھا دے گی وہ آگ لگائی ہے
حرص و ہوس ِ بد سےدل تو ، بھی ستم کر لے
تو ہیں نہیں بے گانہ دنیا ہی پرائی ہے
ہم دل جلے ہیں کس کے ہٹ فتنوں کے پرکالے
کیوں پھونک دوں اک اُف سے کیا آگ لگائی ہے
طیبہ نہ سہی افضل مکّہ ہی بڑا زاہد
ہم عشق کے بندے ہیں کیوں بات بڑھائی ہے
مطلع میں یہ شک کیا تھا واللہ رضا واللہ
صرف اُن کی رسائی ہے صرف اُن کی رسائی ہے
سنتے ہیں کہ محشر میں صرف اُن کی رسائی ہے
گر اُن کی رسائی ہے لو جب تو بن آئی ہے
مچلا ہے کہ رحمت نے امید بندھائی ہے
کیا بات تِری مجرم کیا بات بَنا ئی ہے
سب نے صفِ محشر میں للکار دیا ہم کو
اے بے کسوں کے آقا اب تیری دہائی ہے
یوں تو سب انہیں کا ہے پَر دل کی اگر پوچھو
یہ ٹوٹے ہوئے دل ہی خا ص اُن کی کمائی ہے
زائر گئے بھی کب کے دِن ڈھلنے پہ ہے پیارے
اٹھ میرے اکیلے چل کیا دیر لگائی ہے
بازار عملِ میں تو سودا نہ بنا اپنا
سرکارِ کرم تجھ میں عیبی کی سَمائی ہے
گرتے ہووں کو مژدہ سجدے میں گرے مولٰی
رو رو کے شفاعت کی تہمید اٹھائی ہے
اے دل یہ سلگنا کیا جلنا ہے تو جل بھی اٹھ
دَم گھٹنے لگا ظالمِ کیا دھونی رَمائی ہے
مجرم کو نہ شر ماؤ احباب کفن ڈھک دو
منھ دیکھ کے کیا ہوگا پردے میں بھلائی ہے
اب آپ ہی سنبھالیں توکام اپنے سنبھل جائیں
ہم نے تو کمائی سب کھیلوں میں گنوائی ہے
اے ٔ عشق تِرے صدقے جلنے سے چُھٹے سَستے
جو آگ بجھا دے گی وہ آگ لگائی ہے
حرص و ہوسِ بد سے دل تو بھی ستم کر لے
تو ہی نہیں بے گانہ دنیا ہی پَرائی ہے
ہم دل جلے ہیں کس کے ہَٹ فتنوں کے پر کالے
کیوں پھونک دوں اِک اُف سے کیا آگ لگائی ہے
طیبہ نہ سہی افضل مکّہ ہی بڑا زاہد
ہم عِشق کے بندے ہیں کیوں بات بڑھائی ہے
مطلع میں یہ شک کیا تھا واللہ رضا واللہ
صرف اُن کی رسائی ہے صرف اُن کی رسائی ہے ۔
سلطانِ مدینہ سے جسے پیار نہ ہوگا
مَحشر میں شفاعت کا وہ حقدار نہ ہوگا
مشکل میں جو نہ یاد کرے اپنے نبی کو
منجدھار میں ڈوبے گا کبھی پار نہ ہوگا
دنیا بھی سنور جائے گی جنت بھی ملے گی
محفل میں تِرا بیٹھنا بے کار نہ ہوگا
بدلے ہیں حضور! آپ نے دنیا کے مقدر
کیا مجھ پہ کرم سیّدِ ابرار نہ ہو گا !
دیکھا ہے بس اِک بار حضور !آپ کا جلوۂ
کیا ایسا کرم پھر کبھی سرکار نہ ہوگا !
حسنین (رضی اللہ عنہما) کے نانا پر جو تنقید کرے
وہ اور کوئی ہوگا مِرا یار نہ ہو گا
سر تا بقدم ہے تنِ سلطانِ زمن پھول
لب پھول دہن پھول ذقن پھول بدن پھول
صدقے میں ترے باغ تو کیا لائے ہیں بن پھول
اِس غنچۂ دل کو بھی تو ایما ہو کہ بن پھول
تنکا بھی ہمارے تو ہلائے نہیں ہِلتا
تم چاہو تو ہو جائے ابھی کوہِ محن پھول
واللہ جو مل جائے مرے گل کا پسینہ
مانگے نہ کبھی عِطر نہ پھر چاہے دلہن پھول
دِل بستہ و خوں گشتہ نہ خوشبُو نہ لطافت
کیوں غنچہ کہوں ہے مِرے آقا کا دہن پھول
شب یاد تھی کن دانتوں کی شبنم کہ دِمِ صبح
شوخانِ بہاری کے جڑوا ؤہیں کرن پھول
دندان ولب و زلف و رُخ ِ شہ کے فدائی
ہیں درِّ عدن لعلِ یمن مشکِ ختن پھول
بو ہو کے نہاں ہو گئے تابِ رُخِ شہ میں
لو بن گئے ہیں اب تو حسینوں کا دہن پھول
ہوں بازِ گنہ سے نہ خجل دوشِ عزیزاں
لِلّٰہ مری نعش کر اے جان ِ چمن پھول
دل اپنا بھی شیدائی ہے اس ناخنِ پاکا
اتنا بھی مہِ نوپہ نہ اے چرخ ِ کہن پھول
دل کھول کے خوں رولے غمِ عارض ِ شہ میں
نکلے تو کہیں حسرت ِ خوں نابہ شدن پھول
کیا غازہ مَلا گردِ مدینہ کا جو ہے آج
نِکھرے ہوئے جو بن میں قیامت کی پھبن پھول
گرمی یہ قیامت ہے کہ کانٹے ہیں زباں پر
بلبل کو بھی اے ساقی صہبا ولبن پھول
ہے کون کہ گریہ کرے یا فاتحہ کو آئے
بیکس کے اٹھائے تری رحمت کے بھرن پھول
دل غم تجھے گھیرے ہیں خدا تجھ کو وہ چمکائے
سُورج تِرے خرمن کو بنے تیری کرن پھول
کیا بات رضا اس چمنستان ِ کرم کی
زہرا ہے کلی جس میں حسیں اور حسن پھول
ان کا در چومنے کا صلہ مل گیا سر اٹھایا تو مجھ کو خدا مل گیا عاصیوں کو بڑا رتبہ مل گیا حشر میں دامن مصطفی مل گیا ان کھجوروں کے جھر مٹ میں کیا مل گیا باغ خلد بریں کا پتہ مل گیا خود تھپیڑوں نے آکر سہارا دیا کملی والے سا جب نا خدا مل گیا جس کو طیبہ کی ٹھندی ہوا مل گئی بس اسے زندگی کا مزہ مل گیا اٹھتے ہی پردہ میم معراج میں نور ہی نور کا سلسلہ مل گیا کچھ نہ پوچھو کہ میں کیسے بے کل ہوا مجھ کو کملی میں راز خدا مل گیا |
سب سے اولیٰ و اعلیٰ ہمارا نبی ﷺ
سب سے بالا و اعلٰی ہمارا نبی ﷺ
اپنے مولیٰ کا پیارا ہمارا نبی
دونوں عالم کا دولہا ہمارا نبی ﷺ
بزم آخر کا شمعِ فروزاں ہوا
نورِ اول کا جلوہ ہمارا نبی ﷺ
بجھ گئیں جس کے آگے سبھی مشعلیں
شمع وہ لےکر آیا ہمارا نبی ﷺ
جن کے تلوؤں کا دُھوَن ہے آبِ حیات
ہے وہ جانِ مسیحا ہمارا نبی ﷺ
خلق سے اولیاء، اولیاء سے رُسل
اور رسولوں سے اعلیٰ ہمارا نبی ﷺ
جیسے سب کا خدا یک ہے ویسے ہی
اِن کا، اُن کا تمہارا ہمارا نبی ﷺ
کون دیتا ہے دینے کو منہ چاہیے
دینے والا ہے سچا ہمارا نبی ﷺ
غمزدوں کو رضاؔ مژدہ دیجے کے ہے
بیکسوں کا سہارا ہمارا نبی ﷺ
سانوں اپنے کول بُلا لے مدینے والڑیا
ساڈے دل دا روگ مٹادے مدینے والڑیا
دم دم یاد تیری دل وچ رہندی اے
روندیں اے نیں اکھیاں تے نیند نہ پیندی اے
سانوں سبز گنبد وکھلا دے مدینے والڑیا
ساڈے دل دا روگ مٹا دے مدینے والڑیا
صدقہ شہیداں دا دور ہو ویں دوریاں
سدلو جی کول مُک جاویں مجبوریاں
ساڈے سُےّو نصیب جگادے مدینے والڑیا
ساڈے دل دا روگ مٹا دے مدینے والڑیا
کالی کالی زلف تے انکھ مستانی اے
رب دی سوں دنیا ای سوہنے دی دیوانی اے
اِک نوری جھلک وکھلا دے مدینے والڑیا
ساڈے دل دا روگ مٹا دے مدینے والڑیا
سانوں اپنے کول بلالے مدینے والڑیا
سارے جگ نالوں لگدیاں چنگیاں مدینے دیاں پاک گلیاں
رہیا مہک جیویں جنت دیاں گلیاں مدینے دیاں پاک گلیاں
اوہناں گلیاں توں تن من وار یے کر یے سجدے تے شکر گزاریے
اے تے نور دیاں سُچیا ئیں ٹھلیاں مدینے دیاں پاک گلیاں
ابر رحمتاں دا سدا ایتھے وسدے جاندے روتے تے آؤندے نیں ہنس دے
جاندے رل دیکھنے نوں سیاں نے چلیاں مدینے دیاں پاک گلیاں
اونہاں گلیاں نوں جیہڑ ے ویکھن آؤندے اوتے جنتّاں نوں بُوہے کھل جاؤندے
تَر گئے اوجِنہاں نے تک لیاں مدینے دیاں پاک گلیاں
پاوے ایناں گلیاں دا دیدار جو ہو جاوے رحمتاں دا حق دار او
تَر گئے اوجِنہاں نے تک لیاں مدینے دیاں پاک گلیاں
سائے میں تمہارے ہےقسمت یہ ہماری ہے
قربانِ دل و جانم کیا شان تمہاری ہے
کیا پیش کروں تم کو کیا چیز ہماری ہے
یہ دل بھی تمہارا ہے یہ جاں بھی تمہاری ہے
نقشہ تِرا دلکش ہے صورت تِری پیاری ہے
جس نے تمہیں دیکھا ہے سو جان سے واری ہے
گو لا کھ برے ہم کہلاتے تمہارے ہیں
اِک نظر ِکرم کرنا یہ عرض ہماری ہے
ہم چھوڑ کے اِس در کو جائیں تو کہاں جائیں ؟
اِک نام تمہارا ہے !جو ہونٹوں پہ جاری ہے
تاؔجی تِرے سجدے سے زاہد کو جلن کیوں ہے ؟
قدرت نے جبیں سائی قسمت میں اتاری ہے !
شورِ مِہ نَوسن کر تجھ تک میں دَواں آیا
ساقی میں ترے صدقے میں دے رمضان آیا
اس گل کے سوا ہر پھول با گو ش گراں آیا
دیکھے ہی گی اے بلبل جب وقتِ فغاں آیا
جب بامِ تجَلی پر وہ نیّر ِ جاں آیا
سرتھا جو گرا جھک کر دل تھا جو تپاں آیا
جنّت کو حَرم سمجھا آتے تو یہاں آیا
اب تک کے ہر اک کا منھ کہتا ہوں کہاں آیا
طیبہ کے سوا سب باغ پا مالِ فنا ہوں گے
دیکھو گے چمن والو! جب عہدِ خزاں آیا
سراور وہ سنگِ در آنکھ اور وہ بزمِ نور
ظالم کو وطن کا دھیان آیا تو کہاں آیا
کچھ نعت کے طبقے کا عالم ہی نرالا ہے
سکتہ میں پڑی ہے عقل چکر میں گماں آیا
جلتی تھی زمیں کیسی تھی دھوٗپ کڑی کیسی
لو وہ قدِ بے سایہ اب سایہ کناں آیا
طیبہ سے ہم آتے ہیں کہیے تو جناں والو
کیا دیکھ کے جیتا ہے جو واں سے یہاں آیا
لے طوقِ الم سے اَب آزاد ہو اے قمری
چٹھی لیے بخشش کی وہ سرو رواں آیا
ناماں سے رضا کے اب مٹ جاؤ بُرے کامو
دیکھو مِرے پلّہ پر وہ اچھے میاں آیا
بدکار رضا خوش ہو ید کا م بھلے ہوں گے
وہ اچھے میاں پیارا اچھوں کا میاں آیا
شکرِ خدا کہ آج گھڑی اُس سفر کی ہے
جس پر نثار جان فلاح و ظفر کی ہے
گرمی ہے تپ ہے درد ہے کلفت سفر کی ہے
نا شکر یہ تو دیکھ عزیمت کدھر کی ہے
کِس خاکِ پاک کی تو بنی خاک ِ پا شفا
تجھ کو قسم جنابِ مسیحا کے سر کی ہے
آبِ حیاتِ رُوح ہے زرقا کی بُوند بُوند
اکسیر اعظم مسِ دل خاک دَر کی ہے
ہم کو تو اپنے سائے میں آرام ہی سے لائے
حیلے بہانے والوں کو یہ راہ ڈر کی ہے
لٹتے ہیں مارے جاتے ہیں یوں ہی سُنا کیے
ہر بار دی وہ امن کہ غیرت حضرت کی ہے
وہ دیکھو جگمگا تی ہے شب اور قمر ابھی
پہروں نہیں کہ بست و چہارم صفر کی ہے
ماہِ مدینہ اپنی تجلی عطا کرے !
یہ ڈھلتی چاندنی تو پہر دو پہر کی ہے
مَنْ زَارَ تُرْبَتِیْ وَجَبَتْ لَہ شَفَاعَتِی ْ
اُن پر درود جن سے نوید اِن بُشَر کی ہے
اس کے طفیل حج بھی خدا نے کرا دیے
اصلِ مُراد حاضری اس پاک در کی ہے
کعبہ کا نام تک نہ لیا طیبہ ہی کہا
پوچھا تھا ہم سے جس نے کہ نہضت کدھر ہے
کعبہ بھی ہے انہیں کی تجَلی کا یک ظِلّ
روشن انھیں کے عکس سے پتلی حجر کی ہے
ہوتے کہاں خلیل و بنا کعبہ و منٰی
لولاک والے صاحبی سب تیرے گھر کی ہے
مَولیٰ علی نے واری تِری نیند پر نماز
اور وہ بھی عصر سب سے جو اعلیٰ خطر کی ہے
صدّیق بلکہ غار میں جان اس پہ دے چکے
اور حفظِ جاں تو جان فروض ِ غرر کی ہے
ہاں تو نے ان کو جان انہیں پھیر دی نماز
پَردہ تو کر چکے تھے جو کرنی بشر کی ہے
ثابت ہوا کہ جملہ فرائِض فروع ہیں
اصل الاصول بندگی اس تاجور کی ہے
شر خیر شور سور شرر دور نار نور!
بشرٰی کہ بارگاہ یہ خیر البشر کی ہے
مجرم بلائے آئے ہیں جَاؤ ک ہے گواہ
پھر رد ہو کب یہ شان کریموں کے در کی ہے
بد ہیں مگر انہیں کے ہیں باغی نہیں ہیں ہم
نجدی نہ آئے اس کو یہ منزل خطر کی ہے
تف نجدیت نہ کفر اسلام سب پہ حرف
کافر ادھر کی ہے نہ اُدھر کی ہے
حاکم حکیم داد و دوا دیں یہ کچھ نہ دیں
مردود یہ مُراد کِس آیت خبر کی ہے
شکلِ بشر میں نورِ الٰہی اگر نہ ہو !
کیا قدر اُس خمیرۂ ماو مدر کی ہے
نورِ الٰہ کیا ہے محبّت حبیب کی
جس دل میں یہ نہ ہو وہ جگہ خوک و خر کی ہے
ذکرِ خدا جو اُن سے جُدا چاہو نجدیو!
واللہ ذکرِ حق نہیں کنجی سقر کی ہے
بے اُن کے واسطہ کے خدا کچھ عطا کرے
حاشا غلط غلط یہ ہوس بے بصر کی ہے
مقصود یہ ہیں آدم و نوح وخلیل سے
تخم ِ کرم میں ساری کرامت ثمر کی ہے
اُن کی نبوّت اُن کی اُبوّت ہے سب کو عام
امّ البشر عروس انہیں کے پسر کی ہے
ظاہر میں میرے پھول حقیقت میں میرے نخل
اس گل کی یاد میں یہ صَدا بوا لبشر کی ہے
پہلے ہو ان کی یاد کہ پائے جِلا نماز
یہ کہتی ہے اذا ن جو پچھلے پہر کی ہے
دنیا مزار حشر جہاں ہیں غفور ہیں
ہر منزل اپنے چاند کی منزل غفر کی ہے
اُن پر درود جن کو حجر تک کریں سلام
ان پر سلام جن کو تحیّت شجر کی ہے
اُن پر درود جن کو کَسِ بے کَساں کہیں
اُن پر سلام جن کو خبر بے خبر کی ہے
جن و بشر سلام کو حاضر ہیں السّلام
یہ بارگاہ مالکِ جن و بشر کی ہے
شمس و قمر سَلام کو حاضر ہیں السّلام
خوبی انہیں کی جوت سے شمس و قمر کی ہے
سب بحر و بر سلام کو حاضِر ہیں السّلام
تملیک انہیں کے نام تو ہر بحر و بر کی ہے
سنگ وشجر سلام کو حاضر ہیں السّلام
کلمے سے ترزبان درخت و حجر کی ہے
عرض و اثر سلام کو حاضر ہیں السّلام
ملجا یہ بارگاہ دُعا و اثر کی ہے
شوریدہ سر سلام کو حاضر ہیں السّلام
راحت انھیں کے قدموں میں شوریدہ سر کی ہے
خستہ جگر سلام کو حاضر ہیں السّلام
مرہم یہیں کی خاک تو خستہ جگر کی ہے
سب خشک و تر سلام کو حاضر ہیں السّلام
یہ جلوہ گاہ مالکِ ہر خشک وتر کی ہے
سب کرو فر سلام کو حاضر ہیں السّلام
ٹوپی یہیں تو خاک پہ ہر کرّو فر کی ہے
اہل ِ نظر سلام کو حاضر ہیں السّلام
یہ گرد ہی تو سُرمہ سب اہلِ نظر کی ہے
آنسو بہا کہ یہ گئے کالے گنہ کے ڈھیر
ہاتھی ڈوباؤ جھیل یہاں چشم تر کی ہے
تیری قضا خلیفہ ٔ احکام ِ ذی الجلال
تیری رضا حلیف قضا و قدر کی ہے
یہ ساری پیاری کیاری ترے خانہ باغ کی
سَرد اس کی آب و تاب سے آتشِ سقر کی ہے
جنت میں آکے نار میں جاتا نہیں کوئی
شکرِ خدا نوید نجات و ظفر کی ہے
مومن ہوں مومنوں پہ رؤ فٌ رحیم ہو
سائل ہوں سائلوں کو خوشی لا نہر کی ہے
دامن کا واسطہ مجھے اُس دھوٗپ سے بچا
مجھ کو تو شاق جاڑوں میں اِس دو پہر کی ہے
ماں دونوں بھائی بیٹے بھتیجے عزیز دوست
سب تجھ کو سونپے مِلک ہی سب تیرے گھر کی ہے
جن جن مرادوں کے لیے احباب نے کہا
پیش خبیر کیا مجھے حاجت خبر کی ہے
فضل خدا سے غیبِ شہادت ہوا انہیں
اس پر شہادت آیت و وحی و اثر کی ہے
کہنا نہ کہنے والے تھے جب سے تو اطلاع
مولٰی کو قول و قائل و ہر خشک و تر کی ہے
اُ ن پر کتاب اتری بَیَا نًا لِّکلِّ شَیءٍ
تفصیل جس میں مَا عَبَر و مَا غَبَر کی ہے
آگے رہی عطا وہ بقدر طلب تو کیا
عادت یہاں امید سے بھی بیشتر کی ہے
بے مانگے دینے والے کی نعمت میں غرق ہیں
مانگے سے جو ملے کسے فہم اس قدر کی ہے
احباب اس سے بڑ ھ کے تو شاید نہ پائیں عرض
نا کر وہ عرض عرض یہ طرزِ دگر کی ہے
دنداں کا نعت خواں ہوں پایاب ہوگی آب
ندی گلے گلے مِرے آبِ گُہر کی ہے
دشتِ حرم میں رہنے دے صیّاد اگر تجھے
مٹی عزیز بلبُل ِ بے بال و پر کی ہے
یا رب رضا نہ احمد پار ینہ ہو کے جائے
یہ بارگاہ تیرے حبیبِ اَبَر کی ہے
توفیق دے کہ آگے نہ پیدا ہو خوئے بَد
تبدیل کر جو خصلتِ بد پیشتر کی ہے
آ کچھ سُنا دے عشق کے بولوں میں اے رضا
مشتاق طبع لذّت ِ سوزِ جگر کی ہے
شبِ لحیہ و شارب ہے رُخِ روشن دن
گیسو وشب قدر و براتِ مومن
مژگاں کی صفیں چار ہیں دو ابرو ہیں
وَالْفَجْر کے پہلو میں لَیَالٍ عَشرٍ
اللہ کی سر تا بقدم شان ہیں یہ
اِن سا نہیں انسان وہ انسان ہیں یہ
قرآن تو ایمان بتاتا ہے انہیں
ایمان یہ کہتا ہے مری جان ہیں یہ
شبِ غم کاٹ دے میری ، امیدوں کی سحر کر دے
مرے غم کو خوشی کر، میرے عیبوں کو ہنر کر دے
امید و بیم سے گذروں فسونِ وہم سے نکلوں
مجھے اپنی حضوری دے مرا حال دگر کر دے
وہ میرے حال سے واقف ہیں ان کو ہے خبر میری
بھلا کیسے کہوں کوئی انہیں میر ی خبر کر دے
بھلا یہ جان و دل لیکر کہاں جائے گا طیبہ سے
انہیں یا نذر کر یا صدقۂ خیر البشر کر دے
اگر تو چاہتا ہے دوزخ ِ دنیا سے آزادی
مدینہ ہو تیرا گھر ، یہ تمنّا دل میں گھر کر دے
تیری دولت تیرا سایہ غم ، تیرے آنسو ہیں
بہا کر نعت میں نادان ان کو تو گہر کر دے
یہ میری زندگی کا کارواں ، ہے اے خدا ! اس کا
مدینہ جس طرف ہے اس طرف روئے سفر کر دے
جگہ دیدے ادیب ِ خوش نواء کو اپنے قدموں میں
رہی فردِ عمل اس کو جِدھر چاہے اُدھر کر دے
شاہِ مدینہ ، شاہِ مدینہ
طیبہ کے والی
سارے نبی تیرے در کے سوالی
شاہِ مدینہ ، شاہِ مدینہ
تیرے لیے ہی دنیا بنی ہے
نیلے فلک کی چادر تنی ہے
تو اگر نہ ہوتا دنیا تھی خالی
جلوے ہیں سارے تیرے ہی دم سے
آباد عالم تیرے ہی کر م سے
باقی ہر ایک شے ہے نقش ِ خیالی
تو نے جہاں کی محفل سجائی
تاریکیوں میں شمع جلائی
کند ھے پہ تیرے کملی ہے کالی
مذہب ہے تیرا سب کی بھلائی
مسلک ہے تیرا مشکل کشائی
دیکھ ا پنی اُمت کی خستہ حالی
ہے نور تیرا شمس و قمر میں
تیرے لبوں کی لالی سحر میں
پھولوں نے تیری خوشبو چرا لی
کعبہ کا کعبہ تیرا ہی گھر ہے
تیرے کرم پہ سب کی نظر ہے
دکھلا دے ہم کو در بار ِ عالی
ہیں آپ دکھیوں کے آقا سہارے
تاج شفا عت ہے سر پہ تمہارے
ہم کو عطا ہو روضے کی جالی
شاہِ مدینہ سَرورِ عالم ﷺ
تم پہ نچھاور تم پہ فدا ہم ﷺ
نورِ شبِ معراج تمہی ہو نبیوں کے سرتاج تمہی ہو
حُسن کے پیکر نور مجسم ﷺ
دی ہے شجر نے آکے گواہی، کنکریوں نے کلمہ پڑھا ہے
سَرورِدیں پیغمبر اعظم صلی اللہ علیہ وسلم
مجبور و بے کس کے والی ،خالی گیا کوئی نہ سوالی
آپ کے دَر پر دُور ہوئے غم صلی اللہ علیہ ٖ وسلم
گل میں ان کی رنگ و بو ہے چرچا ان کا چار سُو ہے
جگمگ اُ ن کے نور سے عالَم صلی اللہ علیہ وسلم
مشک و گلاب پسینہ اُن کا، خطۂ پاک مدینہ اُن کا
روضہ اُن کا عرش سے اعظم صلی اللہ علیہ وسلم
تشنہ لبوں کو ساغرِ کوثر بخشیں گے وہ یوم ِمحشر
میٹنے والے اُمت کے غم صلی اللہ علیہ وسلم
شاہ ِ کونین جلوہ نُما ہوگیا رنگ عالم کا بالکل نیا ہو گیا
منتخب آپ کی ذاتِ والا ہوئی نامِ پاک آپ کا مصطفٰے ہو گیا
آپ وہ نورِ حق ہیں کہ قُرآن میں وصفِ رُخ آپ کا والضحی ہو گیا
ایسا اعزاز کس کو خدا نے دیا جیسا بالا تیرا مرتبہ ہو گیا
ایسی نافذ تمہاری حکومت ہوئی تم نے جس وقت جو کچھ کہا ہو گیا
نازِ کراے جمیل اپنی قسمت پہ تو خاکِ نعلین احمد رضا ہو گیا ۔
شانِ رسالت مولي ڄاڻي ٻئي کي طاقت ناهي
مالڪ جو محبوب محمد ﷺڪونهي ڪنهن کان دور
نبي سائين نور آ نبي سائين نور آ
حضرت يوسفؑ لاءِ هئي هڪڙي زليخان ديواني
پر محبوب محمد ﷺ خاطر هر دل آ مستاني
حُسن حبيب ڪريم کي مولٰي ڏئي ڇڏيو ڀرپور
جڏهن پڙهون ٿا درود سڄڻ تي پان درود ٻڌن ٿا
روضي اطهر پاڪ منجهان ان جو جلد جواب به ڏين ٿا
ڇو نه چوان مان سهڻو محمد ﷺ زنده آهي ضرور
تنهنجو منهنجو هِت هُت حامي حسن حسين جو نانو
مالڪ عطا ڪيو آ جنهن کي غيبي علم جو خزانو
جنهن جي سامهون آ هر هڪ شي ويجهو آ يا دور
سهڻي محمد ﷺ جي آئي ٿي ويون سڀ سڻايون
تون مان ان محبوب جون ويهي اڄ ٿا نعتيون ڳايون
نثار ڪٻر آ هنن جي صدقي ملڪن ۾ مشهور
صبہ بہ سوئے مدینہ روکن ازیں دعاگو سلام برخواں
بگردِ شاہِ رسل بہ گرداں بصد تفرع پیام برخواں
بشوزِ من صورتِ مثالی نماز بگزار اندراں جاں
بہ لحن خوش سورۂ محمد ﷺ تمام اندر قیام بر خواں
بنہہ بچندیں ادب طرازی سر ارادت بخاک آں کو
صلوٰۃ ِ آخر بہ روح پاک جناب خیر الانام برخواں
بہ باب رحمت گہے گزر کن بہ باب جبریل گہہ جبیں سا
سلام ربی علیٰ نبیٍ گہے بہ باب الاسلام برخواں
بہ لحنِ داؤد ہمنوا شوبہ نالۂ درد آشنا شو
بہ بزم پغمبر ایں غزل رازِ عبدِ عاجز نؔظام بدخواں
صُبح طیبہ میں ہوئی بٹتا ہے باڑا نُور کا
صدقہ لینے نُور کا آیا ہے تارا نُور کا
باغِ طیبہ میں سُہانا پُھول پھولا نُور کا
مست ہوئیں بلبلیں پڑھتی ہوئیں کلمہ نُور کا
بارہویں کے چاند کا مُجرا ہے سجدہ نُور کا
بارہ بُرجوں سے جُھکا اک اک ستارہ نورکا
تیرے ہی ماتھے رہا اے جان سہرا نُور کا
بخت جا گا نُور کا چمکا ستارا نور کا
سُر مگیں آنکھیں حریم حق کے وہ مشکیں غزال
ہے فضا ئے لا مکاں تک جِن کارِ منا نُور کا
تاب حسن کرم سے کھل جائیں گے دل کے کنول
تو بہا ریں لائیں گی گرمی کا جھلکا نُور کا
چاند جھک جاتا جدھر اُنگلی اٹھاتے مہد میں
کیا ہی چلتا تھا اِشاروں پر کھلونا نُور کا
کٓ گیسو ہٰ دہن یٰ ابرو و آنکھیں عٓ صٓ
کھٰیٰعٓصٓ اُن کا ہے چہرہ نُور کا
اے رضا یہ احمد ِ نُوری کا فیضِ نُور ہے
ہو گئی میری غزل بڑھ کر قصیدہ نُور کا
کلام میّسر نہیں
طیبہ کی ہے یاد آئی ،اب اشک بہانے دو
محبوب نے آنا ہے ، راہوں کو سجانے دو
مشکل ہے اگر میرا ،طیبہ میں ابھی جانا
اۓ بادِ صبا میری آہوں کو تو جانے دو
میں تیری زیارت کے قابل تو نہیں مانا
یادوں کو شہا! اپنی خوابوں میں تو آنے دو
اَشکوں کی لڑی کوئی اب ٹوٹنے نہ پائے
آقا کے لیے مجھ کو کچھ ہار بنانے دو
جو چاہو سزا دینا ،محبوب کے دربانو !
اِک بار تو جالی کو سینے سے لگانے دو
محبوب کے قابل تو الفاظ کہاں صؔائم ؟!
اَشکوں کی زباں سے اب ،اک نعت سنانے دو
طوبٰی میں جو سب سے اونچی نازک سیدھی نکلی شاخ
مانگوں نعتِ نبی لکھنے کو روحِ قدس سے ایسی شاخ
مولٰی گلبن رحمت زہرا سبطین اس کی کلیاں پھول
صدّیق و فاروق و عثمان، حیدر ہر اِک اُس کی شاخ
شاخِ قامت شہ میں زلف و چشم و رخسار ولب ہیں
سنبل نرگس گل پنکڑیاں قدرت کی کیا پھولی شاخ
اپنے اِن باغوں کا صدقہ وہ رحمت کا پانی دے
جس سے نخلِ دل میں ہو پیدا پیارے تیری ولا کی شاخ
یادِ رخ میں آہیں کر کے بن میں میں رویا آئی بہار
جھومیں نسیمیں نیساں برسا کلیاں چٹکیں مہکی شاخ
ظاہر و باطن اول و آخر زیب فروغ و زینِ اصول
باغ ِ رسالت میں ہے تو ہی گل غنچہ جڑپتی شاخ
آل احمد خذ بیدی یا سَیّد حمزہ کن مددی
وقتِ خزانِ عمرِ رضا ہو برگ ِ ہدیٰ سے نہ عاری شاخ
طُفیلِ سرورِ عالم ﷺ ہوا سارا جہان پیدا
زمیں و آسماں پیدا مکیں پیدا مکاں پیدا
نہ ہوتا گر فروغِ نُور ِ پاک ِ رَحمت ِ عالم
نہ ہوتی خِلقت ِ آدم نہ گلزارِ جِناں پیدا
شہِ لو لاک کے باعث حبیبِ ﷺ پاک کے باعث
جنابِ حق تعالیٰ نے کیا کون و مکاں پیدا
رسول اللہ ﷺ کی خاطر کیے جن و ملک حاضر
بنایا ماہ و ا نجم کو کیا ہے بحر و بر پیدا
جمالِ حُسن میں رعنا کمالِ خُلق میں یکتا
کوئی پیدا ہوا ایسا نہ ہو وے گا یہاں پیدا
انہی کے واسطے آدم انہی کے واسطے حوا
انہی کے واسطے کافی کیے ہیں اِنس وجاں پیدا
کلام میّسر نہیں
عِشق مولٰی میں ہو خوں بارکنارِ دامن
یا خدا جَلد کہیں آئے بہارِ دامن
بہ چلی آنکھ بھی اشکوں کی طرح دامن پر
کہ نہیں تار نظر جز دو سہ تارِ دامن
اشک برساؤں چلے کوچۂ جاناں سے نسیم
یا خدا جلد کہیں نکلے بخارِ دامن
دل شدوں کا یہ ہوا دامنِ اطہریہ ہجوم
بیدل آباد ہوا نام دیارِ دامن
مشک سا زلف شہ و نور فشاں روئے حضور
اللہ اللہ حلبِ جیب و تتارِ دامن
تجھ سے اے گل میں سِتم دیدۂ دشتِ حرماں
خلش دل کی کہوں یا غمِ خارِ دامن
عکس افگن ہے ہلالِ لبِ شہ حبیب نہیں
مہر عارض کی شعا عیں ہیں نہ تارِ دامن
اشک کہتے ہیں یہ شیدائی کی آنکھیں دھوکر
اے ادب گردِ نظر ہو نہ غبار ِ دامن
اے رضا آہ وہ بلبل کہ نظر میں جس کی
جلوہ ٔ جیب گل آئے نہ بہارِ دامن
عشق کے چراغ جل گئے
ظلمتوں سے ہم نکل گئے
ان کے نقشِ پا پہ چل گئے
گر رہے تھے جو سنبھل گئے
جس طرف حضور چل دیئے
خار پھول میں بدل گئے
روئے مصطفٰے کی اِک کرن
ظلمتوں کے بَل نِکل گئے
دیکھ کر جمالِ مصطفٰے
سنگ دل جو تھے پگھل گئے
ان کا ذکر سن کے رنج و غم
اپنے راستے بدل گئے
ہے یقین کہ ان کے دَر پہ ہم
آج گر نہیں تو کل گئے
ان کے در پہ جو پہنچ گئے
ہر حصار سے نِکل گئے
ان پہ جب درود پڑھ لیا
حادثوں کے رُخ بدل گئے
عشقِ شہِ کونین میں دل داغ جگر داغ
گلزارِ محبّت کی ہے شاخوں پہ ثمر داغ
لکھتا ہوں شبِ ہجر میں جب نعت نبی کی
تحریر کے نقطے مجھے آتے ہیں نظر داغ
کوڑی کے کوئی مول نہ لے لعلِ بدخشاں
جو ہجرِ مدینہ کے دکھاؤں میں اگر داغ
دیکھا جو نظر بھر کے سوئے گنبدِ خضرا
بعد اس کے نظر آئے مجھے شمس و قمر داغ
اِک میں ہی نہیں ہجر میں ، افلاک کا عالم
دیکھو تو نظر آئیں گے تا حدّ نظر داغ
اِس جسد میں کچھ قلب و نظر پر نہیں موقوف
آقا کی عنایت سے ہے سب گھر کا یہ گھر داغ
ہر داغ کو ہے نورِ عَلیٰ نوُر کی نسبت
الماس کوئی داغ، کوئی مثلِ گہر داغ
خورشیدِ محبّت کی طمازت سے پگھل کر
بن جاتا ہے عشّاق کے سینوں میں جگر داغ
بخشش کا سہارا ہے شفاعت کی سند ہے
کہنے کے لیے لفظ بیاں میں ہے اگر داغ
جس داغ کو عشقِ شہِ ولا سے ہے نسبت
ظلمت کے ہر عالم میں ہے وہ نُورِ سحر، داغ
دھوتے ہیں گناہوں کی سیاہی کے یہ دھبّے
اُلفت میں دکھاتے ہیں کبھی یہ بھی ہُنر داغ
رکھتا تھا ادیب اپنی جبیں در پہ جُھکا ئے
دھوتا تھا گناہوں کے وہاں شام و سحر داغ
عشق جس کو بھی مصطفٰےسے ہے
بس وہی آشنا خدا سے ہے
صرف اتنا ہی جانتا ہوں میں
میری پہچان مصطفٰےسے ہے
وجہِ تخلیقِ کائنات ہیں آپ
زندگی آپ کی عطا سے ہے
دَہر میں اس کو کیا کمی جس کا
رَابِطہ شہہِ دو سَرا سے ہے
وہ در ِمصطفٰے پہ جھک جائے
خوف جس کو کسی سزا سے ہے
ان کا مؔنظور سے ہے ربط یہی
جو سخی کا کسی گدا سے ہے
عرش کی عقل دنگ ہے چرخ مین آسمان ہے
جانِ مُراد اب کدھر ہائے تِرا مکان ہے
بزمِ ثنائے زلف میں میری عروسِ فکر کو
ساری بہارِ ہشت خلد چھوٹا سا عِطر دان ہے
عرش پہ جا کے مرغِ عقل تھک کے گرا غش آگیا
اور ابھی منزلوں پَرے پہلا ہی آستان ہے
عرش پہ تازہ چھیڑ چھاڑ فرش میں طرفہ دھوم دَھام
کان جدھر لگائیے تیری ہی داستان ہے
اِک ترے رخ کی روشنی چین ہے دو جہان کی
اِنس کا اُنس اُسی سے ہے جان کی وہ ہی جان ہے
وہ جو نہ تھے تو کچھ نہ تھا وہ جو نہ ہوں تو کچھ نہ ہو
جان ہیں وہ جہان کی جان ہے تو جہان ہے
گود میں عالمِ شباب حالِ شباب کچھ نہ پوچھ !
گلبن ِ باغِ نور کی اور ہی کچھ اٹھان ہے
تجھ سا سیاہ کار کون اُ ن سا شفیع ہے کہاں
پھر وہ تجھی کو بھول جائیں دل یہ ترا گمان
پیش نظر وہ نو بہار سجدے کو دل ہے بے قرار
روکیے سر کو روکیے ہاں یہی امتحان ہے
شان ِ خدا نہ ساتھ دے اُن کے خرام کا وہ باز
سدرہ سے تا زمیں جسے نرم سی اِک اڑان ہے
بارِ جلال اٹھا لیا گرچہ کلیجا شق ہُوا
یوں تو یہ ماہِ سبزۂ رنگ نظروں میں دھان پان ہے
خوف نہ رکھ رضا ذرا تو تو ہے عَبد مصطفٰے
تیرے لیے امان ہے تیرے لیے امان ہے
عرش کی عقل دنگ ہے چرخ میں آسمان ہے
جانِ مراد اب کدھر ہائے ترا مکان ہے
بزم ثنائے زلف میں میری عروسِ فکر کو
ساری بہارِ ہشت خلد چھوٹا سا عِطر دان ہے
عرش پہ جاکے مرغ عقل تھک کے گرا غش آگیا
اور ابھی منزلوں پرے پہلا ہی آستان ہے
عرش پہ تازہ چھیڑ چھاڑ فرش میں طرفہ دھوم دَھام
کان جدھر لگائیے تیری ہی داستان ہے
اک ترے رخ کی روشنی چین ہے دو جہان کی
اِنس کا اُنس اُسی سے ہے جان کی وہ ہی جان ہے
وہ جو نہ تھے تو کچھ نہ تھا وہ جو نہ ہوں تو کچھ نہ ہو
جان ہیں وہ جہان کی جان ہے تو جہان ہے
گود میں عالم شباب حال شباب کچھ نہ پوچھ
گلبنِ باغ نور کی اور ہی کچھ اٹھان ہے
تجھ سا سیاہ کار کون اُن سا شفیع ہے کہاں
پھر وہ تچھی کو بھول جایئں دل یہ تیرا گمان ہے
پیش نطر وہ نو بہار سجدے کو دل ہے بے قرار
روکیے سر کو روکیے ہاں یہی امتحان ہے
شان خدا نہ ساتھ دے اُن کے خرام کا وہ باز
سدرہ سے تازمیں جسے نرم سی اِک اُران ہے
بار جلال اُٹھا لیا گر چہ کلیجا شق ہوا
یوں تو یہ ماہِ سبزہ رنگ نظروں میں دھان پان ہے
خوف نہ رکھ رضا ذراتو ،تو ہے عبد مصطفےٰ
تیرے لئے امان ہے،تیرے لئے امان ہے
عدم سے لائی ہے ہستی میں آرزوئے رسولؐ
کہاں کہاں لئے پھرتی ہے جستجوئے رسول
خوشا وہ دل کہ ہو جس دل میں آرزوئے رسولؐ
خوشا وہ آنکھ جو ہو محو حسن روئے رسول
تلاش نقش کف پائے مصطفیٰ کی قسم
چنے ہیں آنکھوں سے ذرات خاک کوئے رسول
پھر ان کے نشۂ عرفاں کا پوچھنا کیا ہے
جو پی چکے ہیں ازل میں مئے سبوئے رسول
بلائیں لوں تری اے جذب شوق صل علیٰ
کہ آج دامن دل کھنچ رہا ہے سوئے رسولؐ
شگفتہ گلشن زہرا کا ہر گل تر ہے
کسی میں رنگ علی اور کسی میں بوئے رسولؐ
عجب تماشا ہو میدان حشر میں بیدمؔ
کہ سب ہوں پیش خدا اور میں رو بروئے رسول
عاصیوں کو در تمہارا مل گیا
بے ٹھکانوں کو ٹھکانہ مل گیا
فضلِ رب سے پھر کمی کس بات کی
مل گیا سب کچھ جو طیبہ مل گیا
کشفِ رازِ مَن رَّاٰنی یوں ہوا
تم ملے تو حق تعالیٰ مل گیا
بیخودی ہے باعثِ کشفِ ِحجاب
مل گیا ملنے کا رستہ مل گیا
ان کے دَر نے سب سے مستغنی کیا
بے طلب بے خواہش اتنا مل گیا
ناخدائی کے لئے آئے حضور
ڈوبتو نکلو سہارا مل گیا
دونوں عالم سے مجھے کیوں کھو دیا
نفسِ خود مطلب تجھے کیا مل گیا
آنکھیں پر نم ہو گئیں سر جھک گیا
جب ترا نقشِ کفِ پا مل گیا
خلد کیسا کیا چمن کس کا وطن
مجھ کو صحرائے مدینہ مل گیا
ہے محبت کس قدر نامِ خدا
نامِ حق سے نامِ والا مل گیا
ان کے طالب نے جو چاہا پالیا
ان کے سائل نے جو مانگا مل گیا
تیرے در کے ٹکڑے ہیں اور میں غریب
مجھ کو روزی کا ٹھکانا مل گیا
اے حسنؔ فردوس میں جائیں جناب
ہم کو صحرائے مدینہ مل گیا
عاصیوں کو در تمہارا مل گیا
بے ٹھکانوں کو ٹھکانا مل گیا
فضلِ رب سے پھر کمی کس بات کی؟
مل گیا سب کچھ جو طیبہ مل گیا
ان کے در نے سب سے مستغنیٰ کیا
بے طلب بے خواہش اتنا مل گیا
ناخدائی کے لیے آئے حضور
ڈوبتو! نکلو سہارا مل گیا
آنکھیں پر نم ہوگئیں سر جھک گیا
جب تِرا نقشِ کفِ پا مل گیا
خُلد کیسی ؟ کیا چمن؟ کس کا وطن؟
مجھ کو صحرائے مدینہ مل گیا
ان کے طالب نے جو چاہا پالیا
ان کے سائل نے جو مانگا مل گیا
تِرے در کے ٹکڑے ہیں اور میں غریب
مجھ کو روزی کا ٹھکانہ مل گیا
اۓ حؔسن فردوس میں جائیں جناب
ہم کو صحرائے مدینہ مل گیا
عارضِ شمس و قمر سے بھی ہیں انور ایڑیاں
عرش کی آنکھوں کے تارے ہیں وہ خوشتر ایڑیاں
جا بجا پر تو فگن ہیں آسماں پر ایڑیا ں
دن کو ہیں خورشید شب کو ماہ و اختر ایڑیاں
نجم گردوں تو نظر آتے ہیں چھوٹے اور وہ پاؤں
عرش پر پھر کیوں نہ ہوں محسوس لاغر ایڑیاں
دب کے زیرپا نہ گنجایش سمانے کو رہی
بن گیا جلوہ کفِ پا کا ابھر کر ایڑیاں
ان کا منگتا پاؤں سے ٹھکرادے وہ دنیا کا تاج
جس کی خاطر مر گئے منعَم رگڑ کر ایڑیاں
دو قمر دو پنجۂ خور دوستارے دس ہلال
ان کے تلوے پنجے ناخن پائے اطہر ایڑیاں
ہائے اس پتھر سے اس سینہ کی قِسمت پھوڑیے
بے تکلف جس کے دل میں یوں کریں گھر ایڑیاں
تاج رُوح القدس کے موتی جسے سجدہ کریں
رکھتی ہیں واللہ وہ پاکیزہ گوہر ایڑیاں
ایک ٹھوکر میں احد کا زلزلہ جَاتا رہا
رکھتی ہیں کتنا وقار اللہ اکبر ایڑیاں
چرخ پر چڑھتے ہی چاندی میں سیاہی آگئی
کر چکی ہیں بدر کو ٹکال باہر ایڑیاں
اے رضا طوفان محشر کے طلاطم سے نہ ڈر
شاد ہو ہیں کشتی ِ امّت کو لنگر ایڑیاں
غماں نے لا لیا ہر سمت ڈیرا یا رسول اللہ ﷺ!
تے ٹُٹا آس میری دا بنیر ا یا رسول اللہ ﷺ!
کَدوں مُکّے گی کالی رات ایہہ میرے مقدر دی
کَدو ہو وے گا خوشیاں دا سویرا یا رسول اللہ ﷺ!
جنابِ فاطمہ نے شَرّ و شَیرہ دا صدقہ (رضی اللہ عنہم)
مدینے وِچ پَوے میرا وی پَھیرا یا رسول اللہ ﷺ
رخ وَالۡفجر اتوں گیسوئے وَالّیل سرکار کے
مِٹا دیو میرے دل دا ہَنِیرا یا رسول اللہﷺ!
مدینے جان دی مُڑ کے ناں ہوئی آس پوری اے
میں اپنا زور لایا اے بُہتیرا یا رسول اللہ ﷺ
بڑا مجرم ،بڑا بدکار، پاپی ،تے کمینہ اے
قصیدہ گو مگر صؔائم ہے تیرا یا رسول اللہ ﷺ!
غم ہو گئے بے شمار آقا
بندہ تیرے نثار آقا
بگڑا جاتا ہے کھیل میرا
آقا آقا سنوار آقا
منجدھار پہ آکے ناؤ ٹوٹی
دے ہاتھ کہ ہوں میں پار آقا
ہلکا ہے اگر ہمارا پلہ
بھاری ہے ترِا وقار آقا
مجبور ہیں ہم تو فکر کیا ہے
تم کو تو ہے اختیار آقا
میں دور ہوں تم تو ہو میرے پاس
سن لو میری پکار آقا
مجھ سا کوئی غم زدہ نہ ہوگا
تم سا نہیں غم گسار آقا
گرداب میں پڑ گئی ہے کشتی
ڈوبا ، ڈوبا ،اتار آقا
تم وہ کہ کرم کو ناز تم سے
میں وہ کہ بدی کو عار آقا
پھر منہ نہ پڑے کبھی خزاں کا
دے دے ایسی بہار آقا
جس کی مرضی خدا نہ ٹالے
میرا ہے وہ نامدار آقا
ہے ملک خدا پہ جس کا قبضہ
میرا ہے وہ کامگار آقا
سویا کئے نابکار بندے
رویا کئے زار زار آقا
کیا بھول ہے کہ انکے ہوتے کہلائیں
دنیا کہ یہ تاجدار آقا
اُن کے ادنی گدا پہ مٹ جایئں
ایسے ایسے ہزار آقا
بے ابر کرم کے میرے دھبے
لاَ تَغسِلھَا البحَار آقا
آپ کے کرم کی بارش کے بغیر میرے گناہوں
کے داغ سمندروں کے پانی سے نہیں دھل سکتے
اتنی رحمت رضا پہ کر لو
لا یقروبہ البوار آقا
اتنی رحمت رضا پہ کر دیں کہ
بربادی و ہلاکت رضا کے قریب نہ آئے
فلک کے نظارو ! زمین کے بہارو!
سب عیدیں مناؤ حضور آگئے ہیں
اُٹھو بے سہارو غم کے مارو
خبر یہ سناؤ! حضور آگئے ہیں
انوکھا نرالا، وہ ذیشان آیا
وہ سارے رسولوں کا سلطا ن آیا
ارے کج کلا ہو! ارے باد شاہو
نگاہیں جھکاؤ حضور آگئے ہیں
ہُوا چار سو رحمتوں کا بسیرا
اُجالا اُجالا ، سویرا سویرا
حلیمہ کو پہنچی، خبر آمنہ کی
میرے گھر میں آؤ ! حضور آگئے ہیں
ہواؤں میں جذبات ہیں مرحبا کے
فضاؤں میں نغمات صَلِّ عَلٰی کے
درودوں کے گجرے ، سلاموں کے تحفے
غلامو سجاؤ ! حضور آ گئے ہیں
سماں ہے ثناء ِ حبیب ِ خدا کا
یہ میلاد ہے سرورِ انبیاء کا
نبی کے گداؤ! سب ایک دوسرے کو
خبر یہ سناؤ ! حضور آگئے ہیں
کہاں میں ظہوؔری کہاں اُن کی باتیں
کرم ہی کرم ہیں یہ دن اور راتیں
جہاں پر بھی جاؤ! دلوں کو جگاؤ
یہی کہتے جاؤ ! حضور آگئے ہیں
فاصلوں کو تکلّف ہے ہم سے اگر ، ہم بھی بے بس نہیں بے سہارا نہیں
خود ان ہی کو پکاریں گے ہم دور سے ، راستے میں اگر پاؤ ں تھک جائیں گے
جیسے ہی سبز گمبد نظر آئے گا ، بندگی کا قرینہ بدل جا ئے گا
سر جھکانے کی فرصت ملے گی کِسے ، خود ہی آنکھوں سے سجدے سے ٹپک جائیں گے
ہم مدینے میں تنہا نکل جائیں گے ، اور گلیوں میں قصدًا بھٹک جائیں گے
ہم وہاں جاکے واپس نہیں آئیں گے ، ڈھونڈ تے ڈھونڈتے لو گ تھک جائیں گے
نام ان کا جہاں بھی لیا جائیگا ، ذکر ان کا جہاں بھی کیا جائیگا
نور ہی نور سینوں میں بھر جائیگا ، ساری محفل میں جلوے لپک جائیں گے
اۓ مدینے کے زائر! خدا کے لیے ، داستانِ سفر مجھ کو یوں مت سنا
دل تڑپ جائیگا، بات بڑھ جائیگی ، میرے محتاط آنسوں چھلک جائیں گے
ان کی چشمِ کر م کو ہے اس کی خبر، کس مسافر کو ہے کتنا شوق ِ سفر ؟
ہم کو اقبالؔ جب بھی اجاز ت ملی ، ہم بھی آقا کے در بار تک جائیں گے
قلب عاشق ہے اب پارہ پارہ
الوداع الوداع ماہِ رمضان
کلفت ہجر و فرقت نے مارا
تیرے آنے سے دل خوش ہواتھا
اور ذوقِ عبادت بڑھا تھا
آہ!اب دل پہ ہے غم کا غلبہ
الوداع الوداع ماہِ رمضان
مسجدوں میں بہار آگئی تھی
جوق در جوق آتے نمازی
ہو گیا کم نمازوں کا جذبہ
الوداع الوداع ماہِ رمضاں
بزم افطار سجتی تھی کیسی !
خوب سحری کی رونق بھی ہوتی
سب سماں ہو گیا سُونا سُونا
الوداع الوداع ماہِ رمضاں
تیرے دیوانے اب رو رہے ہیں
مضطرب سب کے سب ہو رہے ہیں
ہائے اب وقتِ رخصت ہے آیا
الوداع الوداع ماہِ رمضاں
تم پہ لاکھوں سلام ماہِ ر مضاں
تم پہ لاکھوں سلام ماہِ غفراں
جاؤ حافظ خدا اب تمہارا
الوداع الوداع ماہِ رمضاں
نیکیاں کچھ نہ ہم کرسکے ہیں
آہ!عصیاں میں ہی دن کٹے ہیں
ہائے !غفلت میں تجھ کو گزارا
الوداع الوداع ماہِ رمضاں
جب گزر جائیں گے ماہ گیارہ
تیری آمد کا پھر شور ہوگا
کیا مِری زندگی کا بھروسہ
الوداع الوداع ماہِ رمضاں
کچھ نہ حُسن ِ عمل کر سکا ہوں
نذر چند اشک میں کر رہا ہوں
بس یہی ہے مِرا کُل اثاثہ
الوداع الوداع ماہِ رمضاں
ہائے عطار بیکار کاہل
رہ گیا یہ عبادت سے غافل
اس سے خوش ہو کے ہونا روانہ
الوداع الوداع ماہِ رمضاں
سال آئندہ شاہِ حرم تم
کرنا عطار پر یہ کرم تم
تم مدینے میں رمضاں دکھانا
الوداع الوداع ماہِ رمضاں
قدم آگے بڑھا زینہ بہ زینہ
تجھے مل جائے گا اِک دن مدینہ
نگاہوں میں خطاؤں کا تصور
جبیں پر ہے ندامت کا پسینہ
مِرا دل مسکنِ عشق نبی ہے
نہ ڈوبے گا کبھی میرا سفینہ
تمہارا ذکر ہے محفل بہ محفل
تمہاری یاد ہے سینہ بہ سینہ
بفیض اِذۡن سرکار ِ دو عالم
مجھے آجائے جینے کا قرینہ
محمد مصطفٰےتشریف لائے
مہینوں میں ہے افضل یہ مہینہ
جو لوگ اخؔتر بصیرت کھو چکے ہیں
اُنہیں درکار ہے خاک مدینہ
کیا ہی ذوق افزا شفاعت ہے تمہاری واہ واہ
قرض لیتی ہے گنہ پرہیز گاری واہ واہ
خامۂ قدرت کا حسنِ دست کاری واہ واہ
کیا ہی تصویر اپنے پیارے کی سنواری واہ واہ
اشک شب بھر انتظار ِ عفوِ امّت میں بہیں
میں فدا چاند اور یوں اختر شماری واہ واہ
انگلیاں ہیں فیض پر ٹوٹے ہیں پیاسے جھوم کر
ندیاں پنجابِ رحمت کی ہیں جاری واہ واہ
نور کی خیرات لینے دوڑتے ہیں مہر و ما ہ
اٹھتی ہے کس شان سے گردِ سواری واہ واہ
نیم جلوے کی نہ تاب آئے قمر ساں تو سہی
مہر اور ان تلووں کی آئینہ داری واہ واہ
نفس یہ کیا ظلم ہے جب دیکھو تازہ جرم ہے
ناتواں کے سر پر اتنا بوجھ بھاری واہ واہ
مجرموں کو ڈھونڈ ھتی پھرتی ہے رحمت کی نگاہ
طالعِ بر گشتہ تیری ساز گاری واہ واہ
عرض بیگی ہے شفاعت عفو کی سرکار میں
چھنٹ رہی ہے مجرموں ک ی فرد ساری واہ واہ
کیا مدینہ سے صبا آئی کہ پھولوں میں ہے آج
کچھ نئی بو بھینی بھینی پیاری پیاری واہ واہ
خود رہے پردے میں اور آئینہ عکسِ خا ص کا
بھیج کر انجانوں سے کی راہ داری واہ واہ
اِس طرف رَوضہ کا نور اُس سمت منبر کی بہار
بیچ میں جنّت کی پیاری پیاری کیاری واہ واہ
صدقے اس انعام کے قربان اس اکرام کے
ہو رہی ہے دونوں عالم میں تمہاری واہ واہ
پارہ ٔ دل بھی نہ نِکلا دل سے تحفے میں رضا
اُن سگانِ کو ، سے اتنی جان پیاری واہ واہ
کیا مہکتے ہیں مہکنے والے بو پہ چلتے ہیں بھٹکنے والے
جگمگا اٹھی مِری گور کی خاک تیرے قربان چمکنے والے
مہِ بے داغ کے صَدقے جاؤں یوں دمکتے ہیں دمکنے والے
عرش تک پھیلی ہے تابِ عارض کیا جھلکتے ہیں جھلکنے والے
گل طیبہ کی ثنا گاتے ہیں نخلِ طوبٰے پہ چہکنے والے
عاصیو! تھام لو دامن اُن کا وہ نہیں ہاتھ جھٹکنے والے
ابرِ رحمت کے سَلامی رہنا پھیلتے ہیں پودے لچکنے والے
ارے یہ جلوہ گہِ جاناں ہے کچھ ادب بھی ہے پھڑکنے والے
سیو! ان سے مدد مانگے جاؤ پڑے بکتے رہیں بکنے والے
شمع یادِ رُخِ جاناں نہ بجھے خاک ہو جائیں بھڑکنے والے
مَوت کہتی ہے کہ جلوہ ہے قریب اِک ذرا سولیں بلکنے والے
کوئی اُن تیز رووں سے کہہ دو کِس کے ہو کر رہیں تھکنے والے
دل سلگتا ہی بھلا ہے اے ضبط بُجھ بھی جاتے ہیں دہکنے والے
ہم بھی کمھلانے سے غافل تھے کبھی کیا ہنسا غنچے چٹکنے والے
نخل سے چھٹ کے یہ کیا حال ہوا آہ او پتّے کھڑکنے والے
جب گرے منھ سوئے میخانہ تھا ہوش میں ہیں یہ بہکنے والے
دیکھ او زخمِ دِل آپے کو سنبھال پھوٗٹ بہتے ہیں تپکنے والے
مے کہاں اور کہاں میں زاہد یوں بھی تو چھکتے ہیں چھکنے والے
کفِ دریائے کرم میں ہیں رضا
پانچ فوارے چھلکنے والے
کیا شور ذکر و فکر، دعا پنجگانہ کیا
آتا نہیں ہے عشق میں آنسو بہانا کیا
آنکھیں بھی اشکبار ہیں لب پر درود بھی
رحمت کو اب بھی چاہیے کوئی بہانہ کیا
رکھا جو ہاتھ سینے پہ دھڑکن نہیں ملی
دل، ہو گیا مدینے کی جانب روانہ کیا ؟
وہ بھی ہیں آستاں بھی ہے، کردے نثار جاں
پھر لوٹ کر اب آئے گا ایسا زمانہ کیا
موسیٰ علیہ السلام کا حال مانعٔ حسرت ہوا ہمیں
تابِ نظر نہیں ہو تو نظریں اٹھانا کیا
تسبیح دانے دانے مُصلّا ہے تار تار
آیا ہے خانقاہ میں کوئی دوانہ کیا
ڈرتا ہے کس لیے غمِ دوراں سے رات دن
پالا نہیں ہے تو نے غمِ عاشقانہ کیا
یہ مرحلہ ہے زیست کا طے کر اسے بھی
اب مر کے ہوگا سوئے مدینہ روانہ کیا
دیدار بھی حضور کا ، کوثر کا جام بھی
دیکھو قصیدہ لکھ کے ملا ہے خزانہ کیا
سر کو جھکا دیا جو درِ یار پر ادیؔب
جب تک قضا نہ آئے تو سر کو اٹھا نا کیا
کیا خبر کیا سزا مجھ کو ملتی ، میرے آقا نےعزت بچالی
فردِ عصیاں مری مجھ سے لےکر، کالی کملی میں اپنی چھپالی
وہ عطا پر عطا کرنےوالے اور ہم بھی نہیں ٹلنے والے
جیسی ڈیوڑھی ہے ویسے بھکاری، جیسا داتا ہے ویسےسوالی
میں گدا ہوں مگر کس کےدر کا؟ وہ جو سلطانِ کون و مکاں ہیں
یہ غلامی بڑی مستند ہی، میرے سر پر ہے تاجِ بلالی
میری عمرِ رواں بس ٹھہر جا، اب سفر کی ضرورت نہیں ہے
ان کےقدموں میں میری جبیں ہے اور ہاتھوں میں روضے کی جالی
اِس کو کہتےہیں بندہ نوازی ، نام اِس کا ہے رحمت مزاجی
دوستوں پر بھی چشمِ کرم ہے، دشمنوں سےبھی شیریں مقالی
میں مدینے سےکیا آگیا ہوں ، زندگی جیسےبجھ سی گئی ہے
گھر کےاندر فضا سونی سونی، گھر کےباہر سماں خالی خالی
کوئی بادِ مخالف سے کہدے، اب مری روشنی مجھ سے چھینے
میں نے آنکھوں کی شمعیں بجھا کر، دل میں طیبہ کی شمع جلالی
میں فقط نام لیوا ہوں ان کا، ان کی توصیف میں کیا کروں گا
میں نہ اقبؔال خسرؔو، نہ سعدؔی ، میں نہ قدسؔی نہ جامؔی ، نہ حاؔلی
کیا ٹھیک ہو رُخِ نبوی پر مثالِ گل
پامال جلوۂ کفِ پا ہے جَمال ِ گل
جنّت ہے ان کے جلوہ سے جو پائے رنگ و بو
اے گل ہمارے گل سے ہے گل کو سوالِ گل
اُن کے قدم سے سلعہ غالی ہو جناں
واللہ میرے گل سے ہے جاہ و جلالِ گل
سنتا ہوں عشقِ شاہ میں دل ہوگا خوں فشاں
یارب یہ مژدہ سچ ہو مبارک ہو فالِ گل
بلبل حرم کو چل غم فَانی سے فائدہ
کب تک کہے گی ہائے وہ غنچہ و دلال ِ گل
غمگین ہے شوقِ غازۂ خاکِ مدینہ میں
شبنم سے دھل سکے گی نہ گردِ ملالِ گل
بلبل یہ کیا کہا میں کہاں فصل ِ گل کہاں
امّید رکھ کہ عام ہے جود و نوالِ گل
بلبل گھر اہے ابر ولا مژدہ ہوکہ اب
گرتی ہے آشیانہ پہ بَرقِ جمالِ گل
یا رب ہرا بھرا رہے داغِ جگر کا باغ
ہر مہ مہِ بہار ہو ہر سال سالِ گل
رنگِ مژدہ سے کر کے خجل یادِ شاہ میں
کھیچا ہے ہم نے کانٹوں پہ عطرِ جمال ِ گل
میں یادِ شہ میں رووں عنادِل کریں ہجوم
ہر اشکِ لالہ فام پہ ہو احتمالِ گل
ہیں عکس ِ چہرہ سے لبِ گلگوں میں سرخیاں
ڈوبا ہے بدرِ گل سے شفق میں ہلالِ گل
نعتِ حضور میں مترنّم ہے عندلیب
شاخوں کے جھومنے سے عیاں و جد و حال ِ گل
بلبل گلِ مدینہ ہمیشہ بہار ہے
دو دن ک ہے بہار فنا ہے مآلِ گل
شیخین اِدھر نثار غنی و علی اُدھر
غنچہ ہے بلبُلوں کا یمن و شمالِ گل
چاہے خدا تو پائیں گے عشقِ نبی میں خلد
نِکلی ہے نامۂ دلِ پُرخوں میں فالِ گل
کر اُس کی یاد جس سے ملے چین عندلیب
دیکھا نہیں کہ خارِ اَلم ہے خیالِ گل
دیکھا تھا خوابِ خارِ حرم عندلیب نے
کھٹکا کیا ہے آنکھ میں شب بھر خیالِ گل
اُن دو کا صدقہ جن کو کہا میرے پھول ہیں
کیجے رضا کو حشر میں خنداں مثال ِ گل
کی کی نہ کیتا یار نے اِک یار واسطے
رب محفِلاں سجائیاں نی سرکار واسطے
دل یاد لَئی بنایا اے، تعریف لئی زباں
انکھیاں بنائیاں سوہٹے دے دیدار واسطے
کَاّیں نوں روز ہوندے نے دیدار آپ دے
کَاّیں تڑپ دے ریندے نے دیدار واسطے
صدقہ نبی دی آل دا بخشے خدا شِآندء
منگو دعاواں میرے جئَے بیمار واسطے
کس واسطے میں غیر نوں دل وچ بٹھا لواں
ایہہ دل مِرا اے احمدِ مختار واسطےﷺ
اللہ نے عرشاں فرشاں تے لائاّاں نے رونقاں
کڑیاں رچائیاں سوہنے دے سب پیار واسطے
گزرے نیؔازی زندگی عشقِ نبی وچ دے
نعتاں میں پڑھدا روں مٹّھے من ٹھار واسطے
کوئی مثل مصطفٰےکا کبھی تھا نہ ہے نہ ہو گا
کسی اور کا یہ رتبہ کبھی تھا نہ ہے نہ ہو گا
کسی وہم نے صدا دی !کوئی آپ کا مُمثل ؟
تو یقیں پکار اُٹھا کبھی تھا! نہ ہے نہ ہوگا !
مِری طاقِ جاں میں نسبت کے چراغ جل رہے ہیں
مجھے خوف تیرگی کا ،کبھی تھا ، نہ ہے ،نہ ہوگا
مرھے دامن ِطلب کو ہے اُنہی کے در سے نسبت
کہیں اور سے یہ رشتہ؟ کبھی تھا نہ ہے، نہ ہوگا
میں ہو ں وقف ِ نعت گوئی کسی اور کا قصیدہ
مری شاعری کا حصہ ،کبھی تھا، نہ ہے نہ ہوگا
سرِ حشر ان کی رحمت کا صبیح میں ہوں طالب
مجھے کچھ عمل کا دعویٰ کبھی تھا ہے نہ ہوگا
کوئی قسمت والا بن دا اے مہان مدینے والے دا
ہوندا اے کرم خوش بختاں تے سلطان مدینے والے دا
عرشی بے چین سلامی نوں فرشی بے چین غلامی نوں
اللہ ہی بہتر جاندا اے کی شان مدینے والے دا
سر کار دے منّن والیاں دی تاریخ گواہی دیندی اے
کر دا اےحکومت دنیا تے دربان مدینے والے دا
طیبہ دے مسافر چلّے نیں سوہنے دے در ولےّ نیں
سوہنے دِیاں یا داں پلّے نیں سامان مدینے والے دا
سینے وچ یاد مدینے دی لباں تے نام محمد ﷺدا
میرے تے ظہؔوری ڈاڈھا اے احسان مدینے والے دا
کوئی تو ہے جو نظامِ ہستی چلا رہا ہے وہ ہی خدا ہے
دکھائی بھی جو نہ دے، نظر بھی جو آر ہا ہے وہ ہی خدا ہے
وہ ہی ہے مشرق، وہ ہی ہے مغر ب، سفر کریں سب اسی کی جانب
ہر آئینے میں جو عکس اپنا دکھا رہا ہے وہ ہی خدا ہے
تلاش اس کونہ کر بُتوں میں وہ ہے بدلتی ہوئی رُتوں میں
جو دن کو رات اور رات کو دن بنا رہا ہے وہ ہی خدا ہے
کسی کو سوچوں نے کب سراہا ؟وہی ہوا جو خدا نے چاہا
جو اختیارِ بشر پہ پہر ے بٹھا رہا ہے وہ ہی خدا ہے
نظر بھی رکھے ،سماعتیں بھی ،وہ جان لیتا ہے نیتیں بھی
جو خانۂ لا شعور میں جگمگا رہا ہے وہ ہی خدا ہے
کسی کو تاجِ و قار بخشے ،کسی کو ذلت کے غار بخشے
جو سب کے ہاتھوں پہ مہرِ قدرت لگا رہا ہے وہ ہی خدا ہے
سفید اس کا ،سیا ہ اس کا، نفس نفس ہے گواہ اس کا
جو شعلۂ جاں جلا رہا ہے ،بجھا رہا ہے وہ ہی خدا ہے
کہیں نہ دیکھا زمانے بھر میں جو مدینے میں آکے دیکھا
تجلیوں کا لگا ہے میلہ جدھر نگاہیں اُٹھا کے دیکھا
وہ دیکھو! دیکھو! سنہری جالی، اِدھر سُوالی اُدھر سُوالی
قریب سے جو بھی اُن کے گزرا حضور نے مسکرا کے دیکھا
عجیب لذت ہے خودی کی عجب کشش ہے درِ نبی کی
سُر ور کیسا ہے کچھ نہ پوچھو لپٹ کے سینے لگا کے دیکھا
طواف روضےکا کر رہی ہیں یہاں وہاں اشک بار آنکھیں
ہے گونج صَلِّ عَلٰے کی ہر سو جہاں جہاں پہ بھی جا کے دیکھا
جہاں گئے اُن کا ذکر چھیڑا جہاں رہے اُن کی یاد آئی
نہ غم زمانے کے پاس آئے نبی کی نعتیں سنا کے دیکھا
ظؔہوری جا گے نصیب تیرے بس اِک نگا ہِ کرم کے صدقے
کہ بار بار اپنے در پہ تجھ کو تِرے نبی نے بلا کے دیکھا
کملی والے میں صدقے تری یاد توں آکے جو بے قرارا ں دے کم آگئی
ایسی باغِ مدینہ چوں اٹھی مہک کنیاں دکھیاں لاچاراں دے کم آگئی
اپنے اپنے مقدر دی ہوندی اے گل، آئیاں دایاں ہزاراں سی مکّے دے ول
جیڑی ڈاچی قدم وی نہ سَکدی سی چَل ،عرش دے شہسواراں دے کم آگئی
شان صدیق و فاروق دی کی دساں، کیتا اللہ نے جنہاں دا اُچا نشاں
سبز گنبد دے اندر جو بچدی سی تھاں، کملی والے دے یاراں دے کم آگئی
لین خوشبوئے زلف حبیب خدا آئی جنت دے وچوں سی باد صبا
چھو کے لنگدی جدوں گیسوئے مصطفٰے جاندی جاندی بہاراں دے کم آگئی
آؤندی عملاں دے ولّوں سی صؔائم شرم، کملی والے نے رکھیا اے ساڈا بھرم
دن قیامت دے سوہنے دی نظر کرم ،میرے جئے عیب کاراں دے کم آگئی
کعبے کے در کے سامنے مانگی ہے یہ دعا فقط
ہاتھوں میں حشر تک رہے دامن ِ مصطفٰے فقط
اپنے کرم سے اۓ خدا !عشق ِ رسول کر عطا
آخر ی دم زباں پہ ہو صَلِّ عَلٰے سدا فقط
طیبہ کے سیر کو چلیں قدموں میں اُن کی جان دیں
دفن ہوں اُ ن کے شہر میں ہے یہ ہی التجا فقط
دنیا کی ساری نعمتیں میری نظر میں ہیچ ہوں
رکھنے کو سر پہ گر ملے نعلین مصطفٰے فقط
منکَر نکیر قبر میں ہم سے سوال جب کریں
ایسے میں ورد ہم رکھیں آپ کے نام کا فقط
نزع کے وقت جب میری سانسوں میں انتشار ہو
میری نظر کے سامنے گمبد ہو وہ ہرا فقط
نعت ِ رسولِ پاک ہے ناظؔمی کا مقصدِ حیات
قبر میں بھی لبوں پہ ہو سرکار کی ثنا فقط
کعبہ سے اگر تربتِ شہ فاضل ہے
کیوں بائیں طرف اُس کے لیے منزل ہے
اس فکر میں جو دل کی طرف دھیان گیا
سمجھا کہ وہ جسم ہے یہ مرقد دل ہے
تم چاہو تو قِسمت کی مصیبت ٹل جائے
کیوں کر کہوں ساعت ہے قیامت ٹل جائے
لِلّٰہ اٹھا دو رُخ روشن سے نقاب
مولیٰ مری آئی ہوئی شامَت ٹل جائے
کِس کے جلوہ کی جھلک ہے یہ اجالا کیا ہے
ہر طرف دیدہ ٔ حیرت زدہ تکتا کیا ہے
مانگ من مانتی منھ مانگی مُراد یں لے گا
نہ یہاں “نا” ہے نہ منگتا سے یہ کہنا “کیا ہے ”
پند کڑوی لگی ناصح سے ترش ہوا ے نفس
زہر عِصیاں میں سِتمگر تجھے میٹھا کیا ہے
ہم ہیں اُن کے وہ ہیں تیرے تو ہوئے ہم تیرے
اس سے بڑھ کر تِری سمت اور وسیلہ کیا ہے
ان کی امّت میں بنا یا انہیں رحمت بھیجا
یوں نہ فرما کہ ترارحم میں دعویٰ کیا ہے
صدقہ پیارے کی حیا کا کہ نہ لے مجھ سے حساب
بخش بے پوچھے لجائے کو لجانا کیا ہے
زاہد اُن کا میں گنہ گار وہ میرے شافع
اتنی نِسبت مجھے کیا کم ہے تو سمجھا کیا ہے
بے بسی ہو جو مجھے پرسش ِ اعمال کے وقت
دوستو! کیا کہوں اُس وقت تمنّا کیا ہے
کاش فریاد مری سُن کے یہ فَرمائیں حضور
ہاں کوئی دیکھو یہ کیا شور ہے غوغا کیا ہے
کون آفت زدہ ہے کِس پہ بلا ٹوٹی ہے
کِس مصیبت میں گرفتار ہے صدمہ کیا ہے
کِس سے کہتا ہے کہ للہ خبر لیجیے مِری
کیوں ہے بیتاب یہ بے چینی کا رونا کیا ہے
اس کی بے چینی سے ہے خاطِر ِ اقداس پہ ملال
بے کسی کیسی ہے پوچھو کوئی گزرا کیا ہے
یوں ملائک کریں معروض کہ اِک مجرم ہے
اس سے پرسش ہے بتا تو نے کیا کیا ہے
سامنا قہر کا ہے دفتر ِ اعمال ہیں پیش
ڈر رہا ہے کہ خدا حکم سناتا کیا ہے
آپ سے کرتا ہے فریاد کہ یا شاہِ رسل
بندہ بے کس ہے شہا رحم میں وقفہ کیا ہے
اب کوئی دم میں گرفتار بلا ہوتا ہوں
آپ آجائیں تو کیا خو ف ہے کھٹکا کیا ہے
سن کے عرض مِری بحرِ کرم جوش میں آئے
یوں ملائک کو ہوا ارشاد ٹھرنا کیا ہے
کس کو تم موردِ آفات کِیا چاہتے ہو !
ہم بھی تو آکے ذرا دیکھیں تماشا کیا ہے
ان کی آواز پہ کر اٹھوں میں بے ساختہ شور
اور تڑپ کر یہ کہوں اب مجھے پَر وا کیا ہے
لوہ آیا مِرا حامی مِرا غم خوار امم !
آگئی جاں تنِ بے جاں میں یہ آنا کیا ہے
پھر مجھے دامنِ اقدس میں چھپا لیں سرور
اور فرمائیں ہٹو اس پہ تقاضہ کیا ہے
بندہ آزاد شدہ ہے یہ ہمارے دَر کا
کیسا لیتے ہو حساب اس پہ تمہارا کیا ہے
چھوڑ کر مجھ کو فرشتے کہیں محکوم ہیں ہم
حکم والا کی نہ تعمیل ہو زہرہ کیا ہے
یہ سماں دیکھ کے محشر میں اٹھے شور کہ واہ
چشمِ بد دور ہو کیا شان ہے رتبہ کیا ہے
صدقے اس رحم کے اس سایہ ٔ دامن پہ نثار
اپنے بندے کو مصیبت سے بچایا کیا ہے
اے رضا جانِ عنادِل تِرے نغموں کے نثار
بلبلِ باغ ِ مدینہ تِرا کہنا کیا ہے
کرم کے بادل برس رہے ہیں ، دلوں کی کھیتی ہری بھری ہے
یہ کون آیا کہ ذکر جنکا ، نگر نگر ہے گلی گلی ہے
دیے دلوں کے جلا کے رکھنا ، نبی کی محفل سجا کے رکھنا
جو راحت ِ سُکوں جان ہے ، وہ ذکر، ذکر ِ محمدی ہے
جو گالیاں سن کے دیں دعائیں ، بُروں کو اپنے گلے لگائیں
سراپا لُطف و کرم جو ٹھر،ی وہ میرے آقا کی زندگی ہے
نبی کو اپنا خدا نہ مانو ، خدا سے لیکن، جدا نہ مانو
ہے اھل ِ ایمان کا یہ عقیدہ خدا خدا ہے نبی نبی ہے
میں اپنی قسمت پہ کیوں نہ جھوموں ! میں کیوں نہ ولیوں کے در کو چوموں ؟
میں نام لیوا مصطفٰے کا ، خدا کے بندوں سے دوستی ہے
ہے دو ش پر جن کے کملی کالی ، وہی تو ہیں دو جہاں کے والی
کوئی سُوالی نہ بھیجا خالی یہ شان میرے کریم کی ہے
نہ مانگو دنیا کے تم خزانے “نیاؔزی ” چلیں مدینے
کہ بادشاہ سے بڑھ کر پیارے نبی کے در کی گداگری ہے ۔
کچھ غم نہیں اگر چہ زمانہ ہو بر خلاف
ان کی مدد رہے تو کرے کیا اثر خلاف
ان کا عدو اسیر ِ بلائے نفاق ہے
ان کی زبان و دل میں رہے عمر بھر خلاف
ان کی وجاہتوں میں کمی ہو محال ہے
بالفرض اک زمانہ ہو ان سے اگر خلاف
اٹھوں جو خواب مرگ سے آئے شمیم ِ یار
یار ب نہ صبح حشر ہو باد ِ سحر خلاف
قربان جاؤں رحمتِ عاجز نواز پر
ہوتی نہیں غریب سے ان کی نظر خلاف
شانِ کرم کسی سے عوض چاہتی نہیں
لاکھ امتثال ِ امر میں دِل ہو ادھر خلاف
کیا رحمتیں ہیں لطف میں پھر بھی کمی نہیں
کرتے رہے ہیں حکم سے ہم عمر بھر خلاف
تعمیل حکمِ حق کا حسؔن ہے اگر خیال
ارشاد پاکِ سرورِ دیں کا نہ کر خلاف
Comments are off for this post
کچھ رہے یا نہ رہے مجھ بے اثر کے سامنے
گمبد خضراء رہے میری نظر کے سامنے
گاہے بہ گاہے جو کفالت کر رہا ہے خود میری
اور کیا مانگوں بھلا اُس چارہ گر کے سامنے
دیکھی کچھ دنیا بھی ہم نے گھوم کر لیکن جناب
سب سفر بے کیف ہیں، طیبہ کے سفر کے سامنے
یا نبی ! ہم کو عطا کر اتنی شَہِی چند روز
ہم کہیں کہ گھر لیا ہے تیرے گھر کے سامنے
جو درود پاک پڑھ کر یا د کرتے ہیں انہیں
جاتی ہے ان کی خبر خیر البشر کے سامنے
مدعا عاؔبد خد ا نے اس کا پورا کر دیا
جو برستی آنکھ دیکھی ان کے در کے سامنے
کالیاں زلفاں والا دکھی دلاں دا سہارا
قسم خدا دی مینوں سب نالوں پیارا
دساں کی میں مصطفٰے دی کڈی سونڑای شان اے آپ دی تعریف وچ سارا ای قرآن اے
پڑھ کے تو ویکھ جیہڑا مرضی سیپارہ قسم خدا دی مینوں سب نالوں پیارا
کالیاں زلفاں والا دکھی دلاں دا سہارا
کیندی اے حلیمہ مکھ ویکھ لجپال دا لبھ کے لے آواں کتھوں سونڑدا ترے نال دا
چودھویں دا چن تے عرشاں دا تارا قسم خدا دی مینوں سب نالوں پیارا
کالیاں زلفاں والا دکھی دلاں دا سہارا
کر کے اشارا سونہڑا سورج نوں موڑدا آئپےچن توڑدا تے آئپےچن جوڑ دا
بگڑی بناوے میرے نبی دا اشارا قسم خدا دی مینوں سب نالوں پیارا
کالیاں زلفاں والا دکھی دلاں دا سہارا
دیندے نے گواہی ذرّے ذرّے کوہِ طوردے ویکھ دے نصیباں والے جلوے حضوردے
آمِہَل دا چن تے حلیمہ دا دلارا قسم خدا دی مینوں سب نالوں پیارا
کالیاں زلفاں والا دکھی دلاں دا سہارا
اے شاہ شب اسریٰ کونین کے رکھوالے
کالی کملی والے
اے شاہ شب اسریٰ کونین کے رکھوالے
دربار الگ تیرا
جبریل ترا خادم محتاج ہے جگ تیرا
بگڑی کو سنواریں گے
دکھ درد کے عالم میں تجھ کو ہی پکاریں گے
کیوں اور کسی گھر سے
جو کچھ ہمیں ملنا ہے ملنا ہے ترے در سے
چوکھٹ تری عالی ہے
کچھ بھیک ملے آقا جھولی میری خالی ہے
ملنے ہی نہیں جاتا
شاہوں کو تیرا منگتا خاطر میں نہیں لاتا
اب کون ہمارا ہے
دولہا شب اسریٰ کے اک تیرا سہارا ہے
کاش یہ دُعا میری معجزےمیں ڈھل جائے
سامنے مدینہ ہو اور دم نکل جائے
آپ گر کرم کردیں !ہم گناہ گاروں پر
نا ؤ بخدا طوفاں سے کیوں نہ پھر نکل جائے
جب گزر رہے ہوں ہم پُل صراط سے آقا !
پاؤں ڈگمگائے تو خود بخود سنبھل جائے
واسطہ نواسوں، کا صدقہ غوثِ اعظم کا (رضی اللہ عنہم)
آفت و بلا ساری سب کے سر سے ٹل جاۓ
اۓ میرے سخی داتا ! میری سوئی قسمت بھی
آپ کے اشارے سے یا نبی !بدل جائے
نامِ مصطفٰے کا یہ معجزہ میں اثر ہے
نام سن کے آقا کا ہر گدا مچل جائے
پنجتن کے صدقے میں ہو لحد مدینے میں
ہو کرم جو محسؔن پر زندگی بدل جائے
گنہ گاروں کو ہاتف سے نوید ِ خوش مآلی ہے
مُبارک ہو شفاعت کے لیے احمد سا والی ہے
قضا حق ہے مگر اس شوق کا اللہ والی ہے
جو اُن کی راہ میں جائے وہ جان اللہ والی ہے
تِرا قدِ مبارک گلبنِ رحمت کی ڈالی ہے
اسے بو کر ترے رب نے بِنا رحمت کی ڈالی ہے
تمہاری شرم سے شانِ جلال حق ٹپکتی ہے
خمِ گردن ہلالِ آسمانِ ذوالجلالی ہے
زہے خود گم جو گم ہونے پہ یہ ڈھونڈے کہ کیا پایا
ارے جب تک کہ پا نا ہے جبھی تک ہاتھ خالی ہے
میں اک محتا ج بے وقت وقعت گدا تیرے سگِ در کا
تری سرکار والا ہے تِرا در بار عالی ہے
تری بخشش پَسندی عذر جوئی توبہ خواہی سے
عموم ِ بے گناہی جرم شان ِ لا اُبالی ہے
ابو بکر و عمر عثمان و حیدر جس کے بلبل ہیں
ترا سروِ سہی اس گلبن ِ خوبی کی ڈالی ہے
رضا قِسمت ہی کھل جا ئے جو گیلاں سے خطاب آئے
کہ تو ادنیٰ سگِ درگاہ ِ خدام ِ معالی ہے
گل از رُخت آموختہ نازک بدنی را بدنی را بدنی را بدنی را
بلبل زِ تو آموختہ شیریں سخنی را سخنی را سخنی را سخنی را
ہر کس کہ لب لعل تُرا دیدہ بہ دل گفت
حقا کہ چہ خوش کندہ عقیقِ یمنی را، یمنی را یمنی را یمنی را
خیّاط ِ ازل دوختہ بر قامتِ زیبا
در قِدّ تو ایں جامۂ سر وِچمنی را چمنی را چمنی را چمنی را
از جاؔمیٔ بے چارا رسانید سلامے
بر در گہہِ دربارِ رسول ِمدنی را مدنی را مدنی را مدنی را
گزرے جس راہ سے وہ سیِّد والا ہو کر
رہ گئی ساری زمیں عنبرِ سارا ہو کر
رُخ ِ انور کی تجلی جو قمر نے دیکھی
رہ گیا بوسہ دہِ نقشِ کفِ پا ہو کر
وائے محرومی قسمت کہ میں پھر اب کی برس
رہ گیا ہمرہِ زوّارِ مدینہ ہو کر
چمنِ طیبہ ہے وہ باغ کہ مرغِ سدرہ
برسوں چہکے ہیں جہاں بلبلِ شیدا ہو کر
صرصرِ دشتِ مدینہ کا مگر آیا خیال
رشکِ گلشن جو بنا غنچہ دِل وا ہو کر
گوشِ شہ کہتے ہیں فریاد رَسی کو ہم ہیں
وعدہ ٔ چشم ہے بخشائیں گے گویا ہو کر
پائے شہ پر گر ے یا رب تپشِ مہر سے جب
دلِ بے تاب اڑے حشر میں پارا ہو کر
ہے یہ امید رضا کو تری رحمت سے شہا
نہ ہو زندانی دوزخ ترا بندہ ہوکر
گزرے جس راہ سے وہ سیِّد والا ہو کر
رہ گئی ساری زمیں عنبرِ سارا ہو کر
رُخ ِ انور کی تجلی جو قمر نے دیکھی
رہ گیا بوسہ دہِ نقشِ کفِ پا ہو کر
وائے محرومی قسمت کہ میں پھر اب کی برس
رہ گیا ہمرہِ زوّارِ مدینہ ہو کر
چمنِ طیبہ ہے وہ باغ کہ مرغِ سدرہ
برسوں چہکے ہیں جہاں بلبلِ شیدا ہو کر
صرصرِ دشتِ مدینہ کا مگر آیا خیال
رشکِ گلشن جو بنا غنچہ دِل وا ہو کر
گوشِ شہ کہتے ہیں فریاد رَسی کو ہم ہیں
وعدہ ٔ چشم ہے بخشائیں گے گویا ہو کر
پائے شہ پر گر ے یا رب تپشِ مہر سے جب
دلِ بے تاب اڑے حشر میں پارا ہو کر
ہے یہ امید رضا کو تری رحمت سے شہا
نہ ہو زندانی دوزخ ترا بندہ ہوکر
لو مدینے کی تجلی سے لگائے ہوئے ہیں
دل کو ہم مطلع انوار بنائے ہوئے ہیں
اک جھلک آج دکھا گنبد خضریٰ کے مکیں
کچھ بھی ہیں دور سے دیدار کو آئے ہوئے ہیں
سر پہ رکھ دیجے ذرا دست تسلی آقا
غم کے مارے ہیں زمانے کے ستائے ہوئے ہیں
نام کس منہ سے ترا لیں کہ ترے کہلاتے
تیری نسبت کے تقاضوں کو بھلائے ہوئے ہیں
گھٹ گیا ہے تری تعلیم سے رشتہ اپنا
غیر کے ساتھ رہ و رسم بڑھائے ہوئے ہیں
شرم عصیاں سے نہیں سامنے جایا جاتا
یہ بھی کیا کم ہے ترے شہر میں آئے ہوئے ہیں
تری نسبت ہی تو ہے جس کی بدولت ہم لوگ
کفر کے دور میں ایمان بچائے ہوئے ہیں
کاش دیوانہ بنا لیں وہ ہمیں بھی اپنا
ایک دنیا کو جو دیوانہ بنائے ہوئے ہیں
اللہ اللہ مدینے پہ یہ جلووں کی پھوار
بارش نور میں سب لوگ نہائے ہوئے ہیں
کشتیاں اپنی کنارے سے لگائے ہوئے ہیں
کیا وہ ڈوبے جو محمد کے ترائے ہوئے ہیں
نام آنے سے ابو بکر و عمر کا لب پر
کیوں بگڑتا ہے وہ پہلو میں سلائے ہوئے ہیں
حاضر و ناظر و نور و بشر و غیب کو چھوڑ
شکر کر وہ تیرے عیبوں کو چھپائے ہوئے ہیں
قبر کی نیند سے اٹھنا کوئی آسان نہ تھا
ہم تو محشر میں انہیں دیکھنے آئے ہوئے ہیں
کیوں نہ پلڑا تیرے اعمال کا بھاری ہو نصیرؔ
اب تو میزان پہ سرکار بھی آئے ہوئے ہیں
لَمۡ یَأتِ نَظِیۡرُکَ فِیۡ نَظَر مثل تو نہ شد پیدا جانا
جگ راج کو تا ج تورے سر سو،ہے تجھ کو شہِ دوسرا جانا
اَلۡبَحۡرُ عَلَا وَالۡمَوۡجُ طَغٰی ،من بیکس و طوفاں ہو شربا
منجد ھار میں ہوں بگڑی ہے ہوا موری نیا پار لگا جانا
یَا شَمۡسُ نَظَرۡت اِلٰی لَیۡلیۡ ، چو بطیبہ رسی عرضے بکنی
توری جوت کی جھلجھل جگ میں رچی، مِری شب نے نہ دن ہو نا جانا
اَنَا فِیۡ عَطشٍ وَّ سَخَاکَ اَتَمۡ ،اۓ گیسوئے پاک اۓ ابر کرم !
برسن ہارے رم جھم رم جھم دو بوند اِدھر بھی گرا جانا
یَا قَافِلَتِیۡ زِیۡدِیۡ اَجَلَکۡ ، رحمے بر حسرت تشنہ لبک
مورا جیرا لرجے درک درک، طیبہ سے ابھی نہ سنا جانا
اَلۡقَلۡبُ شَجٍ وَّالۡھَمَّ شُجَوۡں، د ل زار چناں جان زیر چنوں
پَت اپنی بِتَے میں کا سے کہوں، مورا کون ہے تیرے سوا جانا ؟
اَلرُّوۡحُ فِدَاکَ فَزِدۡ حَرۡقًا یک شعلہ دِگر بَرزَن عِشقا
مورا تن من دھن سب پھونک دیا ، یہ جان بھی پیارے جلا جانا
بس خامۂ خامِ نوائے رضاؔ، نہ یہ طرز مِری، نہ یہ رنگ مِرا
ارشادِ احبّا ناطق تھا نا چار اس راہ پر پڑا جانا
لطف ان کا عام ہو ہی جائیگا شاد ہر ناکام ہو ہی جائے گا
جان دے دو وعدہ ٔ دیدار پر نقد اپنا دام ہو ہی جائےگا
شاد ہے فردوس یعنی ایک دن قسمت ِ خدام ہو ہی جائے گا
یاد رہ جائیں گی یہ بے باکیاں نفس تو تو رام ہو ہی جائے گا
بے نشانوں کا نشان مٹتا نہیں مٹتے مٹتے نام ہو ہی جائے گا
یادِ گیسو ذکرِ حق ہے آہ کر دل میں پیدا لام ہو ہی جائے گا
ایک دن آواز بدلیں گے یہ ساز چہچہا کہرام ہو ہی جائے گا
سائلو ! دامن سخی کا تھام لو کچھ نہ کچھ انعام ہو ہی جائے گا
یادِ ابرو کر کے تڑپو بلبلو! ٹکڑے ٹکڑے دام ہو رہی جائے گا
مفلِسو ! اُن کی گلی میں جا پڑو باغِ خلد اکرام ہو ہی جائے گا
گر یونہی رحمت کی تاویلیں رہیں مدح ہر الزام ہو ہی جائے گا
بادہ خواری کا سماں بندھنے تو دو شیخ دُرد آشام ہو ہی جائے گا
غم تو ان کو بھول کر لپٹا ہے یوں جیسے اپنا کام ہو ہی جائے گا
مِٹ کر گر یونہی رہا قرض ِ حیات جان کا نیلام ہو ہی جائے گا
عاقلو! ان کی نظر سیدھی رہے بَور وں کا بھی کام ہو ہی جائے گا
اب تو لائی ہے شفاعت عفو پر بڑھتے بڑھتے عام ہو ہی جائے گا
اے رضا ہر کام کا اِک وقت ہے
دل کو بھی آرام ہو ہی جائے گا
لب پر نعت پاک کا نغمہ کل بھی تھا اور آج بھی ہے
میرے نبی سے میرا رشتہ کل بھی تھا اور آج بھی ہے
اور کسی جانب کیوں جائیں اور کسی کو کیوں دیکھیں
اپنا سب کچھ گنبد خضریٰ کل بھی تھا اور آج بھی ہے
پست وہ کیسے ہو سکتا ہے جس کو حق نے بلند کیا
دونوں جہاں میں اُن کا چرچہ کل بھی تھا اور آج بھی ہے
فکر نہیں ہے ہم کو کچھ بھی دکھ کی دھوپ کڑی تو کیا
ہم پر اُن کے فضل کا سایہ کل بھی تھا اور آج بھی ہے
بتلا دو گستاخ نبی کو غیرت مسلم زندہ ہے
اُن پر مر مٹنے کا جذبہ کل بھی تھا اور آج بھی ہے
جن آنکھوں سے طیبہ دیکھا وہ آنکھیں بے تاب ہیں پھر
ان آنکھوں میں ایک تقاضا کل بھی تھا اور آج بھی ہے
سب ہو آئے ان کے در سے جا نہ سکا تو ایک صبیح
یہ کہ اک تصویر تمنا کل بھی تھا اور آج بھی ہے
لب پر میرے محمد کا نام آئے گا ﷺ
زندگی میں جو مشکل مقام آئے گا
دی خبر آمِنہ کو یہ جبریل نے
تیرے گھر انبیاء کا امام آئے گا
کوئی مانے نہ مانے مگر حشر میں
صرف نام محمد ہی کام آئے گا ﷺ
تیرگی روشنی میں بدل جائے گی
قبر میں جب وہ ماہِ تمام آئے گا
گر بلایا مجھے سر کا ر نے
پھر نہ واپس یہ اُن کا غلام آئے گا
میں ہوں غمِ طیبہ میں گرفتار چناچہ
ہیں دیدہ و دل زندہ و بیدار چناچہ
غم بھی ہیں مداوا بھی ہیں غم کا میرے آنسو
رہتی ہے سدا آنکھ گہر بار چناچہ
جُز چشمِ محمد ﷺکوئی دیکھے نہ خدا کو
موسٰی کا مقدّر نہ تھا دیدار چناچہ
مخلوق میں کوئی بھی نہ تھا ان سا مکرّم
بخشش کی بندھی ان پہ ہی دستار چناچہ
تم سا تو نہ صادق ہے کوئی اور نہ امیں ہے
دشمن کو بھی کرنا پڑا اقرار چناچہ
محدود بشر تک نہ رہے ان کی بزرگی
جھک جاتے تھے تعظیم کو اشجار چناچہ
اب آپ ہی آکر مجھے دامن کی ہوا دیں
زندہ اسی حسرت میں ہے بیمار چناچہ
اِدراک سے بَالا ہے تخیّل سے پَرے ہے
محروم رسائی سے ہیں افکار چناچہ
رہتا ہے ادیب آپ کی نعتوں کے چمن میں
لکھتا ہے نئے رنگ میں ہر بار چناچہ
میں مدینے میں ہوں اور ذکر پیمبر بھی نصیب
یعنی پیاسے کو ہے دریا در دریا بھی نصیب
خوشبوئے زلف بھی عکسِ رُخِ انور بھی نصیب
صبحِ کافور بھی ، اور شامِ معنبر بھی نصیب
رُخ پہ مَلنے کے لیے ، رُوح میں ڈھلنے کے لیے
گردِ کوچہ بھی نصیب ، بادِ معطّر بھی نصیب
مسندِ صُفّہ کے انوار وہ بابِ جبریل
اس گنہ گار کی آنکھوں کو وہ منظر بھی نصیب
میری آنکھوں میں حرم آنکھ سے باہر بھی حرم
خانۂ چشم کو آئینہ کا جوہر بھی نصیب
ان کی یادوں کو جہاں چین سے نیند آتی ہے
نام دل کے ہے اِک حجرۂ بے در بھی نصیب
ایک اِک لمحہ مرے لب کو مدینے میں ادیب
کلمۂ شُکر بھی اور نعتِ پیمبر بھی نصیب
میں گذرتا ہی گیا راہ تھی پرخم پرخم
مجھ پہ سرکار کی نظریں جو تھیں پیہم پیہم
ان کے دربار میں پہونچو کہ یہاں سے مانگو
شرط اتنی ہے کہ یہ آنکھ ہو پُرنم پُرنم
آپ آئے تو پڑی جان میں ٹھنڈک ورنہ
زندگی زخم تھی، آواز تھی مرہم مرہم
پیش کر دوں گا سرِ حشر کمائی اپنی
دولتِ نعت جمع کی ہے جو درہم درہم
عرش ہو فرش ہو محشر ہو ، زماں ہو کہ مکاں
ہر جگہ ان کے ہی لہراتے ہیں پرچم پرچم
مہرومہ ، کاہہکشاں ، نقشِ کفِ پائے رسول
گیسوئے شب ہے اسی نُور سے برہم برہم
ان کی رحمت کی تو ہر بوُند سمندر ہے ادیب
جس کے آگے یہ سمندر بھی ہے شبنم شبنم
میں سو جاؤں یا مصطفٰی کہتے کہتے
کھلےآنکھ صلی علیٰ کہتے کہتے
میں والیل پڑھنے لگا بے خودی میں
تیری زلف کا ماجرا کہتے کہتے
قیامت میں جب میں نے حضرت کو دیکھا
تڑپنے لگا والضحیٰ کہتے کہتے
نبی کی زیارت مد ینے میں ھو گی
مد نیے یہی چل دیا کہتے کہتے
ہزارو ہویئں مشکلیں میری آساں
فقط ایک مشکل کشا کہتے کہتے
وہ مالک ہے سب کا وہ بخشے گا سب کو
بُرا کہتے کہتے بھلا کہتے کہتے
میں تو خود ان کے درکا گدا ہوں اپنے آقا کو میں نذر کیا دوں
اب تو آنکھوں میں کچھ بھی نہیں ہے ورنہ قدموں میں آنکھیں بچھادوں
آنے والی ہے ان کی سواری پھول نعتوں کے گھر گھر سجادوں
میرے گھر میں اندھیرا بہت ہے اپنی پلکوں پہ شمعیں جلادوں
میری جھولی میں کچھ نہیں ہے میرا سرمایہ ہے تو یہی ہے
اپنی آنکھوں کی چاندی بہادوں اپنے ماتھے کا سونا لٹادوں
بے نگاہی پہ میری نہ جائیں دیدہ در میرے نزدیک آئیں
میں یہیں سے مدینہ دکھادوں دیکھنے کا سلیقہ سکھادوں
روضہ پاک پیشِ نظر ہے سامنے میرے آقا کا در ہے
مجھ کو کیا کچھ نظر آرہا ہے تم کو لفظوں میں کیسے بتادوں
قافلے جا رہے ہیں مدینے اور حسرت سے میں تک رہا ہو
یا لپٹ جاؤں قدموں سے ان کے یا قضا کو میں اپنی صدا دوں
میری بخشش کا ساماں یہی ہے اور دل کا بھی ارماں یہی ہے
بس ایک دن ان کی خدمت میں جا کر ان کی نعتیں انہی کو سنا دوں
میرے آنسو بہت قیمتی ہیں ان سے وابستہ ہیں ان کی یادیں
ان کی منزل ہے خاک مدینہ یہ گہر یوں ہی کیسے لٹادوں
مجھ کو اقبال نسبت ہے ان سے جن کا ہر لفظ جانِ سخن ہے
میں جہاں نعت اپنی سنادوں ساری محفل کی محفل جگادوں
میرے دل میں ہے یادِ محمد ﷺ میرے ہونٹوں پہ ذکرِ مدینہ
تاجدارِ حرم کے کرم سے آگیا زندگی کا قرینہ
دل شکستہ ہے میرا تو کیا غم اس میں رہتے ہیں شاہِ دو عالَم
جب سے مہماں ہوئے ہیں وہ دل میں، دل مِرا بن گیا ہے مدینہ
میں غلامِ غلامانِ احمد، میں سگ آستان محمدﷺ
قابلِ فخر ہے موت میری قابلِ رشک ہے میرا جینا
ہر خطا پر مِری چشم پوشی ہرطلب پر عطاؤں کی بارش
مجھ گنہگا ر پر کس قدر ہیں مہرباں تاجدارِ مدینہ
مجھ کو طوفاں کی موجوں کا کیا ڈر وہ گزر جائے گا رُخ بدل کر
ناخدا ہیں مرے جب محمدﷺ کیسے ڈوبے گا میرا سفینہ ؟!
اِن کے چشم کر م کی عطا ہے، میرے سینے میں ان کی ضیاء ہے
یاد ِسلطانِ طیبہ کے صدقے میرا سینہ ہے مثلِ نگینہ
چل! مدینے کو چل !غم کے مارے، زندگی کو ملیں گے سہارے
آگیا ہے حرم سے بلاوا کوچ کرتے ہیں سوئے مدینہ
دولتِ عشق سے دل غنی ہے، میری قسمت ہے رشکِ سکندر
مدحتِ مصطفٰے کی بدولت ، مل گیا ہے مجھے یہ خزینہ
میرے آقا آؤ کہ مدت ہوئی ہے، تیر ی راہ میں اکھیاں بچھاتے بچھاتے
تیری حسرتوں میں ، تیری چاہتوں میں بڑے دن ہوئے گھر سجاتے سجاتے
قیامت کا منظر بڑا پُر خطر ہے مگر مصطفٰے کا جو دیوانا ہو گا
وہ پل پر سے گزرے گا مسرور ہو کے نعرہ نبی کا لگا تے لگا تے
میرا یہ ہی ایماں، یہ میرا یقیں ہے میرے مصطفٰےسا نہ کوئی حسیں ہے
کہ رخ اُ ن کا دیکھا ہے جب سے قمر نے نکلتا ہے منہ کو چھپاتے چھپاتے
میرے لب پہ مولیٰ نہ کوئی صدا ہے ، فقط اِس نکمے کی یہ ہی صدا ہے
میر ی سانس نکلے درِ مصطفٰے پہ غمِ دل نبی کو سناتے سناتے
یہ دل جب سے عشقِ نبی میں پڑا ہے نہ دن خبر ہے نہ شب کا پتا ہے
آقا اب تو بصارت بھی کم ہو گئی ہے تیرے غم میں آنسو بھاتے بھاتے
یہ مانا کہ ایک دن آنی قضا ہے مگر دوستو ! تم سے یہ التجا ہے
کہ شہر ِ محمد کی ہر اِک گلی سے جنازہ اُٹھا نا گھماتے گھماتے
نہ کعبہ سے مطلب نہ مسجد کی چاہت فقط دل میں حاکمؔ تمنا یہ ہی ہے
جو مل جائے نقشِ خاک پائے احمد تو مر جائیں سر کو جھکاتے جھکاتے
میر ا دل اور میری جان مدینے والے
تجھ پر سو جان سے قرباں مدینے والے
بھر دے بھردے میرے آقا ! مِری جھولی بھر دے
اب نہ رکھ بے سر و سامان مدینے والے
تیرا در چھوڑ کر جاؤں تو کہا ں جاؤں میں؟
میرے آقا میرے سلطان مدینے والے !
پھر تمنائے زیارت نے کیا دل بے چین
پھر مدینے کا ہے ارمان مدینے والے
سبز گنبد کی فضاؤں میں بلالو مجھ کو
تیرا غافل ہے پریشان مدینے والے
لکھ دے لکھ دے میری قسمت میں مدینہ لکھ دے
ہے تِری ملک قلمدان مدینے والے
سگ ِ طیبہ مجھے سب کہہ کے پکاریں بے ؔدم
یہی رکھیں میر ی پہچان مدینے والے
میر ی بات بن گئی ہے تیری بات کرتے ہیں
تیرے شہر میں میں آؤں تیری نعت پڑھتے پڑھتے
تیرے عش کی بدولت مجھے زندگی ملی ہے
میری موت بھی آئے آقا آئےتیرا ذکرکرتے کرتے
کس چیز کی طلب ہے نہ آرزو ہے کوئی
تو نے اتنا بھر دیا ہے کشکول بھرتے بھرتے
میرے سوہنے سوہنے گھر میں کبھی نعمتیں عطا ہوں
میں دیوانا ہو گیا ہوں تیری راہ تکتے تکتے
ہے جو زندگانی باقی یہ اراد ہ کر لیا ہے
تیرے منکروں سے آقا میں مروں گا لڑتے لڑتے
ناصؔر کی حاضری ہو کبھی آستاں پہ تیرے
کہ زمانہ ہو گیا ہے مجھے مجھے آہیں بھرتے بھرتے
مومن وہ ہے جو اُن کی عزّت پہ مرے دل سے
تعظیم بھی کرتا ہے نجدی تو مرے دل سے
واللہ وہ سن لیں گے فریاد کہ پہنچیں گے
اتنا بھی تو ہو کوئی جو آہ کرے دل سے
بچھڑی ہے گلی کیسی بگڑی ہے بنی کیسی
پوچھو کوئی یہ صَدمہ ارمان بھرے دل سے
کیا اس کو گرائے دہر جس پَر تو نظر رکھے
خاک اُس کو اٹھائے حشر جو تیرے گرے دل سے
بہکا ہے کہاں مجنوں لے ڈالی بنوں کی خاک
دم بھر نہ کیا خیمہ لیلی نے پَر ے دل سے
سونے کو تپائیں جب کچھ مِیل ہو یا کچھ مَیل
کیا کام جہنم کے دھرے کو کھرے دل سے
آتا ہے درِ ولا یوں ذوقِ طواف آنا
دلِ جان سے صدقے ہو سرگِرد پھرے دل سے
اے ابرِ کرم فریاد فریاد جلا ڈالا
اس سوزشِ غم کو ہے ضِد میرے ہرے دل سے
دریا ہے چڑھا تیرا کِتنی ہی آڑائیں خاک
اتریں گے کہاں مجرم اے عفو ترے دل سے
کیا جانیں ہم غم میں دِل ڈوب گیا کیسا
کِس تہ کو گئے ارماں اب تک نہ ترے دل سے
کرتا تو ہے یاد اُن کی غفلت کو ذرا روکے
لِلّٰہ رضا دل سے ہاں دل سے ارے دل سے
مہکی ہوئی ہوا کا مجھے لمس جب ملا
میرے تصورات کا در مثل گل کھلا
افکار کے دریچوں سے آنے لگی صدا
کیا خوب حق نے تجھ کو یہ موقع عطا کیا
اٹھ، مدح خوان سید عالی مقام ہو
چل اے گناہ گار ذرا نیک نام ہو
الفاظ دست بستہ مرے سامنے ہیں سب
جانچا ہے میں نے خوب ہر اک لفظ کا نسب
تھرا رہا ہے پھر بھی قلم، کیا لکھوں لقب
میں پیش آفتاب مثال چراغ شب
کیسے بیاں ہو مرتبہ عالی وقار کا
لاؤں کہاں سے ڈھنگ میں پروردگار کا
لب و ا کروں ثناء کے لیے کن کے باب میں
جبریل دست بستہ ہیں جن کی جناب میں
مداح خود قرآں ہے رسالت ماب میں
میرے خیال کی تگ و دو کس حساب میں
منظور شاعری ہے نہ حسن کلام
اے خامہ خیال، ادب کا مقام
سیر خیال و فکر کو بستان ہیں بہت
تفریح طبع ناز کے سامان ہیں بہت
تحریر حسن و عشق کے عنوان ہیں بہت
شعرو سخن کے واسطے میدان ہیں بہت
جن کے قدم سے رونق بزم حیات
تعریف اس نبی کی تقاضائے ذات
یہ مسئلہ تخیل و جذبات کا نہیں
واقف میں گرد و پیش کے حالات کا نہیں
اور علم یہ کہ علم بھی ہر بات کا نہیں
عرفان مجھ کو اپنی ہی خود ذات کا نہیں
پھر مجھ سے پوچھنا کہ محمد کی شان
گونگے کے منھ میں ہو بھی اگر تو زبان
قند و شہد نبات کو یک جا کریں اگر
گل کی ہر ایک ذات کو یک جا کریں اگر
رنگینی حیات کو یک جا کریں اگر
کل حسن کائنات کو یک جا کریں اگر
جتنا بھی رنگ و نور لیے کائنا ت ہے
یہ سب تبسم شہ دیں کی زکٰوۃ ہے
کہتے ہیں جس کو مدحت سلطان ذوالمنن
مسند نشیں ہے نو ک زباں پر وہ گلبدن
سرتا بپا ہے نکہت و رعنائی چمن
اس نور کے بدن پہ ہے خوشبو کا پیرہن
خوشبو سے اور نور سے جس کا خمیر ہے
زلفوں کی جس کے شان مشیت اثیر ہے
تمہید سے گریز کی جانب قدم قدم
پڑھتے ہوئے درود محمد مرا قلم
لے کر سرور عشق میں ڈوبا ہوا علم
ہو کر نیاز مند، کیا اس نے سر کو خم
خم ہو کے خط میم بنا تا چلا گیا
پردے روز حق کے اٹھاتا چلا گیا
وہ میم جو کمال ہے اک آغوش کی طرح
محشر میں ایک سایہ گل پوش کی طرح
بندوں پہ ، رب کی رحمت پر جوش کی طرح
خم اس کا فرق عاشق مے نوش کی طرح
جو درمیاں کمان کے آیا اماں میں ہے
باہر جو رہ گیا وہ شمار زیاں میں ہے
کھلنے لگے رموز ، محبت کے سر بسر
ہونے لگا خیال پہ الہام کا اثر
افکار خوشبوؤں میں شرابور تر بہ تر
جنبش جو لب کو دی تو ٹپکنے لگے گہر
اس پر بھی ان کی شان کے شایاں نہ لکھ سکا
بندہ ہوں اس لیے کوئی قرآں نہ لکھ سکا
یوں کر رہے ہیں مدحت سر کار ذوالمنن
کوثر سے دھوکے لائیں ہیں تعریف کا متن
پھرتے رہے بہار میں لے کر چمن چمن
پہنا دیا زبان کو عنبر کا پیرہن
سرمہ ہے کوہ طور کا، غازہ گلاب کا
آغاز نعت یوں ہے رسالت ماب کا
پہلے نبی کے عشق کی دولت خدا سے لی
دولت ملی تو فکر کی جرأت خدا سے لی
جرأت ملی تو حسنِ عقیدت خدا سے لی
طرزِ بیاں کے واسطے نُدرت خُدا سے لی
جرأت مِلی خیال ملا اور قلم ملا
یہ سب ملے تو نعت پہ اذن ِ رقم ملا
توڑی ہے میں نے میکدہ عشق کی قیود
میرے جنون غم کی تعین نہیں حدود
ہوتا ہے ہر نفس مرا منت کش درود
پہلے درود پھر سخن نعت کا ورود
میں بھیجتا ہوں نذر صلوٰۃ و سلام کی
وہ بھیجتے ہیں مجھ کو اجازت کلام کی
تاباں اسی کے نور سے ہے چہرہ حیات
صدیوں کے جس نے آکے مٹائے تو ہمات
ایک جست جس کی نسخہ تسخیر کائنات
جس کے قدم کا نقش بنا علم مدنیات
کہنے کو وہ بشر ہے اگر قیل و قال میں
اپنی مثال بھی نہیں رکھتا مثال میں
یہ ماہتاب آپ کا چہر ہ نہیں نہیں
یہ آفتاب آپ کا جلوہ نہیں نہیں
یہ بوئے مشک زلف کا حصہ نہیں نہیں
یہ کہکشاں ہے نقش کف پا نہیں نہیں
اس اوج تک نہ جائے گی پستی شعور کی
بالا ہے ہر خیال سے ہستی حضور کی
جلتی نہ اس جہاں میں جو شمع محمدی
دنیا کو حشر تک نظر آتی نہ روشنی
حاکم ہو یا غلام، گنہگار و متقی
ملتا نہ آدمی کو شعور خود آگہی!
ہوتی نہ کچھ تمیز سفید و سیاہ
جلوؤں کا اعتبار نہ ہوتا نگاہ
جس روز لب کشاد کسی کی نہیں مجال
دیکھیں گے آسمان و زمیں روئے ذوالجلال
ہو گا مقام دید رسول و نبی کا حال
دیکھیں گے ایک ایک کو مسکین کی مثال
ڈھونڈیں گے انبیاء اسی رحمت نوید
تڑپے گی ہر نگاہ محمد کی دید
ہے کون دے سکے گا جو اس دن کوئی حساب
توبہ بھی یاد آئی تو ، توبہ کا بند باب
بھائی کو بھائی دے گا نہ فریاد کا جواب
شعلے زمین پہ ہوں گے تو نیزے پہ آفتاب
امت ہو ، یا نبی ہو ، غضب کی نگاہ میں
محشر میں ہوں گے سارے انہیں کی پناہ میں
نازاں ہوں گرچہ ہوں میں گنہگار دیکھنا
اس کملی پوش کا ہوں پرستار دیکھنا
انوار ذکر سید ابرا ر دیکھنا
مجھ سے گدا کے لب ہیں گہر یا ر دیکھنا
ہر دم ہے لب پہ تذکرہ بے نظیر بھی
راضی رسول پاک بھی رب قدیر بھی
نعت رسول پاک میں وہ آب و تاب ہو
ایک ایک لفظ مدح کا عزت ماب ہو
روشن مرے کلام کا یوں آفتاب ہو
مقبول بارگاہ رسالت ماب ہو
محشر میں جب بلائیں تو اس طرح دیں صدا
حاضر کر و کہاں ہے ثنا خوان مصطفٰے
ہر آئینہ دل کی جِلا ذکرِ محمد
اللہ کی بندون کو عطاء ذکرِ محمد
مخلوق سے خالق کی رضا ذکرِ محمد
لازم اسی مقصد سے ہو ، ذکرِ محمد
ہر آرزوئے نطق کا انجام یہی ہے
دنیا کے لیے امن کا پیغام یہی ہے
ہو بزمِ سخنداں تو یہ پھولوں کا بیاں ہے
موجوں کا ترنّم ہے یہ بلبل کی زباں ہے
الفاظ کی عظمت ہے خطابت کی یہ شاں ہے
اس ذکر سے بندوں کو گناہوں سے اماں ہے
جذبات کو سیماب تخیّل کی جلا ہے
یہ خاص شَرَف ذکرِ محمد کو ملا ہے
قائم ہے مسلمان کا ایمان اِسی سے
اللہ کے طالب کو ہے عرفان اِسی سے
ہر عاشق ِ صادق کی ہے پہچان اِسی سے
انسان کو ہے عظمتِ انسان اِسی سے
سرمایۂ ایمان و قرارِ دل و جاں ہے
قرآں کی تلاوت ہے یہ کعبہ کی اذاں ہے
نعتِ شہِ کونین کی سرو و سمنی دیکھ
لفظوں کی قبا میں یہ عجب گلْبدنی دیکھ
چہر ہ کی دمک طور کے جلووں سے بنی دیکھ
زلفوں کی مہک نافۂ مشک ِ ختنی دیکھ
نسبت اگر الفاظ کو دوں قوسِ قزح سے
سیراب ہوں شاید مئے معنٰی کی قدح سے
اے طٰحہٰ و مزمِّل و یٰسین و مدثّر
اے سیّد و سردارِ اُمم طیّب و طاہر
کیا کہہ کے پکارے مرے آقا کو یہ شاعر
تصویر ِ خداوند کے شہکار مصوّر
خم گردنِ تفسیر ہے شرمندہ صراحت
یا رب! مرے الفاظ کو دے نہجِ بلاغت
اے صِلِّ عَلٰی نُور شہِ جنّ و بشر نور
لَب نور دہن نور سخن نور نظر نور
سر نور قد م نور شکم نور کمر نور
جس گھر میں تِرا ذِکر کریں لوگ ، وہ گھر نُور
آں زینتِ کونین و زیبائے جہاں اَست
آں باعثِ حیرانی آئینہ گراں اَست
ہم کو بھی خبر ہے کہ گناہوں کی سزا ہے
لیکن وہ خطا پوش ہمارا بھی خدا ہے
زاہد کو اگر نازِ عبادت ہے بجا ہے
پلّہ میں ہمارے بھی محمد کی ثناء ہے
محشر میں جو نکلے گا یہی نام دہن سے
جُھک جائے گا پلّہ مِرا نیکی کے وزن سے
وہ ماہِ عرب، ماہِ مبیں ، ماہِ لقا ہے؟
تصویر ہے ، تنویر ہے ، تعبیر ہے، کیا ہے ؟
اِک نور کا پیکر ہے کہ پردہ میں خدا ہے
آفاق میں ایسا نہ تو ہوگا نہ ہوا ہے
عاشق کی صدا یہ ہے مرے دل میں نہاں ہے
جبریل سرِ عرش پکارے وہ یہاں ہے
یہ جنبش لب، تابِ سخن، اور یہ گفتار
افکار کی یورش ہے تو الفاظ کی یلغار
ہو جائے اگر وقف ِ ثنائے شہِ ابرار
ہوتا ہے وہ حسان کی مانند گہر بار
رہتا ہے اسی دہن میں وہ شب ہو کہ سحر ہو
جس پر مرے سرکار کی اِک بار نظر ہو
منم ادنٰی ثنا خوان محمد ﷺ
غلامِ از غلامانِ محمد ﷺ
محمدﷺ ہست مہمانِ خداوند
دُو عالَم ہست مہمانِ محمد ﷺ
تمامی انبیآء و اولیآء ہم
نمک خوردند از خوانِ محمد ﷺ
گنہگارم سیہ کارم ولیکن
بدستم ہست دامانِ محمد ﷺ
محمد ﷺحامد و حمدِ خداوند
خدائے ما ثنا خوانِ محمد ﷺ
نہ تنہا ہست جاؔمی نعت خوانش
خدا ئے ما ثنا خوانِ محمد ﷺ
من موہنے نبی من ٹھار نبی، تیری ذات دیاں کیا باتاں نے
جَدوں بولے تے منہ وِچوں پُھل کِھل دے ،تیری بات دِیاں کیا باتاں نے
انوار دِیاں برسا تاں سَن، اِک دو جے نوں کہندیاں راتا ں سَن
جِس رات نُوں ٹُرکے آیا نبی، اس رات دِیاں کیا باتاں نے
وَالۡفَجۡر دے سہرے والے پیا سر سایہ غم دیاں راتاں دا
تیری نظر ہووے دن چڑھ جاوے، تیری ذات دیاں کیا باتاں نے
بڑے کرم ہوئے سرکاراں دے، کم بن گئے اَوگن ہاراں دے
فَتَدَلّٰی دَنٰی دی بیج اتے ملاقات دِیاں کیا باتاں نے
سرکار دے دستر خواں اتے، کھاندے نے نیؔازی جگ دو نوں ایں
میرے آقا کملی والے دی، خیرات دِیاں کیا باتاں نے
من موہ لیاسارے عالم دا محبوبِ خدا دیاں گلاں نے
اُوہدے فَقۡروعَطا دِیاں گلّاں نے اُہدی جو د و سَخا دِیاں گلّاں نے
سارے قرآن دے وچ رب نے تعریفاں اُوہدیاں کیتیاں نے
کتے مکھ اُوہدے دِیاں قَسماں نے کتے زلفِ دُوتا دِیاں گلّاں نے
جو حکم وی دِتّے حضرت نے بے شک او حکم خدا دے نے
جو پاک نبی فرمایا اے بے شک اوہ خدا دیاں گلّاں نے
جِدا نام لیا کم بن دا اے ،اونام او سے سرکار دا اے
جِاپں دا اے چرچا ہر پا سے او او سے پیار دِیاں گلّاں نے
مصطفٰے کا نام، توقیر ِ ادب مصطفٰے کا ذکر، تعمیرِ ادب
نعت میں ہونا قلم کا سَر نگوں سر بلندی ٔ مشاہیر ِ ادب
وہ مجاہد حضرتِ حسان تھے جنکے ہاتھو ں میں تھی شمشیر ِ ادب
پارہ پارہ کر گئے قلبِ غنیم اُس کمانِ عشق کے تیرِ ادب
حافظِ شیراز سے پوچھے کوئی لذّتِ شیرینیٔ شیرِ ادب
پیرویٔ مثنویٔ رُوم سے بن گئے اقبال بھی پیرِ ادب
سورۂ کوثر پہ ہے حُجّت تمام رفعتِ افلاک تحریرِ ادب
شیخ سعدی کی رباعی دم بدم ضربِ مضرابِ مزا میرِ ادب
مستند ہے آپ کا فرماں ادیب نعت ہے جامی کی جاگیرِ ادب
مُشتِ غبارِ خاک اور تیرا بیانِ بر تری
خالقِ کُل کلام سے کون کرے گا ہمسری
حمدِ خُدائے لَمْ یَزلْ تیری ثنائے دِلربا
وحیِ الٰہ العالمیں ، تیری زبانِ دلبری
تیرے عروج کی خبر روحِ قدس نہ پاسکی
عویٰ ٔ معرفت کوہے پیشِ ترے سُبک سری
کلمۂ لاشریک میں، ذکر ترا شریک ہے
منزل لاالٰہ تک، تو ہی نشانِ رہبری
قلب ہے کاسۂ گدا، دستِ سوال ہے وجود
رُوح ، فقیر ِ آستاں، عشق تیرا تونگری
ذکرِ حبیب کبریا ، مدح و ثنائے مصطفٰے
میرا شعور ِ فکر و فن ، میرا ضمیرِ شاعری
سدا لب پہ ہو جب صدائے مدینہ
کہاں چین دل کو سوائے مدینہ
چلے آج ایسی ہوائے مدینہ
اُڑائے ہمیں لے کے جائے مدینہ
بَرائے مدینہ بِنائے دو عالم
بِنائے دو برائے مدینہ
حرم کا پتہ مجھ سے کیوں پوچھتے ہو
مرا دل ہے قبلہ نمائے مدینہ
گنہگار کے دل میں دوزخ کی آتش
لگائے زمانہ ، بُجھائے مدینہ
مدینے کا بندہ مدینے ہی پہنچے
بس اتنا کرم کر، خدائے مدینہ
قدم چُوم لوں بَے وطن کرنے والے
مجھے دے اگر تو، سزائے مدینہ
کہیں تو گنہ گار کا ہو ٹھکانہ
خُدا نے رکھی یوں، بِنائے مدینہ
گرفتار کو اب گرفتار رکھیے
کہاں جائے گا پھر رہائے مدینہ
وہ “طلع” وہ “بدرُ علینا ” کے نغمے
کجا ہم کجا وہ ثنائے مدینہ
ادیب حشر میں زیرِ سایہ رہیں گے
تَنی ہوگی سر پر رِدائے مدینہ
مژدہ باد اے عاصیو! شافع شہِ ابرار ہے
تہنیت اے مجرمو! ذاتِ خدا غفّار ہے
عرش سافرش زمیں ہے فرش پا عرش بریں
کیا نرالی طرز کی نامِ خُدا رفتار ہے
چاند شق ہو پیڑ بولیں جانور سجدے کریں
بَارَ کَ اللہ مرجعِ عالم یہی سر کار ہے
جن کو سوئے آسماں پھیلا کے جل تھل بھردیے
صَدقہ اُن ہاتھو ں کا پیارے ہم کو بھی در کار ہے
لب زلالِ چشمہ ٔ کُن میں گندھے وقتِ خمیر
مُردے زندہ کرنا اے جاں تم کو کیا دشوار ہے
گورے گور ے پاؤں چمکا دو خدا کے واسطے
نور کا تڑکا ہو پیارے گور کی شب تار ہے
تیرے ہی دامن پہ ہر عاصی کی پڑتی ہے نظر
ایک جانِ بے خطا پر دو جہاں کا بار ہے
جوشِ طوفاں بحرِ بے پایاں ہوا ناساز گار
نوح کے مولیٰ کرم کر لے تو بیڑا پار ہے
رحمۃ ٌ اللعالمین تیری دہائی دب گیا
اب تو مولٰی بے طرح سر پر گنہ کا بار ہے
حیرتیں ہیں آئینہ دارِ وفورِ و صفِ گُل
اُن کے بلبل کی خموشی بھی لبِ اظہار ہے
گونج گونج اٹھے ہیں نغمات ِ رضا سے بوستاں
کیوں نہ ہو کس پھوٗل کی مدحت میں وامِنقار ہے
مرے طرزِ سخن کی جان ہیں گُل بھی گُلستاں بھی
مرا حُسنِ بیاں ہے خار بھی چاکِ گریباں بھی
مرے دامن میں ، جگنو ہیں جہاں اور چاند تارے بھی
اِسی دامن میں رکھتا ہوں کچھ آہیں اور شرار ے بھی
جو میری عمر کا حاصل ہے ذکرِ مصطفٰے کرنا
تقاضائے محبّت ہے بیانِ کربلا کربلا
تقاضہ ہے ضمیرِ شاعر حق گو کی فِطرت کا
کہ حق گوئی و بیبا کی پہ مبنی سخن اُس کا
بیانِ سیّد الشُہداء کی جب تمہید ہوتی ہے
وہی عہدِ وفا کے رسم کی تجدید ہوتی ہے
حسین ابنِ علی ، سبطِ پیمبر ، شرفِ انسانی
وہ جس کے رُخ پہ تھی نُورِ محمد کی فراوانی
شہیدِ کربلا تاریخ کا عنوان ہے گویا
حسین ابنِ علی ہر قلب میں مہمان ہے گویا
بتایا ، کس طرح کرتے ہیں اُمّت کی نگہبانی
سکھایا ، کس طرح رکھتے ہیں سجدوں میں یہ پیشانی
جَلایا اس نے ظلمت میں چراغِ نُورِ ایمانی
یہ سب کچھ جانتے تھے پھر اُسے دیتے نہ تھے پانی
بہت ہی مختصر، بندوں سے رب کا فاصلہ نکلا
حرم سے لے کے اہلِ بیت کو، جب قافلہ نکلا
عمامہ باندھ کر عہدِ وفا کا ، کربلا جانا
تھا اُمّت کے لیے مقصود ان راہوں کا دکھلانا
وہ راہیں جو عروجِ آدمیت کا سبب ٹھریں
زوال ِ ظلم ٹھریں ، حق پرستوں کا لقب ٹھہریں
عرب کی سرزمیں ، تپتے ہوئے صحرا، خزاں کے دن
سفر میں تھے رسولِ ہاشمی کی جانِ جاں کے دن
یہ منزل آزمائش کی بڑی دشوار ہوتی ہے
فضا میں زہر ہوتا ہے، ہوا آزار ہوتی ہے
جب ہستی مردِ مومن کی سپرد دار ہوتی ہے
تو سائے کے لیے سر پر فقط تلوار ہوتی ہے
وہ جس کی شان میں تھی آیۂ تطہیر ِ قرآنی
اسی کی اہلِ کوفہ نے کیا نیزوں سے مہمانی
طلب نانا سے کوثر کی شفاعت کی سفارش بھی
نواسے پر وہی کرنے لگے تیروں کی بارش بھی
جَلے خیمے بدن چھلنی تھے خون میں تر قبائیں تھیں
خدا کو جو پسند آتی ہیں وہ ساری ادائیں تھیں
وہ چہرے نُور کے تھے ، گِرد جن کے نُور کے ہالے
بنے وہ خاک وخوں میں ایک ہو کر کربلا والے
وہ چہرے وہ بدن جو عشق کا اسرار ہوتے ہیں
غبارِ خاک سے ان کے کفن تیار ہوتے ہیں
نہ ہوتا گر محمد کا گھرانہ ایسی منزل پر
تو اڑ جاتا فروغ دیں کا مستقبل دھواں بن کر
سلام اُس پر کہ جو حق کے لیے سربھی کٹا آیا
سلام اُس پر جواُمّت کے لیے گھر بھی لُٹا آیا
سلام اُس پر مرا جو خون کے دریا میں تیرا ہے
سلام اُس پر کہ جو نانا کے پرچم کا پھریرا ہے
سلام اُس پر کہ جس نے زندگی کو زندگی بخشی
سَروں کو سَر بلندی اور ذوقِ بندگی بخشی
سلام اُس پر کہ جو دوش ِ پیمبر کی سواری ہے
سلام اُس پر کہ جنّت جس کے گھر کی راہداری ہے
تیر سینے پہ، برچھی پشت پر جھیلے ہوئے اِنساں
سلام اے فاطمہ کی گود میں کھیلے ہوئے اِنساں
بہت آسان ہے ذکرِ شہیدِ کربلا کرنا
درونِ قلب مشکل ہے وہی حالت بپا کرنا
شہید ِ کربلا کے ذکر کا مجھ پر جواب آیا
کہ تیری ذات میں اب تک نہ کوئی انقلاب آیا
سراسر آبرو بن غیرتِ شرم و حیا ہو جا
اگر مجھ سے محبّت ہے تو میرا نقش ِ پا ہو جا
مِری دھڑکن میں یا نبی
مِری سانسوں میں یا نبی
یا نبی یا نبی یا نبی یا نبی یا نبی
کوئی گفتگو ہو لب پر، تیرا نام آگیا ہے
تیری مدح کرتے کرتے ،یہ مقام آ گیا ہے
درِمصطفٰے منظر، میری چشم ِ تر کے اندر
کبھی صبح آگیا ہے، کبھی شام آیا گیا ہے
یہ طلب تھی انبیاء، کی رخ ِ مصطفٰے کو دیکھیں
یہ نماز کا وسیلہ، انہیں کام آگیا ہے
دو جہاں کی نعمتوں سے تِرے در سے جو بھی مانگا
مِری دامن ِ طلب میں وہ تمام آگیا ہے
جسے پی کے شیخ سعدی بَلَغَ الۡعُلیٰ پکاریں
میرے دستِ ناتواں میں وہ جام آگیا ہے
وہ ادؔیب جن سے محشر میں برپا کیا ہے محشر
وہ کہیں گے آؤ دیکھو یہ غلام آگیا ہے
مِری قسمت کے تارے اس طرح رب چمکائے گا
مِرے آقا کے در سے میرا بھی بلاوا آئے گا
میرے دل کے آنگن میں بھی پھول کھلیں گے
ان آنکھوں کو جب اُن کا دیدار کرایا جائے گا
دے دیں گے حسنین کا صدقہ سرور عالم مجھکو
جن اُن کا منگتا اپنے دامن کو پھیلائے گا
نعتیں دونوں عالم کی اُس کو مل جائین گی
جو میرے سرکار کی آمد کا جشن منائے گا
اُن کے کرم سے کھل جائیں گے دل کے دریچے سبھی
اُن کے درپہ جاکر جب معیؔن اُن کی نعت سنائے گا
مرحبا سیدِ مکی مدنی العربی
دل وجاں باد فدایت چہ عجب خوش لقبی
من بیدل بجمال تو عجب حیرانم
اللہ! اللہ! چہ جمال است بدیں بوالعجبی
نسبت نیست بذات تو بنی آدم را
بر تر از عالَم و آدم تو چہ عالی نسبی
ماہمہ تشنہ لبانیم و توئی آب ِحیات
رحم فرما کہ زِحد می گزر و تشنہ لبی
ذاتِ پاک تو دریں ملکِ عرب کردہ ظہور
زِآں سبب آمدہ قرآں بہ زبانِ عربی
چشمِ رحمت بُکشا سوئے من انداز نظر
اۓ قریشی لقبی! ہاشمی و مُطَّلبی!
سیّدی اَنتَ حبیبی و طبیب قلبی
آمدہ سوئے تو قدسی پۂ درماں طلبی
مدحت ان کی رحمت بھی ہے بخشش کا سامان بھی ہے
عشق کی دستاویز بھی ہے اور عاشق کی پہچان بھی ہے
میری بھلا اوقات ہی کیا جو ان کی ثناء میں لب کھولوں
یہ تو انہیں کا لطف و کرم ہے اور ان کا احسان بھی ہے
ایسی کوئی شے پاس نہیں جو نذر میں ان کو پیش کروں
یوں کہنے کو قلب و جگر ہیں جسم بھی ہے اور جان بھی ہے
پاسِ ادب رکھ اپنی حدوں سے بڑھ کر کوئی بات نہ کر
ان کی حدوں تک جانے والے اپنی تجھے پہچان بھی ہے
ذکر میں ان کے کوئی ادب کا دامن ہاتھ سے چھوڑے تو
میری زباں تلوار بھی ہے اور تقلیدِ حسّان بھی ہے
محمد مظہر کامل ہے حق کی شان عزّت کا
نظر آتا ہے اِس کثرت میں کچھ انداز وحدت کا
یہی ہے اصل عالم مادّہ ایجاد خلقت کا
یہاں وحدت میں برپا ہے عجب ہنگامہ کثرت کا
گدا بھی منتظر ہے خلد میں نیکوں کی دعوت کا
خدا دن خیر سے لائے سخی کے گھر ضیافت کا
گنہ مغفور ، دل روشن ، خنک آنکھیں ، جگر ٹھنڈا
تعٰالی اللہ ماہِ طیبہ عالم تیری طلعت کا
نہ رکھی گل کے جوش ِ حسن نے گلشن میں جا باقی
چٹکتا پھر کہاں غنچہ کوئی باغِ رسالت کا
بڑھا یہ سلسلہ رحمت کا دورِ زلفِ والا میں
تسلسل کالے کوسوں رہ گیا عِصیاں کی ظلمت کا
صفِ ماتم اٹھے خالی ہو زنداں ٹوٹیں زنجیریں
گنہگارو!چلو مولیٰ نے دَر کھولا ہے جنت کا
سکھایا ہے یہ گستاخ نے آئینہ کو یارب
نظارہ روئے جاناں کا بہانہ کرکے حیرت کا
اِدھر امّت کی حسرت پر اُدھر خالق کی رحمت پر
نرالا طور ہوگا گردشِ چشم شفاعت کا
بڑھیں اِس درجہ موجیں کثرتِ افضال والا کی
کنارہ مِل گیا اس نہر سے دریا ئے وحدت کا
خمِ زلفِ نبی ساجد ہے محرابِ دو ابرو میں
کہ یا رب تو ہی والی ہے سیہ کارانِ امّت کا
مدد اے جو ششِ گریہ بہادے کوہ اور صحرا
نظر آجائے جلوہ بے حجاب اس پاک تربت کا
ہوئے کَم خوابی ہجراں میں ساتوں پر دے کم خوابی
تصوّر خوب باندھا آنکھوں نے استار تربت کا
یقیں ہے وقت جلوہ لغزشیں پائے نگہ پائے
ملے جوش ِ صفائے جسم سے پابوس حضرت کا
یہاں چھڑکا نمک واں مرھمِ کافور ہاتھ آیا
دلِ زخمی نمک پَروردہ ہے کس کی ملاحت کا
الٰہی منتظر ہوں وہ خَرام ناز فَرمائیں
بچھا رکھا ہے فرش آنکھوں نے کمخواب ِ بصارت کا
نہ ہو آقا کو سجدہ آدم و یوسف کو سجدہ ہو
مگر سدِّ ذرائع داب ہے اپنی شریعت کا
زبانِ کارکِس در د سے اُن کو سناتی ہے
تڑپنا دشتِ طیبہ میں جگر افگار فرقت کا
سِرھانے ان کے بسمل کے یہ بیتابی کا ماتم ہے
شہِ کوثر ترحم تشنہ جاتا ہے زیارت کا
جنہیں مَرقد میں تا حشر امّتی کہہ کر پکاروگے
ہمیں بھی یاد کر لو اُن میں صدقہ اپنی رحمت کا
وہ چمکیں بجلیاں یا رب تجلّیہائے جاناں سے
کہ چشمِ طور کا سُرمہ ہو دِل مشتاق رُویت کا
رضائے خستہ جوشِ بحرِ عصیاں سے نہ گھبرانا
کبھی تو ہاتھ آجائے گا دامن اُن کی رحمت کا
محمد کا روضہ قریب آ رہا ہے
بلندی پہ اپنا نصیب آ رہا ہے
فرشتو! یہ دے دو پیغام انکو
خبر جا کے دے دو انکو فرشتوں
کہ خادم تمھارا سعید آ رہا ہے
مدینہ ، مدینہ ، مدینہ ، مدینہ
بڑا لطف دیتا ہے نام مدینہ
وفا تم نہ دیکھو گے ہرگز کسی میں
زمانہ وہ ایسا قریب آ رہا ہے
حفاظت کرو اپنے ایمان و دیں کی
زمانہ وہ ایسا عجیب آ رہا ہے
محمد کا روضہ قریب آ رہا ہے
بلندی پہ اپنا نصیب آ رہا ہے
فرشتو! یہ دے دو پیغام انکو
خبر جا کے دے دو انکو فرشتو
کہ خادم تمھارا سعید آ رہا ہے
مدینہ ، مدینہ ، مدینہ ، مدینہ
بڑا لطف دیتا ہے نام مدینہ
تمہیں کچھ خبر ہے کہاں جا رہا ہوں
رسولِ خدا ہیں وہاں جا رہا ہوں
تمہیں کچھ خبر ہے میں کیا پا رہا ہوں
محبت کا انکی مزہ پا رہا ہوں
چلو جا کے رہنا مدینے میں اب تو
قیامت کا منظر قریب آ رہا ہے
فرشتو یہ دے دو پیغام انکو
خبر جا کے دے دو انکو فرشتوں
کہ خادم تمھارا سعید آ رہا ہے
مدینہ ، مدینہ ، مدینہ ، مدینہ
بڑا لطف دیتا ہے نام مدینہ
نگاہوں میں سلطانیت ہیچ ہو گی
جو پائے گا دل میں پیام مدینہ
سکونِ جہاں تم کہاں ڈھونڈتے ہو
سکونِ جہاں ہے نظام مدینہ
مدینہ ، مدینہ ، مدینہ ، مدینہ
بڑا لطف دیتا ہے نام مدینہ
محمد کا روضہ قریب آ رہا ہے
بلندی پہ اپنا نصیب آ رہا ہے
محمد کا روضہ قریب آ رہا ہے
بلندی پہ اپنا نصیب آ رہا ہے
فرشتو یہ دے دو پیغام انکو
خبر جا کے دے دو انکو فرشتوں
کہ خادم تمھارا سعید آ رہا ہے
مجھ میں ان کی ثناء کا سلیقہ کہاں
وہ شہہ دو جہاں وہ کہاں میں کہاں
ان کا مدحۡ سَرا خالق ِاین و آں
وہ رسولِ زماں وہ کہاں میں کہاں
ان کے دامن سے وابستہ میری نجات
اُن پہ قرباں میری حیات و مما ت
میں گنہگار وہ شافعِ عاصیاں
بے کسوں کی اماں وہ کہاں میں کہاں
وہ مدینہ نگینہ ہے جو عرش کا
وہ مدینہ بھر م جو بنا فرش کا
وہ مدینہ جہاں رحمتِ بے کراں
میں بھی پہنچوں وہاں وہ کہاں میں کہاں
ہم سراپا عدم وہ سراپا وجود
ان پہ ہر دم سلام ان پہ ہر دم درود
ہم حقیقت میں افسانہ وہ داستاں
ان کا مدح خواں وہ کہاں میں کہاں
شک نہیں اۓ ریاؔض اس میں ہر گز ذرا
میں سراپا خطا وہ سراپا عطا
نام ان کا رہے کیوں نہ وِرد ِ زباں
ہے جو تسکینِ جاں وہ کہاں میں کہاں
مجھ سا عاجز مدحِ مَمدُوحِ خدا لکھتا رہا
اور کیا لکھتا ، وَرَفعنا لک لکھتا رہا
حمد میں لکھتا رہا نعتِ حبیبِ کبریا
نعت کے شعروں میں بھی حمدِ خُدا لکھتا رہا
ذہن کو تھی جستجو الفاظ کی شایان ِ شان
میں تھا چُپ، میرا قلم صَل عَلٰی لکھتا رہا
روشنائی اشک تھی اور نوکِ مژگاں تھی قلم
اس طرح بھی ایک شب ان کی ثناء لکھتا رہا
کیوں پُکارے غیر کو اپنی مدد کے واسطے
عمر بھر جس کا قلم “یا مصطفٰے”لکھتا رہا
فکر و فن بے بس نظر آئے مجھے اس راہ میں
عشق تھا جو کیا سے کیا اور کیا سے کیا لکھتا رہا
شیوۂ جود و کرم کی بات جب نکلی ادیبؔ
مجھ پہ جو گذری میں اپنا ماجرا لکھتا رہا
مجھ پہ بھی چشم کرم اے مرے آقا کرنا
حق تو میرا بھی ہے رحمت کا تقاضہ کرنا
میں کہ ذرہ ہوں مجھے وسعت صحرا دے دے
کہ ترے بس میں ہے قطرے کو بھی دریا کرنا
میں ہوں بیکس تیرا شیوہ ہے سہارا دینا
میں ہوں بیمار تیرا کام ہے اچھا کرنا
تو کسی کو بھی اٹھاتا نہیں اپنے در سے
کہ تری شان کے شایاں نہیں ایسا کرنا
تیرے صدقے وہ اسی رنگ میں خود ہی ڈوبا
جس نے جس رنگ میں چاہا مجھے رسوا کرنا
یہ ترا کام ہے اے آمنہ کے در یتیم
ساری امت کی شفاعت تن تنہا کرنا
آل و اصحاب کی سنت مرا معیار وفا
تری چاہت کے عوض جان کا سودا کرنا
شامل مقصد تخلیق یہ پہلو بھی رہا
بزم عالم کو سجا کر تیرا چرچا کرنا
مجھ پہ محشر میں نصیرؔ ان کی نظر پڑ ہی گئی
کہنے والے اسے کہتے ہیں خدا کا کرنا
مٺو پيارو سهڻو نالو آقا جو
مٺو پيارو سهڻو نالو مدنيءَ جو
آهي الله کي پيارو جنهن جو آشان نرالو
اهڙو سهڻو مرسل اسان کي مليو
جنهن جو الله به ذڪر ڪندو آ
فرشتن کي به حڪم ڏيندو آ
مومن کي به حڪم آ
قرآن ۾ به لکيل آ
صَلِّ عَلٰی سڀئي پڙهو
ڪيڏو ته مٺڙو نالو آهي محمد ﷺ
چمي اکين تي رکان نالو محمد ﷺ
جيڪو به نانءُ کڻي ٿو دل کي سڪون ملي ٿو
مدد گار اسان کي مليو
الله حبيب کي پاڻ گهرايو
پنهجي نبي کي معراج ڪرايو
سڄڻ سير ڪندو ويو
رُڪي جبرائيل به ويو
خدا سان روبرو مليو
نیک عملاں تے مان ہے نیکو کاراں نوں
سرکار دابو ہا کافی اَوگن ہاراں نوں
گلی پاک حلیمہ دی سی ککھاں دی قدم رکھیا سرکار نے ہوگئی لکھاں دی
اَگ لاواں میں سارے محل چوباراں نوں سرکار دا بوہا کافی اَوگن ہاراں نوں
سرکار دا بوہا کافی اَوگن ہاراں نوں
جد سرکار دے شہر مدینے جاواں گا جالی پاک نوں رج رج سینے لاواں گا
لکھ لکھ تَر لے کرساں پہر ے داراں نوں سرکار دا بوہا کافی اَوگن ہاراں نوں
سرکار دا بوہا کافی اَوگن ہاراں نوں
در در جاون والے دھکے کھاون گے بے قدرے تے قدراں فیر نہ پاون گے
در دی توں سمجھالے اپنے یاراں نوں سرکار دا بوہا کافی اَوگن ہاراں نوں
سرکار دا بوہا کافی اَوگن ہاراں نوں
نور والا آیا ہے
نور لے کر آیا ہے
سارے عالم میں دیکھو کیسا نور چھایا ہے
الصلوٰۃ والسلام علیک یا رسول اللہ
الصلوٰۃ والسلام علیک یا حبیب اللہ
جب تلک یہ چاند تارے جِھلمِلاتے جائیں گے
تب تلک جشنِ ولادت ہم مناتے جائیں گے
نعتِ محبوب خدا سُنتے سناتے جائیں گے
یا رسول اللہ نعرہ ہم لگا تے جائیں گے ۔
چار جانب ہم دیے گہی کے جلاتے جائیں گے
گھر تو گھر ہم سارے محلّے کو سجاتے جائیں گے
عید میلاد النبی کی شب چراغاں کر کے ہم
قبر، نور ِ مصطفٰے سے جگمگاتے جائیں گے
تم کرو جشنِ ولادت کی خوشی میں روشنی
وہ تمہاری گورِ تیرہ جگمگاتے جائیں گے
نہ کہیں سے دور ہیں منزلیں، نہ کوئی قریب کی بات ہے
جسے چاہے اس کو نواز دے، یہ درِ حبیب کی بات ہے
جسے چاہا در پہ بلا لیا ،جسے چاہا اپنا بنا لیا
یہ بڑے کرم کے ہیں فیصلے یہ بڑے نصیب کی بات ہے
وہ بھٹک کے رَاہ میں رِہ گئی، یہ مچل کے در سے لپٹ گئی
وہ کسی امیر کی شان تھی، یہ کسی غریب کی بات ہے
میں بُروں سے لاکھ براسہی مگر اُن سے ہے مِرا واسطہ
مِری لاج رکھ لے مِرے خدا ،یہ تِرے حبیب کی بات ہے
تجھے اۓ مؔنوّر بے نوا درشہ سے چاہیے اور کیا
جو نصیب ہو کبھی سامنا تو بڑے نصیب کی بات ہے
نہ عرشِ ایمن نہ اِنّی ْ ذاہبٌ میں مہمانی ہے
نہ لطف اُدْنُ یَا اَحْمَدْ نصیب لَنْ تَرَانِی ہے
نصیبِ دوستاں گر اُن کے دَر پر مَوت آنی ہے
خدا یوں ہی کرے پھر تو ہمیشہ زِندگانی ہے
اُسی در پر تڑپتے ہیں مچلتے ہیں بلکتے ہیں
اٹھا جاتا نہیں کیا خوب اپنی ناتوانی ہے
ہر اِک دیوار و دَر پر مہر نے کی ہے جبیں سائی
نگارِ مسجد ِ اقدس میں کب سونے کا پانی ہے
تِرے منگتا کی خاموشی شفاعت خواہ ہے اُس کی
زبانِ بے زبانی ترجمان ِ خستہ جانی ہے
کھلے کیار از ِ محبوب و محب مستانِ غفلت پر
شراب قَدرَای الحق زیبِ جامِ مَنْ رَاٰنِی ہے
جہاں کی خاکروبی نے چمن آرا کیا تجھ کو
صبا ہم نے بھی اُن گلیوں کی کچھ دن خاک چھانی ہے
شہا کیا ذات تیری حق نما ہے فردِ امکاں میں
کہ تجھ سے کوئی اوّل ہے نہ تیرا کوئی ثانی ہے
کہاں اس کو شکِ جانِ جناں میں زَر کی نقاشی
اِرم کے طائرِ رنگِ پَریدہ کی نشانی ہے
ذِیابٌ فی ثِیابٌ لب پہ کلمہ دِل میں گستاخی
سلام اسلام ملحد کو کہ تسلیم زبانی ہے
یہ اکثر ساتھ اُن کے شانہ و مسواک کا رہنا
بتاتا ہے کہ دل ریشوں پہ زائد مہربانی ہے
اسی سرکار سے دنیا و دیں ملتے ہیں سائل کو
یہی دربارِ عالی کنز آمال و امانی ہے
درو دیں صورتِ ہالہ محیط ِ ماہِ طیبہ ہیں
برستا امّت ِ عاصِی پہ اب رحمت کا پانی ہے
تعالیٰ اللہ استغنا ترے در کے گداؤں کا
کہ ان کو عار فرو شوکت ِ صاحب قِرانی ہے
وہ سر گرمِ شفاعت ہیں عرق افشاں ہے پیشانی
کرم کا عطر صَندل کی زمیں رحمت کی گھانی ہے
یہ سر ہوا ور وہ خاکِ در وہ خاکِ در ہو اور یہ سر
رضا وہ بھی اگر چاہیں تو اب دل میں یہ ٹھانی ہے
نہ آسماں کو یوں سر کشیدہ ہونا تھا حضورِ پاک مدینہ خمیدہ ہونا تھا
اگر گلوں کو خزاں نا رسیدہ ہونا تھا کنار ِ خارِ مدینہ دمیدہ ہونا تھا
حضور اُن کے خلاف ادب تھی بیتابی مِری امید تجھے آرمید تجھے آرمیدہ ہونا تھا
نظارہ خاکِ مدینہ کا اور تیری آنکھ نہ اسقدر بھی قمر شوخ دیدہ ہونا تھا
کنارِ خاکِ مدینہ میں راحتیں ملتیں دلِ حزیں تجھے اشک چکیدہ ہونا تھا
پناہ دامنِ دشتِ حرم میں چین آتا نہ صبر ِ دل کو غزال ِ رمیدہ ہونا تھا
یہ کیسے کھلتا کہ انکے سوا شفیع نہیں عبث نہ اوروں کے آگے تپیدہ ہونا تھا
ہلال کیسے نہ بنتا کہ ماہِ کامل کو سلامِ ابروئے شہ میں خمیدہ ہونا تھا
لَاََ مْلئَن َّ جہَنَّم َ تھا و عدہ ٔ ازلی نہ منکروں کا عبث بدعقیدہ ہوناتھا
نسیم کیوں نہ شمیم ان کی طیبہ سے لاتی کہ صبح گل کو گریباں دریدہ ہونا تھا
ٹپکتا رنگِ جنوں عشقِ شہ میں ہر گل سے رگِ بَہا ر کو نشتر رسیدہ ہونا تھا
بجا تھا عرش پہ خاکِ مزارِ پاک کو ناز کہ تجھ سا عرش نشیں آفریدہ ہونا تھا
گزرتے جان سے اِک شور‘‘یا حبیب کے ’’ ساتھ فغاں کو نالۂ حلق بریدہ ہونا تھا
مِرے کریم گنہ زہر ہے مگر آخر کوئی تو شہد ِ شفاعت چشیدہ ہونا تھا
جو سنگ در پہ جبیں سائیوں میں تھا مِٹنا تو میری جان شرارِ جہیدہ ہونا تھا
تری قبا کے نہ کیوں نیچے نیچے دامن ہو ں کہ خاکساروں سے یاں کب کشیدہ ہونا تھا
رضا جو دل کو بنانا تھا جلوہ گاہِ حبیب
تو پیارے قیدِ خودی سے رہیدہ ہونا تھا
نمی دانم چہ منزل بود شب جائے کہ من بودم
بَہر سو رقصِ بسمل بود شب جائے کہ من بودم
پری پیکر نگارِ سَروقدِّ لالہ رخسارے
سراپا آفتِ دل بود شب جائے کہ من بودم
رقیباں گوش بر آواز ِاُو در ناز و من ترساں
سخن گفتن چہ مشکل بو د شب جائے کہ من بودم
خدا خود میر ِمجلس بود اندر لا مکاں خؔسرو
محمد ﷺشمعِ محفل بود شب جائے کہ من بودم
نگاہ ہو کہ سماعت زبان ہو کہ قلم
چلے ہیں قافلہ مدح میں قدم بقدم
کبھی زبان کا دعوٰی کہ ہم ہیں بر تر ہم
کبھی قلم کی یہ غیرت کہ ہم سے سب ہیں کم
یہ معرکہ بھی تو وجہِ حصولِ سبقت ہے
حصول سبقت مدحت بھی حُسنِ مدحت ہے
قلم نے کھینچ دیے نقش وہ کہ سب حیراں
زباں نے دل سے نکالے خطاب کے ارماں
سُنا رہا ہوں اسی معرکہ کی بات یہاں
کہ جس کے نقطے ستارے تو لفظ کا ہ کشاں
سماعتوں کو جو لے جائے حوضِ کوثر تک
سُرور جس کا رہے دل میں روزِ محشر تک
چلا ہے آج قلم سایۂ کرم لے کر
گداز دل کا ، تڑپ اور چشمِ نم لے کر
شعور وفکر کا ہاتھوں میں جامِ جم لے کر
خیالِ سرورِ کونین محترم لے کر
رواں براق کی مانند ہے سیاہی میں
فرشتے آئے ہیں افلاک سے گواہی میں
زباں کُھلی کے پھریرا کُھلا ہے رحمت کا
ہر ایک سمت ہوا غُل اذانِ اُلفت کا
نماز عشق کا اور سجدہ محبت کا
سرورِ جاں ہے جو سب کا اسی کی مدحت کا
سماعتوں کا یہ عالم کہ گوش، بر آواز
مرے رسول کی مدحت کا یوں ہوا آغاز
جُھکا کہ رب دو عالم کے پیش اپنی جبیں
کہا قلم نے کہ خلّاقِ آسمان و زمیں
رقم ہو تیرے نبی کا بیان اتنا حَسیں
کہ حرف حرف ستارہ تو نقطہ نقطہ نگیں
زمیں پہ شور تو ہلچل ہو آسمانوں میں
فرشتے چُوم کے بادھیں اسے عماموں میں
بڑے ادب سے زباں نے یہ عرض کی یار ب
ادا ہو مجھ سے بھی اپنے بیان کا منصب
مری صدا ہو رواں جیسے نُور کا مرکب
فلک پہ آئے نظر جیسے رات میں کوکب
کہ ہے نبی سمیع و بصیر کی توصیف
خبر جو غیب کی دے اس خبیر کی توصیف
کہا قلم نے کہ تحریر میری لاثانی
خیال لفظوں میں ایسا کہ یوسفِ ثانی
تمام حرف گماں یہ کہ، لعل رمانی
ہر اِک سطر ہے مری کہکشاں کی پیشانی
مری سیاہی گناہوں کو دھونے والی ہے
سیہ ضرور ہوں لیکن صفت بلالی ہے
زبان یہ بولی کہ میں آج ہوں طرب مانوس
ہے شوق رقص میں میرے بیان کا طاؤس
حَسیں خیالوں سے روشن ہیں جا بجا فانوس
سنے جو خار بیاباں تو رنگ و بو میں ڈھلے
تیرے حبیب کا وہ ذکر ہو کہ تو بھی سنے
قلم نے کہ میں ہر بیان کا ملبوس
مری خموشی ہے الفت کا نالۂ ناقوس
ثنائے سرورِ کونین کا ہوں میں فانوس
یہ خدوخال ہیں میرے ہی لوح پر منقوش
سفید پر میں سیاہی کا داغ ہوتا ہوں
پر عاشقوں کے دلوں کا چراغ ہوتا ہوں
کہا زباں نے کہ رعنائی میں نے کی ہے کشید
مری نواء سے ہی بوئے خطاب کی ہے شمید
کہیں سرودِ بلاغت، کہیں فصیح نشید
کھلیں نہ پر مرے، پرواز کیا کرے گی شنید
ہر اِک زماں میں فضائیں یتیم، میرے بغیر
کلام کس کو سنائیں کلیم میرے بغیر
سنا جو روزِ بیانِ مدیحِ شاہِ اُمم
جھکا ادب سے ہمیشہ کی طرھ فرق قلم
رقم طراز ہوا، اے خدا! تیری ہے قسم
ازل سے وصفِ نگارِ حضور ہوں پیہم
گناہ گار نہیں ڈوب کر سیاہی میں
ہر ایک نعت ہے میری اسی گواہی میں
میں کھینچ لاؤں گا فن کا ہر اِک سطر میں کمال
حصارِ خط میں حسینانِ رنگ و بو کا جمال
لکھوں گا جب میں سلیمان نعت کا احوال
ہمیں بھی اذن دو ، بلقیس ِ فن کرے گی سوال
نبی کا فیض ہے ، فیض و کمال پر ہے گرفت
رہِ فراز نہ دوں گا، خیال پر ہے گرفت
ازل سے تا بہ ابد لوح پر نوشتہ میں
کہیں پہ حال ہوں اور ہوں کہیں گزشتہ میں
ہوں دستِ کاتبِ تقدیر میں نشستہ میں
ثناء کے وصف سے ہم رتبہ فرشتہ میں
میں اپنے رنگ میں رنگِ غلاف کعبہ ہوں
رُخ ِ بلال و گلیمِ رسولِ بطحا ہوں
یہ معرکہ جو سنا، غیب سے صدا آئی
ہر اِک چمن میں انہیں کی ہے جلوہ فرمائی
فقط قلم ہی نہیں ان کا ایک شیدائی
فقط زباں کو ہی حاصل نہیں ہے یکتائی
شجر حجر ہوں مہ و مہر موں زبان و حروف
وجود جن کو ملا سب ثناء میں ہیں مصروف
زباں کو نطق دیا کُل کی آبرو کے لیے
میرے حبیب کو آنا تھا گفتگو کے لیے
قلم بنا اسی تحریرِ مشکِ بو کے لیے
ہر اِک زمانہ میں اسلام کی نمو کے لیے
رسا ہو آدم خاکی کہ دل میں تم دونوں
میرے حبیب کی جو یاد میں گُم دونوں
نعمتیں بانٹتا جس سمت وہ زیشان گیا
ساتھ ہی منشیِ رحمت کا قلمندان گیا
لے خبر جلد کہ غیروں کی طرف دھیان گیا
میرے مولیٰ میرے آقا تیرے قربان گیا
آہ وہ آنکھ کہ ناکام تمنّا ہی رہی
ہائے وہ دل جو ترے در سے پر ارمان گیا
دل ہے وہ دل جو تری یاد سے معمور رہا
سر ہے وہ سر جو ترے قدموں پہ قربان گیا
انھیں جانا انھیں مانا نہ رکھا غیر سے کام
للہ الحمد میں دنیا سے مسلمان گیا
اور تم پرمرے آقا کی عنایت نہ سہی
نجدیو! کلمہ پڑھانے کا بھی احسان گیا
آج لے ان کی پناہ آج مدد مانگ ان سے
پھر نہ مانیں گے قیامت میں اگر مان گیا
اُف رے منکر یہ بڑھا جوشِ تعصّب آخر
بھیڑ میں ہاتھ سے کم بخت کے ایمان گیا
جان و دل ہوش و خرد سب تو مدینے پہنچے
تم نہیں چلتے رضا سارا تو سامان گیا
نسیما !جانبِ بطحا گزرکن
زِ ا َحوالم محمدﷺ ر اخبر کن
توئی سلطانِ عالم یا محمد!ﷺ
زروئے لطف سوئے من نظر کن
بسر ایں جانِ مشتاقم در آں جا
فدائے روضۂ خیر البشر کن
مشرف گرچہ شد جاؔمی ز لطفش
خدایا !ایں کرم بارِ دگر کن
نبیوں کے نبی
اُمّی لقبی
کونین کے والی
میں تیرا سوالی
کر مجھ کو عطا
تھوڑی سی ضیا
تارے تیرے موتی
چندا تیری تھالی
یہ کس نے کہا
سایہ ہی نہ تھا
مجھ کو نظر آیا
ہر سُو تیرا سایا
جو تیرا ہوا
رب اس کا ہوا
پائی ہے خُدائی
جس نے تجھے پایا
اے سَرودِ دیں
شب جس کی نہیں
بانٹے وہ سویرا
کملی تیری کالی
ساقی میرا تو
بھر میرا سُبو
دریا ہوں کہ جھیلیں
سب تیری سبیلیں
خورشیدِ حرا
ٹھوکر سے گِرا
آہوں کی طنابیں
دُوری کی فصیلیں
فردوس میرا
روضہ ہے تیرا
پلکوں میں پرو دے
دِیوار کی جالی
محبوبِ خُدا
اے نُورِ ھُدا
چمکے میرا سینہ
بن جائے مدینہ
کرتی ہے انا
اب تیری ثنا
اس پار لگا دے
لفظوں کا سفینہ
رکھ میرا بھرم
دے شاہِ اُمم
حسّان کی نظریں
آوازِ بلالی
بس ایک یہی
حسرت ہے میری
دل موت سے پہلے
کچھ تجھ سے بھی کہ لے
بھڑکے جو طلب
ہو درد عجب
اب تیرا مظفر
یادوں سے نہ بہلے
رحمت کی نظر
ہو جائے اگر
بن جائے گلستاں
سُوکھی ہوئی ڈالی
نبی کا نام جب میرے لبوں پر رقص کرتا ہے
لہو بھی میرے شریانوں کے اندر رقص کرتا ہے
میری بے چین آنکھوں میں جب وہ تشریف لاتے ہیں
مصور ان کے دامن سے لپٹ کر رقص کرتا ہے
وہ صحراؤں میں بھی پانی پلا دیتے ہیں پیاسوں کو
کہ ان کی انگلیوں میں بھی سمندر رقص کرتا ہے
پڑے ہیں نقش پائے مصطفیٰؐ کے ہار گردن میں
جبھی تو روح لہراتی ہے پیکر رقص کرتا ہے
زمین و آسماں بھی اپنے قابو میں نہیں رہتے
تڑپ کر جب محمد کا قلندر رقص کرتا ہے
لگی ہے بھیڑ اس کے گرد یہ کیسی فرشتوں کی
یہ کس کا نام لے لے کر مظفرؔ رقص کرتا ہے
نبی سرورِ ہر رسول و ولی ہے نبی راز دارِ مَعَ اللہ لِی ہے
وہ نامی کہ نامِ خُدا نام تیرا رؤف و رحیم و علیم و علی ہے
ہے بیتاب جس کے لیے عرشِ اعظم وہ اس رہر وِ لا مکاں کی گلی ہے
نکیرین کرتے ہیں تعظیم میری فدا ہو کے تجھ پر یہ عزّت ملی ہے
طلاطم ہے کشتی پہ طوفانِ غم کا یہ کیسی ہوائے مخالف چلی ہے
نہ کیوں کر کہوں یَا حَبِیْبی اَغِثْنِیْ اِسی نام سے ہر مصیبت ٹلی ہے
صَبا ہے مجھے صر صر ِ دشتِ طیبہ اسی سے کلی میرے دل کی کِھلی ہے
تِرے چاروں ہمدم ہیں یک جان یک دل ابو بکر فاروق عثمان عَلی ہے
خدا نے کیا تجھ کو آگاہ سب سے دو عالم میں جو کچھ خفی و جلی ہے
کروں عرض کیا تجھ سے اے عالمِ السِّر کہ تجھ پر مری حالتِ دل کھلی ہے
تمنّا ہے فرمائیے روزِ محشر یہ تیری رہائی کی چٹھی ملی ہے
جو مقصد زیارت کا برآئے پھر تو نہ کچھ قصد کیجیے یہ قصدِ دلی ہے
ترے درکا دَر باں ہے جبریل اعظم ترامدح خواں ہر نبی و ولی ہے
شفاعت کرے حشر میں جو رضا کی
سِوا تیرے کس کو یہ قدرت ملی ہے
نازِ دوزخ کو چمن کر دے بہارِ عارض
ظلمتِ حشر کو دِن کر دے نہارِ عارض
میں تو کیا چیز ہوں خود صاحب ِ قرآں کو شہا
لاکھ مصحف سے پسند آئی بہارِ عارض
جیسے قرآن ہے وِرد اس گلِ محبوبی کا
یوں ہی قرآں کا وظیفہ ہے وقارِ عارض
گرچہ قرآں ہے نہ قرآں کی برابر لیکن
کچھ تو ہے جس پہ ہے وہ مدح نگارِ عارض
طور کیا عرش جلے دیکھ کے وہ جلوۂ گرم
آپ عارض ہو مگر آئینہ دارِ عارِض
طرفہ عالم ہے وہ قرآن اِدھر دیکھیں اُدھر
مصحفِ پاک ہو حیران بہارِ عارض
ترجمہ ہے یہ صفت کا وہ خود آئینہ ذات ہے
کیوں نہ مصحف سے زیادہ ہو وقارِ عارض
جلوہ فرمائیں رخِ دل کی سیاہی مٹ جائے
صبح ہو جائے الٰہی شبِ تارِ عارض
نامِ حق پر کرے محبوب دل و جاں قرباں
حق کرے عرش سے تافرش نثارِ عارض
مشک بو زلف سے رُخ چہرہ سے بالوں میں شعاع
معجزہ ہے حلبِ زلف و تتارِ عارض
حق نے بخشا ہے کرم نذرِ گدایاں ہو قبول
پیارے اک دِل ہے وہ کرتے ہیں نثار ِ عارض
آہ بے مایگی دل کہ رضائے محتاج
لے کر اِک جان چلا بہر نثارِ عارض
وہ مطلع پیش کرتا ہوں میں توصیفِ محمد میں
جو نازل ہو رہا ہے قلب پر، انوار کی زد میں
بیاں کیسے ہو کتنا حُسن ہے ہر خال میں خد میں
جمالِ حق تعالیٰ جب ہوا موزوں اسی قد میں
نہ ہو کیوں حمد پر کرسی نشیں اِک میم شہ بن کر
کہ ایسا دلربا کوئی نہیں تھا شہرِ أبجد میں
ثنائے مصطفٰے میں یوں مجھے محسوس ہوتا ہے
کھڑا ہوں خوشبوؤں اور رنگ کے بارانِ بیحد میں
کشادِ لب خداوند یہی دو لفظ ہوں میرے
اِک انکے لطف بے حد پر اِک ان کے حُسن بیحد میں
قضا آئے دیارِ مصطفٰے میں مدح خوانوں کی
کفن میں لاش ہو، اور لاش ہو دربارِ احمد میں
جنازے میں ہوں قدسی، پیشِ قدسی مصطفٰے خود ہوں
قصیدہ پڑھ رہی ہو لاش میری شہ کی آمد میں
پڑھیں صَل عَلٰی اِرْحَم لَنَا اِرْحَم لَنَا سارے
اتاریں جب ادیبِ خوش بیاں کو لوگ مرقد میں
وہ کمال ِ حسنِ حضور ہے کہ گمانِ نقص جہاں نہیں
یہی پھول خار سے دور ہے یہی شمع ہے کہ دھوان نہیں
دو جہاں کی بہتریاں نہیں کہ امانی ِ ٔ دل وجاں نہیں
کہو کیا ہے وہ جو یہاں نہیں مگر اک نہیں کہ وہ ہاں نہیں
میں نثار تیرے کلام پر ملی یوں تو کِس کو زباں نہیں
وہ سخن ہے میں سخن نہ ہو وہ بیاں ہے جس کا بیاں نہیں
بخدا خدا کا یہی ہے در نہیں اور کوئی مفر مقرر
جو وہاں سے ہو یہیں آکے ہو جو یہاں نہیں تو وہاں نہیں
کرے مصطفٰے اہانتیں کھلے بندوں اس پہ یہ جرأتیں
کہ میں کیا نہیں ہوں محمدی ! ارے ہاں نہیں ارے ہاں نہیں
ترے آگے یوں ہیں دبے لچے فصحا عرب کے بڑے بڑے
کوئی جانے منھ میں زباں نہیں نہیں بلکہ جسم میں جاں نہیں
وہ شرف کہ قطع ہیں نسبتیں وہ کرم کہ سب سے قریب ہیں
کوئی کہدو یاس و امید سے وہ کہیں نہیں وہ کہاں نہیں
یہ نہیں کہ خُلد نہ ہو نِکو وہ نِکوئی کی بھی ہے آبرو
مگر اے مدینہ کی آرزو جسے چاہے تو وہ سماں نہیں
ہے انہیں کے نور سے سب عیاں ہے انہیں کے جلوہ میں سب نہاں
بنے صبح تابش مہر سے رہے پیش مہر یہ جاں نہیں
وہ ہی نورِ حق وہی ظلِّ رب ہے انہیں سے سب ہے انہی کا سب
نہیں ان کی مِلک میں آسماں کہ زمیں نہیں کہ زماں نہیں
وہی لامکاں کے مکیں ہوئے سرِ عرش تخت نشیں ہوئے
وہ نبی ہے جس کے ہیں یہ مکاں وہ خدا ہے جس کا مکاں نہیں
سرِ عرش پر ہے تِری گزر دلِ فرش پر ہے تِری نظر
ملکوت و ملک میں کوئی شے نہیں وہ جو تجھ پہ عیاں نہیں
کروں تیرے نام پہ جاں فدا نہ بس ایک جاں دو جہاں فدا
دو جہاں سے بھی نہیں جی بھرا کروں کیا کروروں جہاں نہیں
ترا قد تو نادرِ دہرے کوئی مِثل ہو تو مثال دے
نہیں گل کے پودوں میں ڈالیاں کہ چمن سر وچماں نہیں
نہیں جس کے رنگ کا دوسرا نہ تو ہو کوئی نہ کبھی ہوا
کہو اس کو گل کہے کیا بنی کہ گلوں کا ڈھیر کہاں نہیں
کروں مدح اہلِ دول رضا پڑے اِس بلا میں مِری بلا
میں گدا ہوں اپنے کریم کا مِرا دین پارۂ ناں نہیں
وہ سرورِ کشورِ رسالت جو عرش پر جلوہ گر ہوئے تھے
نئے نرالے طرب کے سَاماں عرب کے مہماں کے لئے تھے
وہاں فلک پر یہاں زمیں میں رچی تھی شادی مچی تھی دھومیں
اُدھر سے انوار ہنستے آتے اِدھر سے نفحات اُٹھ رہے تھے
اُتار کے اُن کے رخ کا صدقہ یہ نور کا بٹ رہاتھا باڑا
کہ چاند سورج مچل مچل کر جبیں کی خیرات مانگتے تھے
وہی تو اب تک چھلک ہرا ہے وہی تو جوبن ٹپک رہا ہے
نہانے میں جو گرا تھا پانی کٹورے تاروں نے بھر لئے تھے
بچا جو تلو وں کا ان کے دھوون بنا وہ جنت کا رنگ و روغن
جنھوں نے دولھا کی پائی اُترن وہ پھول گلزارِ نور کے تھے
اُٹھے جو قصرِ دنیٰ کے پردے کوئی خبر دے تو کیا خبر دے
وہاں تو جا ہی نہیں دوئی کی نہ کہ کہ وہ بھی نہ تھے ارے تھے
محیط و مرکز میں فرق مشکل رہے نہ فاصل خطوط واصل
کمانیں حیرت میں سر جھکائے عجیب چَکر میں دائرے تھے
حجاب اُٹھنے میں لاکھوں پردے ہر ایک پردے میں لاکھوں جلوے
عجب گھڑی تھی کہ دصل و فرقت جنم کہ بچھڑے گلے ملے تھے
وہی ہے اوّل وہی ہے آخر وہی ہے باطن وہی ہے ظاہر
اُسی کے جلوے اُسی سے ملنے اُسی سے اس کی طرف گئے تھے
کمان امکاں کے جھوٹے نقطوں تم اّول آخر کے پھیر میں ہو
محیط کی چال سے تو پوچھو کدھر سے آئے کدھر گئے تھے
نبیِ رحمت شفیعِ اُمت رضؔا پہ للہ ہو عنائت
اُسے بھی ان خلعتوں سے حصّہ جو خاص رحمت کے واں بٹے تھے
ثنائے سرکار ہے وظیفہ قبول سَرکار ہے تمنا
نہ شاعری کی ہوس نہ پروا ردی تھی کیا کیسے قافیے تھے
وہ سوئے لالہ زار پھرتے ہیں تیرے دن اے بہار پھرتے ہیں
جو ترے در سے یار پھر تے ہیں در بدر یوں ہی خوار پھرتے ہیں
آہ کل عیش تو کیے ہم نے آج وہ بے قرار پھرتے ہیں
ان کے ایما سے دونوں باگوں پر خیلِ لیل و نہار پھر تے ہیں
ہر چَراغ ِ مزار پر قدسی کیسے پروانہ وار پھرتے ہیں
اس گلی کا گدا ہوں میں جس میں مانگتے تاجدار پھرتے ہیں
جان ہیں جان کیا نظر آئے کیوں عَدو گردِ غار پھرتے ہیں
پھول کیا دیکھوں میری آنکھوں میں دشتِ طیبہ کے خار پھرتے ہیں
لاکھوں قدسی ہیں کام خدمت پر لاکھوں گردِ مزار پھرتے ہیں
وردیاں بولتے ہیں ہر کارے پہرہ دیتے سوار پھرتے ہیں
رکھیے جیسے ہیں خانہ زاد ہیں ہم مول کے عیب دار پھرتے ہیں
ہائے غافل وہ کیا جگہ ہے جہاں پانچ جاتے ہیں چار پھرتے ہیں
بائیں رستے نہ جا مسافِر سن مال ہے راہ مار پھرتے ہیں
جاگ سنسان بن ہے رات آئی گرگ بہرِ شکار پھرتے ہیں
نفس یہ کوئی چال ہے ظالم جیسے خاصے بِجار پھرتے ہیں
کوئی کیوں پوچھے تیری بات رضا
تجھ سے کتنے ہزار پھرتے ہیں
وطن میرا مدینہ ہے مجھے مت بے وطن کہنا
مجھے آواز جب دینا ، غلامِ پنجتن کہنا
دُعائیں پنجتن کے نام سے خالی نہیں جاتیں
نبی، خیرا لنساء ،شبیر، حیدر اور حسن کہنا
پیام آقا کو دے دینا صبا! سارے غلاموں کا
بہت تڑپا رہی ہے اب مدینے کی لگن کہنا
تمنا ہے فدا ہو جاؤں مکے اور مدینے پر
بندھے احرام جو میرے، اُسے میرا کفن کہنا
فضا !سورج کو سمجھانا یہی تو شہر ِ آقا ہے
مدینے میں ادب کے ساتھ اترے ہر کرن کہنا
کماؔل الفاظ جو آقا کی نعتوں میں سجائے ہیں
حسیں ہیں اس قدر سارے، انہیں لعل ِیمن کہنا
وَصَلَّ اللہ عَلٰی نورٍٍکز و شُد نورِ ہا پیدا
زمیں از حُبّ اُو ساکن، فلک در عشق اُو شیدا
از ودر ہر تنے ذوقے وزودر ہر دِلے شوقے
ازوبر ہر زباں ذکرے وز ودرہر سرِ سودا
محمد احمد و محمود وے را خالقش بستود
کزوشد بو د ہر موجود زوشد دیدہ ہا بینا
اگر نامِ محمد ﷺرا نیا وردِ شفیع آدم
نہ آدم یا فتے توبہ نہ نوح از غرق نجینا
نہ ایوب از بلاراحت نہ یوسف شوکت و حشمت
نہ عیسٰی آں مسیحا دم نہ موسیٰ آں ید بیضا
دو چشم نرگینش را کہ ماز اغ البصر خوانند
دو زلف عنبرینش رآلہ والیل اذا یغشٰی
زسرِّ سینہ اش جاؔمی الم نشرح لکَ برخواں
زمعرا جش چہ می پرسی کہ سبحان الذی اسریٰ
وصفِ رُخ اُن کیا کرتے ہیں شرح والشمس و الضحٰے کرتے ہیں
اُن کی ہم مدح و ثنا کرتے ہیں جن کو محمود کہا کرتے ہیں
ماہِ شق گشتہ کی صورت دیکھو کا نپ کر مہر کی رجعت دیکھو
مصطفٰے پیارے کی قدرت دیکھو کیسے اعجاز ہوا کرتے ہیں
تو ہے خورشید رسالت پیارے چھپ گئے تیری ضیا ء میں تارے
انبیاء اور ہیں سب مہ پارے تجھ سے ہی نور لیا کرتے ہیں
اے بلا بیخردی کفّار رکھتے ہیں ایسے کے حق میں انکار
کہ گواہی ہو گر اُس کو دَر کا ر بے زباں بول اٹھا کر تے ہیں
اپنے مولٰی کی ہے بس شان عظیم جانور بھی کریں جن کی تعظیم
سنگ کرتے ہیں ادب سے تسلیم پیڑ سجدے میں گرا کرتے ہیں
رفعت ذکر ہے تیرا حِصّہ دونوں عالم میں ہے تیرا چرچا
مرغِ فردوس پس از حمدِ خدا تیری ہی مدح و ثنا کرتے ہیں
انگلیاں پائیں وہ پیاری جن سے دریائے کرم ہیں جاری
جوش پر آتی ہے جب غم خواری تشنے سیراب ہوا کرتے ہیں
ہاں یہیں کرتی ہیں چڑیاں فریاد ہاں یہیں چاہتی ہے ہرنی داد
اِسی در پر شترانِ ناشاد گلۂ رنج و عنا کرتے ہیں
آستیں رحمتِ عالم الٹے کمرِ پاک پہ دامن باندھے
گرنے والوں کو چَہ دوزخ سے صاف الگ کھینچ لیا کرتے ہیں
جب صبا آتی ہے طیبہ سے اِدھر کِھلکِھلا پڑتی ہیں کلیاں یکسر
پھول جامہ سے نِکل کر باہر رُخِ رنگیں کی ثنا کرتے ہیں
تو ہے وہ بادشہ کون و مکاں کہ ملک ہفت فلک کے ہر آں
تیرے مولٰی سے شہِ عرش ایواں تیر ی دولت کی د عا کرتے ہیں
جن کے جلوے سے اُحد ہے تاباں معدنِ نور ہے اس کا داماں
ہم بھی اس چاند پہ ہو کر قرباں دلِ سنگیں کی جِلا کرتے ہیں
کیوں نہ زیبا ہو تجھے تا جوری تیرے ہی دم کی ہے سب جلوہ گری
ملک و جنّ و بشر حور و پری جان سب تجھ پہ فدا کرتے ہیں
ٹوٹ پڑتی ہیں بلائیں جن پر جن کو ملتا نہیں کوئی یاور
ہر طرف سے وہ پُر ارماں پھر کر اُن کے دامن میں چھپا کرتے ہیں
لب پر آجاتا ہے جب نام جناب منہ میں گھل جاتا ہے شہدِ نا یاب
وجد میں ہو کے ہم اے جاں بیتاب اپنے لب چوم لیا کرتے ہیں
لب پہ کس منہ سے غمِ الفت لائیں کیا بلا دِل ہے الم جس کا سنائیں
ہم تو ان کے کفِ پا پر مٹ جائیں اُن کے دَر پر جو مٹا کرتے ہیں
اپنے دل کا ہے انہیں سے آرام سونپے ہیں اپنے انہیں کو سب کام
لو لگی ہے کہ اب اس دَر کے غلام چارۂ دردِ رضا کرتے ہیں
واہ کیا جودو کرم ہے شہہ بطہا تیرا
نہیں سنتا ہی نہیں مانگنے والا تیرا
فرش والے تیری شوکت کا علو کیا جانے
خسروا عرش پہ اڑتا ہے پھریرا تیرا
آسماں خوان زمیں خوان زمانہ مہمان
صاحب خانہ لقب کس کا تیرا تیرا
میں تو مالک ہی کہوں گا کہ مالک کہ حبیب
یعنی محبوب محب میں نہیں میرا تیرا
تیرے ٹکڑوں سے پلے غیر کی ٹھوکر پہ نہ ڈال
جھڑکیاں کھایئں کہاں چھوڑ کے صدقہ تیرا
تیرے قدموں میں جو ہیں غیر کا منہ کیا دیکھیں
کون نظروں پہ چڑے دیکھ کہ تلوہ تیرا
چور حاکم سے چھپا کرتے ہیں یا اس کے خلاف
تیرے دامن میں چھپے چور انوکھا تیرا
تیری سرکار میں لاتا ہے رضا اس کو شفیع
جو میرا غوث ہے اور لاڈلہ بیٹا تیرا
واہ کیا جود و کرم ہے شہ بطحیٰ تیرا
کوئی دنیائے عطا میں نہیں ہمتا تیرا
ہو جو حاتم کو میسر یہ نظارا تیرا
کہہ اٹھے دیکھ کے بخشش میں یہ رتبہ تیرا
واہ کیا جود و کرم ہے شہ بطحیٰ تیرا
نہیں سنتا ہی نہیں مانگنے والا تیرا
کچھ بشر ہونے کے ناتے تجھے خود سا جانیں
اور کچھ محض پیامی ہی خدا کا جانیں
اِن کی اوقات ہی کیا ہے کہ یہ اتنا جانیں
فرش والے تری عظمت کا علو کیا جانیں
خسروا عرش پہ اڑتا ہے پھریرا تیرا
جو تصور میں ترا پیکر زیبا دیکھیں
روئے والشمس تکیں ، مطلع سیما دیکھیں
کیوں بھلا اب وہ کسی اور کا چہرا دیکھیں
تیرے قدموں میں جو ہیں غیر کا منہ کیا دیکھیں
کون نظروں پہ چڑھے دیکھ کے تلوا تیرا
مجھ سے ناچیز پہ ہے تیری عنایت کتنی
تو نے ہر گام پہ کی میری حمایت کتنی
کیا بتاؤں تری رحمت میں ہے وسعت کتنی
ایک میں کیا مرے عصیاں کی حقیقت کتنی
مجھ سے سو لاکھ کو کافی ہے اشارہ تیرا
کئی پشتوں سے غلامی کا یہ رشتہ ہے بحال
یہیں طفلی و جوانی کے بِتائے ماہ و سال
اب بڑھاپے میں خدارا ہمیں یوں در سے نہ ٹال
تیرے ٹکڑوں پہ پلے غیر کی ٹھوکر پہ نہ ڈال
جھڑکیاں کھائیں کہاں چھوڑ کے صدقہ تیرا
غمِ دوراں سے گھبرائیے ، کس سے کہیے
اپنی الجھن کسے بتلائیے ، کس سے کہیے
چیر کر دل کسے دکھلائیے ، کس سے کہیے
کس کا منہ تکیے ، کہاں جائیے ، کس سے کہیے
تیرے ہی قدموں پہ مٹ جائے یہ پالا تیرا
نذرِ عشاقِ نبی ہے یہ مرا حرفِ غریب
منبرِ وعظ پر لڑتے رہیں آپس میں خطیب
یہ عقیدہ رہے اللہ کرے مجھ کو نصیب
میں تو مالک ہی کہوں گا کہ ہو مالک کے حبیب
یعنی محبوب و محب میں نہیں میرا تیرا
خوگرِ قربت و دیدار پہ کیسی گزرے
کیا خبر اس کے دلِ زار پہ کیسی گزرے
ہجر میں اس ترے بیمار پہ کیسی گزرے
دور کیا جانیے بدکار پہ کیسی گزرے
تیرے ہی در پہ مرے بیکس و تنہا تیرا
تجھ سے ہر چند وہ ہیں قدر و فضائل میں رفیع
کر نصیر آج مگر فکرِ رضا کی توسیع
پاس ہے اس کے شفاعت کا وسیلہ بھی وقیع
تیری سرکار میں لاتا ہے رضا اس کو شفیع
جو مرا غوث ہے اور لاڈلا بیٹا تیرا
نعمتیں بانٹتا جس سمت وہ ذیشان گیا
یہ وہ سچ ہے کہ جسے ایک جہاں مان گیا
در پہ آیا جو گدا ، بن کے وہ سلطان گیا
اس کے اندازِ نوازش پہ میں قربان گیا
نعمتیں بانٹا جس سمت وہ ذی شان گیا
ساتھ ہی منشیِ رحمت کا قلمدان گیا
تجھ سے جو پھیر کے منہ ، جانب قران گیا
سرخرو ہو کے نہ دنیا سے وہ انسان گیا
کتنے گستاخ بنے ، کتنوں کا ایمان گیا
لے خبر جلد کہ اوروں کی طرف دھیان گیا
مرے مولی ، مرے آقا ، ترے قربان گیا
محو نظارہ سرِ گنبد خضری ہی رہی
دور سے سجدہ گزارِ درِ والا ہی رہی
روبرو پا کے بھی محرومِ تماشا ہی رہی
آہ ! وہ آنکھ کہ ناکامِ تمنا ہی رہی
ہائے وہ دل جو ترے در سے پر ارمان گیا
تیری چاہت کا عمل زیست کا منشور رہا
تیری دہلیز کا پھیرا ، میرا دستور رہا
یہ الگ بات کہ تو آنکھ سے مستور رہا
دل ہے وہ دل جو تری یاد سے معمور رہا
سر وہ سر ہے جو ترے قدموں پہ قربان گیا
دوستی سے کوئی مطلب ، نہ مجھے بیر سے کام
ان کے صدقے میں کسی سے نہ پڑا خیر سے کام
ان کا شیدا ہوں ، مجھے کیا حرم و دیر سے کام
انہیں مانا ، انہیں جانا ، نہ رکھا غیر سے کام
للہ الحمد میں دنیا سے مسلمان گیا
احترامِ نبوی داخلِ عادت نہ سہی
شیرِ مادر میں اصیلوں کی نجابت نہ سہی
گھر میں آداب رسالت کی روایت نہ سہی
اور تم پر مرے آقا کی عنایت نہ سہی
نجدیو! کلمہ پڑھانے کا بھی احسان گیا
بام مقصد پر تمناؤں کے زینے پہنچے
لبِ ساحل پہ نصیر ان کے سفینے پہنچے
جن کو خدمت میں بلایا تھا نبی نے ، پہنچے
جان و دل ، ہوش و خرد ، سب تو مدینے پہنچے
تم نہیں چلتے رضا سارا تو سامان گیا
مینہہ برسدا ویکھیا انوار دا
ذِکر ہو وے جس جگہ سر کار دا
کون سی نی؟ دس حلیمہ ؓ کون سی ؟
بکریاں جو تیریاں سی چار دا
ویکھ لیندا جو مِرے محبوب نوں
مال تے کی جان اپنی وار دا
ہین زلفاں سوہنیاں ، من موہنیاں
نور وِچّوں دی ہے لَشکاں مار دا
ہے بڑا خوش بخت جالی نال جو
لا کے سینے تے کلیجہ ٹھا ر دا
وِچ صحابہ بیٹھدے سَن جَد حضور
کی سماں ہو سی بھلا دربار دا
لگ پتہ جائے گا ناؔصر حشر نوں
مُل پوِے گا جَد ترے اشعار دا
ہے یہ دل کی صدا یا نبی یا نبی
ہو عطا پر عطا یا نبی یانبی
جس گھڑی روح تن سے جدا ہو میری
ہو وظیفہ میرا یانبی یا نبی
آپ ہی بخشوائیں گے محشر کے دن
ہوں بھلا یا بُرا یا نبی یانبی
آئیں جس دم فِرِشتے میری قبر میں
ہو لبوں پہ ثنا یا نبی یا نبی
مصطفٰےﷺکا اگر چاہتے ہو کرم
مل کے کہہ دو ذرا یا نبی یا نبی
رَدّ کبھی نہ دعا ہو گی اس شخص کی
دے گا جو واسطہ یا نبی یا نبی
اس معینِ حزیں پہ کرم کیجیے
دَر گزر ہو خطا یا نبی یا نبی
ہے ذکرِ سرورِ سدا جہاں میں رفیق
یہی رہا ہے ہر اِک مشکل امتحان میں رفیق
اگر حضور ﷺنہ ہوتے تو ہم غریبوں پر
نہ اِس جہاں میں کوئی تھا نہ اُس جہاں میں رفیق
ہمیں تو حشر میں خورشید نے بھی ٹھنڈک دی
کہ تھی رسول کی رحمت جو درمیاں میں رفیق
کہاں کہاں میرے آقا نے گھر بنایا تھا
رہے وہ بن کے ہر ایک قلب دشمنان میں رفیق
بھنور ہو ، مو ج ہو ، طوفاں ہو ، پھر بھی ذکرِ نبی
غم و الم کے رہا بحرِ بیکراں میں رفیق
بلند کیوں نہ ہو اشعار کا مِرے رتبہ
میرے سخن کے ہیں ، وہ کوچۂ زباں میں رفیق
ادیبؔ ، نعت کا ہر لفظ ہے دُرِّ نایاب
دُرِّ یتیم کا احسان ہے درمیاں میں رفیق
ہوگئے ہیں دور سب رنج والم
جب ہوا سرکار کا مجھ پر کرم
ہے یقیں دربار میں اپنے مجھے
ایک دن بلوائیں گے شاہِ امم
ہے جسے نسبت میرے سرکار سے
پاس اُس کے کیوں بھلا آئینگے غم
بس یہی ہے التجا محشر کے دن
آپ رکھ لینا غلاموں کا بھر م
جل اُٹھیں گے آرزؤں کے دیے
جب درِ سرکار پہ جائیں گے ہم
آرزو اب ہے یہی میری معیؔن
اُن کے روضے پہ نکل جائے یہ دم
ہو کرم سرکار اب تو ہو گئے ہیں غم بیشمار
جان و دل تم پر فیدا اۓ دہ جہاں کے تاجدار
میں اکیلا اور مسائل زندگی کے بیشمار
آپ ہی کچھ کیجیے نہ اے ٔ شاہ ِ عالی وقار
یاد عطا ہے طواف ِ خانہ ٔ کعبہ مجھے
اور لپٹنا ملتزم سے والہانہ بار بار
سنگ ِ اسود چوم کر ملتا مجھے کیف و سُرور
چین پاتا دیکھ کر دل مستجاب و متجار
گمبد ِ خضریٰ کے جلوے اور وہ افطاریاں
یاد آتیں ہیں رمضان ِ طیبہ کی بہار
یا رسول اللہ ﷺ سن لیجیے میری فریاد کو
کون ہے جو کہ سنے تیرے سوا میری پکار
غم زدہ یوں نہ ہوا ہوتا عبید قادری
اس برس بھی دیکھتا گر سبز گمبد کی بھار
ہمیں اپنا وہ کہتے ہیں ، محبت ہو تو ایسی ہو
ہمیں نظروں میں رکھتے ہیں عنایت ہو تو ایسی ہو
وہ پتھر مارنے والوں کو دیتے ہیں دُعا اکثر
لاؤ کوئی مثال ایسی، شرافت ہو تو ایسی ہو
اشارہ جب وہ فرمائے ، تو پتھ ر بول اُٹھےی ہیں
نبوت ہو تو ایسی ہو ، رِسالت ہو تو ایسی ہو
وہاں مجرم کو ملتی ہیں پنا ہیں بھی جزائیں بھی
مدینے میں جو ل گتی ہے عدالت ہو تو ایسی ہو
بنا دیتے ہیں سائل کو سکندر وہ زمانے کا
کریمی ہو تو ایسی ہو، سخاوت ہو تو ایسی ہو
محمدﷺ کی ولادت پر ہوئے سب کو عطا بیٹے
اِسے میلاد کہتے ہیں ، ولادت ہو تو ایسی ہو
زمین وآسماں والے بھی آتے ہیں غلامانہ
حقیقت ہے یہ ہی ناؔصرحکومت ہو تو ایسی ہو
ہم کو بلانا یا رسول اللہ
ہم کو بلانا یا رسول اللہ
کبھی تو سبز گنبد کا اُجالا ہم بھی دیکھیں گے
ہمیں بلائیں گے آقا ، مدینہ ہم بھی دیکھیں گے
تڑپ اُٹھے گا یہ دل، یا دھڑکنا بھول جائیگا
دلِ بسمل کا اس در پر ، تماشہ ہم بھی دیکھیں گے
ادب سے ہاتھ باندھے ان کے روضہ پرکھڑے ہونگے
سنہری جالیوں کا یوں نظارا ، ہم بھی دیکھیں گے
درِ دولت سے لوٹایا نہیں جاتا کوئی خالی
وہاں خیرات کا بٹنا خدایا ہم بھی دیکھیں گے
گزارے رات دن اپنے اسی اُمید پر ہم نے
کسی دن کو جمالِ روزِ زیبا ہم بھی دیکھیں گے
دمِ رُخصت قدم من بھر کے ہی محسوس کرتے ہیں
کِسے ہے جا کے لوٹنے کا یارا ہم بھی دیکھیں گے !؟
ہم کو اپنی طلب سے سوا چاہیے
آپ جیسے ہیں ویسی عطا چاہیے
کیوں کہوں یہ عطا وہ عطا چاہیے؟
ان کو معلوم ہے ہم کو کیا چاہیے
اِک قدم بھی نہ ہم چل سکیں گے حضور !
ہر قدم پر کرم آپ کا چاہیے
عشق میں آپ کے ہم تڑپتے تو ہیں
ہر تڑپ میں بِاللی ادا چاہیے
اور کوئی بھی اپنی تمنا نہیں
ان کے پیاروں کی پیاری ادا چاہیے
اپنے قدموں کا دُھوَن عطا کیجئے
ہم مریضوں کو آبِ شفا چاہیے
در دِ جامی ملے، نعت خاؔلد لکھوں
اور اندازِ احمد رضا چاہیے
ہم خاک ہیں اور خاک ہی ماوا ہے ہمارا
خاکی تو وہ آدم جد اعلیٰ ہے ہمارا
اللہ ہمیں خاک کرے اپنی طلب میں
یہ خاک تو سرکار سے تمغا ہے ہمارا
جس خاک پہ رکھتے تھے قدم سید عالم
اس خاک پہ قرباں دلِ شیدا ہے ہمارا
خم ہو گئی پشتِ فلک اس طعنِ زمیں سے
سن ہم پہ مدینہ وہ رتبہ ہے ہمارا
اس نے لقبِ خاک شہنشاہ سے پایا
جو حیدرِ کرار کہ مَولےٰ ہے ہمارا
اے مدّعیو! خاک کو تم خاک نہ سمجھے
اس خاک میں مدفوں شہ بطحا ہے ہمارا
ہے خاک سے تعمیر مزارِ شہِ کونین
معمور اسی خاک سے قبلہ ہے ہمارا
ہم خاک اڑائیں گے جو وہ خاک نہ پائی
آباد رضا جس پہ مدینہ ہے ہمارا
ہر بات اِک صحیفہ تھی امی رسول کی
الفا ظ تھے خدا کے ، زباں تھی رسول کی
وحدانیت کے پھول کھلے گرم ریت پر
دی سنگ بے زباں نے گواہی رسول کی
پرچم تھے نقش پاکے ، ستاروں کے ہاتھ میں
گزری جو کہکشاں سے ، سواری رسول کی
سیڑھی لگائے عرش خدا پر نبی کی یاد
چلتی ہے سانس ، تھام کے انگلی رسول کی
دیکھیں گے میرے سر کی طرف لو گ حشر میں
چمکے گی تاج بن کے غلامی رسول کی
پہلا قدم ازل ہے ، ابد آخری سفر
پھیلی ہے کائنات پہ ہستی رسول کی
کھلتے ہیں در کچھ اور مؔظفر شعور کے
کرتا ہوں جب میں بات خدا کی ، رسول کی
ہے کلام ِ الٰہی میں شمس و ضحٰے ترے چہرۂ نور فزا کی قسم
قسمِ شبِ تار میں راز یہ تھا کہ جیب کی زلف ِ دو تا کی قسم
تِرے خُلق کو حق نے عظیم کہا تری خلق کو حق نے جمیل کیا
کوئی تجھ سا ہوا ہے نہ ہوگا شہا ترے خالقِ حُسن و ادا کی قسم
وہ خدا نے ہے مرتبہ تجھ کو دیا نہ کِسی کو ملے نہ کِسی کو ملا
کہ کلامِ مجید نے کھائی شہا ترے شہر و کلام و بقاکی قسم
تِرا مسند ناز ہے عرشِ بریں تِرا محرم راز ہے رُوح ِ امیں
تو ہی سرورِ ہر دو جہاں ہے شہا تِرا مثل نہیں ہے خدا کی قسم
یہی عرض ہے خالقِ ارض و سما وہ رسول ہیں تیرے میں بندہ تیرا
مجھے ان کے جوار میں دے وہ جگہ کہ ہے خلد کو جس کی صفا کی قسم
تو ہی بندوں پہ کرتا ہے لطف و عطا ہے تجھی پہ بھروسا تجھی سے دُعا
مجھے جلوۂ پاک رسول دکھا تجھے اپنے ہی عزّ و علا کی قسم
مرے گرچہ گناہ ہیں حد سے سوا مگر ان سے امید ہے تجھ سے رَجا
تو رحیم ہے ان کا کرم ہے گو وہ کریم ہیں تیری عطا کی قسم
یہی کہتی ہے بلبلِ باغِ جناں کہ رضا کی طرح کوئی سحربیاں
نہیں ہند میں واصفِ شاہِ ہدیٰ مجھے شوخی طبعِ رضا کی قسم
یوں ترقی پر ہو یار ب !میری مستی ایک دن
یعنی دیکھوں خواب میں طیبہ کی بستی ایک دن
خاک طیبہ میں کہیں اۓ کاش !مل جائے یہ خاک
کام آ جائے مری ناکارہ ہستی ایک دن
یہ دلِ پژمردہ ہو جاتا شگفتہ بالیقیں
ابرِ رحمت کی اگر بدلی برستی ایک دن
چہرۂ انور دکھا دو خواب میں آکر مجھے
جان نکل جائے نہ صورت کو ترستی ایک دن
بحر عصیاں گو ہے طوفاں پر، نہیں مایوس دل
جنسِ رحمت پاہی لیں گے ان سے سستی ایک دن
محو ہو جاتے معاصی میرے نؔرّے سب کے سب
لطف و سُرور کی اگر بدلی برستی ایک دن
یہ نہ پوچھو ملا ہمیں در خیر الوریٰ سے کیا
نظر ان کی پڑی تو ہم ہوئے پل بھر میں کیا سے کیا
مرے دل کی وہ دھڑکنیں دم فریاد سنتے ہیں
متوجہ جو ہیں وہ ہیں مجھے باد صبا سے کیا
نظر ان کی جو ہو گئی اثر آیا دعا میں بھی
مرے دل کی تڑپ ہی کیا مرے دل کی صدا سے کیا
جسے اس کا یقین ہے کہ وہی بخشوائیں گے
کوئی خطرہ کوئی جھجھک اسے روز جزا سے کیا
رہ طیبہ میں بے خودی کے مناظر ہیں دیدنی
کبھی نقشے ہیں کچھ سے کچھ کبھی جلوے ہیں کیا سے کیا
جسے خیرات بے طلب ملے باب رسول سے
اسے دارین میں نصیرؔ غرض ماسوا سے کیا
یہ آروز و نہیں کہ دعائیں ہزار دو
پڑھ کے نبی کی نعت لحد میں اُتار دو
دیکھا ابھی ابھی ہے نظر نے جمالِ یار
اۓ موت! مجھ کو تھوڑی سی مہلت اُدھار دو
سنتے ہیں جاں کنی کا لمحہ ہے بہت کٹھن
لے کر نبی کا نام یہ لمحہ گزار دو
میرے کریم میں تِرے در کافقیر ہوں
اپنے کرم کی بھیک مجھے بار بار دو
گَر جیتنا ہے عشق میں لازم یہ شرط ہے
کھیلو اگر یہ بازی تو ہر چیز ہار دو !!!
یہ جان بھی ظؔہوری نبی کے طفیل ہے
اِس جان کو حُضور کا صدقہ اُتار دو !
یہ جو قرآن مبیں ہے، رَحۡمَۃً لِّلۡعٰلَمِیۡنَ
تیری عظمت کا امیں یا رَحۡمَۃً لِّلۡعٰلَمِیۡنَ
دل تو کہتا ہے کہ تیری شان کے شایاں ہو نعت
نطق کو یارا نہیں یارَحۡمَۃً لِّلۡعٰلَمِیۡنَ
تو حسینوں کا حسیں ہے تو جمیلوں کا جمیل ہے
تو امینوں کا امیں یا رَحۡمَۃً لِّلۡعٰلَمِیۡنَ
تیرا جلوۂ ، تیری خو ، تیرا تقدس ، تیری ذات
حاصلِ علم و یقیں یا رَحۡمَۃً لِّلۡعٰلَمِیۡنَ
فکر ِ دانش ہو کہ بزمِ آب و گِل کی وسعتیں
تیرا ثانی ہی نہیں یا رَحۡمَۃً لِّلۡعٰلَمِیۡنَ
یاں شبہ شبیہ کا گزرنا کیسا !
بے مثل کی تمثال سنور نا کیسا
ان کا متعَلق ہے ترقی پہ مُدام
تصویر کا پھر کہیے اترنا کیسا
یادوں میں وہ شہرِ مدینہ منظر منظر آج بھی ہے
ایک زمانہ گذرا لیکن، رُوح معطّر آج بھی ہے
کوئی نظر خضریٰ سے اٹھ کر اس کے چہرے پر نہ گئی
یہ احساس ِ ندامت یارو چاند ے رُخ پر آج بھی ہے
مدحِ نبی کی نغمہ سرائی حمد و ثناء کی گُل پاشی
کَل بھی یہی تھا اپنا مقدر، اپنا مقدر آج بھی ہے
وہ دیدار کا موسم ، ساقی پیشِ نظر اور جامِ دید
برسوں بیت گئے اس رُت کو ہاتھ میں ساغر آج بھی ہے
عہد ِ ادیب اور مدحِ محمد کوئی آج کی بات نہیں
چودہ صدیوں سے یہ چرچا یونہی گھر گھر آج بھی ہے
یادِ وطن سِتم کیا دشت ِ حرم سے لائی کیوں
بیٹھے بٹھائے بدنصیب سر پہ بلا اٹھائی کیوں
دل میں تو چوٹ تھی دبی ہائے غضب ابھر گئی
پوچھو تو آہِ سر د سے ٹھنڈی ہو اچلائی کیوں
چھوڑ کے اُس حرم کو آپ بن میں ٹھگوں کے آبسو
پھر کہو سر پہ دھر کے ہاتھ لٹ گئی سب کمائی کیوں
باغ عرب کا سروِ ناز دیکھ لیا ہے ورنہ آج
قمری ِ جانِ غمزدہ گونج کے چہچہائی کیوں
نامِ مدینہ لے دیا چلنے لگی نسیم ِ خلد
سوزشِ غم کو ہم نے بھی کیسی ہو ا بتائی کیوں
کِس کی نگاہ کی حیا پھرتی ہے میری آنکھ میں
نرگسِ مَست ناز نے مجھ سے نظر چرائی کیوں
تو نے تو کر دیا طبیب آتش ِ سینہ کا علاج
آج کے دودِ آہ میں بوئے کباب آئی کیوں
فکرِ معاش بد بلا ہو ل معاد جاں گزا
لاکھوں بلا میں پھنسنے کو رُوح بدن میں آئی کیوں
ہو نہ ہو آج کچھ مِرا ذکر حضور میں ہوا
ورنہ مِری طرف خوشی دیکھ کے مسکرائی کیوں
حور جناں ستم کیا طیبہ نظر میں پھر گیا
چھیڑ کے پَردہ ٔ حجاز دیس کی چیز گائی کیوں
غفلت ِ شیخ و شاب پر ہنستے ہیں طفل شیر خوار
کرنے کو گد گدی عبث آنے لگی بہائی کیوں
عرض کروں حضور سے دل کی تو میرے خیر ہے
پیٹتی سر کو آرزو دشتِ حَرم سے آئی کیوں
حسرتِ نو کا سانحہ سنتے ہی دل بگڑ گیا
ایسے مریض کو رضا مرگِ جواں سنائی کیوں
یاد وچ روندیاں نیں اکھیاں نماٹیاں
سد لو مدینے آقا کرو مہربانیاں
ساری کائنات دا خزینہ مل گیا اے
اللہ دی سوں جنہاں نوں مدینہ مل گیا اے
جالیاں دے کول بہہ کے اونہاں موجاں مانیاں
سدلو مدینے آقا کرو مہربانیاں
درد ے سُوالیاں نوں خیر جھولی پاوناں
گندیاں تے مَندیاں نوں سینے نال لاؤناں
ایہو لجپالاں دِیاں عادتاں پُرانیاں
سدلو مدینے آقا کرو مہربانیاں
ساڈا تے ظؔہوری ایہو دین تے ایمان اے
پیار کملی والے دا عبا دتاں دی جان اے
باقی سبھے گلّاں ایویں قصے تے کہانیاں
سدلو مدینے آقا کرو مہربانیاں
یاد میں جس کی نہیں ہوش تن وجاں ہم کو
پھر دکھادے وہ رخ اے مہر فروزاں ہم کو
دیر سے آپ میں آنا نہیں ملتا ہے ہمیں
کیا ہی خود رفتہ کیا جلوۂ جاناں ہم کو
جس تبسّم نے گلستاں پہ گرائی بجلی
پھر دکھادے وہ ادائے گلِ خنداں ہم کو
کاش آویزہ ٔ قندیل مدینہ ، ہو وہ دِل
جس کی سوزش نے کیا رشک چراغاں ہم کو
عرش جس خوبیِ رفتار کا پامال ہوا
دو قدم چل کے دکھا سردِ خراماں ہم کو
شمع طیبہ سے میں پروانہ رہوں کب تک دور
ہاں جلادے شررِ آتش پنہاں ہم کو
خوف ہے سمع خراشیِ سگِ طیبہ کا
ورنہ کیا یاد نہیں نالۂ وافغاں ہم کو
خاک ہو جائیں درِ پاک پہ حسرت مٹ جائے
یا الٰہی نہ پھر ا بے سرو سَاماں ہم کو
خارِ صحرائے مدینہ نہ نِکل جائے کہیں
وحشتِ دل نہ پھرا کوہ و بیاباں ہم کو
تنگ آئے ہیں دو عالم تری بیتابی سے
چین لینے دے تپِ سینۂ سوز اں ہم کو
پاؤں غربال ہوئے راہ مدینہ نہ ملی
اے جنوں اب تو ملے رخصتِ زنداں ہم کو
میرے ہر زخمِ جگر سے یہ نکلتی ہے صَدا
اے ملیح عربی کردے نمکداں ہم کو
سیر گلشن سے اسیرانِ قفس کو کیا کام
نہ دے تکلیفِ چمن بلبلِ چمن بلبلِ بستاں ہم کو
جب سے آنکھوں میں سمائی ہے مدینہ کی بہار
نظر آتے ہیں خزاں دیدہ گلستاں ہم کو
گر لب پاک سے اقرار شفاعت ہو جائے
یوں نہ بے چین رکھے جو شِش عصیاں ہم کو
نیر حشر نے اِک آگ لگا رکھی ہے !
تیز ہے دھوٗپ ملے سایۂ داماں ہم کو
رحم فرمائیے یا شاہ کہ اب تاب نہیں
تابکے خون رلائے غمِ ہجراں ہم کو
چاکِ داماں میں نہ تھک جائیو اے دستِ جنوں
پرزے کرنا ہے ابھی جیب و گریباں ہم کو
پَردہ اُس چہرۂ انور سے اٹھا کر اِک بار
اپنا آئینہ بنا اے مہِ تاباں ہم کو
اے رضا وصفِ رُخِ پاک سنانے کے لیے
تدر دیتے ہیں چمن مُرغ غزل خواں ہم کو
یاد ِمصطفٰے ایسی بس گئی ہے سینے میں
جسم ہو کہیں اپنا دل تو ہے مدینے میں
کون ہے یہ دیوانہ کس کا ہے یہ دیوانہ
حشر میں بھی کہتا ہے جا نا ہے مدینے میں
کون ہے تیرا رہبر، پوچھا تو خضر بولے
کالی کملی والے ہیں رہتے ہیں مدینے میں
میر ے کملی والے کا گھر تو ہے مدینے میں
ہاں مگر وہ رہتے ہیں عاشقوں کے سینے میں
کون سی جگہ اُن کے عاشقوں سے خالی ہے
ہر جگہ ہیں پروانے، شمع مدینے میں ہے
بعد میرے مرنے کے ہر زباں پہ چرچا تھا
آدمی تو اچھا تھا مر گیا مدینے میں
کاش اُن کے کوچےسے لائے یہ صبا لے پیغام
چل تجھے بلاتے ہیں، مصطفٰے مدینے میں
یادِ شفیعِ مُذنبین ہے
اس دل میں اور کچھ نہیں ہے
کس کا رقیب دل بنا جو
محبوبِ ربّ العالمین ہے
خورشید و ماہتاب و انجم
لیکن تم ایسا اب نہیں ہے
صدیوں کے فاصلے ہیں پھر بھی
سایہ ہے دُور ، وہ قریب ہے
بعثت میں آخرالزّماں وہ
خلقت میں نورِ اوّلیں ہے
وہ آسماں ہیں معرفت کے
بندہ فقط، زمیں زمیں ہے
جب سے ملی ہے ان کی نسبت
دنیا اپنی حَسیں حَسیں ہے
یہ سوز، یہ گداز، یہ نم
سب میں کہاں، کہیں کہیں ہے
نازاں ہیں اہلِ عرش اس پر
کہنے کو یہ زمیں، زمیں ہے
نقشِ قدم جہاں جہاں ہیں
میری جبیں وہیں وہیں ہے
سیکھو انداز التجا کے
ان کے یہاں کمی نہیں ہے
عصیاں مرے بہت ہیں ، لیکن
وہ رحمۃ اللّعالمیں ہے
دشمن بھی کہہ ر ہے ہیں جس کو
صادق ہے وہ ، وہی امیں ہے
مٹھی میں جسکی سب کے دل ہیں
دل میں ادیب کے مکیں ہے
یا رسول اللہ ﷺ آکر دیکھ لو
یا مدینے میں بلا کر دیکھ لو
سینکڑوں کے دل منور کر دیے
اِس طرف بھی آنکھ اٹھا کر دیکھ لو
وہ کبھی انکار کرتے ہی نہیں
بے نواؤ! آزما کر دیکھ لو
چاہے جو مانگو عطافرمائیں گے
نامُرادو! ہاتھ اٹھا کر دیکھ لو
سیر ِجنّت دیکھنا چاہو اگر
روضۂ انور پہ آکر دیکھ لو
دو جہاں کی سرفرازی ہو نصیب
اُن کے آگے سر جھکا کر دیکھ لو
اُن کی رِفعت کا پتہ ملتا نہیں
مِہرو مَہ چکر لگا کر دیکھ لو
اِس جمیؔل قادری کو بھی حضور
اپنے در کا سگ بنا کر دیکھ لو
یَا صَاحِبَ الۡجَمَالِ وَیَا سَیِّدَالۡبَشَر
مِنۡ وَّجۡہِکَ الۡمُنِیۡرِ لَقَدۡ نُوِّرَ الۡقَمَرُ
لَا یُمۡکِنِ الثَّنَاءُ کَمَا کَانَ حَقَّہٗ
بعد از خُدا بزرگ تُو ئی قِصّۂ مُختصر
آکھیں سونہڑے نوں وائے نی جے تیرا گزر ہو وے
میں مَر کے وِی نئیں مَردا جے تیری نظر ہو وے
دم دم نال ذکر کراں میں تیریاں شاناں دا
تیرے نام توں وار دیاں جنی میری عمر ہو وے
دیوانیو بیٹھو رَوُو محفل نوں سجا کے تے
شاید میرے آقا دا ایتھوں وی گزر ہو وے
اوکیسیاں گھڑیاں سَن مہمان ساں سونہڑے دا
دل فِروی کر دا اے طیبہ دا سفر ہو وے
جے جیون دا چا رکھنا توں راھیا مدینے دیا
سونہڑے دے دوارے تے مرجاویں جے مر ہووے
کیوں فکر کریں یارا ماسہ وی اگیرے دا
اوہورں ستے ای خیراں نیں جِدا سائیں مگر ہو وے
ایہہ دل وچ نیؔازی دے اک آس چروکنی اے
سوہنے دے شہر اندر میری وی قبر ہو وے
چاروں طرف نور چھایا آقا کا میلاد آیا
خوشیوں کا پیغام لا یا آقا کا میلاد آیا
شمس و قمراور تارے کیوں نہ ہوں خوش آج سارے
اُ ن سے ہی تو نور پایا آقا کا میلاد آیا
خوشیاں مناتے ہیں وہی دھومیں مچاتے ہیں وہی
جن پر ہوا ان کا سایہ آقا کا میلاد آیا
ہے شاد ہر ایک مسلماںکرتا ہے گھر گھر میں چراغاں
گلیوں کو بھی جگمگایا آقا کا میلاد آیا
مختارِ کُل مانے جو انہیں نوری بشر جانیں جو انہیں
نعرہ اسی نے لگایا آقا کا میلاد آیا
جوآج محفل میں آئے من کی مرادیں وہ پائے
سب پر کرم ہو خدایا آقا کا میلاد آیا
غوث الورٰی اور داتا نے میرے رضا اور خواجہ نے
سب نے ہے دن یہ منایا آقا کا میلاد آیا
نعتِ نبی تم سناؤ عشقِ نبی کو بڑھا ؤ
ہم کو رضانے سکھایا آقا کا میلاد آیا
جس کو شجر جانتے ہیں کہنا حجر مانتے ہیں
ایسا نبی ہم نے ہے پایا آقا کا میلا د آیا
دل جگمگانے لگے ہیں سب مسکرانے لگے ہیں
اِک کیف سا آج چھایا آقا کا میلاد آیا
کر اۓ ٔ عبید ان کی مدحت تجھ پر ہو خدا کی رحمت
تو نے مقدر یہ پا یا آقا کا میلاد آیا
پاٹ وہ کچھ دَھار یہ کچھ زار ہم یا الٰہی کیوں کر اتریں پار ہم
کس بلا کی مے سے ہیں سر شار ہم دن ڈھلا ہوتے نہیں ہشیار ہم
تم کرم سے مشتری ہر عیب کے جنسِ نا مقبولِ ہر بازار ہم
دشمنوں کی آنکھ میں بھی پھول تم دوستوں کی بھی نظر میں خار ہم
لغزشِ پا کا سہارا ایک تم گرنے والے لاکھوں ناہنجار ہم
صَدقہ اپنے باز ووں کا المدد کیسے توڑیں یہ بُتِ پندار ہم
دم قدم کی خیر اے جانِ مسیح در پہ لائے ہیں دلِ بیمار ہم
اپنی رحمت کی طرف دیکھیں حضور جانتے ہیں جیسے ہیں بدکار ہم
اپنے مہمانوں کا صَدقہ ایک بوند مر مِٹے پیا سے ادھر سرکار ہم
اپنے کوچہ سے نکالا تو نہ دو ہیں تو حد بھر کے خدائی خوار ہم
ہاتھ اٹھا کر ایک ٹکڑا اے کریم ہیں سخی کے مال میں حقدار ہم
چاندنی چھٹکی ہے اُن کے نور کی آؤ دیکھیں سیر طور و نار ہم
ہمت اے ضعف ان کے در پر گر کے ہوں بے تکلف سایہ دیوار ہم
با عطا تم شاہ تم مختار تم بے نوا ہم زار ہم ناچار ہم
تم نے تو لاکھوں کو جانیں پھیردیں ایسا کتنا رکھتے ہیں آزار ہم
اپنی ستاری کا یا رب واسطہ ہوں نہ رسوا بر سرِ دربار ہم
اتنی عرضِ آخری کہہ دو کوئی ناؤ ٹوٹی آپڑے منجدھار ہم
منھ بھی دیکھا ہے کسی کے عفو کا دیکھ او عصیاں نہیں بے یار ہم
میں نثار ایسا مسلماں کیجیے توڑ ڈالیں نفس کا زنّار ہم
کب سے پھیلائے ہیں دامن تیغ عِشق اب تو پائیں زخم دامن دار ہم
سنّیت سے کھٹکے سب کی آنکھ میں پھول ہو کر بن گئے کیا خار ہم
ناتوانی کا بھلا ہو بن گئے نقشِ پا ئے طالبانِ یار ہم
دل کے ٹکڑے نذرِ حاضر لائے ہیں اے سگانِ کوچۂ دلدار ہم
قِسمت ِ ثور و حرا کی حرص ہے چاہتے ہیں دل میں گہر ا غار ہم
چشم پوشی و کرم شانِ شما کارِ ما بے با کی و اصرار ہم
فصلِ گل سبزہ صبا مستی شباب چھوڑیں کس دل سے در خمار ہم
میکدہ چھٹتا ہے لِلّٰہ ساقیا اب کے ساغر سے نہ ہوں ہشیار ہم
ساقی تسنیم جب تک آ نہ جائیں اے سیہ مستی نہ ہوں ہشیار ہم
نازشیں کرتے ہیں آپس میں مَلک ہیں غلامانِ شہِ ابرار ہم
لطفِ از خود رفتگی یار ب نصیب ہوں شہید جلوۂ رفتار ہم
اُن کے آگے دعویِ ہستی رضا کیا بکے جاتا ہے یہ ہر بار ہم
ہے کلام ِ الٰہی میں شمس و ضحٰے ترے چہرۂ نور فزا کی قسم
قسمِ شبِ تار میں راز یہ تھا کہ جیب کی زلف ِ دو تا کی قسم
تِرے خُلق کو حق نے عظیم کہا تری خلق کو حق نے جمیل کیا
کوئی تجھ سا ہوا ہے نہ ہوگا شہا ترے خالقِ حُسن و ادا کی قسم
وہ خدا نے ہے مرتبہ تجھ کو دیا نہ کِسی کو ملے نہ کِسی کو ملا
کہ کلامِ مجید نے کھائی شہا ترے شہر و کلام و بقاکی قسم
تِرا مسند ناز ہے عرشِ بریں تِرا محرم راز ہے رُوح ِ امیں
تو ہی سرورِ ہر دو جہاں ہے شہا تِرا مثل نہیں ہے خدا کی قسم
یہی عرض ہے خالقِ ارض و سما وہ رسول ہیں تیرے میں بندہ تیرا
مجھے ان کے جوار میں دے وہ جگہ کہ ہے خلد کو جس کی صفا کی قسم
تو ہی بندوں پہ کرتا ہے لطف و عطا ہے تجھی پہ بھروسا تجھی سے دُعا
مجھے جلوۂ پاک رسول دکھا تجھے اپنے ہی عزّ و علا کی قسم
مرے گرچہ گناہ ہیں حد سے سوا مگر ان سے امید ہے تجھ سے رَجا
تو رحیم ہے ان کا کرم ہے گو وہ کریم ہیں تیری عطا کی قسم
یہی کہتی ہے بلبلِ باغِ جناں کہ رضا کی طرح کوئی سحربیاں
نہیں ہند میں واصفِ شاہِ ہدیٰ مجھے شوخی طبعِ رضا کی قسم
یَا صَاحِبَ الۡجَمَالِ وَیَا سَیِّدَالۡبَشَر
مِنۡ وَّجۡہِکَ الۡمُنِیۡرِ لَقَدۡ نُوِّرَ الۡقَمَرُ
لَا یُمۡکِنِ الثَّنَاءُ کَمَا کَانَ حَقَّہٗ
بعد از خُدا بزرگ تُو ئی قِصّۂ مُختصر
آتے رہے انبیا کَما قِیْلَ لَھُمْ
وَالْخَاتَمُ حَقُّکُم ْ کہ خاتم ہوئے تم
یعنی جو ہوا دفتر تنزیل تمام
آخرم میں ہوئی مہر کہ اَکْملْتُ لَکُمْ
اٹھا دو پردہ دکھا دو چہرہ کہ نور باری حجاب میں ہے
زمانہ تاریک ہو رہا ہے کہ مہر کب سے نقاب میں ہے
نہیں وہ میٹھی نگاہ والا خدا کی رحمت ہے جلوہ فرما
غضب سے اُن کے خدا بچائے جلال باری عتاب میں ہے
جلی جلی بوٗ سے اُس کی پیدا ہے سوزشِ عِشق ِ چشم والا
کباب ِ آہو میں بھی نہ پایا مزہ جو دل کے کباب میں ہے
انہیں کی بوٗ مایۂ سمن ہے انہیں کا جلوہ چمن چمن ہے
انہیں سے گلشن مہک رہے ہیں انہیں کی رنگت گلاب میں ہے
تری جلو میں ہے ماہِ طیبہ ہلال ہر مرگ و زندگی کا !
حیات جاں کا رکاب میں ہے ممات اعدا کا ڈاب میں ہے
سیہ لباسانِ دار دنیا و سبز پوشان عرش اعلٰے
ہر اِک ہے ان کے کرم کا پیاسا یہ فیض اُن کی جناب میں ہے
وہ گل ہیں لب ہائے ناز ک ان کے ہزاروں جھڑتے ہیں پھول جن سے
گلاب گلشن میں دیکھے بلبل یہ دیکھ گلشن گلاب میں ہے
جلی ہے سوزِ جگر سے جاں تک ہے طالبِ جلوۂ مُبارک
دکھا دو وہ لب کہ آب حیواں کا لطف جن کے خطاب میں ہے
کھڑے ہیں منکر نکیر سر پر نہ کوئی حامی نہ کوئی یارو!
بتا دو آکر مِرے پیمبر کہ سخت مشکِل جواب میں ہے
خدا ئے قہار ہے غضب پر کھلے ہیں بدکاریوں کے دفتر
بچا لو آکر شفیع محشر تمہارا بندہ عذاب میں ہے
کریم ایسا ملا کہ جس کے کھلے ہیں ہاتھ اور بھرے خزانے
بتاؤ اے مفلِسو ! کہ پھر کیوں تمہارا دل اضطراب میں ہے
گنہ کی تاریکیاں یہ چھائیں امنڈ کے کالی گھٹائیں آئیں
خدا کے خورشید مہر فرما کہ ذرّہ بس اضطراب میں ہے
کریم اپنے کرم کا صدقہ لئیم بے قد ر کو نہ شرما
تو اور رضا سے حساب لینا رضا بھی کوئی حساب میں ہے
اشکوں سے بھی لکھ ان کی ثناء ان کا قصیدہ
لکھ جیسے وہ ہیں ایسا نہ دیدہ نہ شنیدہ
جب یاد کیا قلب ہو ا نافہ آہو
جب نام لیا ہو گئے لب شہد چکیدم
دیکھا ہے بلندی پہ ہر اِک جا سرِ افلاک
لیکن اسے دیکھا ہے مدینہ میں خمیدہ
حسرت میں زیارت کی بہے جاتے ہیں آنسو
اچھا ہے وضو کرتا ہے دیدار کو دیدہ
کیا اس کو خریدیں گے سلاطینِ زمانہ
اے رحمتِ عالم ! تیری رحمت کا خریدا
امت ہے بہت زار و پریشان کرم کر
چادر بھی دریدہ ہوئی ، دامن بھی دریدہ
وہ شاعری اچھی کہ دکھائے جو یہ منظر
آغوشِ کرم میں سگِ دنیا کا گزیدہ
محتاج نہ ہوگا کبھی وہ ہاتھ جو لکھے
اس مصطفٰے و منعم کی سخاوت کا قصیدہ
محروم نہیں ہوں گی بصارت سے وہ آنکھیں
گو خواب سہی، ہوں رخِ انوار کی دیدہ
بس ایک ہی جھونکا ہے بہت شہرِ نبی کا
آواز یہ دیتے ہیں تن و قلب تپیدہ
لایا درِ رحمت پہ مجھے جادۂ رحمت
کافی مری بخشش کے لیے ہے یہ قصیدہ
جس راہ سے گُذرا ہے ادیب ان کی ثناء میں
رخشندہ وہ تابندہ ، درخشاں و و میدہ
اِک بار مدینے میں ہو جائے میرا جانا
پھر اور نہ کچھ مانگے سر کا ر کا دیوانہ
پل پل میرا دِل تڑپے دن رات کرے زاری
کب آؤں مدینے میں ؟ کب آئے میری باری ؟
کب جا کے میں دیکھوں گا دربار وہ شاہانہ ؟
اِس آس پہ جیتا ہوں اِک روز بلائیں گے
اور گنبد خضرآء کا دیدار کرائیں گے
پھر پیش کروں گا میں اشکوں بھرا نذرانہ
بے چین نگاہوں کو دیدار عطاکر دو
د امن مِرا خوشیوں سے یا شاہِ امم! بھر دو
آباد خدا رکھے آقا ! تیرا میخانہ
اِتنی سی تمنا ہے ،ہو جائے اگر پوری
جا دیکھوں مدینہ میں، ہو جائے یہ منظور ی
بِن دید کیے شاہا مرجائے نہ دیوانہ
آگئے مژدہ شفاعت کے سنانے والے
نارِ دوزخ سے غلاموں کو بچانے والے
ہے مقدر میں بلندی ہی اپنے
ہم تو ہیں قدموں میں سر ان کے جھکانے والے
کر کے احسان جتانا یہ نہیں شان ان کی
اور کوئی ہوں گے وہ احسان جتانے والے
مر کے پہنچے جو لحد میں تو نکیروں نے کہا
مرحبا نعت شاہِ دین کی سنانے والے
تو جلا سکتی نہیں سن لے جہنم ہم کو
ہم تو ہیں جشنِ ولادت کے منانے والے
کاش! سرکار سے سر ِ حشر
کہیں مجھ سے عبید آجا دامن میں میری نعت سنانے والے
اَلَا یٰاَ یُّھَا السَّاقِیْ اَدْرِکَا سًا وَّ نَاوِلْھَا
کہ بر یادِ شہِ کوثر بنا سَازیم محفلہا
بلا بارید حبِّ شیخ نجدی بر وہابیہ
کہ عِشق آساں نمود اوّل ولے افتاد مشکلہا
وہابی گرچہ اخفامی کند بغضِ نبی لیکن
نہاں کے ماند آں رازے کزوسازند محفلہا
توہّب گا ہ ملکِ ہند اقامَت رانمی شاید
جرس فریاد می دارد کہ بربند ید محملہا
صلائے مجلسم دَر گوش آمد بیں بیا بشنو
جرس مستانہ می گوید کہ بربندید محملہا
مگر واں رُو ازیں محفل رہِ اربابِ سنّت رَو
کہ سالک بے خبر نبود زِراہ و رسم منزلہا
در ایں جلوت بیا از راہِ خلوت تا خُدا یابی
مَتٰی مَا تَلْق مَن قَھْوٰی دَعِ الدُّنْیا وَاَمْھِلْھا
ولم قربانت اے دودِ چراغ محفل مولد
زتاب ِ جعدِ مشکینت چہ خوں افتاد در دلہا
غریقِ بحرِ عشقِ احمدیم از فرحت مولد
کجا دانند حالِ ما سُبکسا رانِ سَاحلہا
رضا مست جامِ عشق ساغر باز می خواہد
َلَا یٰاَ یُّھَا السَّاقِیْ اَدْرِکَا سًا وَّ نَاوِلْھَا
اَ َلَا یٰاَ یُّھَا السَّاقِیْ اَدْرِکَا سًا وَّ نَاوِلْھَا
الاماں قہر ہے اے غوث وہ تیکھا تیرا
مرکے بھی چین سے سوتا نہیں مارا تیرا
بادلوں سے کہیں رکتی ہے کڑکتی بجلی
ڈھالیں چھنٹ جاتی ہیں اٹھتا ہے جو تیغا تیرا
عکس کا دیکھ کے منہ اور بھپر جاتا ہے
چار آئینہ کے بل کا نہیں نیزا تیرا
کو ہ سر مکھ ہو تو اِک دار میں دو پر کالے
ہاتھ پڑتا ہی نہیں بھول کے اوچھا تیرا
اس پہ یہ قہر کہ اب چند مخالف تیرے
چاہتے ہیں کہ گھٹا دیں کہیں پایہ تیرا
عقل ہوتی تو خدا سے نہ لرائی لیتے
یہ گھٹا ئیں ، اسے منظور بڑھا نا تیرا
وَرَفَعۡنَا لَکَ ذِکۡرَکۡ کا ہے سایہ تجھ پر
بول بالا ہے تر ذِکر ہے اُونچا تیرا
مٹ گئے ٹتے ہیں مِٹ جائیں گے اعدا تیرے
نہ مٹا ہے نہ مٹے گا کبھی چرچا تیرا
تو گھٹا ئے سے کسی کے نہ گھٹا ہے نہ گھٹے
جب بڑھائے تجھے اللہ تعالیٰ تیرا
سمِّ قاتل ہے خدا کی قسم اُن کا اِ نکا ر
منکرِ فضل حضور آہ یہ لکھا تیرا
میرے خنجر سے تجھے با ک نہیں
چیر کر دیکھے کوئی آہ کلیجا تیر ا
ابنِ زہر ا سے ترے دل مین ہیں یہ زہر بھرے
بل بے او منکر ِ بے باک یہ زہر تیرا
بازِ اشہب کی غلامی سے یہ آنکھیں پھرنی
دیکھ اڑ جائے گا ایمان کا طوطا تیرا
شاخ پر بیٹھ کر جڑ کا ٹنے کی فکر میں ہے
کہیں نیچانہ دکھائے تجھے شجرا تیرا
حق سے بد ہو کے زمانہ کا بھلا بنتا ہے
ارے میں خوب سمجھتا ہوں معمّا تیرا
سگ ِ در قہر سے دیکھے تو بکھرتا ہے ابھی
بند بندِ بدن اے روبہِ دنیا تیرا
غرض آقا سے کروں عرض کہ تیری ہے پناہ
بندہ مجبور ہے خاطِر پہ ہے قبضہ تیرا
حکم نافذ ہے ترا خامہ ترا سیف تری
دم میں جو چاہے کرے دور ہے شاہا تیرا
جس کو للکار دے آتا ہو تو الٹا پھر جائے
جس کو چمکار لے ہر پھر کے وہ تیرا تیرا
کنجیاں دل کی خدا نے تجھے دیں ایسی کر
کہ یہ سینہ ہو محبّت کا خزینہ تیرا
دِل پہ کندہ ہو ترا نام کہ وہ دُزدِ رجیم
الٹے ہی پاؤں پھرے دیکھ کے طغرا تیرا
نزع میں ، گور میں ، میزاں پہ ، سرِ پل پہ کہیں
نہ چھٹے ہاتھ سے دامانِ معلٰی تیرا
دھوپ محشر کی وہ جاں سوز قیامت ہے مگر
مطمئن ہوں کہ مرے سر پہ ہے پلا تیرا
بہجت اس سر کی ہے جو “بہجۃ الاسرار ” میں ہے
کہ فلک وار مُریدوں پہ ہے سایہ تیرا
اے رضا چیست غم ارجملہ جہاں دشمنِ تست
کردہ ام ما منِ خود قبلۂ حاجا تیرا
اللہ اللہ کے نبی سے فریاد ہے نفس کی بدی سے
دن بھر کھیلوں میں خاک اڑائی لاج آئی نہ ذرّوں کی ہنسی سے
شب بھر سونے ہی سے غرضی تھی تاروں نے ہزار دانت پیسے
ایمان پہ مؤت بہتر او نفس تیری ناپاک زندگی سے
او شہد نمائے زہر دَر جام گم جاؤں کدھر تِری بدی سے
گہرے پیارے پرانے دِل سوز گزرا میں تیری دوستی سے
تجھ سے جو اٹھائے میں صدمے ایسے نہ ملے کبھی کِسی سے
اُف رہے خود کام بے مروّت پڑتا ہے کام آدمی سے
تونے ہی کیا خدا سے نادم تو نے ہی کیا خجل نبی سے
کیسے آقا کا حکم ٹالا ہم مر مٹے تیری خود سری سے
آتی نہ تھی جب بدی بھی تجھ کو ہم جانتے ہیں تجھے جبھی سے
حد کے ظالم سِتم کے کٹّر پتھر شرمائیں تیرے جی سے
ہم خاک میں مل چکے ہیں کب کے نکلا نہ غبار تیرے جی سے
ہے ظالمِ میں نبا ہوں تجھ سے اللہ بچائے اس گھڑی سے
جو تم کو نہ جانتا ہوں حضرت چالیں چلیے اس اجنبی
اللہ کے سامنے وہ گن تھے یاروں میں کیسے متقی سے
رہزن نے لوٗٹ لی کمائی فریاد ہے خضر ہاشمی سے
اللہ کنوئیں میں خود گِرا ہوں اپنی نالِش کروں تجھی سے
ہیں پشت پنا ہ غوثِ اعظم
کیوں ڈرتے ہو تم رضا کسی سے
ان کے جو غلام ہو گئے
وقت کے امام ہو گئے
جب بلایا آقا نے
خود ہی انتظام ہو گئے
انبیاء کھڑے ہیں صف بہ صف
مصطفٰے امام ہو گئے
چشمِ بینا ہو تو دیکھ لو
ان کے جلوے عام ہوگئے
مصطفٰے کی شان دیکھ کر
بادشاہ غلام ہو گئے
نام لیوا ان کے جو ہوئے
ان کے اونچے نام ہو گئے
واسطہ دیا جو آ پ کا
میرے سارے کام ہوگئے
اندھیری رات ہے غم کی گھٹا عصیاں کی کالی ہے
دلِ بے کس کا اِس آفت میں آقا تو ہی والی ہے
نہ ہو مایوس آتی ہے صَدا گورِ غریباں سے
بنی امّت کا حامی ہے خدا بندوں کا والی ہے
اترتے چاند ڈھلتی چاندنی جو ہو سکے کر لے
اندھیرا پاکھ آتا ہے یہ دودن کی اجالی ہے
ارے یہ بھیڑیوں کا بن ہے اور شام آگئی سر پر
کہاں سویا مسافر ہائے کتنا لا اُبالی ہے
اندھیرا گھر اکیلی جان دَم گھٹتا دل اُکتا تا
خدا کو یاد کر پیارے وہ ساعت آنے والی ہے
زمین تپتی کٹیلی راہ بَھاری بوجھ گھائل پاؤں
مصیبت جھیلنے والے تِرا اللہ والی ہے
نہ چَونکا دن ہے ڈھلنے پر تری منزل ہوئی کھوٹی
ارے او جانے والے نیند یہ کب کی نکالی ہے
رضان منزل تو جیسی ہے وہ اِک میں کیا سبھی کو ہے
تم اس کو روتے ہو یہ کہو یاں ہاتھ خالی ہے
آنکھ میں جب اشک آیا ہو گئی نعتِ رسول
درد جب دل میں سمایا ہو گئی نعتِ رسول
جب کسی حق کی داستاں کو زندہ کرنے کے لیے
ظلم سے پنجہ لڑایا ہوگئی نعتِ رسول
جہل کی تاریکیوں میں اعتماد علم کا
اِک دیا جس نے جلایا ہو گئی نعتِ رسول
جب کسی معصوم کو پایا یتیمی کا شکار
اپنے سینے سے لگایا ، ہو گئی نعتِ رسول
امتیازِ بندہ و آقا مٹانے کے لیے
جب کوئی میداں میں آیا ہو گئی نعتِ رسول
کھا کے سنگ دشمنان ِ دیں اگر یہ کہہ دیا
کر بَھلا اس کا خدایا ، ہو گئی نعتِ رسول
یاد کر کے عرصۂ شعبِ ابی طالب کبھی
جس نے دو آنسو بہایا ہوگئی نعتِ رسول
محسنِ انسانیت کی جان کر ، سنّت اگر
جس نے روتوں کو ہنسایا، ہوگئی نعتِ رسول
کیا بتاؤ ں کس قدر ہیں مہرباں مجھ پر حضور
جب قلم میں نے اٹھایا ہو گئی نعتِ رسول
سیرتِ خیر البشر کو دیکھتا جا اے ادیب!
جو ورق نے تو اُٹھایا ہو گئی نعتِ رسول
آنکھیں رو رو کے سُجانے والے جانے والے نہیں آنے والے
کوئی دن میں یہ سرا اوجڑ ہے ارے اوچھاؤنی چھانے والے
ذبح ہوتے ہیں وطن سے بچھڑے دیس کیوں گاتے ہیں گانے والے
ارے بد فال بری ہوتی ہے دیس کا جنگلا سنانے والے
سن لیں اعدا میں بگڑنے کا نہیں وہ سلامت ہیں بنانے والے
آنکھیں کچھ کہتی ہیں تجھ سے پیغام او درِ یار کے جانے والے
پھر نہ کروٹ لی مدینہ کی طرف ارے چل جھوٹے بہانے والے
نفس میں خاک ہوا تو نہ مٹا ہے مری جان کے کھانے والے
جیتے کیا دیکھ کے ہیں اے حورو! طیبہ سے خُلد میں آنے والے
نیم جلوے میں دو عَالم گلزار واہ وا رنگ جمانے والے
حسن تیرا سا نہ دیکھا نہ سُنا کہتے ہیں اگلے زمانے والے
وہی دھوم ان کی ہے ماشآء اللہ مِٹ گئے آپ مٹانے والے
لبِ سیراب کا صَدقہ پانی اے لگی دل کی بُجھانے والے
ساتھ لے لو مجھے میں مجرم ہوں راہ میں پڑتے ہیں تھانے والے
ہو گیا دَھک سے کلیجا میرا ہائے رخصت کی سنانے والے
خلق تو کیا کہ ہیں خالِق کو عزیز کچھ عجب بھاتے ہیں بھانے والے
کشتۂ دشتِ حرم جنّت کی کھڑکیاں اپنے سِرہانے والے
کیوں رضا آج گلی سونی ہے
اٹھ مِرے دھوم مچانے والے
اہلِ صراط روحِ امیں کو خبر کریں جاتی ہے امّتِ نبوی فرش پر کریں
اِن فتنہ ہائے حشر سے کہدو حذر کریں نازوں کے پالے آتے ہیں رہ سے گزر کریں
بد ہیں تو آپ کے ہیں بھلے ہیں تو آپ کے ٹکڑوں سے تو یہاں کے پلے رخ کدھر کریں
سرکار ہم کمینوں کے اطوار پر نہ جائیں آقا حضور اپنے کرم پر نظر کریں
ان کی حرم کے خار کشیدہ ہیں کس لیے آنکھوں میں آئیں سر پہ رہیں دل میں گھر کریں
جالوں پہ جال پڑ گئے لِلّٰہ وقت ہے مشکل کشائی آپ کے ناخن اگر کریں
منزل کڑی ہے شان تبسّم کرم ہے تاروں کی چھاؤں نور کے تڑکے سفر کریں
کلکِ رضا ہے خنجر خوانخوار برق بار اعدا سے کہدو خیر منائیں نہ شر کریں
ایسا کوئی محبو ب نہ ہو گا ، نہ کہیں ہے
بیٹھا ہے چٹائی پہ مگر عرش نشیں ہے
ملتا نہیں کیا کیا دو جہاں کو تِرے در سے
اِک لفظ “نہیں” ہے کہ تِرے لب پہ نہیں ہے
تو چاہے تو ہر شب ہو مثالِ شبِ اسریٰ
تیرے لیے دو چار قدم عرشِ بریں ہے
ہر اِک کو میسر کہاں اس در کی غلامی
اس در کا تو دربان بھی جبر یل امیں ہے
اۓ شاہِ زَمَن! اب تو زیارت کا شرف دے
بے چین ہیں آنکھیں مِری بیتاب جبیں ہے
دل گِریہ کناں اور نظر سوئے مدینہ
اعؔظم ترا اندازِ طلب کتنا حسیں ہے !
اۓ شہنشاہِ مدینہ ! الصلوٰۃ والسلام
زینتِ عرشِ معلّٰی الصلوٰۃ والسلام
رَبِّ ھَبۡ لِیۡ اُمَّتِیۡکہتے ہوئے پیدا ہوئے
رب نے فرمایا کہ بخشا الصلوٰۃ والسلام
سر جھکاکر باادب عشقِ رسول اللہ میں
کہہ رہا تھا ہر سِتارہ الصلوٰۃ والسلام
مؤمنو! پڑھتے رہو تم اپنے آقا پر درود
ہے فرشتوں کا وظیفہ الصلوٰ ۃ والسلام
جب فرشتے قبر میں جلوہ دکھا ئیں آپ کا
ہو زباں پر پیارے آقا الصلوٰۃ والسلام
میں وہ سُنی ہوں جؔمیل قادری مرنے کے بعد
میرا لاشہ بھی کہے گا الصلوٰۃ والسلام
اۓ صبا !مصطفٰےسے کہہ دینا ،غم کے مارے سلام کہتے ہیں
یاد کرتے ہیں تم کو شام و سحر، دل ہمارے سلام کہتے ہیں
اللہ اللہ حضور کی باتیں! مرحبا رنگ و نور کی باتیں
چاند جن کی بلائیں لیتا ہے اور تارے سلام کہتے ہیں
اللہ اللہ حضور کے گیسو! بھینی بھینی مہکتی وہ خوشبو
جس سے معمور ہے فضا ہر سو وہ نظارے سلام کہتے ہیں
جب محمد کا نام آ تا ہے ﷺرحمتوں کا پیام آتا ہے
لب ہمارے درود پڑھتے ہیں دل ہمارے سلام کہتے ہیں
زائر ِ طیبہ تو مدینے میں، پیارے آقا سے اتنا کہہ دینا
آپ کی گردِ راہ کو آقا !بے سہارے سلام کہتے ہیں
ذکر تھا آخری مہینے کا ، تذکرہ چِھڑ گیا مدینے کا
حاجیو! مصطفٰےسے کہہ دینا ،غم کے مارے سلام کہتے ہیں
اۓ خدا کے حبیب! پیارے رسول! یہ ہمارا سلام کیجئے قبول
آج محفل میں جتنے حاضر ہیں، مل کے سارے سلام کہتے ہیں
اۓ چہرۂ زیبا ئے تو رشکِ بتانِ آذری
ہر چند وصفت می کنم در حسن زاں بالاتری
تو از پری چابک تری وزِ برگِ گل نازک تری
و زِھر چہ گوئم بہتری حقا عجائب دلبری
عالَم ہمہ نغمائے تو خلقِ خدا شیدائے تو
اے نرگسِ رعنائے تو! آوردہ رسمِ دلبری
آفاقہا گردید ہ ام مِہرِ بتاں و رزیدہ ام
بسیارِ خوباں دیدہ ام لیکن تو چیزِ دیگری
من تو شُد م، تو من شُدی ،من تن شُدم ،تو جاں شُدی
تاکس نہ گوئم بعد اَزیں، من دیگر م ،تو دیگر ی
خؔسرو غریب است و گدا افتادہ در شہر شما
باشد کہ از بہر ِخدا سوئے غریباں بن گری
اے سکونِ قلب مضطر اے قرارِ زندگی
اے امینِ رازِ فطرت، اے بہارِ زندگی
تیری ہر ہر جنبش ِ لب برگ و بارِ زندگی
تو دیارِ عشق میں ہے شہریارِ زندگی
تیرے قدموں کی بدولت تیری آمد کے طفیل
گلستاں ہی گلستاں ہے خار زارِ زندگی
ترا قربِ خاص پاکر تیرے دستِ پاک میں
سنگریزے بن گئے ہیں شاہکارِ زندگی
جس نے پائی تیری نسبت ہوگیا وہ ذی وقار
اے فروغِ آدمیت، اے وقارِ زندگی
شاعرانِ حُسن ِ فطرت ، صاحبان ِ درک و فہم
ہے قدم بوسی میں ہر اک وضعدارِ زندگی
درس تیرا ظالموں سے جنگ ، مظلوموں سے پیار
کتنی سادہ ہوگئی ہے رہ گذارِ زندگی
آدمی کو آدمی سے پیار کا نسخہ دیا
تو طبیبِ خلق ہے ، تیمار دارِ زندگی
تو نے آکر دی نگاہوں کو بصیرت حُسن کی
ورنہ تھی محدود لفظوں میں، بہارِ زندگی
تو نے صحرائے تخیل میں لگائے گلستاں
اور چٹانوں سے نکالے آبشارِ زندگی
گونج اٹھے نغمے لگائی تو نے جب مضرابِ عشق
بربطِ فطرت پہ تھا خاموش تارِ زندگی
بے خبر دنیا و ما فیہا سے تو نے کر دیا
کیا شرابِ زندگی ہے، کیا خمارِ زندگی
روح و جاں کی سلطنت پر حکمرانی ہے تری
ہم غلامِ عشق ہیں ، تو تاجدارِ زندگی
عشق کی دیوانگی کے سامنے سب ہیچ ہیں
توڑ دیتی ہے محبّت ، ہر حصارِ زندگی
تیرے پائے ناز کا اک لمس پاکر ہے رواں
چھن چھناتی ، گنگناتی جوئبارِ زندگی
تیری توصیف و ثناء مدح سے آراستہ
ہے ادیبِ خوش بیاں کا نغمہ زار ِ زندگی
اے شافع ِ امم شہِ ذی جاہ لے خبر
لِلّٰہ لے خبر مری لِلّٰہ لے خبر
دریا کا جوش، ناؤ نہ بیڑا نہ ناخدا
میں ڈوبا، تُو کہاں ہے مرے شاہ لے خبر
منزل کڑی ہے رات اندھیری میں نابلد
اے خضر لے خبر مری اے ماہ لے خبر
پہنچے پہنچنے والے تو منزل مگر شہا
ان کی جو تھک کے بیٹھے سرِ راہ لے خبر
جنگل درندوں کا ہے میں بے یار شب قریب
گھیرے ہیں چار سمت سے بدخواہ لے خبر
منزل نئی عزیر جُدا لوگ ناشناس
ٹوٹا ہے کوہِ غم میں پرِ کاہ لے خبر
وہ سختیاں سوال کی وہ صورتیں مہیب
اے غمزدوں کے حال سے آگا ہ لے خبر
مجر م کو بارگاہِ عدالت میں لائے ہیں
تکتا ہے بے کسی میں تری راہ لے خبر
اہل ِ عمل کو ان کے عمل کا م آئیں گے
میرا ہے کون تیرے سِوا آہ لے خبر
پُر خار راہ برہنہ پاتِشنہ آب دور
مَولٰی پڑی ہے آفتِ جانکاہ لے خبر
باہر زبانیں پیاس سے ہیں آفتاب گرم
کوثر کے شاہ کثّر اللہ لے خبر
ما نا کہ سخت مجرم و ناکارہ ہے رضا
تیرا ہی تو ہے بندۂ درگاہ لے خبر
اۓ کاش ! تصور میں مدینے کی گلی ہو
اور یاد محمد ﷺ کی میرے دل میں بسی ہو
دو سوز بِلال آقا! ؐ درد رضا سے
سرکا ر! عطا عشقِ اُویس ِ قرنی ہو
اۓ کاش ! میں بن جاؤں مدینے کا مسافر
پھر روتی ہوئی طیبہ کو بارات چلی ہو
پھر رحمت ِ باری سے چلوں سوئے مدینہ
اۓ کاش ! مقدر سے مُیسّر وہ گھڑی ہو
جب آؤں مدینے میں تو ہو چاک گَر ِیباں
آنکھوں سے برستے ہوئے اشکوں کی جَھڑی ہو
اۓ کاش ! مدینے میں مجھے مو ت یوں آئے
چوکھٹ پہ تِری سر ہو مِری روح چلی ہو
جب لے کے چلو گورِ غریباں کو جنازہ
کچھ خاک مدینے کی مِرے منہ پہ سجی ہو
جس وقت نَکِیرَیۡن مِری قبر میں آئیں
اُس وقت مِرے لب پہ سجی نعتِ نبی ہو
صَدَقہ مِرے مرشد کا کروں دور بلائیں
ہو بہتری اس میں جو بھی ارمانِ دِلی ہے
اللہ کی رحمت سے تو جنت ہی ملے گی
اۓ کاش ! مَحلّے میں جگہ اُن کے ملی ہو
محفوظ سدا رکھنا شہا بے اَدَبوں سے
اور مجھ سے بھی سرزد نہ کبھی بے اَدَ بی ہو
عطاؔر ہمارا ہے سرِ حشر اِسے کاش
دستِ شَہِ بطحٰی سے یہی چٹھی ملی ہو
بادِ صبا تیرا گزر گر ہو کبھی سوئے حرم
پہنچا سلامِ شوق تو پیشِ نبیٔ محترم
جو ذات ہے نور الھدیٰ، چہرہ ہے جو شمس الضحیٰ
عارض ہیں جو بدرالدجیٰ،دستِ عطا بحرِ کرم
یا مصطفٰے یا مجتبیٰ ہم عاصیوں پر رحم ہو
ہیں نفسِ امّارہ سےاب مجبور ہم مغلوب ہم
قرآں ہی وہ برہاں ہے، جو ناطق ادیان ہے
حکم اس کا جب نافذ ہوا، تھے سب صحیفے کالعدم
بر تر قیاس سے ہے مقامِ ابُو الحسن سدرہ سے پوچھو رفعتِ بامِ ابُو الحسین
وارستہ پائے بستہ ٔ دامِ ابُو الحسین آزاد نار سے ہے غلام ِ ابُو الحسین
خطِ سیہ میں نورِ الٰہی کی تابشیں کیا صبح ِ نور بار ہے شامِ ابُوالحسین
ساقی سنا دے شیشۂ بغداد کی ٹپک مہکی ہے بوئے گل سے مدامِ ابو الحسین
بوئے کباب سوختہ آتی ہے مئے کشو چھلکا شرابِ چشت سے جامِ ابُو الحسین
گلگوں سحر کو ہے سَہر سوزِ دل سے آنکھ سلطان سہرور د ہے نامِ ابُوالحسین
کرسی نشیں ہے نقش مُراد اُ ن کے فیض سے مولائے نقش بند ہے نام ِ ابو الحسین
جس نخل پاک میں ہیں چھیالیس ڈالیاں اک شاخ ان میں سے ہے بنامِ ابُو الحسین
مستوں کو اے کریم بچائے خمار سے تادور حشر دورۂ جامِ ابُوالحسین
اُن کے بھلے سے لاکھوں غریبوں کا ہے بھلا یا رب زمانہ باد بکامِ ابُو الحسین
میلا لگا ہے شانِ مسیحا کی دید ہے مردے جلا رہا ہے خرامِ ابُو الحسین
سر گشتہ مہر ومہ ہیں پَر اب تک کھلا نہیں کس چرخ پر ہے ماہ تمام ِ ابُو الحسین
اتنا پتہ ملا ہے کہ یہ چرخ چنبری ہے مفت پایہ زینۂ بامِ ابُو الحسین
ذرّہ کو مہر قطرہ کو دریا کرے ابھی گر جوش زن ہو بخشش عامِ ابُو الحسین
یحیٰ کا صدقہ وارثِ اقبال مند پائے سجادہ ٔ شیوخ کرامِ ابُو الحسین
انعام لیں بہارِ جناں تہنیت لکھیں پھولے پھلے تو نخل مرامِ ابُوالحسین
یا رب وہ چاند جو فلکِ عزّہ جاہ پر ہر سیر میں ہوگا م بگامِ ابُوالحسین
آؤ تمہیں ہلال سپہر شرف دکھائیں گردن جھکائیں بہر سلام ِ ابُو الحسین
قدرت خدا کی ہے کہ طلاطم کناں اٹھی بحر فنا سے موج دوامِ ابُوالحسین
یا رب ہمیں بھی چاشنی اس اپنی یاد کی جس سے ہے شکّریں لب وکام ِ ابُوالحسین
ہاں طالِع رضا تری اللہ رے یا وری
اے بندہ ٔ جد و د کرام ِ ابُو الحسین
بندہ قادر کا بھی قادر بھی ہے عبدالقادر
سرِّ باطن بھی ہے ظاہری بھی ہے عبدالقادر
مفتی شرع بھی ہے قاضِی ملت بھی ہے
علم اسرار سے ماہر بھی ہے عبدالقادر
منبع فیض بھی ہے مجمع افضال بھی ہے
مہرِ عرفاں کا منور بھی ہے عبدالقادر
قطب ابدال بھی ہے محورِ ارشاد بھی ہے
مرکزِ دائرہ سِر بھی ہے عبدالقادر
سلکِ عرفاں کی ضیا ہے یہی درِ مختار
فخرِ اشباہ و نظائر بھی ہے عبدالقادر
اس کے فرمان ہیں سب شارحِ حکمِ شارع
مظہر ناہی و آمر بھی ہے عبدالقادر
ذی تصرف بھی ہے ماذون بھی مختار بھی ہے
کارِ عالم کا مدبّر بھی ہے عبدالقادر
رشکِ بلبل ہے رضا لالہ صد داغ بھی ہے
آپ کا واصفِ و ذاکر بھی ہے عبدالقادر
بندہ ملنے کو قریبِ حضرت قادر گیا لمعۂ باطن میں گمنے جلوۂ ظاہر گیا
تیری مرضی پاگیا سوٗرج پھرا الٹے قدم تیری انگلی اٹھ گئی مہ کا کلیجا چِر گیا
بڑھ چلی تیری ضیا اندھیرہ عالم سے گھٹا کھل گیا گیسو ترا رحمت کا بادل گھر گیا
بندھ گئی تیری ہوا سادہ میں خاک اڑنے لگی بڑھ چلی تیری ضیا آتش پہ پانی پھرگیا
تیر ی رحمت س صفی اللہ کا بیڑا پار تھا تیرے صدقے سے نجی اللہ کا بجرا تِر گیا
تیری آمد تھی کہ بیت اللہ مجرے کو جھکا تیری ہیبت تھی ہر بُت تھر تھر ا کر گر گیا
مومن اُن کا کیا ہوا للہ اس کا ہو گیا کافر اُن سے کیا پھر ا اللہ ہی سے پھر گیا
وہ کہ اُس در کا ہوا خلقِ خدا اُس کی ہوئی وہ کہ اس در سے پھر ا اللہ اس سے پھر گیا
مجھ کو دیوانہ بتاتے ہو میں وہ ہشیار ہوں پاؤں جب طوفِ حرم میں تھک گئے سر پرگیا
رحمۃ اللعالمین آفت میں ہوں کیسی کروں میرے مولیٰ میں تو اِس دل سے بلا میں گھر گیا
میں ترے ہاتھوں کے صدقے کیس کنکریاں تھیں وہ جن سے اتنے کافروں کا دفعتًا منھ پھر گیا
کیوں جناب بو ہریرہ تھا وہ کیسا جامِ شیر جس سے ستر صاحبوں کا دودھ سے منھ پھر گیا
واسطہ پیارے کا ایسا ہو کہ جو سنّی مرے یوں نہ فرمائیں ترے شاہد کہ وہ فاجر گیا
عرش پر دھومیں مچیں وہ مومن صالح ملا فرش سے ماتم اٹھے وہ طیّب وہ طاہر گیا
اللہ اللہ یہ علوِ خاص عبدیت رضا بندہ ملنے کو قریبِ حضرت قادر گیا
ٹھوکریں کھاتے پھروگے انکے در پر پڑرہو قافلہ تو اے رضا اوّل گیا آخر گیا
نعمتیں بانٹتا جس سمت وہ ذیشا ن گیا ساتھ ہی منشی رحمت کا قلم دان گیا
لے خبر جلد کہ غیروں کی طرف دھیان گیا میرے مولا مِرے آقا ترے قربان گیا
آہ وہ آنکھ کہ ناکامِ تمنّا ہی رہی ہائے وہ دل جو ترے در سے پُر اَرمان گیا
دل ہے وہ جو تری یاد سے معمور رہا سر ہے وہ سر جو ترے قدموں پہ قربان گیا
انہیں جانا انہیں مانا نہ رکھا غیر سے کام لِلّٰہِ الحمد میں دنیا سے مسلمان گیا
اور تم پر مرے آقا کی عنایت نہ سہی نجدیو! کلمہ پڑھانے کا بھی احسان گیا
آج لے ان کی پنا ہ آج مدد مانگ ان سے پھر نہ مانیں گے قیامت میں اگر مان گیا
اُف رے منکریہ بڑھا جوشِ تعصّب آکر بھیڑ میں ہاتھ سے کم بخت کے ایمان گیا
جان و دل ہوش وخِرد سب تو مدینے پہنچے تم نہں چلتے رضا سارا تو سامان گیا ۔
بھردو جھولی میری یا محمد ﷺ
لوٹ کر میں نہ جاؤ ں گا خالی
تمہارے آستانے سے زمانہ کیا نہیں پاتا
کوئی بھی در سے خالی مانگنے والا نہیں جاتا
بھردو جھولی میری سرکار ِ مدینہ
بھردو جھولی میری تاجدارِ مدینہ
تم زمانے کے مختار ہو یا نبی ﷺ
بے کسوں کے مدد گار ہو یا نبی ﷺ
سب کی سنتے ہو اپنے ہو یا غیر ہوں
تم غریبوں کے غم خوار ہو یا نبی ﷺ
ہم ہیں رنج و مصیبت کے مارےہوئے
سخت مصیبت میں ہیں غم کے ہارے ہوئے
کچھ خدارا ہمیں بھیک دو
در پے ائے ہیں جھولی پھیلائے ہوئے
ہے مخالف زمانہ کدھر جائیں ہم
حالاتِ بے کس کو دکھائیں ہم
ہم تمہارے بھکاری ہیں یا مصطفیٰ
کس کے آگے بھلا ہاتھ پھیلائیں ہم
کچھ نواسوں کا صدقہ عطا ہو
در پہ آیا ہوں بن کر سوالی
حق سے پائی وہ شان کریمی
مرحبا دونوں عالم کےوالی
اس کی قسمت کا چمکا ستار
جس پہ نظر ِ کرم تم نے ڈالی
زندگی بخش دی بندگی کو
آبرو دین حق کی بچالی
وہ محمد کا پیارہ نواسہ
جس نے سجدے میں گردن کٹالی
جو ابنِ مرتضیٰ نے کیا کام خوب ہے
قربانیٔ حسین کا انجام خوب ہے
قربان ہو کہ فاطمہ زھرٰی کے چین نے
دینِ خدا کی شان بڑھائی حسین نے
بخشی ہے جس نے مذہب ِ اسلام کو حیات
جتنی عظیم حضرت شبیر کی ہے ذات
میدانِ کربلا میں شاہِ خوش خصال نے
سجدے میں سرکٹا کے محمد ﷺ کے لعل نے
حشر میں دیکھیں گے جس دم
امتی یہ کہیں گے خوشی سے
آرہے ہیں وہ دیکھو محمد ﷺ
جن کےکندھے پہ کملی ہے کالی
محشر کے روز پیشِ خدا ہوں گے جس گھڑی
ہو گی گناہ گاروں پرسش جس گھڑی ہوگی
یقینًا ہر بشر کو اپنی بخشش کی پڑی ہو گی
سبھی کہ آس اس دن کملی والے کی لگی ہوگی
کہ ایسے میں محمد ﷺکی سواری آرہی ہوگی
پکاریگا زمانہ اس گھڑی دکھ درد کے مارو
نہ گھبراؤ گناہ گارو نہ گھبراؤ گناہ گارو
عاشقِ مصطفیٰ ﷺ کی اذان میں کتنا اثر تھا
سچا یہ واقعہ ہے اذان بلال کا
ایک دن رسولِ پا ک سے لوگوں نے یوں کہا
یا مصطفٰی اذان غلط دیتے ہیں بلال
کہیے حضور اس میں آپ کا ہے کیا خیال
فرمایا مصطفیٰ نےیہ سچ ہے تو دیکھیے
وقتِ سحر کی آج اذان کوئی اور دے
حضرت بلال نے جو اذان ِ سحر نہ دی
قدرت خدا کی دیکھو نہ مطلق سحر ہوئی
آئے نبی کے پاس کچھ اصحاب ِ با صفا
کی عرض مصطفٰی سے یا شاہِ انبیاء
ہے کیا سبب سحر نہ ہوئی آج
جبریل لے آئے پیغام ِ کبریا
پہلے تو مصطفیٰ کو ادب سے کیا سلام
بعد از سلام ان کو خدا کا دیا پیام
یوں جبریل نے کہا خیر الانام سے
اللہ کو ہے پیار تمہارے غلام سے
فرما رہا ہے آپ سے رب ذوالجلا
ہوگی نہ صبح دیں گے نہ جب تک اذان بلال
عاشقِ مصطفیٰ میں اللہ اللہ کتنا اثر تھا
عرش والے بھی سنتے تھے جس کو
کیا اذان تھی اذان ِ بلالی
کاش ! پرنم بھی آئے مدینے
جیتے جی ہو بلاوا کسی دن
حال ِ غم مصطفٰی کو سناؤں
تھام کر ان کے روضے کی جالی
بھینی سُہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے
کلیاں کھِلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے
کھبتی ہوئی نظر میں ادا کِس سحر کی ہے
چھبتی ہوئی جگر میں صَدا کس گجر کی ہے
ڈالیں ہَری ہَری ہیں تو بالیں بھری بھری
کشتِ اَمل پَری ہے یہ بارش کدھر کی ہے
ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حَرم کہے
سونپا خدا تجھ کو یہ عظمت سَفر کی ہے
ہم گِرد کعبہ پھرتے تھے کل تک اور آج وہ
ہم پر نثار ہے یہ ارادت کدھر کی ہے
کالک جبیں کی سجدۂ در سے چھڑاؤ گے
مجھ کو بھی لے چلو یہ تمنّا حجر کی ہے
ڈوبا ہوا ہے شوق میں زمزم اور آنکھ سے
جھالے برس رہے ہیں یہ حسرت کدھر کی ہے
برسا کہ جانے والوں پہ گوہر کروں نثار
ابرِ کرم سے عرض یہ میزاب زر کی ہے
آغوش ِ شوق کھولے ہے جن کے لیے حطیم
وہ پھر کے دیکھتے نہیں یہ دھن کدھر کی ہے
ہاں ہاں رہ ِ مدینہ ہے غافل ذرا تو جاگ
او پاؤں رکھنے والے یہ جاچشم و سر کی ہے
واروں قدم قدم پہ کہ ہر دم ہے جانِ نو
یہ راہِ جاں فزا مرے مولیٰ کے در کی ہے
گھڑیاں گنی ہیں برسوں کہ یہ سُب گھڑی پھری
مر مر کے پھر یہ سل مرے سینے سے سر کی ہے
اللہ اکبر اپنے قدم اور یہ خاکِ پاک
حسرت ِ ملائکہ کو جہاں وضعِ سر کی ہے
معراج کا سماں ہے کہاں پہنچے زائرو!
کرسی سے اونچی کرسی اسی پاک گھر کی ہے
عشاقِ رَوضہ سجدہ میں سوئے حرم جھکے
اللہ جانتا ہے کہ نیّت کِدھر کی ہے
یہ گھر یہ در ہے اس کا جو گھر در سے پاک ہے
مژدہ ہو بے گھر و کہ صلا اچّھے گھر کی ہے
محبوب ربِ عرش ہے اس سَبز قبّہ میں
پہلو جلوہ گاہ عتیق و عمر کی ہے
چھائے ملائکہ ہیں لگا تار ہے درود!
بدلے ہیں پہر ے بدلی میں بارش دُرر کی ہے
سعدیں کا قران ہے پہلوئے ماہ میں
جھرمٹ کیے ہیں تارے تجلّی قمر کی ہے
ستّر ہزار صبح ہیں ستّر ہزار شام
یوں بندگی ِ زلف و رُخ آٹھوں پہر کی ہے
جو ایک بار آئے دوبارہ نہ آئیں گے
رخصَت ہی بارگاہ سے بس اس قدر کی ہے
تڑپا کریں بدل کے پھر آنا کہاں نصیب
بے حکم کب مجال پرندے کو پر کی ہے
اے وائے بے کسیِ تمنّا کہ اب امید
دن کو نہ شام کی ہے نہ شب کو سحر کی ہے
یہ بدلیاں نہ ہوں تو کروروں کی آس جائے
اور بارگاہ مرحمتِ عام تر کی ہے
معصوموں کو ہے عمر میں صرف ایکبار بار
عاصی پڑے رہیں توصَلا عمر بھر کی ہے
زندہ رہیں تو حاضریِ بارگہ نصیب
مرجائیں تو حیاتِ اَبد عیش گھر کی ہے
مفلِس اور ایسے در سے پھر ے بے غنی ہوئے
چاندی ہر اک طرح تو یہاں گدیہ گر کی ہے
جاناں پہ تکیہ خاک نہالی ہے دل نہال
ہاں بے نواؤ خوب یہ صُورت گزر کی ہے
ہیں چتر و تخت سایہ ٔ دیوار و خاکِ در
شاہوں کو کب نصیب یہ دھج کرّوفر کی ہے
اس پاک کو میں خاک بسر سر بخاک ہیں
سمجھے ہیں کچھ یہی جو حقیقت بسر کی ہے
کیوں تاجدارو ! خواب میں دیکھی کبھی یہ شئے
جو آج جھولیوں میں گدایانِ در کی ہے
جارو کشوں میں چہرے لکھے ہیں ملوک کے
وہ بھی کہاں نصیب فقط نام بھر کی ہے
طیبہ میں مر کے ٹھنڈ ے چلے جاؤ آنکھیں بند
سیدھی سڑک یہ شہر شفاعت نگر کی ہے
عاصِی بھی ہیں چہیتے یہ طیبہ ہے زاہدو!
مکّہ نہیں کہ جانچ جہاں خیر و شر کی ہے
شانِ جمالِ طیبۂ جاناں ہے نفع محض!
وسعت جلالِ مکّہ میں سود و ضرر کی ہے
کعبہ ہے بے شک انجمن آرا دُلھن مگر
ساری بَھار دلھنیوں میں دولھا کے گھر کی ہے
کعبہ دُلھن ہے تربتِ اطہر نئی دُلھن
یہ رشکِ آفتاب و ہ غیرت قمر کی ہے
دونوں بنیں سجیلی انیلی بنی مگر
جو پی کے پاس ہے وہ سُہاگن کنور کی ہے
سر سبزِ و صل یہ ہے سیہ پوشِ ہجروہ
چمکی دو پٹوں سے ہے جو حالت جگر کی ہے
ماو شما تو کیا کہ خلیلِ جلیل کو
کل دیکھنا کہ اُن سے تمنّا نظر کی ہے
اپنا شرف دُعا سے ہے باقی رہا قبول
یہ جانیں ان کے ہاتھ میں کنجی اثر کی ہے
جو چاہے ان سے مانگ کہ دونوں جہاں کی خبر
زرنا خریدہ ایک کنیز اُن کے گھر کی ہے
رومی غلام دن حبشی باندیاں شبیں
گِنتی کنیز زادوں میں شام و سحر کی ہے
اتنا عجب بلندی ِ جنّت پہ کس لیے
دیکھا نہیں کہ بھیک یہ کِس اونچے گھر کی ہے
عرشِ بریں پہ کیوں نہ ہو فردوس کا دماغ
اتری ہوئی شبیہ تِرے بام و در کی ہے
وہ خلد جس میں اترے گی ابرار کی برات
ادنیٰ نچھاور اس مرے دولھا کے سر کی ہے
عنبر زمیں عبیر ہو ا مشکِ تر غبار!
ادنیٰ سی یہ شناخت تری رہگزر کی ہے
سر کار ہم گنواروں میں طرزِ ادب کہاں
ہم کو تو بس تمیز یہی بھیک بھر کی ہے
مانگیں گے مانگے جائیں گے منھ مانگی پائیں گے
سر کار میں نہ لا ہے نہ حاجت اگر کی ہے
اف بے حیا ئیاں کہ یہ منھ اور ترے حضور
ہاں تو کریم ہے تری خو در گزر کی ہے
تجھ سے چھپاؤں منھ تو کروں کس کے سامنے
کیا اور بھی کسی سے توقع نظر کی ہے
جاؤں کہاں پکاروں کسے کس کا منھ تکوں
کیا پرسشِ اور جَا بھی سگِ بے ہنر کی ہے
بابِ عطا تو یہ ہے جو بہکا ادھر ادھر
کیسی خرابی اس نگھر ے در بدر کی ہے
آباد ایک در ہے ترا اور ترے سِوا
جو بارگاہ دیکھیے غیرت کھنڈر کی ہے
لب وا ہیں آنکھیں بند ہیں پھیلی ہیں جھولیاں
کتنے مزے کی بھیک ترے پاک در کی ہے
گھیرا اندھیریوں نے دہائی ہے چاند کی
تنہا ہوں کالی رات ہے منزل خطر کی ہے
قسمت میں لاکھ پیچ ہوں سو بَل ہزار کج
یہ ساری گتھی اِک تِری سیدھی نظر کی ہے
ایسی بندھی نصیب کھلے مشکلیں کھلیں
دونوں جہاں میں دھوم تمہاری کمر کی ہے
جنت نہ دیں ، نہ دیں ، تری رویت ہو خیر سے
اس گل کے آگے کس کو ہوس برگ و بر کی ہے
شربت نہ دیں ، نہ دیں ، تو کرے بات لطف سے
یہ شہد ہو تو پھر کسے پَروا شکر کی ہے
میں خانہ زاد کہنہ ہوں صوٗرت لکھی ہوئی
بندوں کنیزوں میں مرے مادر پدر کی ہے
منگتا کا ہاتھ اٹھتے ہی داتا کی دین تھی
دوٗری قبول و عرض میں بس ہاتھ بھر کی ہے
سنکی وہ دیکھ باد شفاعت کہ دے ہوا
یہ آبرو رضا تِرے دامانِ تر کی ہے
بوسہ گہِ اصحاب وہ مہر سامی
وہ شانۂ چپ میں اُس کی عنبر فامی
یہ طرفہ کہ ہے کعبہ ٔ جان و دِل میں
سنگ اسود نصیب رکنِ شامی
بے خود کیےدیتے ہیں اندازِ حجابانہ
آ دل میں تجھے رکھ لوں اۓ جلوۂ جانانہ!
بس اتنا کرم کرنا اۓ چشمِ کریمانہ
جب جان لبوں پر ہو ، تم سامنے آجانا
جب تم نے مجھے اپنا ،دنیا میں بنایا ہے
محشر میں بھی کہہ دینا یہ ہے میرا دیوانہ
جی چاہتا ہے تحفے میں بھیجوں انہیں آنکھیں
درشن کا تو درشن ہو نذرانے کا نذرانہ
پینے کو تو پی لوں گا پر شرط ذرا سی ہے
اجمیر کا ساقی ہو بغداد کا مئے خانہ
کیوں آنکھ لگائی تھی؟ کیوں آنکھ ملائی تھی؟
اب رُخ کو چھپا بیٹھے ، کر کے مجھے دیوانہ !
بیدؔم میری قسمت میں، سجدے ہیں اِسی در کے
چھوٹا ہے نہ چھوٹے گا ، سنگِ درِ جانانہ
پھر کے گلی گلی تباہ ٹھوکریں سب کی کھائے کیوں
دل کو جو عقل دے خدا تیری گلی سے جائے کیوں
رخصتِ قافلہ کا شور غش سے ہمیں اٹھائے کیوں
سوتے ہیں ان کے سایہ میں کوئی ہمیں جگائے کیوں
بار نہ تھے جیب کو پالتے ہی غریب کو
روئیں جو اب نصیب کوچیں کہو گنوائیں کیوں
یادِ حضور کی قسم غفلتِ عیش ہے سِتم
خوب ہیں قیدِ غم میں ہم کوئی ہمیں چھڑا ئے کیوں
دیکھ کے حضرتِ غنی پھیل پڑے فقیر بھی
چھائی ہے اب تو چھاؤنی حشر ہی آنہ جائے کیوں
جان ہے عشقِ مصطفٰے روز فزوں کرے خدا
جس کو ہو در د کا مزہ نازِ دوا اٹھائے کیوں
ہم تو ہیں آپ دل فگار غم میں ہنسی ہے ناگوار
چھیڑ کے گل کو نو بہار خون ہمیں رلائے کیوں
یا تو یوں ہی تڑپ کے جائیں یا وہی دام سے چھڑائیں
منت ِ غیر کیوں اٹھائیں کوئی ترس جتائے کیوں
اُن کے جلال کا اثر دل سے لگائے ہے قمر
جو کہ ہو لوٹ زخم پر داغِ جگر مٹائے کیوں
خوش رہے گل سے عندلیب خارِ حرم مجھے نصیب
میری بلا بھی ذِکر پھر پھول کے خار کھائے کیوں
گردِ ملال اگر دُھلے دِل کی کلی اگر کھِلے
برق سے آنکھ کیوں جلے رونے پہ مسکرائے کیوں
جانِ سفر نصیب کو کس نے کہا مزے سے سو
کھٹکا اگر سحر کا ہوشام سے موت آئے کیوں
اب تو نہ روک اے غنی عادتِ سگ بگڑ گئی
میرے کریم پہلے ہی لقمۂ تر کھلائے کیوں
راہِ نبی میں کیا کمی فرشِ بیاض دیدہ کی
چادرِ ظل ہے ملگجی زیرِ قدم بچھائے کیوں
سنگِ در حضور سے ہم کو خدا نہ صبر دے
جانا ہے سر کو جا چکے دل کو قرار آئے کیوں
ہے تو رضا نراسِتم جرم پہ گر لجائیں ہم
کوئی بجائے سوز، غم سا ز طرب بجائے کیوں
پوچھتے کیا ہو مدینے سے میں کیا لا ہوں
اپنی آنکھوں میں مدینے کو بسا لا یا ہوں
دل بھی میرا ہے وہیں جان بھی میری ہے وہیں
اپنی کندھوں پر اپنے لاشے کو اٹھا لا یا ہوں
جس نے چومے قدم سر ور ِ عالم کے
خاک ِ طیبہ کو میں اپنی پلکوں پہ سجا لا یا ہوں
سایہ گمبدِ خضرا میں ادا کر کے نماز
اپنے سر کو میں عرش کا ہم پایا بنا لا یا ہوں
جان و دل وہاں رکھ کے امانت کی طرح
پھر وہیں جانے کے اسباب بنا لا یا ہوں
پوچھتے کیوں ہو عرش پر یوں گئے مصطفٰے کہ یوں
کیف کے پر جہاں جلیں کوئی بتائے کیا کہ یوں
قصرِ دنٰی کے راز میں عقلیں تو گُم ہیں جیسی ہیں
رُوح قدس سے پوچھیے تم نے بھی کچھ سُنا کہ یوں
میں نے کہا کہ جلوہ ٔ اصل میں کس طرح گمیں
صبح نے نور مہر میں مٹ کے دکھا دیا کہ یوں
ہائے رے ذوقِ بے خودی دل جو سنبھلنے سا لگا
چھک کے مہک میں پھول کی گرنے لگی صبا کہ یوں
دل کو دے نور و داغ عِشق پھر میں فدا دو نیم کر
مانا ہے سن کے شقِ ماہ آنکھوں سے اب دکھا کہ یوں
دل کو ہے فِکر کس طرح مُردے جلاتے ہیں حضور
اے میں فدا لگا کر ایک ٹھوکر اسے بتا کہ یوں
باغ میں شکرِ وصل تھا ہجر میں ہائے ہائے گل
کام ہے ان کے ذکر سے خیر وہ یوں ہوا کہ یوں
جو کہے شعر و پاس شرع دونوں کا حسن کیوں کر آئے
لا اسے پیشِ جلوہ زمزمۂ رضا کہ یوں
پيارو آ مدينو نيارو نيارو آ مدينو
منهنجو ساھ آ مدينو واھ واھ مدينو
ريءَ پاڪ نبيءَ نه سري ٿي هي دل ٿڌا ساھ ڀري ٿي
جي نظر ٿئي ها هڪڙي وڃان سنڌ کان طيبه نڪري
مديني پاڪ اچان پسي روضي کي ٺران
مديني پاڪ اچان پسي روضي کي ٺران
شل موت ملي ها مديني ۾ منهنجي خاڪ رلي ها مديني ۾
جي جسم کان روح هتي نڪري گنبد کي ڏسي مينار ڏسي
ڀليم چوي سبحان الله جي قبر مديني منجھ ملي
تاب مرآتِ سحر گرد بیا بانِ عرب
غازۂ روئے قمر دودِ چراغان ِ عرب
اللہ اللہ بہارِ چمنستان ِ عرب
پاک ہیں لوث خزاں سے گل وریحانِ عرب
جوشش ابر سے خونِ گلِ فردوس کرے
چھیڑ دے رگ کو اگر خار بیابانِ عرب
تشنۂ نہرِ جناں ہر عربی و عجمی !
نہرِ جناں ہر عربی وعجمی !
لب ہر نہر جناں تشنۂ نیسانِ عرب
طوقِ غم آپ ہو ا ئے پرِ قسمری سے گرے
اگر آزاد کرے سروِ خرامان عرب
مہر میزاں میں چھپا ہو تو حمل میں چَملے
ڈالے اِک بوند شب دے میں جو بارانِ عرب
عرش سے مژدۂ بلقیس ِ شفاعت لایا
طائرِ سدرہ نشیں مرغ ِ سلیمانِ عرب
حسنِ یوسف پہ کٹیں مصر میں انگشتِ زناں
سر کٹاتے ہیں ترے نام پہ مردانِ عرب
کوچہ کوچہ میں مہکتی ہے یہاں بوئے قمیص
یوسفِستاں ہے ہر اِک گوشۂ کنعانِ عرب
بزمِ قدسی میں ہے یادِ لبِ جاں بخش حضور
عالم ِ نور میں ہے چشمۂ حیوانِ عرب
پائے جبریل نے سرکار سے کیا کیا القاب
خسرو خیلِ ملک خادمِ سلطانِ عرب
بلبل و نیلپر و کبک بنو پروانو!
مہ و خورشید پہ ہنستے ہیں چراغانِ عرب
حور سے کیا کہیں موسیٰ سے مگر عرض کریں
کہ ہے خود حسنِ ازل طالبِ جانانِ عرب
کرمِ نعت کے نزدیک تو کچھ دور نہیں
کہ رضا ئے عجمی ہو سگِ حسّانِ عرب
پھر اٹھا ولولۂ یادِ مغیلان ِ عرب
پھر کھنچا دامنِ دل سوئے بیابان ِ عرب
باغ ِ فردوس کو جاتے ہیں ہزارانِ عرب
ہائے صحرائے عرب ہائے بیابانِ عرب
میٹھی باتیں تری دینِ عجم ایمانِ عرب
نمکیں حسن تراجانِ عجم شانِ عرب
اب تو ہے گریہ ٔ خوں گوہر دامانِ عرب
جسمیں دو لعل تھے زہرا کے وہ تھی کانِ عرب
دل وہی دل ہے جو آنکھوں سے ہو حیرانِ عرب
آنکھیں وہ آنکھیں ہیں جو دل سے ہوں قربانِ عرب
ہائے کس وقت لگی پھانس اَلم کی دل میں
کہ بہت دوٗر رہے خارِ مغیلانِ عرب
فصلِ گل لاکھ نہ ہو وصل کی رکھ آس ہزار
پھولتے پھلتے ہیں بے فصل گلستانِ عرب
صدقے ہونے کو چلے آتے ہیں لاکھوں گلزار
چکھ عجب رنگ سے پھولا ہے گلستان ِ عرب
عندلیبی پہ جھگڑتے ہیں کٹے مَرتے ہیں
گل و بلبل کو لڑاتا ہے گلِستان ِ عرب
صدقے رحمت کے کہاں پھول کہاں خار کا کام
خود ہے دامن کشِ بلبل گلِ خندانِ عرب
شادی حشر ہے صَدقے میں چھٹیں گے قیدی
عرش پر دھوم سے ہے دعوتِ مہمان عرب
چرچے ہوتے ہیں یہ کمھلائے ہوئے پھولوں میں
کیوں یہ دن دیکھتے پاتے جو بیابانِ عرب
تیرے بے دام کے بندے ہیں رئیسانِ عجم
تیرے بے دام کے بندی ہیں ہزارانِ عرب
ہشت خلد آئیں وہاں کسبِ لطافت کو رضا
چار دن برسے جہاں ابرِ بہارانِ عرب
تاجدارِ حرم اۓ شہنشاہ ِ دین تم پہ ہر دم کروڑوں درودوں سلام
ہو نکاہ ِ کرم ہم پہ سلطانِ دین تم پہ ہر دم کروڑوں درودوں سلام
دور رہ کر نہ دم ٹوٹ جائے کاش طیبہ میں اِے میرے ماہ مبیں
دفن ہونے کو مل جائے دو گز زمین تم پہ ہر دم کروڑوں درودوں سلام
کوئی حسنِ عمل پاس میرے نہیں پھنس نہ جاؤں قیامت میں مولا کہیں
اۓ شفیعِ اُمم لاج رکھنا تمہی ، تم پہ ہر دم کروڑوں درودوں سلام
تیری یادوں سے معمور سینہ ر ہے سامنے میرے ہر دم مدینہ رہے
بس میں دیوانہ بن جاؤں سلطان ِ دین ،تم پہ ہر دم کروڑوں درودوں سلام
ترے فیضانِ بے حد سے کسے انکار ہے وارث
کہ ہم جیسے غریبوں کا تو ہی غمخوار ہے وارث
مری کشتی ہے طوفانِ حوادث کے تھپیڑوں میں
اب ایسے وقت میں تیری مدد درکار ہے وارث
ادب ہے مانع اظہار ورنہ صاف کہہ دیتا
کہ دیدارِ محمدﷺ آپ کا دیدار ہے وارث
حریم ناز سے باہر کسی دن زحمت جلوہ
کہ مدت سے زمانہ طالب دیدار ہے وارث
جو یوں ممکن نہیں تو خواب ہی میں عید نظارہ
کہ عنبر بھی تمہارا طالب دیدار ہے وارث
تمہارا نام مصیبت میں جب لیا ہو گا
ہمارا بگڑا ہو ا کام بن گیا ہوگا
خدا کا لطف ہوا ہوگا دستگیر ضرور
جو گرتے گرتے تِرا نام لے لیا ہو گا
دکھائی جائیگی محشر میں شانِ محبوبی
کہ آپ ہی کی خوشی آپ کا کہا ہو گا
خدائے پاک کی چاہیں گے اگلے پچھلے خوشی
خدائے پاک خوشی ان کی چاہتا ہو گا
کسی کے پاؤں کی بیڑی یہ کاٹتے ہوں گے
کوئی اسیرِ غم ان کو پکارتا ہوگا
کسی طرف سے صدا، آئے گی حضور آؤ !
نہیں تو دم میں غریبوں کا فیصلہ ہو گا
کوئی کہے گا دُہائی ہے یا رسول اللہ !
تو کوئی تھام کے دامن ،مچل گیا ہوگا
کسی کو لے کے چلیں گے فرشتے سوئے حجیم
وہ ان کا راستہ پھر پھر کے دیکھتا ہوگا
خدا کے واسطے جلد ان سے عرضِ حال کرو !
کِسے خبر ہے کہ دم بھر میں ہائے کیا ہوگا ؟
پکڑ کے ہاتھ کوئی حالِ دل سنائے گا
تو رو کے قدموں سے کوئی لپٹ گیا ہوگا
کوئی قریب ترازو ،کوئی لبِ کوثر
کوئی صراط پر ان کو پکارتا ہوگا
وہ پاک دل کہ نہیں جس کو اپنا اندیشہ
ہجومِ فکر و تردّد میں گھر گیا ہو گا
کہیں گے اور نبی اِذْھَبُوْ ا اِلٰی غَیْرِی
مِرے حضور کے لب پر اَنَالَھَا ہو گا
غلام ان کی عنایت سے چین میں ہونگے
عَدو حضور کا آفت میں مبتلا ہوگا
میں ان کے در کا بھکاری ہوں فضل مولیٰ سے
حسن ؔ فقیر کا جنت میں بستر ا ہوگا
تمہارے ذرّے کے پر تو ستارے ہائے فلک
تمہارے فعل کی ناقِص مثل ضیا ئے فلک
اگر چہ چھالے ستاروں سے پڑ گئے لاکھوں
مگر تمہاری طلب میں تھکے نہ پائے فلک
سرِ فلک نہ کبھی تابہ آستاں پہنچا
کہ ابتدا ئے بلندی تھی انتہائے فلک
یہ مٹ کے ان کی رَوِش پر ہوا خود اُنکی روِش
کہ نقشِ پاہے زمیں پر نہ صوتِ پائے فلک
تمہاری یاد میں گزر ی تھی جاگتے شب بھر
چلی نسیم ہوئے بند دید ہائے فلک
نہ جاگ اٹھیں کہیں اہلِ بقیع کچی نیند
چلا یہ نرم نہ نِکلی صَدائے پائے فلک
یہ اُن کے جلوہ نے کیں گرمیاں شبِ اسرا
کہ جب سے چرخ میں ہیں نقرہ و طلائے فلک
مرے غنی نے جو اہر سے بھر دیا دامن
گیا جو کاسۂ مہ لے کے شب گدائے فلک
رہا جو قانِع یک نانِ سوختہ دن بھر
ملی حضور سے کانِ گہر جزائے فلک
تجمل ِ شب اسرا ابھی سمٹ نہ چکا
کہ جب سے ویسی ہی کوتل میں سبز ہائے فلک
خطاب ِ حق بھی ہے در بابِ خلق مِنْ اَجَلکْ
اگر ادھر سے دمِ حمد ہے صدائے فلک
یہ اہلِ بیت کی چکی سے چال سیکھی ہے
رواں ہے بے مددِ دست آسیائے فلک
رضا یہ نعتِ نبی نے بلندیاں بخشیں
لقب زمینِ فلک کا ہوا سمائے فلک
تنم فرسودہ جاں پارہ زِ ہجراں یا رسول اللہ !
وَلم پژمردہ آوارہ ، زِعصیاں یا رسول اللہ !
چوں سوئے من گزر آری، منِ مسکیں زِناداری
فدائے نقشِ نعلینت کنم جاں یا رسول اللہ!
زِکردہ خیش حیرانم سیاہ شُد روزِ عصیانم
پشیمانم، پما خنم ، پشیما ں یا رسول اللہ !
زِ جام ِحُبِّ تو مستم ، بہ زنجیرِ تو دل بستم
نمی گویم کہ من ہستم، سُخَنداں یا رسول اللہ!
بصدّیقت خریدارم ، عُمر را دوست می دارم
فدا سازم دل وجاں را بعثماں یا رسول اللہ !
چوں بازوئے شفاعت را کُشائی بر گنہگاراں
مکن محروم جامیؔ را ، درا آں یا رسول اللہ !
تو شمع ِ رسالت ﷺ ہے عالم تیرا پروانہ
تو ماہِ نبوت ﷺ ہے اۓ جلوہ جانانہ
جو ساقیٔ کوثر ﷺکے چہرے سے نقاب اٹھے
ہر دل بنے میخانہ ہر آنکھ ہو پیمانہ
دل اپنا چمک اٹھے ایمان کی طلعت سے
آنکھیں بھی نورانی اۓ جلوہ ٔ جانانہ
سر شار مجھے کر دے اِک جامِ لبا لب سے
تا حشر رہے ساقی آباد یہ مے خانہ
ہر پھول میں بو تیری، ہر شمع میں ضَو تیری
بلبل ہے تیرا بلبل، پروانہ ہے پروانہ
پیتے ہیں تِرے در کا کھاتے ہیں تِرے در کا
پانی ہے تِرا پانی، دانہ ہے تِرا دانہ
آباد اسے فرما ، ویراں ہے دل نوؔری
جلوے تِرے بس جائیں آباد ہو ویرانہ
تو ہے وہ غوث کہ ہر غوث ہے شیدا تیرا
تو ہے وہ غیث کہ ہر غیث ہے پیاسا تیرا
سورج اگلوں کے چمکتے تھے چمک کر ڈوبے
افقِ نور پہ ہے مہر ہمیشہ تیرا
مُرغ سب بولتے ہیں بول کے چپ رہتے ہیں
ہااصیل ایک نو اسنج رہے گا تیرا
جو ولی قبل تھے یا بعد ہوئے یا ہوں گے
سب ادب رکھتے ہیں دل میں مرے آقا تیرا
بقسم کہتے ہیں شاہان صریفین و حریم
کہ ہُوا ہے نہ ولی ہو کوئی ہمتا تیرا
تجھ سے اور دہر کے اقطاب سے نسبت کیسی
قطب خود کون ہے خادم تِرا چیلا تیرا
سارے اقطاب جہاں کرتے ہیں کعبہ کا طواف
کعبہ کرتا ہے طوافِ درِ والا تیرا
اور پروانے ہیں جو ہوتے ہیں کعبہ پہ نثار
شمع اِک تو، ہے کہ پَروانہ ہے کعبہ تیرا
شجرِ سرو سہی کِس کے اُگائے تیرے
معرفت پھول سہی کس کا کِھلا یا تیرا
تو ہے نو شاہ بَراتی ہے یہ سارا گلزار
لائی ہے فصل سمن گوندھ کے سہرا تیرا
ڈالیاں جھومتی ہیں رقصِ خوشی جو ش پہ ہے
بلبلیں جھولتی ہیں گاتی ہیں سہرا تیرا
گیت کلیوں کی چٹک غزلیں ہزاروں کی چہک
باغ کے سازوں میں بجتا ہے ترانا تیرا
صفِ ہر شجرہ میں ہوتی ہے سَلامی تیری
شاخیں جھک کے بجا لاتی ہیں مجرا تیرا
کِس گلستاں کو نہیں فصلِ بہاری سے نیا
کون سے سِلسلہ میں فیض نہ آیا تیرا
نہیں کس چاندکی منزل میں ترا جلوۂ نور
نہیں کس آئینہ کے گھر میں اُجالا تیرا
راج کِس شہر میں کرتے نہیں تیرے خدام
باج کِس نہر سے لیتا نہیں دریا تیرا
مزرع ِ چِشت و بخارا و عِراق واجمیر
کون سی کِشت پہ برسا نہیں جھالا تیرا
اور محبوب ہیں ، ہاں پر سبھی یکساں تو نہیں
یوں تو محبوب ہے ہر چاہنے ولا تیرا
اس کو سرفرد سَراپا بفراغت اوڑھیں
تنگ ہو کر جو اترنے کو ہو نیما تیرا
گردنیں جھک گئیں سر بچھ گئے دل لوٹ گئے
کشفِ ساق آج کہاں یہ تو قدم تھا تیرا
تاجِ فرقِ عرفا کس کے قدم کو کہیے
سر جسے باج دیں وہ پاؤں ہے کِس کا تیرا
سُکر کے جوش میں ہیں وہ تجھے کیا جانیں
خِضر کے ہوش سے پوچھے کوئی رتبہ تیرا
آدمی اپنے ہی احوال پہ کرتا ہے قیاس
نشے والوں نے بھلا سُکر نکالا تیرا
وہ تو چھوٹا ہی کہا چاہیں کہ ہیں زیرِ حضیض
اور ہر اَوج سے اونچا ہے ستارہ تیرا
دل ِ اعدا کو رضا تیز نمک کی دُھن ہے
اِ ک ذرا اور چھڑ کتار ہے خامہ تیرا
تیری خیر ہو وے پہر ے دارا! روضے دی جالی چُم لین دے
اساں ویکھاو ایں رب دا نظارا، روضے دی جالی چُم لین دے
نہ او طور، نہ عر شِ معلّی، اوتھے ہر ویلے رب دا تجلّٰی
ایہہ محمد دا پاک دوارا ،روضے دی جالی چم لین دے
ساڈے مولٰی نے ایہہ دن دکھائے، آ کے ڈیر ے غریباں نے لائے
ایتھے رب دا حبیب پیارا، روضے دی جالی چم لین دے
اس ہر ے ہرے گنبد دی چھانویں ،اساں دیکھے رسولاں دے نانویں
تایوں جھکدا ایتھے جگ سارا ،روضے دی جالی چم لین دے
جدوں آون گیا ں اودی یاداں ، اساں رُو رُو کَر اں گے فر یاداں
جاندی واری تے سانوں خدارا ،روضے دی جالی چم لین دے
جہڑے نور دا رب شیدائی ،اودا صدقہ اے ساری خدائی
او سے نور دا ایتھے چمکارا روضے دی جالی چم لین دے
اساں مہماں ہاں گھڑی و پل دے لکھے لیکھ نہ مؔسلم ٹل دے
خبر آؤ ناں ہو وے نہ دوبارا روضے دی جالی چم لین دے
ثنائے احمد مرسل میں جو سخن لکھوں
اسی کو نُدرتِ فکرو کمال فنِ لکھوں
وہ لفظ جس کا ہو مفہوم شانِ ختم رُسل
میں اس کو چشمۂ سیماب کی کرن لکھوں
وہ جستجو جو رہے فکرِ نعت میں ہر دم
میں اس کو رفرفِ افلاک فکر و فن لکھوں
وہ روح میں مہکتا ہے رات دن اِک نام
اُسے گلاب لکھوں یا کہ شب دلہن لکھوں
اُنہیں کے نام کو لکھوں حیاتِ نو کا پیام
حیاتِ نو کے جو مضمون کا متن لکھوں
فضا میں رنگ بکھر جائیں جس تصوّر سے
میں اس خیال کو فطرت کا بانکپن لکھوں
صبا جو کاکلِ مُشکیں کا لَمس پا کے چلے
میں اس صبا کو رم آہوئے ختن لکھوں
وہ گردِ کوچۂ بطحا، رموز کا جامہ
اسے شہیدِ محبّت کا میں کفن لکھوں
ہزار جان، گرامی نثارِ لذّتِ غم
جوان کی یاد کی دل میں کوئی چُھبن لکھوں
وہ نُور جس کا اُجالا محیطِ کون و مکاں
میں کیوں نہ اس کو محمد کا پیرہن لکھوں
وہ ایک نام جو تشبیہ کا نہیں محتاج
میں اس کی شرح میں کیا؟ رَبِّ ذوالمنن لکھوں
ہے جُوئے شِیر اگر نعتِ مصطفٰے لکھنا
تو پھر ادیب تجھے کیوں نہ کوہکن لکھوں
ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا مدینے کی
مہکی مہکی فضا مدینے کی
آرزو ہے خدا مدینے کی
مجھ کو گلیاں دکھا مدینے کی
دن ہے کیسا منوّر و روشن!
رات رونق فَزا مدینے کی
چھاؤں تو ہر جگہ کی ٹھنڈی پر
دھوپ بھی دِلرُبا مدینے کی
ہے پہاڑوں پر نور کی چادر
وادیاں دل کُشا مدینے کی
کیوں ہو مایوس اۓ مر یضو! تم
لے لو خاکِ شفا مدینے کی
کوئی ناکام لوٹتا ہی نہیں
راہ لے اۓ گدا !مدینے کی
میری قسمت میں کاتبِ تقدیر !
لکھ دے لکھ دے قضا مدینے کی
جا کے عؔطار پھر مدینے میں
رحمتیں لُوٹنا مدینے کی
جب مدینے میں حاضری ہو گی
وہ گھڑی بھی حسین گھڑی ہو گی
تم پکارو تو اُن کی رحمت کو!
کھوٹی قسمت ابھی کھری ہو گی
تم سراپا درود بن جاؤ !
پھر زیارت حضور کی ہوگی
اُ ن کے غم میں تڑپ کہ دیکھو تو !
تم پہ قرباں ہر خوشی ہو گی
کوئی ایسا نہیں کرم نے تیرے
جس کی جھولی نہیں بھری ہوگی
مجھ خطا کار کا بھرم رکھنا!
آپ کی بندہ پروری ہوگی
اُن کو ڈھونڈ یں گے سب قیامت میں
اُن پہ سب کی نظر لگی ہوگی
بات بن جائے گی نیاؔزی کی
چشم ِرحمت جو آپ کی ہوگی
جب مسجد نبوی کے مینار نظر آئے
اللہ کی رحمت کے آثار نظر آئے
منظر ہو بیا ں کیسے؟ الفاظ نہیں ملتے
جس وقت محمدﷺ کا دربار نظر آئے!
بس یا د رہا اتنا سینے سے لگی جالی
پھر یا دنہیں کیا کیا انوا ر نظر آئے !
دُکھ درد کے ماروں کو غم یا د نہیں رہتے
جب سامنے آنکھوں کے غمخوار نظر آئے
مَکّے کی فضاؤں میں طیبہ کی ہواؤں میں
ہم نے تو جِدھر دیکھا سرکار نظر آئے
چھوڑ آیا ظہوری میں دل و جان مدینے میں
اب جینا یہاں مجھ کو دشوار نظر آئے
جشن ِ آمد رسول اللہ ہی اللہ
بی بی آمنہ کے پھول اللہ ہی اللہ
جب کہ سرکار تشریف لانے لگے
حوروں غلماں بھی خوشیاں منانے لگے
ہر طرف نور کی روشنی چھا گئی
مصطفٰے کیا ملے زندگی مل گئی
اۓ حلیمہ تیری گود میں آ گئے
دونوں عالم کے رسول
چہرۂ مصطفٰے جب دکھا یا گیا
جھک گئے تارے اور چاند شرماگیا
آمنہ دیکھ کر مسکرانے لگیں
حوّا مریم بھی خوشیاں منانے لگیں
آمنہ بی بی سب سے کہنے لگیں
دعا ہو گئی قبول اللہ ہی اللہ
شادیانے خوشی کے بجائے گئے
شادی کے نغمے سب کو سنائے گئے
ہر طرف شورِ صَلِّ عَلٰی ہو گیا
آج پیدا حبیبِ خدا ہو گیا
تو جبریل نے بھی یہ اعلان کیا
یہ خدا کے ہیں رسول اللہ ہی اللہ
نور کی تن گئیں چادریں چار سو
حوروں غلماں کی پوری ہوئی آرزو
مصطفٰے مجتبیٰ شاہِ کون و مکاں
رب کی سرکار جب ہو گئے رو برو
پھر خدا نے کہا میرے محبوب تم
ہو رسولوں کے رسول اللہ ہی اللہ
فرش سے عرش تک نور کا ہے سما
لائے شریف دنیا میں خیر الورٰی
ایسے اُمت کی قسمت سنورنے لگی
بارشیں رحمت کی برسنے لگیں
اۓ حلیمہ! تیری لوریوں کے لیے
رب کے آگئے رسول اللہ ہی اللہ
ان کا سایہ زمیں پر نہ پایا گیا
نور سے نور دیکھو جُدا نہ ہوا
ہم کو عاؔبد نبی پر بڑا ناز ہے
کیا بھلا میرے آقا کا انداز ہے
جس نے رُخ پر مَلی وہ شِفا پا گیا
خاکِ طیبہ تیری دُھول اللہ ہی اللہ
جلالِ آیت ِ قرآں کو جو سہار سکے
نبی کے دل کے سِوا دوسرا مقام نہیں
وہ لذّتِ غمِ عشقِ رسول کیا جانے
درود لبوں پر نہیں سلام نہیں
وہ دشمنوں کا ہدف وہ قریش کا مظلوم
مگر کسی سے لیا کوئی انتقام؟ نہیں
خیال اس کے تعقب میں تھک کے بیٹھ گیا
سفر براق پہ اس کا مگر تمام نہیں
تمام عمر نہ پائے ، ملے تو لمحوں میں
متاعِ عشقِ محمد مذاقِ عام نہیں
ادیب ان کے ثناگو میں نام ہے میرا
مقامِ شکر کہیں اور میرا نام نہیں
جلوہ گر حضور ہو گئے
سب اندھیرے دور ہو گئے
ارضِ مصطفٰےکی خاک کے
ذرّے اشک نور ہوگئے
اِن کی یاد میں خوشی ملی
جب غموں سے چور ہو گئے
اِ ن کے راستے میں جو ملے
رنج بھی سُرور ہو گئے
آپ کے ہوئے نہ جو قریب
وہ خدا سے دُور ہو گئے
جن میں ان کا واسطہ رہا
کام وہ ضرور ہو گئے
صدقۂ ہے ظہوری نعت کا
معاف سب قصور ہو گئے ۔
جلوو تنهنجو باغن ۾
سڀ ٻوٽن ۾ گلڙن ۾
هر وڻ جو پن ذڪر ڪري
لااِلٰہ َ الا اللہ ُ
مٺڙا مولٰي عيد ڪراءِ
پنهنجي نبيءَ جي يد ڪراءِ
بس هي نعمت دل ٿي گهري
لااِلٰہ َ الا اللہ ُ
پنجتن جو مان خادم آهيان
موليٰ عليءَ تي جان ڏيان
لبڙن تي پوءِ ڇونه هجي
لااِلٰہ َ الا اللہ ُ
حوصلو رک ڀليم ادا
هيءَ سعادت ڏيندو خدا
موت مهل جهونگاريندين
لااِلٰہ َ الا اللہ ُ
کیوں کر نہ میرے دل میں ہو اُلفت رسول کی
جنت میں لے کے جائے گی چاہت رسول کی
بگڑی بھی بنائیں گے در پر بھی بلائیں گے
گھبراؤ نہ دیوانو ! سرکار بلائیں گے
چلتا ہوں میں بھی قافلے والو! رُکو ذر ا
ملنے دو بس مجھے بھی اجازت رسول کی
کیا سبز سبز گنبد کا خوب نظارا ہے
کس قدر سوہانہ ہے کیسا کیسا پیارا
سر کار نے بلا کے مدینہ دکھا دیا
ہو گی مجھے نصیب شفاعت رسول کی
ان آنکھوں کا پردہ ہی کوئی مصرف نہیں ہے
اۓ ! سرکار تمہارا رُخ زیبا نظر آئے
یا ر ب ! دکھا دے آج کی شب جلوۂ حبیب
اِک بار تو عطا ہو زیارت رسول کی
قبر میں سرکار آئیں تو میں قدموں میں گروں
گر فرشتے بھی اُٹھائیں ان سے میں یوں کہوں
اب تو پائے ناز سے میں اۓ فرشتو! کیوں اُٹھوں
مر کے پہنچا ہوں یہاں اس دلرُبا کے واسطے
تڑپا کے ان کے قدموں میں مجھ کو گرا دے شوق
جس وقت ہو لحد میں زیارت رسول کی
حشر میں اِک نیک کام تکتے پھرتے ہیں عدو
آفتوں میں چھوڑ گئے ان کا سہارا لیکر
دامن میں ان کے لے لو پناہ آج منکرو!
مہنگی پڑے گی ورنہ عداوت رسول کی
پوچھیں گے جو دینِ ایماں نکیرین قبر میں
اُس وقت میرے لب پہ ہو مدحت رسول کی
تو ہے غلام ان کا عبیؔد رضا تیرے
محشر میں ہو گی ساتھ حمایت رسول کی
جہاں روضۂ پاک خیرالوریٰ ہے وہ جنت نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے؟!
کہاں میں کہاں یہ مدینے کی گلیاں یہ قسمت نہیں تو پھر کیا ہے
محمد ﷺ کی عظمت کو کیا پوچھتے ہو کہ وہ صاحبِ قابَ قوسین ٹھررے
بَشر کی سرِعرش مہمان نوازی یہ عظمت نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے
جو عاصی کو کملی میں اپنی چھپالے جو دشمن کو بھی زخم کھا کر دعادے
اسے اور کیا نام دے گا زمانہ وہ رحمت نہیں ہے تو پھر کیا ہے
قیامت کا اک دن معین ہے لیکن ہمارے لیے ہر نفس ہے قیامت
مدینے سے ہم جاں نثاروں کی دوری قیامت نہیں ہے تو پھر کیا ہے
تم اقبال یہ نعت کہہ تو رہے ہو مگر یہ بھی سوچا کہ کیا کر رہے ہو
کہاں تم کہاں مدح ممدوحِ یزداں یہ جرأت نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے
جوبنوں پر ہے بہارِ چمن آرئی دوست
خلد کا نام نہ لے بلبل شیدائی دوست
تھک کے بیٹھے تو درِ دِل پہ تمنّائی دوست
کون سے گھر کا اُجالا نہیں زیبائی دوست
عرصۂ حشر کجا موقفِ محموُد کجا
سازہنگا موں سے رکھتی نہیں یکتائی دوست
مہر کس منھ سے جلو داریِ جاناں کرتا
سایہ کے نام سے بیزار ہے یکتائی دوست
مرنے والوں کو یہاں ملتی ہے عمرِ جاوید
زندہ چھوڑے گی کسی کو نہ مسیحائی دوست
ان کو یکتا کیا اور خلق بنائی یعنی
انجمن کر کے تماشا کریں تنہائی دوست
کعبہ و عرش میں کہرام ہے ناکامی کا
آہ کِس بزم میں ہے جلوۂ یکتائی دوست
حسن بے پردہ کے پردے نے مٹا رکھا ہے
ڈھونڈ نے جائیں کہاں جلوۂ ہرجانی دوست
شوق روکے نہ رُکے پاؤں اٹھائے نہ اُٹھے
کیسی مشکِل میں ہیں اللہ تمنّائی دوست
شرم سے جھکتی ہے محراب کہ ساجد ہیں حضور
سجدہ کرواتی ہے کعبہ سے جبیں سائی دوست
تاج والوں کا یہاں خاک پہ ماتھا دیکھا
سائے داراؤں کی دارا ہوئی دارائی دوست
طور پر کوئی کوئی چرخ پہ یہ عرش سے پار
سارے بالاؤں پہ بالا رہی بالائی دوست
اَنْتَ فِیہِم نے عدو کو بھی لیا دامن میں
عیش جاوید مبارک تجھے شیدائی دوست
رنج اعدا کا رضا چارہ ہی کیا ہے جب انہیں
آپ گستاخ رکھے حلم و شکیبائی دوست
چاند تارے ہی کیا دیکھتے رہ گئے
ان کو ارض و سماء دیکھتے رہ گئے
پڑھ کے روح الامین سورۂ والضحیٰ
صورتِ مصطفٰے دیکھتے رہ گئے
وہ امامت کی شب ،وہ صف انبیاء
مقتدی مقتدیٰ دیکھتے رہ گئے
معجزہ تھا وہ ہجرت میں ان کا سفر
دشمنانِ خدا دیکھتے رہ گئے
مرحبا شان ِ معراج ختم رسل
سب کے سب انبیاء دیکھتے رہ گئے
میں نصؔیر آج وہ ہے نعت نبی
نعت گو منہ مِرا دیکھتے رہ گئے
چراغاں چراغاں پیام ِمحمد ﷺ
بہت مستند ہے کلامِ محمد ﷺ
امیر و گدا میں نہیں فرق کوئی
زمانے میں یکساں نظام ِمحمد ﷺ
عدالت، شجاعت، سخاوت ،وفا میں
شہنشاہ ِ دوراں غلامِ محمد ﷺ
ازل سے لٹاتا ہوا پھول غنچے
ابد تک ہے گردش میں جام محمد ﷺ
شفیعِ امم بھی ، وہ ختم الرسل بھی
بہت ارفع اعلیٰ مقام محمدﷺ
مدینہ بھی ہے مستقر اُن کا اخؔتر
مکاں لامکاں بھی قیامِ محمدﷺ
چلو دیار ِ نبی کی جانب ، درود لب پر سجا سجا کر
بہار لوٹیں گے ہم کرم کی ، دلوں کو دامن بنا بنا کر
نہ اُ ن کے جیسا سخی ہےکوئی، نہ اُ ن کے جیسا غنی ہے کوئی
وہ بے نواؤں کو ہر جگہ سے، نوازتے ہیں بُلا بُلا کر
میں وہ نکما ہوں جسکی جھولی میں کوئی حُسنِ عمل نہیں ہے
مگر وہ احسان کر رہے ہیں خطائیں میری چھپا چھپا کر
ہے ان کو اُمت سے پیار کتنا ،کرم ہے رحمت شعار کتنا
ہمارے جرموں کو دھو رہے ہیں وہ اپنے آنسو بہا بہا کر
یہی آساسِ عمل ہے میری، اسی سے بگڑی بنی ہے میری
سمیٹتا ہوں کرم خدا کا، نبی کی نعتیں سنا سنا کر
وہ راہیں اب تک سجی ہوئی ہیں،ٍٍٍٍدلوں کا کعبہ بنی ہوئی ہیں
جہاں جہاں سے حضورﷺگذرے ہیں،نقش اپنا جما جما کر
اگر مقدر نے یاور ی کی ، اگر مدینے گیا میں خالؔد
قدم قدم خاک اس گلی کی، میں چوم لوں گا اُٹھا اُٹھا کر
چمن طیبۂ میں سنبل جو سنوارے گیسو
حور بڑھ کر شِکن ناز پہ وارے گیسو
کی جو بالوں سے ترے روضہ کی جاروب کشی
شب کو شبنم نے تبرک کو ہیں دھارے گیسو
ہم سیہ کاروں پہ یارب تپشِ محشر میں
سایہ افگن ہو ں ترے پیارے کے پیارے گیسو
چرچے حوروں میں ہیں دیکھو تو ذار بال براق
سنبلِ خلد کے قربان اوتارے گیسو
آخر ِ حج غمِ امّت میں پریشاں ہو کر
تیرہ بختوں کی شفاعت کو سدھار ے گیسو
گو ش تک سنتے تھے فریاد اب آئے تاد وش
کہ بنیں خانہ بدوشوں کو سہارے گیسو
سوکھے دھانوں پر ہمارے بھی کرم ہو جائے
چھائے رحمت کی گھٹا بن کے تمہارے گیسو
کعبہ ٔ جاں کو پنھا یا ہے غلاف ِ مشکیں
اڑ کر آئے ہیں جو اَبرو پہ تمہارے گیسو
سِلسلہ پا کے شفاعت کا جھکے پڑتے ہیں
سجدہ ٔ شکر کے کرتے ہیں اشارے گیسو
مشک بو کوچہ یہ کس پھول کا جھاڑ ا ان سے
حوریو عنبرِ سارا ہوئے سارے گیسو
دیکھو قرآں میں شب قدر ہے تا مطلعِ فجر
یعنی نزدیک ہیں عارض کے وہ پیارے گیسو
بھینی خوشبو سے مہک جاتی ہیں گلیاں واللہ
کیسے پھولوں میں بسائے ہیں تمہارے گیسو
شانِ رحمت ہے کہ شانہ نہ جُدا ہو دم بھر
سینہ چاکوں پہ کچھ اس درجہ ہیں پیارے گیسو
شانہ ہے پنجہ ٔ قدرت ترے بالوں کے لیے
کیسے ہاتھوں نے شہا تیرے سنوارے گیسو
احد پاک کی چوٹی سے الجھ لے شب بھر
صبح ہونے دو شبِ عید نے ہارے گیسو
مژدہ ہو قبلہ سے گھنگھور گھٹائیں اُمڈیں
ابرووں پر وہ جھکے جھوم کے بارے گیسو
تارِ شیرازۂ مجموعہ کونین ہیں یہ
حال کھل جائے جو اِک دم ہوں کنارے گیسو
تیل کی بوند یں ٹپکتی نہیں بالوں سے رضا
صبح عارض پہ لٹاتے ہیں ستارے گیسو
حاجیو! آؤ دیکھو شہنشا ہ کا روضہ
کعبہ تو دیکھ چکے ،کعبے کا کعبہ دیکھو
آب ِزم زم تو پیا خوب بجھائیں پیاسیں
آؤ جو د ِشہہِ کو ثر کا بھی دریا دیکھو
زیر ِمیز اب ملے خوب کرم کے چھینٹے
ابر ِرحمت کا یہاں زورِ برسنا دیکھو
دھوم دیکھی ہے درِ کعبہ پہ بے تابوں کی
ان کے مشتاقوں میں حسرت کا تڑپنا دیکھو
خوب آنکھوں سے لگایا ہے غلافِ کعبہ
قصر ِمحبوب کے پر دے کا بھی جلوہ دیکھو
واں مطیعں کا جگر خوف سے پانی پایا
یاں سَہِں کاروں کا دامن پہ مچلنا دیکھو
غور سے سن تو رؔضا کعبے سے آتی ہے صدا
میری آنکھوں سے مِرے پیا رے کا روضہ دیکھو
حبیب خدا کا نظار اکروں میں
دل وجاں ان پر نثار ا کروں میں
میں کیوں غیر کی ٹھوکریں کھانے جاؤں ؟
تِرے در سے اپنا گزارا کروں میں
یہ اِک جان کیا ہے اگر ہوں کروڑں !
تِرے نام پر سب کو وارا کروں میں
مجھے ہاتھ آئے اگر تاجِ شاہی
تری نقشِ پا پر نثارا کروں میں
مِرا دین و ایماں فرشتے جو پوچھیں ؟
تمہاری ہی جانب اشارہ کروں میں !
خدا ایک پر ہو تو اِک پر محمد ﷺ
اگر قلب اپنا دو پارہ کروں میں
خدا خیر سے لائے وہ دن بھی نوؔری
مدینے کی گلیاں بوہارا کروں میں
حَبِیبا اچی شان والیا جے توں آئیوں تے بہاراں آئیاں
اللہ نوں توں پیارا لگنا ایں تاہیوں رب نے وی خوشیاں منائیاں
زلف تری دے کنڈل سوہنے موہ لیندے نے دل من موہنے
چن سدا لُکدا پھرے تیرے مکھ دیاں ویکھ صفائیاں
عرب شریف دیا سردارا آمنہ پاک دیا دلدارا
تیرے جیہا سوہنا سونیئے کدوں جمدیاں نت نت مائیاں
رحمت دی تساں اکھ جد کھولی پاک حلیمہ بھر لئی اے جھولی
لے گئی او خزانے رب دے خالی رِہ گئیاں دو جیاں دائیاں
جس پاسے تُساں کیتے اشارے ، ڈھل پئے اودھر مست نظارے
ظلمتاں دے بند ٹٹ گئے، تساں رحمت اِنج برسائیاں
خالق نے اِنج کر م کمایا ، جیویں کہیا تساں، اُوویں بنایا
شان تیری نہیوں مکنی کئی صدیاں مکن تے آئیاں
ناؔصر پڑھ پڑھ تیریاں نعتاں بُھل گیا سارے جگ دیاں باتاں
پیار تیرا پلے سوہنیا کی کرنیاں ہور کمائیاں
حرزِ جاں ذکرِ شفاعت کیجیے نار سے بچنے کی صوٗرت کیجیے
اُن کے نقشِ پا پہ غیرت کیجیے آنکھ سے چھپ کر زیارت کیجیے
اُن کے با ملاحت پر نثار شیرۂ جاں کی حلاوت کیجیے
اُن کے در پر جیسے ہو مٹ جائیے ناتوا نو ! کچھ تو ہمّت کیجیے
پھیر دیجیے پنجۂ دیوِ لعین مصطفٰے کے بل پہ طاقت کیجیے
ڈوب کر یادِ لبِ شاداب میں آب ِکوثر کی سباحت کیجیے
یادِ قیامت کرتے اٹھیے قبر سے جانِ محشر پر قیامت کیجیے
اُن کے در پر بیٹھے بن کر فقیر بے نواؤ فکرِ ثروت کیجیے
جِس کا حسن اللہ کو بھی بَھا گیا ایسے پیارے سے محبّت کیجیے
حیّ باقی جس کی کرتا ہے ثنا مرتے دم تک اس کی مدحت کیجیے
عرش پر جس کی کمانیں چڑھ گئیں صَدقے اس باز و پہ قوّت کیجیے
نیم واطیبہ کے پھولوں پر ہو آنکھ بلبلو! پاس نزاکت کیجیے
سر سے گرتا ہے ابھی بارِ گناہ خم ذرا فرقِ ارادت کیجیے
آنکھ تو اٹھتی نہیں کیا دیں جواب ہم پہ بے پرسش ہی رحمت کیجیے
عذر بد تر ازگنہ کا ذکر کیا بے سبب ہم پر عنایت کیجیے
نعرہ کیجیے یار سول اللہ کا مفلسو ! سامان ِ دولت کیجیے
ہم تمہارے ہو کے کس کے پاس جائیں صَدقہ شہزادوں کا رحمت کیجیے
مَن ْ رَاٰنِیْ قَد ْ رَأ ی الحق جو کہے کیا بیاں اس کی حقیقت کیجیے
عالِم عِلم دو عالم ہیں حضور آپ سے کیا عرض حاجت کیجیے
آپ سلطان ِ جہاں ہم بے نوا یاد ہم کو وقتِ نِعمت کیجیے
تجھ سے کیا کیا اے مرے طیبہ کے چاند ظلمت ِ غم کی شکایت کیجیے
دَر بدر کب تک پھریں خستہ خراب طیبہ میں مدفن عنایت کیجیے
ہر برس و ہ قافلوں کی دھوم دھام آہ سینے اور غفلت کیجیے
پھر پلٹ کر منھ نہ اُس جانب کیا سچ ہے اور دعوائے الفت کیجیے
اَقربا حُبِّ وطن بے ہمتی آہ کِس کِس کی شکایت کیجیے
اب تو آقا منھ دِکھانے کا نہیں کِس طرح رفعِ ندامت کیجیے
اپنے ہاتھوں خود لٹا بیٹھے ہیں گھر کس پہ دعوائے بضاعت کیجیے
کس سے کہیے کیا کیا ۔ کیا ہوگا خود ہی اپنے پَر ملامت کیجیے
عرض کا بھی اب تو منھ پڑتا نہیں کیا علاج ِ دردِ فرقت کیجیے
اپنی اک میٹھی نظر کے شہد سے چارۂ زہرِ مصیبت کیجیے
دے خدا ہمت کہ یہ جان حزیں آپ پر داریں وہ صوٗرت کیجیے
آپ ہم سے بڑھ کے ہم پر مہرباں ہم کریں جرم آپ رحمت کیجیے
جو نہ بھولا ہم غریبوں کو رضا
یا د اس کی اپنی عادت کیجیے
خدا کا ذکر کرے ، ذکر مصطفٰےنہ کرے !
ہمارے منہ میں ہو ایسی زباں خدا نہ کرے
در رسول ﷺ پہ ایسا کبھی نہیں دیکھا
کوئی سوال کرے اور وہ عطا نہ کرے
کہا خدا نے شفاعت کی بات محشر میں
میرا حبیب ﷺ کرے ، کوئی دوسرا نہ کرے
مدینے جا کے نکلنا نہ شہر سے باہر
خدانخواستہ یہ زندگی وفا نہ کرے
اسیر جس کو بنا کر رکھیں مدینے میں
تمام عمر رہائی کی وہ دعا نہ کرے
نبی ﷺ کے قدموں پہ جس دم غلا م کا سر ہو
قضا سے کہہ دو کہ اِک لمحہ بھی قضا نہ کرے
شعورِ نعت بھی ہو اور زباں بھی ہو ادؔیب
وہ آدمی نہیں جو اِن کا حق ادا نہ کرے
خراب حال کیا دِل کو پُر ملال کیا تمہارے کوچہ سے رخصت کیا نہال کیا
نہ روئے گل ابھی دیکھا نہ بوئے گل سونگھی قضائے لاکے قفس میں شکست بال کیا
وہ دل کہ خوں شدہ ارماں تھے جسمیں مل ڈلا فغاں کہ گورِ شہیداں کو پائمال کیا
یہ رائے کیا تھی وہاں سے پٹنے کی اے نفس ستم گرالٹی چھری سے ہمیں حلال کیا
یہ کب کی مجھ سے عداوت تھی تجھکو اے ظالم چھڑاکے سنگِ در پاک سو بال کیا
چمن سے پھینک دیا آشیانہ ٔ بلبُل اُجاڑا خانۂ بے کس بڑا کمال کیا
تِرا ستم زدہ آنکھوں نے کیا بگاڑا تھا یہ کیا سمائی کہ دُور ان سے وہ جمال کیا
حُضور اُن کے خیالِ وطن مٹا نا تھا ہم آپ مِٹ گئے اچھا فراغ بال کیا
نہ گھر کا رکھا نہ اس در کا ہائے ناکامی ہماری بے بسی پر بھی نہ کچھ خیال کیا
جو دل نے مر کے جلایا تھا منّتوں کا چراغ ستم کہ عرض رہِ صر صرِ زوال کیا
مدینہ چھوڑ کے ویرانہ ہند کا چھایا یہ کیسا ہائے حواسوں نے اختلال کیا
تو جس کے واسطے چھوڑ آیا طیبہ سا محبوب بتا تو اس ستم آرا نے کیا نہال کیا
ابھی ابھی چمن میں تھے چہچہے ناگاہ یہ در کیسا اٹھا جس نے جی نڈھال کیا
الٰہی سن لے رضا جیتے جی مولےٰ نے سگامَ چہ میں چہرہ مرا بحال کیا
خراجِ اشک سے قائم ہے قیصری میری
سرورِ عشقِ رسالت، سکندری میری
یہ میرا عہدِ غلامی، غلامیٔ شہِ دیں
اس عہد میں ہے خیالوں پہ افسری میری
غزل کا پھیر کے رخ لے چلا ثناء کی طرف
حرف حرف کو پسند آئی رہبری میری
امیرِ شہرِ سخن ہوں فقیرِ کوئے رسول
انہیں سے فقر، انہیں سے تونگری میری
متاعِ نعت اِسی در سے میں نے پائی ہے
نہ کیوں ہو ناز کے قابل سخن وری میری
وہ واردات جو گذری ہے میرے دل پہ ادیب
سمجھ رہے ہیں اسے لوگ شاعری میری
خُسروی اچھی لگی نہ سَروری اچھی لگی
ہم فقیروں کو مدینے کی گلی اچھی لگی
دور تھے تو زندگی بے رنگ تھی بے کیف تھی
اُن کے کوچے میں گئے تو زندگی اچھی لگی
میں نہ جاؤں گا کہیں بھی در نبی کا چھوڑ کر
مجھ کو کوئے مصطفٰے کی چاکری اچھی لگی
ناز کر تو اۓ حلیمہ! سَرورِ کونین پر
گر لگی اچھی تو تر ی جھونپڑی اچھی لگی
والہانہ ہو گئے جو تیرے قدموں پر نثار
سَرورِ کون و مکاں کی سادگی اچھی لگی
آج محفل میں نیؔازی نعت جو میں نے پڑھی
عاشقانِ مصطفٰے کو وہ بڑی اچھی لگی
در پیش ہو طیبہ کا سفر کیسا لگے گا
گزریں جو وہاں شام و سحر کیسا لگے گا
اۓ پیارے خدا !دیکھوں میں سرکار کا جلوۂ
مل جائے دُعا کو جو اثر کیسا لگے گا
یوں تو گزارتے ہیں سبھی زندگی لیکن
دربارِ نبی میں ہو بسر کیسا لگے گا
طیبہ کی سعادت تو یوں پاتے ہیں ہزاروں
مرشِد کے ساتھ ہو جو سفر کیسا لگے گا
اۓ کاش !مدینے میں مجھے موت یوں آئے
قدموں میں ہو سرکار کے سر کیسا لگے گا
جس در پہ شہنشاہوں نے بھی دامن ہیں پسارے
ہر سال وہاں جاؤں اگر کیسا لگے گا
پائی ہے منؔور نے قضا در پہ نبی کے
آجا کے وطن ایسی خبر کیسا لگے گا
دشمنِ احمد پہ شدّت کیجیے ملحدوں کی کیا مروّت کیجیے
ذِکر اُن کا چھیڑیے ہر بات میں چھیڑنا شیطان کا عادت کیجیے
مثل فارس زلزلے ہوں نجد میں ذکرِ آیاتِ ولادت کیجیے
غیظ میں جل جائیں بے دینوں کے دل یا رسول اللہ کی کثرت کیجیے
کیجیے چرچا انہیں کا صبح وشام جانِ کافِر پر قیامت کیجیے
آپ درگاہ ِ خُدا میں ہیں وجیہ ہاں شفاعت بالوجاہت کیجے
حق تمہیں فرما چکا اپنا حبیب اب شفاعت بالمحبّت کیجیے
اذن کب کا مل چکا اب تو حضور ہم غریبوں کی شفاعت کیجیے
ملحدوں کا شک نِکل جائے حضور جانبِ مَہ پھر اشارت کیجیے
شرک ٹھرے جس میں تعظیم حبیب اس بُرے مذہب پہ لعنت کیجیے
ظالمو! محبوب کا حق تھا یہی عشق کے بدلے عداوت کیجیے
والضحٰے حجرات الم نشرح سے پھر مومنو! اتمامِ حجّت کیجیے
بیٹھتے اٹھتے حضور پاک سے التجا و استعا نت کیجیے
یا رسول اللہ دُہائی آپ کی گوشمالِ اہلِ بدعت کیجیے
غوثِ اعظم آپ سے فریاد ہے زندہ پھر یہ پاک مِلّت کیجیے
یا خدا تجھ تک ہے سب کا منتہٰی اولیا کو حکمِ نصرت کیجیے
میرے آقا حضرتِ اچّھے میاں
ہو رضا اچّھا وہ صوٗرت کیجیے
دکھا دے خدایا بہار ِ مدینہ
بہت ہو گیا انتظارِ مدینہ
جہاں کا ہر اک حسن ہے ماند جب سے
نگاہوں میں چھائے نگارِ مدینہ
ملے آبِ کوثر کی ٹھنڈک سی دل کو
میں جب چوم لوں ریگزارِ مدینہ
مزارِ مقدس کی برکت تو دیکھو
بڑھایا ہے اس نے وقارِ مدینہ
میری روح طیبہ کی گلیوں میں نکلے
میری زندگی ہو نثارِ مدینہ
مدینے میں ماہ صیام آگیا ہے
چلو دیکھ ہمؔدم نکھارِ مدینہ
دل آقا دے نظارے کولوں رجد اای نئیں
سونہڑا ایہو جیا جگ وچ لبھدا ای نئیں
پیارے نبی دی زباں ساڈے واسطے قرآن
کسی ہور دا بیان چنگا لگدا ای نئیں
نبی چڑھے نے براق پہنچے عرشاں تے آپ
اگوں ہدےدی اے آواز کوئی ڈکدای نئیں
حکم دِتّا اے خدا جبریل توں جا
جاکے سونہڑے نوں لے آ عرش سج دا ای نئیں
دونوں ملے نے پیارے پردے کھل گئے نے سارے
بیٹھے کر دے نے نظارے کوئی رَج دا ای نئیں نے
دل کو اُ ن سے خدا جد ا نہ کرے
بے کسی لوٹ لے خدا نہ کرے
اس میں رَوضہ کا سجدہ ہو کہ طواف ہوش میں جو نہ ہو وہ کیا نہ کرے
یہ وہی ہیں کہ بخش دیتے ہیں کون ان جرموں پر سزا نہ کرے
سب طبیبوں نے دے دیا ہے جواب آہ عیسٰی اگر دوا نہ کرے
دل کہاں لے چلا حرم سے مجھے ارے تیرا برا خدا نہ کرے
عذر امید عفو گر نہ سنیں رو سیاہ اور کیا بہانہ کرے
دل میں روشن ہے جمع ِ عِشق حضور کاش جوشِ ہوس ہوانہ کرے
حشر میں ہم بھی سیر دیکھیں گے منکر آج ان سے التجا نہ کرے
ضعف مانا مگر یہ ظَالم دل ان کے رستے میں تو تھکا نہ کرے
جب تری خو ہے سب کا جی رکھنا وہی اچّھا جو دل برا نہ کرے
دل سے اِک ذوق مئے کا طالب ہوں کون کہتا ہے اتقا نہ کرے
لے رضا سب چلے مدینے کو
میں نہ جاؤں ارے خدا نہ کرے
دل میں کسی کو اور بسایا نہ جائے گا
ذکر ِ رسولِ پاک بُھلایا نہ جائے گا
وہ خود ہی جان لیں گے ، جتایا نہ جائے گا
ہم سے تو اپنا حال سُنایا نہ جائے گا
ہم کو جز ا ملے گی محمد (ﷺ)سے عشق کی
دوزخ کے آس پاس بھی لایا نہ جائے گا
کہتے تھے ، بلال ؓ تشدد سے کفر کے
عشق ِ نبی کو دل سے نکالا نہ جائے گا
بے شک حضور شافعِ محشر ہیں منکرو !
کیا اُن کےسامنے تمہیں لایا نہ جائے گا ؟
مانے گا اُ ن کی بات خدا حشر میں نصیؔر
بِن مصطفٰے خدا کو منایا نہ جائے گا
دنیا تے آیا کوئی تیری نہ مثال دا
لبھ کے لے آواں کِتھوں سوہناں ترے نال دا
چہرہ تیرا نور وَنڈے ساری کائنات نوں
رب وی سلام پیجے اِک تیری ذات نوں
دو جگ قیدی ہو یا زلفاں دے جال دا
دنیا تے آیا کوئی تیری نہ مثال دا
مکے رہن والیا مدینے آون والیا
دھکے کھان والیا نوں سینے لان والیا
ڈِگیاں نوں تیرے بِناں کوئی نئیں سنبھال دا
دنیا تے آیا کوئی تیری نہ مثال دا
تیریاں تے صفتاں دا کوئی وی حساب نئیں
تو تو کتھے تیریاں غلاماں دا جواب نئیں
حُوراں نوں تو روپ ونڈے حبشی بلال دا
دنیا تے آیا کوئی تیری نہ مثال دا
گولا میں تیرا تیرے در دا تیری آل دا
دنیا تے آیا کوئی تیری نہ مثال دا
دو جہاں کے والی کا دو جہاں پہ سایہ ہے
اُن کو تو خدا نے اُن کی مرضی سے بنایا ہے
نوری نوری تلوے کیسے پیارے جلوے ہیں
چاند اُن کے جلوؤں کی بھیک لینے آیا ہے
والضحٰی کا چہرہ ہے طٰہٰ کا سہرا ہے
اُن کے مسکرانے سے زمانہ جگمگا یا ہے
نبیوں نے سلامی دی ولیوں نے غلامی کی
سرپہ اُن کے خالق نے تاج وہ سجایا ہے
طور پر کہا ربّ نےلَنۡ تَرَانِیۡ موسیٰ کو
پر مدینے والے کو عرش پر بلایا ہے
برکتوں کے ریلے ہیں نور یوں کے میلے ہیں
حلیمہ تیری کُٹیا میں یہ کون مسکرایا ہے !
موج میں جب آتے ہیں تاج ور بناتے ہیں
سب پہ ہے کرم ناؔصر اپنا یا پرایا ہے
دیارِ مدح میں الفاظ کا جب کارواں نکلا
عَلم لے کر قلم نکلا ، اَدا بن کر بیان نکلا
بصد اندازِ رعنائی ، بصد حُسنِ شکیبائی
برنگ ِ گلستاں نکلا ، بشکل ِ کہکشاں نکلا
اُدھر چِھڑکا جو رِہ میں چاندنی کو ماہِ نُدرت نے
اِدھر خورشید ِ معنیٰ در قبائے صدیاں نکلا
وفد قوسِ قزح لائی کہ شامِل رنگتیں کرلو
طیورانِ چمن دوڑے کہ دیکھو گلستاں نکلا
امیرِ کارواں کو منتخب کرنے کی بات آئی
فقط اِک عشق ایسا تھا جو سب میں کامراں نکلا
پئے پرواز، براّقِ تخیّل ، سامنے آیا
تجسّس نے ذرا سی ایڑ دی وہ لامکاں
بہت ہی ساز و ساماں خیمۂ فکر سخن میں تھا
مگر ان سب میں آنسو ہی متاعِ کارواں نکلا
مرصّع ہوگئی جب نعت حُسن لفظ و معنٰی سے
ادائے نعت کا اِک مسئلہ بھی امتحاں نکلا
سُنایا بُلبل و قمری نے سو انداز سے لیکن
ادیبِ خُوش نَواہی تھا جو سب میں خوش بیاں نکلا
ذرّے اُس خاک کے تابندہ ستارے ہوں گے
جس جگہ آپ نے نعلیں اُتارے ہوں گے
لوگ تو حسنِ عمل لے کے چلے روزِ حساب
سَرۡوَرۡ ہم کو فقط تیرے سہارے ہوں گے
بُوئے گل اس لیے پھرتی ہے چھپائے چہرہ
گیسو سر دو عالم نے سنوارے ہوں گے
اُس طرف ابر برستا ہے گناہ گاروں پر
جس طرف چشمِ محمدﷺ کے اشارے ہوں گے
اُٹھ گئی جب مِری جانب وہ کرم بار نظر
اُس گھڑی قؔطب کے بھی وارے نیارے ہوں گے
راہ پُر خار ہے کیا ہونا ہے پاؤں افگار ہے کیا ہونا ہے
خشک ہے خون کہ دشمن ظالِم سخت خونخوار ہے کیا ہونا ہے
ہم کو بِد کر وہی کرنا جس سے دوست بیزار ہے کیا ہونا ہے
تن کی اب کون خبر لے ہےہے دِل کا آزار ہے کیا ہونا ہے
میٹھے شربت دے مسیحا جب بھی ضد ہے اِنکا رہے کیا ہونا ہے
دل کہ تیمار ہمارا کرتا آپ بیمار ہے کیا ہونا ہے
پَر کٹے تنگ قفس اور بلبُل نو گرفتار ہے کیا ہونا ہے
چھپ کے لوگوں سے کیے جس سے گناہ وہ خبر دار ہے کیا ہونا ہے
ارے او مجرم بے پَروا دیکھ سرپہ تلوار ہے کیا ہونا ہے
تیرے بیمار کو میرے عیسٰی غش لگا تار ہے کیا ہونا ہے
نفس پر زور کا وہ زور اور دِل زیر ہے زارہے کیا ہونا ہے
کام زنداں کے کیے اور ہمیں شوقِ گلزار ہے کیا ہونا ہے
ہائے رے نیند مسافر تیری کوچ تیار ہے کیا ہونا ہے
دوٗر جانا ہے رہا دِن تھوڑا راہ دشوار ہے کیا ہونا ہے
گھر بھی جانا ہے مُسافر کہ نہیں مت پہ کیا مار ہے کیا ہونا ہے
جان ہلکان ہوئی جاتی ہے بارسا بار ہے کیا ہونا
پار جانا ہے نہیں ملتی ناؤ زور پر دھار ہے کیا ہونا ہے
راہ توتیغ پر اور تلووں کو گلۂ خار ہے کیا ہونا ہے
روشنی کی ہمیں عادت اور گھر تیرۂ و تار ہے کیا ہونا ہے
بیچ میں آگ کا دریا حائل قصد اس پار ہے کیا ہونا ہے
اس کڑی دھوپ کو کیوں کر جھیلیں شعلہ زن نار ہے کیا ہونا ہے
ہائے بگڑی تو کہاں آکر ناؤ عین منجدھار ہے کیا ہونا ہے
کل تو دیدار کا دن اور یہاں آنکھ بے کار ہے کیا ہونا ہے
منھہ دکھانے کا نہیں اور سحر عام دربار ہے کیا ہونا ہے
ان کو رحم آئے تو آئے ورنہ وہ کڑی مار ہے کیا ہونا ہے
لے وہ حاکم کے سپاہی آئے صبح اظہار ہے کیا ہونا ہے
واں نہیں بات بنانے کی مجال چارہ اقرار ہے کیا ہونا ہے
ساتھ والوں نے یہیں چھوڑ دیا بے کسی یار ہے کیا ہونا ہے
آخری دید ہے آؤ مِل لیں رنج بے کار ہے کیا ہونا ہے
دل ہمیں تم سے لگانا ہی نہ تھا اب سفر بار ہے کیا ہونا ہے
جانے والوں پہ یہ رونا کیسا بندہ ناچار ہے کیا ہونا ہے
نزع میں دھیان نہ بٹ جائے کہیں یہ عبث پیار ہے کیا ہونا ہے
اس کا غم ہے کہ ہر اِک کی صوٗرت گلے کا ہار ہے کیا ہونا ہے
باتیں کچھ اور بھی تم سے کرتے پر کہاں وار ہے کیا ہونا ہے
کیوں رضا کُڑھتے ہو ہنستے اٹھو
جب وہ غفّار ہے کیا ہونا ہے
راہِ عرفاں سے جو ہم نادیدہ رو محرم نہیں
مصطفٰے ہے مسندِ ارشاد پر کچھ غم نہیں
ہوں مسلماں گرچہ ناقِص ہی سہی اے کاملو!
ماہیت پانی کی آخر یم سے نم میں کم نہیں
غنچے مَا اَوْحٰی کے چٹکے دَنٰی کے باغ میں
بلبل سدرہ تک اُن کی بُو سے بھی محرم نہیں
اُس میں زم زم ہے کہ تھم تھم اس میں جم جم ہے کہ بیش
کثرتِ کوثر میں زم زم کی طرح کم کم نہیں
پنجۂ مہر عرب ہے جس سے دریا بہہ گئے
چشمہ ٔ خورشید میں تو نام کو بھی نم نہیں
ایسا امی کس لیے منت کشِ استا د ہو
کیا کفایت اس کو اِقْرَأ وَ رَبُکَ الْاَکْرمْ نہیں
اوس مہر حشر پر پڑ جائے پیاسو تو سہی
اُس گلِ خنداں کا رونا گریۂ شبنم نہیں
ہے انہیں کے دم قدم کی باغ عالم میں بہار
وہ نہ تھے عالم نہ تھا گروہ نہ ہوں عالم نہیں
سایۂ دیوار و خاکِ در ہو یا رب اور رضا
خواہشِ دیہیم قیصر شوقِ تختِ جم نہیں
رحمت دا خزینہ اے
لوکاں دِیاں لکھ ٹھاراں ،ساڈی ٹھار مدینہ اے
محبوب دا میلہ اے
محفل نوں سجائی رکھنا ں، او دے آون دا ویلہ اے
دَسّاں گَل کی خزینے دی
ساری دنیا کھاندی اے خیرات مدینے دی
اج ساڈی وی عید ہووے
اگے اگے کملی والا پِچّھے بابا فرید ہو وے
زُلفاں چھلّے او چھلّے
سارا جگ سوہنڑاں اے، ساڈے مدنی توں تھلّے او تھلّے
کوئی مِثل نیئوں ڈھولٹ دی
چُپ کر مِؔہر علی ایتھے جانیئوں بولٹ دی
رحمت دا دریا الٰہی ہر دم و گدا تیرا
جے اِک قطرہ بخشے مینوں کم بن جاوے میرا
اللہ نبی دا نام لئے اللہ نبی دا
جے میں ویکھا ں عملاں ولّے کچھ نئیں میرے پلّے
جے میں ویکھاں رحمت رب دی بلّے بلّے بلّے
اللہ نبی نام لئے اللہ نبی دا
خَس خَس جِاّنں قَدر نہ میرا، صاحب نوں وڈیا ئیاں
میں گلیاں دا روڑا کوڑا ،محل چڑھائیاں سائیاں
اللہ نبی نام لئے اللہ نبی دا
میں نیواں مرا مُرشد اُچّا، اُچّیاں سنگ میں لائی
صدقے جانواں اِیناں اُچّیاں تائیں، جِناں نیوئیاں سنگ نِھاسنئی
اللہ نبی نام لئے اللہ نبی دا
مُرشِد دے دُو ارے اُتّے محکم لائیے چوکاں
نَوَیں نَوَیں نہ یار بنائیے وانگ کمینئیاں لوکاں
اللہ نبی نام لئے اللہ نبی دا
چپ رَہ سیں تے موتی مِل سَن، صبر کریں تا ںہیرے
پاگلاں وانگوں رَولا پاویں، نہ موتی نہ ہیرے
اللہ نبی نام لئے اللہ نبی دا
آقا! سَدلو مدینے، تے ٹُر گئے کنِّے سفینے
تے سَدلو سب نُوں مدینے ،تے سَدلو اَیسّے مہینے
اللہ اللہ کہو اللہ اللہ
پاک محمد ﷺ نیں پیارے ،دو جہاناں دے سہارے
عرش وی صَلّ علٰے پکارے ،تے رل مل کرو دعاواں
مدینے نوں جائیے سارے
اللہ اللہ کہو اللہ اللہ
دِل دیاں سد راں لئَےکے، مدینے نُوں میں جاواں
جاکے حال سُناواں ،تے سنگِ اَسوَد وی چمُّاں
جالیاں اکھیاں نال لاواں، پی کے زم زم دا پانی
میں دل دی پیاس بجھا واں
کہو اللہ اللہ کہو اللہ اللہ
دو جہاناں دے والی! آپ دا رتبہ اے عالی
آپ دی شان نرالی، آپ دا رتبہ اۓ عالی
آپ دو جہاناں دے والی میں تِرے در دا سوالی
میں تے نئیں جاناں خالی
اللہ اللہ کہو اللہ اللہ
آقا !سَدلو مدینے، تےَ ٹُر گئے کنِےّ سفینے
رحمتِ عالم تیری اُونچی شان
شان اُونچی شان مولا تیر ی شان
بدر الدّجٰیہو، نور خدا ہو
چہرہ ہے مثلِ قرآن
سر پہ تمہارے تاج ِشفاعت
بخشش کا سامان
کالی زلفیں کالی چادر
آپ کی ہے پہچان
آپ ہیں اوّل، آپ ہیں آخر
نبیوں کے سلطان
ختمِ نبوت ماہِ رسالت
روشن ہے دل و جان
دین کے رہبر، شافع محشر
ہر دل کا ارمان
ذکر تمہارا دونوں جہاں میں
ہر لب پہ ،ہر آن
دونوں جہاں کے آپ ہیں والی
محسؔن کا ایمان
رُخ دن ہے یا مہر سما یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں
شب زلف یا مشک ختا یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں
ممکن میں یہ قدرت کہاں واجب میں عبدیت کہاں
حیراں ہوں یہ بھی ہے خطا یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں
حق یہ کہ ہیں عبدِ الٰہ اور عالمِ امکاں کے شاہ
برزخ ہیں وہ سرِّ خدا یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں
بلبل نے گل اُن کو کہا قمری نے سردِ جانفزا
حیرت نے جھنجھلا کر کہا یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں
خورشید تھا کس زور پر کیا بڑھ کے چمکا تھا قمر
بے پردہ جب وہ رُخ ہوا یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں
ڈر تھا کہ عصیاں کی سزا اب ہوگی یا روزِ جزا
دی اُن کی رحمت نے صدا یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں
کوئی ہے نازاں زہد پر یا حسنِ تو بہ ہے سِپر
یاں ہے فقط تیری عطا یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں
دن لَہو میں کھونا تجھے شب صبح تک سونا تجھے
شرمِ نبی خوفِ خدا یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں
رزقِ خدا کھایا کیا فرمانِ حق ٹالا کیا
شکرِ کرم ترسِ سزا یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں
ہے بلبُل ِ رنگیں رضا یا طوطی ِ نغمَہ سرا
حق یہ کہ واصِف ہے ترا یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں
رُخ ِمصطفٰے کو دیکھا تو دیوں نے جلنا سیکھا
یہ کرم ہے مصطفٰےکا ، شبِ غم نے ڈھلنا سیکھا
یہ زمیں رُکی ہوئی تھی یہ فلک تھما ہوا تھا
چلے جب مِرے محمدﷺ تو جہاں نے چلنا سیکھا
بڑا خوش نصیب ہوں میں میری خوش نصیبی دیکھو
شہ ِ انبیاء کے ٹکڑوں پہ ہے میں نے پلنا سیکھا
میں گِرا نہیں جو اب تک یہ کمالِ مصطفٰےہے
میری ذات نے نبی سے ہے سنبھلنا سیکھا
میرا دل بڑا ہی بے حس تھا کبھی نہیں یہ تڑپا
سُنی نعت جب نبی کی تو یہ دل مچلنا سیکھا
میں تلاش میں تھا رب کی کہاں ڈھونڈ تا میں اس کو؟
لیا نام جب نبی کا تو خدا سے ملنا سیکھا !
میں رہا خؔلش مظفر درِ پاک مصطفٰے پر
میرے جذبِ عاشقی نے کہاں گھر بدلنا سیکھا
رشکِ قمر ہوں رنگ رخ آفتاب ہوں
ذرّہ ترا جو اے شہِ گردوں جناب ہوں
درّ نجف ہوں گوہر ِ پاک ِ خوشاب ہوں
یعنی ترابِ رہ گزر بو ترا ب ہوں
گر آنکھ ہوں تو آبر کی چشم پُر آب ہوں
دل ہوں تو برق کا دلِ پر اضطراب ہوں
خونیں جگر ہوں طائر بے آشیاں شہا
رنگِ پریدۂ رُخِ گل کا جواب ہوں
بے اصل و بے ثبات ہوں بحر کرم مدد
پروردۂ کنار سراب و حباب ہوں
عبرت فزا ہے شرم گنہ سے مِرا سکوت
گویا لب ِ خموشِ لحد کا جواب ہوں
کیوں نالہ سوز لے کر وں کیوں خونِ دل پیوں
سیخ کباب ہوں نہ میں جام شراب ہوں
دل بستہ بے قرار جگر چاک اشکبار
غنچہ ہوں گل ہوں برقِ تپاں ہوں سحاب ہوں
دعویٰ ہے سب سے تیری شفاعت پہ بیشتر
دفتر میں عاصیوں کے شہا انتخاب ہوں
مولٰی دہائی نظروں سے گر کر جلا غلام
اشک ِ مژہ رسیدہ ٔ چشم کباب ہوں
مٹ جائے یہ خودی تو وہ جلوہ کہاں نہیں
در دا میں آپ اپنی نظر کا حجاب ہوں
صَدقے ہوں اس پہ نار سے دیگا جو مخلصی
بلبل نہیں کہ آتشِ گل پر کباب ہوں
قالب تہی کیے ہمہ آغوش ہے ہلال
اے شہسَوار طیبہ میں تیری رکاب ہوں
کیا کیا ہیں تجھ سے ناز تِرے قصر کو کہ میں
کعبہ کی جان عرش بریں کا جواب ہوں
شاہا بجھے سقر مرے اشکوں سے تانہ میں
آبِ عبث چکیدہ ٔ چشمِ کباب ہوں
میں تو کہا ہی چاہوں کہ بندہ ہوں شاہ کا
پَر لطف جب ہے کہدیں اگر وہ جناب “ہوں ”
حسرت میں خاک بوسیِ طیبہ کی اے رضا
ٹپکا جو چشمِ مہر سے وہ خونِ ناب ہوں
چوں ماہ ِ در ارض و سما ، تاباں توئی، تاباں توئی
رشکِ ملک، نورِ خدا، انساں توئی ،انساں توئی
روشن زرویت دو جہاں ، عکسِ رُخَت خورشید و ماہ
اۓ نورِ ذاتِ کبریا ! رخشاں توئی، رخشاں توئی
آیات ِقرآں اَبرُویت، تفسیر ِقرآں گیسُویَت
اۓ روئے تو! قرآنِ ما، ایماں توئی ، ایماں توئی
یا مصطفٰے !یا مجتبٰے! ارحم لنا، ارحم لنا
دستِ ہما بے چارا را، داماں توئی، داماں توئی
من عاصیم ، من عاجز م ، من بیکسم حالِ مرا
یا شافعِ روزِ جز ا! پُر ساں توئی، پُرساں توئی
جاؔمی رود از چشمِ ما جلوہ نما بہرِ خدا
جان و دلم ہر دو فدا، جاناں توئی، جاناں توئی
رونق ِ بزم جہاں ہیں عاشقانِ سوختہ
کہہ رہی ہے شمع کی گویا زبانِ سوختہ
جس کو قرصِ مہر سمجھا ہے جہاں اے منعمو!
اُن کے خوان ِ جود سے ہے ایک نانِ سوختہ
ماہِ من یہ نیّر محشر کی گرمی تابکے
آتش عصیاں میں خود جلتی ہے جان سوختہ
برق انگشت نبی چم کی تھی اس پر ایک بار
آج تک ہے سینہ ٔ مہ میں نشانِ سوختہ
مہر عالم تاب جھکتا ہے پئے تسلیم روز
پیش ِ ذرّات ِ مزارِ بید لانِ سوختہ
کوچۂ گیسوئے جاناں سے چلے ٹھنڈی نسیم
بال و پر افشاں ہوں یارب بلبلانِ سوختہ
بہر حق اے بحرِ رحمت اک نگاہ ِ لطف بار
تابکے بے آپ تڑپیں ماہیانِ سوختہ
روکش خورشید محشر ہو تمہارے فیض سے
اِک شرارِ سینۂ شیدائیانِ سوختہ
آتش ِ تر دامنی نے دل کیے کیا کیا کباب
خضر کی جاں ہو جِلا دو ماہیانِ سوختہ
آتش گلہائے طیبہ پر جلانے کے لیے
جان کے طالب ہیں پیارے بلبلانِ سوختہ
لطفِ برق جلوہ ٔ معراج لایا وجد میں
شعلۂ جوّالہ ساں ہے آسمانِ سوختہ
زائرو پاس ِ ادب رکھو ہوس جانے دو
آنکھیں اندھی ہوئی ہیں ان کو ترس جانے دو
سوکھی جاتی ہے امیدِ غربا کی کھیتی
بوندیاں لکۂ رحمت کی برس جانے دو
پلٹی آتی ہے ابھی وجد میں جانِ شیریں
نغمۂ قُم کا ذرا کانوں میں رس جانے دو
ہم بھی چلتے ہیں ذرا قافلے والو! ٹھرو
گھڑیاں توشۂ امید کی کس جانے دو
دید گل اور بھی کرتی ہے قیامت دل پر
ہمصفیر و ہمیں پھر سوئے قفس جانے دو
آتِش دِل بھی تو بھڑکا ؤ ادب داں نالو
کون کہتا ہے کہ تم ضبطِ نفس جانے دو
یوں تنِ زار کے درپے ہوئے دل کے شعلو
شیوۂ خانہ براندازی ِ خس جانے دو
اے رضا آہ کہ یوں سہل کٹیں جرم کے سال
دو گھڑی کی بھی عبادت تو برس جانے دو
زِرحمت کن نظر برحالِ زارم یا رسول اللہ !
غریمم ، بے نوایم، خاکسارم یا رسول اللہ !
زِداغِ ہجر تو کہ دل فگارم یار سول اللہ!
بَہارِ صد چمن در سینہ دارم یا رسول اللہ !
توئی تسکینِ دل، آرامِ جاں ، صبر وقرارِ من
رُخِ پُر نور بنمُا بے قرارم یا رسول اللہ !
توئی مولائے من، آقائے من، والی و جانِ من
توئی دانی کہ جُز تو کس ندارم یا رسول اللہ !
دمِ آخر نُمائی جلوۂ دیدار جاؔمی را
زِ لطف تو ہمیں امیدوارم یا رسول اللہ !
زمانہ حج کا ہے جلوہ دیا ہے شاہد ِ گل کو
الٰہی طاقتِ پرواز دے پر ہائے بلبل کو
بہاریں آئیں جو بن پر گھر ا ہے ابر رحمت کا
لبِ مشتاق بھیگیں دے اجازت ساقیا مل کو
ملے لب سے وہ مشکیں مُہر والی دم میں دم آئے
ٹپک سن کر قم عیسیٰ کہوں مستی میں قلقل کو
مچل جاؤں سوالِ مدّعا پر تھام کر دامن
بہکنے کا بہانہ پاؤں قصدِ بے تأ مل کو
دُعا کر بخت خفتہ جاگ ہنگامِ اجابت ہے
ہٹایا صبح رخ سے شانے نے شبہائے کاکل کو
زبانِ فلسفی سے امن خرق والتیام اسرا
پناہِ دورِ رحمت ہائے یک ساعت تسلسل کو
دو شنبہ مصطفٰے کا جمعہ ٔ آدم سے بہتر ہے
سکھانا کیا لحاظِ حیثیت خوئے تأمل کو
وفورشانِ رحمت کے سبب جرأت ہے اے پیارے
نہ رکھ بہر خُدا شرمندہ عرضِ بے تأمل کو
پریشانی میں نام ان کا دل صَد چاک سے نکلا
اجابت شانہ کرنے آئی گیسوئے توسّل کو
رضا نُہ سبزۂ گردوں ہیں کوتل جس کے موکب کے
کوئی کیا لکھ سکے اس کی سَواری کے تجمل کو
زمین و زماں تمہارے لیے مکین و مکاں تمہارے لیے
چنین و چناں تمہارے لیے بنے دو جہاں تمہارے لیے
دہن میں زباں تمہارے لیے بدن میں ہے جاں تمہارے لیے
ہم آئے یہاں تمہارے لیے اُٹھے بھی وہاں تمہارے لیے
فرشتے خِدَم رسولِ حِشم تمام اُمم غُلام ِ کرم
وجود و عدم حُدوث و قِدم جہاں میں عیاں تمہارے لیے
کلیم و نجی مسیح و صفی خلیل و رضی رسول و نبی
عتیق و وصی غنی و علی ثنا کی زباں تمہارے لیے
اصالتِ کل امامتِ کل سیادتِ کل امارتِ کل
امامتِ کل ولایتِ کل خدا کے یہاں تمارے لیے
تمہاری چمک تمہاری دمک تمہاری جھلک تمہاری مہک
زمین و فلک سماک و سمک میں سکّہ نشاں تمہارےلیے
یہ شمس و قمر شام و سحر یہ برگ و شجر یہ باغ ثمر
یہ تیغ و سپر یہ تاج و قمر یہ حکم رواں تمہارے لیے
نہ روح امیں نہ عرش و بریں نہ لوح میں کوئی بھی کہیں
خبر ہی نہیں جو رمزیں کھلیں ازل کی نہاں تمہارے لیے
زہے عزّت و اعتلائے محمدﷺ
کہ ہے عرشِ حق زیر پائے محمد ﷺ
مکاں عرش اُن کا فلک فرش اُن کا
ملک خادمانِ سرائے محمد ﷺ
خدا کی رضا چاہتے ہیں دو عالم
خدا چاہتا ہے رضائے محمد ﷺ
عجب کیا اگر رحم فرما لے ہم پر
خدائے محمد برائے محمد ﷺ
محمد برائے جنابِ الٰہی !
جنابِ الٰہی برائے محمد ﷺ
بسی عِطر محبوبِی کبریا سے
عبائے محمد قبائے محمد ﷺ
بہم عہد باندھے ہیں وصلِ ابد کا
رضائے خدا اور رضائے محمد ﷺ
دمِ نزع جاری ہو میری زباں پر
محمد محمد خدا ئے محمد ﷺ
عصائے کلیم اژدھا ئے غضب تھا
گِروں کا بہارا عصائے محمد ﷺ
میں قرباں کیا پیاری ہے نسبت
یہ آنِ خدا وہ خدائے محمد ﷺ
محمد کا دم خاص بہرِ خدا ہے
سوائے محمد برائے محمد ﷺ
خدا اُ ن کو کِس پیارے دیکھتا ہے
جو آنکھیں ہیں محوِ لقائے محمد ﷺ
جلو میں اجابت خواصِی میں رحمت
بڑھی کس تزک سے دُعائے محمّد ﷺ
اجابت نے جھک کر گلے سے لگایا
بڑھی ناز سے جب دعائے محمد ﷺ
اجابت کا سہرا عنایت کا جوڑا
دلہن بن کے نِکلی دُعائے محمّد ﷺ
رضا پل سے اب وجد کرتے گریے
کہ ہے رَبِّ سَلِّم صدائے محمد ﷺ
زہے مقدر! حضورِ حق سے سلام آیا ، پیام آیا
جھکاؤ نظریں، بچھاؤ پلکیں ، اد ب کا اعلیٰ مقام آیا
یہ کون سر سےکفن لپیٹے چلا ہے الفت کے راستے پر ؟
فرشتے حیرت سے تک رہے ہیں یہ کون ذی احترام آیا !
فضا میں لبیک کی صدائیں ، زَ فرش تا عرش گونجتی ہیں
ہر ایک قربان ہو رہا ہے ، زباں پہ یہ کس کا نام آیا !
یہ راہِ حق ہے ، سنبھل کے چلنا ، یہاں ہے منزل قدم قدم پر
پہنچا در پر تو کہنا آقا ، سلام لیجیے غلام آیا !
دعا جو نکلی تھی دل سے آخر پلٹ کے مقبول ہو کے آئی
وہ جذبہ جس میں تڑپ تھی سچی وہ جذبہ آخر کو کام آیا
یہ کہنا آقا بہت سے عاشق تڑپتے سے چھوڑآیا ہوں میں
بلاوے کے منتظر ہیں لیکن نہ صبح آیا نہ شام آیا
خدا ترا حافظ و نگہبان او راہِ بطحٰی کے جانے والے
نویدِ صد انبساط بن کر پیامِ دارالسلام آیا
سائے میں تمہارے ہےقسمت یہ ہماری ہے
قربانِ دل و جانم کیا شان تمہاری ہے
کیا پیش کروں تم کو کیا چیز ہماری ہے
یہ دل بھی تمہارا ہے یہ جاں بھی تمہاری ہے
نقشہ تِرا دلکش ہے صورت تِری پیاری ہے
جس نے تمہیں دیکھا ہے سو جان سے واری ہے
گو لا کھ برے ہم کہلاتے تمہارے ہیں
اِک نظر ِکرم کرنا یہ عرض ہماری ہے
ہم چھوڑ کے اِس در کو جائیں تو کہاں جائیں ؟
اِک نام تمہارا ہے !جو ہونٹوں پہ جاری ہے
تاؔجی تِرے سجدے سے زاہد کو جلن کیوں ہے ؟
قدرت نے جبیں سائی قسمت میں اتاری ہے !
سارے جگ نالوں لگدیاں چنگیاں مدینے دیاں پاک گلیاں
رہیا مہک جیویں جنت دیاں گلیاں مدینے دیاں پاک گلیاں
اوہناں گلیاں توں تن من وار یے کر یے سجدے تے شکر گزاریے
اے تے نور دیاں سُچیا ئیں ٹھلیاں مدینے دیاں پاک گلیاں
ابر رحمتاں دا سدا ایتھے وسدے جاندے روتے تے آؤندے نیں ہنس دے
جاندے رل دیکھنے نوں سیاں نے چلیاں مدینے دیاں پاک گلیاں
اونہاں گلیاں نوں جیہڑ ے ویکھن آؤندے اوتے جنتّاں نوں بُوہے کھل جاؤندے
تَر گئے اوجِنہاں نے تک لیاں مدینے دیاں پاک گلیاں
پاوے ایناں گلیاں دا دیدار جو ہو جاوے رحمتاں دا حق دار او
تَر گئے اوجِنہاں نے تک لیاں مدینے دیاں پاک گلیاں
سانوں اپنے کول بُلا لے مدینے والڑیا
ساڈے دل دا روگ مٹادے مدینے والڑیا
دم دم یاد تیری دل وچ رہندی اے
روندیں اے نیں اکھیاں تے نیند نہ پیندی اے
سانوں سبز گنبد وکھلا دے مدینے والڑیا
ساڈے دل دا روگ مٹا دے مدینے والڑیا
صدقہ شہیداں دا دور ہو ویں دوریاں
سدلو جی کول مُک جاویں مجبوریاں
ساڈے سُےّو نصیب جگادے مدینے والڑیا
ساڈے دل دا روگ مٹا دے مدینے والڑیا
کالی کالی زلف تے انکھ مستانی اے
رب دی سوں دنیا ای سوہنے دی دیوانی اے
اِک نوری جھلک وکھلا دے مدینے والڑیا
ساڈے دل دا روگ مٹا دے مدینے والڑیا
سانوں اپنے کول بلالے مدینے والڑیا
سب سے اولیٰ و اعلیٰ ہمارا نبی ﷺ
سب سے بالا و اعلٰی ہمارا نبی ﷺ
اپنے مولیٰ کا پیارا ہمارا نبی
دونوں عالم کا دولہا ہمارا نبی ﷺ
بزم آخر کا شمعِ فروزاں ہوا
نورِ اول کا جلوہ ہمارا نبی ﷺ
بجھ گئیں جس کے آگے سبھی مشعلیں
شمع وہ لےکر آیا ہمارا نبی ﷺ
جن کے تلوؤں کا دُھوَن ہے آبِ حیات
ہے وہ جانِ مسیحا ہمارا نبی ﷺ
خلق سے اولیاء، اولیاء سے رُسل
اور رسولوں سے اعلیٰ ہمارا نبی ﷺ
جیسے سب کا خدا یک ہے ویسے ہی
اِن کا، اُن کا تمہارا ہمارا نبی ﷺ
کون دیتا ہے دینے کو منہ چاہیے
دینے والا ہے سچا ہمارا نبی ﷺ
غمزدوں کو رضاؔ مژدہ دیجے کے ہے
بیکسوں کا سہارا ہمارا نبی ﷺ
سر تا بقدم ہے تنِ سلطانِ زمن پھول
لب پھول دہن پھول ذقن پھول بدن پھول
صدقے میں ترے باغ تو کیا لائے ہیں بن پھول
اِس غنچۂ دل کو بھی تو ایما ہو کہ بن پھول
تنکا بھی ہمارے تو ہلائے نہیں ہِلتا
تم چاہو تو ہو جائے ابھی کوہِ محن پھول
واللہ جو مل جائے مرے گل کا پسینہ
مانگے نہ کبھی عِطر نہ پھر چاہے دلہن پھول
دِل بستہ و خوں گشتہ نہ خوشبُو نہ لطافت
کیوں غنچہ کہوں ہے مِرے آقا کا دہن پھول
شب یاد تھی کن دانتوں کی شبنم کہ دِمِ صبح
شوخانِ بہاری کے جڑوا ؤہیں کرن پھول
دندان ولب و زلف و رُخ ِ شہ کے فدائی
ہیں درِّ عدن لعلِ یمن مشکِ ختن پھول
بو ہو کے نہاں ہو گئے تابِ رُخِ شہ میں
لو بن گئے ہیں اب تو حسینوں کا دہن پھول
ہوں بازِ گنہ سے نہ خجل دوشِ عزیزاں
لِلّٰہ مری نعش کر اے جان ِ چمن پھول
دل اپنا بھی شیدائی ہے اس ناخنِ پاکا
اتنا بھی مہِ نوپہ نہ اے چرخ ِ کہن پھول
دل کھول کے خوں رولے غمِ عارض ِ شہ میں
نکلے تو کہیں حسرت ِ خوں نابہ شدن پھول
کیا غازہ مَلا گردِ مدینہ کا جو ہے آج
نِکھرے ہوئے جو بن میں قیامت کی پھبن پھول
گرمی یہ قیامت ہے کہ کانٹے ہیں زباں پر
بلبل کو بھی اے ساقی صہبا ولبن پھول
ہے کون کہ گریہ کرے یا فاتحہ کو آئے
بیکس کے اٹھائے تری رحمت کے بھرن پھول
دل غم تجھے گھیرے ہیں خدا تجھ کو وہ چمکائے
سُورج تِرے خرمن کو بنے تیری کرن پھول
کیا بات رضا اس چمنستان ِ کرم کی
زہرا ہے کلی جس میں حسیں اور حسن پھول
سلطانِ مدینہ سے جسے پیار نہ ہوگا
مَحشر میں شفاعت کا وہ حقدار نہ ہوگا
مشکل میں جو نہ یاد کرے اپنے نبی کو
منجدھار میں ڈوبے گا کبھی پار نہ ہوگا
دنیا بھی سنور جائے گی جنت بھی ملے گی
محفل میں تِرا بیٹھنا بے کار نہ ہوگا
بدلے ہیں حضور! آپ نے دنیا کے مقدر
کیا مجھ پہ کرم سیّدِ ابرار نہ ہو گا !
دیکھا ہے بس اِک بار حضور !آپ کا جلوۂ
کیا ایسا کرم پھر کبھی سرکار نہ ہوگا !
حسنین (رضی اللہ عنہما) کے نانا پر جو تنقید کرے
وہ اور کوئی ہوگا مِرا یار نہ ہو گا
سنتے ہیں کہ محشر میں صرف اُن کی رسائی ہے
گر اُن کی رسائی ہے لو جب تو بن آئی ہے
مچلا ہے کہ رحمت نے امید بندھائی ہے
کیا بات تِری مجرم کیا بات بَنا ئی ہے
سب نے صفِ محشر میں للکار دیا ہم کو
اے بے کسوں کے آقا اب تیری دہائی ہے
یوں تو سب انہیں کا ہے پَر دل کی اگر پوچھو
یہ ٹوٹے ہوئے دل ہی خا ص اُن کی کمائی ہے
زائر گئے بھی کب کے دِن ڈھلنے پہ ہے پیارے
اٹھ میرے اکیلے چل کیا دیر لگائی ہے
بازار عملِ میں تو سودا نہ بنا اپنا
سرکارِ کرم تجھ میں عیبی کی سَمائی ہے
گرتے ہووں کو مژدہ سجدے میں گرے مولٰی
رو رو کے شفاعت کی تہمید اٹھائی ہے
اے دل یہ سلگنا کیا جلنا ہے تو جل بھی اٹھ
دَم گھٹنے لگا ظالمِ کیا دھونی رَمائی ہے
مجرم کو نہ شر ماؤ احباب کفن ڈھک دو
منھ دیکھ کے کیا ہوگا پردے میں بھلائی ہے
اب آپ ہی سنبھالیں توکام اپنے سنبھل جائیں
ہم نے تو کمائی سب کھیلوں میں گنوائی ہے
اے ٔ عشق تِرے صدقے جلنے سے چُھٹے سَستے
جو آگ بجھا دے گی وہ آگ لگائی ہے
حرص و ہوسِ بد سے دل تو بھی ستم کر لے
تو ہی نہیں بے گانہ دنیا ہی پَرائی ہے
ہم دل جلے ہیں کس کے ہَٹ فتنوں کے پر کالے
کیوں پھونک دوں اِک اُف سے کیا آگ لگائی ہے
طیبہ نہ سہی افضل مکّہ ہی بڑا زاہد
ہم عِشق کے بندے ہیں کیوں بات بڑھائی ہے
مطلع میں یہ شک کیا تھا واللہ رضا واللہ
صرف اُن کی رسائی ہے صرف اُن کی رسائی ہے ۔
سونا جنگل رات اندھیری چھائی بدلی کالی ہے
سونے والو! جاگتے رہو چوروں کی رکھوالی ہے
آنکھ سے کاجل صَاف چرالیں یاں وہ چور بلا کے ہیں
تیری گھڑی تاکی ہے اور تو نے نیند نکالی ہے
یہ جو تجھ کو بلاتا ہے یہ ٹھگ ہے مار ہی رکھے گا
ہائے مسافر دم میں نہ آنا مَت کیسی متوالی ہے
سونا پاس ہے سونا بن ہے سونا ز ہر ہے اُٹھ پیارے
تو کہتا ہے نیند ہے میٹھی تیری مت ہی نرالی ہے
آنکھیں ملنا جھنجھلا پڑنا لاکھوں جَمائی انگڑائی
نام پر اٹھنے کے لڑتا ہے اٹھنا بھی کچھ گالی ہے
جگنو چمکے پتا کھڑکے مجھ تنہا کا دِل دھڑکے
ڈر سمجھا ئے کوئی پون ہے یا اگیا بیتالی ہے
بادل گرجے بجلی تڑپے دَھک سے کلیجا ہو جائے
بن میں گھٹا کی بَھیانک صوٗرت کیسی کا لی کالی ہے
پاؤں اٹھا اور ٹھوکر کھائی کچھ سنبھلا پھر اَوند ھے منھ
مینھ نے پھسلن کردی ہے اور دُھر تک کھائی نالی ہے
ساتھی سَاتھی کہہ کے پکاروں ساتِھی ہو تو جو اب آئے
پھر جھنجھلا کر سر دے پَٹکوں چل رے مولٰی والی ہے
پھر پھر کر ہر جانب دیکھوں کوئی آس نہ پاس کہیں
ہاں اِک ٹوٹی آس نے ہار ے جی سے رفاقت پالی ہے
تم تو چاند عرب کے ہو پیارے تم تو عجم کے سُورج ہو
دیکو مجھ بے کس پر شب نے کیسی آفت ڈالی ہے
دنیا کو تو کیا جانے یہ بس کی گانٹھ ہے حرّافہ
صورت دیکھو ظالم کی تو کیسی بھولی بھالی ہے
شہد دکھائے زہر پلائے قاتل ڈائن شوہر کش
اس مُردار پہ کیا للچا یا دنیا دیکھی بھالی ہے
وہ تو نہایت سَستا سودا بیچ رہے ہیں جنّت کا
ہم مفلِس کیا مول چکائیں اپنا ہاتھ ہی خالی ہے
مولیٰ تیرے عفو و کرم ہوں میرے گواہ صفائی کے
ورنہ رضا سے چور پہ تیری ڈِگری تو اقبالی ہے
شانِ رسالت مولي ڄاڻي ٻئي کي طاقت ناهي
مالڪ جو محبوب محمد ﷺڪونهي ڪنهن کان دور
نبي سائين نور آ نبي سائين نور آ
حضرت يوسفؑ لاءِ هئي هڪڙي زليخان ديواني
پر محبوب محمد ﷺ خاطر هر دل آ مستاني
حُسن حبيب ڪريم کي مولٰي ڏئي ڇڏيو ڀرپور
جڏهن پڙهون ٿا درود سڄڻ تي پان درود ٻڌن ٿا
روضي اطهر پاڪ منجهان ان جو جلد جواب به ڏين ٿا
ڇو نه چوان مان سهڻو محمد ﷺ زنده آهي ضرور
تنهنجو منهنجو هِت هُت حامي حسن حسين جو نانو
مالڪ عطا ڪيو آ جنهن کي غيبي علم جو خزانو
جنهن جي سامهون آ هر هڪ شي ويجهو آ يا دور
سهڻي محمد ﷺ جي آئي ٿي ويون سڀ سڻايون
تون مان ان محبوب جون ويهي اڄ ٿا نعتيون ڳايون
نثار ڪٻر آ هنن جي صدقي ملڪن ۾ مشهور
شاہ ِ کونین جلوہ نُما ہوگیا رنگ عالم کا بالکل نیا ہو گیا
منتخب آپ کی ذاتِ والا ہوئی نامِ پاک آپ کا مصطفٰے ہو گیا
آپ وہ نورِ حق ہیں کہ قُرآن میں وصفِ رُخ آپ کا والضحی ہو گیا
ایسا اعزاز کس کو خدا نے دیا جیسا بالا تیرا مرتبہ ہو گیا
ایسی نافذ تمہاری حکومت ہوئی تم نے جس وقت جو کچھ کہا ہو گیا
نازِ کراے جمیل اپنی قسمت پہ تو خاکِ نعلین احمد رضا ہو گیا ۔
شاہِ مدینہ سَرورِ عالم ﷺ
تم پہ نچھاور تم پہ فدا ہم ﷺ
نورِ شبِ معراج تمہی ہو نبیوں کے سرتاج تمہی ہو
حُسن کے پیکر نور مجسم ﷺ
دی ہے شجر نے آکے گواہی، کنکریوں نے کلمہ پڑھا ہے
سَرورِدیں پیغمبر اعظم صلی اللہ علیہ وسلم
مجبور و بے کس کے والی ،خالی گیا کوئی نہ سوالی
آپ کے دَر پر دُور ہوئے غم صلی اللہ علیہ ٖ وسلم
گل میں ان کی رنگ و بو ہے چرچا ان کا چار سُو ہے
جگمگ اُ ن کے نور سے عالَم صلی اللہ علیہ وسلم
مشک و گلاب پسینہ اُن کا، خطۂ پاک مدینہ اُن کا
روضہ اُن کا عرش سے اعظم صلی اللہ علیہ وسلم
تشنہ لبوں کو ساغرِ کوثر بخشیں گے وہ یوم ِمحشر
میٹنے والے اُمت کے غم صلی اللہ علیہ وسلم
شاہِ مدینہ ، شاہِ مدینہ
طیبہ کے والی
سارے نبی تیرے در کے سوالی
شاہِ مدینہ ، شاہِ مدینہ
تیرے لیے ہی دنیا بنی ہے
نیلے فلک کی چادر تنی ہے
تو اگر نہ ہوتا دنیا تھی خالی
جلوے ہیں سارے تیرے ہی دم سے
آباد عالم تیرے ہی کر م سے
باقی ہر ایک شے ہے نقش ِ خیالی
تو نے جہاں کی محفل سجائی
تاریکیوں میں شمع جلائی
کند ھے پہ تیرے کملی ہے کالی
مذہب ہے تیرا سب کی بھلائی
مسلک ہے تیرا مشکل کشائی
دیکھ ا پنی اُمت کی خستہ حالی
ہے نور تیرا شمس و قمر میں
تیرے لبوں کی لالی سحر میں
پھولوں نے تیری خوشبو چرا لی
کعبہ کا کعبہ تیرا ہی گھر ہے
تیرے کرم پہ سب کی نظر ہے
دکھلا دے ہم کو در بار ِ عالی
ہیں آپ دکھیوں کے آقا سہارے
تاج شفا عت ہے سر پہ تمہارے
ہم کو عطا ہو روضے کی جالی
شبِ غم کاٹ دے میری ، امیدوں کی سحر کر دے
مرے غم کو خوشی کر، میرے عیبوں کو ہنر کر دے
امید و بیم سے گذروں فسونِ وہم سے نکلوں
مجھے اپنی حضوری دے مرا حال دگر کر دے
وہ میرے حال سے واقف ہیں ان کو ہے خبر میری
بھلا کیسے کہوں کوئی انہیں میر ی خبر کر دے
بھلا یہ جان و دل لیکر کہاں جائے گا طیبہ سے
انہیں یا نذر کر یا صدقۂ خیر البشر کر دے
اگر تو چاہتا ہے دوزخ ِ دنیا سے آزادی
مدینہ ہو تیرا گھر ، یہ تمنّا دل میں گھر کر دے
تیری دولت تیرا سایہ غم ، تیرے آنسو ہیں
بہا کر نعت میں نادان ان کو تو گہر کر دے
یہ میری زندگی کا کارواں ، ہے اے خدا ! اس کا
مدینہ جس طرف ہے اس طرف روئے سفر کر دے
جگہ دیدے ادیب ِ خوش نواء کو اپنے قدموں میں
رہی فردِ عمل اس کو جِدھر چاہے اُدھر کر دے
شبِ لحیہ و شارب ہے رُخِ روشن دن
گیسو وشب قدر و براتِ مومن
مژگاں کی صفیں چار ہیں دو ابرو ہیں
وَالْفَجْر کے پہلو میں لَیَالٍ عَشرٍ
اللہ کی سر تا بقدم شان ہیں یہ
اِن سا نہیں انسان وہ انسان ہیں یہ
قرآن تو ایمان بتاتا ہے انہیں
ایمان یہ کہتا ہے مری جان ہیں یہ
شکرِ خدا کہ آج گھڑی اُس سفر کی ہے
جس پر نثار جان فلاح و ظفر کی ہے
گرمی ہے تپ ہے درد ہے کلفت سفر کی ہے
نا شکر یہ تو دیکھ عزیمت کدھر کی ہے
کِس خاکِ پاک کی تو بنی خاک ِ پا شفا
تجھ کو قسم جنابِ مسیحا کے سر کی ہے
آبِ حیاتِ رُوح ہے زرقا کی بُوند بُوند
اکسیر اعظم مسِ دل خاک دَر کی ہے
ہم کو تو اپنے سائے میں آرام ہی سے لائے
حیلے بہانے والوں کو یہ راہ ڈر کی ہے
لٹتے ہیں مارے جاتے ہیں یوں ہی سُنا کیے
ہر بار دی وہ امن کہ غیرت حضرت کی ہے
وہ دیکھو جگمگا تی ہے شب اور قمر ابھی
پہروں نہیں کہ بست و چہارم صفر کی ہے
ماہِ مدینہ اپنی تجلی عطا کرے !
یہ ڈھلتی چاندنی تو پہر دو پہر کی ہے
مَنْ زَارَ تُرْبَتِیْ وَجَبَتْ لَہ شَفَاعَتِی ْ
اُن پر درود جن سے نوید اِن بُشَر کی ہے
اس کے طفیل حج بھی خدا نے کرا دیے
اصلِ مُراد حاضری اس پاک در کی ہے
کعبہ کا نام تک نہ لیا طیبہ ہی کہا
پوچھا تھا ہم سے جس نے کہ نہضت کدھر ہے
کعبہ بھی ہے انہیں کی تجَلی کا یک ظِلّ
روشن انھیں کے عکس سے پتلی حجر کی ہے
ہوتے کہاں خلیل و بنا کعبہ و منٰی
لولاک والے صاحبی سب تیرے گھر کی ہے
مَولیٰ علی نے واری تِری نیند پر نماز
اور وہ بھی عصر سب سے جو اعلیٰ خطر کی ہے
صدّیق بلکہ غار میں جان اس پہ دے چکے
اور حفظِ جاں تو جان فروض ِ غرر کی ہے
ہاں تو نے ان کو جان انہیں پھیر دی نماز
پَردہ تو کر چکے تھے جو کرنی بشر کی ہے
ثابت ہوا کہ جملہ فرائِض فروع ہیں
اصل الاصول بندگی اس تاجور کی ہے
شر خیر شور سور شرر دور نار نور!
بشرٰی کہ بارگاہ یہ خیر البشر کی ہے
مجرم بلائے آئے ہیں جَاؤ ک ہے گواہ
پھر رد ہو کب یہ شان کریموں کے در کی ہے
بد ہیں مگر انہیں کے ہیں باغی نہیں ہیں ہم
نجدی نہ آئے اس کو یہ منزل خطر کی ہے
تف نجدیت نہ کفر اسلام سب پہ حرف
کافر ادھر کی ہے نہ اُدھر کی ہے
حاکم حکیم داد و دوا دیں یہ کچھ نہ دیں
مردود یہ مُراد کِس آیت خبر کی ہے
شکلِ بشر میں نورِ الٰہی اگر نہ ہو !
کیا قدر اُس خمیرۂ ماو مدر کی ہے
نورِ الٰہ کیا ہے محبّت حبیب کی
جس دل میں یہ نہ ہو وہ جگہ خوک و خر کی ہے
ذکرِ خدا جو اُن سے جُدا چاہو نجدیو!
واللہ ذکرِ حق نہیں کنجی سقر کی ہے
بے اُن کے واسطہ کے خدا کچھ عطا کرے
حاشا غلط غلط یہ ہوس بے بصر کی ہے
مقصود یہ ہیں آدم و نوح وخلیل سے
تخم ِ کرم میں ساری کرامت ثمر کی ہے
اُن کی نبوّت اُن کی اُبوّت ہے سب کو عام
امّ البشر عروس انہیں کے پسر کی ہے
ظاہر میں میرے پھول حقیقت میں میرے نخل
اس گل کی یاد میں یہ صَدا بوا لبشر کی ہے
پہلے ہو ان کی یاد کہ پائے جِلا نماز
یہ کہتی ہے اذا ن جو پچھلے پہر کی ہے
دنیا مزار حشر جہاں ہیں غفور ہیں
ہر منزل اپنے چاند کی منزل غفر کی ہے
اُن پر درود جن کو حجر تک کریں سلام
ان پر سلام جن کو تحیّت شجر کی ہے
اُن پر درود جن کو کَسِ بے کَساں کہیں
اُن پر سلام جن کو خبر بے خبر کی ہے
جن و بشر سلام کو حاضر ہیں السّلام
یہ بارگاہ مالکِ جن و بشر کی ہے
شمس و قمر سَلام کو حاضر ہیں السّلام
خوبی انہیں کی جوت سے شمس و قمر کی ہے
سب بحر و بر سلام کو حاضِر ہیں السّلام
تملیک انہیں کے نام تو ہر بحر و بر کی ہے
سنگ وشجر سلام کو حاضر ہیں السّلام
کلمے سے ترزبان درخت و حجر کی ہے
عرض و اثر سلام کو حاضر ہیں السّلام
ملجا یہ بارگاہ دُعا و اثر کی ہے
شوریدہ سر سلام کو حاضر ہیں السّلام
راحت انھیں کے قدموں میں شوریدہ سر کی ہے
خستہ جگر سلام کو حاضر ہیں السّلام
مرہم یہیں کی خاک تو خستہ جگر کی ہے
سب خشک و تر سلام کو حاضر ہیں السّلام
یہ جلوہ گاہ مالکِ ہر خشک وتر کی ہے
سب کرو فر سلام کو حاضر ہیں السّلام
ٹوپی یہیں تو خاک پہ ہر کرّو فر کی ہے
اہل ِ نظر سلام کو حاضر ہیں السّلام
یہ گرد ہی تو سُرمہ سب اہلِ نظر کی ہے
آنسو بہا کہ یہ گئے کالے گنہ کے ڈھیر
ہاتھی ڈوباؤ جھیل یہاں چشم تر کی ہے
تیری قضا خلیفہ ٔ احکام ِ ذی الجلال
تیری رضا حلیف قضا و قدر کی ہے
یہ ساری پیاری کیاری ترے خانہ باغ کی
سَرد اس کی آب و تاب سے آتشِ سقر کی ہے
جنت میں آکے نار میں جاتا نہیں کوئی
شکرِ خدا نوید نجات و ظفر کی ہے
مومن ہوں مومنوں پہ رؤ فٌ رحیم ہو
سائل ہوں سائلوں کو خوشی لا نہر کی ہے
دامن کا واسطہ مجھے اُس دھوٗپ سے بچا
مجھ کو تو شاق جاڑوں میں اِس دو پہر کی ہے
ماں دونوں بھائی بیٹے بھتیجے عزیز دوست
سب تجھ کو سونپے مِلک ہی سب تیرے گھر کی ہے
جن جن مرادوں کے لیے احباب نے کہا
پیش خبیر کیا مجھے حاجت خبر کی ہے
فضل خدا سے غیبِ شہادت ہوا انہیں
اس پر شہادت آیت و وحی و اثر کی ہے
کہنا نہ کہنے والے تھے جب سے تو اطلاع
مولٰی کو قول و قائل و ہر خشک و تر کی ہے
اُ ن پر کتاب اتری بَیَا نًا لِّکلِّ شَیءٍ
تفصیل جس میں مَا عَبَر و مَا غَبَر کی ہے
آگے رہی عطا وہ بقدر طلب تو کیا
عادت یہاں امید سے بھی بیشتر کی ہے
بے مانگے دینے والے کی نعمت میں غرق ہیں
مانگے سے جو ملے کسے فہم اس قدر کی ہے
احباب اس سے بڑ ھ کے تو شاید نہ پائیں عرض
نا کر وہ عرض عرض یہ طرزِ دگر کی ہے
دنداں کا نعت خواں ہوں پایاب ہوگی آب
ندی گلے گلے مِرے آبِ گُہر کی ہے
دشتِ حرم میں رہنے دے صیّاد اگر تجھے
مٹی عزیز بلبُل ِ بے بال و پر کی ہے
یا رب رضا نہ احمد پار ینہ ہو کے جائے
یہ بارگاہ تیرے حبیبِ اَبَر کی ہے
توفیق دے کہ آگے نہ پیدا ہو خوئے بَد
تبدیل کر جو خصلتِ بد پیشتر کی ہے
آ کچھ سُنا دے عشق کے بولوں میں اے رضا
مشتاق طبع لذّت ِ سوزِ جگر کی ہے
شورِ مِہ نَوسن کر تجھ تک میں دَواں آیا
ساقی میں ترے صدقے میں دے رمضان آیا
اس گل کے سوا ہر پھول با گو ش گراں آیا
دیکھے ہی گی اے بلبل جب وقتِ فغاں آیا
جب بامِ تجَلی پر وہ نیّر ِ جاں آیا
سرتھا جو گرا جھک کر دل تھا جو تپاں آیا
جنّت کو حَرم سمجھا آتے تو یہاں آیا
اب تک کے ہر اک کا منھ کہتا ہوں کہاں آیا
طیبہ کے سوا سب باغ پا مالِ فنا ہوں گے
دیکھو گے چمن والو! جب عہدِ خزاں آیا
سراور وہ سنگِ در آنکھ اور وہ بزمِ نور
ظالم کو وطن کا دھیان آیا تو کہاں آیا
کچھ نعت کے طبقے کا عالم ہی نرالا ہے
سکتہ میں پڑی ہے عقل چکر میں گماں آیا
جلتی تھی زمیں کیسی تھی دھوٗپ کڑی کیسی
لو وہ قدِ بے سایہ اب سایہ کناں آیا
طیبہ سے ہم آتے ہیں کہیے تو جناں والو
کیا دیکھ کے جیتا ہے جو واں سے یہاں آیا
لے طوقِ الم سے اَب آزاد ہو اے قمری
چٹھی لیے بخشش کی وہ سرو رواں آیا
ناماں سے رضا کے اب مٹ جاؤ بُرے کامو
دیکھو مِرے پلّہ پر وہ اچھے میاں آیا
بدکار رضا خوش ہو ید کا م بھلے ہوں گے
وہ اچھے میاں پیارا اچھوں کا میاں آیا
صُبح طیبہ میں ہوئی بٹتا ہے باڑا نُور کا
صدقہ لینے نُور کا آیا ہے تارا نُور کا
باغِ طیبہ میں سُہانا پُھول پھولا نُور کا
مست ہوئیں بلبلیں پڑھتی ہوئیں کلمہ نُور کا
بارہویں کے چاند کا مُجرا ہے سجدہ نُور کا
بارہ بُرجوں سے جُھکا اک اک ستارہ نورکا
تیرے ہی ماتھے رہا اے جان سہرا نُور کا
بخت جا گا نُور کا چمکا ستارا نور کا
سُر مگیں آنکھیں حریم حق کے وہ مشکیں غزال
ہے فضا ئے لا مکاں تک جِن کارِ منا نُور کا
تاب حسن کرم سے کھل جائیں گے دل کے کنول
تو بہا ریں لائیں گی گرمی کا جھلکا نُور کا
چاند جھک جاتا جدھر اُنگلی اٹھاتے مہد میں
کیا ہی چلتا تھا اِشاروں پر کھلونا نُور کا
کٓ گیسو ہٰ دہن یٰ ابرو و آنکھیں عٓ صٓ
کھٰیٰعٓصٓ اُن کا ہے چہرہ نُور کا
اے رضا یہ احمد ِ نُوری کا فیضِ نُور ہے
ہو گئی میری غزل بڑھ کر قصیدہ نُور کا
صبہ بہ سوئے مدینہ روکن ازیں دعاگو سلام برخواں
بگردِ شاہِ رسل بہ گرداں بصد تفرع پیام برخواں
بشوزِ من صورتِ مثالی نماز بگزار اندراں جاں
بہ لحن خوش سورۂ محمد ﷺ تمام اندر قیام بر خواں
بنہہ بچندیں ادب طرازی سر ارادت بخاک آں کو
صلوٰۃ ِ آخر بہ روح پاک جناب خیر الانام برخواں
بہ باب رحمت گہے گزر کن بہ باب جبریل گہہ جبیں سا
سلام ربی علیٰ نبیٍ گہے بہ باب الاسلام برخواں
بہ لحنِ داؤد ہمنوا شوبہ نالۂ درد آشنا شو
بہ بزم پغمبر ایں غزل رازِ عبدِ عاجز نؔظام بدخواں
طُفیلِ سرورِ عالم ﷺ ہوا سارا جہان پیدا
زمیں و آسماں پیدا مکیں پیدا مکاں پیدا
نہ ہوتا گر فروغِ نُور ِ پاک ِ رَحمت ِ عالم
نہ ہوتی خِلقت ِ آدم نہ گلزارِ جِناں پیدا
شہِ لو لاک کے باعث حبیبِ ﷺ پاک کے باعث
جنابِ حق تعالیٰ نے کیا کون و مکاں پیدا
رسول اللہ ﷺ کی خاطر کیے جن و ملک حاضر
بنایا ماہ و ا نجم کو کیا ہے بحر و بر پیدا
جمالِ حُسن میں رعنا کمالِ خُلق میں یکتا
کوئی پیدا ہوا ایسا نہ ہو وے گا یہاں پیدا
انہی کے واسطے آدم انہی کے واسطے حوا
انہی کے واسطے کافی کیے ہیں اِنس وجاں پیدا
طوبٰی میں جو سب سے اونچی نازک سیدھی نکلی شاخ
مانگوں نعتِ نبی لکھنے کو روحِ قدس سے ایسی شاخ
مولٰی گلبن رحمت زہرا سبطین اس کی کلیاں پھول
صدّیق و فاروق و عثمان، حیدر ہر اِک اُس کی شاخ
شاخِ قامت شہ میں زلف و چشم و رخسار ولب ہیں
سنبل نرگس گل پنکڑیاں قدرت کی کیا پھولی شاخ
اپنے اِن باغوں کا صدقہ وہ رحمت کا پانی دے
جس سے نخلِ دل میں ہو پیدا پیارے تیری ولا کی شاخ
یادِ رخ میں آہیں کر کے بن میں میں رویا آئی بہار
جھومیں نسیمیں نیساں برسا کلیاں چٹکیں مہکی شاخ
ظاہر و باطن اول و آخر زیب فروغ و زینِ اصول
باغ ِ رسالت میں ہے تو ہی گل غنچہ جڑپتی شاخ
آل احمد خذ بیدی یا سَیّد حمزہ کن مددی
وقتِ خزانِ عمرِ رضا ہو برگ ِ ہدیٰ سے نہ عاری شاخ
طیبہ کی ہے یاد آئی ،اب اشک بہانے دو
محبوب نے آنا ہے ، راہوں کو سجانے دو
مشکل ہے اگر میرا ،طیبہ میں ابھی جانا
اۓ بادِ صبا میری آہوں کو تو جانے دو
میں تیری زیارت کے قابل تو نہیں مانا
یادوں کو شہا! اپنی خوابوں میں تو آنے دو
اَشکوں کی لڑی کوئی اب ٹوٹنے نہ پائے
آقا کے لیے مجھ کو کچھ ہار بنانے دو
جو چاہو سزا دینا ،محبوب کے دربانو !
اِک بار تو جالی کو سینے سے لگانے دو
محبوب کے قابل تو الفاظ کہاں صؔائم ؟!
اَشکوں کی زباں سے اب ،اک نعت سنانے دو
عارضِ شمس و قمر سے بھی ہیں انور ایڑیاں
عرش کی آنکھوں کے تارے ہیں وہ خوشتر ایڑیاں
جا بجا پر تو فگن ہیں آسماں پر ایڑیا ں
دن کو ہیں خورشید شب کو ماہ و اختر ایڑیاں
نجم گردوں تو نظر آتے ہیں چھوٹے اور وہ پاؤں
عرش پر پھر کیوں نہ ہوں محسوس لاغر ایڑیاں
دب کے زیرپا نہ گنجایش سمانے کو رہی
بن گیا جلوہ کفِ پا کا ابھر کر ایڑیاں
ان کا منگتا پاؤں سے ٹھکرادے وہ دنیا کا تاج
جس کی خاطر مر گئے منعَم رگڑ کر ایڑیاں
دو قمر دو پنجۂ خور دوستارے دس ہلال
ان کے تلوے پنجے ناخن پائے اطہر ایڑیاں
ہائے اس پتھر سے اس سینہ کی قِسمت پھوڑیے
بے تکلف جس کے دل میں یوں کریں گھر ایڑیاں
تاج رُوح القدس کے موتی جسے سجدہ کریں
رکھتی ہیں واللہ وہ پاکیزہ گوہر ایڑیاں
ایک ٹھوکر میں احد کا زلزلہ جَاتا رہا
رکھتی ہیں کتنا وقار اللہ اکبر ایڑیاں
چرخ پر چڑھتے ہی چاندی میں سیاہی آگئی
کر چکی ہیں بدر کو ٹکال باہر ایڑیاں
اے رضا طوفان محشر کے طلاطم سے نہ ڈر
شاد ہو ہیں کشتی ِ امّت کو لنگر ایڑیاں
عاصیوں کو در تمہارا مل گیا
بے ٹھکانوں کو ٹھکانا مل گیا
فضلِ رب سے پھر کمی کس بات کی؟
مل گیا سب کچھ جو طیبہ مل گیا
ان کے در نے سب سے مستغنیٰ کیا
بے طلب بے خواہش اتنا مل گیا
ناخدائی کے لیے آئے حضور
ڈوبتو! نکلو سہارا مل گیا
آنکھیں پر نم ہوگئیں سر جھک گیا
جب تِرا نقشِ کفِ پا مل گیا
خُلد کیسی ؟ کیا چمن؟ کس کا وطن؟
مجھ کو صحرائے مدینہ مل گیا
ان کے طالب نے جو چاہا پالیا
ان کے سائل نے جو مانگا مل گیا
تِرے در کے ٹکڑے ہیں اور میں غریب
مجھ کو روزی کا ٹھکانہ مل گیا
اۓ حؔسن فردوس میں جائیں جناب
ہم کو صحرائے مدینہ مل گیا
عرش کی عقل دنگ ہے چرخ مین آسمان ہے
جانِ مُراد اب کدھر ہائے تِرا مکان ہے
بزمِ ثنائے زلف میں میری عروسِ فکر کو
ساری بہارِ ہشت خلد چھوٹا سا عِطر دان ہے
عرش پہ جا کے مرغِ عقل تھک کے گرا غش آگیا
اور ابھی منزلوں پَرے پہلا ہی آستان ہے
عرش پہ تازہ چھیڑ چھاڑ فرش میں طرفہ دھوم دَھام
کان جدھر لگائیے تیری ہی داستان ہے
اِک ترے رخ کی روشنی چین ہے دو جہان کی
اِنس کا اُنس اُسی سے ہے جان کی وہ ہی جان ہے
وہ جو نہ تھے تو کچھ نہ تھا وہ جو نہ ہوں تو کچھ نہ ہو
جان ہیں وہ جہان کی جان ہے تو جہان ہے
گود میں عالمِ شباب حالِ شباب کچھ نہ پوچھ !
گلبن ِ باغِ نور کی اور ہی کچھ اٹھان ہے
تجھ سا سیاہ کار کون اُ ن سا شفیع ہے کہاں
پھر وہ تجھی کو بھول جائیں دل یہ ترا گمان
پیش نظر وہ نو بہار سجدے کو دل ہے بے قرار
روکیے سر کو روکیے ہاں یہی امتحان ہے
شان ِ خدا نہ ساتھ دے اُن کے خرام کا وہ باز
سدرہ سے تا زمیں جسے نرم سی اِک اڑان ہے
بارِ جلال اٹھا لیا گرچہ کلیجا شق ہُوا
یوں تو یہ ماہِ سبزۂ رنگ نظروں میں دھان پان ہے
خوف نہ رکھ رضا ذرا تو تو ہے عَبد مصطفٰے
تیرے لیے امان ہے تیرے لیے امان ہے
عشق جس کو بھی مصطفٰےسے ہے
بس وہی آشنا خدا سے ہے
صرف اتنا ہی جانتا ہوں میں
میری پہچان مصطفٰےسے ہے
وجہِ تخلیقِ کائنات ہیں آپ
زندگی آپ کی عطا سے ہے
دَہر میں اس کو کیا کمی جس کا
رَابِطہ شہہِ دو سَرا سے ہے
وہ در ِمصطفٰے پہ جھک جائے
خوف جس کو کسی سزا سے ہے
ان کا مؔنظور سے ہے ربط یہی
جو سخی کا کسی گدا سے ہے
عشقِ شہِ کونین میں دل داغ جگر داغ
گلزارِ محبّت کی ہے شاخوں پہ ثمر داغ
لکھتا ہوں شبِ ہجر میں جب نعت نبی کی
تحریر کے نقطے مجھے آتے ہیں نظر داغ
کوڑی کے کوئی مول نہ لے لعلِ بدخشاں
جو ہجرِ مدینہ کے دکھاؤں میں اگر داغ
دیکھا جو نظر بھر کے سوئے گنبدِ خضرا
بعد اس کے نظر آئے مجھے شمس و قمر داغ
اِک میں ہی نہیں ہجر میں ، افلاک کا عالم
دیکھو تو نظر آئیں گے تا حدّ نظر داغ
اِس جسد میں کچھ قلب و نظر پر نہیں موقوف
آقا کی عنایت سے ہے سب گھر کا یہ گھر داغ
ہر داغ کو ہے نورِ عَلیٰ نوُر کی نسبت
الماس کوئی داغ، کوئی مثلِ گہر داغ
خورشیدِ محبّت کی طمازت سے پگھل کر
بن جاتا ہے عشّاق کے سینوں میں جگر داغ
بخشش کا سہارا ہے شفاعت کی سند ہے
کہنے کے لیے لفظ بیاں میں ہے اگر داغ
جس داغ کو عشقِ شہِ ولا سے ہے نسبت
ظلمت کے ہر عالم میں ہے وہ نُورِ سحر، داغ
دھوتے ہیں گناہوں کی سیاہی کے یہ دھبّے
اُلفت میں دکھاتے ہیں کبھی یہ بھی ہُنر داغ
رکھتا تھا ادیب اپنی جبیں در پہ جُھکا ئے
دھوتا تھا گناہوں کے وہاں شام و سحر داغ
عشق کے چراغ جل گئے
ظلمتوں سے ہم نکل گئے
ان کے نقشِ پا پہ چل گئے
گر رہے تھے جو سنبھل گئے
جس طرف حضور چل دیئے
خار پھول میں بدل گئے
روئے مصطفٰے کی اِک کرن
ظلمتوں کے بَل نِکل گئے
دیکھ کر جمالِ مصطفٰے
سنگ دل جو تھے پگھل گئے
ان کا ذکر سن کے رنج و غم
اپنے راستے بدل گئے
ہے یقین کہ ان کے دَر پہ ہم
آج گر نہیں تو کل گئے
ان کے در پہ جو پہنچ گئے
ہر حصار سے نِکل گئے
ان پہ جب درود پڑھ لیا
حادثوں کے رُخ بدل گئے
عِشق مولٰی میں ہو خوں بارکنارِ دامن
یا خدا جَلد کہیں آئے بہارِ دامن
بہ چلی آنکھ بھی اشکوں کی طرح دامن پر
کہ نہیں تار نظر جز دو سہ تارِ دامن
اشک برساؤں چلے کوچۂ جاناں سے نسیم
یا خدا جلد کہیں نکلے بخارِ دامن
دل شدوں کا یہ ہوا دامنِ اطہریہ ہجوم
بیدل آباد ہوا نام دیارِ دامن
مشک سا زلف شہ و نور فشاں روئے حضور
اللہ اللہ حلبِ جیب و تتارِ دامن
تجھ سے اے گل میں سِتم دیدۂ دشتِ حرماں
خلش دل کی کہوں یا غمِ خارِ دامن
عکس افگن ہے ہلالِ لبِ شہ حبیب نہیں
مہر عارض کی شعا عیں ہیں نہ تارِ دامن
اشک کہتے ہیں یہ شیدائی کی آنکھیں دھوکر
اے ادب گردِ نظر ہو نہ غبار ِ دامن
اے رضا آہ وہ بلبل کہ نظر میں جس کی
جلوہ ٔ جیب گل آئے نہ بہارِ دامن
عطا کر دو مجھے عشق ِ بلالی یا رسول اللہ ﷺ!
نہ جاؤں آپ کے در سے میں خالی یا رسول اللہ ﷺ
ملی عظمت اسے دنیا میں عقبیٰ میں ملی جنت
نگاہِ لطف ہے جس پر بھی ڈالی یا رسول اللہ ﷺ
گنا ہ گاروں پہ سایہ بن کے چھا جائے گی محشر مییں
جو دوشِ پاک پر چادر ہے کالی یا رسول اللہﷺ
میری جھولی کو بھی اب علم کی خیرات سے بھردو
سوالی ہوں، سوالی ہوں ،سوالی یا رسو ل اللہ ﷺ
قضا آنے سے پہلے ایک دن طیبہ نگر آکر
میں دیکھوں آپ کے روضے کی جالی یا رسول اللہﷺ!
کسی صورت نہ گھر سے جب اندھیرا ہوسکا رخصت
تمہارے نام کی محفل سجالی یا رسول اللہﷺ
یقیں ہے اب کرم اللہ کا ہو جا ئے گا مجھ پر
محبت آپ کی دل میں بسالی یا رسول اللہﷺ
سلیقہ نعت گوئی کا مجھے بھی ہو عطا آقا !
حبیب ِبے نو ا بھی ہے سُوالی یا رسول اللہ!
غماں نے لا لیا ہر سمت ڈیرا یا رسول اللہ ﷺ!
تے ٹُٹا آس میری دا بنیر ا یا رسول اللہ ﷺ!
کَدوں مُکّے گی کالی رات ایہہ میرے مقدر دی
کَدو ہو وے گا خوشیاں دا سویرا یا رسول اللہ ﷺ!
جنابِ فاطمہ نے شَرّ و شَیرہ دا صدقہ (رضی اللہ عنہم)
مدینے وِچ پَوے میرا وی پَھیرا یا رسول اللہ ﷺ
رخ وَالۡفجر اتوں گیسوئے وَالّیل سرکار کے
مِٹا دیو میرے دل دا ہَنِیرا یا رسول اللہﷺ!
مدینے جان دی مُڑ کے ناں ہوئی آس پوری اے
میں اپنا زور لایا اے بُہتیرا یا رسول اللہ ﷺ
بڑا مجرم ،بڑا بدکار، پاپی ،تے کمینہ اے
قصیدہ گو مگر صؔائم ہے تیرا یا رسول اللہ ﷺ!
فاصلوں کو تکلّف ہے ہم سے اگر ، ہم بھی بے بس نہیں بے سہارا نہیں
خود ان ہی کو پکاریں گے ہم دور سے ، راستے میں اگر پاؤ ں تھک جائیں گے
جیسے ہی سبز گمبد نظر آئے گا ، بندگی کا قرینہ بدل جا ئے گا
سر جھکانے کی فرصت ملے گی کِسے ، خود ہی آنکھوں سے سجدے سے ٹپک جائیں گے
ہم مدینے میں تنہا نکل جائیں گے ، اور گلیوں میں قصدًا بھٹک جائیں گے
ہم وہاں جاکے واپس نہیں آئیں گے ، ڈھونڈ تے ڈھونڈتے لو گ تھک جائیں گے
نام ان کا جہاں بھی لیا جائیگا ، ذکر ان کا جہاں بھی کیا جائیگا
نور ہی نور سینوں میں بھر جائیگا ، ساری محفل میں جلوے لپک جائیں گے
اۓ مدینے کے زائر! خدا کے لیے ، داستانِ سفر مجھ کو یوں مت سنا
دل تڑپ جائیگا، بات بڑھ جائیگی ، میرے محتاط آنسوں چھلک جائیں گے
ان کی چشمِ کر م کو ہے اس کی خبر، کس مسافر کو ہے کتنا شوق ِ سفر ؟
ہم کو اقبالؔ جب بھی اجاز ت ملی ، ہم بھی آقا کے در بار تک جائیں گے
فلک کے نظارو ! زمین کے بہارو!
سب عیدیں مناؤ حضور آگئے ہیں
اُٹھو بے سہارو غم کے مارو
خبر یہ سناؤ! حضور آگئے ہیں
انوکھا نرالا، وہ ذیشان آیا
وہ سارے رسولوں کا سلطا ن آیا
ارے کج کلا ہو! ارے باد شاہو
نگاہیں جھکاؤ حضور آگئے ہیں
ہُوا چار سو رحمتوں کا بسیرا
اُجالا اُجالا ، سویرا سویرا
حلیمہ کو پہنچی، خبر آمنہ کی
میرے گھر میں آؤ ! حضور آگئے ہیں
ہواؤں میں جذبات ہیں مرحبا کے
فضاؤں میں نغمات صَلِّ عَلٰی کے
درودوں کے گجرے ، سلاموں کے تحفے
غلامو سجاؤ ! حضور آ گئے ہیں
سماں ہے ثناء ِ حبیب ِ خدا کا
یہ میلاد ہے سرورِ انبیاء کا
نبی کے گداؤ! سب ایک دوسرے کو
خبر یہ سناؤ ! حضور آگئے ہیں
کہاں میں ظہوؔری کہاں اُن کی باتیں
کرم ہی کرم ہیں یہ دن اور راتیں
جہاں پر بھی جاؤ! دلوں کو جگاؤ
یہی کہتے جاؤ ! حضور آگئے ہیں
قدم آگے بڑھا زینہ بہ زینہ
تجھے مل جائے گا اِک دن مدینہ
نگاہوں میں خطاؤں کا تصور
جبیں پر ہے ندامت کا پسینہ
مِرا دل مسکنِ عشق نبی ہے
نہ ڈوبے گا کبھی میرا سفینہ
تمہارا ذکر ہے محفل بہ محفل
تمہاری یاد ہے سینہ بہ سینہ
بفیض اِذۡن سرکار ِ دو عالم
مجھے آجائے جینے کا قرینہ
محمد مصطفٰےتشریف لائے
مہینوں میں ہے افضل یہ مہینہ
جو لوگ اخؔتر بصیرت کھو چکے ہیں
اُنہیں درکار ہے خاک مدینہ
قلب عاشق ہے اب پارہ پارہ
الوداع الوداع ماہِ رمضان
کلفت ہجر و فرقت نے مارا
تیرے آنے سے دل خوش ہواتھا
اور ذوقِ عبادت بڑھا تھا
آہ!اب دل پہ ہے غم کا غلبہ
الوداع الوداع ماہِ رمضان
مسجدوں میں بہار آگئی تھی
جوق در جوق آتے نمازی
ہو گیا کم نمازوں کا جذبہ
الوداع الوداع ماہِ رمضاں
بزم افطار سجتی تھی کیسی !
خوب سحری کی رونق بھی ہوتی
سب سماں ہو گیا سُونا سُونا
الوداع الوداع ماہِ رمضاں
تیرے دیوانے اب رو رہے ہیں
مضطرب سب کے سب ہو رہے ہیں
ہائے اب وقتِ رخصت ہے آیا
الوداع الوداع ماہِ رمضاں
تم پہ لاکھوں سلام ماہِ ر مضاں
تم پہ لاکھوں سلام ماہِ غفراں
جاؤ حافظ خدا اب تمہارا
الوداع الوداع ماہِ رمضاں
نیکیاں کچھ نہ ہم کرسکے ہیں
آہ!عصیاں میں ہی دن کٹے ہیں
ہائے !غفلت میں تجھ کو گزارا
الوداع الوداع ماہِ رمضاں
جب گزر جائیں گے ماہ گیارہ
تیری آمد کا پھر شور ہوگا
کیا مِری زندگی کا بھروسہ
الوداع الوداع ماہِ رمضاں
کچھ نہ حُسن ِ عمل کر سکا ہوں
نذر چند اشک میں کر رہا ہوں
بس یہی ہے مِرا کُل اثاثہ
الوداع الوداع ماہِ رمضاں
ہائے عطار بیکار کاہل
رہ گیا یہ عبادت سے غافل
اس سے خوش ہو کے ہونا روانہ
الوداع الوداع ماہِ رمضاں
سال آئندہ شاہِ حرم تم
کرنا عطار پر یہ کرم تم
تم مدینے میں رمضاں دکھانا
الوداع الوداع ماہِ رمضاں
کاش یہ دُعا میری معجزےمیں ڈھل جائے
سامنے مدینہ ہو اور دم نکل جائے
آپ گر کرم کردیں !ہم گناہ گاروں پر
نا ؤ بخدا طوفاں سے کیوں نہ پھر نکل جائے
جب گزر رہے ہوں ہم پُل صراط سے آقا !
پاؤں ڈگمگائے تو خود بخود سنبھل جائے
واسطہ نواسوں، کا صدقہ غوثِ اعظم کا (رضی اللہ عنہم)
آفت و بلا ساری سب کے سر سے ٹل جاۓ
اۓ میرے سخی داتا ! میری سوئی قسمت بھی
آپ کے اشارے سے یا نبی !بدل جائے
نامِ مصطفٰے کا یہ معجزہ میں اثر ہے
نام سن کے آقا کا ہر گدا مچل جائے
پنجتن کے صدقے میں ہو لحد مدینے میں
ہو کرم جو محسؔن پر زندگی بدل جائے
کالیاں زلفاں والا دکھی دلاں دا سہارا
قسم خدا دی مینوں سب نالوں پیارا
دساں کی میں مصطفٰے دی کڈی سونڑای شان اے آپ دی تعریف وچ سارا ای قرآن اے
پڑھ کے تو ویکھ جیہڑا مرضی سیپارہ قسم خدا دی مینوں سب نالوں پیارا
کالیاں زلفاں والا دکھی دلاں دا سہارا
کیندی اے حلیمہ مکھ ویکھ لجپال دا لبھ کے لے آواں کتھوں سونڑدا ترے نال دا
چودھویں دا چن تے عرشاں دا تارا قسم خدا دی مینوں سب نالوں پیارا
کالیاں زلفاں والا دکھی دلاں دا سہارا
کر کے اشارا سونہڑا سورج نوں موڑدا آئپےچن توڑدا تے آئپےچن جوڑ دا
بگڑی بناوے میرے نبی دا اشارا قسم خدا دی مینوں سب نالوں پیارا
کالیاں زلفاں والا دکھی دلاں دا سہارا
دیندے نے گواہی ذرّے ذرّے کوہِ طوردے ویکھ دے نصیباں والے جلوے حضوردے
آمِہَل دا چن تے حلیمہ دا دلارا قسم خدا دی مینوں سب نالوں پیارا
کالیاں زلفاں والا دکھی دلاں دا سہارا
کچھ رہے یا نہ رہے مجھ بے اثر کے سامنے
گمبد خضراء رہے میری نظر کے سامنے
گاہے بہ گاہے جو کفالت کر رہا ہے خود میری
اور کیا مانگوں بھلا اُس چارہ گر کے سامنے
دیکھی کچھ دنیا بھی ہم نے گھوم کر لیکن جناب
سب سفر بے کیف ہیں، طیبہ کے سفر کے سامنے
یا نبی ! ہم کو عطا کر اتنی شَہِی چند روز
ہم کہیں کہ گھر لیا ہے تیرے گھر کے سامنے
جو درود پاک پڑھ کر یا د کرتے ہیں انہیں
جاتی ہے ان کی خبر خیر البشر کے سامنے
مدعا عاؔبد خد ا نے اس کا پورا کر دیا
جو برستی آنکھ دیکھی ان کے در کے سامنے
کچھ غم نہیں اگر چہ زمانہ ہو بر خلاف
ان کی مدد رہے تو کرے کیا اثر خلاف
ان کا عدو اسیر ِ بلائے نفاق ہے
ان کی زبان و دل میں رہے عمر بھر خلاف
ان کی وجاہتوں میں کمی ہو محال ہے
بالفرض اک زمانہ ہو ان سے اگر خلاف
اٹھوں جو خواب مرگ سے آئے شمیم ِ یار
یار ب نہ صبح حشر ہو باد ِ سحر خلاف
قربان جاؤں رحمتِ عاجز نواز پر
ہوتی نہیں غریب سے ان کی نظر خلاف
شانِ کرم کسی سے عوض چاہتی نہیں
لاکھ امتثال ِ امر میں دِل ہو ادھر خلاف
کیا رحمتیں ہیں لطف میں پھر بھی کمی نہیں
کرتے رہے ہیں حکم سے ہم عمر بھر خلاف
تعمیل حکمِ حق کا حسؔن ہے اگر خیال
ارشاد پاکِ سرورِ دیں کا نہ کر خلاف
Comments are off for this post
کرم کے بادل برس رہے ہیں ، دلوں کی کھیتی ہری بھری ہے
یہ کون آیا کہ ذکر جنکا ، نگر نگر ہے گلی گلی ہے
دیے دلوں کے جلا کے رکھنا ، نبی کی محفل سجا کے رکھنا
جو راحت ِ سُکوں جان ہے ، وہ ذکر، ذکر ِ محمدی ہے
جو گالیاں سن کے دیں دعائیں ، بُروں کو اپنے گلے لگائیں
سراپا لُطف و کرم جو ٹھر،ی وہ میرے آقا کی زندگی ہے
نبی کو اپنا خدا نہ مانو ، خدا سے لیکن، جدا نہ مانو
ہے اھل ِ ایمان کا یہ عقیدہ خدا خدا ہے نبی نبی ہے
میں اپنی قسمت پہ کیوں نہ جھوموں ! میں کیوں نہ ولیوں کے در کو چوموں ؟
میں نام لیوا مصطفٰے کا ، خدا کے بندوں سے دوستی ہے
ہے دو ش پر جن کے کملی کالی ، وہی تو ہیں دو جہاں کے والی
کوئی سُوالی نہ بھیجا خالی یہ شان میرے کریم کی ہے
نہ مانگو دنیا کے تم خزانے “نیاؔزی ” چلیں مدینے
کہ بادشاہ سے بڑھ کر پیارے نبی کے در کی گداگری ہے ۔
کِس کے جلوہ کی جھلک ہے یہ اجالا کیا ہے
ہر طرف دیدہ ٔ حیرت زدہ تکتا کیا ہے
مانگ من مانتی منھ مانگی مُراد یں لے گا
نہ یہاں “نا” ہے نہ منگتا سے یہ کہنا “کیا ہے ”
پند کڑوی لگی ناصح سے ترش ہوا ے نفس
زہر عِصیاں میں سِتمگر تجھے میٹھا کیا ہے
ہم ہیں اُن کے وہ ہیں تیرے تو ہوئے ہم تیرے
اس سے بڑھ کر تِری سمت اور وسیلہ کیا ہے
ان کی امّت میں بنا یا انہیں رحمت بھیجا
یوں نہ فرما کہ ترارحم میں دعویٰ کیا ہے
صدقہ پیارے کی حیا کا کہ نہ لے مجھ سے حساب
بخش بے پوچھے لجائے کو لجانا کیا ہے
زاہد اُن کا میں گنہ گار وہ میرے شافع
اتنی نِسبت مجھے کیا کم ہے تو سمجھا کیا ہے
بے بسی ہو جو مجھے پرسش ِ اعمال کے وقت
دوستو! کیا کہوں اُس وقت تمنّا کیا ہے
کاش فریاد مری سُن کے یہ فَرمائیں حضور
ہاں کوئی دیکھو یہ کیا شور ہے غوغا کیا ہے
کون آفت زدہ ہے کِس پہ بلا ٹوٹی ہے
کِس مصیبت میں گرفتار ہے صدمہ کیا ہے
کِس سے کہتا ہے کہ للہ خبر لیجیے مِری
کیوں ہے بیتاب یہ بے چینی کا رونا کیا ہے
اس کی بے چینی سے ہے خاطِر ِ اقداس پہ ملال
بے کسی کیسی ہے پوچھو کوئی گزرا کیا ہے
یوں ملائک کریں معروض کہ اِک مجرم ہے
اس سے پرسش ہے بتا تو نے کیا کیا ہے
سامنا قہر کا ہے دفتر ِ اعمال ہیں پیش
ڈر رہا ہے کہ خدا حکم سناتا کیا ہے
آپ سے کرتا ہے فریاد کہ یا شاہِ رسل
بندہ بے کس ہے شہا رحم میں وقفہ کیا ہے
اب کوئی دم میں گرفتار بلا ہوتا ہوں
آپ آجائیں تو کیا خو ف ہے کھٹکا کیا ہے
سن کے عرض مِری بحرِ کرم جوش میں آئے
یوں ملائک کو ہوا ارشاد ٹھرنا کیا ہے
کس کو تم موردِ آفات کِیا چاہتے ہو !
ہم بھی تو آکے ذرا دیکھیں تماشا کیا ہے
ان کی آواز پہ کر اٹھوں میں بے ساختہ شور
اور تڑپ کر یہ کہوں اب مجھے پَر وا کیا ہے
لوہ آیا مِرا حامی مِرا غم خوار امم !
آگئی جاں تنِ بے جاں میں یہ آنا کیا ہے
پھر مجھے دامنِ اقدس میں چھپا لیں سرور
اور فرمائیں ہٹو اس پہ تقاضہ کیا ہے
بندہ آزاد شدہ ہے یہ ہمارے دَر کا
کیسا لیتے ہو حساب اس پہ تمہارا کیا ہے
چھوڑ کر مجھ کو فرشتے کہیں محکوم ہیں ہم
حکم والا کی نہ تعمیل ہو زہرہ کیا ہے
یہ سماں دیکھ کے محشر میں اٹھے شور کہ واہ
چشمِ بد دور ہو کیا شان ہے رتبہ کیا ہے
صدقے اس رحم کے اس سایہ ٔ دامن پہ نثار
اپنے بندے کو مصیبت سے بچایا کیا ہے
اے رضا جانِ عنادِل تِرے نغموں کے نثار
بلبلِ باغ ِ مدینہ تِرا کہنا کیا ہے
کعبہ سے اگر تربتِ شہ فاضل ہے
کیوں بائیں طرف اُس کے لیے منزل ہے
اس فکر میں جو دل کی طرف دھیان گیا
سمجھا کہ وہ جسم ہے یہ مرقد دل ہے
تم چاہو تو قِسمت کی مصیبت ٹل جائے
کیوں کر کہوں ساعت ہے قیامت ٹل جائے
لِلّٰہ اٹھا دو رُخ روشن سے نقاب
مولیٰ مری آئی ہوئی شامَت ٹل جائے
کعبے کے در کے سامنے مانگی ہے یہ دعا فقط
ہاتھوں میں حشر تک رہے دامن ِ مصطفٰے فقط
اپنے کرم سے اۓ خدا !عشق ِ رسول کر عطا
آخر ی دم زباں پہ ہو صَلِّ عَلٰے سدا فقط
طیبہ کے سیر کو چلیں قدموں میں اُن کی جان دیں
دفن ہوں اُ ن کے شہر میں ہے یہ ہی التجا فقط
دنیا کی ساری نعمتیں میری نظر میں ہیچ ہوں
رکھنے کو سر پہ گر ملے نعلین مصطفٰے فقط
منکَر نکیر قبر میں ہم سے سوال جب کریں
ایسے میں ورد ہم رکھیں آپ کے نام کا فقط
نزع کے وقت جب میری سانسوں میں انتشار ہو
میری نظر کے سامنے گمبد ہو وہ ہرا فقط
نعت ِ رسولِ پاک ہے ناظؔمی کا مقصدِ حیات
قبر میں بھی لبوں پہ ہو سرکار کی ثنا فقط
کملی والے میں صدقے تری یاد توں آکے جو بے قرارا ں دے کم آگئی
ایسی باغِ مدینہ چوں اٹھی مہک کنیاں دکھیاں لاچاراں دے کم آگئی
اپنے اپنے مقدر دی ہوندی اے گل، آئیاں دایاں ہزاراں سی مکّے دے ول
جیڑی ڈاچی قدم وی نہ سَکدی سی چَل ،عرش دے شہسواراں دے کم آگئی
شان صدیق و فاروق دی کی دساں، کیتا اللہ نے جنہاں دا اُچا نشاں
سبز گنبد دے اندر جو بچدی سی تھاں، کملی والے دے یاراں دے کم آگئی
لین خوشبوئے زلف حبیب خدا آئی جنت دے وچوں سی باد صبا
چھو کے لنگدی جدوں گیسوئے مصطفٰے جاندی جاندی بہاراں دے کم آگئی
آؤندی عملاں دے ولّوں سی صؔائم شرم، کملی والے نے رکھیا اے ساڈا بھرم
دن قیامت دے سوہنے دی نظر کرم ،میرے جئے عیب کاراں دے کم آگئی
کہیں نہ دیکھا زمانے بھر میں جو مدینے میں آکے دیکھا
تجلیوں کا لگا ہے میلہ جدھر نگاہیں اُٹھا کے دیکھا
وہ دیکھو! دیکھو! سنہری جالی، اِدھر سُوالی اُدھر سُوالی
قریب سے جو بھی اُن کے گزرا حضور نے مسکرا کے دیکھا
عجیب لذت ہے خودی کی عجب کشش ہے درِ نبی کی
سُر ور کیسا ہے کچھ نہ پوچھو لپٹ کے سینے لگا کے دیکھا
طواف روضےکا کر رہی ہیں یہاں وہاں اشک بار آنکھیں
ہے گونج صَلِّ عَلٰے کی ہر سو جہاں جہاں پہ بھی جا کے دیکھا
جہاں گئے اُن کا ذکر چھیڑا جہاں رہے اُن کی یاد آئی
نہ غم زمانے کے پاس آئے نبی کی نعتیں سنا کے دیکھا
ظؔہوری جا گے نصیب تیرے بس اِک نگا ہِ کرم کے صدقے
کہ بار بار اپنے در پہ تجھ کو تِرے نبی نے بلا کے دیکھا
کوئی تو ہے جو نظامِ ہستی چلا رہا ہے وہ ہی خدا ہے
دکھائی بھی جو نہ دے، نظر بھی جو آر ہا ہے وہ ہی خدا ہے
وہ ہی ہے مشرق، وہ ہی ہے مغر ب، سفر کریں سب اسی کی جانب
ہر آئینے میں جو عکس اپنا دکھا رہا ہے وہ ہی خدا ہے
تلاش اس کونہ کر بُتوں میں وہ ہے بدلتی ہوئی رُتوں میں
جو دن کو رات اور رات کو دن بنا رہا ہے وہ ہی خدا ہے
کسی کو سوچوں نے کب سراہا ؟وہی ہوا جو خدا نے چاہا
جو اختیارِ بشر پہ پہر ے بٹھا رہا ہے وہ ہی خدا ہے
نظر بھی رکھے ،سماعتیں بھی ،وہ جان لیتا ہے نیتیں بھی
جو خانۂ لا شعور میں جگمگا رہا ہے وہ ہی خدا ہے
کسی کو تاجِ و قار بخشے ،کسی کو ذلت کے غار بخشے
جو سب کے ہاتھوں پہ مہرِ قدرت لگا رہا ہے وہ ہی خدا ہے
سفید اس کا ،سیا ہ اس کا، نفس نفس ہے گواہ اس کا
جو شعلۂ جاں جلا رہا ہے ،بجھا رہا ہے وہ ہی خدا ہے
کوئی مثل مصطفٰےکا کبھی تھا نہ ہے نہ ہو گا
کسی اور کا یہ رتبہ کبھی تھا نہ ہے نہ ہو گا
کسی وہم نے صدا دی !کوئی آپ کا مُمثل ؟
تو یقیں پکار اُٹھا کبھی تھا! نہ ہے نہ ہوگا !
مِری طاقِ جاں میں نسبت کے چراغ جل رہے ہیں
مجھے خوف تیرگی کا ،کبھی تھا ، نہ ہے ،نہ ہوگا
مرھے دامن ِطلب کو ہے اُنہی کے در سے نسبت
کہیں اور سے یہ رشتہ؟ کبھی تھا نہ ہے، نہ ہوگا
میں ہو ں وقف ِ نعت گوئی کسی اور کا قصیدہ
مری شاعری کا حصہ ،کبھی تھا، نہ ہے نہ ہوگا
سرِ حشر ان کی رحمت کا صبیح میں ہوں طالب
مجھے کچھ عمل کا دعویٰ کبھی تھا ہے نہ ہوگا
کی کی نہ کیتا یار نے اِک یار واسطے
رب محفِلاں سجائیاں نی سرکار واسطے
دل یاد لَئی بنایا اے، تعریف لئی زباں
انکھیاں بنائیاں سوہٹے دے دیدار واسطے
کَاّیں نوں روز ہوندے نے دیدار آپ دے
کَاّیں تڑپ دے ریندے نے دیدار واسطے
صدقہ نبی دی آل دا بخشے خدا شِآندء
منگو دعاواں میرے جئَے بیمار واسطے
کس واسطے میں غیر نوں دل وچ بٹھا لواں
ایہہ دل مِرا اے احمدِ مختار واسطےﷺ
اللہ نے عرشاں فرشاں تے لائاّاں نے رونقاں
کڑیاں رچائیاں سوہنے دے سب پیار واسطے
گزرے نیؔازی زندگی عشقِ نبی وچ دے
نعتاں میں پڑھدا روں مٹّھے من ٹھار واسطے
کیا ٹھیک ہو رُخِ نبوی پر مثالِ گل
پامال جلوۂ کفِ پا ہے جَمال ِ گل
جنّت ہے ان کے جلوہ سے جو پائے رنگ و بو
اے گل ہمارے گل سے ہے گل کو سوالِ گل
اُن کے قدم سے سلعہ غالی ہو جناں
واللہ میرے گل سے ہے جاہ و جلالِ گل
سنتا ہوں عشقِ شاہ میں دل ہوگا خوں فشاں
یارب یہ مژدہ سچ ہو مبارک ہو فالِ گل
بلبل حرم کو چل غم فَانی سے فائدہ
کب تک کہے گی ہائے وہ غنچہ و دلال ِ گل
غمگین ہے شوقِ غازۂ خاکِ مدینہ میں
شبنم سے دھل سکے گی نہ گردِ ملالِ گل
بلبل یہ کیا کہا میں کہاں فصل ِ گل کہاں
امّید رکھ کہ عام ہے جود و نوالِ گل
بلبل گھر اہے ابر ولا مژدہ ہوکہ اب
گرتی ہے آشیانہ پہ بَرقِ جمالِ گل
یا رب ہرا بھرا رہے داغِ جگر کا باغ
ہر مہ مہِ بہار ہو ہر سال سالِ گل
رنگِ مژدہ سے کر کے خجل یادِ شاہ میں
کھیچا ہے ہم نے کانٹوں پہ عطرِ جمال ِ گل
میں یادِ شہ میں رووں عنادِل کریں ہجوم
ہر اشکِ لالہ فام پہ ہو احتمالِ گل
ہیں عکس ِ چہرہ سے لبِ گلگوں میں سرخیاں
ڈوبا ہے بدرِ گل سے شفق میں ہلالِ گل
نعتِ حضور میں مترنّم ہے عندلیب
شاخوں کے جھومنے سے عیاں و جد و حال ِ گل
بلبل گلِ مدینہ ہمیشہ بہار ہے
دو دن ک ہے بہار فنا ہے مآلِ گل
شیخین اِدھر نثار غنی و علی اُدھر
غنچہ ہے بلبُلوں کا یمن و شمالِ گل
چاہے خدا تو پائیں گے عشقِ نبی میں خلد
نِکلی ہے نامۂ دلِ پُرخوں میں فالِ گل
کر اُس کی یاد جس سے ملے چین عندلیب
دیکھا نہیں کہ خارِ اَلم ہے خیالِ گل
دیکھا تھا خوابِ خارِ حرم عندلیب نے
کھٹکا کیا ہے آنکھ میں شب بھر خیالِ گل
اُن دو کا صدقہ جن کو کہا میرے پھول ہیں
کیجے رضا کو حشر میں خنداں مثال ِ گل
کیا شور ذکر و فکر، دعا پنجگانہ کیا
آتا نہیں ہے عشق میں آنسو بہانا کیا
آنکھیں بھی اشکبار ہیں لب پر درود بھی
رحمت کو اب بھی چاہیے کوئی بہانہ کیا
رکھا جو ہاتھ سینے پہ دھڑکن نہیں ملی
دل، ہو گیا مدینے کی جانب روانہ کیا ؟
وہ بھی ہیں آستاں بھی ہے، کردے نثار جاں
پھر لوٹ کر اب آئے گا ایسا زمانہ کیا
موسیٰ علیہ السلام کا حال مانعٔ حسرت ہوا ہمیں
تابِ نظر نہیں ہو تو نظریں اٹھانا کیا
تسبیح دانے دانے مُصلّا ہے تار تار
آیا ہے خانقاہ میں کوئی دوانہ کیا
ڈرتا ہے کس لیے غمِ دوراں سے رات دن
پالا نہیں ہے تو نے غمِ عاشقانہ کیا
یہ مرحلہ ہے زیست کا طے کر اسے بھی
اب مر کے ہوگا سوئے مدینہ روانہ کیا
دیدار بھی حضور کا ، کوثر کا جام بھی
دیکھو قصیدہ لکھ کے ملا ہے خزانہ کیا
سر کو جھکا دیا جو درِ یار پر ادیؔب
جب تک قضا نہ آئے تو سر کو اٹھا نا کیا
کیا مہکتے ہیں مہکنے والے بو پہ چلتے ہیں بھٹکنے والے
جگمگا اٹھی مِری گور کی خاک تیرے قربان چمکنے والے
مہِ بے داغ کے صَدقے جاؤں یوں دمکتے ہیں دمکنے والے
عرش تک پھیلی ہے تابِ عارض کیا جھلکتے ہیں جھلکنے والے
گل طیبہ کی ثنا گاتے ہیں نخلِ طوبٰے پہ چہکنے والے
عاصیو! تھام لو دامن اُن کا وہ نہیں ہاتھ جھٹکنے والے
ابرِ رحمت کے سَلامی رہنا پھیلتے ہیں پودے لچکنے والے
ارے یہ جلوہ گہِ جاناں ہے کچھ ادب بھی ہے پھڑکنے والے
سیو! ان سے مدد مانگے جاؤ پڑے بکتے رہیں بکنے والے
شمع یادِ رُخِ جاناں نہ بجھے خاک ہو جائیں بھڑکنے والے
مَوت کہتی ہے کہ جلوہ ہے قریب اِک ذرا سولیں بلکنے والے
کوئی اُن تیز رووں سے کہہ دو کِس کے ہو کر رہیں تھکنے والے
دل سلگتا ہی بھلا ہے اے ضبط بُجھ بھی جاتے ہیں دہکنے والے
ہم بھی کمھلانے سے غافل تھے کبھی کیا ہنسا غنچے چٹکنے والے
نخل سے چھٹ کے یہ کیا حال ہوا آہ او پتّے کھڑکنے والے
جب گرے منھ سوئے میخانہ تھا ہوش میں ہیں یہ بہکنے والے
دیکھ او زخمِ دِل آپے کو سنبھال پھوٗٹ بہتے ہیں تپکنے والے
مے کہاں اور کہاں میں زاہد یوں بھی تو چھکتے ہیں چھکنے والے
کفِ دریائے کرم میں ہیں رضا
پانچ فوارے چھلکنے والے
کیا ہی ذوق افزا شفاعت ہے تمہاری واہ واہ
قرض لیتی ہے گنہ پرہیز گاری واہ واہ
خامۂ قدرت کا حسنِ دست کاری واہ واہ
کیا ہی تصویر اپنے پیارے کی سنواری واہ واہ
اشک شب بھر انتظار ِ عفوِ امّت میں بہیں
میں فدا چاند اور یوں اختر شماری واہ واہ
انگلیاں ہیں فیض پر ٹوٹے ہیں پیاسے جھوم کر
ندیاں پنجابِ رحمت کی ہیں جاری واہ واہ
نور کی خیرات لینے دوڑتے ہیں مہر و ما ہ
اٹھتی ہے کس شان سے گردِ سواری واہ واہ
نیم جلوے کی نہ تاب آئے قمر ساں تو سہی
مہر اور ان تلووں کی آئینہ داری واہ واہ
نفس یہ کیا ظلم ہے جب دیکھو تازہ جرم ہے
ناتواں کے سر پر اتنا بوجھ بھاری واہ واہ
مجرموں کو ڈھونڈ ھتی پھرتی ہے رحمت کی نگاہ
طالعِ بر گشتہ تیری ساز گاری واہ واہ
عرض بیگی ہے شفاعت عفو کی سرکار میں
چھنٹ رہی ہے مجرموں ک ی فرد ساری واہ واہ
کیا مدینہ سے صبا آئی کہ پھولوں میں ہے آج
کچھ نئی بو بھینی بھینی پیاری پیاری واہ واہ
خود رہے پردے میں اور آئینہ عکسِ خا ص کا
بھیج کر انجانوں سے کی راہ داری واہ واہ
اِس طرف رَوضہ کا نور اُس سمت منبر کی بہار
بیچ میں جنّت کی پیاری پیاری کیاری واہ واہ
صدقے اس انعام کے قربان اس اکرام کے
ہو رہی ہے دونوں عالم میں تمہاری واہ واہ
پارہ ٔ دل بھی نہ نِکلا دل سے تحفے میں رضا
اُن سگانِ کو ، سے اتنی جان پیاری واہ واہ
گزرے جس راہ سے وہ سیِّد والا ہو کر
رہ گئی ساری زمیں عنبرِ سارا ہو کر
رُخ ِ انور کی تجلی جو قمر نے دیکھی
رہ گیا بوسہ دہِ نقشِ کفِ پا ہو کر
وائے محرومی قسمت کہ میں پھر اب کی برس
رہ گیا ہمرہِ زوّارِ مدینہ ہو کر
چمنِ طیبہ ہے وہ باغ کہ مرغِ سدرہ
برسوں چہکے ہیں جہاں بلبلِ شیدا ہو کر
صرصرِ دشتِ مدینہ کا مگر آیا خیال
رشکِ گلشن جو بنا غنچہ دِل وا ہو کر
گوشِ شہ کہتے ہیں فریاد رَسی کو ہم ہیں
وعدہ ٔ چشم ہے بخشائیں گے گویا ہو کر
پائے شہ پر گر ے یا رب تپشِ مہر سے جب
دلِ بے تاب اڑے حشر میں پارا ہو کر
ہے یہ امید رضا کو تری رحمت سے شہا
نہ ہو زندانی دوزخ ترا بندہ ہوکر
گزرے جس راہ سے وہ سیِّد والا ہو کر
رہ گئی ساری زمیں عنبرِ سارا ہو کر
رُخ ِ انور کی تجلی جو قمر نے دیکھی
رہ گیا بوسہ دہِ نقشِ کفِ پا ہو کر
وائے محرومی قسمت کہ میں پھر اب کی برس
رہ گیا ہمرہِ زوّارِ مدینہ ہو کر
چمنِ طیبہ ہے وہ باغ کہ مرغِ سدرہ
برسوں چہکے ہیں جہاں بلبلِ شیدا ہو کر
صرصرِ دشتِ مدینہ کا مگر آیا خیال
رشکِ گلشن جو بنا غنچہ دِل وا ہو کر
گوشِ شہ کہتے ہیں فریاد رَسی کو ہم ہیں
وعدہ ٔ چشم ہے بخشائیں گے گویا ہو کر
پائے شہ پر گر ے یا رب تپشِ مہر سے جب
دلِ بے تاب اڑے حشر میں پارا ہو کر
ہے یہ امید رضا کو تری رحمت سے شہا
نہ ہو زندانی دوزخ ترا بندہ ہوکر
گل از رُخت آموختہ نازک بدنی را بدنی را بدنی را بدنی را
بلبل زِ تو آموختہ شیریں سخنی را سخنی را سخنی را سخنی را
ہر کس کہ لب لعل تُرا دیدہ بہ دل گفت
حقا کہ چہ خوش کندہ عقیقِ یمنی را، یمنی را یمنی را یمنی را
خیّاط ِ ازل دوختہ بر قامتِ زیبا
در قِدّ تو ایں جامۂ سر وِچمنی را چمنی را چمنی را چمنی را
از جاؔمیٔ بے چارا رسانید سلامے
بر در گہہِ دربارِ رسول ِمدنی را مدنی را مدنی را مدنی را
گنہ گاروں کو ہاتف سے نوید ِ خوش مآلی ہے
مُبارک ہو شفاعت کے لیے احمد سا والی ہے
قضا حق ہے مگر اس شوق کا اللہ والی ہے
جو اُن کی راہ میں جائے وہ جان اللہ والی ہے
تِرا قدِ مبارک گلبنِ رحمت کی ڈالی ہے
اسے بو کر ترے رب نے بِنا رحمت کی ڈالی ہے
تمہاری شرم سے شانِ جلال حق ٹپکتی ہے
خمِ گردن ہلالِ آسمانِ ذوالجلالی ہے
زہے خود گم جو گم ہونے پہ یہ ڈھونڈے کہ کیا پایا
ارے جب تک کہ پا نا ہے جبھی تک ہاتھ خالی ہے
میں اک محتا ج بے وقت وقعت گدا تیرے سگِ در کا
تری سرکار والا ہے تِرا در بار عالی ہے
تری بخشش پَسندی عذر جوئی توبہ خواہی سے
عموم ِ بے گناہی جرم شان ِ لا اُبالی ہے
ابو بکر و عمر عثمان و حیدر جس کے بلبل ہیں
ترا سروِ سہی اس گلبن ِ خوبی کی ڈالی ہے
رضا قِسمت ہی کھل جا ئے جو گیلاں سے خطاب آئے
کہ تو ادنیٰ سگِ درگاہ ِ خدام ِ معالی ہے
لب پر میرے محمد کا نام آئے گا ﷺ
زندگی میں جو مشکل مقام آئے گا
دی خبر آمِنہ کو یہ جبریل نے
تیرے گھر انبیاء کا امام آئے گا
کوئی مانے نہ مانے مگر حشر میں
صرف نام محمد ہی کام آئے گا ﷺ
تیرگی روشنی میں بدل جائے گی
قبر میں جب وہ ماہِ تمام آئے گا
گر بلایا مجھے سر کا ر نے
پھر نہ واپس یہ اُن کا غلام آئے گا
لطف ان کا عام ہو ہی جائیگا شاد ہر ناکام ہو ہی جائے گا
جان دے دو وعدہ ٔ دیدار پر نقد اپنا دام ہو ہی جائےگا
شاد ہے فردوس یعنی ایک دن قسمت ِ خدام ہو ہی جائے گا
یاد رہ جائیں گی یہ بے باکیاں نفس تو تو رام ہو ہی جائے گا
بے نشانوں کا نشان مٹتا نہیں مٹتے مٹتے نام ہو ہی جائے گا
یادِ گیسو ذکرِ حق ہے آہ کر دل میں پیدا لام ہو ہی جائے گا
ایک دن آواز بدلیں گے یہ ساز چہچہا کہرام ہو ہی جائے گا
سائلو ! دامن سخی کا تھام لو کچھ نہ کچھ انعام ہو ہی جائے گا
یادِ ابرو کر کے تڑپو بلبلو! ٹکڑے ٹکڑے دام ہو رہی جائے گا
مفلِسو ! اُن کی گلی میں جا پڑو باغِ خلد اکرام ہو ہی جائے گا
گر یونہی رحمت کی تاویلیں رہیں مدح ہر الزام ہو ہی جائے گا
بادہ خواری کا سماں بندھنے تو دو شیخ دُرد آشام ہو ہی جائے گا
غم تو ان کو بھول کر لپٹا ہے یوں جیسے اپنا کام ہو ہی جائے گا
مِٹ کر گر یونہی رہا قرض ِ حیات جان کا نیلام ہو ہی جائے گا
عاقلو! ان کی نظر سیدھی رہے بَور وں کا بھی کام ہو ہی جائے گا
اب تو لائی ہے شفاعت عفو پر بڑھتے بڑھتے عام ہو ہی جائے گا
اے رضا ہر کام کا اِک وقت ہے
دل کو بھی آرام ہو ہی جائے گا
لَمۡ یَأتِ نَظِیۡرُکَ فِیۡ نَظَر مثل تو نہ شد پیدا جانا
جگ راج کو تا ج تورے سر سو،ہے تجھ کو شہِ دوسرا جانا
اَلۡبَحۡرُ عَلَا وَالۡمَوۡجُ طَغٰی ،من بیکس و طوفاں ہو شربا
منجد ھار میں ہوں بگڑی ہے ہوا موری نیا پار لگا جانا
یَا شَمۡسُ نَظَرۡت اِلٰی لَیۡلیۡ ، چو بطیبہ رسی عرضے بکنی
توری جوت کی جھلجھل جگ میں رچی، مِری شب نے نہ دن ہو نا جانا
اَنَا فِیۡ عَطشٍ وَّ سَخَاکَ اَتَمۡ ،اۓ گیسوئے پاک اۓ ابر کرم !
برسن ہارے رم جھم رم جھم دو بوند اِدھر بھی گرا جانا
یَا قَافِلَتِیۡ زِیۡدِیۡ اَجَلَکۡ ، رحمے بر حسرت تشنہ لبک
مورا جیرا لرجے درک درک، طیبہ سے ابھی نہ سنا جانا
اَلۡقَلۡبُ شَجٍ وَّالۡھَمَّ شُجَوۡں، د ل زار چناں جان زیر چنوں
پَت اپنی بِتَے میں کا سے کہوں، مورا کون ہے تیرے سوا جانا ؟
اَلرُّوۡحُ فِدَاکَ فَزِدۡ حَرۡقًا یک شعلہ دِگر بَرزَن عِشقا
مورا تن من دھن سب پھونک دیا ، یہ جان بھی پیارے جلا جانا
بس خامۂ خامِ نوائے رضاؔ، نہ یہ طرز مِری، نہ یہ رنگ مِرا
ارشادِ احبّا ناطق تھا نا چار اس راہ پر پڑا جانا
مٺو پيارو سهڻو نالو آقا جو
مٺو پيارو سهڻو نالو مدنيءَ جو
آهي الله کي پيارو جنهن جو آشان نرالو
اهڙو سهڻو مرسل اسان کي مليو
جنهن جو الله به ذڪر ڪندو آ
فرشتن کي به حڪم ڏيندو آ
مومن کي به حڪم آ
قرآن ۾ به لکيل آ
صَلِّ عَلٰی سڀئي پڙهو
ڪيڏو ته مٺڙو نالو آهي محمد ﷺ
چمي اکين تي رکان نالو محمد ﷺ
جيڪو به نانءُ کڻي ٿو دل کي سڪون ملي ٿو
مدد گار اسان کي مليو
الله حبيب کي پاڻ گهرايو
پنهجي نبي کي معراج ڪرايو
سڄڻ سير ڪندو ويو
رُڪي جبرائيل به ويو
خدا سان روبرو مليو
مجھ سا عاجز مدحِ مَمدُوحِ خدا لکھتا رہا
اور کیا لکھتا ، وَرَفعنا لک لکھتا رہا
حمد میں لکھتا رہا نعتِ حبیبِ کبریا
نعت کے شعروں میں بھی حمدِ خُدا لکھتا رہا
ذہن کو تھی جستجو الفاظ کی شایان ِ شان
میں تھا چُپ، میرا قلم صَل عَلٰی لکھتا رہا
روشنائی اشک تھی اور نوکِ مژگاں تھی قلم
اس طرح بھی ایک شب ان کی ثناء لکھتا رہا
کیوں پُکارے غیر کو اپنی مدد کے واسطے
عمر بھر جس کا قلم “یا مصطفٰے”لکھتا رہا
فکر و فن بے بس نظر آئے مجھے اس راہ میں
عشق تھا جو کیا سے کیا اور کیا سے کیا لکھتا رہا
شیوۂ جود و کرم کی بات جب نکلی ادیبؔ
مجھ پہ جو گذری میں اپنا ماجرا لکھتا رہا
مجھ میں ان کی ثناء کا سلیقہ کہاں
وہ شہہ دو جہاں وہ کہاں میں کہاں
ان کا مدحۡ سَرا خالق ِاین و آں
وہ رسولِ زماں وہ کہاں میں کہاں
ان کے دامن سے وابستہ میری نجات
اُن پہ قرباں میری حیات و مما ت
میں گنہگار وہ شافعِ عاصیاں
بے کسوں کی اماں وہ کہاں میں کہاں
وہ مدینہ نگینہ ہے جو عرش کا
وہ مدینہ بھر م جو بنا فرش کا
وہ مدینہ جہاں رحمتِ بے کراں
میں بھی پہنچوں وہاں وہ کہاں میں کہاں
ہم سراپا عدم وہ سراپا وجود
ان پہ ہر دم سلام ان پہ ہر دم درود
ہم حقیقت میں افسانہ وہ داستاں
ان کا مدح خواں وہ کہاں میں کہاں
شک نہیں اۓ ریاؔض اس میں ہر گز ذرا
میں سراپا خطا وہ سراپا عطا
نام ان کا رہے کیوں نہ وِرد ِ زباں
ہے جو تسکینِ جاں وہ کہاں میں کہاں
محمد مظہر کامل ہے حق کی شان عزّت کا
نظر آتا ہے اِس کثرت میں کچھ انداز وحدت کا
یہی ہے اصل عالم مادّہ ایجاد خلقت کا
یہاں وحدت میں برپا ہے عجب ہنگامہ کثرت کا
گدا بھی منتظر ہے خلد میں نیکوں کی دعوت کا
خدا دن خیر سے لائے سخی کے گھر ضیافت کا
گنہ مغفور ، دل روشن ، خنک آنکھیں ، جگر ٹھنڈا
تعٰالی اللہ ماہِ طیبہ عالم تیری طلعت کا
نہ رکھی گل کے جوش ِ حسن نے گلشن میں جا باقی
چٹکتا پھر کہاں غنچہ کوئی باغِ رسالت کا
بڑھا یہ سلسلہ رحمت کا دورِ زلفِ والا میں
تسلسل کالے کوسوں رہ گیا عِصیاں کی ظلمت کا
صفِ ماتم اٹھے خالی ہو زنداں ٹوٹیں زنجیریں
گنہگارو!چلو مولیٰ نے دَر کھولا ہے جنت کا
سکھایا ہے یہ گستاخ نے آئینہ کو یارب
نظارہ روئے جاناں کا بہانہ کرکے حیرت کا
اِدھر امّت کی حسرت پر اُدھر خالق کی رحمت پر
نرالا طور ہوگا گردشِ چشم شفاعت کا
بڑھیں اِس درجہ موجیں کثرتِ افضال والا کی
کنارہ مِل گیا اس نہر سے دریا ئے وحدت کا
خمِ زلفِ نبی ساجد ہے محرابِ دو ابرو میں
کہ یا رب تو ہی والی ہے سیہ کارانِ امّت کا
مدد اے جو ششِ گریہ بہادے کوہ اور صحرا
نظر آجائے جلوہ بے حجاب اس پاک تربت کا
ہوئے کَم خوابی ہجراں میں ساتوں پر دے کم خوابی
تصوّر خوب باندھا آنکھوں نے استار تربت کا
یقیں ہے وقت جلوہ لغزشیں پائے نگہ پائے
ملے جوش ِ صفائے جسم سے پابوس حضرت کا
یہاں چھڑکا نمک واں مرھمِ کافور ہاتھ آیا
دلِ زخمی نمک پَروردہ ہے کس کی ملاحت کا
الٰہی منتظر ہوں وہ خَرام ناز فَرمائیں
بچھا رکھا ہے فرش آنکھوں نے کمخواب ِ بصارت کا
نہ ہو آقا کو سجدہ آدم و یوسف کو سجدہ ہو
مگر سدِّ ذرائع داب ہے اپنی شریعت کا
زبانِ کارکِس در د سے اُن کو سناتی ہے
تڑپنا دشتِ طیبہ میں جگر افگار فرقت کا
سِرھانے ان کے بسمل کے یہ بیتابی کا ماتم ہے
شہِ کوثر ترحم تشنہ جاتا ہے زیارت کا
جنہیں مَرقد میں تا حشر امّتی کہہ کر پکاروگے
ہمیں بھی یاد کر لو اُن میں صدقہ اپنی رحمت کا
وہ چمکیں بجلیاں یا رب تجلّیہائے جاناں سے
کہ چشمِ طور کا سُرمہ ہو دِل مشتاق رُویت کا
رضائے خستہ جوشِ بحرِ عصیاں سے نہ گھبرانا
کبھی تو ہاتھ آجائے گا دامن اُن کی رحمت کا
مدحت ان کی رحمت بھی ہے بخشش کا سامان بھی ہے
عشق کی دستاویز بھی ہے اور عاشق کی پہچان بھی ہے
میری بھلا اوقات ہی کیا جو ان کی ثناء میں لب کھولوں
یہ تو انہیں کا لطف و کرم ہے اور ان کا احسان بھی ہے
ایسی کوئی شے پاس نہیں جو نذر میں ان کو پیش کروں
یوں کہنے کو قلب و جگر ہیں جسم بھی ہے اور جان بھی ہے
پاسِ ادب رکھ اپنی حدوں سے بڑھ کر کوئی بات نہ کر
ان کی حدوں تک جانے والے اپنی تجھے پہچان بھی ہے
ذکر میں ان کے کوئی ادب کا دامن ہاتھ سے چھوڑے تو
میری زباں تلوار بھی ہے اور تقلیدِ حسّان بھی ہے
مرحبا سیدِ مکی مدنی العربی
دل وجاں باد فدایت چہ عجب خوش لقبی
من بیدل بجمال تو عجب حیرانم
اللہ! اللہ! چہ جمال است بدیں بوالعجبی
نسبت نیست بذات تو بنی آدم را
بر تر از عالَم و آدم تو چہ عالی نسبی
ماہمہ تشنہ لبانیم و توئی آب ِحیات
رحم فرما کہ زِحد می گزر و تشنہ لبی
ذاتِ پاک تو دریں ملکِ عرب کردہ ظہور
زِآں سبب آمدہ قرآں بہ زبانِ عربی
چشمِ رحمت بُکشا سوئے من انداز نظر
اۓ قریشی لقبی! ہاشمی و مُطَّلبی!
سیّدی اَنتَ حبیبی و طبیب قلبی
آمدہ سوئے تو قدسی پۂ درماں طلبی
مِری قسمت کے تارے اس طرح رب چمکائے گا
مِرے آقا کے در سے میرا بھی بلاوا آئے گا
میرے دل کے آنگن میں بھی پھول کھلیں گے
ان آنکھوں کو جب اُن کا دیدار کرایا جائے گا
دے دیں گے حسنین کا صدقہ سرور عالم مجھکو
جن اُن کا منگتا اپنے دامن کو پھیلائے گا
نعتیں دونوں عالم کی اُس کو مل جائین گی
جو میرے سرکار کی آمد کا جشن منائے گا
اُن کے کرم سے کھل جائیں گے دل کے دریچے سبھی
اُن کے درپہ جاکر جب معیؔن اُن کی نعت سنائے گا
مِری دھڑکن میں یا نبی
مِری سانسوں میں یا نبی
یا نبی یا نبی یا نبی یا نبی یا نبی
کوئی گفتگو ہو لب پر، تیرا نام آگیا ہے
تیری مدح کرتے کرتے ،یہ مقام آ گیا ہے
درِمصطفٰے منظر، میری چشم ِ تر کے اندر
کبھی صبح آگیا ہے، کبھی شام آیا گیا ہے
یہ طلب تھی انبیاء، کی رخ ِ مصطفٰے کو دیکھیں
یہ نماز کا وسیلہ، انہیں کام آگیا ہے
دو جہاں کی نعمتوں سے تِرے در سے جو بھی مانگا
مِری دامن ِ طلب میں وہ تمام آگیا ہے
جسے پی کے شیخ سعدی بَلَغَ الۡعُلیٰ پکاریں
میرے دستِ ناتواں میں وہ جام آگیا ہے
وہ ادؔیب جن سے محشر میں برپا کیا ہے محشر
وہ کہیں گے آؤ دیکھو یہ غلام آگیا ہے
مرے طرزِ سخن کی جان ہیں گُل بھی گُلستاں بھی
مرا حُسنِ بیاں ہے خار بھی چاکِ گریباں بھی
مرے دامن میں ، جگنو ہیں جہاں اور چاند تارے بھی
اِسی دامن میں رکھتا ہوں کچھ آہیں اور شرار ے بھی
جو میری عمر کا حاصل ہے ذکرِ مصطفٰے کرنا
تقاضائے محبّت ہے بیانِ کربلا کربلا
تقاضہ ہے ضمیرِ شاعر حق گو کی فِطرت کا
کہ حق گوئی و بیبا کی پہ مبنی سخن اُس کا
بیانِ سیّد الشُہداء کی جب تمہید ہوتی ہے
وہی عہدِ وفا کے رسم کی تجدید ہوتی ہے
حسین ابنِ علی ، سبطِ پیمبر ، شرفِ انسانی
وہ جس کے رُخ پہ تھی نُورِ محمد کی فراوانی
شہیدِ کربلا تاریخ کا عنوان ہے گویا
حسین ابنِ علی ہر قلب میں مہمان ہے گویا
بتایا ، کس طرح کرتے ہیں اُمّت کی نگہبانی
سکھایا ، کس طرح رکھتے ہیں سجدوں میں یہ پیشانی
جَلایا اس نے ظلمت میں چراغِ نُورِ ایمانی
یہ سب کچھ جانتے تھے پھر اُسے دیتے نہ تھے پانی
بہت ہی مختصر، بندوں سے رب کا فاصلہ نکلا
حرم سے لے کے اہلِ بیت کو، جب قافلہ نکلا
عمامہ باندھ کر عہدِ وفا کا ، کربلا جانا
تھا اُمّت کے لیے مقصود ان راہوں کا دکھلانا
وہ راہیں جو عروجِ آدمیت کا سبب ٹھریں
زوال ِ ظلم ٹھریں ، حق پرستوں کا لقب ٹھہریں
عرب کی سرزمیں ، تپتے ہوئے صحرا، خزاں کے دن
سفر میں تھے رسولِ ہاشمی کی جانِ جاں کے دن
یہ منزل آزمائش کی بڑی دشوار ہوتی ہے
فضا میں زہر ہوتا ہے، ہوا آزار ہوتی ہے
جب ہستی مردِ مومن کی سپرد دار ہوتی ہے
تو سائے کے لیے سر پر فقط تلوار ہوتی ہے
وہ جس کی شان میں تھی آیۂ تطہیر ِ قرآنی
اسی کی اہلِ کوفہ نے کیا نیزوں سے مہمانی
طلب نانا سے کوثر کی شفاعت کی سفارش بھی
نواسے پر وہی کرنے لگے تیروں کی بارش بھی
جَلے خیمے بدن چھلنی تھے خون میں تر قبائیں تھیں
خدا کو جو پسند آتی ہیں وہ ساری ادائیں تھیں
وہ چہرے نُور کے تھے ، گِرد جن کے نُور کے ہالے
بنے وہ خاک وخوں میں ایک ہو کر کربلا والے
وہ چہرے وہ بدن جو عشق کا اسرار ہوتے ہیں
غبارِ خاک سے ان کے کفن تیار ہوتے ہیں
نہ ہوتا گر محمد کا گھرانہ ایسی منزل پر
تو اڑ جاتا فروغ دیں کا مستقبل دھواں بن کر
سلام اُس پر کہ جو حق کے لیے سربھی کٹا آیا
سلام اُس پر جواُمّت کے لیے گھر بھی لُٹا آیا
سلام اُس پر مرا جو خون کے دریا میں تیرا ہے
سلام اُس پر کہ جو نانا کے پرچم کا پھریرا ہے
سلام اُس پر کہ جس نے زندگی کو زندگی بخشی
سَروں کو سَر بلندی اور ذوقِ بندگی بخشی
سلام اُس پر کہ جو دوش ِ پیمبر کی سواری ہے
سلام اُس پر کہ جنّت جس کے گھر کی راہداری ہے
تیر سینے پہ، برچھی پشت پر جھیلے ہوئے اِنساں
سلام اے فاطمہ کی گود میں کھیلے ہوئے اِنساں
بہت آسان ہے ذکرِ شہیدِ کربلا کرنا
درونِ قلب مشکل ہے وہی حالت بپا کرنا
شہید ِ کربلا کے ذکر کا مجھ پر جواب آیا
کہ تیری ذات میں اب تک نہ کوئی انقلاب آیا
سراسر آبرو بن غیرتِ شرم و حیا ہو جا
اگر مجھ سے محبّت ہے تو میرا نقش ِ پا ہو جا
مژدہ باد اے عاصیو! شافع شہِ ابرار ہے
تہنیت اے مجرمو! ذاتِ خدا غفّار ہے
عرش سافرش زمیں ہے فرش پا عرش بریں
کیا نرالی طرز کی نامِ خُدا رفتار ہے
چاند شق ہو پیڑ بولیں جانور سجدے کریں
بَارَ کَ اللہ مرجعِ عالم یہی سر کار ہے
جن کو سوئے آسماں پھیلا کے جل تھل بھردیے
صَدقہ اُن ہاتھو ں کا پیارے ہم کو بھی در کار ہے
لب زلالِ چشمہ ٔ کُن میں گندھے وقتِ خمیر
مُردے زندہ کرنا اے جاں تم کو کیا دشوار ہے
گورے گور ے پاؤں چمکا دو خدا کے واسطے
نور کا تڑکا ہو پیارے گور کی شب تار ہے
تیرے ہی دامن پہ ہر عاصی کی پڑتی ہے نظر
ایک جانِ بے خطا پر دو جہاں کا بار ہے
جوشِ طوفاں بحرِ بے پایاں ہوا ناساز گار
نوح کے مولیٰ کرم کر لے تو بیڑا پار ہے
رحمۃ ٌ اللعالمین تیری دہائی دب گیا
اب تو مولٰی بے طرح سر پر گنہ کا بار ہے
حیرتیں ہیں آئینہ دارِ وفورِ و صفِ گُل
اُن کے بلبل کی خموشی بھی لبِ اظہار ہے
گونج گونج اٹھے ہیں نغمات ِ رضا سے بوستاں
کیوں نہ ہو کس پھوٗل کی مدحت میں وامِنقار ہے
مُشتِ غبارِ خاک اور تیرا بیانِ بر تری
خالقِ کُل کلام سے کون کرے گا ہمسری
حمدِ خُدائے لَمْ یَزلْ تیری ثنائے دِلربا
وحیِ الٰہ العالمیں ، تیری زبانِ دلبری
تیرے عروج کی خبر روحِ قدس نہ پاسکی
عویٰ ٔ معرفت کوہے پیشِ ترے سُبک سری
کلمۂ لاشریک میں، ذکر ترا شریک ہے
منزل لاالٰہ تک، تو ہی نشانِ رہبری
قلب ہے کاسۂ گدا، دستِ سوال ہے وجود
رُوح ، فقیر ِ آستاں، عشق تیرا تونگری
ذکرِ حبیب کبریا ، مدح و ثنائے مصطفٰے
میرا شعور ِ فکر و فن ، میرا ضمیرِ شاعری
سدا لب پہ ہو جب صدائے مدینہ
کہاں چین دل کو سوائے مدینہ
چلے آج ایسی ہوائے مدینہ
اُڑائے ہمیں لے کے جائے مدینہ
بَرائے مدینہ بِنائے دو عالم
بِنائے دو برائے مدینہ
حرم کا پتہ مجھ سے کیوں پوچھتے ہو
مرا دل ہے قبلہ نمائے مدینہ
گنہگار کے دل میں دوزخ کی آتش
لگائے زمانہ ، بُجھائے مدینہ
مدینے کا بندہ مدینے ہی پہنچے
بس اتنا کرم کر، خدائے مدینہ
قدم چُوم لوں بَے وطن کرنے والے
مجھے دے اگر تو، سزائے مدینہ
کہیں تو گنہ گار کا ہو ٹھکانہ
خُدا نے رکھی یوں، بِنائے مدینہ
گرفتار کو اب گرفتار رکھیے
کہاں جائے گا پھر رہائے مدینہ
وہ “طلع” وہ “بدرُ علینا ” کے نغمے
کجا ہم کجا وہ ثنائے مدینہ
ادیب حشر میں زیرِ سایہ رہیں گے
تَنی ہوگی سر پر رِدائے مدینہ
مصطفٰے کا نام، توقیر ِ ادب مصطفٰے کا ذکر، تعمیرِ ادب
نعت میں ہونا قلم کا سَر نگوں سر بلندی ٔ مشاہیر ِ ادب
وہ مجاہد حضرتِ حسان تھے جنکے ہاتھو ں میں تھی شمشیر ِ ادب
پارہ پارہ کر گئے قلبِ غنیم اُس کمانِ عشق کے تیرِ ادب
حافظِ شیراز سے پوچھے کوئی لذّتِ شیرینیٔ شیرِ ادب
پیرویٔ مثنویٔ رُوم سے بن گئے اقبال بھی پیرِ ادب
سورۂ کوثر پہ ہے حُجّت تمام رفعتِ افلاک تحریرِ ادب
شیخ سعدی کی رباعی دم بدم ضربِ مضرابِ مزا میرِ ادب
مستند ہے آپ کا فرماں ادیب نعت ہے جامی کی جاگیرِ ادب
من موہ لیاسارے عالم دا محبوبِ خدا دیاں گلاں نے
اُوہدے فَقۡروعَطا دِیاں گلّاں نے اُہدی جو د و سَخا دِیاں گلّاں نے
سارے قرآن دے وچ رب نے تعریفاں اُوہدیاں کیتیاں نے
کتے مکھ اُوہدے دِیاں قَسماں نے کتے زلفِ دُوتا دِیاں گلّاں نے
جو حکم وی دِتّے حضرت نے بے شک او حکم خدا دے نے
جو پاک نبی فرمایا اے بے شک اوہ خدا دیاں گلّاں نے
جِدا نام لیا کم بن دا اے ،اونام او سے سرکار دا اے
جِاپں دا اے چرچا ہر پا سے او او سے پیار دِیاں گلّاں نے
من موہنے نبی من ٹھار نبی، تیری ذات دیاں کیا باتاں نے
جَدوں بولے تے منہ وِچوں پُھل کِھل دے ،تیری بات دِیاں کیا باتاں نے
انوار دِیاں برسا تاں سَن، اِک دو جے نوں کہندیاں راتا ں سَن
جِس رات نُوں ٹُرکے آیا نبی، اس رات دِیاں کیا باتاں نے
وَالۡفَجۡر دے سہرے والے پیا سر سایہ غم دیاں راتاں دا
تیری نظر ہووے دن چڑھ جاوے، تیری ذات دیاں کیا باتاں نے
بڑے کرم ہوئے سرکاراں دے، کم بن گئے اَوگن ہاراں دے
فَتَدَلّٰی دَنٰی دی بیج اتے ملاقات دِیاں کیا باتاں نے
سرکار دے دستر خواں اتے، کھاندے نے نیؔازی جگ دو نوں ایں
میرے آقا کملی والے دی، خیرات دِیاں کیا باتاں نے
منم ادنٰی ثنا خوان محمد ﷺ
غلامِ از غلامانِ محمد ﷺ
محمدﷺ ہست مہمانِ خداوند
دُو عالَم ہست مہمانِ محمد ﷺ
تمامی انبیآء و اولیآء ہم
نمک خوردند از خوانِ محمد ﷺ
گنہگارم سیہ کارم ولیکن
بدستم ہست دامانِ محمد ﷺ
محمد ﷺحامد و حمدِ خداوند
خدائے ما ثنا خوانِ محمد ﷺ
نہ تنہا ہست جاؔمی نعت خوانش
خدا ئے ما ثنا خوانِ محمد ﷺ
مہکی ہوئی ہوا کا مجھے لمس جب ملا
میرے تصورات کا در مثل گل کھلا
افکار کے دریچوں سے آنے لگی صدا
کیا خوب حق نے تجھ کو یہ موقع عطا کیا
اٹھ، مدح خوان سید عالی مقام ہو
چل اے گناہ گار ذرا نیک نام ہو
الفاظ دست بستہ مرے سامنے ہیں سب
جانچا ہے میں نے خوب ہر اک لفظ کا نسب
تھرا رہا ہے پھر بھی قلم، کیا لکھوں لقب
میں پیش آفتاب مثال چراغ شب
کیسے بیاں ہو مرتبہ عالی وقار کا
لاؤں کہاں سے ڈھنگ میں پروردگار کا
لب و ا کروں ثناء کے لیے کن کے باب میں
جبریل دست بستہ ہیں جن کی جناب میں
مداح خود قرآں ہے رسالت ماب میں
میرے خیال کی تگ و دو کس حساب میں
منظور شاعری ہے نہ حسن کلام
اے خامہ خیال، ادب کا مقام
سیر خیال و فکر کو بستان ہیں بہت
تفریح طبع ناز کے سامان ہیں بہت
تحریر حسن و عشق کے عنوان ہیں بہت
شعرو سخن کے واسطے میدان ہیں بہت
جن کے قدم سے رونق بزم حیات
تعریف اس نبی کی تقاضائے ذات
یہ مسئلہ تخیل و جذبات کا نہیں
واقف میں گرد و پیش کے حالات کا نہیں
اور علم یہ کہ علم بھی ہر بات کا نہیں
عرفان مجھ کو اپنی ہی خود ذات کا نہیں
پھر مجھ سے پوچھنا کہ محمد کی شان
گونگے کے منھ میں ہو بھی اگر تو زبان
قند و شہد نبات کو یک جا کریں اگر
گل کی ہر ایک ذات کو یک جا کریں اگر
رنگینی حیات کو یک جا کریں اگر
کل حسن کائنات کو یک جا کریں اگر
جتنا بھی رنگ و نور لیے کائنا ت ہے
یہ سب تبسم شہ دیں کی زکٰوۃ ہے
کہتے ہیں جس کو مدحت سلطان ذوالمنن
مسند نشیں ہے نو ک زباں پر وہ گلبدن
سرتا بپا ہے نکہت و رعنائی چمن
اس نور کے بدن پہ ہے خوشبو کا پیرہن
خوشبو سے اور نور سے جس کا خمیر ہے
زلفوں کی جس کے شان مشیت اثیر ہے
تمہید سے گریز کی جانب قدم قدم
پڑھتے ہوئے درود محمد مرا قلم
لے کر سرور عشق میں ڈوبا ہوا علم
ہو کر نیاز مند، کیا اس نے سر کو خم
خم ہو کے خط میم بنا تا چلا گیا
پردے روز حق کے اٹھاتا چلا گیا
وہ میم جو کمال ہے اک آغوش کی طرح
محشر میں ایک سایہ گل پوش کی طرح
بندوں پہ ، رب کی رحمت پر جوش کی طرح
خم اس کا فرق عاشق مے نوش کی طرح
جو درمیاں کمان کے آیا اماں میں ہے
باہر جو رہ گیا وہ شمار زیاں میں ہے
کھلنے لگے رموز ، محبت کے سر بسر
ہونے لگا خیال پہ الہام کا اثر
افکار خوشبوؤں میں شرابور تر بہ تر
جنبش جو لب کو دی تو ٹپکنے لگے گہر
اس پر بھی ان کی شان کے شایاں نہ لکھ سکا
بندہ ہوں اس لیے کوئی قرآں نہ لکھ سکا
یوں کر رہے ہیں مدحت سر کار ذوالمنن
کوثر سے دھوکے لائیں ہیں تعریف کا متن
پھرتے رہے بہار میں لے کر چمن چمن
پہنا دیا زبان کو عنبر کا پیرہن
سرمہ ہے کوہ طور کا، غازہ گلاب کا
آغاز نعت یوں ہے رسالت ماب کا
پہلے نبی کے عشق کی دولت خدا سے لی
دولت ملی تو فکر کی جرأت خدا سے لی
جرأت ملی تو حسنِ عقیدت خدا سے لی
طرزِ بیاں کے واسطے نُدرت خُدا سے لی
جرأت مِلی خیال ملا اور قلم ملا
یہ سب ملے تو نعت پہ اذن ِ رقم ملا
توڑی ہے میں نے میکدہ عشق کی قیود
میرے جنون غم کی تعین نہیں حدود
ہوتا ہے ہر نفس مرا منت کش درود
پہلے درود پھر سخن نعت کا ورود
میں بھیجتا ہوں نذر صلوٰۃ و سلام کی
وہ بھیجتے ہیں مجھ کو اجازت کلام کی
تاباں اسی کے نور سے ہے چہرہ حیات
صدیوں کے جس نے آکے مٹائے تو ہمات
ایک جست جس کی نسخہ تسخیر کائنات
جس کے قدم کا نقش بنا علم مدنیات
کہنے کو وہ بشر ہے اگر قیل و قال میں
اپنی مثال بھی نہیں رکھتا مثال میں
یہ ماہتاب آپ کا چہر ہ نہیں نہیں
یہ آفتاب آپ کا جلوہ نہیں نہیں
یہ بوئے مشک زلف کا حصہ نہیں نہیں
یہ کہکشاں ہے نقش کف پا نہیں نہیں
اس اوج تک نہ جائے گی پستی شعور کی
بالا ہے ہر خیال سے ہستی حضور کی
جلتی نہ اس جہاں میں جو شمع محمدی
دنیا کو حشر تک نظر آتی نہ روشنی
حاکم ہو یا غلام، گنہگار و متقی
ملتا نہ آدمی کو شعور خود آگہی!
ہوتی نہ کچھ تمیز سفید و سیاہ
جلوؤں کا اعتبار نہ ہوتا نگاہ
جس روز لب کشاد کسی کی نہیں مجال
دیکھیں گے آسمان و زمیں روئے ذوالجلال
ہو گا مقام دید رسول و نبی کا حال
دیکھیں گے ایک ایک کو مسکین کی مثال
ڈھونڈیں گے انبیاء اسی رحمت نوید
تڑپے گی ہر نگاہ محمد کی دید
ہے کون دے سکے گا جو اس دن کوئی حساب
توبہ بھی یاد آئی تو ، توبہ کا بند باب
بھائی کو بھائی دے گا نہ فریاد کا جواب
شعلے زمین پہ ہوں گے تو نیزے پہ آفتاب
امت ہو ، یا نبی ہو ، غضب کی نگاہ میں
محشر میں ہوں گے سارے انہیں کی پناہ میں
نازاں ہوں گرچہ ہوں میں گنہگار دیکھنا
اس کملی پوش کا ہوں پرستار دیکھنا
انوار ذکر سید ابرا ر دیکھنا
مجھ سے گدا کے لب ہیں گہر یا ر دیکھنا
ہر دم ہے لب پہ تذکرہ بے نظیر بھی
راضی رسول پاک بھی رب قدیر بھی
نعت رسول پاک میں وہ آب و تاب ہو
ایک ایک لفظ مدح کا عزت ماب ہو
روشن مرے کلام کا یوں آفتاب ہو
مقبول بارگاہ رسالت ماب ہو
محشر میں جب بلائیں تو اس طرح دیں صدا
حاضر کر و کہاں ہے ثنا خوان مصطفٰے
ہر آئینہ دل کی جِلا ذکرِ محمد
اللہ کی بندون کو عطاء ذکرِ محمد
مخلوق سے خالق کی رضا ذکرِ محمد
لازم اسی مقصد سے ہو ، ذکرِ محمد
ہر آرزوئے نطق کا انجام یہی ہے
دنیا کے لیے امن کا پیغام یہی ہے
ہو بزمِ سخنداں تو یہ پھولوں کا بیاں ہے
موجوں کا ترنّم ہے یہ بلبل کی زباں ہے
الفاظ کی عظمت ہے خطابت کی یہ شاں ہے
اس ذکر سے بندوں کو گناہوں سے اماں ہے
جذبات کو سیماب تخیّل کی جلا ہے
یہ خاص شَرَف ذکرِ محمد کو ملا ہے
قائم ہے مسلمان کا ایمان اِسی سے
اللہ کے طالب کو ہے عرفان اِسی سے
ہر عاشق ِ صادق کی ہے پہچان اِسی سے
انسان کو ہے عظمتِ انسان اِسی سے
سرمایۂ ایمان و قرارِ دل و جاں ہے
قرآں کی تلاوت ہے یہ کعبہ کی اذاں ہے
نعتِ شہِ کونین کی سرو و سمنی دیکھ
لفظوں کی قبا میں یہ عجب گلْبدنی دیکھ
چہر ہ کی دمک طور کے جلووں سے بنی دیکھ
زلفوں کی مہک نافۂ مشک ِ ختنی دیکھ
نسبت اگر الفاظ کو دوں قوسِ قزح سے
سیراب ہوں شاید مئے معنٰی کی قدح سے
اے طٰحہٰ و مزمِّل و یٰسین و مدثّر
اے سیّد و سردارِ اُمم طیّب و طاہر
کیا کہہ کے پکارے مرے آقا کو یہ شاعر
تصویر ِ خداوند کے شہکار مصوّر
خم گردنِ تفسیر ہے شرمندہ صراحت
یا رب! مرے الفاظ کو دے نہجِ بلاغت
اے صِلِّ عَلٰی نُور شہِ جنّ و بشر نور
لَب نور دہن نور سخن نور نظر نور
سر نور قد م نور شکم نور کمر نور
جس گھر میں تِرا ذِکر کریں لوگ ، وہ گھر نُور
آں زینتِ کونین و زیبائے جہاں اَست
آں باعثِ حیرانی آئینہ گراں اَست
ہم کو بھی خبر ہے کہ گناہوں کی سزا ہے
لیکن وہ خطا پوش ہمارا بھی خدا ہے
زاہد کو اگر نازِ عبادت ہے بجا ہے
پلّہ میں ہمارے بھی محمد کی ثناء ہے
محشر میں جو نکلے گا یہی نام دہن سے
جُھک جائے گا پلّہ مِرا نیکی کے وزن سے
وہ ماہِ عرب، ماہِ مبیں ، ماہِ لقا ہے؟
تصویر ہے ، تنویر ہے ، تعبیر ہے، کیا ہے ؟
اِک نور کا پیکر ہے کہ پردہ میں خدا ہے
آفاق میں ایسا نہ تو ہوگا نہ ہوا ہے
عاشق کی صدا یہ ہے مرے دل میں نہاں ہے
جبریل سرِ عرش پکارے وہ یہاں ہے
یہ جنبش لب، تابِ سخن، اور یہ گفتار
افکار کی یورش ہے تو الفاظ کی یلغار
ہو جائے اگر وقف ِ ثنائے شہِ ابرار
ہوتا ہے وہ حسان کی مانند گہر بار
رہتا ہے اسی دہن میں وہ شب ہو کہ سحر ہو
جس پر مرے سرکار کی اِک بار نظر ہو
مومن وہ ہے جو اُن کی عزّت پہ مرے دل سے
تعظیم بھی کرتا ہے نجدی تو مرے دل سے
واللہ وہ سن لیں گے فریاد کہ پہنچیں گے
اتنا بھی تو ہو کوئی جو آہ کرے دل سے
بچھڑی ہے گلی کیسی بگڑی ہے بنی کیسی
پوچھو کوئی یہ صَدمہ ارمان بھرے دل سے
کیا اس کو گرائے دہر جس پَر تو نظر رکھے
خاک اُس کو اٹھائے حشر جو تیرے گرے دل سے
بہکا ہے کہاں مجنوں لے ڈالی بنوں کی خاک
دم بھر نہ کیا خیمہ لیلی نے پَر ے دل سے
سونے کو تپائیں جب کچھ مِیل ہو یا کچھ مَیل
کیا کام جہنم کے دھرے کو کھرے دل سے
آتا ہے درِ ولا یوں ذوقِ طواف آنا
دلِ جان سے صدقے ہو سرگِرد پھرے دل سے
اے ابرِ کرم فریاد فریاد جلا ڈالا
اس سوزشِ غم کو ہے ضِد میرے ہرے دل سے
دریا ہے چڑھا تیرا کِتنی ہی آڑائیں خاک
اتریں گے کہاں مجرم اے عفو ترے دل سے
کیا جانیں ہم غم میں دِل ڈوب گیا کیسا
کِس تہ کو گئے ارماں اب تک نہ ترے دل سے
کرتا تو ہے یاد اُن کی غفلت کو ذرا روکے
لِلّٰہ رضا دل سے ہاں دل سے ارے دل سے
میر ی بات بن گئی ہے تیری بات کرتے ہیں
تیرے شہر میں میں آؤں تیری نعت پڑھتے پڑھتے
تیرے عش کی بدولت مجھے زندگی ملی ہے
میری موت بھی آئے آقا آئےتیرا ذکرکرتے کرتے
کس چیز کی طلب ہے نہ آرزو ہے کوئی
تو نے اتنا بھر دیا ہے کشکول بھرتے بھرتے
میرے سوہنے سوہنے گھر میں کبھی نعمتیں عطا ہوں
میں دیوانا ہو گیا ہوں تیری راہ تکتے تکتے
ہے جو زندگانی باقی یہ اراد ہ کر لیا ہے
تیرے منکروں سے آقا میں مروں گا لڑتے لڑتے
ناصؔر کی حاضری ہو کبھی آستاں پہ تیرے
کہ زمانہ ہو گیا ہے مجھے مجھے آہیں بھرتے بھرتے
میر ا دل اور میری جان مدینے والے
تجھ پر سو جان سے قرباں مدینے والے
بھر دے بھردے میرے آقا ! مِری جھولی بھر دے
اب نہ رکھ بے سر و سامان مدینے والے
تیرا در چھوڑ کر جاؤں تو کہا ں جاؤں میں؟
میرے آقا میرے سلطان مدینے والے !
پھر تمنائے زیارت نے کیا دل بے چین
پھر مدینے کا ہے ارمان مدینے والے
سبز گنبد کی فضاؤں میں بلالو مجھ کو
تیرا غافل ہے پریشان مدینے والے
لکھ دے لکھ دے میری قسمت میں مدینہ لکھ دے
ہے تِری ملک قلمدان مدینے والے
سگ ِ طیبہ مجھے سب کہہ کے پکاریں بے ؔدم
یہی رکھیں میر ی پہچان مدینے والے
میرے آقا آؤ کہ مدت ہوئی ہے، تیر ی راہ میں اکھیاں بچھاتے بچھاتے
تیری حسرتوں میں ، تیری چاہتوں میں بڑے دن ہوئے گھر سجاتے سجاتے
قیامت کا منظر بڑا پُر خطر ہے مگر مصطفٰے کا جو دیوانا ہو گا
وہ پل پر سے گزرے گا مسرور ہو کے نعرہ نبی کا لگا تے لگا تے
میرا یہ ہی ایماں، یہ میرا یقیں ہے میرے مصطفٰےسا نہ کوئی حسیں ہے
کہ رخ اُ ن کا دیکھا ہے جب سے قمر نے نکلتا ہے منہ کو چھپاتے چھپاتے
میرے لب پہ مولیٰ نہ کوئی صدا ہے ، فقط اِس نکمے کی یہ ہی صدا ہے
میر ی سانس نکلے درِ مصطفٰے پہ غمِ دل نبی کو سناتے سناتے
یہ دل جب سے عشقِ نبی میں پڑا ہے نہ دن خبر ہے نہ شب کا پتا ہے
آقا اب تو بصارت بھی کم ہو گئی ہے تیرے غم میں آنسو بھاتے بھاتے
یہ مانا کہ ایک دن آنی قضا ہے مگر دوستو ! تم سے یہ التجا ہے
کہ شہر ِ محمد کی ہر اِک گلی سے جنازہ اُٹھا نا گھماتے گھماتے
نہ کعبہ سے مطلب نہ مسجد کی چاہت فقط دل میں حاکمؔ تمنا یہ ہی ہے
جو مل جائے نقشِ خاک پائے احمد تو مر جائیں سر کو جھکاتے جھکاتے
میرے دل میں ہے یادِ محمد ﷺ میرے ہونٹوں پہ ذکرِ مدینہ
تاجدارِ حرم کے کرم سے آگیا زندگی کا قرینہ
دل شکستہ ہے میرا تو کیا غم اس میں رہتے ہیں شاہِ دو عالَم
جب سے مہماں ہوئے ہیں وہ دل میں، دل مِرا بن گیا ہے مدینہ
میں غلامِ غلامانِ احمد، میں سگ آستان محمدﷺ
قابلِ فخر ہے موت میری قابلِ رشک ہے میرا جینا
ہر خطا پر مِری چشم پوشی ہرطلب پر عطاؤں کی بارش
مجھ گنہگا ر پر کس قدر ہیں مہرباں تاجدارِ مدینہ
مجھ کو طوفاں کی موجوں کا کیا ڈر وہ گزر جائے گا رُخ بدل کر
ناخدا ہیں مرے جب محمدﷺ کیسے ڈوبے گا میرا سفینہ ؟!
اِن کے چشم کر م کی عطا ہے، میرے سینے میں ان کی ضیاء ہے
یاد ِسلطانِ طیبہ کے صدقے میرا سینہ ہے مثلِ نگینہ
چل! مدینے کو چل !غم کے مارے، زندگی کو ملیں گے سہارے
آگیا ہے حرم سے بلاوا کوچ کرتے ہیں سوئے مدینہ
دولتِ عشق سے دل غنی ہے، میری قسمت ہے رشکِ سکندر
مدحتِ مصطفٰے کی بدولت ، مل گیا ہے مجھے یہ خزینہ
مینہہ برسدا ویکھیا انوار دا
ذِکر ہو وے جس جگہ سر کار دا
کون سی نی؟ دس حلیمہ ؓ کون سی ؟
بکریاں جو تیریاں سی چار دا
ویکھ لیندا جو مِرے محبوب نوں
مال تے کی جان اپنی وار دا
ہین زلفاں سوہنیاں ، من موہنیاں
نور وِچّوں دی ہے لَشکاں مار دا
ہے بڑا خوش بخت جالی نال جو
لا کے سینے تے کلیجہ ٹھا ر دا
وِچ صحابہ بیٹھدے سَن جَد حضور
کی سماں ہو سی بھلا دربار دا
لگ پتہ جائے گا ناؔصر حشر نوں
مُل پوِے گا جَد ترے اشعار دا
میں گذرتا ہی گیا راہ تھی پرخم پرخم
مجھ پہ سرکار کی نظریں جو تھیں پیہم پیہم
ان کے دربار میں پہونچو کہ یہاں سے مانگو
شرط اتنی ہے کہ یہ آنکھ ہو پُرنم پُرنم
آپ آئے تو پڑی جان میں ٹھنڈک ورنہ
زندگی زخم تھی، آواز تھی مرہم مرہم
پیش کر دوں گا سرِ حشر کمائی اپنی
دولتِ نعت جمع کی ہے جو درہم درہم
عرش ہو فرش ہو محشر ہو ، زماں ہو کہ مکاں
ہر جگہ ان کے ہی لہراتے ہیں پرچم پرچم
مہرومہ ، کاہہکشاں ، نقشِ کفِ پائے رسول
گیسوئے شب ہے اسی نُور سے برہم برہم
ان کی رحمت کی تو ہر بوُند سمندر ہے ادیب
جس کے آگے یہ سمندر بھی ہے شبنم شبنم
میں مدینے میں ہوں اور ذکر پیمبر بھی نصیب
یعنی پیاسے کو ہے دریا در دریا بھی نصیب
خوشبوئے زلف بھی عکسِ رُخِ انور بھی نصیب
صبحِ کافور بھی ، اور شامِ معنبر بھی نصیب
رُخ پہ مَلنے کے لیے ، رُوح میں ڈھلنے کے لیے
گردِ کوچہ بھی نصیب ، بادِ معطّر بھی نصیب
مسندِ صُفّہ کے انوار وہ بابِ جبریل
اس گنہ گار کی آنکھوں کو وہ منظر بھی نصیب
میری آنکھوں میں حرم آنکھ سے باہر بھی حرم
خانۂ چشم کو آئینہ کا جوہر بھی نصیب
ان کی یادوں کو جہاں چین سے نیند آتی ہے
نام دل کے ہے اِک حجرۂ بے در بھی نصیب
ایک اِک لمحہ مرے لب کو مدینے میں ادیب
کلمۂ شُکر بھی اور نعتِ پیمبر بھی نصیب
میں ہوں غمِ طیبہ میں گرفتار چناچہ
ہیں دیدہ و دل زندہ و بیدار چناچہ
غم بھی ہیں مداوا بھی ہیں غم کا میرے آنسو
رہتی ہے سدا آنکھ گہر بار چناچہ
جُز چشمِ محمد ﷺکوئی دیکھے نہ خدا کو
موسٰی کا مقدّر نہ تھا دیدار چناچہ
مخلوق میں کوئی بھی نہ تھا ان سا مکرّم
بخشش کی بندھی ان پہ ہی دستار چناچہ
تم سا تو نہ صادق ہے کوئی اور نہ امیں ہے
دشمن کو بھی کرنا پڑا اقرار چناچہ
محدود بشر تک نہ رہے ان کی بزرگی
جھک جاتے تھے تعظیم کو اشجار چناچہ
اب آپ ہی آکر مجھے دامن کی ہوا دیں
زندہ اسی حسرت میں ہے بیمار چناچہ
اِدراک سے بَالا ہے تخیّل سے پَرے ہے
محروم رسائی سے ہیں افکار چناچہ
رہتا ہے ادیب آپ کی نعتوں کے چمن میں
لکھتا ہے نئے رنگ میں ہر بار چناچہ
نازِ دوزخ کو چمن کر دے بہارِ عارض
ظلمتِ حشر کو دِن کر دے نہارِ عارض
میں تو کیا چیز ہوں خود صاحب ِ قرآں کو شہا
لاکھ مصحف سے پسند آئی بہارِ عارض
جیسے قرآن ہے وِرد اس گلِ محبوبی کا
یوں ہی قرآں کا وظیفہ ہے وقارِ عارض
گرچہ قرآں ہے نہ قرآں کی برابر لیکن
کچھ تو ہے جس پہ ہے وہ مدح نگارِ عارض
طور کیا عرش جلے دیکھ کے وہ جلوۂ گرم
آپ عارض ہو مگر آئینہ دارِ عارِض
طرفہ عالم ہے وہ قرآن اِدھر دیکھیں اُدھر
مصحفِ پاک ہو حیران بہارِ عارض
ترجمہ ہے یہ صفت کا وہ خود آئینہ ذات ہے
کیوں نہ مصحف سے زیادہ ہو وقارِ عارض
جلوہ فرمائیں رخِ دل کی سیاہی مٹ جائے
صبح ہو جائے الٰہی شبِ تارِ عارض
نامِ حق پر کرے محبوب دل و جاں قرباں
حق کرے عرش سے تافرش نثارِ عارض
مشک بو زلف سے رُخ چہرہ سے بالوں میں شعاع
معجزہ ہے حلبِ زلف و تتارِ عارض
حق نے بخشا ہے کرم نذرِ گدایاں ہو قبول
پیارے اک دِل ہے وہ کرتے ہیں نثار ِ عارض
آہ بے مایگی دل کہ رضائے محتاج
لے کر اِک جان چلا بہر نثارِ عارض
نبی سرورِ ہر رسول و ولی ہے نبی راز دارِ مَعَ اللہ لِی ہے
وہ نامی کہ نامِ خُدا نام تیرا رؤف و رحیم و علیم و علی ہے
ہے بیتاب جس کے لیے عرشِ اعظم وہ اس رہر وِ لا مکاں کی گلی ہے
نکیرین کرتے ہیں تعظیم میری فدا ہو کے تجھ پر یہ عزّت ملی ہے
طلاطم ہے کشتی پہ طوفانِ غم کا یہ کیسی ہوائے مخالف چلی ہے
نہ کیوں کر کہوں یَا حَبِیْبی اَغِثْنِیْ اِسی نام سے ہر مصیبت ٹلی ہے
صَبا ہے مجھے صر صر ِ دشتِ طیبہ اسی سے کلی میرے دل کی کِھلی ہے
تِرے چاروں ہمدم ہیں یک جان یک دل ابو بکر فاروق عثمان عَلی ہے
خدا نے کیا تجھ کو آگاہ سب سے دو عالم میں جو کچھ خفی و جلی ہے
کروں عرض کیا تجھ سے اے عالمِ السِّر کہ تجھ پر مری حالتِ دل کھلی ہے
تمنّا ہے فرمائیے روزِ محشر یہ تیری رہائی کی چٹھی ملی ہے
جو مقصد زیارت کا برآئے پھر تو نہ کچھ قصد کیجیے یہ قصدِ دلی ہے
ترے درکا دَر باں ہے جبریل اعظم ترامدح خواں ہر نبی و ولی ہے
شفاعت کرے حشر میں جو رضا کی
سِوا تیرے کس کو یہ قدرت ملی ہے
نسیما !جانبِ بطحا گزرکن
زِ ا َحوالم محمدﷺ ر اخبر کن
توئی سلطانِ عالم یا محمد!ﷺ
زروئے لطف سوئے من نظر کن
بسر ایں جانِ مشتاقم در آں جا
فدائے روضۂ خیر البشر کن
مشرف گرچہ شد جاؔمی ز لطفش
خدایا !ایں کرم بارِ دگر کن
نگاہ ہو کہ سماعت زبان ہو کہ قلم
چلے ہیں قافلہ مدح میں قدم بقدم
کبھی زبان کا دعوٰی کہ ہم ہیں بر تر ہم
کبھی قلم کی یہ غیرت کہ ہم سے سب ہیں کم
یہ معرکہ بھی تو وجہِ حصولِ سبقت ہے
حصول سبقت مدحت بھی حُسنِ مدحت ہے
قلم نے کھینچ دیے نقش وہ کہ سب حیراں
زباں نے دل سے نکالے خطاب کے ارماں
سُنا رہا ہوں اسی معرکہ کی بات یہاں
کہ جس کے نقطے ستارے تو لفظ کا ہ کشاں
سماعتوں کو جو لے جائے حوضِ کوثر تک
سُرور جس کا رہے دل میں روزِ محشر تک
چلا ہے آج قلم سایۂ کرم لے کر
گداز دل کا ، تڑپ اور چشمِ نم لے کر
شعور وفکر کا ہاتھوں میں جامِ جم لے کر
خیالِ سرورِ کونین محترم لے کر
رواں براق کی مانند ہے سیاہی میں
فرشتے آئے ہیں افلاک سے گواہی میں
زباں کُھلی کے پھریرا کُھلا ہے رحمت کا
ہر ایک سمت ہوا غُل اذانِ اُلفت کا
نماز عشق کا اور سجدہ محبت کا
سرورِ جاں ہے جو سب کا اسی کی مدحت کا
سماعتوں کا یہ عالم کہ گوش، بر آواز
مرے رسول کی مدحت کا یوں ہوا آغاز
جُھکا کہ رب دو عالم کے پیش اپنی جبیں
کہا قلم نے کہ خلّاقِ آسمان و زمیں
رقم ہو تیرے نبی کا بیان اتنا حَسیں
کہ حرف حرف ستارہ تو نقطہ نقطہ نگیں
زمیں پہ شور تو ہلچل ہو آسمانوں میں
فرشتے چُوم کے بادھیں اسے عماموں میں
بڑے ادب سے زباں نے یہ عرض کی یار ب
ادا ہو مجھ سے بھی اپنے بیان کا منصب
مری صدا ہو رواں جیسے نُور کا مرکب
فلک پہ آئے نظر جیسے رات میں کوکب
کہ ہے نبی سمیع و بصیر کی توصیف
خبر جو غیب کی دے اس خبیر کی توصیف
کہا قلم نے کہ تحریر میری لاثانی
خیال لفظوں میں ایسا کہ یوسفِ ثانی
تمام حرف گماں یہ کہ، لعل رمانی
ہر اِک سطر ہے مری کہکشاں کی پیشانی
مری سیاہی گناہوں کو دھونے والی ہے
سیہ ضرور ہوں لیکن صفت بلالی ہے
زبان یہ بولی کہ میں آج ہوں طرب مانوس
ہے شوق رقص میں میرے بیان کا طاؤس
حَسیں خیالوں سے روشن ہیں جا بجا فانوس
سنے جو خار بیاباں تو رنگ و بو میں ڈھلے
تیرے حبیب کا وہ ذکر ہو کہ تو بھی سنے
قلم نے کہ میں ہر بیان کا ملبوس
مری خموشی ہے الفت کا نالۂ ناقوس
ثنائے سرورِ کونین کا ہوں میں فانوس
یہ خدوخال ہیں میرے ہی لوح پر منقوش
سفید پر میں سیاہی کا داغ ہوتا ہوں
پر عاشقوں کے دلوں کا چراغ ہوتا ہوں
کہا زباں نے کہ رعنائی میں نے کی ہے کشید
مری نواء سے ہی بوئے خطاب کی ہے شمید
کہیں سرودِ بلاغت، کہیں فصیح نشید
کھلیں نہ پر مرے، پرواز کیا کرے گی شنید
ہر اِک زماں میں فضائیں یتیم، میرے بغیر
کلام کس کو سنائیں کلیم میرے بغیر
سنا جو روزِ بیانِ مدیحِ شاہِ اُمم
جھکا ادب سے ہمیشہ کی طرھ فرق قلم
رقم طراز ہوا، اے خدا! تیری ہے قسم
ازل سے وصفِ نگارِ حضور ہوں پیہم
گناہ گار نہیں ڈوب کر سیاہی میں
ہر ایک نعت ہے میری اسی گواہی میں
میں کھینچ لاؤں گا فن کا ہر اِک سطر میں کمال
حصارِ خط میں حسینانِ رنگ و بو کا جمال
لکھوں گا جب میں سلیمان نعت کا احوال
ہمیں بھی اذن دو ، بلقیس ِ فن کرے گی سوال
نبی کا فیض ہے ، فیض و کمال پر ہے گرفت
رہِ فراز نہ دوں گا، خیال پر ہے گرفت
ازل سے تا بہ ابد لوح پر نوشتہ میں
کہیں پہ حال ہوں اور ہوں کہیں گزشتہ میں
ہوں دستِ کاتبِ تقدیر میں نشستہ میں
ثناء کے وصف سے ہم رتبہ فرشتہ میں
میں اپنے رنگ میں رنگِ غلاف کعبہ ہوں
رُخ ِ بلال و گلیمِ رسولِ بطحا ہوں
یہ معرکہ جو سنا، غیب سے صدا آئی
ہر اِک چمن میں انہیں کی ہے جلوہ فرمائی
فقط قلم ہی نہیں ان کا ایک شیدائی
فقط زباں کو ہی حاصل نہیں ہے یکتائی
شجر حجر ہوں مہ و مہر موں زبان و حروف
وجود جن کو ملا سب ثناء میں ہیں مصروف
زباں کو نطق دیا کُل کی آبرو کے لیے
میرے حبیب کو آنا تھا گفتگو کے لیے
قلم بنا اسی تحریرِ مشکِ بو کے لیے
ہر اِک زمانہ میں اسلام کی نمو کے لیے
رسا ہو آدم خاکی کہ دل میں تم دونوں
میرے حبیب کی جو یاد میں گُم دونوں
نمی دانم چہ منزل بود شب جائے کہ من بودم
بَہر سو رقصِ بسمل بود شب جائے کہ من بودم
پری پیکر نگارِ سَروقدِّ لالہ رخسارے
سراپا آفتِ دل بود شب جائے کہ من بودم
رقیباں گوش بر آواز ِاُو در ناز و من ترساں
سخن گفتن چہ مشکل بو د شب جائے کہ من بودم
خدا خود میر ِمجلس بود اندر لا مکاں خؔسرو
محمد ﷺشمعِ محفل بود شب جائے کہ من بودم
نہ آسماں کو یوں سر کشیدہ ہونا تھا حضورِ پاک مدینہ خمیدہ ہونا تھا
اگر گلوں کو خزاں نا رسیدہ ہونا تھا کنار ِ خارِ مدینہ دمیدہ ہونا تھا
حضور اُن کے خلاف ادب تھی بیتابی مِری امید تجھے آرمید تجھے آرمیدہ ہونا تھا
نظارہ خاکِ مدینہ کا اور تیری آنکھ نہ اسقدر بھی قمر شوخ دیدہ ہونا تھا
کنارِ خاکِ مدینہ میں راحتیں ملتیں دلِ حزیں تجھے اشک چکیدہ ہونا تھا
پناہ دامنِ دشتِ حرم میں چین آتا نہ صبر ِ دل کو غزال ِ رمیدہ ہونا تھا
یہ کیسے کھلتا کہ انکے سوا شفیع نہیں عبث نہ اوروں کے آگے تپیدہ ہونا تھا
ہلال کیسے نہ بنتا کہ ماہِ کامل کو سلامِ ابروئے شہ میں خمیدہ ہونا تھا
لَاََ مْلئَن َّ جہَنَّم َ تھا و عدہ ٔ ازلی نہ منکروں کا عبث بدعقیدہ ہوناتھا
نسیم کیوں نہ شمیم ان کی طیبہ سے لاتی کہ صبح گل کو گریباں دریدہ ہونا تھا
ٹپکتا رنگِ جنوں عشقِ شہ میں ہر گل سے رگِ بَہا ر کو نشتر رسیدہ ہونا تھا
بجا تھا عرش پہ خاکِ مزارِ پاک کو ناز کہ تجھ سا عرش نشیں آفریدہ ہونا تھا
گزرتے جان سے اِک شور‘‘یا حبیب کے ’’ ساتھ فغاں کو نالۂ حلق بریدہ ہونا تھا
مِرے کریم گنہ زہر ہے مگر آخر کوئی تو شہد ِ شفاعت چشیدہ ہونا تھا
جو سنگ در پہ جبیں سائیوں میں تھا مِٹنا تو میری جان شرارِ جہیدہ ہونا تھا
تری قبا کے نہ کیوں نیچے نیچے دامن ہو ں کہ خاکساروں سے یاں کب کشیدہ ہونا تھا
رضا جو دل کو بنانا تھا جلوہ گاہِ حبیب
تو پیارے قیدِ خودی سے رہیدہ ہونا تھا
نہ عرشِ ایمن نہ اِنّی ْ ذاہبٌ میں مہمانی ہے
نہ لطف اُدْنُ یَا اَحْمَدْ نصیب لَنْ تَرَانِی ہے
نصیبِ دوستاں گر اُن کے دَر پر مَوت آنی ہے
خدا یوں ہی کرے پھر تو ہمیشہ زِندگانی ہے
اُسی در پر تڑپتے ہیں مچلتے ہیں بلکتے ہیں
اٹھا جاتا نہیں کیا خوب اپنی ناتوانی ہے
ہر اِک دیوار و دَر پر مہر نے کی ہے جبیں سائی
نگارِ مسجد ِ اقدس میں کب سونے کا پانی ہے
تِرے منگتا کی خاموشی شفاعت خواہ ہے اُس کی
زبانِ بے زبانی ترجمان ِ خستہ جانی ہے
کھلے کیار از ِ محبوب و محب مستانِ غفلت پر
شراب قَدرَای الحق زیبِ جامِ مَنْ رَاٰنِی ہے
جہاں کی خاکروبی نے چمن آرا کیا تجھ کو
صبا ہم نے بھی اُن گلیوں کی کچھ دن خاک چھانی ہے
شہا کیا ذات تیری حق نما ہے فردِ امکاں میں
کہ تجھ سے کوئی اوّل ہے نہ تیرا کوئی ثانی ہے
کہاں اس کو شکِ جانِ جناں میں زَر کی نقاشی
اِرم کے طائرِ رنگِ پَریدہ کی نشانی ہے
ذِیابٌ فی ثِیابٌ لب پہ کلمہ دِل میں گستاخی
سلام اسلام ملحد کو کہ تسلیم زبانی ہے
یہ اکثر ساتھ اُن کے شانہ و مسواک کا رہنا
بتاتا ہے کہ دل ریشوں پہ زائد مہربانی ہے
اسی سرکار سے دنیا و دیں ملتے ہیں سائل کو
یہی دربارِ عالی کنز آمال و امانی ہے
درو دیں صورتِ ہالہ محیط ِ ماہِ طیبہ ہیں
برستا امّت ِ عاصِی پہ اب رحمت کا پانی ہے
تعالیٰ اللہ استغنا ترے در کے گداؤں کا
کہ ان کو عار فرو شوکت ِ صاحب قِرانی ہے
وہ سر گرمِ شفاعت ہیں عرق افشاں ہے پیشانی
کرم کا عطر صَندل کی زمیں رحمت کی گھانی ہے
یہ سر ہوا ور وہ خاکِ در وہ خاکِ در ہو اور یہ سر
رضا وہ بھی اگر چاہیں تو اب دل میں یہ ٹھانی ہے
نہ کہیں سے دور ہیں منزلیں، نہ کوئی قریب کی بات ہے
جسے چاہے اس کو نواز دے، یہ درِ حبیب کی بات ہے
جسے چاہا در پہ بلا لیا ،جسے چاہا اپنا بنا لیا
یہ بڑے کرم کے ہیں فیصلے یہ بڑے نصیب کی بات ہے
وہ بھٹک کے رَاہ میں رِہ گئی، یہ مچل کے در سے لپٹ گئی
وہ کسی امیر کی شان تھی، یہ کسی غریب کی بات ہے
میں بُروں سے لاکھ براسہی مگر اُن سے ہے مِرا واسطہ
مِری لاج رکھ لے مِرے خدا ،یہ تِرے حبیب کی بات ہے
تجھے اۓ مؔنوّر بے نوا درشہ سے چاہیے اور کیا
جو نصیب ہو کبھی سامنا تو بڑے نصیب کی بات ہے
نور والا آیا ہے
نور لے کر آیا ہے
سارے عالم میں دیکھو کیسا نور چھایا ہے
الصلوٰۃ والسلام علیک یا رسول اللہ
الصلوٰۃ والسلام علیک یا حبیب اللہ
جب تلک یہ چاند تارے جِھلمِلاتے جائیں گے
تب تلک جشنِ ولادت ہم مناتے جائیں گے
نعتِ محبوب خدا سُنتے سناتے جائیں گے
یا رسول اللہ نعرہ ہم لگا تے جائیں گے ۔
چار جانب ہم دیے گہی کے جلاتے جائیں گے
گھر تو گھر ہم سارے محلّے کو سجاتے جائیں گے
عید میلاد النبی کی شب چراغاں کر کے ہم
قبر، نور ِ مصطفٰے سے جگمگاتے جائیں گے
تم کرو جشنِ ولادت کی خوشی میں روشنی
وہ تمہاری گورِ تیرہ جگمگاتے جائیں گے
نیک عملاں تے مان ہے نیکو کاراں نوں
سرکار دابو ہا کافی اَوگن ہاراں نوں
گلی پاک حلیمہ دی سی ککھاں دی قدم رکھیا سرکار نے ہوگئی لکھاں دی
اَگ لاواں میں سارے محل چوباراں نوں سرکار دا بوہا کافی اَوگن ہاراں نوں
سرکار دا بوہا کافی اَوگن ہاراں نوں
جد سرکار دے شہر مدینے جاواں گا جالی پاک نوں رج رج سینے لاواں گا
لکھ لکھ تَر لے کرساں پہر ے داراں نوں سرکار دا بوہا کافی اَوگن ہاراں نوں
سرکار دا بوہا کافی اَوگن ہاراں نوں
در در جاون والے دھکے کھاون گے بے قدرے تے قدراں فیر نہ پاون گے
در دی توں سمجھالے اپنے یاراں نوں سرکار دا بوہا کافی اَوگن ہاراں نوں
سرکار دا بوہا کافی اَوگن ہاراں نوں
ہر بات اِک صحیفہ تھی امی رسول کی
الفا ظ تھے خدا کے ، زباں تھی رسول کی
وحدانیت کے پھول کھلے گرم ریت پر
دی سنگ بے زباں نے گواہی رسول کی
پرچم تھے نقش پاکے ، ستاروں کے ہاتھ میں
گزری جو کہکشاں سے ، سواری رسول کی
سیڑھی لگائے عرش خدا پر نبی کی یاد
چلتی ہے سانس ، تھام کے انگلی رسول کی
دیکھیں گے میرے سر کی طرف لو گ حشر میں
چمکے گی تاج بن کے غلامی رسول کی
پہلا قدم ازل ہے ، ابد آخری سفر
پھیلی ہے کائنات پہ ہستی رسول کی
کھلتے ہیں در کچھ اور مؔظفر شعور کے
کرتا ہوں جب میں بات خدا کی ، رسول کی
ہم خاک ہیں اور خاک ہی ماوا ہے ہمارا
خاکی تو وہ آدم جد اعلیٰ ہے ہمارا
اللہ ہمیں خاک کرے اپنی طلب میں
یہ خاک تو سرکار سے تمغا ہے ہمارا
جس خاک پہ رکھتے تھے قدم سید عالم
اس خاک پہ قرباں دلِ شیدا ہے ہمارا
خم ہو گئی پشتِ فلک اس طعنِ زمیں سے
سن ہم پہ مدینہ وہ رتبہ ہے ہمارا
اس نے لقبِ خاک شہنشاہ سے پایا
جو حیدرِ کرار کہ مَولےٰ ہے ہمارا
اے مدّعیو! خاک کو تم خاک نہ سمجھے
اس خاک میں مدفوں شہ بطحا ہے ہمارا
ہے خاک سے تعمیر مزارِ شہِ کونین
معمور اسی خاک سے قبلہ ہے ہمارا
ہم خاک اڑائیں گے جو وہ خاک نہ پائی
آباد رضا جس پہ مدینہ ہے ہمارا
ہم کو اپنی طلب سے سوا چاہیے
آپ جیسے ہیں ویسی عطا چاہیے
کیوں کہوں یہ عطا وہ عطا چاہیے؟
ان کو معلوم ہے ہم کو کیا چاہیے
اِک قدم بھی نہ ہم چل سکیں گے حضور !
ہر قدم پر کرم آپ کا چاہیے
عشق میں آپ کے ہم تڑپتے تو ہیں
ہر تڑپ میں بِاللی ادا چاہیے
اور کوئی بھی اپنی تمنا نہیں
ان کے پیاروں کی پیاری ادا چاہیے
اپنے قدموں کا دُھوَن عطا کیجئے
ہم مریضوں کو آبِ شفا چاہیے
در دِ جامی ملے، نعت خاؔلد لکھوں
اور اندازِ احمد رضا چاہیے
ہم کو بلانا یا رسول اللہ
ہم کو بلانا یا رسول اللہ
کبھی تو سبز گنبد کا اُجالا ہم بھی دیکھیں گے
ہمیں بلائیں گے آقا ، مدینہ ہم بھی دیکھیں گے
تڑپ اُٹھے گا یہ دل، یا دھڑکنا بھول جائیگا
دلِ بسمل کا اس در پر ، تماشہ ہم بھی دیکھیں گے
ادب سے ہاتھ باندھے ان کے روضہ پرکھڑے ہونگے
سنہری جالیوں کا یوں نظارا ، ہم بھی دیکھیں گے
درِ دولت سے لوٹایا نہیں جاتا کوئی خالی
وہاں خیرات کا بٹنا خدایا ہم بھی دیکھیں گے
گزارے رات دن اپنے اسی اُمید پر ہم نے
کسی دن کو جمالِ روزِ زیبا ہم بھی دیکھیں گے
دمِ رُخصت قدم من بھر کے ہی محسوس کرتے ہیں
کِسے ہے جا کے لوٹنے کا یارا ہم بھی دیکھیں گے !؟
ہمیں اپنا وہ کہتے ہیں ، محبت ہو تو ایسی ہو
ہمیں نظروں میں رکھتے ہیں عنایت ہو تو ایسی ہو
وہ پتھر مارنے والوں کو دیتے ہیں دُعا اکثر
لاؤ کوئی مثال ایسی، شرافت ہو تو ایسی ہو
اشارہ جب وہ فرمائے ، تو پتھ ر بول اُٹھےی ہیں
نبوت ہو تو ایسی ہو ، رِسالت ہو تو ایسی ہو
وہاں مجرم کو ملتی ہیں پنا ہیں بھی جزائیں بھی
مدینے میں جو ل گتی ہے عدالت ہو تو ایسی ہو
بنا دیتے ہیں سائل کو سکندر وہ زمانے کا
کریمی ہو تو ایسی ہو، سخاوت ہو تو ایسی ہو
محمدﷺ کی ولادت پر ہوئے سب کو عطا بیٹے
اِسے میلاد کہتے ہیں ، ولادت ہو تو ایسی ہو
زمین وآسماں والے بھی آتے ہیں غلامانہ
حقیقت ہے یہ ہی ناؔصرحکومت ہو تو ایسی ہو
ہو کرم سرکار اب تو ہو گئے ہیں غم بیشمار
جان و دل تم پر فیدا اۓ دہ جہاں کے تاجدار
میں اکیلا اور مسائل زندگی کے بیشمار
آپ ہی کچھ کیجیے نہ اے ٔ شاہ ِ عالی وقار
یاد عطا ہے طواف ِ خانہ ٔ کعبہ مجھے
اور لپٹنا ملتزم سے والہانہ بار بار
سنگ ِ اسود چوم کر ملتا مجھے کیف و سُرور
چین پاتا دیکھ کر دل مستجاب و متجار
گمبد ِ خضریٰ کے جلوے اور وہ افطاریاں
یاد آتیں ہیں رمضان ِ طیبہ کی بہار
یا رسول اللہ ﷺ سن لیجیے میری فریاد کو
کون ہے جو کہ سنے تیرے سوا میری پکار
غم زدہ یوں نہ ہوا ہوتا عبید قادری
اس برس بھی دیکھتا گر سبز گمبد کی بھار
ہوگئے ہیں دور سب رنج والم
جب ہوا سرکار کا مجھ پر کرم
ہے یقیں دربار میں اپنے مجھے
ایک دن بلوائیں گے شاہِ امم
ہے جسے نسبت میرے سرکار سے
پاس اُس کے کیوں بھلا آئینگے غم
بس یہی ہے التجا محشر کے دن
آپ رکھ لینا غلاموں کا بھر م
جل اُٹھیں گے آرزؤں کے دیے
جب درِ سرکار پہ جائیں گے ہم
آرزو اب ہے یہی میری معیؔن
اُن کے روضے پہ نکل جائے یہ دم
ہے ذکرِ سرورِ سدا جہاں میں رفیق
یہی رہا ہے ہر اِک مشکل امتحان میں رفیق
اگر حضور ﷺنہ ہوتے تو ہم غریبوں پر
نہ اِس جہاں میں کوئی تھا نہ اُس جہاں میں رفیق
ہمیں تو حشر میں خورشید نے بھی ٹھنڈک دی
کہ تھی رسول کی رحمت جو درمیاں میں رفیق
کہاں کہاں میرے آقا نے گھر بنایا تھا
رہے وہ بن کے ہر ایک قلب دشمنان میں رفیق
بھنور ہو ، مو ج ہو ، طوفاں ہو ، پھر بھی ذکرِ نبی
غم و الم کے رہا بحرِ بیکراں میں رفیق
بلند کیوں نہ ہو اشعار کا مِرے رتبہ
میرے سخن کے ہیں ، وہ کوچۂ زباں میں رفیق
ادیبؔ ، نعت کا ہر لفظ ہے دُرِّ نایاب
دُرِّ یتیم کا احسان ہے درمیاں میں رفیق
ہے یہ دل کی صدا یا نبی یا نبی
ہو عطا پر عطا یا نبی یانبی
جس گھڑی روح تن سے جدا ہو میری
ہو وظیفہ میرا یانبی یا نبی
آپ ہی بخشوائیں گے محشر کے دن
ہوں بھلا یا بُرا یا نبی یانبی
آئیں جس دم فِرِشتے میری قبر میں
ہو لبوں پہ ثنا یا نبی یا نبی
مصطفٰےﷺکا اگر چاہتے ہو کرم
مل کے کہہ دو ذرا یا نبی یا نبی
رَدّ کبھی نہ دعا ہو گی اس شخص کی
دے گا جو واسطہ یا نبی یا نبی
اس معینِ حزیں پہ کرم کیجیے
دَر گزر ہو خطا یا نبی یا نبی
وصفِ رُخ اُن کیا کرتے ہیں شرح والشمس و الضحٰے کرتے ہیں
اُن کی ہم مدح و ثنا کرتے ہیں جن کو محمود کہا کرتے ہیں
ماہِ شق گشتہ کی صورت دیکھو کا نپ کر مہر کی رجعت دیکھو
مصطفٰے پیارے کی قدرت دیکھو کیسے اعجاز ہوا کرتے ہیں
تو ہے خورشید رسالت پیارے چھپ گئے تیری ضیا ء میں تارے
انبیاء اور ہیں سب مہ پارے تجھ سے ہی نور لیا کرتے ہیں
اے بلا بیخردی کفّار رکھتے ہیں ایسے کے حق میں انکار
کہ گواہی ہو گر اُس کو دَر کا ر بے زباں بول اٹھا کر تے ہیں
اپنے مولٰی کی ہے بس شان عظیم جانور بھی کریں جن کی تعظیم
سنگ کرتے ہیں ادب سے تسلیم پیڑ سجدے میں گرا کرتے ہیں
رفعت ذکر ہے تیرا حِصّہ دونوں عالم میں ہے تیرا چرچا
مرغِ فردوس پس از حمدِ خدا تیری ہی مدح و ثنا کرتے ہیں
انگلیاں پائیں وہ پیاری جن سے دریائے کرم ہیں جاری
جوش پر آتی ہے جب غم خواری تشنے سیراب ہوا کرتے ہیں
ہاں یہیں کرتی ہیں چڑیاں فریاد ہاں یہیں چاہتی ہے ہرنی داد
اِسی در پر شترانِ ناشاد گلۂ رنج و عنا کرتے ہیں
آستیں رحمتِ عالم الٹے کمرِ پاک پہ دامن باندھے
گرنے والوں کو چَہ دوزخ سے صاف الگ کھینچ لیا کرتے ہیں
جب صبا آتی ہے طیبہ سے اِدھر کِھلکِھلا پڑتی ہیں کلیاں یکسر
پھول جامہ سے نِکل کر باہر رُخِ رنگیں کی ثنا کرتے ہیں
تو ہے وہ بادشہ کون و مکاں کہ ملک ہفت فلک کے ہر آں
تیرے مولٰی سے شہِ عرش ایواں تیر ی دولت کی د عا کرتے ہیں
جن کے جلوے سے اُحد ہے تاباں معدنِ نور ہے اس کا داماں
ہم بھی اس چاند پہ ہو کر قرباں دلِ سنگیں کی جِلا کرتے ہیں
کیوں نہ زیبا ہو تجھے تا جوری تیرے ہی دم کی ہے سب جلوہ گری
ملک و جنّ و بشر حور و پری جان سب تجھ پہ فدا کرتے ہیں
ٹوٹ پڑتی ہیں بلائیں جن پر جن کو ملتا نہیں کوئی یاور
ہر طرف سے وہ پُر ارماں پھر کر اُن کے دامن میں چھپا کرتے ہیں
لب پر آجاتا ہے جب نام جناب منہ میں گھل جاتا ہے شہدِ نا یاب
وجد میں ہو کے ہم اے جاں بیتاب اپنے لب چوم لیا کرتے ہیں
لب پہ کس منہ سے غمِ الفت لائیں کیا بلا دِل ہے الم جس کا سنائیں
ہم تو ان کے کفِ پا پر مٹ جائیں اُن کے دَر پر جو مٹا کرتے ہیں
اپنے دل کا ہے انہیں سے آرام سونپے ہیں اپنے انہیں کو سب کام
لو لگی ہے کہ اب اس دَر کے غلام چارۂ دردِ رضا کرتے ہیں
وَصَلَّ اللہ عَلٰی نورٍٍکز و شُد نورِ ہا پیدا
زمیں از حُبّ اُو ساکن، فلک در عشق اُو شیدا
از ودر ہر تنے ذوقے وزودر ہر دِلے شوقے
ازوبر ہر زباں ذکرے وز ودرہر سرِ سودا
محمد احمد و محمود وے را خالقش بستود
کزوشد بو د ہر موجود زوشد دیدہ ہا بینا
اگر نامِ محمد ﷺرا نیا وردِ شفیع آدم
نہ آدم یا فتے توبہ نہ نوح از غرق نجینا
نہ ایوب از بلاراحت نہ یوسف شوکت و حشمت
نہ عیسٰی آں مسیحا دم نہ موسیٰ آں ید بیضا
دو چشم نرگینش را کہ ماز اغ البصر خوانند
دو زلف عنبرینش رآلہ والیل اذا یغشٰی
زسرِّ سینہ اش جاؔمی الم نشرح لکَ برخواں
زمعرا جش چہ می پرسی کہ سبحان الذی اسریٰ
وطن میرا مدینہ ہے مجھے مت بے وطن کہنا
مجھے آواز جب دینا ، غلامِ پنجتن کہنا
دُعائیں پنجتن کے نام سے خالی نہیں جاتیں
نبی، خیرا لنساء ،شبیر، حیدر اور حسن کہنا
پیام آقا کو دے دینا صبا! سارے غلاموں کا
بہت تڑپا رہی ہے اب مدینے کی لگن کہنا
تمنا ہے فدا ہو جاؤں مکے اور مدینے پر
بندھے احرام جو میرے، اُسے میرا کفن کہنا
فضا !سورج کو سمجھانا یہی تو شہر ِ آقا ہے
مدینے میں ادب کے ساتھ اترے ہر کرن کہنا
کماؔل الفاظ جو آقا کی نعتوں میں سجائے ہیں
حسیں ہیں اس قدر سارے، انہیں لعل ِیمن کہنا
وہ سوئے لالہ زار پھرتے ہیں تیرے دن اے بہار پھرتے ہیں
جو ترے در سے یار پھر تے ہیں در بدر یوں ہی خوار پھرتے ہیں
آہ کل عیش تو کیے ہم نے آج وہ بے قرار پھرتے ہیں
ان کے ایما سے دونوں باگوں پر خیلِ لیل و نہار پھر تے ہیں
ہر چَراغ ِ مزار پر قدسی کیسے پروانہ وار پھرتے ہیں
اس گلی کا گدا ہوں میں جس میں مانگتے تاجدار پھرتے ہیں
جان ہیں جان کیا نظر آئے کیوں عَدو گردِ غار پھرتے ہیں
پھول کیا دیکھوں میری آنکھوں میں دشتِ طیبہ کے خار پھرتے ہیں
لاکھوں قدسی ہیں کام خدمت پر لاکھوں گردِ مزار پھرتے ہیں
وردیاں بولتے ہیں ہر کارے پہرہ دیتے سوار پھرتے ہیں
رکھیے جیسے ہیں خانہ زاد ہیں ہم مول کے عیب دار پھرتے ہیں
ہائے غافل وہ کیا جگہ ہے جہاں پانچ جاتے ہیں چار پھرتے ہیں
بائیں رستے نہ جا مسافِر سن مال ہے راہ مار پھرتے ہیں
جاگ سنسان بن ہے رات آئی گرگ بہرِ شکار پھرتے ہیں
نفس یہ کوئی چال ہے ظالم جیسے خاصے بِجار پھرتے ہیں
کوئی کیوں پوچھے تیری بات رضا
تجھ سے کتنے ہزار پھرتے ہیں
وہ کمال ِ حسنِ حضور ہے کہ گمانِ نقص جہاں نہیں
یہی پھول خار سے دور ہے یہی شمع ہے کہ دھوان نہیں
دو جہاں کی بہتریاں نہیں کہ امانی ِ ٔ دل وجاں نہیں
کہو کیا ہے وہ جو یہاں نہیں مگر اک نہیں کہ وہ ہاں نہیں
میں نثار تیرے کلام پر ملی یوں تو کِس کو زباں نہیں
وہ سخن ہے میں سخن نہ ہو وہ بیاں ہے جس کا بیاں نہیں
بخدا خدا کا یہی ہے در نہیں اور کوئی مفر مقرر
جو وہاں سے ہو یہیں آکے ہو جو یہاں نہیں تو وہاں نہیں
کرے مصطفٰے اہانتیں کھلے بندوں اس پہ یہ جرأتیں
کہ میں کیا نہیں ہوں محمدی ! ارے ہاں نہیں ارے ہاں نہیں
ترے آگے یوں ہیں دبے لچے فصحا عرب کے بڑے بڑے
کوئی جانے منھ میں زباں نہیں نہیں بلکہ جسم میں جاں نہیں
وہ شرف کہ قطع ہیں نسبتیں وہ کرم کہ سب سے قریب ہیں
کوئی کہدو یاس و امید سے وہ کہیں نہیں وہ کہاں نہیں
یہ نہیں کہ خُلد نہ ہو نِکو وہ نِکوئی کی بھی ہے آبرو
مگر اے مدینہ کی آرزو جسے چاہے تو وہ سماں نہیں
ہے انہیں کے نور سے سب عیاں ہے انہیں کے جلوہ میں سب نہاں
بنے صبح تابش مہر سے رہے پیش مہر یہ جاں نہیں
وہ ہی نورِ حق وہی ظلِّ رب ہے انہیں سے سب ہے انہی کا سب
نہیں ان کی مِلک میں آسماں کہ زمیں نہیں کہ زماں نہیں
وہی لامکاں کے مکیں ہوئے سرِ عرش تخت نشیں ہوئے
وہ نبی ہے جس کے ہیں یہ مکاں وہ خدا ہے جس کا مکاں نہیں
سرِ عرش پر ہے تِری گزر دلِ فرش پر ہے تِری نظر
ملکوت و ملک میں کوئی شے نہیں وہ جو تجھ پہ عیاں نہیں
کروں تیرے نام پہ جاں فدا نہ بس ایک جاں دو جہاں فدا
دو جہاں سے بھی نہیں جی بھرا کروں کیا کروروں جہاں نہیں
ترا قد تو نادرِ دہرے کوئی مِثل ہو تو مثال دے
نہیں گل کے پودوں میں ڈالیاں کہ چمن سر وچماں نہیں
نہیں جس کے رنگ کا دوسرا نہ تو ہو کوئی نہ کبھی ہوا
کہو اس کو گل کہے کیا بنی کہ گلوں کا ڈھیر کہاں نہیں
کروں مدح اہلِ دول رضا پڑے اِس بلا میں مِری بلا
میں گدا ہوں اپنے کریم کا مِرا دین پارۂ ناں نہیں
یا رسول اللہ ﷺ آکر دیکھ لو
یا مدینے میں بلا کر دیکھ لو
سینکڑوں کے دل منور کر دیے
اِس طرف بھی آنکھ اٹھا کر دیکھ لو
وہ کبھی انکار کرتے ہی نہیں
بے نواؤ! آزما کر دیکھ لو
چاہے جو مانگو عطافرمائیں گے
نامُرادو! ہاتھ اٹھا کر دیکھ لو
سیر ِجنّت دیکھنا چاہو اگر
روضۂ انور پہ آکر دیکھ لو
دو جہاں کی سرفرازی ہو نصیب
اُن کے آگے سر جھکا کر دیکھ لو
اُن کی رِفعت کا پتہ ملتا نہیں
مِہرو مَہ چکر لگا کر دیکھ لو
اِس جمیؔل قادری کو بھی حضور
اپنے در کا سگ بنا کر دیکھ لو
یاد ِمصطفٰے ایسی بس گئی ہے سینے میں
جسم ہو کہیں اپنا دل تو ہے مدینے میں
کون ہے یہ دیوانہ کس کا ہے یہ دیوانہ
حشر میں بھی کہتا ہے جا نا ہے مدینے میں
کون ہے تیرا رہبر، پوچھا تو خضر بولے
کالی کملی والے ہیں رہتے ہیں مدینے میں
میر ے کملی والے کا گھر تو ہے مدینے میں
ہاں مگر وہ رہتے ہیں عاشقوں کے سینے میں
کون سی جگہ اُن کے عاشقوں سے خالی ہے
ہر جگہ ہیں پروانے، شمع مدینے میں ہے
بعد میرے مرنے کے ہر زباں پہ چرچا تھا
آدمی تو اچھا تھا مر گیا مدینے میں
کاش اُن کے کوچےسے لائے یہ صبا لے پیغام
چل تجھے بلاتے ہیں، مصطفٰے مدینے میں
یاد میں جس کی نہیں ہوش تن وجاں ہم کو
پھر دکھادے وہ رخ اے مہر فروزاں ہم کو
دیر سے آپ میں آنا نہیں ملتا ہے ہمیں
کیا ہی خود رفتہ کیا جلوۂ جاناں ہم کو
جس تبسّم نے گلستاں پہ گرائی بجلی
پھر دکھادے وہ ادائے گلِ خنداں ہم کو
کاش آویزہ ٔ قندیل مدینہ ، ہو وہ دِل
جس کی سوزش نے کیا رشک چراغاں ہم کو
عرش جس خوبیِ رفتار کا پامال ہوا
دو قدم چل کے دکھا سردِ خراماں ہم کو
شمع طیبہ سے میں پروانہ رہوں کب تک دور
ہاں جلادے شررِ آتش پنہاں ہم کو
خوف ہے سمع خراشیِ سگِ طیبہ کا
ورنہ کیا یاد نہیں نالۂ وافغاں ہم کو
خاک ہو جائیں درِ پاک پہ حسرت مٹ جائے
یا الٰہی نہ پھر ا بے سرو سَاماں ہم کو
خارِ صحرائے مدینہ نہ نِکل جائے کہیں
وحشتِ دل نہ پھرا کوہ و بیاباں ہم کو
تنگ آئے ہیں دو عالم تری بیتابی سے
چین لینے دے تپِ سینۂ سوز اں ہم کو
پاؤں غربال ہوئے راہ مدینہ نہ ملی
اے جنوں اب تو ملے رخصتِ زنداں ہم کو
میرے ہر زخمِ جگر سے یہ نکلتی ہے صَدا
اے ملیح عربی کردے نمکداں ہم کو
سیر گلشن سے اسیرانِ قفس کو کیا کام
نہ دے تکلیفِ چمن بلبلِ چمن بلبلِ بستاں ہم کو
جب سے آنکھوں میں سمائی ہے مدینہ کی بہار
نظر آتے ہیں خزاں دیدہ گلستاں ہم کو
گر لب پاک سے اقرار شفاعت ہو جائے
یوں نہ بے چین رکھے جو شِش عصیاں ہم کو
نیر حشر نے اِک آگ لگا رکھی ہے !
تیز ہے دھوٗپ ملے سایۂ داماں ہم کو
رحم فرمائیے یا شاہ کہ اب تاب نہیں
تابکے خون رلائے غمِ ہجراں ہم کو
چاکِ داماں میں نہ تھک جائیو اے دستِ جنوں
پرزے کرنا ہے ابھی جیب و گریباں ہم کو
پَردہ اُس چہرۂ انور سے اٹھا کر اِک بار
اپنا آئینہ بنا اے مہِ تاباں ہم کو
اے رضا وصفِ رُخِ پاک سنانے کے لیے
تدر دیتے ہیں چمن مُرغ غزل خواں ہم کو
یاد وچ روندیاں نیں اکھیاں نماٹیاں
سد لو مدینے آقا کرو مہربانیاں
ساری کائنات دا خزینہ مل گیا اے
اللہ دی سوں جنہاں نوں مدینہ مل گیا اے
جالیاں دے کول بہہ کے اونہاں موجاں مانیاں
سدلو مدینے آقا کرو مہربانیاں
درد ے سُوالیاں نوں خیر جھولی پاوناں
گندیاں تے مَندیاں نوں سینے نال لاؤناں
ایہو لجپالاں دِیاں عادتاں پُرانیاں
سدلو مدینے آقا کرو مہربانیاں
ساڈا تے ظؔہوری ایہو دین تے ایمان اے
پیار کملی والے دا عبا دتاں دی جان اے
باقی سبھے گلّاں ایویں قصے تے کہانیاں
سدلو مدینے آقا کرو مہربانیاں
یادِ وطن سِتم کیا دشت ِ حرم سے لائی کیوں
بیٹھے بٹھائے بدنصیب سر پہ بلا اٹھائی کیوں
دل میں تو چوٹ تھی دبی ہائے غضب ابھر گئی
پوچھو تو آہِ سر د سے ٹھنڈی ہو اچلائی کیوں
چھوڑ کے اُس حرم کو آپ بن میں ٹھگوں کے آبسو
پھر کہو سر پہ دھر کے ہاتھ لٹ گئی سب کمائی کیوں
باغ عرب کا سروِ ناز دیکھ لیا ہے ورنہ آج
قمری ِ جانِ غمزدہ گونج کے چہچہائی کیوں
نامِ مدینہ لے دیا چلنے لگی نسیم ِ خلد
سوزشِ غم کو ہم نے بھی کیسی ہو ا بتائی کیوں
کِس کی نگاہ کی حیا پھرتی ہے میری آنکھ میں
نرگسِ مَست ناز نے مجھ سے نظر چرائی کیوں
تو نے تو کر دیا طبیب آتش ِ سینہ کا علاج
آج کے دودِ آہ میں بوئے کباب آئی کیوں
فکرِ معاش بد بلا ہو ل معاد جاں گزا
لاکھوں بلا میں پھنسنے کو رُوح بدن میں آئی کیوں
ہو نہ ہو آج کچھ مِرا ذکر حضور میں ہوا
ورنہ مِری طرف خوشی دیکھ کے مسکرائی کیوں
حور جناں ستم کیا طیبہ نظر میں پھر گیا
چھیڑ کے پَردہ ٔ حجاز دیس کی چیز گائی کیوں
غفلت ِ شیخ و شاب پر ہنستے ہیں طفل شیر خوار
کرنے کو گد گدی عبث آنے لگی بہائی کیوں
عرض کروں حضور سے دل کی تو میرے خیر ہے
پیٹتی سر کو آرزو دشتِ حَرم سے آئی کیوں
حسرتِ نو کا سانحہ سنتے ہی دل بگڑ گیا
ایسے مریض کو رضا مرگِ جواں سنائی کیوں
یادوں میں وہ شہرِ مدینہ منظر منظر آج بھی ہے
ایک زمانہ گذرا لیکن، رُوح معطّر آج بھی ہے
کوئی نظر خضریٰ سے اٹھ کر اس کے چہرے پر نہ گئی
یہ احساس ِ ندامت یارو چاند ے رُخ پر آج بھی ہے
مدحِ نبی کی نغمہ سرائی حمد و ثناء کی گُل پاشی
کَل بھی یہی تھا اپنا مقدر، اپنا مقدر آج بھی ہے
وہ دیدار کا موسم ، ساقی پیشِ نظر اور جامِ دید
برسوں بیت گئے اس رُت کو ہاتھ میں ساغر آج بھی ہے
عہد ِ ادیب اور مدحِ محمد کوئی آج کی بات نہیں
چودہ صدیوں سے یہ چرچا یونہی گھر گھر آج بھی ہے
یاں شبہ شبیہ کا گزرنا کیسا !
بے مثل کی تمثال سنور نا کیسا
ان کا متعَلق ہے ترقی پہ مُدام
تصویر کا پھر کہیے اترنا کیسا
یہ جو قرآن مبیں ہے، رَحۡمَۃً لِّلۡعٰلَمِیۡنَ
تیری عظمت کا امیں یا رَحۡمَۃً لِّلۡعٰلَمِیۡنَ
دل تو کہتا ہے کہ تیری شان کے شایاں ہو نعت
نطق کو یارا نہیں یارَحۡمَۃً لِّلۡعٰلَمِیۡنَ
تو حسینوں کا حسیں ہے تو جمیلوں کا جمیل ہے
تو امینوں کا امیں یا رَحۡمَۃً لِّلۡعٰلَمِیۡنَ
تیرا جلوۂ ، تیری خو ، تیرا تقدس ، تیری ذات
حاصلِ علم و یقیں یا رَحۡمَۃً لِّلۡعٰلَمِیۡنَ
فکر ِ دانش ہو کہ بزمِ آب و گِل کی وسعتیں
تیرا ثانی ہی نہیں یا رَحۡمَۃً لِّلۡعٰلَمِیۡنَ
یہ آروز و نہیں کہ دعائیں ہزار دو
پڑھ کے نبی کی نعت لحد میں اُتار دو
دیکھا ابھی ابھی ہے نظر نے جمالِ یار
اۓ موت! مجھ کو تھوڑی سی مہلت اُدھار دو
سنتے ہیں جاں کنی کا لمحہ ہے بہت کٹھن
لے کر نبی کا نام یہ لمحہ گزار دو
میرے کریم میں تِرے در کافقیر ہوں
اپنے کرم کی بھیک مجھے بار بار دو
گَر جیتنا ہے عشق میں لازم یہ شرط ہے
کھیلو اگر یہ بازی تو ہر چیز ہار دو !!!
یہ جان بھی ظؔہوری نبی کے طفیل ہے
اِس جان کو حُضور کا صدقہ اُتار دو !
یوں ترقی پر ہو یار ب !میری مستی ایک دن
یعنی دیکھوں خواب میں طیبہ کی بستی ایک دن
خاک طیبہ میں کہیں اۓ کاش !مل جائے یہ خاک
کام آ جائے مری ناکارہ ہستی ایک دن
یہ دلِ پژمردہ ہو جاتا شگفتہ بالیقیں
ابرِ رحمت کی اگر بدلی برستی ایک دن
چہرۂ انور دکھا دو خواب میں آکر مجھے
جان نکل جائے نہ صورت کو ترستی ایک دن
بحر عصیاں گو ہے طوفاں پر، نہیں مایوس دل
جنسِ رحمت پاہی لیں گے ان سے سستی ایک دن
محو ہو جاتے معاصی میرے نؔرّے سب کے سب
لطف و سُرور کی اگر بدلی برستی ایک دن